بہار کے گورنر جناب پھاگو چوہان جی، بہار کے وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار جی، مزکری کابینہ کے میرے معاون ساتھی جناب پیوش گوئل جی، جناب روی شنکر پرساد جی، جناب گری راج سنگھ جی، جناب نتیہ نند رائے جی، محترمہ دیباشری چودھری جی، بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی جی، دیگر وزراء حضرات، اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی اور تکنیک کے توسط سے جڑے بہار کے میرے بھائیو اور بہنو!
ساتھیو، آج بہار میں ریل رابطہ کاری کے میدان میں نئی تاریخ لکھی گئی ہے۔ کوسی مہاسیتو اور کیول برج کے ساتھ ہی بہار میں ریل نقل و حمل، ریلوے کی برق کاری اور ریلوے میں میک ان انڈیا کو فروغ دینے، نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے ایک درجن پروجیکٹوں کی آج رونمائی اور افتتاح ہوا ہے۔ تقریباً تین ہزار کروڑ روپئے کے ان پروجیکٹوں سے بہار کا ریل نیٹ ورک تو مضبوط ہوگا ہی، مغربی بنگال اور مشرقی بھارت کی ریل رابطہ کاری بھی مضبوط ہوگی۔ بہار سمیت مشرقی بھارت کے کروڑوں ریل مسافرین کو حاصل ہونے جا رہی ان نئی اور جدید سہولتوں کے لئے میں آج سبھی کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو، بہار میں گنگا جی ہوں، کوسی ہو، سون ہوں، ندیوں کی توسیع کے باعث بہار کے متعدد حصے ایک دوسرے منقطع رہے ہیں۔ بہار کے قریب قریب ہر حصے کے لوگوں کی ایک بڑی دقت رہی ہے، ندیوں کی وجہ سے ہونے والا طویل سفر۔ جب نتیش جی ریلوے کے وزیر تھے، جب پاسوان جی ریلوے کے وزیر تھے، تو انہوں نے بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بہت کوششیں کی تھیں۔ تاہم پھر ایک طویل وقفہ آیا جب اس ملک میں زیادہ کام ہی نہیں کیا گیا۔ ایسے میں بہار کے، بہار کے کروڑوں افراد کے، اس بڑے مسئلے کے حل کے عہد کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ 5۔6 برسوں میں ایک کے بعد ایک، اس مسئلے کے حل کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے گئے ہیں۔
ساتھیو، 4 برس قبل، شمالی اور جنوبی بہار کو مربوط کرنے والے دو مہاسیتو، ایک پٹنہ میں اور دوسرا مونگیر میں شروع کیے گئے تھے۔ ان دونوں ریل پلوں کے شروع ہو جانے سے شمالی بہار اور جنوبی بہار کے درمیان لوگوں کا آناجانا اور آسان ہوا ہے۔ خصوصاً شمالی بہار کے علاقے، جو دہائیوں سے ترقی سے محروم تھے، انہیں ترقی کے لئے نئی رفتار حاصل ہوئی ہے۔ آج متھیلا اور کوسی علاقے کو مربوط کرنے والا مہاسیتو اور سپول۔آسن پور کپہا ریل راستہ بھی بہار کے عوام کی خدمت کے لئے وقف ہے۔
ساتھیو، تقریباً ساڑھے 8 دہائی قبل زلزلے کی شکل میں رونما ہوئی ایک زبردست قدرتی آفت نے متھیلا اور کوسی علاقے کو الگ تھلگ کر دیا تھا۔ آج یہ اتفاق ہی ہے کہ کورونا جیسے عالمی وبائی مرض کے درمیان ان دونوں کو آپس میں جوڑا جا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے آخری مرحلے کے کاموں میں دوسری ریاستوں سے آئے مزدور ساتھیوں نے بھی بہت تعاون دیا ہے۔ ویسے یہ مہاسیتو اور یہ پروجیکٹ محترم اٹل جی اور نتیش بابو کے خوابوں کا پروجیکٹ بھی رہا ہے۔ جب 2003 میں نتیش جی ریلوے کے وزیر تھے اور محترم اٹل جی وزیر اعظم، تب نئے کوسی ریل لائن پروجیکٹ کے بارے میں تصور کیا گیا تھا۔
