’’اپنے کام اور مہارت سے، سی بی آئی نے ملک کے عام شہریوں کےمابین اعتماد پیدا کیا ہے‘‘
’’پیشہ ورانہ اور موثر اداروں کے بغیر، وکشت بھارت ممکن نہیں‘‘
’’ملک کو بدعنوانی سے نجات دلانا سی بی آئی کی اہم ذمہ داری ہے‘‘ ’’بدعنوانی کوئی معمولی جرم نہیں، یہ غریبوں کا حق چھینتا ہے، اس سے اور بھی بہت سے جرائم جنم لیتے ہیں، بدعنوانی انصاف اور جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘‘
’’جےاےایم تثلیث، استفادہ کنندگان کے لئےمکمل فائدے کو یقینی بنا رہی ہے‘‘
’’آج ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی عزم کی کمی نہیں ہے‘‘
’’کسی بھی بدعنوان کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہماری کوششوں میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ملک کی تمنا ہے، یہ وطن والوں کی تمنا ہے۔ ملک، قانون اور آئین آپ کے ساتھ ہے‘‘

مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، قومی سلامتی کے مشیر جناب اجیت ڈوبھال جی، کابینہ سکریٹری، ڈائریکٹر سی بی آئی، دیگر افسران، خواتین و حضرات! سی بی آئی، ڈائمنڈ جوبلی کے 60 سال مکمل ہونے کے موقع پر آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ۔

آپ نے ملک کی اعلی تحقیقاتی ایجنسی کے طور پر 60 سال کا سفر مکمل کیا ہے۔ یہ 6 دہائیاں یقیناً کامیابیوں سے بھری ہوئی ہیں۔ سی بی آئی کے مقدمات سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں کا ایک مجموعہ بھی آج یہاں جاری کیا گیا ہے۔ یہ سی بی آئی کے سالوں کے سفر کو ظاہر کرتا ہے۔

کچھ شہروں میں سی بی آئی کے نئے دفاتر ہوں، ٹویٹر ہینڈل ہوں، دوسرے انتظامات ہوں، جو آج شروع کیے گئے ہیں، وہ یقیناً سی بی آئی کو مزید مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ سی بی آئی نے اپنے کام سے، اپنی مہارت سے عام لوگوں کو اعتماد دلایا ہے۔ آج بھی جب کسی کو لگتا ہے کہ کوئی معاملہ  لا ینحل ہے تو آوازیں اٹھتی ہیں کہ معاملہ سی بی آئی کو سونپ دیا جائے۔ لوگ ان سے کیس چھین کر سی بی آئی کے حوالے کرنے کے لیے تحریک  چلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پنچایت سطح پر بھی جب کوئی معاملہ آتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ ارے بھائی اسے سی بی آئی کو سونپ دینا چاہیے۔ سی بی آئی انصاف کے برانڈ کے طور پر ہر کسی کے لبوں پر ہے۔

 

عام آدمی کا ایسا اعتماد جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کے لیے وہ تمام افسران اور ملازمین جنہوں نے گزشتہ 60 سالوں میں اس ادارے میں اپنا تعاون دیا ہے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب یہاں کے کئی ساتھیوں کو بہترین خدمات پر پولیس میڈلز سے بھی نوازا گیا ہے۔ جن لوگوں کی عزت افزائی کا موقع ملا ہے، جن کو یہ اعزاز ملا ہے، انکو اور ان کے خاندان والوں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیو،

اس اہم مرحلے پر ماضی کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کے چیلنجز پر بھی سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے جس چنتن شیور کا انعقاد کیا ہے اس کا مقصد اپنے آپ کو اپ گریڈ کرنا، اپ ڈیٹ رکھنا اور ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے مستقبل کے لیے راہیں تلاش کرنا اور فیصلہ کرنا ہے۔ یہ بھی ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک نے امرت کا ل کا سفر شروع کیا ہے۔ لاکھوں ہندوستانیوں نے آنے والے 25 سالوں میں ہندوستان کو ترقی یافتہ بنانے کا عزم کیا ہے اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر پیشہ ورانہ اور موثر اداروں کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اس لیے سی بی آئی پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ساتھیو،

پچھلی 6 دہائیوں میں سی بی آئی نے ایک کثیر جہتی اور کثیر موضوعاتی تفتیشی ایجنسی کے طور پر اپنے لیے ایک جگہ بنائی ہے۔ آج سی بی آئی کا دائرہ بہت بڑا ہو گیا ہے۔ بینک فراڈ سے لے کر جنگلی حیات سے متعلق جرائم تک، یعنی یہاں سے یہاں تک ، شہر سے جنگل تک، اب سی بی آئی کو چلنا ہے۔ سی بی آئی منظم جرائم سے لے کر سائبر کرائم تک کے معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

