مغربی بنگال کے گورنر جناب  جگدیپ دھنکھڑ جی، وشو بھارتی کے وائس چانسلر پروفیسر بدیوت چکرورتی جی، معزز اساتذہ،  معزز اہلکار اور میرے فعال نوجوان ساتھیو!

گورودیو  رویندر ناتھ ٹیگور نے جو بے مثال وراثت ماں بھارتی کو سونپی ہے، اس کا حصہ بننا، آپ تمام ساتھیوں سے جڑنا میرے لئے باعث تحریک بھی ہے اور  باعث خوشی بھی ہے اور ایک نئی توانائی  بھرنے والا ہے۔ اچھا ہوتا میں اس مقدس مٹی پر آکرکے آپ کے بیچ شریک ہوتا۔ لیکن جس طرح کے نئے ضابطوں میں زندگی گزارنی پڑ رہی ہے  اور اس لئے میں آج روبرو نہ آتے ہوئے دور سے ہی سہی،آپ سب کو سلام کرتا ہوں، اس مقدس مٹی کو سلام کرتا ہوں۔ اس بار تو کچھ مدت کے وقفے سے مجھے دوسری بار یہ موقع ملا ہے۔  آپ کی زندگی کے اس اہم موقع پر آپ تمام نوجوان ساتھیوں کو، والدین کو، اساتذہ کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہو، بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج ایک بہت ہی مبارک موقع ہے، بہت ہی  تحریک حاصل کرنے کا دن ہے۔ آج چھترپتی شیواجی مہاراج کا یوم پیدائش ہے۔ میں تمام اہل وطن کو چھتر پتی شیواجی مہاراج کی جینتی پر  بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ گورو دیو رویندر ناتھ ٹیگور جی نے بھی  شیباجی۔ اتسو نام سے ویر شیواجی پر ایک نظم لکھی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا:

कोन्‌ दूर शताब्देर

कोन्‌-एक अख्यात दिबसे

नाहि जानि आजि, नाहि जानि आजि,

माराठार कोन्‌ शोएले अरण्येर

अन्धकारे बसे,

हे राजा शिबाजि,

तब भाल उद्भासिया ए भाबना तड़ित्प्रभाबत्

एसेछिल नामि–

“एकधर्म राज्यपाशे खण्ड

छिन्न बिखिप्त भारत

बेँधे दिब आमि।’’

یعنی ایک صدی سے بھی پہلے، کسی ایک  انام دن، میں اس دن کو نہیں جانتا، کسی پہاڑ کی اونچی چوٹی سے ، کسی گھنے جنگل  میں، اوہ راجا شیواجی، کیا یہ خیال آپ کو ایک بجلی کی روشنی کی طرح آیا تھا؟ کیا یہ خیال آیا تھا کہ الگ الگ حصوں میں تقسیم اس ملک کی سرزمین کو  ایک دھاگے میں پرونا ہے؟ کیا مجھے اس کے لئے خود کووقف کرنا ہے؟ ان سطروں میں چھتر پتی ویر شیواجی سے تحریک لیتے ہوئے بھارت کی یکجہتی، بھارت کو ایک  دھاگے میں پرونے کی اپیل تھی۔ ملک کی یکجہتی کو مضبوط کرنے والے  ان جذبات کو ہمیں کبھی بھولنا نہیں ہے۔ لمحہ لمحہ زندگی کے ہر قدم پر  ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے اس منتر کو   ہمیں یاد بھی رکھنا ہے، ہمیں جینا بھی ہے۔ یہی تو ٹیگور کا ہمیں پیغام ہے۔

 

ساتھیو،

آپ صرف ایک یونیورسٹی کا ہی حصہ نہیں ہیں، بلکہ ایک زندہ جاوید روایت کو لے جانے والے  بھی ہیں۔ گورو دیو اگر وشو بھارتی کو صرف ایک یونیورسٹی کی شکل میں دیکھنا چاہتے ، تو وہ اس کو گلوبل یونیورسٹی یا کوئی اور نام بھی دے سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے وشو بھارتی یونیورسٹی نام دیا۔ انہوں نے کہا تھا ۔

 

‘’Visva-Bharati acknowledges India’s obligation to offer to others the hospitality of her best culture and India’s right to accept from others their best.”

