بھارتیہ وسترایوم شلپا کوش کا آغاز کیا - ٹیکسٹائل اور دستکاری کی کرافٹ ریپوزٹری کا ایک پورٹل
‘‘آج کا ہندوستان نہ صرف ‘لوکل فار ووکل’ ہے بلکہ اسے دنیا تک لے جانے کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم بھی فراہم کرتا ہے’’
سودیشی کے بارے میں ملک میں ایک نیا انقلاب برپا ہوا ہے
‘‘شہری دل و جان سے’وکل فار لوکل‘ کے جذبے کے ساتھ، دیسی مصنوعات خرید رہے ہیں اور یہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے’’
‘‘مفت راشن، پکا گھر، 5 لاکھ تک کا مفت علاج - یہ ہے مودی کی گارنٹی’’
‘‘یہ حکومت کی مسلسل کوشش ہے کہ بُنکروں کے کام کو آسان بنایا جائے، ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو اور معیار اور ڈیزائن کو بہتر بنایا جائے’’
‘‘حکومت کی طرف سے ریاستوں کے ہر راجدھانی میں ’ایکتا مال‘ تیار کیا جا رہا ہے تاکہ ہر ریاست اور ضلع کے ہینڈ لوم سے تیار کردہ دستکاری اور مصنوعات کو ایک ہی چھت کے نیچے فروغ دیا جا سکے’’
‘‘حکومت اپنے بُنکروں کو دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ فراہم کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ کام کر رہی ہے’’
‘’جو لوگ آتم نر بھر بھارت کے خواب دیکھتے ہیں اور ’میک ان انڈیا‘ کو استحکام فراہم کرتے ہیں، وہ کھادی کو صرف لباس نہیں بلکہ ایک ہتھیار سمجھتے ہیں’’
‘‘جب چھتوں پر ترنگا لہرایا جاتا ہے تو یہ ہمارے اندر بھی لہراتا ہے’’

مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی  جناب پیوش گوئل جی، نارائن رانے جی، بہن درشنا جردوش جی، صنعت اور فیشن کی دنیا سے تعلق رکھنے والے تمام دوست، ہینڈ لوم اور کھادی کی وسیع روایت سے جڑے تمام کاروباری افراد اور میرے بنکر بھائیوں اور بہنوں، تمام خاص معززین اوریہاں موجود خواتین و حضرات،

بھارت منڈپم کا چند روز قبل شاندار افتتاح کیا گیا ہے۔آپ میں سے بہت سے لوگ پہلے بھی یہاں آتے تھے اور خیموں میں اپنی دنیا بساتے تھے۔ اب آج آپ نے یہاں کا بدلا ہوا ملک دیکھا ہوگا۔ اور آج ہم اس بھارت منڈپم میں ہینڈلوم کا قومی دن منا رہے ہیں۔ بھارت منڈپم کی اس شان و شوکت میں بھی ہندوستان کی ہینڈلوم انڈسٹری کا اہم کردار ہے۔ نئے کے ساتھ قدیم کا یہ سنگم آج کے ہندوستان کی تعریف کرتا ہے۔ آج کا ہندوستان نہ صرف مقامی کے لیے آواز اٹھا رہا ہے بلکہ اسے عالمی بنانے کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم بھی دے رہا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے، مجھے اپنے کچھ ساتھی بنکروں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ ملک بھر میں بہت سے ہینڈلوم کلسٹرز میں، ہمارے بنکر بھائی اور بہنیں دور دور سے ہمارے ساتھ وابستہ ہونے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ میں آپ سب کو اس عظیم الشان تقریب میں دل سے خوش آمدید کہتا ہوں، میں آپ  کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

 