لیکن بنیادی طور پر سی بی آئی کی ذمہ داری ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہے۔ کرپشن کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔ کرپشن غریبوں کے حقوق چھین لیتی ہے، کرپشن جرائم کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے، جرائم کو جنم دیتی ہے۔ کرپشن جمہوریت اور انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ خصوصاً جب حکومتی مشینری میں بدعنوانی غالب آجاتی ہے تو یہ جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتی۔ جہاں کرپشن ہو وہاں سب سے پہلے نوجوانوں کے خوابوں کی قربانی دی جاتی ہے، نوجوانوں کو مناسب مواقع نہیں مل پاتے۔ وہاں صرف ایک خاص ماحولیاتی نظام پھلتا پھولتا ہے۔ کرپشن ٹیلنٹ کی سب سے بڑی دشمن ہے اور یہیں سے اقربا پروری، خاندان پرستی پروان چڑھتی ہے اور اپنی گرفت مضبوط کرتی رہتی ہے۔ جب اقربا پروری اور خاندان پرستی بڑھ جاتی ہے تو معاشرے اور قوم کی طاقت گھٹ جاتی ہے۔ اور جب قوم کی استعداد کم ہو تو ترقی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں غلامی کے دور سے کرپشن کی وراثت میں  ملی ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک اس وراثت کو دور کرنے کے بجائے کچھ لوگ کسی نہ کسی شکل میں اسے مضبوط بناتے رہے۔

 

ساتھیو،

آپ کو یاد ہے کہ 10 سال پہلے جب آپ گولڈن جوبلی منا رہے تھے تو ملک میں کیا صورتحال تھی؟ اس وقت کی حکومت کا ہر فیصلہ، ہر منصوبہ سوالوں کی زد میں تھا۔ کرپشن کے ہر کیس میں پہلے معاملے سے بڑا بننے کا مقابلہ تھا، اگر تونے اتنا کیا ہے تو  میں اتنا کر کے دکھاؤں گا۔ آج ملک میں معیشت کے حجم کے لیے لاکھ کروڑ یعنی ٹریلین ڈالر کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن پھر، لاکھ کروڑ کی اصطلاح گھپلوں کے سائز کے لیے مشہور ہو گئی۔ اتنے بڑے گھپلے ہوئے، لیکن ملزمان بے فکر رہے۔ وہ جانتے تھے کہ اس وقت کا نظام ان  کے ساتھ کھڑا ہے۔ اور اس کا اثر کیا تھا؟ ملک کے نظام پر سے  اعتماد ٹوٹ رہا تھا۔ ملک بھر میں کرپشن کے خلاف غم و غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا ۔ جس کی وجہ سے سارا نظام درہم برہم ہونے لگا، لوگ فیصلے لینے سے گریز کرنے لگے، پالیسی پیرالائسس کا ماحول بنا۔ اس سے ملک کی ترقی رک گئی۔ سرمایہ کار ملک میں آنے سے خوفزدہ ہونے لگے۔ کرپشن کے اس دور نے ہندوستان کو بہت نقصان پہنچایا۔

ساتھیو،

سال 2014 کے بعد، ہماری پہلی ذمہ داری نظام پر اعتماد بحال کرنا تھی اور اسی لیے ہم نے کالے دھن، بے نامی جائیداد پر مشن موڈ میں کارروائی شروع کی۔ بد عنوان لوگوں کے ساتھ ساتھ ہم نے ان اسباب پر حملے شروع کر دیے جو کرپشن کو فروغ دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے، سرکاری ٹینڈر کا طریقہ کار، سرکاری ٹھیکے، یہ سوالات کے سب سے بڑے گھیرے میں تھے۔ ہم نے ان میں شفافیت کی حوصلہ افزائی کی۔ آج جب ہم  2جی اور5 جی  اسپیکٹرم کی تقسیم کا موازنہ کرتے ہیں تو فرق واضح طور پر نظر آتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب مرکزی حکومت کے ہر محکمے میں خریداری کے لیے جی ای ایم یعنی گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس قائم کی گئی ہے۔ آج ہر محکمہ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر شفافیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خریداری کر رہا ہے۔

