نئی دہلی، 21 ستمبر 2020، بہار کے گورنر جناب پھاگو چوہان جی، بہار کے وزیراعلی جناب نتیش کمار جی، مرکزی کابینہ کے میری ساتھی جناب روی شنکر پرساد جی، جناب وی کے سنگھ جی جناب آر کے سنگھ جی، بہار کے نائب وزیراعلی بھائی سشیل جی، دیگر وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو!
آج بہار کی ترقی کے سفر کا ایک اور اہم دن ہے۔اب سے کچھ دیر پہلے بہار میں کنکٹی وٹی کو بڑھانے والے 9 پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ ان پروجیکٹوں میں ہائی وے کو چار لین اور چھ لین کا بنانے اور دریاؤں پر تین بڑے پلوں کی تعمیر کا کام شامل ہے۔ ان پروجیکٹوں کے لئے بہار کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو، آج کا دن بہار کے لئے تو اہم ہے ہی، یہ پورے ملک کے لئے بھی بہت بڑا دن ہے۔ نوجوان بھارت کے لئے بھی بہت بڑا دن ہے۔ آج بھارت اپنے گاؤوں کو خود کفیل بھارت کی بنیاد بنانے کے لئے بھی ایک بڑا قدم اٹھا رہا ہے اور خوشی یہ ہے کہ پروگرام پورے ملک میں ہے لیکن اس کی شروعات آج بہار سے ہی ہورہی ہے۔اس منصوبے کے تحت ایک ہزار دنوں میں ملک کے 6 لاکھ گاؤوں کو آپٹیکل فائبر سے جوڑا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ نتیش جی کی اچھی حکمرانی میں پختہ عزم کے ساتھ آگے بڑھنے والے بہار میں اس منصوبے پر بھی تیزی سے کام ہوگا۔
ساتھیو، بھارت کے گاؤوں میں انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کی تعداد کبھی شہری لوگوں سے زیادہ ہوجائے گی، یہ کچھ سال پہلے تک سوچنا بھی مشکل تھا۔ گاؤں کی خواتین ، کسان اور گاؤں کے نوجوان بھی اتنی آسانی سے انٹرنیٹ استعمال کریں گے،اس پر بھی بہت لوگ سوال اٹھاتے تھے۔ لیکن اب یہ پوری صورتحال تبدیل ہوچکی ہے۔ آج بھارت ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کرنے والے دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ اگست کے ہی اعدا د و شمار کو دیکھیں تو اس دوران تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے کا لین دین یو پی آئی کے ذریعہ ہوا ہے، موبائل فون کے ذریعہ ہوا ہے۔ کورونا کے اس دور میں ڈیجیٹل بھارت ابھیا ن نے ملک کے عوام کی بہت مدد کی ہے۔
ساتھیو، انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اب یہ بھی ضروری ہے کہ ملک کے گاؤں میں اچھی کوالٹی اور تیز رفتار والا انٹرنیٹ بھی ہو۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے ملک کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ پنچایتوں تک آپٹیکل فائبر پہلے ہی پہنچ چکا ہے۔ یہی نہیں گزشتہ 6 سال میں ملک بھر میں تین لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر بھی آن لائن جوڑے گئے ہیں۔ اب یہی کنکٹی وٹی ملک کے ہر گاؤں تک پہنچانے کے مقصد کے ساتھ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ جب گاؤں گاؤں میں تیز انٹرنیٹ پہنچے گا، تو گاؤں میں تعلیم کی آسانی ہوگی، گاؤں کے بچے ہمارے دیہی نواجوان بھی ایک کلک پر دنیا کی کتابوں تک ، تکنیک تک آسانی سے پہنچ پائیں گے۔ یہی نہیں ٹیلی میڈیسن کے ذریعہ اب دور دراز کے گاؤں میں بھی سستا اور موثر علاج غریب کو گھر بیٹھے ہی دلانا ممکن ہوپائے گا۔
