اسٹیج پر تشریف فرما گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی، وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، مرکزی وزرا کونسل کے میرے ساتھی جناب پرہلاد پٹیل جی، لوک سبھا میں میرے ساتھی پارلیمنٹرین جناب سی آر پاٹل جی، احمد آباد کے نو منتخب میئر جناب کریٹ سنگھ بھائی، سابرمتی ٹرسٹ کے ٹرسٹی جناب کارتیکیہ سارابھائی جی اور سابرمتی آشرم کے لیے وقف جن کی زندگی ہے، ایسے معزز امرت مودی جی، پورے ملک سے ہم سے جڑے تمام معززین، خواتین و حضرات اور میرے نوجوان ساتھیو!
آج جب میں صبح دہلی سے روانہ ہوا تو ایک بہت شاندار اتفاق رونما ہوا۔ امرت مہوتسو کے آغاز سے قبل آج ملک کی راج دھانی میں بھی امرت کی بارش ہوئی ، اور ورون دیو نے بھی آشیرواد دیا۔ یہ ہم سب کے لیے خوش بختی کی بات ہے کہ ہم آزاد بھارت کے اس تاریخی دور کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آج دانڈی یاترا کی سال گرہ کے موقع پر ہم باپو کے اس کرم استھل پر تاریخ بنتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں اور تاریخ کا حصہ بھی بن رہے ہیں۔ آج آزادی کے امرت مہوتسو کا آغاز ہو رہا ہے، اس کا پہلا دن ہے۔ امرت مہوتسو 15 اگست 2022 سے 75 ہفتے قبل، آج سے شروع ہو رہا ہے، جو 15 اگست 2023 تک جاری رہے گا۔ ہم مانتے ہیں کہ جب بھی ایسا موقع آتا ہے تو تمام تیرتھوں کا ایک ساتھ سنگم ہوجاتا ہے۔ آج کا دن ایک قوم کی حیثیت سے بھارت کے لیے ایک مقدس موقع ہے۔ آج ہماری جدوجہد آزادی کے کتنے ہی پنیہ تیرتھ، کتنے ہی مقدس مراکز، سابرمتی آشرم سے جڑ رہے ہیں۔
جدوجہد آزادی کی کو سلام کرنے والی انڈمان کی سیلولر جیل، اروناچل پردیش سے اینگلو انڈین وار کی شاہد کیکر موننگ کی سرزمین، ممبئی کا اگست کرانتی میدان، پنجاب کا جلیانوالہ باغ، اترپردیش کا میرٹھ، کاکوری اور جھانسی ملک بھر میں آج ایک ساتھ کتنے ہی ایسے مقامات پر اس امرت مہوتسو کا آغاز ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آزادی کے بے پناہ مجاہدے، بے شمار قربانیوں اور لاتعداد ریاضتوں کی توانائی سارے بھارت میں دوبارہ بیدار ہو رہی ہے۔ میں اس اہم موقع پر باپو کے قدموں میں گلہائے عقیدت پیش کرتا ہوں۔ میں ان تمام عظیم شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جنھوں نے جدوجہد آزادی کی راہ میں قربانیاں پیش کیں۔ میں ان تمام بہادر فوجیوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے آزادی کے بعد بھی قومی دفاع کی روایت کو زندہ رکھا، دفاع وطن کے لیے قربانیاں دیں، شہید ہوئے۔ میں ان تمام نیک روحوں کے سامنے بھی جھکتا ہوں جنھوں نے آزاد بھارت کی تعمیر نو میں ترقی کی ایک ایک اینٹ رکھی ہے، 75 برسوں میں ملک کو یہاں تک لائے ہیں، میں ان سب کے قدموں میں بھی گلہائے سلام پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