اس کا مقصد یہی تھا کہ متھیلا اور کوسی علاقے کے لوگوں کی پریشانیوں کو دور کیا جائے۔ اسی سوچ کے ساتھ 2003 میں اٹل جی کے ذریعہ اس پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ تاہم اگے برس اٹل جی کی حکومت چلی گئی اور اس کے بعد کوسی ریل لائن پروجیکٹ کی رفتار بھی دھیمی ہوگئی۔
اگر متھیلانچل کی فکر ہوتی، بہار کے لوگوں کی پریشانیوں کی فکر ہوتی، تو کوسی ریل لائن پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہوا ہوتا۔ اس دوران وزارت ریل کس کے پاس تھا، کس کی حکومت تھی، اس کی تفصیل میں، میں نہیں جانا چاہتا۔ تاہم سچائی یہی ہے کہ جس رفتار سے پہلے کام ہو رہا تھا، اگر اسی رفتار سے 2004 کے بعد بھی کام ہوا ہوتا، تو آج کا یہ دن پتہ نہیں کب آتا، کتنے سال لگ جاتے، کتنی دہائیاں گزر جاتیں، ہو سکتا ہے پیڑھیاں گزر جاتیں۔ لیکن اگر عزم مصمم ہو، نتیش جی کے معاون ساتھی ہوں، تو کیا کچھ ممکن نہیں ہے۔ مٹی روکنے کے لئے جدید تکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سوپول ۔ آسن پور کپہا راستے پر کام مکمل کیا گیا ہے۔
سال 2017 میں جو بھیانک سیلاب آیا تھا، اس دوران ہوئے نقصان کی بھرپائی بھی اس دوران کی گئی ہے۔ آخرکار کوسی مہاسیتو اور سوپول۔آسن پور کپہا راستہ بہار کے عوام کی خدمت کے لئے تیا رہے۔
ساتھیو، آج کوسی مہا سیتو ہوتے ہوئے سوپول۔آسن پور کپہا کے درمیان ریل خدمات شروع ہونے سے سوپول، ارریہ اور سہرسا ضلع کے لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ یہی نہیں، اس سے شمال مشرق کے ساتھیوں کے لئے ایک متبادل ریل راستہ بھی دستیاب ہو جائے گا۔ کوسی اور متھیلا علاقے کے لئے یہ مہاسیتو سہولت تو فراہم کرے گا ہی، ساتھ ہی یہ اس پورے علاقے میں تجارت و کاروبار، صنعت و روزگار کو بھی فروغ دینے والا ہے۔
ساتھیو، بہار کے عوام تو اسے اچھی طرح جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں نرملی سے سرائے گڑھ کا ریل سفر قریب قریب 300 کلو میٹر کا ہوتا ہے۔ اس کے لئے دربھنگہ ۔ سمستی پور ۔ کھگڑیا ۔ مانسی ۔ سہرسا، یہ سارے راستوں سے ہوکر ہوتے ہوئے جانا پڑتا ہے۔ اب وہ دن زیادہ دور نہیں جب بہار کے لوگوں کو 300 کلو میٹر کا یہ سفر نہیں کرنا پڑے گا۔ 300 کلو میٹر کی یہ دوری صرف 22 کلو میٹر میں سمٹ جائے گی۔ 8 گھنٹے کا ریل سفر آدھے گھنٹے میں ہی پورا ہو جایا کرے گا۔ یعنی سفر بھی کم، وقت کی بھی بچت اور بہار کے عوام کے پیسوں کی بھی کفایت ہوگی۔