ساتھیو،

آج ہم انٹرنیٹ بینکنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں، یو پی آئی کے ساتھ لین دین کی بات کرتے ہیں ۔لیکن ہم نے 2014 سے پہلے فون بینکنگ کا دور بھی دیکھا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب دہلی کی بااثر سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ اپنے فون پر ہزاروں کروڑ روپے کے قرض حاصل کرتے تھے۔ اس نے ہماری معیشت، ہمارے بینکنگ سسٹم کی ریڑھ کی ہڈی کو تباہ کر دیا۔ کئی سالوں میں، ہم نے اپنے بینکنگ سیکٹر کو مشکلات سے نکالنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔ فون بینکنگ کے اس دور میں کچھ لوگ ملک کے بینکوں سے 22 ہزار کروڑ روپے لوٹ کر بیرون ملک فرار ہوگئے۔ ہم نے مفرور اقتصادی مجرم ایکٹ نافذ کیا۔ بیرون ملک فرار ہونے والے ان معاشی مجرموں سے اب تک 20,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے اثاثے ضبط کیے جا چکے ہیں۔

 

ساتھیو،

بدعنوانوں نے ملکی خزانے کو لوٹنے کا ایک اور طریقہ بنایا تھا، جو دہائیوں سے جاری تھا۔ یہ سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والوں کی لوٹ مار تھی۔ پچھلی حکومتوں میں غریب مستحقین تک جو مدد بھیجی جاتی تھی وہ درمیان میں لوٹ لی جاتی تھی۔ راشن ہو، مکان ہو، اسکالرشپ ہو، پنشن ہو، اس طرح کی بہت سی سرکاری اسکیموں میں حقیقی فائدہ اٹھانے والوں کو دھوکہ ہوا۔ اور ایک وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایک روپیہ جاتا ہے، 15 پیسے پہنچتے ہیں ، 85 پیسے چوری ہو جاتے ہیں ۔ پچھلے دنوں میں سوچ رہا تھا کہ ہم نے ڈی بی ٹی کے ذریعے تقریباً 27 لاکھ کروڑ روپے لوگوں تک پہنچائے ہیں ۔ اگر اس کے مطابق دیکھا جائے تو 27 لاکھ کروڑ میں سے تقریباً 16 لاکھ کروڑ کہیں جا چکے ہوتے ۔ آج جن دھن، آدھار، موبائل کی تثلیث سے ہر استفادہ کنندہ کو اس کا پورا حق مل رہا ہے۔ اس سسٹم کے ذریعے 8 کروڑ سے زیادہ فرضی فائدہ اٹھانے والے سسٹم سے باہر ہوچکے ہیں۔ جو بیٹی پیدا نہیں ہوتی تھی وہ بیوہ ہو جاتی تھی اور بیوہ پنشن چلتی تھی۔ ڈی بی ٹی کی وجہ سے ملک کے تقریباً 2.25 لاکھ کروڑ روپے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچ گئے ہیں۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب سرکاری ملازمتوں میں انٹرویو پاس کرنے کے لیے بھی بدعنوانی عروج پر تھی۔ ہم نے مرکزی بھرتیوں کے گروپ-سی، گروپ-ڈی بھرتیوں کے انٹرویوز ختم کر دیے۔ کسی زمانے میں یوریا میں بھی گھپلے ہوا کرتے تھے۔ ہم نے اسے یوریا میں نیم کی کوٹنگ سے بھی کنٹرول کیا۔ دفاعی سودوں میں گھپلے بھی عام تھے۔ گزشتہ 9 سالوں میں دفاعی سودے مکمل شفافیت کے ساتھ ہوئے ہیں۔ اب ہم بھارت میں ہی اپنی ضرورت کا دفاعی سامان بنانے پر زور دے رہے ہیں۔

ساتھیو،

آپ بدعنوانی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایسے بہت سے اقدامات بھی بتا سکتے ہیں، میں ان کا شمار بھی کر سکتا ہوں۔ لیکن ہمیں ماضی کے ہر باب سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے بدعنوانی کے مقدمات برسوں تک چلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں ایف آئی آر کے اندراج کے 10 سال بعد بھی سزا کی دفعات پر بحث جاری ہے۔ آج بھی جن مقدمات پر کارروائی ہو رہی ہے وہ کئی سال پرانے ہیں۔

تحقیقات میں تاخیر دو طرح سے مسئلہ کو جنم دیتی ہے۔ ایک طرف بدعنوانوں کو سزا دیر سے ملتی ہے تو دوسری طرف بے گناہ سزا بھگتتے رہتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم اس عمل کو کس طرح تیز کریں اور بدعنوانی کے مجرموں کو سزا دینے کی راہ ہموار کریں۔ ہمیں بہترین بین الاقوامی طریقوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ تفتیشی افسران کی استعداد کار بڑھانے پر توجہ دینی ہوگی۔

اور دوستو، آپ کے درمیان ،میں ایک بات پھر واضح کرنا چاہتا ہوں۔ آج ملک میں کرپشن کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی عزم کی کمی نہیں ہے۔ آپ کو کہیں بھی جھجکنے کی ضرورت نہیں ہے، کہیں بھی رکنے کی ضرورت نہیں ہے۔

