بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
اسٹیج پر تشریف فرما جناب پرفل پٹیل، رکن پارلیمان جناب ونود سونکر، رکن پارلیمان بہن کلابین، ضلع کونسل کی صدر نشا بھور جی، بھائی راکیش سنگھ چوہان جی، طبی شعبے کے ساتھیوں، دیگر معززین اور بڑی تعداد میں آئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! کیم چھو مجا ، سکھ ما،سنتوش ما، آنند ما، پرگتی ما، وکاس ما۔۔۔ واہ! میں جب بھی یہاں آتا ہوں، دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے۔ دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی کی ترقی کے سفر کو دیکھنا بھی مجھے بہت خوشی دیتا ہے۔ اور ابھی جو ویڈیو دیکھی کوئی تصور نہیں کر سکتا ہے کہ اتنے چھوٹے سے علاقے میں چہار جانب جدید اور تیز رفتاری سے ترقی کیسے ہوتی ہے وہ ویڈیو میں ہم نے بخوبی ملاحظہ کیا ہے۔
ساتھیو،
اس علاقے کی ایک بڑی خوبی اب ہمارا سلواسا پہلے جیسا نہیں ہے، یہ ہمارا سلواسا اب کوزموپولیٹن ہو گیا ہے۔ بھارت کا کوئی کونا ایسا نہیں ہوگا جس کے لوگ سلواسا میں نہ رہتے ہوں۔ آپ کو اپنی جڑوں سے محبت ہے تاہم جدیدیت کو بھی اتنا ہی اپنا پن دیتے ہیں۔ مرکز کے زیر انتظام اس علاقے کی اس خوبی کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت الگ الگ سطحوں پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ یہاں پر اچھی کوالٹی کا بنیادی ڈھانچہ ہو، اچھی سڑکیں، اچھے پل ہوں، یہاں اچھے اسکول ہوں، آبی سپلائی بہتر ہو، ان سبھی پر مرکزی حکومت کا بہت زور ہے۔ گذشتہ 5 برسوں میں اب تمام سہولتوں پر 5500 کروڑ روپئے، ساڑھے پانچ ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کیے گئے ہیں۔ بجلی بل سے جڑی سہولت ہو، ساری اسٹریٹ لائٹوں کو ایل ای ڈی سے منور کرنا ہو، یہ علاقہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ یہاں گھر گھر فضلہ اکٹھا کرنے کی سہولت ہو یا پھر صد فیصد فضلہ پروسیسنگ، مرکز کے زیر انتظام یہ علاقہ، تمام ریاستوں کو ترغیب فراہم کر رہا ہے۔ یہاں جو نئی صنعتی پالیسی لائی گئی ہے، وہ بھی یہاں صنعتی ترقی بڑھانے میں، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ آج ایک مرتبہ پھر مجھے تقریباً 5 ہزار کروڑ روپئے کے بقدر کے نئے پروجیکٹوں کا آغاز کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ یہ پروجیکٹ صحت، ہاؤسنگ، سیاحت، تعلیم اور شہری ترقیات سے جڑے ہیں۔ اس سے زندگی بسر کرنے کی آسانیوں میں اضافہ ہوگا۔ اس سے سیاحت میں مزید آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اس سے نقل و حمل کی آسانیوں میں اضافہ ہوگا۔ اور اس سے کاروبار کرنے میں مزید آسانیاں پیدا ہوں گی۔
ساتھیو،