جب ہم غلامی کے اس دور کا تصور کرتے ہیں جہاں کروڑوں لوگوں نے صدیوں تک آزادی کی صبح کا انتظار کیا تو یہ احساس ہوتا ہے کہ 75 سال کی آزادی کا موقع کتنا تاریخی ہے، یہ کتنا قابل فخر ہے۔ اس مہوتسو میں ابدی بھارت کی روایت بھی ہے، جدوجہد آزادی کا عکس بھی ہے اور آزاد بھارت کی قابل فخر ترقی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب آپ کے سامنے جو پریزینٹیشن دی گئی ہے اس میں امرت مہوتسو کے پانچ ستونوں پر خصوصی زور دیا گیا ہے۔ فریڈم اسٹرگل(جدوجہد آزادی)، انڈیا ایٹ 75(بھارت، آزادی کے 75 برس بعد)، اچیومنٹس ایٹ 75(حصول یابیاں، آزادی کے 75 برس بعد)، ایکشنز ایٹ 75 (عمل ، آزادی کے 75 برس بعد)اور ریزالوز ایٹ 75(عزائم، آزادی کے 75 برس بعد)۔ یہ پانچ ستون جدوجہد آزادی کے ساتھ ساتھ ایک آزاد بھارت کے خوابوں اور فرائض کو بھی سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کی تحریک دیں گے۔ انھی پیغامات کی بنیاد پر آج امرت مہوتسو کی ویب سائٹ کے ساتھ ساتھ چرکھا ابھیان اور آتم نربھر انکوبیٹر بھی لانچ کیا گیا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم کا فخر تب تک بیدار رہتا ہے جب تک کہ وہ اگلی نسل کو بھی عزت نفس اور قربانی کی روایات سکھاتی رہتی ہے اور انھیں اس کے لیے مسلسل متحرک کرتی رہتی ہے۔ کسی قوم کا مستقبل اسی وقت روشن ہوتا ہے جب وہ اپنے ماضی کے تجربات اور ورثے کے فخر سے وابستہ ہو۔ اس کے علاوہ بھارت کے پاس فخر کرنے کے لیے ایک اتھاہ ذخیرہ ہے، ایک بھرپور تاریخ ہے، ایک شعوری ثقافتی ورثہ ہے۔ اس لیے آزادی کے 75 سال کی تکمیل کے اس موقع کو موجودہ نسل ایک امرت کی طرح حاصل کرے گی۔ ایک ایسا امرت جو ہمیں ہر دم ملک کے لیے جینے، ملک کے لیے کچھ کرنے کی تحریک دیتا رہے گا۔
ساتھیو،
ہمارے ویدوں میں ایک بات کہی گئی ہے، جس کا مفہوم ہے کہ ہم غم، پریشانی، مصیبت اور بحران سے نکل کر امرت کی طرف بڑھیں، لافانیت کی طرف بڑھیں۔ یہی آزادی کے اس امرت مہوتسو کا عزم بھی ہے۔ آزادی کا امرت، آزادی کی توانائی کا امرت، آزادی کا امرت مہوتسو، یعنی مجاہدین آزادی کا امرت۔ آزادی کا امرت مہوتسو، یعنی نئے خیالات کا امرت۔ آتم نربھرتا کا امرت۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ مہوتسو قوم کی بیداری کا مہوتسو ہے۔ یہ مہوتسو سوراج کے خواب کو پورا کرنے کا مہوتسو ہے۔ یہ مہوتسو عالمی امن کا، ترقی کا مہوتسو ہے۔
ساتھیو،
امرت مہوتسو کا افتتاح دانڈی یاترا کے دن سے کیا جارہا ہے۔ اس تاریخی لمحے کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ایک سفر ابھی شروع ہونے والا ہے۔ یہ یہ ایک حیرت انگیز اتفاق ہے کہ دانڈی یاترا کا اثر اور پیغام وہی ہے جو ملک آج امرت مہوتسو کے وسیلے سے لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ گاندھی جی کی اس ایک یاترا نے آزادی کی جدوجہد کو عوام کے لیے ایک نئی تحریک سے جوڑا تھا۔ اس ایک یاترا نے بھارت کی آزادی کے بارے میں نقطہ نظر کو پوری دنیا کے سامنے پیش کردیا تھا۔ یہ تاریخی لمحہ تھا اس لیے کہ باپو کی دانڈی یاترا میں آزادی کے عزم کے ساتھ ساتھ بھارت کے مزاج اور بھارت کی تہذیب بھی شامل تھے۔