ساتھیو،

اگست کا یہ مہینہ انقلاب کا مہینہ ہے۔ یہ آزادی کے لیے دی گئی ہر قربانی کو یاد کرنے کا وقت ہے۔ اس دن سودیشی تحریک شروع ہوئی تھی۔ سودیشی کا یہ احساس صرف غیر ملکی کپڑوں کے بائیکاٹ تک محدود نہیں تھا۔ بلکہ یہ ہماری معاشی آزادی کے لیے بھی بہت بڑا محرک تھا۔ یہ ہندوستان کے لوگوں کو اپنے بنکروں سے جوڑنے کی مہم بھی تھی۔ یہ ایک بڑی وجہ تھی کہ ہماری حکومت نے اس دن کو قومی ہینڈلوم دن  کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ برسوں میں، ہندوستان کے بنکروں کے لیے، ہندوستان کے ہینڈلوم سیکٹر کی توسیع کے لیے بے مثال کام کیا گیا ہے۔ سودیشی کے حوالے سے ملک میں ایک نیا انقلاب آیا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ لال قلعہ سے اس انقلاب پر بحث کرنے کی طرح محسوس ہوتا ہے اور جب 15 اگست قریب ہی ہے تو فطری بات ہے کہ وہاں اس طرح کے موضوعات پر بحث کی جائے۔ لیکن آج پورے ملک سے بہت سے ویور دوست میرے ساتھ شامل ہوئے ہیں، اس لیے میں ہندوستان کو ان کی محنت سے حاصل کی گئی اس کامیابی کے بارے میں بتاتے ہوئے اور پوری بات یہیں بتاتے ہوئے زیادہ فخر محسوس کر رہا ہوں۔

ساتھیو،

ہمارا لباس، ہمارا پہناوا ہماری شناخت سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں بھی طرح طرح کے لباس دیکھئے اور معلوم ہوا کہ وہ وہاں کے ہوں گے، یہاں  کے ہوں گے، وہ اس علاقے سے آئے ہوں گے۔ یعنی ہمارا تنوع ہی ہماری پہچان ہے اور ایک طرح سے یہ ہمارے تنوع کو منانے کا موقع بھی ہے اور یہ تنوع سب سے پہلے ہمارے لباس میں نظر آتا ہے۔ اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نیا ہے، کچھ الگ ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے ہمارے قبائلی بھائی بہنوں سے لے کر برف پوش پہاڑوں تک، دوسری طرف سمندر کے ساحلوں سے لے کر ہندوستان کے صحراؤں اور میدانوں تک رہنے والے لوگ لباس پہنتے ہیں۔ہمارے پاس ایک خوبصورت قوس وقزح ہے، اور میں نے ایک بار اپیل کی تھی کہ ہمارے پاس موجود کپڑوں کی اس قسم کی فہرست اور مرتب کی جانی چاہیے۔ آج، انڈین ٹیکسٹائل کرافٹ فنڈ کی شکل میں، مجھے یہ دیکھ کر خاص خوشی ہوئی ہے کہ میری اپیل یہاں پر عمل میں آئی ہے۔

 

ساتھیو،

یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ٹیکسٹائل کی صنعت جو گزشتہ صدیوں میں اتنی طاقتور تھی، آزادی کے بعد اسے دوبارہ بااختیار بنانے پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔ حالت تویہ تھی کہ کھادی  کوبھی  بسترے مرگ کی حالت پر چھوڑدیا گیا تھا۔ لوگ کھادی پہننے والوں کو احساس کمتری سے دیکھنے لگے۔ 2014 سے ہماری حکومت اس صورتحال اور اس سوچ کو بدلنے میں لگی ہوئی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ من کی بات پروگرام کے ابتدائی دنوں میں، میں نے ملک سے کھادی کا کوئی نہ کوئی سامان خریدنے کی درخواست کی تھی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا، آج ہم سب گواہ ہیں۔ کھادی کی پیداوار میں پچھلے 9 سالوں میں 3 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کھادی کے کپڑوں کی فروخت میں بھی 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک اور بیرون ملک کھادی کپڑوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ میں ابھی کچھ دن پہلے پیرس میں  وہاں کے ایک بہت بڑے فیشن برانڈ کے سی ای او سے ملا تھا ۔ انہوں نے بھی مجھے بتایا کہ کس طرح بیرون ملک  میں کھادی اور ہندوستانی ہینڈلوم کی کشش بڑھ رہی ہے۔

