گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، مختلف ریاستی حکومتوں کے وزراء، اسٹارٹ اپس کی دنیا سے تعلق رکھنے والے تمام ساتھی، طالب علم دوست، دیگر معززین، خواتین و حضرات،
میں اس اہم تقریب ’سینٹر- اسٹیٹ سائنس کانکلیو‘ میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔آج کے نئے بھارت میں ’سب کا پریاس‘ کے جس جذبے کو لے کر ہم چل رہے ہیں یہ پروگرام اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
ساتھیو،
اکیسویں صدی کے ہندوستان کی ترقی میں سائنس اس توانائی کی طرح ہے، جس میں ہر خطے، ہر ریاست کی ترقی کو تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔ آج جب ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے، ہندوستان کی سائنس اور اس شعبے سے وابستہ لوگوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ایسے میں پالیسی سازوں اور حکومت و انتظامیہ سے وابستہ افراد کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ احمد آباد کے سائنس سٹی میں ہونے والا یہ منتھن یعنی غور و خوض آپ کو ایک نئی تحریک دے گا، آپ کو سائنس کی حوصلہ افزائی کے لیے جوش و خروش سے بھر دے گا۔
ساتھیو،
ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے – گیانم وگیان سہیتم یت گیاتوا موکشیتے اشوبھات۔ یعنی جب علم کو سائنس کے ساتھ ملایا جاتا ہے، جب ہم علم اور سائنس سے آشنا ہوتے ہیں تو دنیا کے تمام مسائل اور پریشانیوں سے آزادی کا راستہ خود بخود کھل جاتا ہے۔ حل کی، سالیوشن کی، ایوولیوشن کی اور انوویشن کی بنیاد سائنس ہی ہے۔ اسی ترغیب کے ساتھ آج کا نیا ہندوستان، جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان کے ساتھ ساتھ جئے انوسندھان کی پکار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
ساتھیو،
ماضی کا ایک اہم پہلو ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ تاریخ کا وہ سبق، مرکز اور ریاست دونوں کے لئے، مستقبل کی راہ طے کرنے میں بہت معاون ہوگا۔ اگر ہم پچھلی صدی کی ابتدائی دہائیوں کو یاد کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا کس طرح تباہی اور المیے کے دور سے گزر رہی تھی۔ لیکن اس وقت بھی مشرق ہو یا مغرب، ہر جگہ سائنسدان اپنی عظیم دریافت میں مصروف تھے۔ مغرب میں آئنسٹائن، فرمی، میکس پلانک، نیلس بور، ٹیسلا جیسے کئی سائنسدان اپنے تجربات سے دنیا کو حیران کر رہے تھے۔ اسی عرصے میں سی وی رمن، جگدیش چندر بوس، ستیندر ناتھ بوس، میگھناد ساہا، ایس چندر شیکھر جیسے ان گنت سائنسدان اپنی نئی دریافتوں کے ساتھ آگے آرہے تھے۔ ان تمام سائنسدانوں نے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے راستے کھولے ہیں۔ لیکن مشرق اور مغرب میں ایک بڑا فرق یہ تھا کہ ہم نے اپنے سائنسدانوں کے کام کو اتنا سلبریٹ نہیں کیا جتنا کیا جانا چاہیے تھا۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے ایک بڑے حصے میں سائنس کے حوالے سے بے حسی پیدا ہوگئی۔ ایک بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ جب ہم فن کو سلبریٹ کرتے ہیں، تو ہم مزید نئے فنکاروں کو ترغیب بھی دیتے ہیں، پیدا بھی کرتے ہیں۔ جب ہم کھیل کو سلبریٹ کرتے ہیں تو ہم نئے کھلاڑیوں کو راغب بھی کرتے ہیں اور نئے کھلاڑی کو پیدا بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم اپنے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں تو سائنس ہمارے معاشرے کا فطری حصہ بن جاتی ہے، ثقافت کا حصہ بن جاتی ہے۔ تو آج میری پہلی گزارش یہ ہے، آپ تمام ریاستوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کے سائنسدانوں کی کامیابیوں کا جشن منائیں، ان کی تعریف کریں، ان کی مدح سرائی کریں۔