ساتھیو، کوسی مہا سیتو کی ہی طرح کیول ندی پر نئی ریل الیکٹرانک انٹرلاکنگ کی سہولت شروع ہونے سے اس پورے راستے پر سہولت اور رفتار دونوں بڑھنے والی ہیں۔ اس نئی ریل پل کی تعمیر سے جھا جھا سے پنڈت دین دیال اپادھیائے جنکشن تک مین لائن پر، سو سوا سو کلو میٹر فی گھنٹے کی رفتار سے اب ریل گاڑیاں چل پائیں گی۔ الیکٹرانک انٹر لاکنگ کے شروع ہونے سے ہاوڑا ۔ دہلی مین لائن پر ریل گاڑیوں کی آمدو رفت میں آسانی ہوگیی، غیر ضروری تاخیر سے راحت ملے گی اور ریل سفر مزید محفوظ ہوگا۔
ساتھیو، گذشتہ 6 برسوں سے بھارتی ریلوے کو نئے بھارت کی آرزؤں اور آتم نربھر بھارت کی امیدوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔آج بھارتی ریل، پہلے سے کہیں زیادہ صاف ستھری ہے۔ آج بھارتی ریل کے براڈ گاج ریل رابطے کو انسانوں کے بغیر پھاٹکوں سے مبرا بناکر، پہلے سے کہیں زیادہ محفوظ بنایا جا چکا ہے۔ آج بھارتی ریل کی رفتار تیز ہوئی ہے۔ آج خودکفالت اور جدیدیت کی عکاس، وندے بھارت جیسی بھارت میں تیار کی گئی ریل گاڑیاں نیٹ ورک کا حصہ ہوتی جا رہی ہیں۔
آج ملک کے اَن چھوئے حصوں سے ریل رابطہ کاری کے ساتھ مربوط کرنے کی، ریل راستوں کو چوڑا کرنے اور برق کاری کے انتظام کی تیز رفتاری سے توسیع کاری ہو رہی ہے۔
ساتھیو، ریلوے کی جدید کاری کے اس جامع کوشش کا بہت بڑا فائدہ بہار کو اور پورے شمال مشرق کو حاصل ہو رہا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں میں میک ان انڈیا کو فروغ دینے کے لئے مدھے پورا میں الیکٹرانک لوکو فیکٹری اور مڈھورا میں ڈیزل لوکو فیکٹری قائم کی گئی ہیں۔ ان دونوں پروجیکٹوں سے بہار میں تقریباً 44 ہزار کروڑ روپئے کے بقدر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ یہ سن کر بہار کے عوام کو فخر ہوگا کہ آج بہار میں 12 ہزار ہارس پاور کے سب سے طاقتور برقی انجن تیار ہو رہے ہیں۔ برونی میں بجلی کے انجنوں کے رکھ رکھاؤ کے لئے بہار کا پہلا لوکو شیڈ بھی کام کرنا شروع کر چکا ہے۔
بہار کے لئے ایک اور بڑی بات یہ ہے کہ آج بہار میں ریل رابطہ کاری کے تقریباً 90 فیصد حصے کی برق کاری ہو چکی ہے۔ گذشتہ 6 برسوں میں ہی بہار میں 3 ہزار کلو میٹر سے زیادہ کے ریل راستے کی برق کاری ہوئی ہے۔ آج اس میں 5 مزید پروجیکٹ شامل ہوگئے ہیں۔
ساتھیو، بہار میں جس طرح کے حالات رہے ہیں، اس میں ریلوے، لوگوں کے نقل و حمل کا بہت بڑا وسیلہ رہی ہے۔ ایسے میں بہار میں ریلوے کی حالت کو سدھارنا، مرکزی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک رہی ہے۔ آج بہار میں کس تیز رفتار سے ریلوے نیٹ ورک پر کام چل رہا ہے، اس کے لئے میں ایک معلومات دینا چاہتا ہوں۔ 2014 سے قبل کے 5 برسوں میں تقریباً سوا تین سو کلو میٹر ریل لائن کمیشن ہوئی تھی۔ آسان الفاظ میں کہیں تو 2014 کے پہلے کے 5 برسوں میں بہار میں صرف سوا تین سو کلو میٹر نئی ریل لائن شروع تھی۔