ساتھیو،

نو سال پہلے کھادی اور گاؤں کی صنعتوں کا کاروبار صرف 25 ہزار، 30 ہزار کروڑ روپے کے قریب تھا۔ آج یہ ایک لاکھ تیس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ تک پہنچ گیا ہے۔ پچھلے 9 سالوں میں اس سیکٹر میں جو اضافی 1 لاکھ کروڑ روپے آئے، یہ رقم کہاں پہنچی؟ یہ پیسہ ہینڈلوم سیکٹر سے وابستہ میرے غریب بھائیوں اور بہنوں کے پاس گیا، یہ پیسہ گاؤں میں گیا، یہ پیسہ قبائلیوں کے پاس گیا۔ اور آج جب نیتی آیوگ کہتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ہندوستان میں ساڑھے تیرہ کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ انہیں باہر لانے کے کام میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آج ووکل فار لوکل کے جذبے کے ساتھ اہل وطن دل سے دیسی مصنوعات خرید رہے ہیں، یہ ایک عوامی تحریک بن چکی ہے۔ اور میں ایک بار پھر تمام ہم وطنوں  کہوں گا۔ آنے والے دنوں میں رکشا بندھن کا تہوار آ رہا ہے، گنیش اتسو آ رہا ہے، دسہرہ، دیپاولی، درگا پوجا، ان تہواروں پر ہمیں اپنی سودیشی کے عزم کا اعادہ کرنا ہوگا۔ اور یہ کر کے ہم اپنے دستکاریوں، اپنے بُنکر بھائیوں اور بہنوں، ہینڈلوم کی دنیا سے وابستہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اور جب میری بہن راکھی کے تہوار پر، تحفظ کے اس تہوار میں مجھے راکھی باندھتی ہے، تو میں تحفظ کی بات کرتا ہوں۔ لیکن اگر میں اسے کسی غریب ماں کے ہاتھ سے بنی ہوئی چیز تحفے میں دیتا ہوں تو اس ماں کی حفاظت بھی کرتا ہوں۔

 

ساتھیو،

مجھے اطمینان ہے کہ ٹیکسٹائل شعبے کے لیے ہماری طرف سے شروع کی گئی اسکیمیں بھی سماجی انصاف کا ایک بڑا ذریعہ بن رہی ہیں۔ آج ملک بھر کے دیہاتوں اور قصبوں میں لاکھوں لوگ ہینڈلوم کے کام میں مصروف ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ دلت، پسماندہ اور قبائلی سماج سے آتے ہیں۔ گزشتہ 9 سالوں میں حکومت کی کوششوں سے نہ صرف انہیں بڑی تعداد میں روزگار ملا ہے بلکہ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بجلی، پانی، گیس کنکشن، سوچھ بھارت جیسی مہم کے فائدے بھی وہاں سب سے زیادہ پہنچے ہیں۔ اور مودی نے انہیں مفت راشن کی ضمانت دی ہے۔ اور جب مودی گارنٹی دیتاہے تو ان کا چولہا 365 دن جلتا ہے۔ مودی نے انہیں ایک پکے گھر کی گارنٹی دی ہے۔ مودی نے انہیں 5 لاکھ روپے تک مفت علاج کی ضمانت دی ہے۔ ہم نے بنیادی سہولتوں کے لیے اپنے بنکر بھائیوں اور بہنوں کا دہائیوں کا انتظار ختم کر دیا ہے۔

ساتھیو،

حکومت کی کوشش ہے کہ ٹیکسٹائل  شعبے سے وابستہ روایات نہ صرف زندہ رہیں بلکہ دنیا کو ایک نئے اوتار میں متوجہ کریں۔ اس لیے ہم اس کام سے وابستہ ساتھیوں اور ان کی پڑھائی، تربیت اور کمائی پر زور دے رہے ہیں۔ ہم بنکروں اور دستکاروں کے بچوں کی امنگوں کو پرواز دینا چاہتے ہیں۔ بنکروں کے بچوں کی ہنر مندی کی تربیت کے لیے انہیں ٹیکسٹائل اداروں میں 2 لاکھ روپے تک کا وظیفہ مل رہا ہے۔ پچھلے 9 سالوں میں 600 سے زیادہ ہینڈلوم کلسٹرز تیار کیے گئے ہیں۔ ان میں بھی ہزاروں بنکروں کو تربیت دی گئی ہے۔ یہ ہماری مسلسل کوشش ہے کہ ہم بُنکروں کے کام کو آسان، پیداواری صلاحیت اعلیٰ، معیار کو بہتر، ڈیزائنوں کو ہمیشہ جدید بنائیں۔ اس لیے انہیں کمپیوٹر سے چلنے والی پنچنگ مشینیں بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ نئے ڈیزائن کو تیزی سے تخلیق کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ موٹر والی مشینوں سے تانابانا بنانا بھی آسان ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح کے بہت سے سازوسامان، ایسی بہت سی مشینیں بنکروں کو دستیاب کرائی جا رہی ہیں۔ حکومت ہینڈلوم بنانے والوں کو رعایتی نرخوں پر خام مال یعنی سوت بھی فراہم کر رہی ہے۔ خام مال لانے کے اخراجات بھی حکومت برداشت کرتی ہے۔ بنکروں کے لیے مدرا یوجنا کے ذریعے ضمانت کے بغیر قرض حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔

ساتھیو،

میں نے گجرات میں رہتے ہوئے برسوں اپنے ساتھی بنکروں کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ پورے کاشی خطے کی معیشت میں ہینڈلوم کا بہت بڑا حصہ ہے جہاں سے آج میں ممبر پارلیمنٹ ہوں۔ میں اکثر اس سے ملتا اور اس سے باتیں کرتا۔ اس لیے میں زمین کے بارے میں بھی جانتا ہوں۔ ہمارے بنکرسماج کے لیے ایک بڑا چیلنج رہا ہے کہ وہ پروڈکٹ بناتے ہیں، لیکن اسے بیچنے کے لیے انھیں سپلائی چین، مارکیٹنگ کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہماری حکومت انہیں بھی اس مشکل سے نکال رہی ہے۔ حکومت ہاتھ سے بنی اشیاء کی مارکیٹنگ پر بھی زور دے رہی ہے۔ ہر روز ملک کے کسی نہ کسی کونے میں مارکیٹنگ کی نمائش کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بھارت منڈپم کی طرح آج ملک کے کئی شہروں میں نمائشی مقامات بنائے جا رہے ہیں۔ اس میں یومیہ الاؤنس کے ساتھ مفت اسٹال بھی دیا جاتا ہے۔ اور آج یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل کے نوجوان، نئے اسٹارٹ اپ سامنے آرہے ہیں۔ اسٹارٹ اپس کی دنیا کے لوگ بھی ہندوستان کے میرے ہونہار نوجوان ہیں۔بہت سی نئی تکنیک، نئے نمونے، اس کی مارکیٹنگ کے لیے نئے انتظامات، ہینڈلوم، دستکاری، ہماری کاٹیج انڈسٹری سے بنی چیزوں کے لیے بہت سے  نئی نئی تکنیکیں نئے نئے پیٹرنس،  اس کی مارکٹنگ کے نئے نئے انتظام مختلف اسٹارٹ اپس آج کل  اس دنیا میں آئے ہیں اور اس طرح میں اس کے مستقبل کو ایک نیا پن ملتا ہوادیکھ رہا ہوں۔

 

آج ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ اسکیم کے تحت ہر ضلع میں خصوصی مصنوعات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی مصنوعات کی فروخت کے لیے ملک کے ریلوے اسٹیشنوں پر خصوصی اسٹالز بھی بنائے جارہے ہیں۔ ہر ریاست اور ضلع سے دستکاری اور ہینڈلوم سے بنی چیزوں کو فروغ دینے کے لیے حکومت ایکتا مال بھی بنوارہی ہے۔ ایکتا مال میں اس ریاست کے دستکاری پروڈکٹس ایک ہی چھت کے نیچے ہوں گے۔ اس سے ہینڈلوم سیکٹر سے وابستہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ اگر آپ میں سے کسی کو گجرات میں اسٹیچو آف یونٹی دیکھنے کا موقع ملا ہے تو وہاں ایکتا مال بنا ہوا ہے۔ ہندوستان کے دستکاریوں کی بنائی ہوئی ملک کے کونے کونے کی چیزیں وہاں دستیاب ہیں۔ چنانچہ وہاں آنے والا سیاح بھی اتحاد کا تجربہ کرتا ہے اور ہندوستان کے جس کونے کو چاہتا ہے، وہ وہاں سے حاصل کر لیتا ہے۔ ملک کے تمام دارالحکومتوں میں ایسے ایکتا مالز بنانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ چیزیں ہمارے لیے کتنی اہم ہیں؟ وزارت عظمیٰ کے دور میں جب میں بیرون ملک جاتا ہوں تو دنیا کے معززین کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لے کر جانا پڑتا ہے۔ میرا بڑا اصرار ہے کہ میں وہ چیزیں دنیا کے لوگوں کو دوں جو آپ سب دوست بناتے ہیں۔ کم از کم وہ انہیں خوش کرتے ہیں۔ جب میں انہیں بتاتا ہوں کہ یہ میرے علاقے کے فلاں گاؤں کے لوگوں نے بنایا ہے تو وہ بہت متاثر ہوتے ہیں۔

ساتھیو،

اس بات کو یقینی بنانے کی کوششیں جاری ہیں کہ ہینڈلوم شعبہ سے وابستہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو ڈیجیٹل انڈیا کے فوائد حاصل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ حکومت نے خرید و فروخت کے لیے ایک پورٹل بنایا ہے – گورنمنٹ ای-مارکیٹ پلیس یعنی جی ای ایم آئی، جی ای ایم پر، چھوٹے سے چھوٹا کاریگر، دستکار، بُنکر اپنا سامان براہ راست حکومت کو بیچ سکتا ہے۔ بنکروں کی بڑی تعداد نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ آج ہینڈلوم اور دستکاری سے متعلق تقریباً 2 لاکھ تنظیمیں جی ای ایم پورٹل سے منسلک ہیں۔