ہمارے ہاں نمک کو کبھی اس کی قیمت سے نہیں آنکا گیا۔ ہماری ہاں نمک کے معنی ہوتے ہیں ایمانداری۔ ہمارے ہاں نمک کا مطلب ہوتا ہے اعتماد۔ ہمارے یہاں نمک کا مطلب ہوتا ہے وفاداری۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ ہم نے ملک کا نمک کھایا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ نمک ایک بہت قیمتی چیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نمک محنت اور مساوات کی علامت ہے۔ نمک اُس دور میں بھارت کی آتم نربھرتا کی علامت تھا۔ انگریزوں نے بھارت کی اقدار کے ساتھ ساتھ اس آتم نربھرتا کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ بھارت کے لوگوں کو برطانیہ سے آنے والے نمک پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ گاندھی جی نے ملک کے اس پرانے درد کو سمجھا اور عوام کی نبض پکڑ لی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہر بھارتی کی تحریک بن گئی اور ہر بھارتی کا عزم بن گئی۔
ساتھیو،
اسی طرح جدوجہد آزادی میں بھی مختلف لڑائیاں، مختلف واقعات، الگ الگ ملتے ہیں، تحریکات ملتی ہیں جنھیں آج کا بھارت اپنا کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ 1857 کی جدوجہد آزادی، مہاتما گاندھی کی بیرون ملک سے واپسی، ملک کو ستیہ گرہ کی طاقت پھر یاد دلانا، لوکمانیہ تلک کا مکمل سوراج قائم کرنے کا عزم ، نیتا جی سبھاش چندر بوس کی قیادت میں آزاد ہند فوج کا دلی مارچ، دلی چلو، آج بھی بھارت اس نعرے کو نہیں بھول سکتا۔ 1942 کی ناقابل فراموش تحریک، انگریزو بھارت چھوڑو، بہت سے سنگ میل ہیں جن سے ہم تحریک پاتے ہیں، توانائی لیتے ہیں۔ کتنے ہی مجاہدین آزادی ہیں جن سے ملک ہر روز احسان مندی کا اظہار کرتا ہے۔
1857 کے انقلاب کے منگل پانڈے، تانتیا ٹوپے جیسے بہادر ہوں، رانی لکشمی بائی ہوں جو برطانوی فوج کے سامنے نڈر ہوکر لڑیں، کتور کی رانی رانی چنناما ہوں، رانی گائیڈنلو ہوں، چندر شیکھر آزاد، رام پرساد بسمل، بھگت سنگھ، سکھدیو راج گرو، اشفاق اللہ خان، گرو رام سنگھ، ٹیٹوس جی، پال راماسامی جیسے شجاع ہوں، یا پھر پنڈت نہرو، سردار پٹیل، بابا صاحب امبیڈکر، سبھاش چندر بوس، مولانا آزاد، خان عبدالغفار خان، ویر ساورکر جیسے ان گنت عوامی ہیرو! یہ تمام عظیم شخصیات تحریک آزادی کی علمبردار ہیں۔ آج بھارت کو انھی کے خوابوں کا بھارت بنانے کے لیے ہم اجتماعی عزم کر رہے ہیں، ان سے تحریک لے رہے ہیں۔
ساتھیو،