 

گورودیو کی وشو بھارتی سے توقع تھی کہ  یہاں جو سیکھنے آئے گا، وہ پوری دنیا کو ہندوستان اور ہندوستانیت کی نظر سے دیکھے گا۔ گورو دیو کے  اس ماڈل  کو برہم، ایثار اور  خوشی کی اقدار سے تحریک ملی تھی۔اس لئے انہوں نے وشو بھارتی کو سیکھنے کا ایک ایسا مقام بنایا جو بھارت کی مالا مال وراثت کو اپنے  اندر جذب کرے، اس پر تحقیق کرے اور غریب سے غریب کے مسائل کے حل کے لئے کام کرے۔ یہ سنسکار میں،  ماضی میں نکلنے والے طلبا طالبات  میں بھی دیکھتا ہوں  اور آپ سے بھی ملک کی یہی توقع ہے۔

ساتھیو،

گورودیو ٹیگور کے لئے وشو بھارتی،  محض علم دینے والا اور علم کی ترویج کرنے والا ایک ادارہ نہیں تھا۔،یہ ایک  کوشش ہے، بھارتی ثقافت کے اعلی ترین نشانے تک پہنچنے کی، جسے ہم کہتے ہیں- خود کو پانا۔ جب آپ اپنے کیمپس میں بدھ کے روز ’اپاسنا‘ کے لئے یکجا ہوتےہیں، تو اپنے آپ کا ہی سامنا کرتے ہیں۔ جب آپ  گورودیو کے ذریعہ شروع کی گئیں تقریبات میں یکجا ہوتے ہیں تو اپنے آپ کا سامنا کرنے کا ایک موقع حاصل ہوتا ہے۔ جب  گورودیو کہتے ہیں:

‘आलो अमार

आलो ओगो

आलो भुबन भारा’

تو یہ اس روشنی کے لئے پکار ہے جو ہمارے  شعور کو بیدار کرتی ہے۔ گورودیو ٹیگور مانتے تھے، گونا گونیت رہے گی، نظریات رہیں گے، ان سب کے ساتھ ہی ہمیں خود کی بھی تلاش کرنی ہوگی۔ وہ بنگال کے لئے کہتے تھے۔

बांगलार माटी,

बांगलार जोल,

बांगलार बायु, बांगलार फोल,

पुण्यो हौक,

पुण्यो हौक,

पुण्यो हौक,

हे भोगोबन..

 

لیکن ساتھ ہی وہ بھارت کے  تنوع کی شان  کا ذکر بھی ویسے ہی جذبے سے کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے:


हे मोर चित्तो पुन्यो तीर्थे जागो रे धीरे,

ई भारोतेर महामनोबेर सागोरो-तीरे

हेथाय दाराए दु बाहु बाराए नमो

नरोदे-बोतारे,

اور یہ گورودیو کا ہی وسیع وژن تھا کہ شانتی نکیتن کے کھلے آسمان کے نیچے وہ وشو مانو  کو دیکھتے تھے۔

एशो कर्मी, एशो ज्ञानी,

ए शो जनकल्यानी, एशो तपशराजो हे!

एशो हे धीशक्ति शंपद मुक्ताबोंधो शोमाज हे !

اے مزدور ساتھیوں، اے  جانکار ساتھیوں، اے سماج کے خدمت گاروں ، اے سنتوں، سماج کے تمام بیدارساتھیوں، آیئے سماج کی نجات کے لئے مل کر کوشش کریں۔ آپ کے کیمپس میں علم حاصل کرنے کے لئے ایک لمحہ بھی گزارنے والے کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے گورودیو کا یہ وژن ملتا ہے۔

ساتھیو،

وشو بھارتی تو اپنے آپ میں علم کا وہ  کھلا سمندر ہے جس کی بنیاد ہی تجربے پر مبنی تعلیم کے لئے رکھی گئی۔ تخلیقی صلاحیت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اسی خیال کے ساتھ گورودیو نے  اس عظیم یونیورسٹی کو قائم  کیا تھا۔ آپ کو یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ علم ، خیال اور ہنر  غیر متحرک نہیں ہے، پتھر کی طرح نہیں ہے، ساکت نہیں ہے، زندہ ہیں، یہ ہمیشہ چلنے والا عمل ہے اوراس  میں  کورس کریکشن کی گنجائش بھی ہمیشہ رہے گی۔ لیکن علم اور  پاور  دونوں ذمہ داری کے ساتھ آتے ہیں۔