آپ کو معلوم ہے کہ پہلے اگر ریلوے میں ریزرویشن کرنا ہوتا تھا تو گاؤں سے شہر جانا پڑتا تھا، قطار میں کھڑا رہنا ہوتا تھا اور ریلوے کے ریزرویشن کے لئے ہمیں جانا پڑتا تھا۔آج کامن سروس میں جاکر اپنے ہی گاؤں میں آپ ریلوے کا ریزرویشن کرا سکتے ہیں۔ کہیں اور جانا ہے تو اس کا ریزرویشن آسانی سے کراسکتے ہیں، کیونکہ انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ ہمارے کسانوں کو تو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے کسانوں کو کھیتی سے متعلق ہر ایک جدید تکنیکی، نئی فصلوں، نئے بیجوں، نئے طور طریقوں اور بدلتے موسم کی معلومات ریئل ٹائم میں ملنی ممکن ہوپائےگی۔ یہی نہیں اپنی پیداوار کے بیوپار۔ کاروبار کو پورے ملک اور دنیا میں پہنچانے میں بھی ان کو زیادہ آسانی ہوگی۔ ایک طرح سے گاؤں کو اب شہروں کی طرح ہر سہولت گھر بیٹھے ملے، اس کے لئے ضروری بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جارہا ہے۔
ساتھیو، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں اسی ملک نے سب سے تیز ترقی کی ہے ، جس نے اپنے بنیادی ڈھانچے میں سنجیدگی سے سرمایہ کاری کی ہے۔لیکن بھار میں دہائیوں تک ایسا رہا کہ بنیادی ڈھانچے کی بڑی اور جامع تبدیلیاں لانے والے پروجیکٹوں پر اس قدر توجہ نہیں دی گئی۔ بہار کو تو اس کے برے نتائج بہت زیادہ برداشت کرنے پڑے ۔ ساتھیو، یہ اٹل جی کی حکومت تھی سب سے پہلے، جس نے بنیادی ڈھانچے کو سیاست کی ترقی کے منصوبوں کی بنیاد بنایا تھا۔نتیش جی تو اس وقت ان کی سرکار میں ریلوے کے وزیر تھے، انہیں اس کا اور زیادہ تجربہ ہے۔ انہوں نے حکمرانی میں اس تبدیلی کو اور قریب سے دیکھا ہے۔
ساتھیو، بنیادی ڈھانچے سے جڑے پروجیکٹوں پر اب جس پیمانے پر کام ہورہا ہے، جس رفتار سے کام ہورہا ہے، وہ بے مثال ہے۔ 2014 سے پہلے کے مقابلے میں آج ہر روز دوگنی سے بھی تیز رفتار سے ہائی وے بنائے جارہے ہیں۔ ہائی وے کی تعمیر پر ہونے والے خرچ میں بھی 2014 سے پہلے کے مقابلے میں ، تقریباً پانچ گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ آنے والے چار پانچ برسوں میں بنیادی ڈھانچے پر 110 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کا نشانہ رکھا گیا ہے۔ اس میں سے بھی 19 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹ صرف ہائی وے سے متعلق ہیں۔
