شری وٹھلای نمہ
نمو سد گرو، تُکیا گیان دیپا۔ نمو سد گرو، سچدانند روپا۔ نمو سد گرو، بھکت کلیان مورتی۔ نمو سد گرو، بھاسکرا پورن کیرتی۔ مستک ہے پایاوری۔ یا وارکری سنتانچیا۔ مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ جناب اجیت پوار جی، اپوزیشن لیڈر جناب دیوندر پھڈنویس جی، سابق وزیر جناب چندر کانت پاٹل جی، وارکری سنت جناب مرلی بابا کوریکر جی، جگت گرو شری سنت تُکا رام مہاراج سنستھان کے چیئر مین نتن مورے جی، آدھیاتمک اگھاڑی کے صدر آچاریہ جناب توشار بھوسلے جی، یہاں موجود سنت لوگ، خواتین و حضرات،
بھگوان وٹھل اور تمام وارکری سنتوں کے چرنوں میں میرا کوٹی کوٹی وندن! ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے کہ انسان کے طور پر جنم میں سب سے نایاب سنتوں کی صحبت ہے۔ سنتوں کی نظر کرم ہو گئی، تو ایشور کا نظر کرم اپنے آپ ہو جاتا ہے۔ آج دیہو کی اس مقدس تیرتھ بھومی پر مجھے یہاں آنے کا فخر حاصل ہوا۔ اور میں بھی یہاں وہی محسوس کر رہا ہوں۔ دیہو، سنت شرومنی جگت گرو تُکا رام جی کی جائے پیدائش بھی ہے، میدان عمل بھی ہے۔ دھنیہ دیہو گاؤں، پونیہ بھومی ٹھاو۔ تیتھے ناندے دیو پانڈورنگ۔ دھیہ چھیترواسی لوک تے دیواچے۔ اُچّاریتی واچے، نام گھوش۔ دیہو میں بھگوان پانڈو رنگ کی ہمیشہ رہائش بھی ہے، اور یہاں کا ہر آدمی خود بھی بھکتی سے سرابور سنت جیسا ہی ہے۔ اسی جذبے سے میں دیہو کے تمام باشندوں کو، میری ماتاؤں-بہنوں کو نہایت ادب و احترام سے نمن کرتا ہوں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی مجھے پالکھی مارگ میں دو قومی شاہراہوں کو فور لین کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا تھا۔ شری سنت گیانیشور مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر پانچ مراحل میں ہوگی اور سنت تُکا رام مہاراج پالکھی مارگ کی تعمیر تین مراحل میں پوری کی جائے گی۔ ان تمام مراحل میں 350 کلومیٹر سے زیادہ لمبائی کے ہائی وے بنیں گے اور اس پر 11 ہزار کروڑ روپے سے بھی زیادہ کا خرچ کیا جائے گا۔ ان کوششوں سے علاقے کی ترقی کو بھی رفتار ملے گی۔ آج، خوش قسمتی سے مقدس شلا مندر کے افتتاح کے لیے مجھے دیہو میں آنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جس شلا پر خود سنت تکا رام جی نے 13 دنوں تک تپسیا کی ہو، جو شلا سنت تکا رام جی کے علم اور بیراگ کا گواہ بنی ہو، میں مانتا ہوں کہ، وہ صرف شلا نہیں وہ تو بھکتی اور علم کی آدھار شلا (بنیاد) جیسی ہے۔ دیہو کاشلا مندر نہ صرف بھکتی کی شکتی (طاقت) کا ایک مرکز ہے، بلکہ بھارت کے ثقافتی مستقبل کو بھی ہموار کرتا ہے۔ اس مقدس مقام کی از سر نو تعمیر کرنے کے لیے میں مندر ٹرسٹ اور تمام بھکتوں کا تہ دل سے استقبال کرتا ہوں، شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جگت گرو سنت تکا رام جی کے قول کو جنہوں نے جمع کیا تھا، ان سنتا جی مہاراج جگناڈے جی، ان کا مقام سدومبرے بھی پاس میں ہی ہے۔ میں ان کو بھی نمن کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