آج مجھے ایک اور بات کی بہت خوشی ہے۔ آج جن پروجیکٹوں کا آغاز ہوا ہے، ان میں سے متعدد کا سنگ بنیاد رکھنے کی خوش نصیبی آپ سب نے مجھے دی تھی۔ طویل عرصے تک ہمارے ملک میں سرکاری پروجیکٹ سالہا سال تک لٹکتے تھے، اٹکتے تھے، بھٹکتے تھے۔ کئی مرتبہ تو سنگ بنیاد کے پتھر بھی پرانے ہو کر گر جاتے تھے، لیکن پروجیکٹ مکمل نہیں ہوتے تھے۔ تاہم گذشتہ 9 برسوں میں ہم نے ملک میں ایک نئے طرز عمل کو ترقی دی ہے، نیا ورک کلچر لائے ہیں۔ اب جس کام کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اسے تیزی سے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک کام مکمل کرتے ہی ہم دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔ سلواسا کا یہ پروگرام اس کا براہِ راست ثبوت ہے۔ اس کے لیے میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
مرکز کی بھاجپا حکومت، سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے اصول پر چل رہی ہے۔ ملک کے ہر علاقے کی ترقی ہو، ملک کے ہر علاقے کی متوازن ترقی ہو، اس پر ہمارا بہت زور ہے۔ لیکن ملک کی یہ بھی بدنصیبی رہی ہے کہ متعدد دہائیوں تک ترقی کو سیاست کے، ووٹ بینک کے ترازو پر ہی تولا گیا۔ اسکیموں کے ، پروجیکٹوں کے اعلانات تو بہت ہوتے تھے۔ لیکن کیسے ہوتے تھے، کہاں سے کتنا ووٹ ملے گا، کس طبقے کو خوش کرنے سے ووٹ ملے گا۔ جن کو رسائی حاصل نہیں تھی، جن کی آواز کمزور تھی، وہ محروم رہے، ترقی کے سفر میں پیچھے چھوٹتے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قبائلی علاقے، ہمارے سرحدی علاقے، ترقی سے محروم رہ گئے۔ ہمارے ماہی گیروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی کو بھی اس رویے کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ہے۔
میں تو گجرات میں تھا، میں مسلسل دیکھتا رہتا تھا کہ کیا کرکے رکھا ہے ان لوگوں نے۔ آج جس میڈیکل کالج کو اپنا کیمپس حاصل ہوا ہے، وہ اس ناانصافی کا بہت بڑا گواہ رہا ہے۔ آپ سوچئے ساتھیو، آزادی کی کئی دہائیاں گزرگئیں، لیکن دمن ، دیو، دادرا اور نگر حویلی میں ایک میڈیکل کالج نہیں بنا تھا۔ یہاں کے گنتی کے چند نوجوانوں کو کسی طرح ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل پاتا تھا وہ بھی دوسری جگہ پر۔ اس میں بھی قبائلی کنبو کے بیٹے بیٹیوں کی حصہ داری تو بالکل نہ کے برابر تھی۔ جنہوں نے دہائیوں تک ملک پر حکومت کی، ان کو یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ ہو رہی، اس خطرناک ناانصافی کی فکر کبھی بھی نہیں ہوئی۔ وہ سمجھتے تھے کہ مرکز کے زیر انتظام اس چھوٹے سے علاقے کی ترقی کرکے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وہ آپ کے اس آشرواد کی قیمت کبھی سمجھ ہی نہیں پائے۔ 2014 میں جب آپ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا، تو ہم نے آپ کی خدمت کے جذبے سے کام کرنا شروع کیا، ایثار کے جذبے سے کام کرنا شروع کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی کو اپنا نیشنل اکیڈمک میڈیکل آرگنائزیشن (نمو) میڈیکل کالج حاصل ہوا۔ اب یہاں سے ہر سال تقریباً ڈیڑھ سو مقامی نوجوانوں کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو رہا ہے۔ کچھ ہی برسوں میں، مستقبل قریب میں تقریباً ایک ہزار ڈاکٹر یہیں سے تیار ہو جائیں گے۔ آپ تصور کیجئے اتنے چھوٹے سے علاقے سے ایک ہزار ڈاکٹر۔ ان میں بھی ہمارے قبائلی کنبوں کے نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میں یہاں آنے سے قبل، ایک نیوز رپورٹ میں ایک بیٹی کی بات بھی پڑھ رہا تھا۔ قبائلی کنبے سے ہی آنے والی یہ بٹیا ابھی یہاں میڈیکل میں پہلے سال کی پڑھائی کر رہی ہے۔ اس بٹیا نے اخبار والوں سے کہا کہ میرے کنبے کو تو چھوڑیئے، میرے پورے گاؤں میں کبھی کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکا تھا۔ اب وہ بٹیا اسے اپنی خوش نصیبی مانتی ہے، کہ دادرا اور نگر حویلی میں یہ میڈیکل کالج بنا ہے اور وہ اس کی طالبہ ہے۔
ساتھیو،
خدمت کاجزبہ یہاں کے لوگوں کی پہچان ہے۔ مجھے یاد ہے، کورونا کے وقت یہاں کے میڈیکل طلبا نے آگے بڑھ کر لوگوں کی مدد کی تھی۔ اور کورونا کے وقت تو کنبے میں بھی کوئی ایک دوسرے کی مدد نہیں کر پاتا تھا۔ تب یہاں کے طلبا مواضعات میں مدد کرنے پہنچے تھے اور میں ان طالب علم دوستوں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ لوگوں نے جو ولیج اڈاپشن پروگرام چلایا تھا، اس کا ذکر میں نے من کی بات میں بھی کیا تھا۔ یہاں کے ڈاکٹروں نے، میڈیکل طلبا نے جس طرح اپنے فرائض کو انجام دیا ہے، وہ سبھی کے لیے باعث ترغیب ہے۔ میں آج اس کام کے لیے یہاں طبی سہولت سے جڑے ہر شخص کی ستائش کروں گا۔
بھائیو اور بہنو،
سلواسا کا یہ نیا میڈیکل کالج، یہاں پر صحتی سہولتوں پر دباؤ بھی کم کرے گا۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہاں پاس میں جو سول ہسپتال ہے، اس پر کتنا دباؤ تھا۔ اب تو یہاں دمن میں ایک اور 300 بستر پر مشتمل ہسپتال بن رہا ہے۔ حکومت نے آیورویدک ہسپتال کی تعمیر کے لیے بھی اپنی منظوری دے دی ہے۔ یعنی آنے والے وقت میں، سلواسا اور یہ پورا علاقہ، صحتی سہولتوں کو لے کر بہت مضبوط ہونے والا ہے۔
ساتھیو،
آپ کو یاد ہوگا ، گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی میں یہاں کئی مرتبہ آیا ہوں، آپ کے درمیان آیا ہوں۔ جب میں وہاں حکومت میں آیا تھا، تو دیکھا تھا کہ امباجی سے لے کر عمرگاؤں تک کی قبائلی پٹی میں کسی اسکول میں سائنس کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ جب سائنس کی تعلیم ہی نہیں ہوگی تو پھر بچے ڈاکٹر اور انجینئر کیسے بنیں گے؟ اس لیے میں نے وہاں اسکول کالجوں میں سائنس کی پڑھائی شروع کروائی۔ ہمارے قبائلی بچوں کو ایک بڑی دقت، دوسری زبانوں میں پڑھائی سے بھی ہوتی ہے، کسی بھی بچے کو ہوتی ہے۔ انگریزی میں پڑھائی ہونے کی وجہ سے گاؤں کے غریب، دلت، محروم، قبائلی کنبوں کے متعدد باصلاحیت بیٹے بیٹیاں انجینئر نہیں بن پاتے تھے۔ ہماری حکومت نے اب اس مسئلے کا حل نکالا ہے۔ اب بھارتی زبانوں میں، آپ کی اپنی زبان میں میڈیکل انجینئرنگ کی تعلیم کا بھی متبادل دیا جا رہا ہے۔ اس سے بھی اس علاقے کے بچوں کو بہت بڑی مدد حاصل ہونے والی ہے۔ اب غریب ماں کا بچہ بھی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ سکتا ہے۔
ساتھیو،
