نمسکار،
پروگرام میں میرے ساتھ موجودگجرات کے گورنر آچاریہ جناب دیوورت جی، ملک کے وزیر تعلیم جناب رمیش پوکھریال نشنک جی، گجرات کے وزیر اعلی جناب وجے روپانی جی، گجرات کے وزیر تعلیم جناب بھوپندر سنگھ جی، یو جی سی کے چیئرمین پروفیسر ڈی پی سنگھ جی،بابا صاحب امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسرامی اپادھیائے جی، ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز (اے آئی یو) کے صدرپروفیسر تیج پرتاپ جی،یہاں موجود سبھی معززین اور ساتھیو!
آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے تو اسی عرصے میں بابا صاحب امبیڈکر جی کے یوم پیدائش کا موقع ، ہمیں اس عظیم یگیہ سے بھی جوڑتا ہے اور مستقبل کی تحریک سے بھی جوڑتاہے، ممنون قوم کی طرف سے، سبھی ہم وطنوں کی طرف سےباباصاحب کو احترام کے ساتھ عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں ،
جنگ آزادی میں ہمارے لاکھوں کروڑوں مجاہدین آزادی نے ایک شمولیت والے بھارت کا خواب دیکھا تھا۔ ان خوابوں کو پورا کرنے کی شروعات بابا صاحب نے ملک کو آئین دیکر کی تھی، آج اسی آئین پر عمل پیرا ہوکر بھارت ایک نیا مستقبل تعمیر کررہا ہے۔ کامیابی کی نئی جہتوں کو حاصل کررہا ہے۔
ساتھیوں،
آج اس مقدس دن پر ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز کے وائس چانسلروں کی 95 ویں میٹنگ بھی ہورہی ہے، باباصاحب امبیڈکر اوپن یونیورسٹی میں ‘بابا صاحب ہم آہنگی چیئر’ کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا ہے، ابھی بابا صاحب کی زندگی پران کے افکار وخیالات پر بھائی شری کشور مکاوانا جی کی 4 کتابیں بھی جاری کی گئی ہیں۔میں ان کاوشوں سے وابستہ تمام معززین کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں ،
بھارت دنیا میں جمہوریت کی ماں رہی ہے۔ جمہوریت ہماری تہذیب، ہمارے طور طریقوں پر ایک طرح سے ہماری طرز زندگی کا ایک فطری حصہ رہا ہے۔ آزادی کے بعد کا بھارت اپنی اسی جمہوری وراثت کو مضبوط کرکے آگے بڑھے۔ باباصاحب نے جس کی مضبوط بنیاد ملک کو دی۔باباصاحب کو جب ہم پڑھتے ہیں،سمجھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ آفاقی وژن کے حامل شخص تھے۔
جناب کشور مکاوانا جی کی کتابوں میں بابا صاحب کے اس وژن کے واضح نظارے ہیں ۔ان کی ایک کتاب بابا صاحب کے ‘جیون درشن’ سے متعارف کراتی ہے،دوسری کتاب ان کی شخصیت کے درشن پر مرکوز ہے ۔اسی طرح تیسری کتاب میں باباصاحب کا ‘راشٹریہ درشن’ ہمارے سامنے آتا ہےاور چوتھی کتاب ان کے ‘آیام درشن’ کوہم وطنوں تک لے جائے گی۔یہ چاروں درشن اپنے آپ میں کسی جدید فلسفے سے کم نہیں ہیں۔
میں چاہوں گا کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں، کالجوں میں اور ہماری نئی نسل زیادہ سے زیادہ ان کتابوں کو اور ان جیسی کئی کتابوں کو بھی پڑھیں۔ہم آہنگ سماج کی بات ہو،دلت محروم سماج کی فکر ہو، خواتین کی ترقی اور ان کے تعاون کا سوال ہو، تعلیم پر اور خصوصاً اعلیٰ تعلیم پر بابا صاحب کا وِژن ان سبھی جہتوں سے ملک کے نوجوانوں کو بابا صاحب کو جاننے سمجھنے کا موقع ملے گا۔
ساتھیوں،
ڈاکٹر امبیڈکر کہتے تھے۔
‘‘میرے تین اپاسیہ دیوتا ہیں۔ گیان، سوابھیمان اور شیل’’ یعنی علم، عزت نفس اور ملائمت۔ جب علم آتا ہے، تب ہی عزت نفس بھی بڑھتی ہے۔ عزت نفس سے آدمی اپنے حقوق کیلئے باخبر ہوتا ہے۔ اور مساوی حقوق سے ہی سماج میں ہم آہنگی آتی ہے، اور ملک ترقی کرتا ہے۔
ہم سبھی بابا صاحب کی زندگی کے جدوجہد سے واقف ہیں۔ اتنے جدوجہد کے بعد بھی بابا صاحب جس اونچائی پر پہنچے وہ ہم سبھی کیلئے تحریک کا باعث ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر ہمیں جو راستہ دکھا کر گئے ہیں اس پر ملک مسلسل چلے، اس کی ذمہ داری ہمارے تعلیمی نظام پر، ہماری یونیورسٹیوں پر ہمیشہ رہی ہے اور جب سوال ایک ملک کے طور پر مشترکہ اہداف کا ہو، مشترکہ کوششوں کا ہو تو اجتماعی کوشش ہی کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