جبکہ 2014 کے بعد کے 5 برسوں میں بہار میں تقریباً 700 کلو میٹر ریل لائن کمیشن ہو چکی ہے۔ یعنی تقریباً دوگنے سے بھی زیادہ نئی ریل لائن شروع ہوئی۔ ابھی تقریباً 1000 کلو میٹر نئی ریل لائنوں کیی تعمیر کا کام تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ آج حاجی پور ۔ گھوس ور ۔ ویشالی نئی ریل لائن کے شروع ہونے سے ویشالی نگر، دہلی اور پٹنہ سے بھی سیدھی ریل خدمات سے مربوط ہو جائے گا۔ اس سروس سے ویشالی میں سیاحت کو تقویت حاصل ہوگی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔
اس طرح اسلام پور ۔ نٹیسر نئی ریل لائن سے بھی لوگوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ خصوصاً بودھ مذہب کے پیروکاروں کو اس نئی سہولت میں کافی آسانی ہوگی۔
ساتھیو، آج ملک میں مال گاڑی اور مسافر گاڑی، دونوں ک لئے الگ الگ ٹریک بنانے کی جامع انتظام کاری یعنی وقف فریٹ گلیارےے پر بھی تیزی سے کام چل رہا ہے۔ اس میں سے بہار میں قریب ڈھائی سو کلو میٹر طویل وقف فریٹ گلیارا تعمیر ہو رہا ہے، جو بہت جلد پورا ہونے والا ہے۔ اس انتظام سے ریل گاڑیوں میں ہونے والی تاخیر کا مسئلہ بھی کم ہوگا اور سامان لادنے میں ہونے والی تاخیر بھی بہت کم ہو جائے گی۔
ساتھیو، جس طرح کورونا کے اس بحران میں ریلوے نے کام کیا ہے، ریلوے کام کر رہی ہے، اس کے لئے میں بھارتی ریل کے لاکھوں ملازمین کو، ان کے ساتھیوں کی خصوصی طور پر تعریف کرتا ہوں۔ ملک کے لاکھوں مزدوروں کے لئے خصوصی ریل گاڑیوں کے ذریعہ صحیح سلامت گھر پہنچانے کے لئے ریلوے نے دن رات ایک کر دیا تھا۔ مقامی سطح پر مزدوروں کو روزگار فراہم کرانے میں بھی ریلوے بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ کورونا کے دور میں بھارتی ریلوے کی سفر سے متعلق خدمات بھلے ہی کچھ وقت کے لئے رک گئی تھی لیکن ریل کو محفوظ اور جدید بنانے کا کام تیز رفتاری سے چلتا رہا۔ ملک کی پہلی کسان ریل، یعنی پٹری پر چلتا ہوا کولڈ اسٹوریج بھی بہار اور مہاراشٹر کے درمیان کورونا کے دور میں ہی شروع کیا گیا۔
ساتھیو، یہ پروگرام بھلے ہی ریلوے کا ہے تاہم ریلوے کے ساتھ ہی، یہ لوگوں کے زندگی کو آسان بنانے، اور بہتر بنانے کی کوشش کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اس لیے میں ایک اور موضوع پربات کرنا چاہتا ہوں، جو بہار کے لوگوں کی صحت سے مربوط ہے۔ نتیش جی کی حکومت بننے سے پہلے تک بہار میں ایک ۔ دو میڈیکل کالج ہوا کرتے تھے۔ اس سے بہار میں مریضوں کو تو بھاری دقت تھی ہی بہار کے میدھاوی نوجوانوں کو بھی میڈیکل کی تعلیم کے لئے دوسری ریاستوں کا رک کرنا پڑتا تھا۔ آج بہار میں 15 سے زیادہ میڈیکل کالج ہیں، جس میں سے زیادہ تر گذشتہ کچھ برسوں میں ہی بنائے گئے ہیں۔