ساتھیو، سڑک اور کنکٹی وٹی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی توسیع کرنے کی کوششوں کا بہار کوبھی بھرپور فائدہ ہورہا ہے، مشرقی بھارت پر میری خصوصی توجہ ہے۔ 2015 میں پی ایم پیکج کے تحت 3 ہزار کلومیٹر سے زیادہ کے نیشنل ہائی وے پروجیکٹوں کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت بھی تقریباً ساڑھے چھ سو کلومیٹر قومی شاہراہ تعمیر کی جارہی ہے۔ آج بہار میں نیشنل ہائی وے گرڈ کو رفتار دی جارہی ہے۔ مشرقی اور مغربی بہار کو جوڑنے کے لئے فور لیننگ کے 5 پروجیکٹوں، شمالی بھارت کو جنوبی بھارت سے جوڑنے کےلئے چھ پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ آج بھی ہائی وے کو چوڑا کرنے کے جن پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، ان سے بہار کے تمام بڑے شہریوں کا سڑک رابطہ اور مضبوط ہوگا۔
ساتھیو، بہار کی کنکٹی وٹی میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑے دریاؤں کی وجہ سے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پی ایم پیکج کا اعلان ہورہا تھا تو پلوں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ پی ایم پیکج کے تحت گنگا جی کے اوپر کل 17 پل بنائے جارہے ہیں اور ابھی سشیل جی نے بڑی تفصیل سے اس کا بڑا خاکہ آپ کے سامنے رکھا اور جس میں سے زیادہ تر پورے ہوچکے ہیں۔ اسی طرح گنڈک اور کوسی دریاؤں پر بھی پلوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔ اسی سلسلے میں آج چار لین کے تین نئے پلوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس میں سے دو پل گنگا جی پر اور ایک پُل دریائے کوسی پر بننے والا ہے۔ ان کے بننے پر گنگا جی اور کوسی دریا پر چار لین کے پلوں کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔
ساتھیو، بہار کی لائف لائن کے طور پر مشہور مہاتما گاندھی سیتو، اس کے حال بھی ہم نے دیکھے ہیں، بدحالی بھی دیکھی ہے، مصیبت بھی دیکھی ہے، آج نئے رنگ روپ میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور مستقبل کی ضرورتوں کے پیش نظر اب مہاتما گاندھی سیتو کے متوازی چار لین کا ایک نیا پل بنایا جارہا ہے۔ نئے پل کے ساتھ 8 لین کا ’اپروچ روڈ‘ بھی ہوگا۔ اسی طرح دریائے گنگا پر بھی وکرم شلا سیتو کے متوازی بننے والے نئے پل اور دریائے کوسی پر بننے والے پل سے بہار کی کنکٹی وٹی مزید بہتر ہوگی۔
ساتھیو، کنکٹی وٹی ایک ایسا موضوع ہے، جسے ٹکڑوں میں سوچنے کے بجائے سالمیت میں سوچنا ہوتا ہے۔ ایک پل یہاں بن گیا، ایک سڑک وہاں بن گئی، ایک ریل روٹ ادھر بنادیا ، ایک ریلوے اسٹیشن ادھر بنادیا، اس طرح کے نظریئے نے ملک کا بہت نقصان کیا ہے۔ پہلے سڑکوں کا، ہائی وے کا ریل نیٹ ورک سے کوئی واسطہ نہیں رہتا تھا، ریل کا پورٹ سے اور پورٹ کا ایئر پورٹ سے بھی کم ہی ناطہ رہتا تھا۔ اکسویں صدی کا بھارت، 21 ویں صدی کا بہار اب ان تمام خامیوں کوپیچھے چھوڑکر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملک میں ملٹی موڈل کنکٹی وٹی پر زور دیا جارہا ہے۔ اب ہائی وے اس طرح بن رہے ہیں کہ وہ ریل روٹ کو، ایئر روٹ کو سپورٹ کریں۔ ریل روٹ اس طرح بن رہے ہیں کہ وہ پورٹ سے انٹر۔ کنکٹیڈ ہوں، یعنی سوچ یہ ہے کہ آمد و رفت کا ایک ذریعہ دوسرے ذریعہ کو سپورٹ کرے۔ اس سے لاجسٹکس کو لیکر بھارت میں جو مسائل رہے ہیں، وہ بھی بہت حد تک دور ہوجائیں گے۔