ہماری جدوجہد آزادی میں ایسی بھی بہت سی تحریکیں ہیں، کتنے ہی جدو جہد کے واقعات ہیں جو ملک کے سامنے اس طرح سامنے نہیں آئے جس طرح انھیں آنا چاہیے تھا۔ یہ ایک ایک جدوجہد، لڑائی اپنے آپ میں بھارت کے ناحق کے خلاف حق کا طاقتور اعلان ہے، یہ جدوجہد بھارت کی آزاد فطرت کا ثبوت ہے، یہ جدوجہد اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ناانصافی، استحصال اور تشدد کے خلاف بھارت کا شعور جو رام کے دور میں تھا، مہابھارت کے کروکشیتر میں تھا، ہلدی گھاٹی کے میدان جنگ میں تھا، شیواجی کے اعلان جنگ میں تھا، وہی ابدی شعور، وہی ناقابل تسخیر شجاعت، بھارت کے ہر خطہ، ہر طبقے اور ہر معاشرہ نے جدوجہد آزادی میں اپنے اندر زندہ رکھا۔ جننی جنم بھومی، سورگ دپی گریسی، یہ منتر آج بھی ہمیں تحریک دیتا ہے۔
آپ ہماری اس تاریخ کو دیکھیں، کول تحریک ہو، 'ہو جد وجہد' ہو، کھاسی تحریک ہو یا سنتھال انقلاب، کچھوہا کچھار ناگا جدوجہد ہو یا کوکا تحریک، بھیل تحریک ہو یا منڈا کرانتی، سنیاسی تحریک ہو یا راموسی تحریک، کتور تحریک، تراونکور تحریک، باردولی ستیہ گرہ، چمپارن ستیہ گرہ، سمبھل پور جدوجہد، چوآر جدوجہد، بندیل جدوجہد، ملک کے ہر حصے میں ہونے والے اس طرح کے کتنے ہی واقعات اور تحریکوں نے ہر دور میں آزادی کی جوت کو بھڑکائے رکھا۔ اس دوران ہمارے سکھ گرو وں کی روایت نے ہمیں ملک کی ثقافت، اس کے رسم و رواج کے تحفظ کے لیے نئی توانائی، تحریک، قربانی اور ایثار کا راستہ دکھایا۔ اور اس کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جسے ہمیں بار بار یاد کرنا چاہیے۔
ساتھیو،
تحریک آزادی کی اس جوت کو مستقل بیدار رکھنے کا کام، مشرق مغرب شمال جنوب، ہر سمت، ہر دائرے میں، ہمارے سنتوں، مہنتوں، آچاریوں نے کیا۔ بھکتی تحریک نے ایک طرح سے ملک گیر تحریک آزادی زمین تیار کی تھی۔ ماضی میں چیتنیہ مہاپربھو، رام کرشن پرم ہنس اور سریمنتا شنکر دیو جیسے سنتوں کے نظریات نے سماج کو راہ دکھائی اور اپنے مقصد پر مرکوز رکھا۔ مغرب میں میرا بائی، ایکناتھ، تکارام، رام داس، شمال میں نرسی مہتا، سنت رامانند، کبیرداس، گوسوامی تلسی داس، سور داس، گرو نانک دیو، سنت رام داس، جنوب میں مدھواچاریہ، نمبارکاچاریہ، ولبھاچاریہ، رامانجاچاریہ، بھکتی دور کے اسی حصے میں ملک محمد جائسی، رس خان، سورداس، کیشوداس، ودیاپتی جیسی ہستیوں نے سماج میں اپنی تخلیقات سے سماج کو اپنی خامیوں کو دور کرنے کی ترغیب دی۔
ایسی بہت سی ہستیوں کی وجہ سے یہ تحریکیں خطے کی سرحد سے نکل کر پورے بھارت کے عوام کو متاثر کر گئیں۔ آزادی کی ان بے شمار تحریکوں میں بہت سے جنگجو، سنت، بہت سے بہادروں نے قربانیاں پیش کیں جن کی ایک ایک داستان بذات خود تاریخ کا ایک سنہری باب ہے! ہمیں ان عظیم ہیروز، عظیم ہیروئنوں، ان کی زندگی کی تاریخ کو ملک تک پہنچانا ہے۔ ان لوگوں کی زندگی کے کارنامے، ان کی زندگی کی جدوجہد، ہماری تحریک آزادی کے اتار چڑھاو، کبھی کامیابی، کبھی ناکامی، ہماری نسل کو زندگی کا ہر سبق سکھائے گی۔ یکجہتی کیا ہوتی ہے، مقصد کے حصول کی ضد کیا چیز ہے، زندگی کا ہر رنگ، وہ اور بہتر طریقے سے سمجھیں گے۔
بھائیو اور بہنو،
