ونکم!
آپ سبھی کو تمل پُتانڈو کی بہت بہت مبارکباد۔ یہ آپ سب کا پیار ہے، میرے تمل بھائیوں بہنوں کی محبت ہے کہ آج آپ کے درمیان مجھے تمل پتانڈو کو سیلیبریٹ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ پتانڈو، قدامت میں جدیدیت کا جشن ہے۔ اتنی قدیم تمل ثقافت اور ہر سال پتانڈو سے نئی توانائی لے کر آگے بڑھتے رہنے کی یہ روایت، واقعی بے مثال ہے! یہ بات تمل ناڈو اور تمل لوگوں کو اتنا خاص بناتی ہے۔ اسی لیے، مجھے ہمیشہ سے ہی اس روایت کے تئیں رغبت بھی رہی ہے، اور اس سے ایک جذباتی لگاؤ بھی رہا ہے۔ میں جب گجرات میں تھا، تو جس منی نگر اسمبلی سیٹ سے میں ایم ایل اے تھا، بہت بڑی تعداد میں تمل نژاد وہ لوگ وہاں رہتے تھے، وہ میرے ووٹر تھے، وہ مجھے ایم ایل اے بھی بناتے تھے اور مجھے وزیر اعلیٰ بھی بناتے تھے۔ اور ان کے ساتھ جو میں نے لمحات گزارے وہ ہمیشہ مجھے یاد رہتے ہیں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ جتنا پیار میں نے تمل ناڈو کو کیا ہے، تمل لوگوں نے ہمیشہ اسے اور زیادہ کرکے مجھے واپس لوٹایا ہے۔
ساتھیوں،
آزادی کے 75 سال پورے ہونے پر، اس بار لال قلعہ سے میں نے اپنی وراثت پر فخر کی بات کہی تھی۔ جو جتنا قدیم ہوتا ہے، وہ اتنا ہی ٹائم ٹیسٹیڈ بھی ہوتا ہے۔ اسی لیے، تمل کلچر اور تمل پیوپل، یہ دونوں فطرت سے ہی ایٹرنل بھی ہیں، گلوبل بھی ہیں۔ چنئی سے کیلیفورنیا۔ مدورئی سے ملبورن۔ کوئمبٹور سے کیپ ٹاؤن۔ سلیم سے سنگاپور۔ آپ کو ایسے تمل لوگ ملیں گے، جو اپنی ثقافت اور روایات ساتھ لے کر گئے ہیں۔ چاہے پونگل ہو یا پتانڈو، اسے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ تمل دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس پر ناز ہے۔ تمل ادب کا بھی بڑے پیمانے پر احترام کیا جاتا ہے۔ تمل فلم انڈسٹری نے ہمارے لیے کچھ بہت ہی انوکھے کام پیش کیے ہیں۔
ساتھیوں،
جدوجہد آزادی میں بھی تمل لوگوں کا تعاون بے حد اہم رہا ہے۔ آزادی کے بعد، ملک کی نو تعمیر میں بھی تمل ناڈو کے لوگوں کی صلاحیت نے، ملک کو نئی بلندی عطا کی ہے۔ سی راج گوپالاچاری اور ان کے فلسفہ کے بغیر کیا جدید ہندوستان کی بات پوری ہو سکتی ہے؟ کے کامراج اور سوشل ویلفیئر سے جڑے ان کے کام اس کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔ ایسا کون سا نوجوان ہوگا جو ڈاکٹر کلام سے مرغوب نہ ہوا ہو؟ میڈیسن، لاء اور اکیڈمکس کے شعبے میں تمل لوگوں کا تعاون بے مثال ہے۔ میں ’من کی بات‘ میں بھی اکثر تمل ناڈو کے لوگوں کے کتنے ہی تعاون کا ذکر کر چکا ہوں۔
ساتھیوں،
ہندوستان دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت ہے- مدر آف ڈیموکریسی ہے۔ اس کے پیچھے متعدد تاریخی حوالے ہیں، کئی لازوال ثبوت ہیں۔ ان میں سے ایک اہم حوالہ تمل ناڈو کا بھی ہے۔ تمل ناڈو میں اترمیرور نام کی جگہ، بہت خاص ہے۔ یہاں 1100 سے 1200 سال پہلے کا ایک پتھر ہے، جس پر ہندوستان کی جمہوری قدروں کی بہت ساری باتیں لکھی ہوئی ہیں اور آج بھی پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں جو پتھر ملا ہے، وہ اس وقت وہاں کی گرام سبھا کے لیے ایک مقامی آئین کی طرح ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اسمبلی کیسے چلنی چاہیے، ممبران کی لیاقت کیا ہونی چاہیے، ممبران کو منتخب کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، اتنا ہی نہیں اس دور میں بھی انہوں نے طے کیا ہے کہ ڈس کوالیفکیشن کیسے ہوتا ہے۔ سینکڑوں سال پہلے کے اس نظام میں جمہوریت کا بہت باریکیوں کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔
ساتھیوں،
تمل ثقافت میں ایسے بہت کچھ ہے، جس نے ایک قوم کے طور پر بھارت کو گڑھا ہے، شکل و صورت دی ہے۔ جیسے ہمارے چنئی سے 70 کلومیٹر دور، کانچی پورم کے پاس ترومکوڈل میں وینکٹیش پیرومل مندر ہے۔ چول سلطنت کے دوران بنا یہ مندر بھی قریب قریب 11 سو سال پرانا ہے۔ اس مندر میں گرینائٹ پتھروں پر لکھا ہے کہ کیسے اس وقت وہاں 15 بیڈ کا ہسپتال موجود تھا۔ 11 سو سال پرانے پتھروں پر جو انسکرپشنز ہیں، ان میں میڈیکل پروسیجرز کے بارے میں لکھا ہے، ڈاکٹروں کو ملنے والی سیلری کے بارے میں لکھا ہے، ہربل ڈرگز کے بارے میں لکھا ہوا ہے، 11 سو سال پرانا۔ ہیلتھ کیئر سے جڑے یہ پتھر، تمل ناڈو کی، ہندوستان کی بہت بڑی وراثت ہیں۔
ساتھیوں،
مجھے یاد ہے، کچھ وقت پہلے جب میں چیس اولپمیاڈ کے افتتاح کے لیے تمل ناڈو گیا تھا۔ وہاں میں نے تیرووارور ضلع کے قدیم شو مندر کا ذکر کیا تھا۔ یہ بہت پرانا چتورنگ ولبھ ناتھر مندر، شطرنج کے کھیل سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے ہی چول سلطنت کے دوران تمل ناڈو سے دیگر ممالک تک تجارت ہونے کے کتنے ہی ذکر ملتے ہیں۔
بھائیوں اور بہنوں،
ایک ملک کے طور پر یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم اس وراثت کو آگے بڑھاتے، فخر کے ساتھ اسے دنیا کے سامنے رکھتے۔ لیکن پہلے کیا ہوا، آپ جانتے ہیں۔ اب آپ سب نے یہ خدمت کرنے کا موقع مجھے دیا ہے۔ مجھے یاد ہے، جب میں نے اقوام متحدہ میں تمل زبان میں تمل سے کوٹ کیا تھا، تب ملک اور دنیا کے کئی لوگوں نے مجھے میسیج کرکے خوشی جتائی تھی۔ مجھے جافنا جانے کا موقع ملا تھا سری لنکا میں۔ جافنا جانے والا میں ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم تھا۔ سری لنکا میں تمل کمیونٹی کے ویلفیئر کے لیے وہاں کے لوگ طویل عرصے سے مدد کا انتظار کر رہے تھے۔ ہماری سرکار نے ان کے لیے بھی کئی کام کیے، تمل لوگوں کو گھر بنا کر دیے۔ جب وہاں گھر میں داخل ہونے کی تقریب ہو رہی تھی، تب ایک بڑا ہی دلچسپ پروگرام بھی ہوا تھا۔ جیسے تمل روایت ہے گھر میں داخل ہونے سے پہلے، گھر کے باہر، لکڑی پر دودھ ابالنے کا ایک پروگرام ہوتا ہے۔ میں نے اس میں بھی حصہ لیا تھا اور مجھے یاد ہے جب وہ ویڈیو تمل میں، تمل ناڈو میں دیکھا گیا اتنا میرے تئیں پیار برسایا گیا۔ ڈگر ڈگر پر آپ محسوس کریں گے کہ تمل لوگوں کے ساتھ، تمل ناڈو کے ساتھ میرا من کتنا جڑا ہوا ہے۔ تمل لوگوں کی لگاتار خدمت کرنے کا یہ جذبہ، مجھے نئی طاقت دیتا ہے۔
ساتھیوں،
آپ سبھی کو معلوم ہے کہ حال ہی میں ختم ہوا ’کاشی تمل سنگمم‘ کتنا کامیاب رہا۔ اس پروگرام میں ہم نے قدامت، جدیدیت اور تکثیریت کو ایک ساتھ سیلبیریٹ کیا ہے۔ ان پروگراموں میں تمل ادب کی استطاعت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ کاشی میں تمل سنگمم کے دوران کچھ ہی وقت میں، ہزاروں روپے کی تمل زبان کی کتابیں فروخت ہوئی تھیں۔ تمل سکھانے والی کتابوں کے لیے بھی وہاں زبردست کریز تھا۔ ہندی بولنے والے علاقوں میں اور وہ بھی آج کے ڈیجیٹل دور آن لائن کی دنیا ایسے وقت کاشی میں ہندی بولنے والے لوگ، تمل کتابوں کو اس طرح پسند کیا جانا، ہزاروں توپے کی تمل کی کتابیں خریدنا یہ ہمارے ملک کے ثقافتی کنیکٹ کی سب سے بڑی طاقت ہے دوستوں۔