ساتھیو، بنیادی ڈھانچے کی ترقی سے سب سے زیادہ فائدہ معاشرے کے سب سے کمزور طبقے کو ہوتا ہے، غریب کو ہوتا ہے، اس سے ہمارے کسانوں کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کسانوں کو اچھی سڑکیں ملنےسے دریاؤں پر پل بننے سے، کھیت اور شہریوں کےبازار کی دوری کم ہوجاتی ہے۔ ساتھیو، کل ملک کی پارلیمنٹ نے ملک کے کسانوں کو نئے اختیارات دینے والے بہت ہی تاریخی نوعیت کے قوانین کو منظور کیا ہے۔ میں آج جب بہار کے لوگوں سے بات کررہا ہوں، اس وقت پورے ہندوستان کے کسانوں کو بھی اور بھارت کے روشن مستقبل کےلئے جو پرامید لوگ ہیں، ان سب کے لئے بھی ملک کے کسانوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ یہ اصلاحات اکیسویں صدی کے بھارت کی ضرورت ہیں۔
ساتھیو، ہمارے ملک میں اب تک پیداوار اور فروخت کا جو نظام چلا آرہا تھا، جو قانون تھے، اس نے کسانوں کے ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے تھے۔ ان قوانین کی آڑ میں ملک میں ایسے طاقتور گروہ پیدا ہوگئے تھے، جو کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا رہے تھے، آخر یہ کب تک چلتا رہتا۔ اس لئے اس نظام میں تبدیلی لانا ضروری تھا اور یہ تبدیلی ہماری سرکار نے لاکر دکھائی ہے۔ نئی زراعتی اصلاحات نے ملک کے ہر کسان کو یہ آزادی دے دی ہے کہ وہ کسی کو بھی ، کہیں پر بھی اپنی فصل اپنے پھل سبزیاں اپنی شرطوں پر فروخت کرسکتا ہے۔ اب اسے اپنے علاقے کی منڈی کے علاوہ بھی کئی مزید متبادل مل گئے ہیں، اب اگر اسے منڈی میں زیادہ فائدہ ملے گا، تو وہاں منڈی میں جاکر اپنی فصل فروخت کرے گا۔ منڈی کے علاوہ کہیں اور سے پیسہ ملتا ہے ، فائدہ ملتا ہے تو وہاں جاکر فروخت کرے گا۔ اس کو تمام بندشوں سے آزادی دلانے کی وجہ سے یہ ممکن ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر اس سے فرق کیا پڑے گا؟ آخر اس سے کسان کو کیا فائڈہ ہوگا؟ آخر یہ فیصلہ کس طرح کسانوں کی معاشی صورتحال کو بدلنے میں بہت مدد گار ثابت ہوگا؟ ان سوالوں کا جواب بھی اب گراؤنڈ رپورٹ سے ہی مل رہا ہے۔
کسانوں کو ملنے والی اس آزادی کے کئی فائدہ نظر آنے شروع بھی ہوگئے ہیں کیونکہ اس کا آرڈیننس کچھ ماہ قبل نکالا گیا تھا۔ ایسی ریاستیں جہاں پر آلو بہت ہوتا ہے، وہاں سے اطلاع ملی ہے کہ جون جولائی کے دوران تھوک خریداروں میں کسانوں کو زیادہ قیمت دیکر براہ راست کولڈ اسٹوریج سے ہی آلو خرید لیا ہے۔ باہر کسانوں کو آلو کے زیادہ دام ملے تو اس کی وجہ سے جو کسان منڈیوں آلو لیکر پہنچے تھے، آخر دباؤ میں آنے کی وجہ سے باہر بڑی اونچی مارکیٹ ہونے کے باعث منڈی کے لوگوں کو بھی کسانوں کو زیادہ دام دینے پڑے، انہیں بھی زیادہ قیمت ملی۔ اسی طرح مدھیہ پردیش اور راجستھان سے رپورٹیں ہیں کہ وہاں پر تیل ملوں نے کسانوں کو براہ راست 20 سے 30 فیصد زیادہ دیکر سرسوں خریدی ہے۔ مدھیہ پردیش، اترپردیش، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال جیسی ریاستوں میں دالیں بہت ہوتی ہیں۔ ان ریاستوں میں پچھلےسال کے مقابلے میں 15 سے 25 فیصد تک زیادہ قیمت براہ راست کسانوں کو ملی ہے۔ دال ملوں نے وہاں بھی سیدھے کسانوں سے خریداری کی ہے۔ براہ راست انہیں کو ادائیگی کی ہے۔
اب ملک اندازہ لگا سکتا ہے کہ اچانک کچھ لوگوں کو جو دقت ہونی شروع ہوئی ہے وہ کیوں ہورہی ہے۔ کئی جگہ اب یہ بھی سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اب کرشی منڈیوں کا کیا ہوگا؟ کیا کرشی منڈیاں بند ہوجائیں گی؟ کیا وہاں پر خریداری بند ہوجائے گی؟ جی نہیں ایسا قطعی نہیں ہوگا اور میں یہاں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ قانون، یہ تبدیلی کرشی منڈیوں کے خلاف نہیں ہے، کرشی منڈیوں میں جیسے کام پہلے ہوتا تھا ویسے ہی اب بھی ہوگا بلکہ یہ ہماری ہی این ڈی اے حکومت ہے جس نے ملک کی کرشی منڈیوں کو جدید بنانے کے لئے مسلسل کام کیا ہے۔ کرشی منڈیوں کے دفاتر کو ٹھیک کرنے کے لئے وہاں کا کمپیوٹرائزیشن کرانے کے لئے گزشتہ 5، 6 سال سے ملک میں بہت بڑی مہم چلائی جارہی ہے۔ اس لئے جو یہ کہتا ہے کہ نئی زرعی اصلاحات کے بعد کرشی منڈیاں ختم ہوجائیں گی تو وہ کسانوں سے سراسر جھوٹ بول رہا ہے۔
ساتھیو، بہت پرانی کہاوت ہے کہ تنظیم میں طاقت ہوتی ہے۔ زرعی اصلاح سے متعلق دوسرا قانون اسی سے تعلق رکھتا ہے ۔ آج یہاں ہمارے یہاں 85 فیصد سے زیادہ کسان ایسے ہیں جو بہت تھوڑی سی زمین ان کے پاس ہے، کسی کے پاس ایک ایکڑ، کسی کے پاس دو ایکڑ، کسی کے پاس ایک ہیکٹیئر، کسی کے پاس دو ہیکٹیئر ، سب چھوٹے کسان ہیں۔ چھوٹی سے زمین پر کھیتی کرکے اپنا گزارا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے اور انہیں اپنی تھوڑی سی پیداوار فروخت کرنے پر صحیح قیمت بھی نہیں ملتی ہے۔ لیکن جب کسی علاقے کے ایسے کسان اگر ایک تنظیم بناکر یہی کام کرتے ہیں، تو ان کے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور صحیح قیمت بھی یقینی ہوتی ہے۔ باہر سے آنے والے خریدار ان تنظموں سے بقاعدہ سمجھوتہ کرکے براہ راست ان کی پیداوار خرید سکتے ہیں۔ ایسے میں کسانوں کے مفاد کی حفاظت کے لئے دوسرا قانون بنایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جہاں کسان کے اوپر کوئی بندش نہیں ہوگی۔ کسان کے کھیت کی حفاظت ، اس کی زمین کی ملکیت کی حفاظت ، کسان کو اچھے بیج ، کسانوں کو اچھی کھاد، سبھی ذمہ داری جو کسان کے ساتھ کنٹریکٹ کرے گا، اس خریدار کی ہوگی۔ کسان سے جو سمجھوتہ کرے گا ،اس سمجھوتہ کرنے والے کی ہوگی۔