آج میڈیکل کالج کے ساتھ ساتھ یہاں انجینئرنگ کالج کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ اس سے یہاں کے تقریباً 300 نوجوانوں کو ہر سال انجینئرنگ کی پڑھائی کا موقع حاصل ہوگا۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ملک کے بڑے تعلیمی ادارے بھی دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی میں اپنے کیمپس کھول رہے ہیں۔ دمن میں نفٹ کا سیٹلائٹ کیمپس بنا ہے، سلواسا میں گجرات نیشنل لاء یونیورسٹی کا کیمپس بنا ہے، دیو میں ٹریپل آئی ٹی وڈودرا نے اپنا کیمپس کھولا ہے۔ یہ نیا میڈیکل کالج تو سلواسا کی سہولتوں کو نئی سطح پر لے جائے گا۔ میں اس خطے کے ہر طالب علم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ان کے روشن مستقبل کے لیے ہماری حکومت کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔
بھائیو اور بہنو،
میں جب پچھلی مرتبہ سلواسا آیا تھا، تو میں نے ترقی کی پنچ دھارا کی بات کہی تھی۔ ترقی کی پنچ دھارا یعنی بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کی کمائی، بزرگوں کی دوائی، کسانوں کی سینچائی، اور عوام الناس کی سنوائی۔ آج میں اس میں ایک اور دھارا جوڑوں گا۔ اور یہ ہے، خواتین کو خود کے گھر کی ڈھیر ساری بدھائی۔ ہماری حکومت نے گذشتہ برسوں میں ملک کے 3 کروڑ سے زائد نادار کنبوں کو پختہ مکان بناکر دیے ہیں۔ یہاں بھی ہماری حکومت نے 15 ہزار سے زائد مکانات بناکر غریبوں کو دینا طے کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر مکانات بن کر تیار ہو چکے ہیں۔ آج بھی یہاں 1200 سے زائد کنبوں کو ان کے اپنے مالکانہ حق والے گھر ملے ہیں۔ اور آپ یہ جانتے ہیں کہ پی ایم آواس یوجنا کے جو گھر دیے جا رہے ہیں، ان میں خواتین کو بھی برابر کی حصہ داری دی جا رہی ہے۔ یعنی ہماری حکومت نے یہاں دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی کی ہزاروں خواتین کو بھی اپنے گھر کی مالکن بنانے کا کام کیا ہے۔ ورنہ ہم جانتے ہیں ہمارے یہاں کیسا ہوتا ہے، گھر کا مالک مرد، کھیت کا ملک مرد، دُکان کا مالک مرد، گاڑی کا مالک مرد، اسکوٹر ہے تو بھی مالک مرد۔ خاتون کے نام کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ ہم نے ان گھروں کے مالکانہ حق خواتین کو دیے ہیں۔ اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنے ایک ایک گھر کی قیمت کئی لاکھ روپئے ہوتی ہے۔ اس لیے یہ خواتین جن کو یہ جو گھر ملا ہے نہ، لاکھوں روپئے کی قیمت کا گھر ملا ہے اور اس لیے یہ ہمارے غریب کنبوں کی مائیں بہنیں، یہ ہماری خواتین لکھ پتی دیدی بن گئی ہیں، اب وہ لکھ پتی دیدی کے نام سے جانی جائیں گی۔ کیونکہ لاکھ روپئے سے بھی زائد کی قیمت کے گھر کی وہ مالکن بنی ہیں۔ میں ان تمام لکھ پتی بہنوں کو جتنی مبارکباد دوں اتنی کم ہے ان کو میں خصوصی طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