جس طرح اقتدار میں رہتے ہوئے  بہ تحمل اور حساس رہنا پڑتا ہے،رہنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح ہر عالم کو ، ہر جانکار کو بھی   ان کے تئیں ذمہ دار رہنا پڑتا ہے، جن کے پاس وہ طاقت نہیں ہے۔ آپ کا علم صرف آپ کا نہیں، بلکہ سماج کی، ملک کی، اور آنے والی  نسلوں کی بھی وہ وراثت ہے۔ آپ کا علم، آپ کا ہنر، ایک سماج  کے لئے باعث افتخار بھی ہوسکتا ہے اور وہ سماج کو بدنامی اور بربادی کے اندھیرے میں بھی دھکیل سکتا ہے۔ تاریخ اور موجودہ دور میں ایسی متعدد مثالیں ہیں۔

آپ دیکھئے جو دنیا میں دہشت پھیلا رہے ہیں، جو دنیا میں تشدد پھیلا رہے ہیں، ان میں بھی کئی  اعلی تعلیم یافتہ،  اعلی صلاحیت والے،  اعلی ہنر مند لوگ ہیں۔ دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو  کورونا جیسی عالمی وبا سے دنیا کو نجات دلانے کے لئے دن رات اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ اسپتالوں میں  ڈٹے رہتے ہیں۔ تجربہ گاہوں میں مصروف ہیں۔

یہ محض آئڈیولوجی کا سوال نہیں ہے، بنیادی بات تو ذہنیت کی ہے۔ آپ کیا کرتے ہیں، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کا مائنڈ سیٹ مثبت ہے یا منفی۔ اسکوپ دونوں کے لئے ہے، راستے دونوں کے لئے کھلے ہیں۔ آپ مسئلے کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پھر حل کا، یہ طے کرنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اسی طاقت، اسی  صلاحیت، اسی عقل، اسی  شان و شوکت کو اچھے کام کے لئے  استعمال کریں گے تو نتیجہ ایک ملے گا، برے کاموں کے لئے لگائیں گے تو نتیجہ دوسرا ملے گا۔ اگر ہم  صرف اپنا مفاد دیکھیں گے تو ہم ہمیشہ  چاروں طرف مصیبتیں دیکھتے آئیں گے، مسائل دیکھتے آئیں گے، ناراضگی دیکھتے آئیں گے، غم و غصہ نظر آئے گا۔

لیکن اگر  آپ خو دسے اوپر اٹھ کر ، اپنے مفاد  سے اوپر اٹھ کر ملک سب سے پہلے کی اپروچ کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو آپ کو ہر مسئلے کے درمیان میں بھی  حل ڈھونڈنے کا دل کرے گا، حل نظر آئے گا۔ بری طاقتوں میں بھی آپ کو  اچھا ڈھونڈنے کا ، اس میں سے اچھائی کی تبدیلی کا دل کرے گا اور آپ صورتحال کو تبدیل بھی کریں گے، آپ خود بھی اپنے آپ میں  ایک سولیوشن بن کر ابھریں گے۔

اگر آپ کی نیت صاف ہے اور وفاداری ماں بھارتی کے تئیں ہیں، تو آپ کا ہر فیصلہ، آپ کا ہر عمل، آپ کی ہر تخلیق کسی نہ کسی مسئلے کے حل کی طرف ہی بڑھے گی۔ کامیابی اور ناکامی ہمارا  حال اور مستقبل طے نہیں کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ  آپ کو کسی فیصلے کے بعد  جیسا سوچا تھا ویسا نتیجہ نہ ملے، لیکن آپ کو فیصلہ لینے میں ڈرنا  نہیں چاہیئے۔ ایک نوجوان کے طور پر، ایک انسان کے طور پر  جب کبھی ہمیں فیصلہ لینے سے ڈر لگنے لگے، تو وہ ہمارے لئے   سب سے بڑی مشکل ہوگی۔ اگر فیصلے لینے کا حوصلہ  چلا گیا تو  مان لیجئے گا کہ آپ کی جوانی چلی گئی ہے۔ آپ نوجوان  نہیں رہے ہیں۔