قدم قدم پر ہمارے ملک کے سائنسدان بھی اپنی دریافت سے ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آپ سوچیں، آج اگر ہندوستان کورونا کی ویکسین بنانے میں کامیاب ہو گیا ہے، 200 کروڑ سے زیادہ ویکسین کی خوراکیں لگانے میں کامیاب ہو گیا ہے، تو اس کے پیچھے ہمارے سائنسدانوں کی کتنی بڑی طاقت ہے۔ اسی طرح آج ہندوستان کے سائنسدان ہر میدان میں کمال کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے سائنسدانوں کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے ملک میں سائنس کی طرف رجحان اس امرت کال میں ہماری بہت مدد کرے گا۔
ساتھیو،
مجھے خوشی ہے کہ ہماری حکومت سائنس پر مبنی ترقی کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ 2014 سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کی کوششوں کی وجہ سے آج ہندوستان گلوبل انوویشن انڈیکس میں چھیالیسویں نمبر پر ہے، جب کہ 2015 میں ہندوستان 81ویں نمبر پر تھا۔ ہم اتنے کم وقت میں 81 سے 46 پر آ گئے ہیں، لیکن یہاں رکنا نہیں ہے، ہمیں ابھی اور اوپر جانا ہے۔ آج ہندوستان میں ریکارڈ تعداد میں پیٹنٹ ہورہے ہیں، نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ آج سائنس کے میدان سے بہت سارے اسٹارٹ اپ اس کانکلیو میں ہمارے یہاں آئے ہیں۔ ملک میں اسٹارٹ اپ کی لہر بتا رہی ہے کہ تبدیلی کتنی تیزی سے آرہی ہے۔
ساتھیو،
سائنس ٹیکنالوجی اور اختراع آج کی نوجوان نسل کے ڈی این اے میں ہے۔ وہ بہت تیزی سے ٹیکنالوجی کو ایڈاپٹ کرلیتی ہے۔ ہمیں اپنی پوری قوت سے اس نوجوان نسل کا ساتھ دینا ہے۔ آج کے نئے ہندوستان میں نوجوان نسل کے لیے تحقیق اور اختراع کے میدان میں نئے شعبے بن رہے ہیں، نئے شعبے کھل رہے ہیں۔ خلائی مشن ہو، ڈیپ اوشین مشن ہو، نیشنل سپر کمپیوٹنگ مشن ہو، سیمی کنڈکٹر مشن ہو، مشن ہائیڈروجن ہو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، ایسے بہت سے مشنوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس بات پر بھی خصوصی زور دیا گیا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم طالب علم کو اس کی مادری زبان میں فراہم کی جا سکے۔
ساتھیو،
ہندوستان کو تحقیق اور اختراع کا عالمی مرکز بنانے کے لیے ہم سب کو اس امرت کال میں کئی محاذوں پر مل کر کام کرنا ہے۔ ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اپنی تحقیق کو مقامی سطح تک لے جانا ہے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ریاست اپنے مقامی مسائل کے مطابق مقامی حل نکالنے کے لیے جدت طرازی پر توجہ مرکوز کرے۔ اب جیسے تعمیرات کی ہی مثال لے لیں۔ ہمالیہ کے علاقوں میں جو ٹیکنالوجی موزوں ہے ضروری نہیں کہ مغربی گھاٹ میں بھی وہ اتنی ہی موثر ہو۔ صحراؤں کے اپنے چیلنجز ہیں اور ساحلی علاقوں کے اپنے مسائل ہیں۔ اسی لیے آج ہم سستی رہائش کے لیے لائٹ ہاؤس پروجیکٹوں پر کام کر رہے ہیں، جن میں بہت سی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہیں، ان کو آزمایا جا رہا ہے۔ اسی طرح، ہم موسمیاتی نقطہ نظر سے لچکدار فصلوں کے تعلق سے جتنے زیادہ مقامی ہوں گے، ہم اتنا ہی بہتر حل دے سکیں گے۔ سرکلر اکانومی میں سائنس بھی ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے، ہمارے شہروں سے نکلنے والا جو ویسٹ پروڈکٹ ہے، اس کی ریسائیکلنگ میں، سرکلر ایکونومی میں بھی سائنس کا بڑا کردار ہے۔ ایسے ہر چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ریاست سائنس، اختراع اور ٹیکنالوجی سے متعلق ایک جدید پالیسی بنائے اور اس پر عمل درآمد کرے۔
