آج کی اس کانفرنس میں موجود کابینہ کے میرے ساتھی جناب نریندر تومر جی، منسکھ مانڈویہ جی، پیوش گوئل جی، جناب کیلاش چودھری جی ! بیرون ملک سے آئے ہوئے کچھ وزراء ۔گیانا، مالدیپ، ماریشس، سری لنکا، سوڈان، سورینام اور گا مبیا کے تمام معزز وزرا، دنیا کے مختلف حصوں سے زراعت، غذائیت اور صحت کے شعبے میں کام کرنے والے سائنسدان اور ماہرین، مختلف ایف پی اوز اور اسٹارٹ- اپس کے نوجوان دوست، ملک کے کونے کونے سے جڑے لاکھوں کسان، دیگر معززین، خواتین و حضرات،
’گلوبل ملیٹس کانفرنس‘ کے انعقاد کے لیے آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ ایسے پروگرام نہ صرف گلوبل گڈ کے لیے ضروری ہیں بلکہ گلوبل گڈ میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی ذمہ داری کی علامت بھی ہیں۔
ساتھیو،
آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تجویز اور کوششوں کے بعد ہی اقوام متحدہ نے 2023 کو ’بین الاقوامی ملیٹ سال‘ قرار دیا ہے۔ جب ہم کسی قرارداد کو آگے بڑھاتے ہیں تو اسے کمال تک لے جانے کی ذمہ داری بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج جب دنیا ’بین الاقوامی ملیٹس سال‘ منا رہی ہے، ہندوستان اس مہم کی قیادت کر رہا ہے۔ ’گلوبل ملیٹس کانفرنس‘ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ اس میں تمام اہل علم اور تجربہ کار لوگ ملیٹس کی کاشت، اس سے جڑی معیشت، صحت پر اس کے اثرات، کسانوں کی آمدنی، ایسے بہت سے موضوعات پر گفتگو کرنے والے ہیں۔ اس میں ہمارے ساتھ گرام پنچایتیں، زرعی مراکز، اسکول کالج اور زرعی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ ہندوستانی سفارت خانوں سے لے کر کئی ممالک تک بھی آج ہم سے وابستہ ہیں۔ ہندوستان کے 75 لاکھ سے زیادہ کسان آج ہمارے ساتھ اس تقریب میں ورچوئل طور پر موجود ہیں۔ یہ بھی اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو دل سے خوش آمدید کہتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ حال ہی میں یہاں ملیٹس پر یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکے بھی جاری کیے گئے ہیں۔ جوار سے متعلق معیارات کی کتاب (بک آف ملیٹ اسٹینڈرس)بھی یہاں لانچ کی گئی ہےاور اس کے ساتھ ہی آئی سی اے آر کے ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ملیٹس ریسرچ‘ کو گلوبل سینٹر آف ایکسیلنس قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اسٹیج پر آنے سے پہلے میں نمائش دیکھنے گیا تھا، میں آپ سب سے اور جو ان دنوں دہلی میں ہیں یا دہلی آرہے ہیں ان سے بھی گزارش کروں گا کہ ملیٹس کی پوری دنیا کو ایک جگہ سمجھیں، اس کی افادیت کو سمجھیں، ماحولیات کے لیے، فطرت کے لیے، صحت کے لیے، کسانوں کی آمدنی کے لیے تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے، میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ نمائش کو ضرور دیکھیں۔ جس انداز میں ہمارے نوجوان دوست نئے اسٹارٹ اپ کے ساتھ اس میدان میں آئے ہیں وہ بھی اپنے آپ میں متاثر کن ہے۔ یہ سب بھارت کی عہد بستگی ، بھارت کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔
دوستو