آپ کو یاد ہوگا کہ اس سرزمین کے بہادر سپوت شیام جی کرشنا ورما برطانوی سرزمین پر رہ کر ان کی ناک کے نیچے، زندگی کی آخری سانس تک آزادی کی جدوجہد کرتے رہے۔ لیکن ان کی استھیاں سات دہائیوں تک انتظار کرتی رہیں کہ کب انھیں بھارت ماتا کی گود نصیب ہوگی۔ آخر کار 2003 میں، میں نے شیام جی کرشنا ورما کی استھیاں بیرون ملک سے اپنے کندھے پر اٹھاکر لے آیا۔ ایسے کتنے ہی مجاہدین آزادی ہیں جنھوں نے سب کچھ ملک کے لیے تج دیا تھا۔ ملک کے کونے کونے سے کتنے ہی دلت، آدی واسی، خواتین اور نوجوان ہیں جنھوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ یاد کیجیے کہ تامل ناڈو کے 32 سالہ نوجوان کوڈی کاتھ کمرن کو انگریزوں نے اس کے سر میں گولی ماری تھی لیکن اس نے مرتے ہوئے بھی ملک کا پرچم زمین پر گرنے نہیں دیا تھا۔ تمل ناڈو میں ان کے نام کے ساتھ ہی کوڈی کاتھ لفظ کا اضافہ کردیا گیا جس کا مطلب ہوتا ہے پرچم کو بچانے والا! تمل ناڈو کی ہی ویلو ناچیار انگریزی حکومت کے خلاف لڑنے والی پہلی ملکہ تھیں۔
اسی طرح ہمارے ملک کے قبائلی معاشرے نے اپنی بہادری اور شجاعت سے غیر ملکی حکومت کو گھٹنوں تک لانے کے لیے مسلسل جدو جہد کی تھی۔ جھارکھنڈ میں بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں کو للکارا، مرمو برادران نے سنتھال تحریک کی قیادت کی۔ اڈیشہ میں چکرا بسوئی نے جنگ لڑی اور لکشمن نائک نے گاندھیائی طریقوں سے بیداری پیدا کی ۔ آندھرا پردیش میں منیم ویرو یعنی جنگلوں کے ہیرو الوری سررام راجو نے رمپ تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ پاسلتھیرا کھنگچیرا نے میزورم کی پہاڑیوں میں انگریزوں سے لوہا لیا۔ اسی طرح آسام اور شمال مشرق سے گومدھر کونور، لست بورفوکن اور سیرت سنگھ جیسے بہت سے آزادی کے متوالے موجود تھے جنھوں نے ملک کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ یہاں گجرات میں وڈودرا کے پاس جامبو گھڑوا جانے کے راستے پر ہمارے ہیرو قوم کے آدی واسیوں کی قربانی کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں جنھوں نے مان گڑھ میں گورو گووند سنگھ کی قیادت میں لڑائی لڑی جس میں سیکڑوں آدی واسیوں نے اپنی جان نچھاور کردی۔ ملک ان کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔
ساتھیو،
ماں بھارتی کے ایسے ہی سپوتوں کی تاریخ ملک کے کونے کونے میں گاؤں اور گاؤں میں موجود ہے۔ ملک گزشتہ چھ سالوں سے تاریخ کے اس فخر کو بچانے کے لیے شعوری کوششیں کر رہا ہے۔ ہر ریاست، ہر شعبے میں اس سمت میں کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دانڈی یاترا سے وابستہ مقام کی بحالی کو ملک نے دو سال قبل مکمل کیا تھا۔ مجھے خود بھی اس موقع پر دانڈی جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انڈمان میں جہاں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ملک کی پہلی آزاد ہند حکومت بنا کر ترنگا لہرایا تھا، ملک نے اس بھولی ہوئی تاریخ کو بھی ایک عظیم الشان شکل دی ہے۔ انڈمان اور نکوبار کے جزائر کا نام جدوجہد آزادی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ آزاد ہند حکومت کے 75 سال مکمل ہونے پر لال قلعہ پر بھی تقریب کا انعقاد کیا گیا، ترنگا لہرایا گیا اور نیتا جی سبھاش بابو کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ گجرات میں سردار پٹیل کا دنیا کا بلند ترین مجسمہ دنیا بھر میں ان کے لافانی فخر کو پہنچا رہا ہے۔ جلیانوالہ باغ میں یادگار یا پائیکا تحریک کی یاد میں یادگار پر کام کیا گیا ہے۔ بابا صاحب سے وابستہ مقامات جنھیں کئی دہائیوں سے بھلا دیا گیا تھا، انھیں بھی ملک نے پنچ تیرتھ کے نام سے تیار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں عجائب گھر بنانے کی کوشش شروع کی گئی ہے اور قبائلی آزادی کے جنگجوؤں کی تاریخ کو ملک کے سامنے لانے، آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ہماری قبائلی جدوجہد کی کہانیوں کو جوڑنے کے لیے ایک میوزیم بنانے کی کوشش شروع کی گئی ہے۔
ساتھیو،
تحریک آزادی کی تاریخ کی طرح آزادی کے بعد کا 75 سالہ سفر بھی عام بھارتیوں کی محنت، جدت طرازی، صنعت کاری کا عکاس ہے۔ ہم بھارت میں رہے ہوں، یا بیرون ملک، ہم نے اپنی محنت سے خود کو ثابت کیا ہے۔ ہمیں اپنے آئین پر فخر ہے۔ ہمیں اپنی جمہوری روایات پر فخر ہے۔ جمہوریت کی ماں یعنی بھارت اب بھی جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ علوم و سائنس سے مالا مال بھارت آج مریخ سے لے کر چاند تک اپنا نشان چھوڑ رہا ہے۔ آج بھارتی فوج کی طاقت بے پناہ ہے، معاشی طور پر ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج بھارت کا اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم دنیا کے لیے کشش کا مرکز بنا ہے، یہ گفتگو کا ایک موضوع بن گیا ہے۔ آج دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر بھارت کی صلاحیت اور بھارت کی صلاحیتوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ آج بھارت 130 کروڑ سے زائد امنگوں کو پورا کرنے کے لیے محرومی کے اندھیروں سے نکل رہا ہے۔
ساتھیو،
یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ آزاد بھارت کے 75 سالوں اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی پیدائش کے 125 سالوں کی تکمیل ایک ساتھ منارہے ہیں۔ یہ امتزاج نہ صرف تاریخوں بلکہ ماضی اور مستقبل کے بھارت کے وژن کا بھی ایک حیرت انگیز امتزاج ہے۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے کہا تھا کہ بھارت کی جدوجہد آزادی نہ صرف برطانوی سامراج کے خلاف ہے بلکہ عالمی سامراج کے بھی خلاف ہے۔ نیتا جی نے بھارت کی آزادی کو پوری انسانیت کے لیے ضروری قرار دیا تھا۔ نیتا جی کی یہ بات وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئی۔ بھارت آزاد ہوا تو دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی آزادی کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں اور بہت کم وقت میں سامراج کا دائرہ سمٹ ہو گیا۔ ساتھیو، آج بھی بھارت کی کامیابیاں صرف ہماری اپنی نہیں ہیں بلکہ وہ پوری دنیا کو روشن کرنے جا رہی ہیں، تاکہ پوری انسانیت کو امیدیں بیدار کی جا سکیں۔ بھارت کی آتم نربھرتا کے ساتھ ہماری ترقی کا سفر پوری دنیا کی ترقی کے سفر کو تیز کرنے والا ہے۔