اسی لئے، میں سمجھتا ہوں ہو، اس میں ایسوسی ایشن آف انڈین یونیورسٹیز کا کردار بیحد اہم ہوجاتا ہے۔ اے آئی یو کے پاس تو ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن جی، ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ، محترمہ ہنسا مہتا، ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے مفکروں کی وراثت ہے۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن جی کہتےتھے ‘‘تعلیم کا حتمی نتیجہ ایک آزاد تخلیق کار ہونا چاہئے ، جو تاریخی حالات اور مصیبتوں کے خلاف جنگ لڑ سکتا ہے’’۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم وہ ہونی چاہئے جو انسان کو آزاد کرے ، کھل کر سوچے ، نئی سوچ کے ساتھ نئی تخلیق کرے۔ ان کا ماننا تھا کہ ہمیں پوری دنیا کو ایک اکائی کے طور پر سمجھ کر اپنے تعلیمی انتظام کو ترقی دینا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی وہ تعلیم کے ہندوستانی ہندوستانی کردار پر بھی اتنا ہی زور دیتے تھے۔یہ آج کے عالمی منظر نامے میں یہ بات اور بھی اہم ہوجاتی ہے۔
یہاں پر نئی ‘قومی تعلیمی پالیسی’ اور اس کے نفاذ کے منصوبے پر خصوصی امور جاری کیے گئے ہیں۔ یہ ایشوز اس بات کی تفصیلی دستاویزات ہیں کہ قومی تعلیم کی پالیسی کس طرح ایک مستقبل کی پالیسی ہے ، عالمی پیرامیٹرس کی پالیسی ہے۔ آپ سبھی قومی تعلیمی پالیسی کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ ڈاکٹر رادھاکرشنن جی نے تعلیم کے جس مقصد کی بات کہی تھی وہی اس پالیسی کے بنیاد میں دِکھتا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ اس بار آپ نے سیمینار کا مرکزی موضوع بھی یہی رکھا ہے‘‘ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں تبدیلی کرنے کیلئے قومی تعلیمی پالیسی -2020 کو نافذ کرنا’’۔اس کے لئے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
میں قومی تعلیمی پالیسی کو لیکر لگاتار ماہرین سے گفتگو کرتا رہا ہوں۔قومی تعلیمی پالیسی جتنی عمل ہے اتنا ہی عملی اس کا نفاذ بھی ہے۔
ساتھیوں،
آپ نے اپنی پوری زندگی تعلیم کے لئے وقف کردی ہے۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہر طالب علم کی اپنی طاقت، قابلیت ہوتی ہے۔ان صلاحیتوں کی بنا پر طلباء اور اساتذہ کے سامنے تین سوالات بھی ہوتے ہیں۔
پہلا- وہ کیا کر سکتے ہیں؟
دوسرا- اگر انہیں سکھایا جائے تو وہ کیا کرسکتے ہیں؟
اور تیسرا۔ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
ایک طالب علم کیا کرسکتا ہے، یہ اس کی داخلی صلاحیت ہے۔ لیکن اگر ہم ان کی داخلی صلاحیت کے ساتھ ساتھ انہیں ادارہ جاتی طاقت دے دیں، تو اس سے ان کی نشوونما وسیع ہوجاتی ہے۔اس امتزاج سے ہمارے نوجوان وہ کرسکتے ہیں جو وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے آج ملک کا خاص زور ہنرمندی کو فروغ دینے پر ہے۔ آج جیسے جیسے ملک ‘آتم نربھر بھارت’ ابھیان کو لیکر آگے بڑھ رہا ہے، ہنرمند نوجوانوں کا کردار اور ان کی مانگ بھی بڑھتی جارہی ہے۔
ساتھیو،
ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے ہنرمندی کی اسی طاقت کو دیکھتے ہوئے دہائیوں پہلے تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے باہمی اشتراک پر بہت زور دیا تھا۔ آج تو ملک کے پاس اور بھی لامحدود مواقع ہیں، اور بھی جدید دور کی نئی نئی صنعتیں ہیں۔ آرٹیفیشل انٹلی جن، انٹرنیٹ آف تھنگس اور بِگ ڈاٹا سے لیکر 3ڈی پرنٹنگ، ورچوول ریئلٹی، روبوٹکس، موبائل ٹیکنالوجی، جیو۔انفارمیٹکس اور سمارٹ ہیلتھ کیئر سے دفاعی سیکٹر تک، آج دنیا میں بھارت مستقبل کے مرکز کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ملک لگاتاربگڑے قدم بھی اٹھا رہا ہے۔