آج میں گلوبل ملیٹس کانفرنس سے وابستہ لاکھوں کسانوں اور غیر ملکی مہمانوں کے سامنے ایک معلومات کو دہرانا چاہوں گا۔ عالمی برانڈنگ کے پیش نظر ہندوستان میں باجرا، جوار یا موٹے اناج کی مشترکہ برانڈنگ کو اب شری انیہ کی شناخت دی گئی ہے۔ شری انیہ صرف کھیتی باڑی یا کھانے تک محدود نہیں ہے۔ جو لوگ ہندوستان کی روایات سے واقف ہیں، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ’شری‘ کو یوں ہی کسی کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا۔ جہاں شری ہے، وہاں خوشحالی بھی ہوتی ہے، اور جامعیت بھی۔ شری انیہ ہندوستان میں مجموعی ترقی کا ایک ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ اس میں گاؤں بھی شامل ہیں ، غریب بھی شامل ہیں۔ شری انیہ کا مطلب ہے ملک کے چھوٹے کسانوں کی خوشحالی کا دروازہ، شری انیہ کا مطلب ہے ملک کے کروڑوں لوگوں کی غذائیت کا حامل، شری انیہ کا مطلب ہے ملک کے قبائلی سماج کی مہمان نوازی، شری انیہ کا مطلب ہے کم پانی سے زیادہ فصل کی پیداوار، شری انیہ کا مطلب ہے کیمیکل سے پاک کھیتی ، شری انیہ یعنی موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے میں مددگار ۔
ساتھیو،
ہم نے شری انیہ کو ایک عالمی تحریک بنانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ 2018 میں، ہم نے ملیٹس کو غذائی اناج قرار دیا تھا ۔ اس سمت میں کسانوں کو باخبرکرنے سے لے کر مارکیٹ میں دلچسپی پیدا کرنے تک ہر سطح پر کام کیا گیا۔ ہمارے ملک میں ملیٹس کی کاشت بنیادی طور پر 12-13 ریاستوں میں کی جاتی ہے۔ لیکن، ان کا گھریلو استعمال 2-3 کلوگرام فی شخص ماہانہ سے زیادہ نہیں تھا۔ آج یہ بڑھ کر 14 کلوگرام ماہانہ ہو گیا ہے۔ یعنی دو تین کلو سے بڑھ کر چودہ کلو ہو گیا ہے۔ ملیٹس کی کھانے پینے کی اشیاء کی فروخت میں بھی تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اب مختلف جگہوں پر ملیٹس کے کیفے نظر آنے لگے ہیں، ملیٹس سے متعلق پکوانوں کے لیے سوشل میڈیا چینلز بنائے جا رہے ہیں۔ ’ایک ضلع، ایک پروڈکٹ‘ اسکیم کے تحت ملک کے 19 اضلاع میں بھی ملیٹس کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ساتھیو،
ہم جانتے ہیں کہ اناج اگانے والے زیادہ تر کسان چھوٹے کسان ہیں، معمولی کسان ہیں اور کچھ لوگوں کو یہ جان کر یقیناً دھچکا لگے گا کہ ہندوستان میں تقریباً 2.5 کروڑ چھوٹے کسان ملیٹس کی پیداوار میں براہ راست شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس بہت کم زمین ہے اور انہیں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ہندوستان کا ملیٹ مشن، شری ا نیہ کے لیے شروع کی گئی یہ مہم ملک کے 2.5 کروڑ کسانوں کے لیے ایک تحفہ ثابت ہونے جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد پہلی بار 2.5 کروڑ چھوٹے کسان جو ملیٹس ا گا رہے ہیں، ان کا اتنے بڑے پیمانے پر کسی بھی حکومت نے خیال رکھا ہے۔ جب ملیٹس شری انیہ کا بازار بڑھے گا تو ان ڈھائی کروڑ چھوٹے کسانوں کی آمدنی بڑھے گی۔ اس سے دیہی معیشت کو بھی کافی فائدہ ہوگا۔ ملیٹس اب پراسیس شدہ اور پیک شدہ کھانے پینے کی اشیاء کے ذریعے دکانوں اور بازاروں تک پہنچ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں، ملک میں شری انیہ پر کام کرنے والے 500 سے زیادہ اسٹارٹ اپس بھی بن چکے ہیں۔ ایف پی اوز کی ایک بڑی تعداد اس سمت میں آگے آرہی ہے۔ خواتین سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے ملیٹس کی مصنوعات بھی بنا رہی ہیں۔ گاؤں نکل کر ، یہ مصنوعات مالز اور سپر مارکیٹوں تک پہنچ رہی ہیں۔ یعنی ملک میں ایک مکمل سپلائی چین تیار کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار بھی مل رہا ہے اور چھوٹے کسانوں کو بھی کافی مدد مل رہی ہے۔