جب تک بھارت کے نوجوان میں  نیا کرنے کا، رسک لینے کا اور آگے بڑھنے کا جذبہ رہے گا، تب تک کم سے کم مجھے ملک کے مستقبل کی فکر نہیں ہے اور مجھے جو ملک  نوجوان ہو، 130 کروڑ آبادی میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہوں تو میرا اعتماد اور مضبوط ہوجاتا ہے، میرا یقین اور مضبوط ہوجاتاہے۔ اور اس کے لئے آپ  کو جو تعاون چاہیے، جو ماحول چاہئے، اس کے لئے میں خود بھی اور حکومت بھی .... اتنا ہی نہیں، 130 کروڑ کا عزائم سے بھرا ہوا، خوابوں کو لیکر جینے والا ملک بھی آپ کی حمایت میں کھڑا ہے۔

ساتھیو،

وشو بھارت کے 100 سال کے تاریخی موقع پر  جب میں نے آپ سے بات کی تھی تو اس دوران بھارت کے عزت و وقار اور  آتم نربھرتا کے لئے  آپ سبھی نوجوان کے تعاون کا ذکر کیا تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد، زندگی کے زندگی کے اگلے مرحلے میں اب تمام نوجوانوں کو  ہر طرح کے تجربات ملیں گے۔

ساتھیو،

آج جیسے چھترپتی شیواجی مہاراج کے یوم پیدائش پر ہمیں فخر ہے، ویسے ہی مجھے آج دھرم پال جی کی یاد آتی ہے۔ آج گاندھی کے عظیم پیروکار دھرم پال جی کا بھی یوم پیدائش ہے۔ ان کی تخلیق ہے۔

 

The Beautiful Tree- Indigenous Indian Education in the Eighteenth Century.

 

آج آپ سے بات کرتے ہوئے  میں اس  مقدس دھام میں آپ سے بات کررہا ہوں تو میرا دل کرتا ہے کہ اس کا ذکر میں ضرور کروں اور بنگال کی دھرتی، فعال دھرنی کے درمیان جب بات کررہا ہوں تو فطری طور پر میرا دل کرتا ہے کہ میں ضرور دھرم پال جی کے اس  موضوع کو آپ کے سامنے رکھوں۔ اس کتاب میں دھرم پال جی  نے تھامس منرو کے ذریعے کئے گئے ایک قومی تعلیمی سروے  کی تفصیلات دی ہیں۔

سال 1820 میں  کئے گئے اس تعلیمی سروے میں  کئی ایسی باتیں ہیں جو ہم سب کو حیران بھی کرتی ہیں،اور فخر شان سے بھر دیتی ہیں۔ اس سروے میں  بھارت کی  خواندگی کی شرح کا اندازہ بہت اونچا لگایا گیا تھا۔ سروے میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ کیسے ہر گاؤں میں  ایک سے زیادہ گورو کُل تھے اور جو گاؤں کے مندر ہوتے تھے، وہ صرف پوجا پاٹھ کی جگہ نہیں، وہ تعلیم کو فروغ دینے والے، تعلیم کو بڑھاو ا دینے والے،  ایک بہت زیادہ مقدس عمل سے بھی گاؤں کے مندر جڑے ہوئے رہتے تھے۔ وہ  بھی گوروکل کی روایت کو آگے بڑھانے کی، تقویت دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر علاقے، ہر راج میں اس وقت کالجوں کو بہت فخر سے دیکھا جاتا تھا کہ اتنا بڑا  ان کا نیٹ ورک تھا۔ اعلی تعلیم کے ادارے بھی بہت بڑی تعداد میں تھے۔

بھارت پر  برٹش ایجوکیشن سسٹم تھوپے جانے سے پہل، تھامس منرو نے بھارتی طریقہ تعلیم اور   نظام تعلیم کی طاقت کو محسوس کیا تھا، دیکھا تھا۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ ہمارا نظام تعلیم  کتنا شاندار اور فعال ہے، یہ 200 سال پہلے کی بات ہے۔  اسی کتاب میں ولیم ایڈم کا بھی ذکر ہے کہ جنہوں نے یہ پایا تھا کہ 1830 میں بنگال اور بہار میں ایک لاکھ سے زیادہ ولیج اسکول تھے، دیہی درس گاہیں تھیں۔