میں مانتا ہوں، تمل لوگوں کے بغیر کاشی کے لوگوں کی زندگی ادھوری ہے اور میں کاشی کا باشندہ ہو گیا ہوں۔ اور کاشی کے بغیر تمل کے لوگوں کی زندگی بھی ادھوری ہے۔ یہ اپناپن، جب کوئی تمل ناڈو سے کاشی آتا ہے، تو عام طور پر دکھائی دیتی ہے۔ کاشی کا رکن پارلیمنٹ ہونے کے ناطے، یہ میرے لیے اور بھی فخر کی بات ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کاشی میں جو کشتی چلانے والے لوگ ہیں، شاید ہی کوئی ایسا کشتی چلانے والا ملے گا جس کو تمل کے 100-50 جملے بولنا نہ آتا ہو۔ اتنا وہاں پر میل جول ہے۔ یہ بھی ہم سبھی کی خوش قسمتی ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں، سبرامنیم بھارتی جی کے نام پر ایک چیئر قائم کی گئی ہے۔ سبرامنیم بھارتی جی نے کافی وقت کاشی میں گزارا تھا، کافی کچھ وہاں سے سیکھا تھا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ کاشی وشوناتھ مندر ٹرسٹ کے ٹرسٹیوں میں، کاشی وشوناتھ مندر کا ٹرسٹ بہت پرانا ہے۔ پہلی بار کاشی وشوناتھ ٹرسٹ کا ٹرسٹی تمل ناڈو کے ایک شخص کو بنا دیا گیا ہے، یہ بھی پیار ہے۔ یہ تمام کوششیں، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کی جذبہ کو مضبوط کرنے والی ہیں۔
ساتھیوں،
تمل لٹریچر سے ہمیں ماضی کے علم کے ساتھ ہی مستقبل کے لیے حوصلہ بھی ملتا ہے۔ تمل ناڈو کے پاس تو ایسا لٹریچر ہے، جس میں سے کافی کچھ 2 ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ جیسے کہ سنگم لٹریچر سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم تمل ناڈو میں کئی طرح کے موٹے اناج- شری انّ استعمال میں لائے جاتے تھے۔ قدیم تمل ادب ’اگنا نورو‘ میں ملیٹس کے کھیتوں کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ عظیم تمل شاعرہ اوّیّار اپنی ایک خوبصورت نظم میں لذیذ ’ورگو اریسی چورو‘ اس کے بارے میں لکھتی ہیں۔ آج بھی اگر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ بھگوان مروگن کو نیویدیہ کے طور پر کون سا کھانا پسند ہے، تو جواب ملتا ہے – ’تینم تنے ماووم‘۔ آج ہندوستان کی پہل پر پوری دنیا ملیٹس کی ہماری ہزاروں سال پرانی روایت سے جڑ رہی ہے۔ میں چاہوں گا کہ آج ہمارا ایک نئے سال کا عہد، ملیٹس سے بھی جڑا ہو۔ ہمارا عہد ہونا چاہیے کہ ملیٹس کو ہم واپس اپنے کھانے پینے میں جگہ دیں گے اور دوسروں کو بھی اس کے لیے آمادہ کریں گے۔
ساتھیوں،
اب سے کچھ دیر میں یہاں تمل فنکاروں کی پرفارمنس بھی ہونے والی ہے۔ یہ ہمارے فن و ثقافت کی بیش قیمتی وراثت کی بھی علامت ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے پوری دنیا تک لے کر جائیں، اسے شوکیس کریں۔ ساتھ ہی، ان آرٹ فارمز کی کیسے وقت کے ساتھ توسیع ہو، ہمیں اس پر بھی دھیان دینا چاہیے۔ آج کی نوجوان نسل میں یہ جتنا زیادہ مقبول ہوں گے، اتنا ہی وہ اسے اگلی نسل کو پاس کریں گے۔ اس لیے، نوجوانوں کو اس فن کے بارے میں بتانا، انہیں سکھانا یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آج کا یہ پروگرام اس کی بھی ایک بہترین مثال بن رہا ہے۔
بھائیوں اور بہنوں،
آزادی کے امرت کال میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تمل وراثت کے بارے میں جانیں اور ملک اور دنیا کو فخر کے ساتھ بتائیں۔ یہ وراثت ہمارے اتحاد اور ’ملک پہلے‘ کے جذبہ کی علامت ہے۔ ہمیں تمل کلچر، لٹریچر، لینگویج اور تمل ٹریڈیشن کو لگاتار آگے بڑھانا ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ایک بار پھر آپ سب کو پتانڈو کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور مروگن جی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج مجھے اس اہم تقریب میں شریک ہونے کا موقع دیا۔ آپ سب کو بہت بہت مبارک۔
شکریہ۔