ساتھیو،
اس وقت ہندوستان جی 20 کا صدر بھی ہے۔ ہندوستان کا نعرہ ہے – وَن ارتھ، وَن فیملی، وَن فیوچر، پوری دنیا کو ایک خاندان ماننے کا یہ جذبہ، بین الاقوامی ملیٹس سال (انٹرنیشنل ملیٹ ایئر) میں بھی جھلکتا ہے۔ دنیا کے تئیں فرض کا احساس اور انسانیت کی خدمت کا عزم ہندوستان کے ذہن میں ہمیشہ رہا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جب ہم یوگا کے ساتھ آگے بڑھے تو ہم نے یہ بھی یقینی بنایا کہ پوری دنیا کو بین الاقوامی یوگا ڈے کے ذریعے اس کے فوائد حاصل ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں یوگا کو سرکاری طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ آج دنیا کے 30 سے زیادہ ممالک نے آیوروید کو بھی تسلیم کیا ہے۔ آج، بین الاقوامی شمسی اتحاد کی شکل میں ہندوستان کی یہ کوشش پائیدار سیارے کے لیے ایک مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے اور ہندوستان کے لیے یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ 100 سے زائد ممالک آئی ایس اے میں شامل ہو چکے ہیں۔ آج، چاہے لائف مشن کی قیادت ہو ، موسمیاتی تبدیلی کے اہداف کو مقررہ وقت سے پہلے حاصل کرنا ہو، ہم اپنے ورثے سے تحریک لیتے ہیں، معاشرے میں تبدیلی لاتے ہیں، اور اسے عالمی فلاح و بہبود کے لئےسامنے لاتے ہیں۔ اور یہ چیز آج ہندوستان کی ’ملٹ موومنٹ‘ میں بھی نظر آ رہی ہے۔ شری انیہ صدیوں سے ہندوستان میں طرز زندگی کا حصہ رہا ہے۔ ہندوستان میں مختلف خطوں میں جوار، باجرہ، راگی، ساما ، کنگنی، چینا، کودو، کٹکی، کٹو جیسے کئی قسم کے اناج پائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے زرعی طریقوں، شری انیہ سے متعلق اپنے تجربات کو دنیا کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کیا نیا ہے اور دوسرے ممالک کی کیا خصوصیات ہیں۔ ہم بھی سیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے میں یہاں موجود دوست ممالک کے وزرائے زراعت سے خصوصی طور پر درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس سمت میں ایک مستحکم میکانزم تیار کریں۔ اس طریقہ کار سے آگے بڑھتے ہوئے، میدان سے بازار، ایک ملک سے دوسرے ملک، ایک نئی سپلائی چین تیار کی جائے، یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ساتھیو،
آج، اس پلیٹ فارم پر، میں ملیٹس کی ایک اور طاقت پر زور دینا چاہتا ہوں۔ یہ ملیٹس کی طاقت ہے - یہ موسمیاتی طور پر لچکدار ہے۔ ملیٹس انتہائی نامساعد موسمی حالات میں بھی آسانی سے پیدا کئے جا سکتے ہیں ۔ اسے پیدا کرنے کے لیے نسبتاً کم پانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جس سے یہ پانی کے دباؤ والے علاقوں کے لیے ایک ترجیحی فصل بن جاتی ہے۔ آپ سبھی باشعور لوگ جانتے ہیں کہ ملیٹس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے کیمیکلز کے بغیر قدرتی طور پر اگایا جاسکتا ہے۔ یعنی ملیٹس انسانوں اور مٹی دونوں کی صحت کے تحفظ کا ضامن ہے۔