ساتھیو، ان اصلاحات سے زراعت میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، کسانوں کو جدید ٹکنالوجی ملے گی ، کسانوں کی پیداوار اور آسانی سے بین الاقوامی بازا ر میں پہنچے گی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہاں بہار میں حال ہی میں 5 زرعی پیداوار کی تنظیموں نے مل کر چاول فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت چار ہزار ٹن دھان وہ کمپنی بہار کے ان ایف پی اوز سے خریدے گی۔ اب ان ایف پی اوز سے تعلق رکھنے والے کسانوں کو منڈی نہیں جانا پڑے گا، ان کی پیداوار اب براہ راست قومی بین الاقوامی بازار میں پہنچے گی۔ ظاہر ہے کہ ان اصلاحات کے بعد زراعت سے متعلق بہت ساری چھوٹی بڑی صنعتوں کے لئے بہت بڑا راستہ کھلے گا۔ دیہی صنعتوں کی جانب ملک آگے بڑھے گا۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں، مان لیجئے کوئی نوجوان زرعی شعبے میں کوئی اسٹار اپ شروع کرنا چاہتا ہے، وہ چپس کی فیکٹری ہی کھولنا چاہتا ہے۔ ابھی تک زیادہ تر جگہوں پر ہوتا یہ تھا کہ پہلے اسے منڈی میں جاکر آلو خریدنے ہوتے تھے، پھر وہ اپنا کام شروع کر پاتا تھا، لیکن اب وہ نوجوان جو نئے نئے خواب لیکر آیا ہے، اب براہ راست کسان کے پاس جاکر اس سے آلو کےلئے سمجھوتہ کرسکے گا۔ وہ کسان کو بتائے گا کہ مجھے اس کوالٹی کا آلو چائے، اتنا آلو چاہیئے۔وہ کسان کو اچھی کوالٹی کے آلو پیدا کرنے میں ہر طرح کی تکنیکی مدد بھی کرے گا۔
ساتھیو، اس طرح کے سمجھوتوں کا ایک اور پہلو ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں ڈیری ہوتی ہے، وہاں آس پاس کے مویشی پالنے والوں کو دودھ فروخت کرنے میں آسانی تو ہوتی ہے۔ ڈیریاں بھی مویشی پروری کرنے والوں کا ان کے مویشیوں کا خیال رکھتی ہیں۔ مویشیوں کو صحیح وقت پر ٹیکہ لگایا جائے ، ان کے لئے صحیح طرح کے شیڈ بنیں، مویشیوں کو اچھا چارہ ملے، مویشی بیمار ہوجائیں تو ان کا ڈاکٹر پہنچ جائے اور میں تو گجرات میں رہا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ڈیری کیسے مویشیوں کو سنبھالتی ہے۔ بڑی ڈیری دودھ پیدا کرنے والوں تک جاکر ان کی مدد کرتی ہے اور ان سب کے بعد ہی یہ اہم بات ہے کہ یہ جو دودھ خریدنے کا کام ہے یہ تو ڈیری کرلیتی ہے لیکن مویشی کا مالک مویشی پروری کرنے والا یا کسان ہی رہتا ہے۔ مویشی کا مالک کوئی اور نہیں بنتا ہے۔ ویسے ہی زمین کا مالک کسان ہی رہے گا۔ ایسی ہی تبدیلی اب زراعت میں بھی ہونے کا راستہ کھل گیا ہے۔
ساتھیو، یہ بھی جگ ظاہر رہا ہے کہ زراعت کا کاروبار کرنے والے ہمارے ساتھیوں کے سامنے ضروری اشیائے صارفین کے قانون کے کچھ ضابطے ہمیشہ آڑے آتے رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے وقت میں اس میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ دالیں ، آلو ، کھانے کا تیل ، پیاز جیسی چیزیں اب قانون کے دائرے سے باہر کردی گئی ہیں۔ اب ملک کے کسان بڑے بڑے اسٹور ہاؤس میں کولڈ اسٹوریج میں ان کا آسانی سے ذخیرہ کرپائیں گے۔ جب ذخیرے سے متعلق قانونی مشکلات دور ہوں گی تو ہمارے ملک میں کولڈ اسٹوریج کے نیٹ ورک کی مزید ترقی اور توسیع ہوگی۔
