آسام کے پرجوش وزیر اعلیٰ جناب ہمنتا بسوا شرما جی، وزیر جناب اتُل بورا جی، پجوش ہزاریکا جی، گولڈن جوبلی سیلبریشن کمیٹی کے صدر ڈاکٹر دیانند پاٹھک جی، اگردوت کے چیف ایڈیٹر اور قلم کے ساتھ اتنے طویل عرصے تک جنہوں نے تپسیا کی ہے، مشق کی ہے، ایسے کنک سین ڈیکا جی، دیگر معززین، خواتین و حضرات،
آسامی زبان میں شمال مشرق کی مضبوط آواز، روزنامہ اگردوت، سے وابستہ تمام ساتھیوں، صحافیوں، ملازمین اور قارئین حضرات کو 50 برس – پانچ دہائی کے اس سنہرے سفر کے لیے میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آنے والے وقت میں اگردوت نئی بلندیاں سر کرے، بھائی پرانجل اور نوجوان ٹیم کو میں اس کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
اس تقریب کے لیے شری منت شنکر دیو کی فنکاری کا انتخاب بھی اپنے آپ میں ایک شاندار اتفاق ہے۔ شری منت شنکردیو جی نے آسامی شاعری اور تخلیقات کے توسط سے ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبہ کو مضبوط بنایا تھا۔ انہیں اقدار کو روزنامہ اگردوت نے بھی اپنی صحافت سے مالامال کیا ہے۔ ملک میں ہم آہنگی کی ، یکجہتی کی ، روشنی کو برقرار رکھنے میں آپ کے اخبار نے صحافت کے توسط سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
ڈیکا جی کی رہنمائی میں روزنامہ اگردوت نے ہمیشہ قومی مفادت کو ترجیح دی۔ ایمرجنسی کے دوران بھی جب جمہوریت پر سب سے بڑا حملہ ہوا، تب بھی روزنامہ اگردوت اور ڈیکا جی نے صحافتی اقدار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے نہ صرف آسام میں ہندوستانیت کے جذبے سے معمور صحافت کو مضبوط کیا، بلکہ اقدار پر مبنی صحافت کے لیے بھی ایک نئی نسل تیار کی۔
آزادی کے 75ویں برس میں روزنامہ اگردوت کی گولڈن جوبلی تقریبات محض ایک پڑاؤ پر پہنچنا نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی کے امرت کال میں صحافت کے لیے، قومی فرائض کے لیے بھی باعث ترغیب ہے۔
ساتھیو،
گذشتہ چند دنوں سے آسام سیلاب کی شکل میں بڑی چنوتی اور مصیبتوں کا سامنا کر رہا ہے۔ آسام کے متعدد اضلاع میں عام زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ہمنتا جی اور ان کی ٹیم راحت اور بچاؤ کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے۔ میری بھی وقتاً فوقتاً اس سلسلے میں متعددلوگوں سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ محترم وزیر اعلیٰ سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ میں آج آسام کے لوگوں کو، اگردوت کے قارئین کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ مرکز اور ریاستی حکومت مل کر، ان کی مشکلات کم کرنے میں مصروف ہیں۔
ساتھیو،
بھارت کی روایت، ثقافت، آزادی کی لڑائی اور ترقی کے سفر میں بھارتی زبانوں کی صحافت کا کردار قائدانہ حیثیت رکھتا ہے۔ آسام تو صحافت کے معاملے میں بہت ہی بیدار خطہ رہا ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل ہی آسام میں صحافت شروع ہو چکی تھی اور اس خطے نے ایسے متعدد مدیر ملک کو دیے ہیں، جنہوں نے لسانی صحافت کو نئی جہتیں عطا کی ہیں۔ آج بھی یہ صحافت عوام الناس کو حکومت اور سروکار سے جوڑنے میں بہت بڑی خدمت انجام دے رہی ہے۔
ساتھیو،
