سمیست گوئینکار بھاو- بھینیک، مایے موگاچو نمسکار!
گویانت ییون، مہاکاں سدانچ کھوس بھوگتا!
ڈائس پر موجود گوا کے گورنر پی ایس سری دھرن پلئی جی، گوا کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب پرمود ساونت جی، مرکزی وزراء جناب شریپد نائک جی، جیوترادتیہ سندھیا جی، دیگر تمام معززین، خواتین و حضرات۔
اس شاندار نئے ہوائی اڈے کے لیے گوا کے لوگوں اور ملک کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد۔ پچھلے 8 سالوں میں جب بھی مجھے آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا میں ایک بات دہرایا کرتا تھا۔ آپ نے جو محبتیں اور عنایتیں ہمیں دی ہیں، سود سمیت واپس کروں گا، ترقی کرکے واپس کروں گا۔ یہ جدید ایئرپورٹ ٹرمینل اسی پیار کا بدلہ چکانے کی کوشش ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اس بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام میرے عزیز ساتھی اور گوا کے لاڈلے آنجہانی منوہر پاریکر جی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اب منوہر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے نام سے پاریکر جی کا نام یہاں آنے والے ہر شخص کی یاد میں باقی رہے گا۔
ساتھیو،
ہمارے ملک میں بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے دہائیوں پر محیط طرز عمل میں حکومتوں نے عوام کی ضروریات کے بجائے ووٹ بینک کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ سے اکثر ایسے پروجیکٹوں پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے جاتے رہے، جن کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ اور اس کی وجہ سے اکثر جہاں لوگوں کے لیے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت تھی، اسے نظر انداز کیا گیا۔ گوا کا یہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ اس کی ایک مثال ہے۔ یہ نہ صرف گوا کے لوگوں کا بلکہ پورے ملک کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ یہاں ایک ہوائی اڈہ سے کام نہیں چل رہا ہے، گوا کو دوسرے ہوائی اڈے کی ضرورت ہے۔ اس ہوائی اڈے کا منصوبہ اس وقت بنایا گیا تھا جب مرکز میں اٹل بہاری واجپائی کی حکومت تھی۔ لیکن اٹل جی کی حکومت جانے کے بعد اس ہوائی اڈے کے لیے زیادہ کام نہیں کیا گیا۔ یہ منصوبہ طویل عرصے تک لٹکا رہا۔ 2014 میں گوا نے ترقی کا ڈبل انجن لگایا۔ ہم نے دوبارہ تمام طریقہ کار کو تیزی سے مکمل کیا اور 6 سال قبل میں نے یہاں آکر سنگ بنیاد رکھا تھا۔ درمیان میں عدالت سے لے کر وبا تک بہت سی رکاوٹیں تھیں۔ لیکن ان سب کے باوجود آج یہ ایک شاندار ہوائی اڈے کے طور پر تیار ہے۔ اس وقت اس میں ایک سال میں تقریباً 40 لاکھ مسافروں کو سنبھالنے کی سہولت موجود ہے۔ آنے والے وقت میں یہ صلاحیت ساڑھے تین کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس ایئرپورٹ سے یقیناً سیاحت کو بہت فائدہ ہوگا۔ 2 ہوائی اڈے ہونے سے گوا کے کارگو مرکز کے طور پر ابھرنے کے بھی امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس سے فارما مصنوعات کو پھلوں اور سبزیوں کی برآمد کو کافی فروغ ملے گا۔
ساتھیو،
منوہر بین الاقوامی ہوائی اڈہ آج ملک کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے بدلی ہوئی حکومت کی سوچ اور نقطہ نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2014 سے پہلے حکومتوں کے رویے کی وجہ سے ہوائی سفر ایک لگژری بن چکا تھا۔ زیادہ تر صرف امیر لوگ ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس سے پہلے کی حکومتوں نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ عام لوگ، متوسط طبقہ بھی یکساں طور پر ہوائی سفر کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس وقت کی حکومتوں نے تیز رفتار نقل و حرکت میں سرمایہ کاری سے گریز کیا، ہوائی اڈوں کی ترقی کے لیے زیادہ رقم خرچ نہیں کی گئی۔ اس کے نتیجے میں، ملک میں ہوائی سفر سے متعلق اتنے وسیع امکانات کے باوجود ہم پیچھے رہ گئے، ہم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اب ملک ترقی کی جدید سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہے تو اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔
ساتھیو،
آزادی سے لے کر 2014 تک ملک میں صرف 70 چھوٹے بڑے ہوائی اڈے تھے۔ زیادہ تر صرف بڑے شہروں میں ہوائی سفر کا انتظام تھا۔ لیکن ہم نے ملک کے چھوٹے شہروں تک ہوائی سفر کرنے کی پہل کی۔ اس کے لیے ہم نے دو سطحوں پر کام کیا۔ سب سے پہلے، ہم نے ہوائی اڈے کے نیٹ ورک کو پورے ملک میں پھیلایا۔ دوسرے، اڑان اسکیم کے ذریعے عام آدمی کو بھی ہوائی جہاز میں اڑنے کا موقع ملا۔ ان کوششوں کے بے مثال نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سندھیا جی نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ ملک میں پچھلے 8 سالوں میں تقریباً 72 نئے ہوائی اڈے بنائے گئے ہیں۔ اب سوچئے کہ آزادی کے بعد 70 سالوں میں تقریباً 70 ہوائی اڈے اور گزشتہ 7-8 سالوں میں مزید 70 نئے ہوائی اڈے بنے۔ یعنی اب ہندوستان میں ہوائی اڈوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ سال 2000 میں ملک میں 6 کوڑ افراد سال بھر میں ہوائی سفر کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ 2020 میں کورونا کی مدت سے پہلے یہ تعداد 14 کروڑ سے تجاوز کرگئی تھی۔ اس میں بھی ایک کروڑ سے زیادہ ساتھیوں نے اڑان اسکیم کا فائدہ اٹھایا اور ہوائی سفر کیا۔
ساتھیو،
ان تمام کوششوں کی وجہ سے آج ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ایوی ایشن مارکیٹ بن گیا ہے۔ جس طرح سے اڑان یوجنا نے ملک کے متوسط طبقے کے خوابوں کو پورا کیا ہے، یہ واقعی کسی بھی یونیورسٹی کے لیے، علمی دنیا کے لیے مطالعہ کا موضوع ہے۔ کچھ سال پہلے، متوسط طبقہ لمبی دوری کے لیے ٹرین کے ٹکٹ پہلے چیک کرتا تھا۔ اب تھوڑے فاصلے کے لیے بھی پہلے ہوائی جہاز کا راستہ معلوم کرتا ہے، اس کا ٹکٹ دیکھا جاتا ہے اور پہلے ہوائی جہاز سے ہی جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے ملک میں ہوائی رابطہ پھیل رہا ہے، ہوائی سفر سب کے لیے قابل رسائی ہوتا جا رہا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ہم اکثر سنتے ہیں کہ سیاحت کسی بھی ملک کی سافٹ پاور کو بڑھاتی ہے اور یہ سچ بھی ہے۔ لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ جب کسی ملک کی طاقت بڑھتی ہے تو دنیا اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہے۔ اگر اس ملک میں دیکھنے، جاننے اور سمجھنے کے لیے کچھ ہے تو یقیناً دنیا زیادہ متوجہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ ماضی میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ جب ہندوستان خوشحال تھا، دنیا میں ہندوستان کے لیے ایک سحر تھا۔ دنیا بھر سے مسافر یہاں آتے تھے، تاجر اور کاروباری آتے تھے، طلبہ آتے تھے۔ لیکن درمیان میں غلامی کا ایک طویل دور آیا۔ ہندوستان کی فطرت، ثقافت، تہذیب وہی رہی، لیکن ہندوستان کی تصویر بدل گئی، ہندوستان کو دیکھنے کا انداز بدل گیا۔ ہندوستان آنے کی خواہش رکھنے والوں کی اگلی نسل کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہندوستان کس کونے میں پڑا ہے۔
ساتھیو،