ملک کے تین بڑے شہروں میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلس کا قیام کیا جارہا ہے۔ کچھ مہینے پہلے دسمبر میں ہی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسکلس کا ممبئی میں پہلا بیچ بھی شروع ہوگیا ہے۔ نیسکام کے ساتھ بھی 2018 میں فیوچر اسکلس انیشیٹیو شروع کیا ہے۔ یہ انیشیٹیو 10 اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں ڈیڑھ سو سے زیادہ اسکل سیٹس کی ٹریننگ دیتا ہے۔
ساتھیو،
نئی قومی تعلیمی پالیسی میں، این ای ٹی ایف کی بھی تجویز ہے۔ جو تعلیم میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر زور دیتا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ساری یونیورسٹیز ملٹی۔ ڈسپلنری بنے۔ ہم اسٹوڈنٹس کو فلیکزبلٹی دینا چاہتے ہیں۔ جیسے ایزی انٹری- ایگزٹ اور اکیڈمک بینک آف کریڈٹ بناکر آسانی سے کہیں بھی کورس پورا کرنا۔ ان سبھی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ملک کی ہر یونیورسٹی کو ساتھ ملکر، ایک دوسرے سے تال میل کرکے کام کرنا ہی ہوگا۔ اس پر آپ سبھی وائس چانسلروں کو خصوصی دھیان دینا ہوگا۔
ملک میں جو نئے نئے امکانات ہیں، جن سیکٹروں میں امکانات پیدا کرسکتے ہیں، ان کے لئے ایک بڑا اسکل پول ہماری یونیورسٹیوں میں ہی تیار ہوگا۔ آپ سبھی سے درخواست ہے کہ اس سمت میں اور تیزی سے کام ہو، ایک مقررہ وقت کے اندر اس کام کو ختم کیا جائے۔
ساتھیو،
بابا صاحب امبیڈکر کے نقش قدم پر چلتے ہوئےملک تیزی سے غریب، دلت، مظلوم، محروم، سبھی کے زندگی میں بدلاؤ لا رہا ہے۔ بابا صاحب نے مساوی مواقع کی بات کی تھی، مساوی حقوق کی بات کی تھی۔ آج ملک جن دھن کھاتوں کےذریعے ہر شخص کی اقتصادی شمولیت کررہا ہے۔ ڈی بی ٹی کے ذریعے غریب کا پیسہ سیدھا اس کے کھاتےمیں پہنچ رہا ہے۔ آج ہر غریب کو گھر مل رہا ہے، مفت بجلی کنکشن مل رہا ہے، اسی طرح سے جل جیون مشن کے تحت گاؤں میں بھی صاف پانی پہنچانے کیلئے ایک بھرپور مشن موڈ میں کام ہورہا ہے۔
کورونا کا بحران آیا تو بھی ملک غریب، مزدور کے لئے سب سے پہلے کھڑا ہوا۔ دنیا کے سب سے بڑے ٹیکہ کاری پروگرام میں بھی غریب، امیر کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے، کوئی امتیاز نہیں ہے۔ یہی تو بابا صاحب کا راستہ ہے یہی تو ان کے آدرش ہیں۔
ساتھیو،
بابا صاحب ہمیشہ خاتون کو بااختیار بنانے پر زور دیتے تھے اور اس سمت میں انہوں نے متعدد کوششیں کیں۔ ان کے اسی وِژن پر چلتے ہوئے ملک آج اپنی بیٹیوں کو نئے نئے مواقع دے رہا ہے۔ گھر اور اسکول میں بیت الخلاء سے لیکر فوج میں جنگی مہموں تک، ملک کی ہر ایک پالیسی کے مرکز میں آج خواتین ہیں۔
اسی طرح بابا صاحب کی زندگی کے پیغام کو جن جن تک پہنچانے کیلئے بھی آج ملک کام کررہا ہے۔ بابا صاحب سے جڑے جگہوں پر پنچ تیرتھ کی شکل میں ترقی دی جارہی ہے۔
کچھ سال پہلے مجھے ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کی نقاب کشائی کا موقع ملا تھا۔ آج یہ سینٹر سماجی اور اقتصادی موضوعات پر، بابا صاحب کی زندگی پر تحقیق کے ایک مرکز کے طور پر اُبھر رہا ہے۔
ساتھیو،
آج ہم آزادی کے 75 سال کے قریب ہیں، اور اگلے 25 سالوں کے ہدف ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کا یہ مستقبل، مستقبل کے ہدف اور کامیابیاں ہمارے نوجوانوں سے وابستہ ہیں۔ ہمارے نوجوان ہی اِن عہدوں کو پورا کریں گے۔ ہمیں ملک کے نوجوانوں کو ان کی صلاحیت کے مطابق مواقع دینے ہیں۔
مجھے پورا بھروسہ ہے کہ ہم سب کی یہ اجتماعی عزم ، ہمارے تعلیمی دنیا کی یہ کوشش نئے بھارت کے اس خواب کو ضرور پورا کریں گے۔
ہماری یہ کوشش،یہ محنت ہی بابا صاحب کے قدموں میں ہمارا خراج عقیدت ہوگا۔
ان ہی نیک خواہشات کے ساتھ، میں پھر ایک بار آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، نوراتری کی مبارکباد دیتا ہوں۔ آج بابا صاحب امبیڈکر کے یوم پیدائش پر خاص طور سے مبارکباد دیتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