روزنامہ اگردوت کا گذشتہ 50 برسوں کا سفر آسام میں رونما ہوئی تبدیلیوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ عوامی تحریکوں نے اس تبدیلی کو لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوامی انقلابات نے آسام کی ثقافتی وراثت اور آسامی فخر کو تحفظ فراہم کیا، اور اب عوامی شراکت داری کی بدولت آسام ترقی کی داستان رقم کر رہا ہے۔
ساتھیو،
بھارت کے اس سماج میں جمہوریت اس لیے مضمر ہے کیونکہ اس میں صلاح و مشورے سے، غور و خوض سے، ہر اختلاف کو دور کرنے کا راستہ موجود ہے۔ جب بات چیت ہوتی ہے، تب حل نکلتا ہے۔ بات چیت سے ہی امکانات کی توسیع ہوتی ہے۔ اس لیے بھارتی جمہوریت میں علم اور معلومات کا دریا بلارکاوٹ اور مسلسل رواں دواں ہے۔ اگردوت بھی اسی روایت کو آگے بڑھانے کا ایک اہم وسیلہ رہا ہے۔
ساتھیو،
آج کی دنیا میں ہم کہیں بھی رہیں، ہماری مادری زبان میں شائع ہونے والا اخبار ہمیں گھر سے جڑے رہنے کا احساس کراتا ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ آسامی زبان میں شائع ہونے والا روزنامہ اگردوت ہفتہ میں دو مرتبہ شائع ہوتا تھا۔ وہاں سے شروع ہوا اس کا سفر پہلے روزنامہ اخبار بننے تک پہنچا، اور اب یہ ای۔پیپر کی شکل میں آن لائن بھی موجود ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ کر آپ آسام کی خبروں سے جڑے رہ سکتے ہیں، آسام سے جڑے رہ سکتے ہیں۔
اس اخبار کی ترقی کے سفر میں ہمارے ملک کی تبدیلی اور ڈجیٹل ترقی کی جھلک نظرآتی ہے۔ ڈجیٹل انڈیا آج مقامی رابطے کا مضبوط وسیلہ بن چکا ہے۔ آج جو شخص آن لائن اخبار پڑھتا ہے، وہ آن لائن ادائیگی بھی کرنا جانتا ہے۔ روزنامہ اگردوت اور ہمارا میڈیا آسام اور ملک کی تبدیلی کے گواہ رہے ہیں۔
ساتھیو،
آزادی کے 75 برس جب ہم مکمل کر رہے ہیں، تب ایک سوال ہمیں ضرور پوچھنا چاہئے۔ انٹلیکچووَل اسپیس کسی مخصوص زبان کو جاننے والے چند افراد تک ہی محدود کیوں رہنا چاہئے؟ یہ سوال محض جذبات کا نہیں بلکہ سائنسی منطق کا بھی ہے۔ آپ ذرا سوچئے، گذشتہ 3 صنعتی انقلابات میں بھارت تحقیق و ترقی میں پیچھے کیوں رہا؟ جبکہ بھارت کے پاس معلومات کی، فہم و فراست کی، نیا سوچنے، نیا کرنے کی روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا یہ اثاثہ بھارتی زبانوں میں تھا۔ غلامی کے طویل دور میں بھارتی زبانوں کی توسیع کو روکا گیا، اور جدید سائنس، تحقیق کو ایک یا دو زبانوں تک محدود کر دیا گیا۔ بھارت کے بہت بڑے طبقے کی ان زبانوں تک، اس علم تک رسائی ہی نہیں تھی۔ یعنی علم و استعداد کا، مہارت کا دائرہ مسلسل تنگ ہوتا گیا۔ جس سے تخلیق اور اختراع کے خزانے میں کمی آئی۔
21ویں صدی میں جب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب بڑھ رہی ہے، ایسے وقت میں بھارت کے پاس دنیا کی قیادت کرنے کا بہت بڑا موقع ہے۔ یہ موقع ہماری ڈاٹا قوت کی وجہ سے ہے، ڈجیٹل شمولیت کی وجہ سے ہے۔ کوئی بھی بھارتی بہترین اطلاعات، بہترین معلومات، بہترین ہنرمندی اور بہترین موقع سے محض زبان کی وجہ سے محروم نہ رہے، یہی ہماری کوشش ہے۔
اس لیے ہم نے قومی تعلیمی پالیسی میں بھارتی زبانوں میں تعلیم کو فروغ دیا۔ مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا مستقبل میں کسی بھی پیشے میں جائیں، انہیں اپنے پیشے کی ضرورتوں اور اپنے لوگوں کی آرزوؤں کی سمجھ رہے گی۔ اس کے ساتھ ہی اب ہماری کوشش ہے کہ بھارتی زبانوں میں دنیا کا بہترین مواد دستیاب ہو۔ اس کے لیے نیشنل لینگویج ٹرانسلیشن مشن پر ہم کام کر رہے ہیں۔