ساتھیو،
جب ہم غذائی تحفظ کی بات کرتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ آج دنیا کو دو چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف گلوبل ساؤتھ ہے جو اپنے غریبوں کی غذائی تحفظ کے بارے میں فکر مند ہے۔ دوسری طرف گلوبل نارتھ کا وہ حصہ ہے جہاں کھانے کی عادات سے جڑی بیماریاں ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہیں۔ ناقص غذائیت یہاں ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یعنی ایک طرف غذائی تحفظ کا مسئلہ، اور دوسری طرف کھانے کی عادات کا مسئلہ! دونوں جگہوں پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ کاشت کے لیے کیمیکل بڑی مقدار میں استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن شری انیہ ایسے ہر مسئلے کا حل بھی بتاتا ہے ۔ زیادہ تر ملیٹس کو اگانا آسان ہے۔ اس میں لاگت بھی بہت کم ہے اور یہ دیگر فصلوں کے مقابلے جلدی تیار بھی ہو جاتی ہے۔ یہ نہ صرف غذائیت سے بھرپور ہیں بلکہ ذائقے میں بھی خاص ہیں۔ عالمی غذائی تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والی دنیا میں شری انیہ ایک عظیم تحفہ کی طرح ہے۔ اسی طرح کھانے کی عادت کا مسئلہ بھی شری انیہ سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ فائبر والی یہ غذائیں جسم اور صحت کے لیے بہت فائدہ مند سمجھی جاتی ہیں۔ یہ طرز زندگی سے متعلق بیماریوں کو روکنے میں بہت مدد کرتے ہیں۔ یعنی ذاتی صحت سے لے کر عالمی صحت تک، ہم یقینی طور پر شری انیہ کے ساتھ اپنے بہت سے مسائل کو حل کرنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
ہمارے سامنے ملیٹس کے میدان میں کام کرنے کے لامتناہی امکانات ہیں۔ آج ہندوستان میں قومی فوڈ باسکیٹ میں اناج کا حصہ صرف 5-6 فیصد ہے۔ میں ہندوستان کے سائنسدانوں، زراعت کے شعبے کے ماہرین سے درخواست کرتا ہوں کہ ہمیں اسے بڑھانے کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر سال کے لیے قابل حصول اہداف مقرر کرنا ہوں گے۔ ملک نے فوڈ پروسیسنگ سیکٹر کو فروغ دینے کے لیے پی ایل آئی اسکیم بھی شروع کی ہے۔ ملیٹس کے شعبے کو اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے، زیادہ سے زیادہ کمپنیوں کو ملیٹس کی مصنوعات بنانے کے لیے آگے آنا چاہیے، ہمیں اس خواب کی تعبیر کو یقینی بنانا ہے۔ کئی ریاستوں نے اپنے پی ڈی ایس سسٹم میں شری انیہ کو شامل کیا ہے۔ اس طرح کی کوششیں دیگر ریاستوں میں بھی شروع کی جا سکتی ہیں۔ شری انیہ کو مڈ ڈے میل میں بھی شامل کرکے، ہم بچوں کو اچھی غذائیت دے سکتے ہیں، کھانے میں نیا ذائقہ اور مختلف قسمیں شامل کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس کانفرنس میں ان تمام نکات پر تفصیلی بحث کی جائے گی اور ان پر عمل درآمد کے لیے ایک روڈ میپ بھی تیار کیا جائے گا۔ ہمارے انیہ داتا اور ہم سب کی مشترکہ کوششوں سے، شری انیہ ہندوستان اور دنیا کی خوشحالی میں نئی چمک پیدا کرے گی۔ اس خواہش کے ساتھ میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں دونوں ممالک کے قومی صدور کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمیں پیغام بھیجنے کے لیے وقت نکالا۔بہت بہت شکریہ۔