اس وقت ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم دنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیبوں میں سے ایک ہیں۔ اس کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے، تو وہ بھارت کی سنت روایت کو جاتا ہے، بھارت کے رشیوں منیشیوں کو جاتا ہے۔ بھارت شاشوت ہے، کیوں کہ بھارت سنتوں کی سرزمین ہے۔ ہر زمانے میں ہمارے یہاں، ملک اور سماج کو راہ دکھانے کے لیے کوئی نہ کوئی عظیم روح اوتار کی شکل میں آتی رہی ہے۔ آج ملک سنت کبیر داس کی جینتی منا رہا ہے۔ یہ سنت گیانیشور مہاراج، سنت نیورتی ناتھ مہاراج، سنت سوپان دیو اور بہن آدی شکتی مکتا بائی جیسے سنتوں کی سمادھی کا 725واں سال بھی ہے۔ ایسی عظیم شخصیات نے ہماری شاشوتا کو محفوظ رکھ کر بھارت کو متحرک بنائے رکھا۔ سنت تکا رام جی کو تو سنت بہنا بائی نے سنتوں کے مندر کا کلش کہا ہے۔ انہوں نے پریشانیوں اور مشکلوں سے بھری زندگی بسر کی۔ اپنے دور میں انہوں نے قحط جیسے حالات کا سامنا کیا۔ دنیا میں انہوں نے بھوک دیکھی، بھوک سے موت دیکھی۔ دکھ اور درد کے ایسے چکر میں جب لوگ امید چھوڑ دیتے ہیں، تب سنت تکا رام جی سماج ہی نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے بھی امید کی کرن بن کر ابھرے! انہوں نے اپنے خاندان کی جائیداد کو لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ یہ شلا ان کی اسی قربانی اور ویراگیہ کی گواہ ہے۔
ساتھیوں،
سنت تکا رام جی کا رحم و کرم اور خدمات کا وہ جذبہ ان کے ’ابھنگوں‘ کے طور پر آج بھی ہمارے پاس ہے۔ ان ابھنگوں نے ہماری نسلوں کو حوصلہ بخشا ہے۔ جو بھنگ نہیں ہوتا، جو وقت کے ساتھ شاشوت اور افادیت انگیز رہتا ہے، وہی تو ابھنگ ہوتا ہے۔ آج بھی ملک جب اپنی ثقافتی قدروں کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہے، تو سنت تکا رام جی کے ابھنگ ہمیں توانائی عطا کر رہے ہیں، راستہ دکھا رہے ہیں۔ سنت نام دیو، سنت ایک ناتھ، سنت ساوتا مہاراج، سنت نرہری مہاراج، سنت سینا مہاراج، سنت گوروبا کاکا، سنت چوکھا میلا، ان کے قدیم ابھنگوں سے ہمیں ہمیشہ نیا حوصلہ ملتا ہے۔ آج یہاں سنت چوکھا میلا اور ان کی فیملی کے ذریعے تخلیق کردہ سارتھ ابھنگ گاتھا کے اجرا کا بھی مجھے اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اس سارتھ ابھنگ گاتھا میں اس سنت فیملی کی 500 سے زیادہ ابھنگ تخلیقات کو آسان زبان میں معنی سمیت بتایا گیا ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
سنت تکا رام جی کہتے تھے – اونچ نیچ کاہی نیڑے بھگونت۔ یعنی، سماج میں اونچ نیچ کا بھید بھاؤ، انسان انسان کے درمیان فرق کرنا، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ ان کا یہ پیغام جتنا ضروری بھگود بھکتی کے لیے ہے، اتنا ہی اہم راشٹر بھکتی کے لیے بھی ہے، سماج بھکتی کے لیے بھی ہے۔ اسی پیغام کے ساتھ ہمارے وارکری بھائی بہن ہر سال پنڈھر پور کا سفر کرتے ہیں۔ اسی لیے، آج ملک ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس‘ کے منتر پر چل رہا ہے۔ سرکار کی ہر اسکیم کا فائدہ، ہر کسی کو بغیر کسی امتیاز کے مل رہا ہے۔ وارکری آندولن کے جذبات کو مضبوط کرتے ہوئے ملک خواتین کو با اختیار بنانے کے لیے بھی مسلسل کوششیں کر رہا ہے۔ مردوں کے ساتھ اتنی ہی توانائی سے واری میں چلنے والی ہماری بہنیں، پنڈھری کی واری، مواقع کی برابری کی علامت رہی ہیں۔