بھارت کی کوششوں کی وجہ سے آج پوری دنیا، اس سال کو موٹے اناج کے بین الاقوامی سال کے طور پر منا رہی ہے۔ ملیٹس یعنی موٹے اناج کو، ہماری حکومت نے شری اَن کی پہچان دی ہے۔ یہاں کسان، راگی یا یہاں کی زبان میں کہیں تو نگلی یا نچنی جیسے جن ملیٹس کی پیداوار کرتے ہیں، انہیں بھی ہماری حکومت فروغ دے رہی ہے۔ آج راگی سے بنا آٹا ہو، راگی سے بنے بسکٹ ہوں، راگی سے بنی اڈلی ہو، ان سب کی کھپت بڑھ رہی ہے اور کاشتکاروں کو بھی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ میں اکثر من کی بات پروگرام میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں اب تو من کی بات کی آئندہ اتوار کو سینچری ہونے والی ہے، 100واں ایپی سوڈ۔ بھارت کے لوگوں کی کوششوں کو سامنے لانے کا ، بھارت کی خصوصیات کی عظمت بیان کرنے کا، من کی بات ایک اچھا پلیٹ فارم بنا ہے۔ آپ کی طرح مجھے بھی 100ویں ایپی سوڈ کا بہت انتظار ہے، اتوار کا انتظار ہے۔
ساتھیو،
بڑھتی ہوئی ان سہولتوں کے درمیان، میں دمن، دیو، دادرا اور نگر حویلی کو بھارت میں ساحلی سیاحت کے درخشاں مقام کے طور پر بھی دیکھ رہا ہوں۔ دمن، دیو، دادرا-نگر حویلی کے پاس ملک کے اہم سیاحتی مقامات کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ آج جب بھارت کو ہم دنیا کا سب سے پرکشش سیاحتی مقام بنانے پر کام کر رہے ہیں تب یہاں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دمن میں رام سیتو اور نانی دمن میرین اووَر ویو (نمو) پتھ نام سے جو دو سی فرنٹ بنے ہیں وہ بھی یہاں سیاحت کو توسیع دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ویکنڈس میں جو سیاح یہاں آتے ہیں، ان کا تو یہ پسندیدہ مقام بننے جا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ سیاحوں کی سہولت کے لیے ساحلی علاقوں میں نئی ٹینٹ سٹی بھی بنائی جا رہی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میں خود نانی دمن میرین اووَر ویو(نمو) پتھ کو دیکھنے جانے والا ہوں۔ یہ ساحل سمندر یقیناً ملک اور بیرون ملک کے سیاحوں کو راغب کرے گا۔ اس کے ساتھ ہی کھان ویل ریور فرنٹ، دودھنی جیٹی، ایکو ریزارٹ کی تعمیر، یہ سب بھی یہاں سیاحت کو بڑھاوا دیں گے۔ کوسٹل پرومونیڈ، بیچ ڈیولپمنٹ کے پروجیکٹس بھی جب مکمل ہوں گے تو یہاں کی کشش اور بڑھ جائے گی۔ اور ان سب سے یہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، ازخودروزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
بھائیو اور بہنو
آج ملک میں منھ بھرائی پر نہیں بلکہ تسکین پر زور دیا جا رہا ہے۔ محرومین کو ترجیح، یہ گذشتہ 9 برسوں کی اچھی حکمرانی کی پہچان بن چکی ہے۔ مرکزی حکومت ملک کے ہر ضرورت مند، ہر محروم طبقے، محروم علاقے تک سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے۔ جب اسکیمیں عروج پر پہنچتی ہیں، جب حکومت خود لوگوں کے دروازے تک جاتی ہے، تو تفریق ختم ہوتی ہے، بدعنوانی ختم ہوتی ہے، بھائی بھتیجا واد ختم ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ دمن، دیو اور دادرا نگر حویلی، مرکزی حکومت کی متعدد اسکیموں کے منتہائے عروج کے قریب پہنچ گئی ہیں۔ آپ سبھی کی ایسی ہی کوششوں سے خوشحالی آئے گی، ترقی یافتہ بھارت کا عزم مکمل ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر آپ سبھی کو ترقیاتی کاموں کی بہت بہت مبارکباد۔
بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
بہت بہت شکریہ!