میں جانتا ہوں کہ جن کے خلاف آپ کارروائی کر رہے ہیں وہ بہت طاقتور لوگ ہیں۔ برسوں سے وہ نظام، حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ آج بھی وہ بعض ریاستوں میں حکومت کا حصہ ہوں۔ برسوں کے دوران، انہوں نے ایک ماحولیاتی نظام بھی بنایا ہے۔ یہ ماحولیاتی نظام اکثر ان کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے، آپ جیسی تنظیموں کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے سرگرم ہو جاتا ہے۔ ایجنسی پر ہی حملہ کرتا ہے۔

 

یہ لوگ آپ کا دھیان بٹاتے رہیں گے لیکن آپ کو اپنے کام پر توجہ دینی ہوگی۔ کسی بھی بدعنوان کو نہیں بخشا جائے گا۔ ہماری کوششوں میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ملک کی تمنا ہے، یہ وطن والوں کی تمنا ہے۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک آپ کے ساتھ ہے، قانون آپ کے ساتھ ہے، ملک کا آئین آپ کے ساتھ ہے۔

ساتھیو،

بہتر نتائج کے لیے مختلف ایجنسیوں کے درمیان سائلو کو ختم کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ مشترکہ اور کثیر الجہتی تحقیقات باہمی اعتماد کے ماحول میں ہی ممکن ہوں گی۔ اب ملک کی جغرافیائی حدود سے باہر پیسے، لوگوں، سامان اور خدمات کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان کی اقتصادی طاقت بڑھ رہی ہے، رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ہندوستان کے سماجی تانے بانے پر، ہمارے اتحاد اور بھائی چارے پر، ہمارے معاشی مفادات پر، ہمارے اداروں پر حملے روز بروز بڑھ رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ کرپشن کے لیے پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں جرائم اور بدعنوانی کی کثیر القومی نوعیت کو بھی سمجھنا اور مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس کی جڑ تک پہنچنا ہے۔ آج ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے جرائم عالمی ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی، یہ اختراع بھی حل فراہم کر سکتی ہے۔ ہمیں تحقیقات میں فرانزک سائنس کے استعمال کو مزید وسعت دینا ہوگی۔

ساتھیو

ہمیں سائبر کرائم جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اختراعی طریقے تلاش کرنے چاہییں۔ ہم تکنیکی صلاحیت رکھنے والے کاروباری افراد اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ آپ کی تنظیم میں بہت سے ٹیکنو دوست  نوجوان ہوں گے جن کا بہتر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ساتھیو،

مجھے بتایا گیا ہے کہ سی بی آئی نے 75 ایسے طریقوں کو مرتب کیا ہے جنہیں ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس پر بابند  وقت طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ برسوں کے دوران، سی بی آئی نے خود کو تیار کیا ہے۔ یہ عمل بغیر رکے،  بغیر تھکے ، اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ یہ چنتن شیور ایک نئی خود اعتمادی کو جنم دے گا، یہ چنتن شیور نئی جہتوں تک پہنچنے کے راستے پیدا کرے گا، یہ چنتن شیور سنگین سے سنگین، مشکل سے مشکل مسائل کو حل کرنے کی راہ میں جدیدیت لائے گا اور ہم زیادہ موثر، زیادہ بتیجہ خیز ہوں گے اور عام شہری نہ تو برا کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی برا کرنا پسند کرتا ہے۔ ہم اس کے بھروسے پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جس کے دل میں سچائی زندہ ہے۔ اور وہ تعداد کروڑوں کی ہے، کروڑوں کی ہے۔ اتنی بڑی طاقت ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ دوستو، ہمارے یقین میں کسی کمزوری کی گنجائش نہیں ہے۔

میں اس ڈائمنڈ فیسٹیول کے اہم موقع پر آپ کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ 15 سالوں میں اپنے لیے کیا کریں گے اور 2047 تک آپ اپنے ذرائع سے کیا حاصل کریں گے، یہ دونوں اہداف طے کر کے آگے بڑھیں۔ 15 سال اس لئے  کیونکہ جب آپ 75 سال کے ہوں گےتب  آپ کتنے قابل، لگن والے اور پرعزم ہوں گے، اور جب ملک 2047 میں اپنا صد سالہ جشن منائے گا، تو آپ اس ملک کی امیدوں اور توقعات کے مطابق کس بلندی پر پہنچے ہوں گے، وہ دن ملک دیکھنا چاہتا ہے۔

میری آپ کے لیے  بہت بہت نیک خواہشات ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
25% of India under forest & tree cover: Government report

Media Coverage

25% of India under forest & tree cover: Government report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21دسمبر 2024
December 21, 2024

Inclusive Progress: Bridging Development, Infrastructure, and Opportunity under the leadership of PM Modi