اب 21ویں صدی کا ہندوستان نیا ہندوستان ہے۔ آج جب ہندوستان عالمی سطح پر اپنی نئی تصویر بنا رہا ہے تو دنیا کا نظریہ بھی تیزی سے بدل رہا ہے۔ آج دنیا ہندوستان کو جاننا اور سمجھنا چاہتی ہے۔ آج، ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر، غیر ملکی اتنی بڑی تعداد میں دنیا کو ہندوستان کی کہانی سنا رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اب یہ بہت ضروری ہے کہ ملک میں سفر کی آسانی کو یقینی بنایا جائے۔ اس سوچ کے ساتھ، پچھلے 8 سالوں میں، ہندوستان نے سفر کی آسانی کو بڑھانے اور اپنے سیاحتی پروفائل کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم نے ویزا کے عمل کو آسان بنایا ہے، آمد پر ویزا کی سہولیات میں اضافہ کیا ہے۔ ہم نے جدید انفرا اسٹرکچر اور آخری میل تک کنکٹیوٹی پر توجہ دی۔ ہوائی رابطہ، ڈیجیٹل کنکٹیوٹی، موبائل کنکٹیوٹی، ریلوے کنکٹیوٹی کے ساتھ ساتھ ہم ان سب کو دیکھ رہے ہیں۔ آج، زیادہ تر سیاحتی مقامات کو ریلوے کے ذریعے جوڑا جا رہا ہے۔ تیجس اور وندے بھارت ایکسپریس جیسی جدید ٹرینیں ریلوے کا حصہ بن رہی ہیں۔ وسٹاڈوم کوچ ٹرینیں سیاحوں کے تجربے کو بڑھا رہی ہیں۔ ہم ان تمام کوششوں کا اثر مسلسل محسوس کر رہے ہیں۔ سال 2015 میں ملک میں ملکی سیاحوں کی تعداد 14 کروڑ تھی۔ پچھلے سال یہ بڑھ کر تقریباً 70 کروڑ تک ہوگئی تھی۔ اب کورونا کے بعد ملک اور پوری دنیا میں سیاحت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گوا جیسے سیاحتی مقامات پر پہلے ویکسین متعارف کرانے کے فیصلے کا فائدہ گوا کو بھی مل رہا ہے اور اس لیے میں پرمود جی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔
اور ساتھیو،
ہم سب جانتے ہیں کہ سیاحت میں روزگار اور خود روزگار کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہے۔ سیاحت سے ہر کوئی کماتا ہے، اس سے سب کو موقع ملتا ہے۔ اور گوا کے لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبل انجن والی حکومت سیاحت پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے، رابطے کے تمام ذرائع کو مضبوط بنا رہی ہے۔ یہاں گوا میں بھی 2014 سے ہائی ویز سے متعلق پروجیکٹوں میں 10,000 کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ گوا میں ٹریفک کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے بھی مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ گوا کو بھی کونکن ریلوے کی بجلی سے کافی فائدہ ہوا ہے۔
ساتھیو،
رابطے کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ حکومت کا زور ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے پر بھی ہے۔ ہمارے ورثے کی دیکھ بھال، اس کے رابطے اور وہاں سہولیات کی تعمیر پر زور دیا گیا ہے۔ گوا میں تاریخی اگوڈا جیل کمپلیکس میوزیم کی ترقی بھی اس کی ایک مثال ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، ہم ملک بھر میں اپنے ثقافتی ورثے کے مقامات کو مزید پرکشش بنا رہے ہیں۔ ملک کے مقدس مقامات اور تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے خصوصی ٹرینیں بھی چلائی جا رہی ہیں۔
ساتھیو،
ویسے، آج میں ایک اور چیز کے لیے حکومت گوا کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ فزیکل انفرا اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ گوا کی حکومت سماجی انفرا اسٹرکچر پر بھی یکساں زور دے رہی ہے۔ گوا میں ایز آف لیونگ میں اضافہ ہو، یہاں کوئی بھی سرکاری اسکیموں کے فائدے سے محروم نہ رہے، اس سمت میں سویم پورنا گوا ابھیان بہت کامیاب رہا ہے، بہت اچھا کام ہوا ہے۔ آج گوا 100 فیصد سیچوریشن کی بہت اچھی مثال بن گیا ہے۔ آپ سب ایسے ترقیاتی کام کرتے رہیں، لوگوں کی زندگی آسان بناتے رہیں، اس خواہش کے ساتھ میں آپ سب کو اس عظیم الشان ایئرپورٹ کے لیے مبارکباد دیتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
بہت بہت مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ۔