کچھ روز قبل ہی بہار میں ایک نئے اے آئی آئی ایم ایس کو بھی منظوری دے دی گئی ہے۔ یہ نیا اے آئی آئی ایم ایس، دربھنگہ میں بنایا جائے گا۔ اس نئے ایمس میں 750 بستروں کا نیا ہسپتال تو بنے گا ہی، اس میں ایم بی بی ایس کی 100 اور نرسنگ کی 60 سیٹیں بھی ہوں گی۔ دربھنگہ میں تعمیر ہونے والے اس ایمس سے ہزاروں نئے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ساتھیو، ملک کے کاشتکاروں کی فلاح کے لئے، زرعی اصلاحات کی سمت میں، کل ملک کے لئے انتہائی اہم دن تھا۔ کل وشوکرما جینتی کے دن، لوک سبھا میں تاریخی زرعی اصلاحات بل منطور کیے گئے ہیں۔ ان بلوں نے ہمارے اَن داتا کاشتکاروں کو مختلف بندشوں سے آزادی دلائی ہے۔ آزادی کے بعد کاشتکاروں کو زراعت میں ایک نئی آزادی دینے کا کام ہوا ہے۔ انہیں آزاد کیا ہے۔ ان اصلاحات سے کاشتکاروں کو اپنی پیداوار فروخت میں اور زیادہ متبادل حاصل ہوں گے، اور زیادہ مواقع حاصل ہوں گے۔ میں ملک بھر کے کاشتکاروں کو، ان بلوں کے منظور ہونے پر بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
کاشتکار اور صارف کے درمیان جو بچولیے ہوتے ہیں، جو کاشتکاروں کی کمائی کا بڑا حصہ خود لے لیتے ہیں، ان سے بچانے کے لئے یہ بل لائے جانے بہت ضروری تھے۔ یہ بل کاشتکاروں کے لئے حفاظتی ڈھال بن کر آئے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ جو دہائیوں تک حکومت میں رہے ہیں، ملک پر حکومت کی ہے، وہ لوگ کاشتکاروں کو اس موضوع پر شک و شبہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کاشتکاروں سے جھوٹ بول رہے ہیں۔
ساتھیو، انتخابات کے وقت کاشتکاروں کو رجھانے کے لئے یہ بڑی بڑی باتیں کرتے تھے، تحریری طور پر کرتے تھے، اپنے انتخابی منشور میں ڈالتے تھے اور انتخابات کے بعد بھول جاتے تھے۔ اور آج جب وہی چیزیں، ان کے انتخابی منشور شامل ہیں، وہیں چیزیں این ڈی اے حکومت کر رہی ہے، کاشتکاروں کو وقف ہماریی حکومت کر رہی ہے، تو یہ طرح طرح کے شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں۔ جس اے پی ایم سی ایکٹ کو لے کر اب یہ لوگ سیاست کر رہے ہیں، زرعی منڈی کی شرطوں میں تبدیلی کی مخالفت کر رہے ہیں، اسی تبدیلی کی بات ان لوگوں نے اپنے انتخابی منشور میں بھی لکھی تھی۔
لیکن اب جب این ڈی اے حکومت نے یہ تبدیلی کر دی ہے، تو یہ لوگ اس کی مخالفت کرنے پر، جھوٹ پھیلانے پر، شبہات پیدا کرنے پر اتر آئے ہیں۔ صرف مخالفت کے لئے مخالفت کرنے کی یکے بعد دیگرے مثالیں سامنے آ رہی ہیں۔ تاہم یہ لوگ، یہ بھول رہے ہیں کہ ملک کا کسان کتنا بیدار ہے۔ وہ یہ دیکھ رہا ہے کہ چند لوگوں کو حاصل ہو رہے نئے مواقع ان کو پسند نہیں آ رہے ہیں۔ ملک کا کسان یہ دیکھ رہا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں، جو بچولیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ساتھیو، یہ لوگ ایم ایس پی کو لے کر بڑی بڑی باتیں کرتے تھے۔ تاہم کبھی اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ کاشکاروں سے کیا یہ وعدہ اگر کسی نے پورا کیا ہے تو وہ این ڈی اے کی موجودہ حکومت نے پورا کیا۔ اب یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے ذریعہ کسانوںکو ایم ایس پی کا فائدہ نہیں دیا جائے گا۔ یہ بھی من گھڑت باتیں کہی جا رہی ہیں کہ کاشتکاروں سے دھان۔ گیہیوں وغیرہ کی خرید حکومت کےذریعہ نہیں کی جائے گی۔ یہ بالکل جھوٹ ہے، غلط ہے، کسانوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ ہماری حکومت کاشتکاروں کو ایم ایس پی کے ذریعہ مناسب قیمت دلانے کے لئے عہد بستہ ہے۔ پہلے بھی تھی، آج بھی ہے، آگے بھی رہے گی۔ سرکاری خرید بھی پہلے کی طرح جاری رہے گی۔ کوئی بھی شخص اپنی پیداوار، جو بھی وہ پیدا کرتا ہے، دنیا میں کبھی فروخت کر سکتا ہے، جہاں چاہے وہاں فروخت کر سکتا ہے۔
اگر وہ کپڑا بناتا ہے، جہاں چاہے فروخت کر سکتا ہے۔ وہ برتن بناتا ہے، کہیں پر بھی فروخت کر سکتا ہے۔ وہ جوتے بناتا ہے، کہیں پر بھی فروخت کر سکتا ہے۔ تاہم صرف میرے کسان بھائی بہنوں کو اس حق سے محروم رکھا گیا تھا، مجبور کیا گیا تھا۔ اب نئی سہولتوں کی وجہ سے، کسان اپنی فصل کو ملک کے کسی بھی بازار میں، اپنی من چاہی قیمت پر فروخت کر سکے گا۔ یہ ہمارے کارپوریٹیوز، زرعی پیداوار اور بہار میں چلنے والے روزگار جیسے خواتین سیلف ہیلپ گروپوں کے لئے ایک سنہرا موقع لے کر آیا ہے۔
ساتھیو، نتیش جی بھی اس پروگرام میں موجود ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اے پی ایم سی ایکٹ سے کسانوں کا کیا کیا نقصان ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہار کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد، اپنے شروعاتی برسوں میں ہی نتیش جی نے بہار میں اس قانون کو ہٹا دیا تھا۔ جو کام کبھی بہار نے کرکے دکھایا تھا، آج ملک اس راستے پر چل پڑا ہے۔
ساتھیو، کسانوں کے لئے جتنا این ڈی اے دور میں گذشتہ 6 برسوں میں کیا گیا ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ کاشتکاروں کو ہونے والی ایک ایک پرییشانی کو سمجھتے ہوئے، ایک۔ ایک دقت کو دور کرنے کے لئے ہماری سرکار نے مسلسل کوشش کی ہے۔ ملک کے کاشتکاروں کو بیچ خریدنے میں، کھاد خریدنے میں، اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسی سے قرض نہ لینا پڑے، اس کے لئے ہی پردھان منتری کسان کلیان یوجنا شروع کی گئی تھی۔ اس یوجنا کے تحت اب تک ملک کے 10 کروڑ کسانوں کے کھاتے میں قریب قریب ایک لاکھ کروڑ روپئے سیدھے ٹرانسفر کیے جا چکے ہیں، کوئی بچولیا نہیں۔
کسانوں کو پانی کی دقت نہ ہو، دہائیوں سے التوا میں پڑی سینچائی سے متعلق اسکیمیں مکمل ہوں، اس کے لئے پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا پر قریب ایک لاکھ کروڑ روپئے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ وہ یوریا، جس کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگتی تھیں، جو کسانوں کے کھیت میں کم اور فیکٹریوں میں زیادہ آسانی سے پہنچتا تھا، اب اس کی 100 فیصد نیم کوٹنگ کی جاری رہے ہے۔ آج ملک میں بڑے پیمانے پر کولڈ اسٹوریج کا نیٹ ورک تیار کیا جا رہا ہے، فوڈ پروسیسنگ سے جڑی صنعتوں میں زبردست سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، ایک لاکھ کروڑ روپئے کا زرعی بنیادیی ڈھانچہ فنڈ بنایا جا رہا ہے۔