ساتھیو،

ہماری حکومت بھی اپنے بنکروں کو دنیا کی سب سے بڑی منڈی فراہم کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ آج دنیا کی بڑی کمپنیاں ہندوستان کے ایم ایس ایم ایز ، بنکروں، کاریگروں اور ہندوستان کے کسانوں کی مصنوعات کو دنیا بھر کے بازاروں میں لے جانے کے لیے آگے آ رہی ہیں۔ میں نے ایسی کئی کمپنیوں کی قیادت سے براہ راست بات چیت کی ہے۔ ان کے دنیا بھر میں بڑے اسٹورز، ریٹیل سپلائی چینز، بڑے مالز، دکانیں ہیں۔ آن لائن دنیا میں بھی ان کی صلاحیت بہت زیادہ ہے۔ اس طرح کی کمپنیوں نے اب ہندوستان کی مقامی مصنوعات کو بیرون ملک کے کونے کونے تک لے جانے کا عزم کیا ہے۔ ہمارے جوار جنہیں اب ہم شری انّ کے نام سے جانتے ہیں۔ خواہ وہ غذائی اجناس ہوں، ہماری ہینڈلوم مصنوعات، اب یہ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں انہیں پوری دنیا کی منڈیوں میں لے جائیں گی۔ یعنی پروڈکٹ ہندوستان کا ہو گا،  ہندوستان میں بنا ہوگا،ہندوستان کے لوگوں کے پسینے کی خوشبو آئے گی اور ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سپلائی چین استعمال ہو گی۔ اور ہمارے ملک کے اس شعبے سے وابستہ ہر چھوٹے بڑے کو بھی اس کا بہت بڑا فائدہ ملنے والا ہے۔

 

ساتھیو،

حکومت کی ان کوششوں کے درمیان آج میں ٹیکسٹائل انڈسٹری اور فیشن کی دنیا کے دوستوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ آج جب ہم دنیا کی ٹاپ 3 معیشتوں میں شامل ہونے کے لیے قدم اٹھا چکے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ اور کام کا دائرہ بڑھانا ہوگا۔ ہم اپنے ہینڈلوم، اپنی کھادی اور اپنے ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی چیمپئن بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سب کی کوشش ضروری ہے۔ کارکن ہو،بنکر ہو، ڈیزائنر ہو یا صنعت، سب کو لگن سے کوششیں کرنی ہوں گی۔ آپ ہندوستان کے بنکروں کی مہارت کو پیمانے سے جوڑتے ہیں۔ آپ ہندوستان کے بنکروں کی مہارت کو ٹیکنالوجی سے جوڑتے ہیں۔ آج ہم ہندوستان میں ایک نو مڈل کلاس کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہر پروڈکٹ کے لیے ایک بہت بڑا نوجوان صارف طبقہ تشکیل دیا جا رہا ہے۔ یہ یقینی طور پر ہندوستان میں ٹیکسٹائل کمپنیوں کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اس لیے ان کمپنیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی سپلائی چین کو مضبوط کریں اور اس میں سرمایہ کاری کریں۔ اگر ریڈی میڈ باہر دستیاب ہے تو امپورٹ کریں، یہ طریقہ آج جب ہم مہاتما گاندھی کے کاموں کو یاد کرنے بیٹھے ہیں تو ایک بار پھر ذہن کو جھنجھوڑنا پڑے گا، ذہن کو تہیہ کرنا پڑے گا کہ باہر سے لالا کرگزارا کرنایہ راستہ صحیح نہیں ہے۔ اس شعبے کے مہارتھی یہ بہانہ نہیں بنا سکتے کہ یہ اتنی جلدی کیسے ہو گا، مقامی سپلائی چین اتنی جلدی کیسے تیار ہو گی۔ اگر ہم مستقبل میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں آج مقامی سپلائی چین میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ یہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کا طریقہ ہے، اور یہ ایک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہمارے خواب کو پورا کرنے کا طریقہ ہے۔ 5 کھرب کی معیشت کا خواب پورا کریں گے، بھارت کو دنیا کی پہلی تین میں جگہ دلانے کا خواب پورا ہو گا۔ اور اگر ہم جذباتی پہلو کو دیکھیں تو اس راستے پر چل کر ہم اپنے آزادی پسندوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، سودیشی کے خواب کو پورا کر سکیں گے۔