ساتھیوں،
سنت تکا رام جی کہتے تھے- جے کا رنجلے گانجلے- تیانسی مہنے جو آپولے۔ تیچی سادھو اولکھاوا، دیو تیتھے-چی-جاناوا۔ یعنی، سماج کی آخری قطار میں بیٹھے شخص کو اپنانا، ان کی بھلائی کرنا، یہی سنتوں کی علامت ہے۔ یہی آج ملک کے لیے انتیودیہ کا عہد ہے، جسے لے کر ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ دلت، محروم، پس ماندہ، آدیواسی، غریب، مزدور، ان کی فلاح و بہبود آج ملک کی پہلی ترجیح ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
سنت اپنے آپ میں ایک ایسی توانائی کی طرح ہوتے ہیں، جو الگ الگ حالات میں سماج کو رفتار دینے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ آپ دیکھئے، چھترپتی شیواجی مہاراج جیسے قومی ہیرو کی زندگی میں بھی تکا رام جی جیسے سنتوں نے بڑا اہم رول نبھایا ہے۔ آزادی کی لڑائی میں ویر ساورکر جی کو جب سزا ہوئی، تب جیل میں وہ ہتھکڑیوں کو چپلی جیسا بجاتے ہوئے تکا رام جی کے ابھنگ گایا کرتے تھے۔ الگ الگ دور، الگ الگ شخصیات، لیکن سب کے لیے سنت تکا رام جی کا کلام اور توانائی اتنی ہی حوصلہ افزا رہی ہے! یہی تو سنتوں کی وہ عظمت ہے، جس کے لیے ’نیتی نیتی‘ کہا گیا ہے۔
ساتھیوں،
تکا رام جی کے اس شلا مندر میں پرنام کرکے ابھی اشاڑھ میں پنڈھر پور جی کی یاترا بھی شروع ہونے والی ہے۔ چاہے مہاراشٹر میں پنڈھرپور یاترا ہو، یا اوڈیشہ میں بھگوان جگن ناتھ کی یاترا، چاہے متھرا میں ورج کی پریکرما ہو، یا کاشی میں پنچ کوسی پریکرما! چاہے چار دھام یاترا ہو یا چاہے پھر امرناتھ جی کی یاترا، یہ یاترائیں ہمارے سماجی اور روحانی تحرک کے لیے توانائی کا ذریعہ ہیں۔ ان یاتراؤں کے ذریعے ہمارے سنتوں نے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے جذبہ کو زندہ رکھا ہے۔ تکثیریت کو جیتے ہوئے بھی، بھارت ہزاروں سالوں سے ایک قوم کے طور پر بیدار رہا ہے، کیوں کہ ایسی یاترائیں ہماری تکثیریت کو جوڑتی رہی ہیں۔
بھائیوں اور بہنوں،
ہماری قومی وحدت کو مضبوط کرنے کے لیے آج سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی قدیم شناخت اور روایات کو زندہ رکھیں۔ اسی لیے، آج جب جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر بھارت کی ترقی کا سبب بن رہے ہیں، تو ہم یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ترقی اور وراثت دونوں ساتھ ساتھ آگے بڑھیں۔ آج پنڈھر پور پالکی مارگ کا اپ گریڈیشن ہو رہا ہے تو چاردھام یاترا کے لیے بھی نئے ہائی وے بن رہے ہیں۔ آج ایودھیا میں شاندار مندر بھی بن رہا ہے، کاشی وشو ناتھ دھام کا احاطہ بھی اپنی نئی شکل میں موجود ہے، اور سومناتھ جی میں بھی ترقی کے بڑے کام کیے گئے ہیں۔ پورے ملک میں پرساد یوجنا کے تحت تیرتھ استھانوں اور سیاحتی مقامات کو ترقیاتی کاموں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ مہرشی والمیکی نے رامائن میں بھگوان رام سے جڑے جن مقامات کا ذکر کیا ہے، رامائن سرکٹ کے طور پر ان کی بھی تعمیرکی جا رہی ہے۔ ان آٹھ سالوں میں بابا صاحب امبیڈکر کے پنچ تیرتھوں کی ترقی بھی ہوئی ہے۔ چاہے مہو میں بابا صاحب کی جائے پیدائش کی ترقی ہو، لندن میں جہاں رہ کر وہ پڑھا کرتے تھے، اس گھر کو یادگار کے طور پر بدلنا ہو، ممبئی میں چیتہ بھومی کا کام ہو، ناگپور میں دیکشا بھومی کو بین الاقوامی سطح پر تیار کرنے کی بات ہو، دہلی میں مہا پری نروان استھل پر میموریل کی تعمیر ہو، یہ پنچ تیرتھ، نئی نسل کو بابا صاحب کی یادگاروں سے مسلسل متعارف کرا رہے ہیں۔
ساتھیوں،
سنت تکا رام جی کہتے تھے – اسادھیہ سے سادھیہ کریتا سایاس۔ کارن ابھیاس، تکا مہنے۔ یعنی، اگر صحیح سمت میں سب کی کوشش ہو تو ناممکن کو بھی حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ آج آزادی کے 75ویں سال میں ملک نے سو فیصد اہداف کو پورا کرنے کا عہد کیا ہے۔ ملک غریبوں کے لیے جو اسکیمیں چلا رہا ہے، انہیں بجلی، پانی، مکان اور علاج جیسی زندگی کی، جینے کی بنیادی ضرورتوں سے جوڑ رہا ہے، ہمیں انہیں سو فیصد لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اسی طرح ملک نے ماحولیات، آبی تحفظ اور ندیوں کو بچانے جیسی مہم شروع کی ہے۔ ہم نے صحت اور صحت مند بھارت کا عہد کیا ہے۔ ہمیں ان عہد کو بھی سو فیصد پورا کرنا ہے۔ اس کے لیے سب کی کوشش کی، سب کی حصہ داری کی ضرورت ہے۔ ہم سبھی ملک کے شہری ان ذمہ داریوں کو اپنے روحانی عہد کا حصہ بنائیں گے تو ملک کا اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ ہم پلاسٹک سے آزادی کا عہدہ کریں گے، اپنے آس پاس جھیلوں، تالابوں کو صاف رکھنے کا عہد کریں گے تو ماحولیات کی حفاظت ہوگی۔ امرت مہوتسو میں ملک نے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کا بھی عہد کیا ہے۔ ان امرت سرووروں کو آپ سبھی سنتوں کا آشیرواد مل جائے، ان کی تعمیر میں آپ تعاون مل جائے، تو اس کام کی رفتار اور بڑھ جائے گی۔ ملک اس وقت قدرتی کھیتی کو بھی مہم کے طور پر آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ کوشش وارکری سنتوں کے اصولوں سے جڑی ہوئی ہے۔ ہم کیسے قدرتی کھیتی کو ہر کھیت تک لے جائیں اس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگلے کچھ دن بعد یوگ کا بین الاقوامی دن بھی آنے والا ہے۔ آج جس یوگ کی دنیا میں دھوم ہے، وہ ہمارے سنتوں کی ہی تو دین ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ سب یوگ کے دن کو پورے جوش سے منائیں گے، اور ملک کے تئیں ان ذمہ داروں کو پورا کرتے ہوئے نئے بھارت کے خواب کو پورا کریں گے۔ اسی جذبے کے ساتھ، میں اپنا کلام ختم کرتا ہوں اور مجھے جو موقع دیا، جو عزت بخشی اس لیے آپ سب کا سر جھکا کر شکریہ ادا کرتاہوں۔
جے جے رام کرشن ہری۔ جے جے رام کرشن ہری۔ ہر ہر مہادیو۔