کاشتکاروں کے مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے ملک گیر پیمانے پر مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ ماہی پروری بڑھانے کے لئے، مرغی پالن کو بڑھاوا دینے کے لئے، شہد پیداوار کو بڑھانے کے لئے، دودھ پیداوار کو بڑھانے کے لئے، کاشتکاروں کی آمدنی کو علاوہ متبادل دینے کے لئے مرکزی حکومت مسلسل کام کر رہی ہے۔
ساتھیو، میں آج ملک کے کاشتکاروں کو بڑی نرمی سے اپنی بات بتانا چاہتا ہوں، واضح پیغام دینا چاہتا ہوں۔ آپ کسی بھی طرح کے شک میں مبتلا نہ ہوں۔ ان لوگوں سے ملک کے کاشتکاروں کو ہوشیار رہنا ہے۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں جنہون نے دہائیوں تک ملک پر حکومت کی اور جو آج کاشتکاروں سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ لوگ کاشتکاروں کی حفاظت کا ڈھنڈھورا پیٹ رہے ہیں لیکن دراصل وہ کاشتکاروں کو مختلف بندشوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ بچولیوں کا ساتھ دے رہے ہیں، وہ لوگ کاشتکاروں کی کمائی کو درمیان میں لوٹنے والوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کسانوں کو اپنی پیداوار ملک میں کہیں پر بھی، کسی کو بھی فروخت کرنے کی آزادی دینا، ایک بڑا تاریخی قدم ہے۔
21ویں صدی میں بھارت کا کسان، بندشوں میں نہیں، بھارت کا کسان کھل کر کھیتی کرے گا، جہاں من آئے گا اپنی پیداوار فروخت کرے گا، جہاں زیادہ پیسہ ملے گا، وہاں فروخت کرے گا، کسی بچولیے کا محتاج نہیں رہے گا اور اپنی پیداوار، اپنی آمدنی بھی بڑھائے گا۔ یہ ملک کی ضرورت ہے اور وقت کا مطالبہ بھی ہے۔
ساتھیو، کسان ہوں، خواتین ہوں، نوجوان ہوں، قوم کی ترقی میں سبھی کو بااختیار بنانا ہم سبھی کی ذمہ داری ہے۔ آج جتنے بھی پروجیکٹوں کو وقف کیا گیا ہے، وہ اسی فرض کا ایک حصہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آج جن پروجیکٹوں کی رونمائی اور افتتاح ہوا ہے، ان سے بہار کے لوگوں، یہاں کے نوجوانوں، یہاں کی خواتین کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، کورونا کے اس بحران میں، ہم سبھی کو بہت سنبھل کر رہنا ہے۔ تھوڑی سی بھی لاپرواہی، آپ کا اور آپ کے خوابوں کا بہت زیادہ نقصان کر سکتی ہے۔ اس لیے میں بہار کے لوگوں سے، ملک کے لوگوں سے اپنی درخواست کو پھر دوہرانا چاہتا ہوں۔ ماسک ضرور پہنیں اور ٹھیک سے پہنیں، دو گز کی دوری کا ہمیشہ دھیان رکھیں، اس پر عمل کریں، بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں، بھیڑ اکٹھی کرنے سے بچیں، اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لئے کاڑھا پیتے رہیں، غنغنہ پانی پیتے رہیں، اپنی صحت پر مسلسل دھیان دیں۔ آپ ہوشیار رہئے، محفوظ رہئے، صحت مند رہئے!!
آپ کا کنبہ صحت مند رہے، اسی خواہش کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ!