وزیر اعظم نے مجاہدین آزادی اور 'آپریشن وجے' کےجانبازوں کو مبارکبادپیش کی
گوا کے لوگوں نے آزادی اور سوراج کی تحریکوں کو سست پڑنے نہیں دیا۔ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ میں آزادی کے شعلے کو سب سے طویل عرصے تک روشن رکھا
"ہندوستان ایک روح ہے جہاں قوم 'خود' سے بالاتر اور سب سےمقدم ہے، جہاں صرف ایک ہی منتر ہے – قوم پہلے، جہاں صرف ایک ہی عزم ہے – ایک بھارت، شریشٹھ بھارت
اگر سردار پٹیل چند سال اور زندہ رہتے تو گوا کو آزادی کے لیے اتنا انتظار نہیں کرنا پڑتا
"ریاست کی نئی شناخت یہ ہے کہ وہ حکمرانی کے ہر کام میں سب سے آگے ہے۔ دوسری جگہوں پر، جب کام شروع ہوتا ہے، یا کام میں پیش رفت ہوتی ہے، تو گوا اسےپورا کر دیتا ہے"
وزیر اعظم نے پوپ فرانسس کے ساتھ ملاقات اور ہندوستان کے تنوع اور متحرک جمہوریت کے تئیں ان کے پیار کو یاد کیا
"قوم نے منوہر پاریکر میں گوا کے کردار کی ایمانداری،ہنراورتندہی کا عکس دیکھا تھا"

بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، سمیست گوئینکار بھاوا۔بھےڑینک، مایے موگاچو یووکار! اس تاریخی پروگرام میں موجود گوا کے گورنر جناب پی ایس شری دھرن پلئی جی، گوا کے فعال وزیر اعلیٰ پرمود ساونت جی، نائب وزیر اعلیٰ چندرکانت کاؤلیکر جی، منوہر ازگاؤں کر جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون شری پد نائک جی، گوا اسمبلی کے اسپیکر راجیش پٹنے کر جی، حکومت گوا کے تمام وزراء حضرات، عوامی نمائندگان، تمام عہدیداران اور گوا کے میرے بھائیو بہنو!

مہجیا موگال گوئنکارانو، گوئیں موکتیچیا، ہِرک مہوتسوی ورسا نمتان، تمکا سگلیانک، منا کالجاساون پربیں! سیمان نٹلیلیا، موگال من شانچیا، ہِیا، بھانگرالیا، گویانت، ییون مہاکا کھوپ کھوس بھوگتا! گوا کی سرزمین کو، گوا کی فضا کو، گوا کے سمندر کو، قدرت کا حیرت انگیز وردان حاصل ہے۔ اور آج گوا کے تمام لوگوں کا یہ جوش، گوا کی فضاؤں میں آزادی کی شاندار تاریخ کا احساسِ فخر دیکھ کر میں بھی آپ ہی کی طرح خوش ہوں، مسرور ہوں۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ جگہ بہت چھوٹی پڑ گئی۔ تو پاس میں ایسے ہی دو بڑے پنڈال بنائے گئے ہیں اور سارے لوگ وہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

ساتھیو،

آج گوا نہ صرف اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا ہے بلکہ 60 برسوں کے اس سفر کی یادیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے سامنے ہماری جدوجہد اور قربانیوں کی داستان بھی ہے۔ ہمارے سامنے گواکے لاکھوں  کے باشندگان کی محنت اور لگن کے وہ نتائج ہیں جن کی وجہ سے ہم نے کم وقت میں ایک طویل فاصلہ طے کیا ہے۔ اور سامنے جب اتنا کچھ فخر کرنے کے لیے ہو، تو مستقبل کے لیے نئے عزم خودبخود بننے لگ جاتے ہیں۔ نئے خواب خود بخود بننے لگتے ہیں۔ یہ بھی ایک اور حسین اتفاق ہے کہ گوا کی آزادی کی یہ ڈائمنڈ جوبلی آزادی کے امرت مہوتسو کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ اس لیے، گوا کے خواب اور گوا کے عزم آج ملک کو توانائی فراہم کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

ابھی یہاں آنے سے قبل مجھے آزاد میدان میں شہید میمورئیل پر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ شہیدوں کو سلام عقیدت پیش کرنے کے بعد میں میرامرمیں سیل پریڈ اور فلائی پاسٹ کا شاہد بھی بنا۔ اتنے مواقع، مسحور کردینے والے اتنے احساسات گوا نے آج ایک ساتھ دیے ہیں۔ یہی تو زندہ دل، فعال گوا کی فطرت ہے۔ میں اس محبت کے لیے، اس اپنائیت کے لیے گوا کے ہر ایک شہری کا مشکور ہوں۔

ساتھیو،

آج ہم ایک جانب جہاں گوا کا یوم آزادی منا رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب گوا کی ترقی کے لیے نئے قدم بڑھا رہے ہیں۔ ابھی یہاں پر حکومت گواکے مختلف محکموں کو، ایجنسیوں کو آتم نربھر بھارت اور سوئم پورن گوا کے کامیاب نفاذ کے لیے ایوارڈس سے نوازا گیا۔ شاندار کام کرنے والی گوا کی پنچایتوں، میونسپلٹی کو بھی ایوارڈس دیے گئے۔ساتھ ہی، آج ازسر نو تعمیر شدہ قلعہ-اگواڈا جیل میوزیم، میڈیکل کالج کے سوپر اسپیشلٹی بلاک، جنوبی گوا ضلع ہسپتال، اور ڈیوورلم کے گیس انسولیٹیڈ سب اسٹیشن کا افتتاح بھی ہوا ہے۔ گوا میڈیکل کالج اور موپا ہوائی اڈے پر ہوابازی ہنرمندی ترقیاتی مرکز کا افتتاح بھی آج سے ہی ہوا ہے۔ میں آپ تمام حضرات کو ان حصولیابیوں کے لیے، ان ترقیاتی پروجیکٹوں کے لیے ڈھیر ساری مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

امرت مہوتسو میں ملک نے ہر ایک اہل وطن سے’سب کا پریاس‘ کی اپیل کی ہے۔ گوا کی جدوجہد آزادی اس اصول کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ابھی میں آزاد میدان میں شہید میمورئیل کو دیکھ رہا تھا۔ اسے چار ہاتھوں کی شکلوں سے ایک نئی شکل دی گئی ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کیسے گوا کی آزادی کے لیے بھارت کے چاروں کونوں سے ایک ساتھ ہاتھ اٹھےتھے۔ آپ دیکھئے، گوا ایک ایسے وقت میں پرتگال کے قبضے میں چلا گیا تھا جب ملک کے دوسرے بڑے حصوں پر مغلوں کی سلطنت قائم تھی۔ اس کے بعد کتنے ہی سیاسی طوفان اس ملک نے دیکھے، کتنی حکومتوں  کو گرتے بنتے دیکھا۔ لیکن وقت اور حکومتوں کے بننے گرنے کے درمیان صدیوں کی دوریوں کے بعد بھی نہ گوا اپنی ہندوستانیت کو فراموش کر سکا، نہ بھارت اپنے گوا کو کبھی بھول پایا۔ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو وقت کے ساتھ مضبوط ہی ہوا ہے۔ گوا کی جدوجہد آزادی ، ایک ایسی امر جیوتی ہے جو تاریخ کی ہزاروں  تیزآندھیوں اور طوفانوں کو جھیل کر بھی روشن رہی ہے، قائم رہی ہے۔ کنک للی انقلاب سے لے کر چھترپتی شیواجی مہاراج اور سنبھاجی کی قیادت میں بہادر مراٹھوں کی جدوجہد تک، گوا کے لیے مسلسل کوششیں ہوئیں، ہرکسی کی جانب سے ہوئیں۔