ساتھیو،

 یہ باتیں میں آپ کو تفصیل سے اس لئے بتا رہا ہوں کہ ہمیں یہ جاننا  ضروری ہے کہ ہمارا  نظام تعلیم کیا تھا،  کتنا شاندار تھا، کس طرح یہ ہر انسان تک پہنچا ہوا تھا اور بعد میں انگریزوں کے دور میں اور اس کے بعد کے دور میں  ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے، کیا سے کیا ہوگیا۔

گورودیو نے وشو بھارتی میں جو  نظام تیار کئے، جو طریقہ کار وضع کئے، وہ بھارت کے نظام تعلیم کو  دوسروں پر انحصار  کی زنجیروںں سے  آزاد کرنے، بھارت کو جدید بنانے کا ایک ذریعہ  تھے۔ اب آج  بھارت میں نئی قومی تعلیمی پالیسی بنی ہے، وہ بھی پرانی زنجیروں کو توڑنے کے ساتھ ہی طلبا کو  اپنی اہلیت کا مظاہرہ کرنے کی پوری آزادی دیتی ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی  آپ کو الگ الگ موضوعات کو پڑھنے کی آزادی دیتی ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی آپ کو  اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا متبادل دیتی ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی صنعت کاری ، خود روزگار کو بھی فروغ دیتی ہے۔

یہ تعلیمی پالیسی  تحقیق کو ، اختراع کو تقویت دیتی ہے، فروغ دیتی ہے۔ آتم نربھر بھارت کی تعمیر میں یہ تعلیمی پالیسی بھی ایک اہم  پڑاؤ ہے۔ ملک میں ایک مضبوط اور ریسرچ اور انوویشن ایکو سسٹم بنانے کے لئے بھی  حکومت مسلسل کام کررہی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ملک اور دنیا کے لاکھوں جرنلس کی فری ایکسیز اپنے اسکالرس کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال بجٹ میں بھی ریسرچ کے لئے نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعہ آئندہ پانچ سالوں میں  50 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کی تجویز رکھی ہے۔

ساتھیو،

بھارت کی آتم نربھرتا ملک کی بیٹیوں کی خود اعتمادی  کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ نئی قومی پالیسی میں پہلی بار  جینڈر انکلوجن فنڈ  کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں چھٹی کلاس سے ہی  کارپینٹری سے لیکر کوڈنگ تک ایسے  کئی اسکل سیٹس پڑھانے کی اسکیم اس میں ہے، جن  اسکلز سے لڑکیوں کو دور رکھا  جاتا تھا۔ تعلیمی پالیسی  تیار کرتے وقت ، بیٹیوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ زیادہ ہونے کے اسباب کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس لئے تعلیم میں تسلسل، ڈگری کورس میں اینٹری اور ایگزٹ  کا آپشن ہو اور ہر سال کا کریڈٹ ملے، اس کا ایک نئی طرح کا  انتظام کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

بنگال نے ماضی میں  بھارت کی علم و سائنس کی مال و دلت  کو  آگے بڑھانے میں ملک کی قیادت کی اور یہ  قابل فخر بات ہے۔ بنگال ایک بھارت سریشٹھ بھارت کی تحریک کا مقام بھی رہا ہے اور سرزمین عمل بھی رہا ہے۔ صدی  کی تقریبات میں بات چیت کے دوران  میں نے اس پر بھی تفصیل سے اپنی بات رکھی تھی۔ آج جب بھارت 21 ویں صدی کی  نالج ایکونومی  بنانے کی طرف بڑھ رہا ہے،  تب بھی نظریں آپ پر ہیں، آپ جیسے نوجوانوں پر ہیں،  بنگال کی  علم کی  دولت پر ہیں، بنگال کے فعال شہریوں پر ہیں۔ بھارت کے علم اور بھارت کی پہچان کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں وشو بھارتی کا بہت بڑا رول ہے۔