ساتھیو،
بحیثیت حکومت ہمیں اپنے سائنسدانوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کوآپریٹ اور کولیبریٹ کرنا ہوگا، اسی سے ملک میں سائنسی جدیدیت کی فضا مزید بہتر ہوگی۔ اختراعات کی حوصلہ افزائی کے لیے ریاستی حکومتوں کو زیادہ سے زیادہ سائنسی اداروں کی تشکیل اور طریقہ کار کو آسان بنانے پر زور دینا چاہیے۔ ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اختراعی لیب کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے۔ آج کل ہائپر اسپیشلائزیشن کا دور چل رہا ہے۔ ریاستوں میں بین الاقوامی سطح کی اسپیشلسٹ لیباریٹریز قائم ہو رہی ہیں، اس کی ضرورت بھی بہت ہے۔ اس میں ہماری حکومت مرکزی سطح پر، قومی اداروں کی مہارت کی سطح پر ہر طرح سے مدد کے لیے تیار ہے۔ اسکولوں میں جدید سائنس لیب کے ساتھ ساتھ ہمیں اٹل ٹنکرنگ لیب بنانے کی مہم کو بھی تیز کرنا ہے۔
ساتھیو،
ریاستوں میں قومی سطح کے کئی سائنسی ادارے ہیں، قومی لیبارٹریز بھی ہیں۔ ریاستوں کو ان کی صلاحیت اور مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں اپنے سائنس سے متعلق اداروں کو بھی سائلوس کی حالت سے نکالنا ہوگا۔ ریاست کی صلاحیتوں اور وسائل کے بہتر استعمال کے لیے تمام سائنسی اداروں کا بہترین استعمال یکساں ضروری ہے۔ آپ کو اپنی ریاست میں ایسے پروگراموں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا چاہیے، جو ہم سب کو نچلی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں آگے لے جائیں۔ لیکن اس میں بھی ہمیں ایک بات ذہن میں رکھنی ہوگی۔ اب جیسے کئی ریاستوں میں سائنس فیسٹول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بہت سے اسکول اس میں حصہ نہیں لیتے۔ ہمیں اس مقصد پر کام کرنا چاہیے، زیادہ سے زیادہ اسکولوں کو سائنس فیسٹول کا حصہ بنانا چاہیے۔ آپ تمام وزراء کو میرا مشورہ ہے کہ اپنی ریاست کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں کے ’سائنس نصاب‘ پر بھی گہری نظر رکھیں۔ دوسری ریاستوں میں جو بھی اچھا ہے، آپ اسے اپنے یہاں دوہرا سکتے ہیں۔ ملک میں سائنس کو فروغ دینے کے لیے ہر ریاست میں سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیر یکساں ضروری ہے۔
ساتھیو،
ہندوستان کا تحقیقی اور اختراعی ماحولیاتی نظام، دنیا میں بہترین ہو، امرت کال میں ہمیں اس کے لیے پوری ایمان داری کے ساتھ لگنا ہوگا۔ اس سمت میں یہ کانکلیو بامعنی اور بروقت حل کے ساتھ سامنے آئے گا، انہی نیک تمناؤں کے ساتھ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے اس منتھن سے سائنس کی ترقی میں نئی جہتیں شامل ہوں گی، نئی عزائم جڑیں گے اور ہم سب مل کر آنے والے دنوں میں اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے، اس موقع کو کسی بھی صورت میں ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس انتہائی قیمتی 25 سال ہیں۔ یہ 25 سال ہندوستان کو دنیا میں ایک نئی شناخت، نئی طاقت، نئی صلاحیت کے ساتھ کھڑا کریں گے۔ اور اس لئے ساتھیو، آپ کا یہ وقت صحیح معنوں میں آپ کی ریاست کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک طاقت دینے والا بننا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس منتھن سے وہ امرت نکال کرکے جائیں گے جو امرت آپ کی اپنی اپنی ریاست میں متعدد ریسرچ کے ساتھ ملک کی ترقی سے جڑے گا۔
بہت بہت مبارکباد! بہت بہت شکریہ!