کوشش یہ ہے کہ انٹرنیٹ، جو کہ معلومات کا، اطلاعات کا بہت بڑا خزانہ ہے، اسے ہر بھارتی اپنی زبان میں استعمال کر سکے۔ دو روز قبل ہی اس کے لیے بھاشینی پلیٹ فارم لانچ کیا گیا ہے۔ یہ بھارتی زبانوں کا یونیفائیڈ لینگویج انٹرفیس ہے، ہر بھارتی کو انٹرنیٹ سے آسانی سے مربوط کرنے کی کوشش ہے۔ تاکہ وہ معلومات کے ، علم کے اس جدید وسیلے سے، حکومت سے، سرکاری سہولتوں سے آسانی سے اپنی زبان سے مربوط ہو سکیں، رابطہ قائم کر سکیں۔
انٹرنیٹ کو کروڑوں بھارتیوں کو اپنی زبان میں دستیاب کرانا سماجی اور اقتصادی، ہر پہلو سے اہم ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کو مضبوط کرنے، ملک کو الگ الگ ریاستوں سے مربوط ہونے ، گھومنے پھرنے اور ثقافت کو سمجھنے میں یہ بہت بڑی مدد فراہم کرے گا۔
ساتھیو،
آسام سمیت پورا شمال مشرق تو سیاحت، ثقافت اور حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے بہت مالامال ہے۔ پھر بھی ابھی تک اس علاقہ کو مکمل طور پر اُتنا نہیں کھوجا گیا ہے، جتنا کہ کھوجا جانا چاہئے۔ آسام کے پاس زبان، نغمہ و موسیقی کی شکل میں جو مالامال وراثت ہے، اسے ملک اور دنیا تک پہنچانا چاہئے۔ گذشتہ آٹھ برسوں سے آسام اور پورے شمال مشرق کو جدید کنکٹیویٹی کے لحاظ سے مربوط کرنے کی غیرمعمولی کوشش جاری ہے۔ اس سے آسام کی ، شمال مشرق کی، بھارت کی ترقی میں حصہ داری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب زبانوں کے لحاظ سے بھی یہ خطہ ڈجیٹل طور پر مربوط ہوگا تو آسام کی ثقافت ، قبائلی روایات اور سیاحت کو بہت فائدہ حاصل ہوگا۔
ساتھیو،
اس لیے اگردوت جیسے ملک کے ہر لسانی صحافت کرنے والے اداروں سے میری خصوصی گذارش رہے گی کہ ڈجیٹل انڈیا کی ایسی کوشش سے اپنے قارئین کو بیدار کریں۔ بھارت کے تکنالوجی کے مستقبل کو مالامال اور مضبوط بنانے کے لیے سب کی کوششیں درکار ہیں۔ سووَچھ بھارت مشن جیسی مہم میں ہمارے میڈیا نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے، اس کی پورے ملک میں اور دنیا میں آج تعریف ہوتی ہے۔ اسی طرح، امرت مہوتسو میں ملک کے عزائم میں بھی آپ حصہ دار بن کر اس کو ایک سمت دیجئے، نئی توانائی دیجئے۔
آسام میں آبی تحفظ اور اس کی اہمیت سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اسی سمت میں ملک اس وقت امرت سرووَر ابھیان کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ملک ہر ضلع میں 75 امرت سرووَروں کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس میں پورا یقین ہے کہ اگردوت کے توسط سے آسام کا کوئی شہری ایسا نہیں ہوگا جو اس سے جڑا نہ ہوگا، سب کی کوشش نئی رفتار فراہم کرسکتی ہے۔
اسی طرح، آزادی کی لڑائی میں آسام کے مقامی لوگوں کا، ہمارے قبائلی سماج کا اتنا بڑا تعاون رہا ہے۔ ایک میڈیا ادارے کے طور پر اس عظیم الشان ماضی کو عوام تک پہنچانے میں آپ بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے، اگردوت سماج کی ان مثبت کوششوں کو توانائی دینے کا اپنا فریضہ جو گذشتہ 50 برسوں سے ادا کر رہا ہے، آنے والی متعدد دہائیوں تک بھی ادا کرے گا، ایسا میرا یقین ہے۔ آسام کے لوگوں اور آسام کی ثقافت کی ترقی میں وہ قائد کے طور پر کام کرتا رہے گا۔
بہتر طور پر باخبر معاشرہ ہی ہم سبھی کا مقصد ہو، ہم سبھی مل کر اس کے لیے کام کریں، اسی نیک نیتی کے ساتھ ایک مرتبہ پھر آپ کو اس سنہرے سفر کی مبارکباد اور بہتر مستقبل کی بہت بہت نیک خواہشات۔