ساتھیو، زراعت کے شعبے میں ان تاریخی تبدیلیوں کے بعد نظام میں اتنی بڑی تبدیلی کے بعد کچھ لوگوں کو اپنے ہاتھ سے کنٹرول جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لئے اب یہ لوگ ایم ایس پی پر کسانوں کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو برسوں تک ایم ایس پی پر سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشوں کو اپنے پیروں کے نیچے دباکر بیٹھے رہے۔ میں ملک کے ہر ایک کسان کو اس بات کا بھروسہ دیتا ہوں کہ ایم ایس پی کا نظام جیسے پہلے چلا آرہا تھا، ویسے ہی چلتا رہے گا۔ اسی طرح ہر سیزن میں سرکاری خریداری کے لئے جس طرح مہم چلائی جاتی ہے وہ بھی پہلے کی طرح چلتی رہے گی۔
ساتھیو، کسانوں کو ایم ایس پی دینے اور سرکاری خریداری کے لئے جتنا کام ہماری حکومت نے کیا ہے، وہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ گزشتہ پانچ سال میں جتنی سرکاری خریداری ہوئی ہے، اور 2014 سے پہلے کے پانچ سال میں جتنی سرکاری خریداری ہوئی ہے، اس کے اعداد و شمار دیکھیں گے تو کون سچ بول رہا ہے ، کون کسانوں کے لئے کام کررہا ہے، کون کسانوں کی بہبود کے لئے کام کررہا ہے، اس کی گواہی وہیں سے مل جائے گی۔ میں اگر دلہن اور تلہن کی ہی بات کروں، تو پہلے کے مقابلے میں دلہن اور تلہن کی سرکاری خریدی تقریباً 24 گنا زیادہ کی گئی ہے۔ اس سال کورونا انفیکشن کے دوران بھی ربیع سیزن میں کسانوں سے گیہوں کی ریکارڈ خریداری کی گئی ہے۔ اس سال ربیع میں گیہوں دھان، دلہن اور تلہن کو ملاکر کسانوں کو ایک لاکھ 13 ہزار کروڑ روپے ایم ایس پی پر دیا گیا ہے۔ یہ رقم بھی گزشتہ سال کے مقابلے 30 فیصد سے زیادہ ہے یعنی کورونا کے دور میں نہ صرف ریکارڈ سرکاری خریداری ہوئی بلکہ کسانوں کو ریکارڈ ادائیگی بھی کی گئی ہے۔
ساتھیو، اکیسویں صدی کے بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے کسانوں کے لئے جدید سوچ کے ساتھ نئے نظام تیار کرے۔ ملک کے کسان کو، ملک کی زراعت کو خود کفیل بنانے کے لئے ہمارے کوششیں مسلسل جاری رہیں گی اور اس میں یقینی طور پر کنکٹی وٹی کا بڑا رول تو ہے ہی۔ آخر میں ایک بار پھر کنکٹی وٹی کے تمام پروجیکٹوں کے لئے بہار کو ، ملک کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور میں پھر ایک بار وہی اپیل کروں گا کہ ہمیں کورونا سے لڑائی لڑتے رہنا ہے، ہمیں کورونا کو شکست دینی ہے، ہمیں اپنے خاندان کے لوگوں کو کورونا سے بچانا ہے اورا سکے لئے جو اصول تیار کئے گئے ہیں اس پر ہم سب کو عمل کرنا ہے۔ کوئی ایک اس میں چھوٹ جاتا ہے تو پھر معاملہ گڑبڑ ہوجاتا ہے۔ ہم سب کو عمل کرنا ہے۔ میں پھر ایک بار اپنے بہار کے پیارے بھائیو، بہنو کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
نمسکار!