ساتھیو،

اور میں واضح طور پر مانتا ہوں کہ جوخوددار ہو گا، جسے اپنے آپ پر فخر ہو گا، جسے اپنے ملک پر فخر ہو گا، کھادی اس کے لیے کپڑا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، جو خود انحصار ہندوستان کا خواب بُنتا ہے، جو میک ان انڈیا پر زور دیتا ہے، اس کے لیے یہ کھادی صرف ایک لباس نہیں ہے، یہ ایک ہتھیار بھی ہے۔

 

ساتھیو،

آج سے ایک دن بعد ہی 9 اگست ہے۔ اگر آج کے دن کو سودیشی تحریک سے جوڑا جائے تو 9 اگست کی تاریخ ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک کی گواہ رہی ہے۔ یہ 9 اگست کو ہی تھا جب آنجہانی باپو کی قیادت میں کوئیٹ انڈیا موومینٹ یعنی ہندوستان چھوڑو تحریک شروع ہوئی تھی۔ آنجہانی باپو نے انگریزوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ ہندوستان چھوڑ دو۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد ملک میں بیداری کا ایسا ماحول پیدا ہوا، ایک شعور بیدار ہوا، آخر کار انگریزوں کو ہندوستان چھوڑناہی  پڑاتھا۔ آج آنجہانی باپو کے آشیرواد کے ساتھ وہی قوتِ ارادی وقت کی ضرورت ہے، ہمیں اسے آگے لے جانا ہے۔ وہ منتر جو انگریزوں کو بھگا سکتا تھا۔ وہ منتر ایسے عناصر کو ہماری جگہ سے بھگانے کا سبب بن سکتا ہے۔ آج ہمارے پاس ایک خواب ہے، ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کا عزم ہے۔ کچھ شرارتیں اس قرارداد کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان ان برائیوں کو ایک آواز میں کہہ رہا ہے - ہندوستان چھوڑو۔ آج بھارت کہہ رہا ہے کہ کرپشن، کوئیٹ انڈیا یعنی کرپشن بھارت چھوڑ دو۔ آج ہندوستان کہہ رہا ہے کہ ڈائنسٹک کوئٹ انڈیایعنی کنبہ پروری ہندوستان چھوڑدو۔ آج ہندوستان کہہ رہا ہے،اپیز مینٹ کوئٹ انڈیایعنی خوش آمدپسندی ہندوستان چھوڑ دو۔ ہندوستان میں یہ برائیاں ملک کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب اپنی کوششوں سے ان برائیوں کو ختم اور شکست دیں گے۔ اور پھر ہندوستان کی جیت ہوگی، ملک کی جیت ہوگی، ہر ملک کے باشندے کی جیت ہوگی۔

ساتھیو،

15 اگست، ہر گھر میں ترنگا اوریہاں تو مجھےآج  ان بہنوں سے ملنے کا موقع بھی ملا جو برسوں سے ملک میں ترنگا جھنڈا بنانے کے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ مجھے بھی ان کو سلام کرنے کا، ان سے بات کرنے کا موقع ملا، اس 15 اگست کو بھی پچھلی بار کی طرح اور آنے والے ہر سال، ہمیں ہر گھر میں ترنگے کی بات کو آگے بڑھانا ہے، اور جب چھت پر ترنگا لہراتا ہے نا،تو وہ صرف چھت پر ہی نہیں لہراتا، دل میں بھی لہراتا ہے۔ ایک بار پھر میں آپ سب کو قومی ہینڈلوم دن  کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
PM to participate in ‘Odisha Parba 2024’ on 24 November
November 24, 2024

Prime Minister Shri Narendra Modi will participate in the ‘Odisha Parba 2024’ programme on 24 November at around 5:30 PM at Jawaharlal Nehru Stadium, New Delhi. He will also address the gathering on the occasion.

Odisha Parba is a flagship event conducted by Odia Samaj, a trust in New Delhi. Through it, they have been engaged in providing valuable support towards preservation and promotion of Odia heritage. Continuing with the tradition, this year Odisha Parba is being organised from 22nd to 24th November. It will showcase the rich heritage of Odisha displaying colourful cultural forms and will exhibit the vibrant social, cultural and political ethos of the State. A National Seminar or Conclave led by prominent experts and distinguished professionals across various domains will also be conducted.