اس سال ہم اپنی آزادی کے  75 ویں سال میں داخل ہورہے ہیں۔ وشو بھارتی کے ہر ایک طالب علم کی طرف سے  ملک کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا کہ بھارت کی امیج کو اور نکھارنے کے لئے  ہم سب مل کرکے  اور خاص طور میرے نوجوان ساتھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیدار کریں۔ بھارت جو ہے، جو انسانیت ، جو اپنانیت، جو  عالمی بہبود کا جذبہ  ہمارے خون کے ذرے ذرے میں ہے اس کا احساس  باقی ممالک کو کرانے کے لئے  پوری نوع انسانی کو کرانے کے لئے  وشو بھارتی کو ملک کے تعلیم اداروں کی قیادت کرنی چاہیے۔

میری اپیل ہے کہ آئندہ 25 برسوں میں کے  وشو بھارتی کے طلبا مل کر ایک ویژن ڈاکیومنٹ بنائیں۔ جب آزادی کے 100 سال ہوں گے، سال 2047 میں جب بھارت اپنی آزادی کے 100 سال کا جشن منائے گا،  اس وقت تک وشو بھارتی کے  25 سب سے بڑے  نشانے کیا ہوں گے، یہ اس وژن ڈاکیومینٹ میں رکھے جاسکتے ہیں۔  آپ اپنے اساتذہ کے ساتھ غور و فکر کریں، لیکن کسی نہ کسی مقصد کا تعین ضروری  کریں۔

آپ نے اپنے علاقے کے کئی گاؤوں کو گود لیا ہو اہے۔ کیا اس کی شروعات ہر گاؤں کو آتم نربھر بنانےسے ہوسکتی ہے؟  پوجیہ باپو گرام راجیہ کی جو بات کرتے تھے، گرام سوراج کی بات کرتے تھے۔ میرے نوجوان ساتھیوں، گاؤں کے لوگ، وہاں کے دست کار، وہاں کے کسان، انہیں آپ آتم نربھر بنایئے، ان کی مصنوعات کو دنیا کے بڑےبڑے بازاروں میں پہنچانے کا ذریعہ بنئے۔

وشو  بھارتی تو، بول پور ضلع کی بنیاد ہے۔ یہاں کی اقتصادی۔ مادی، ثقافتی تمام سرگرمیوں میں وشو بھارتی رچی بسی ہے۔ ایک زندہ جاوید اکائی ہے۔ یہاں کے لوگوں کو ، سماج کو بااختیار بنانے کے ستھ ہی، آپ کو اپنی بڑی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔

آپ اپنی ہر کوشش میں کامیاب ہوں، اپنے سنکلپوں کو سدھی میں بدلیں ۔ جن  مقاصد کو لیکر   وشو بھارتی میں قدم رکھا تھااور جن سنسکاروں اور علم کی دولت کو لیکر  آج آپ وشو بھارتی سے  دنیا کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں،  تب  دنیا آپ سے بہت کچھ چاہتی ہے، اور بہت کچھ وقعات  رکھتی ہے اور اس مٹی نے آپ کو  سنوارا ہے، آپ کو سنبھالا ہے اور آپ کو دنیا کی توقعات کو پورا کرنے لائق بنایا ہے۔ انسان کی توقعات کو پورا کرنے لائق بنایا ہے۔ آپ خود اعتمادی سے  لبریز ہیں، آپ عزائم  کے تئیں پابند عہد ہیں،  سنسکاروں سے  لبریز آپ کی جوانی ہے۔ یہ آنے والی پیڑھیوں کے کام آئے گی، ملک کے کام آئے گی۔21 ویں صدی میں بھارت اپنا مناسب مقام حاصل کرے۔ اس کے لئے آپ کی صلاحیت بہت بڑی طاقت کے طور پر ابھرے گی، یہ  پورا یقین ہے۔ اور آپ ہی کے درمیان آپ ہی کا ایک ساتھی ہونے کے ناطے میں آج اس  قابل افتخار لمحے میں اپنے آپ کو  خوش قسمت سمجھتا ہوں اور ہم سب مل کر کے  گورودیو ٹیگور نے جس مقدس مٹی سے ہم لوگوں کو تعلیم دی ہے،  سنسکار دیئے ہیں، ہم سب مل کر آگے بڑھیں، یہی میری آپ کے لئے نیک خواہشات ہیں۔

میری طرف سے بہت بہت نیک خواہشات۔  آپ کے والدین کو میرا سلام، آپ کے اساتذہ کو سلام، میری۔ میری طرف سے بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.