ساتھیو،

ملک تو گوا سے پہلے آزاد ہوا تھا۔ ملک کے بیشتر افراد کو اپنے حقوق حاصل ہو چکے تھے۔ اب ان کے پاس اپنے خوابوں کو جینے کا وقت تھا۔ ان کے پاس متبادل تھا کہ وہ حکومت کے لیے کوشش کر سکتے تھے، اقتدار حاصل کر سکتے تھے۔ تاہم کتنے ہی فوجی سپاہیوں نے وہ سب چھوڑ کر گوا کی آزادی کے لیے جدوجہد  اور قربانی کاراستہ اختیار کیا۔ گوا کے لوگوں نے بھی آزادی اور سواراج کے لیے انقلاب کبھی رکنے نہیں دیے۔ انہوں نے بھارت کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک آزادی کی شمع  کو روشن رکھا۔ ایسا اس لیے کیونکہ، بھارت صرف ایک سیاسی اقتدار تک محدود نہیں ہے۔ بھارت انسانیت کے مفادات کی حفاظت کرنے والی ایک فکر کا نام ہے، ایک کنبہ ہے۔ بھارت ایک ایسا احساس ہے جہاں ملک و قوم ’اپنی ذات‘ سے اوپر ہے،بالاتر ہے۔ جہاں ایک ہی اصول ہوتا ہے-ملک کو اولیت۔ جہاں ایک ہی عزم ہوتا ہے  ایک بھارت، شریشٹھ بھارت۔ آپ دیکھئے، لوئس دی منیجس براگانزا، ترستاؤ براگانزا دی کنہا، جیولیو منیجس جیسے نام ہوں، پرشوتم کاکوڈکر، لکشمی کانت بھیمبرے جیسے سپاہی ہوں، یا پھر بالا رایا ماپاری جیسے نوجوانوں کی قربانیاں، ہمارے کتنے ہی سپاہیوں نے آزادی کے بعد بھی تحریک چلائی، تکلیفیں برداشت کیں، قربانیاں دیں، تاہم اس تحریک کو رکنے نہیں دیا۔ آزادی سے قبل رام منوہر لوہیا جی سے لے کر آزادی کے بعد جن سنگھ کے کتنے ہی رہنماؤں  تک، یہ تحریک آزادی مسلسل جاری تھی۔ یاد کیجئے، موہن رانا ڈے جی کو، جنہیں گوا کی آزادی کے لیے تحریک چلانے پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں برسوں تک جیل میں صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ گوا کی آزادی کے بعد انہیں کئی برسوں تک جیل میں ہی رہنا پڑا۔ تب رانا ڈے جیسے انقلابیوں کے لیے اٹل جی نے ملک کی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی تھی۔ آزاد گومانتک دَل سے وابستہ کتنے ہی رہنماؤں نے گوا کی تحریک  کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ پربھاکر تری وکرم وید، وشوناتھ لوانڈے، جگن ناتھ راؤ جوشی، نانا کاجریکر، سدھیر فڑکے، ایسے کتنے ہی سپاہی تھے جنہوں نے گوا، دمن، دیو، دادرا  اور نگر حویلی کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، اس تحریک کو سمت عطا کی، توانائی دی۔

ساتھیو،

گوامکتی وموچن سمیتی کے ستیہ گرہ میں 31 ستیہ گرہیوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ آپ سوچئے، ان قربانیوں کے بارے میں، پنجاب کے جانباز کرنیل سنگھ بینی پال جیسے بہادروں کے بارے میں، ان کے اندر ایک بے چینی تھی کیونکہ اس وقت ملک کا ایک حصہ تب بھی غلام تھا، کچھ اہل وطن کو تب بھی آزادی نہیں ملی تھی۔ اور آج میں اس موقع پر یہ بھی کہوں گا کہ اگر سردار ولبھ بھائی ٹیل، چند برس اور زندہ رہتے، تو گوا کو اپنی آزادی کے لیے اتنا انتظار نہیں کرنا پڑتا۔

ساتھیو،

گوا کی تاریخ سواراج کے لیے بھارت کے عزم کی ہی علامت نہیں ہے۔ یہ بھارت کی یکجہتی اور اتحاد  کابھی جیتا جاگتا دستاویز ہے۔ گوا نے پر امن طریقے سے ہر فکر و خیال کو پروان چڑھنے کے لیے جگہ دی۔ کیسے ایک ساتھ ہر مسلک۔مذہب۔فرقہ ’ایک  بھارت۔شریشٹھ بھارت‘ میں رنگ بھرتے ہیں، گوا نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ گوا وہ مقام ہے جس نے جورجیا کی سینٹ کوئین کیٹے وان کے مقدس باقیات کو صدیوں تک سنبھال کر رکھا۔ ابھی چند مہینے قبل ہی بھارت نے سینٹ کوئین کیٹے وان کے مقدس باقیات کو جورجیاکو سونپا ہے۔ سینٹ کوئین کیٹے وان کے یہ مقدس باقیات 2005 میں یہاں کے سینٹ آگسٹین چرچ سےہی ملے تھے۔

ساتھیو،

جب گوا کی تحریک آزادی شروع ہوئی، تو سب مل کر ایک ساتھ لڑے، ایک ساتھ جدوجہد  کی تھی۔ غیر ملکی حکومت کے خلاف پنٹوز انقلاب کی تو یہاں کے مقامی باشندے عیسائیوں نے قیادت کی تھی۔ یہی بھارت کی شناخت ہے۔ یہاں ہر اختلاف کا ایک ہی مطلب ہے  انسانیت کی خدمت۔ ہر انسان کی خدمت۔ بھارت کے اس اتحاد، اس ملی جلی شناخت کی تعریف دنیا کرتی ہے۔ ابھی میں کچھ روز قبل اٹلی اور ویٹیکن سٹی گیا تھا۔ وہاں مجھے پوپ  فرانسیس جی سے ملاقات کا موقع حاصل ہوا۔ بھارت کے تئیں ان کا احساس بھی ویسا ہی مسحور کردینے والا تھا۔ میں نے انہیں بھارت آنے کے لیے مدعو بھی کیا۔ اور میں آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں، جو انہوں نے میرے مدعو کرنے کے بعد کہا تھا-  پوپ فرانسیس نے کہا تھا  ’’ This is the greatest gift you have given me ‘‘(یہ آپ نے مجھے عظیم ترین تحفہ دیا ہے)۔ یہ بھارت کی گوناگونیت، ہماری فعال جمہوریت کے تئیں ان کی محبت ہے۔

ساتھیو،

گوا کی فطرتی خوبصورتی، ہمیشہ سے اس کی پہچان رہی  ہے۔ تاہم اب یہاں جو حکومت ہے، وہ گوا کی مزید ایک شناخت قائم کر رہی ہے۔ یہ نئی شناخت ہے- ہر کام میں اول رہنے والے، ٹاپ کرنے والی ریاست کی پہچان۔ باقی جگہوں پر جب کام کی شروعات ہوتی ہے یا کام آگے بڑھتا ہے، گوا اسے تب تک مکمل بھی کر لیتا ہے۔سیاحتی مقام کے طور پر لوگوں کی پسند تو گوا رہا ہی ہے، لیکن اب اچھی حکمرانی کا سوال ہو، تو گوا سرفہرست ہے۔فی کس آمدنی ہو، تو بھی گوا سرفہرست ہے۔ کھلے میں رفع حاجت سے مبرا ریاست کے طور پر گوا کا کام صد فیصد ہے۔ لڑکیوں کے لیے اسکولوں میں علیحدہ بیت الخلاء ہو، گوا صد فیصد! گھر گھر جاکر کچرا جمع کرنا ہو، یہاں بھی گوا کا کام صد فیصد! ’ہر گھر جل‘ کے لیے نل کنکشن ہوں، اس میں بھی گوا کا کام صد فیصد ہے۔ آدھار اندراج  کے معاملے میں گوا کا کام صد فیصد مکمل ہے۔ خوراک سلامتی کے معاملے میں بھی گوا سرفہرست ہے! پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ہر موسم کے لحاظ سے سڑک رابطہ کاری ہو،گوا کا کام صد فیصد! پیدائش کا رجسٹریشن ہو تو بھی گوا کا ریکارڈ صد فیصد۔ یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ گناتے گناتے شاید وقت کم پڑ جائے۔ پرمود جی آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو میری جانب سے مبارکباد۔ گوا نے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ گوا کے لوگوں نے جو کرکے دکھایا ہے، وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ ابھی آپ کی ایک نئی حصولیابی کے لیے میں گوا حکومت کو ، اور گوا کے تمام باشندگان کو خصوصی طور پر مبارکباد دینا چاہتا ہوں، یہ حصولیابی ہے، صد فیصد ٹیکہ کاری کی! گوا میں سبھی مستحق افراد نے ٹیکہ لگوا لیا ہے۔ دوسری خوراک کی بھی مہم تیزی سے چل رہی ہے۔ یہ کمال کرنے والی آپ ملک کی اولین ریاستوں میں سے ہیں۔ میں اس کے لیے گوا کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

بھائیو اور بہنو،

گوا  کی ان حصولیابیوں کو، اس نئی شناخت کو جب میں مضبوط ہوتے دیکھتا ہوں، تو مجھے میرے عزیز ساتھی منوہر پریکر جی کی بھی یاد آتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف گوا کو ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا، بلکہ گوا کی اہلیت کو بھی توسیع دی۔ گوا کے عوام کتنے ایماندار ہوتے ہیں، کتنے باصلاحیت اور جفاکش ہوتے ہیں، ملک گوا کے کردار کو منوہر جی کی شخصیت میں دیکھتا تھا۔ آخری سانس تک کوئی کیسے اپنی ریاست، اپنے عوام کے لیے جی جان سے کام کر سکتاہے،ان کی زندگی میں یہ ہم نے اپنے سامنے دیکھا تھا۔ میں اس موقع پر اپنے بہترین دوست اور گوا کے عظیم بیٹے  منوہر جی کو بھی سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

گوا کی ترقی کے لیے، گوا میں سیاحت کے بے پناہ امکانات کو بڑھانے کے لیے جو مہم پریکر جی نے شروع کی تھی، وہ آج بھی اتنے ہی جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے۔ کورونا جیسے اتنے بڑے عالمی وبائی مر ض سے بھی گوا جس تیزی سے ابھر رہا ہے، اس میں وہ نظر آتا ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ بھی سیاحتی صنعتوں کو ایک نئی بلندی عطا کرنے کے لیے مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ ویزا کے اصول و قواعد کو سہل بنانا ہو، ای۔ویزا والے ممالک کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو، ہر طرف سے سیاحتی صنعت کو تعاون فراہم کرنے کا کم ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں جو فلمی میلے کا انعقاد ہو، اس کی کامیابی بھی بتاتی ہے کہ گوا میں سیاحت میں کس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔

ساتھیو،

جس  طرح گوا حکومت نے یہاں اچھی سڑکیں بنوائیں، بنیادی ڈھانچہ اور خدمات کو مضبوط کیا، تو اس سے سیاحوں  کی سہولتوں میں اضافہ ہوا، ویسے ہی، آج ملک بھر میں شاہراہیں، ایکسپریس وے، اور ہائی ٹیک بنیادی ڈھانچے کی تجدید کاری کی جا رہی ہے۔ آج ریلوے کا کایہ پلٹ ہو رہا ہے، ملک کے تمام شہروں میں ہوائی اڈے تعمیر ہو رہے ہیں، اس سے لوگوں کے سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ اگر گوا آنے کی سوچتے ہیں، تو راستے کی فکر کی وجہ سے انہیں اپنا ارادہ ترک نہیں کرنا پڑتا۔ اس مشن کو اب اور رفتار دینے کے لیے، قوت بہم پہنچانے کے لیے، پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان  پر بھی کام شروع کیا گیا ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ مشن گتی شکتی ملک میں بنیادی ڈھانچہ اور سیاحت کے ایک نئے دور کا قاصد ہوگا۔

ساتھیو،

گوا میں اگر ایک جانب ایک لامحدود سمندر ہے، تو دوسری جانب یہاں کے نوجوانوں کے سمندر جیسے ہی بڑے خواب ہیں۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ویسی ہی بڑی تصوریت بھی چاہئے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پرمود ساونت جی ایسی ہی بڑی تصوریت کے ساتھ آج کام کر رہے ہیں۔ آج گوا میں اسکولوں میں بچوں کو مستقبل کے لیے تیار تعلیم کے لیے کوڈنگ اور روبوٹکس کو فروغ دیا جا رہا ہے، تکنیکی تعلیم کو امداد فراہم کی جا رہی ہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے حکومت 50 فیصد فیس معاف بھی کر رہی ہے۔ آج یہاں جس ہوابازی ہنرمندی ترقیاتی مرکز کا افتتاح ہوا ہے، وہ بھی اب نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ اسی طرح، آج ملک ’آتم نربھر بھارت ابھیان‘ کا عزم لے کر اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا ہے، تو گوا ’سوئم پورن گوا‘ مشن سے ملک کو قوت بہم پہنچا رہا ہے۔ مجھے  اس مشن کے ’سوئم پورن دوستوں‘ سے بھی ورچووَل طریقےسے بات کرنے کا ایک موقع حاصل ہوا تھا۔ آپ سب مل کر جس طرح گوا کو آتم نربھر بنانے کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں، جس طرح موجودہ حکومت خود چل کر گھر گھر جا رہی ہے، سرکاری خدمات جس طرح آن لائن ہوکر شہریوں کے ہاتھ میں آ رہی ہیں، جتنی تیزی سے بدعنوانی کے لیے تمام دروازے گوا میں بند ہو رہے ہیں، یہی تو ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس، اور سب کا پریاس ‘ کا وہ عزم ہے، جسے گوا آج پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔

ساتھیو،

آج جیسے آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک آزادی کے 100 برس کے لیے نئے عزم لے رہا ہے، ویسے ہی میں اپیل کرتا ہوں کہ گوا اپنی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر کہاں پہنچے گا، اس کے لیے نئے عزم لے، نئے اہداف طے کرے۔اس کے لیے، جو تسلسل ابھی تک گوا میں نظر آیا ہے، وہی آگے بھی رہنا چاہئے۔ ہمیں رکنا نہیں ہے، اپنی رفتار کو کم نہیں ہونے دینا ہے۔ گوئیں آنی گوئیں کارانچی، توکھنائے کریت، تتکی تھوڈیچ! تمکا سگلیانک، پرت ایک فاوٹ، گوئیں مکتی دیسانچی، پربیں دیون، سگل یانکھاتیر، بری بھلائیکی آنی یش ماگتاں! بہت بہت شکریہ! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM Modi visits the Indian Arrival Monument
November 21, 2024

Prime Minister visited the Indian Arrival monument at Monument Gardens in Georgetown today. He was accompanied by PM of Guyana Brig (Retd) Mark Phillips. An ensemble of Tassa Drums welcomed Prime Minister as he paid floral tribute at the Arrival Monument. Paying homage at the monument, Prime Minister recalled the struggle and sacrifices of Indian diaspora and their pivotal contribution to preserving and promoting Indian culture and tradition in Guyana. He planted a Bel Patra sapling at the monument.

The monument is a replica of the first ship which arrived in Guyana in 1838 bringing indentured migrants from India. It was gifted by India to the people of Guyana in 1991.