کورونا دور میں یہ ہمارے سامنے واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے۔ ویکسین سازی میں بھارت کی آتم نربھرتا آج پوری دنیا کو انسانیت کو وبا کے بحران سے نکالنے میں فائدہ پہنچا رہی ہے۔ آج بھارت کے پاس ویکسین کی طاقت ہے اس لیے ہم وسودیو کٹمبکم کے جذبے سے سب کے دکھ کو دور کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کے دکھوں کو کم کرنے میں خود کو کھپا رہے ہیں۔ یہ بھارت کا فلسفہ ہے، یہ بھارت کا ابدی فلسفہ ہے، یہ آتم نربھر بھارت کا فلسفہ بھی ہے۔ آج دنیا کے ممالک بھارت پر اعتماد کرتے ہوئے بھارت کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ نئے بھارت کے طلوع آفتاب کی پہلی کرن ہے، یہی ہمارے عظیم الشان مستقبل کی پہلی کرن ہے۔
ساتھیو،
گیتا میں بھگوان شری کرشن نے کہا ہے کہ "سم دکھ سکھم دھیرم سہ امرت وای کلپتے۔ یعنی جو لوگ سکھ دکھ، آرام اور چیلنجون کے درمیان بھی صر و تحمل کے ساتھ اٹل اور پر عزم رہتے ہیں وہی ابدیت کو حاصل کرتے ہیں۔ وہی امرت حاص کرتے ہیں۔ امرت مہوتسو سے بھارت کے روشن مستقبل کا امرت حاصل کرنے کے ہمارے راستے میں یہی منتر ہماری تحریک ہے۔ آئیے ہم سب عزم مصمم کرکے اس قومی یگیہ میں اپنا کردار ادا کریں۔
ساتھیو،
آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران اہل وطن کی تجاویز سے، ان کے بنیادی نظریات سے، بے شمار آئیڈیاز حاصل ہوں گے۔ کچھ باتیں ابھی جب میں آ رہا تھا تو میرے ذہن میں بھی چل رہی تھیں۔ عوامی حصہ داری، عوام کو جوڑنا، ملک کا کوئی شہری ایسا نہ ہو جو اس امرت مہوتسو کا حصہ نہ بنے۔ اب جیسے مان لیجیے ہم ایک چھوٹی سی مثال دیتے ہیں، تمام اسکول کالج، آزادی سے متعلق 75 واقعات مرتب کریں، ہر اسکول فیصلہ کرے کہ ہمارا اسکول آزادی کے 75 واقعات مرتب کرے گا، 75 گروپ تشکیل دے گا، ان واقعات پر 75 طلبا 75 گروپ، جن میں 800، ہزار، دو ہزار طالب علم ہو سکتے ہیں، تشکیل دے، ایک اسکول یہ کام کر سکتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہمارے ششو مندر کے بچے ہوتے ہیں، بال مندر کے بچے ہوتے ہیں، تحریک آزادی سے وابستہ 75 عظیم آدمیوں کی فہرست بنائیں، ان کے ملبوسات پہنیں، ان کا ایک ایک جملہ بولیں، اس کا مقابلہ ہو، اسکولوں میں بھارت کے نقشے پر تحریک آزادی سے وابستہ 75 مقامات ہوں، بچوں سے کہا جائے کہ بتائیں کہ بارڈولی کہاں آیا؟ چمپارن کہاں آیا؟ لاء کالجوں کے طلبا و طالبات ایسے 75 واقعات تلاش کریں، اور میں ہر کالج پر زور دوں گا، ہر لاء اسکول سے درخواست کروں گا کہ وہ 75 ایسے واقعات تلاش کریں جو تحریک آزادی کے دوران قانونی جنگ جو اس وقت جاری تھی تب قانونی لڑائی کس طرح لڑی گئی؟ قانونی جنگ کیسے ہوئی؟ قانونی جنگ لڑنے والے کون لوگ تھے؟ آزادی کے ہیروز کو بچانے کی کوششیں کیسے کی گئیں؟ سلطنت برطانیہ کی عدلیہ کا رویہ کیا تھا؟ ہم تمام چیزیں لکھ سکتے ہیں۔ جن کی دل چسپی ڈرامہ میں ہو وہ ڈرامہ لکھیں۔ فائن آرٹس کے طالب علم ان واقعات پر پینٹنگز بنائیں۔ جس کا دل چاہے وہ گیت لکھے، نظمیں لکھے۔ یہ سب شروع میں ہاتھ سے لکھا ہو۔ بعد میں اسے ڈیجیٹائز بھی کیا جانا چاہیے اور میں چاہوں گا کہ ہر اسکول کالج کی یہ کوشش ہو کہ یہ کام اسی 15 اگست سے پہلے پورا کرلیا جائے۔ آپ دیکھیے کہ نظریاتی بنیاد پوری طرح تیار ہوجائے گی۔ بعد میں ان پر ضلع گیر، ریاست گیر، ملک گیر مقابلوں کا بھی انعقاد کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے نوجوان، ہمارے اسکالر یہ ذمہ لیں کہ وہ مجاہدین آزادی کی تاریخ لکھنے میں ملکی کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ تحریک آزادی میں اور اس کے بعد ہمارے معاشرے کی جو حصولیابیاں ہیں انھیں اور فخر سے دنیا کے سامنے لائیں گے۔ میں آرٹ لٹریچر، ڈرامہ، فلمی دنیا اور ڈیجیٹل انٹرٹینمنٹ سے وابستہ لوگوں سے بھی درخواست کروں گا کہ ہمارے ماضی میں کتنی ہی منفرد کہانیاں بکھری ہوئی ہیں، انھیں دریافت کریں، زندہ کریں، آنے والی نسل کے لیے انھیں تیار کریں۔ ہمارے نوجوانوں کو ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی تعمیر کی ذمہ داری لینا ہوگی۔ سائنس ہو، ٹیکنالوجی ہو، میڈیکل ہو، سیاست ہو، آرٹ ہو یا ثقافت، آپ جس شعبے میں بھی ہوں، اپنے شعبے کا کَل آںے والا کل، بہتر کیسے ہو، اس کے لیے کوشش کیجیے۔
مجھے یقین ہے کہ 130 کروڑ اہل وطن آزادی کے اس امرت مہوتسو میں شامل ہوں گے، لاکھوں مجاہدین آزادی سے تحریک پائیں گے تو بھارت بڑَ بڑے اہداف کو پورا کرکے رہے گا۔ اگر ملک کے لیے، سماج کے لیے ہر بھارتی اگر ایک قدم چلتا ہے تو ملک 130 کروڑ قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ بھارت ایک بار پھر آتم نربھر بنے گا اور دنیا کو ایک نئی سمت کا دکھائے گا۔ ان نیک خواہشات کے ساتھ، آج جو لوگ دانڈی یاترا کے لیے جا رہے ہیں، بڑَ تام جھام کے بغیر ایک طرح سے چھوٹی سی شکل میں ایک آغاز ہورہا ہے۔ لیکن جیسے جیسے دن بیتیں گے، ہم 15 اگست کے قریب پہنچیں گے، ویسے ویسے یہ پورے بھارت کا احاطہ کر لے گا۔ ایسا بڑا مہوتسو بن جائے گا۔ اس کا مجھے یقین ہے۔ ہر شہری کے پاس ایک عزم ہوگا، ہر ادارے کے پاس عزم ہوگا، ہر تنظیم کا عزم ہوگا ملک کو آگے لے کر جانے کا۔ آزادی کے دیوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا یہی صحیح طریقہ ہوگا۔
میں انھی خواہشات کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں! میرے ساتھ بولیے
بھارت ماتا کی........ جے! بھارت ماتا کی........ جے! بھارت ماتا کی........ جے!
وندے......... ماترم! وندے......... ماترم! وندے......... ماترم!
جے ہند ...... جے ہند! جے ہند ...... جے ہند! جے ہند ...... جے ہند!