ملک کے مختلف کونے سے یہاں کیوڈیا کے اس ایکتا نگر میں آئے پولیس دستہ کے ساتھی، این سی سی کے نوجوان، فن سے جڑے ہوئے تمام آرٹسٹ اور ملک کے مختلف حصوں میں ایکتا دوڑ (رن آف یونٹ) میں شامل ہورہے تمام شہری بھائی بہن، ملک کے سبھی اسکولوں کے طلبا و طالبات، دیگر حضرات ات اور تمام ہم وطنو،
میں ایکتا نگر میں ہوں، لیکن میرا من موربی کے متاثرین سے جڑا ہوا ہے۔ شاید ہی زندگی میں بہت کم ایسا درد میں نے محسوس کیا ہوگا۔ ایک طرف درد سے بھرا غمزدہ دل ہے اور دوسری طرف ذمہ داری اور فرائض کا راستہ ہے۔ فرائض کے اس راستے کی ذمہ داریوں کو لیتے ہوئے میں آپ کے درمیان میں ہوں لیکن غم سے بھرا دل ، ان متاثرہ خاندانوں کے درمیان میں ہے۔
حادثے میں جن لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی ہے، میں ان کے اہل خانہ کے تئیں اپنی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ دکھ کی اس گھڑی میں سرکار ہر طرح سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہے۔ گجرات سرکار پوری طاقت سے، کل شام سے ہی راحت اور بچاؤ کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے بھی ریاستی حکومت کو پوری مدد دی جارہی ہے۔ بچاؤ کے کام میں این ڈی آر ایف کی ٹیموں کو لگایا گیا ہے۔ فوج اور فضائیہ بھی راحت کے کام میں لگی ہوئی ہے۔ جن لوگوں کا اسپتال میں علاج چل رہا ہے وہاں بھی پوری مستعدی برتی جارہی ہے۔ لوگوں کی دقتیں کم سے کم ہوں، اسے ترجیح دی جارہی ہے۔ حادثے کی خبر ملنے کے بعد ہی گجرات کے وزیراعلی جناب بھوپیندر بھائی رات کو ہی موربی پہنچ گئے تھے۔ کل سے ہی وہ راحت اور بچاؤ کے کاموں کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت کی طرف سے اس حادثے کی جانچ کے لئے ایک کمیٹی بھی بنادی گئی ہے۔ میں ملک کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ راحت اور بچاؤ کے کاموں میں کوئی کمی نہیں آنے دی جائے گی۔ آج راشٹریہ ایکتا دوس کا یہ موقع کا بھی ہمیں متحد ہوکر اس مشکل گھڑی کا سامنا کرنے، فرائض کے راستے پر بنے رہنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ مشکل سے مشکل حالات میں سردار پٹیل کا صبر و تحمل، ان کی تیزی سے سیکھ لیتے ہوئے ہم کرتے رہے، آگے بھی کرتے رہیں گے۔
ساتھیو،
سال 2022 میں راشٹریہ ایکتا دوس کے بہت ہی خاص موقع کے طور پر میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ یہ وہ سال ہے ، جب ہم نے اپنی آزادی کے 75 سال پورے کئے ہیں۔ ہم نئے عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج ایکتا نگر میں یہ جو پریڈ ہوئی ہے، ہمیں اس بات کا احساس بھی دلا رہی ہے کہ جب سب ایک ساتھ چلتے ہیں، ایک سات آگے بڑھتےہیں، تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ آج یہاں ملک بھر سے آئے کچھ آرٹسٹ ثقافتی پروگرام بھی کرنے والے تھے۔ بھارت کے مختلف رقص کو بھی پرفام کرنے والے تھے لیکن کل کا حادثہ اتنا افسوسناک تھا کہ آج کے اس پروگرام میں سے اس پروگرام کو ہٹا دیا گیا۔ میں ان سبھی فن کاروں سے، ان کا یہاں تک آنا، انہوں نے جو پچھلے دنوں محنت کی ہے لیکن آج ان کو موقع نہیں ملا ۔ میں ان کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں لیکن کچھ حالات ایسے ہی ہیں۔
ساتھیو،
یہ اتحاد، یہ شائستگی، فیملی، سماج، گاؤں، ریاست اور ملک، ہر سطح پر ضروری ہے اور اس کے درشن آج ہم ملک کے کونے کونے میں کر بھی رہے ہیں۔ آج ملک بھر میں 75 ہزار ایکتا دوڑ (رن فار یونٹی) ہورہی ہے، لاکھوں لوگ جڑ رہے ہیں۔ ملک کا ہر ایک آدمی مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قوت ارادی سے حوصلہ حاصل کررہا ہے۔ آج ملک کا ہر ایک آدمی امرت کال کے ’پنچ پرنوں‘ کو بیدار کرنے کے لئے قوم کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے عزم کررہا ہے۔
ساتھیو،
راشٹریہ ایکتا دوس، یہ موقع کیوڈیا- ایکتا نگر کی یہ سرزمین، اور اسٹیچو آف یونٹی، ہمیں یہ احساس مسلسل دلاتے ہیں کہ آزادی کے وقت اگر بھارت کے پاس سردار پٹیل جیسی قیادت نہیں ہوتی تو کیا ہوتا؟ کیا ہوتا گر ساڑھے پانچ سو سے زیادہ ریاستیں متحد نہیں ہوئی ہوتیں؟ کیا ہوتا اگر ہمارے زیادہ راجے رجواڑے قربان کا جذبہ نہیں دکھاتے، مادر وطن میں عقیدہ نہیں دکھاتے؟ آج ہم جیسا بھارت دیکھ رہے ہیں، ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہ مشکل ، یہ ناممکن کام، صرف اور صرف سردار پٹیل نے ہی مکمل کیا۔
ساتھیو،
سردار صاحب کا یوم پیدائش اور’راشٹریہ ایکتا دوس‘ یہ ہمارے لئے صرف تاریخ بھر نہیں ہے۔ یہ بھارت کی ثقافتی صلاحیت کا ایک بڑا جشن بھی ہے۔ بھارت کے لئے اتحاد کبھی بھی مجبوری نہیں رہا ہے۔ بھارت کے لئے اتحاد ہمیشہ سے ایک خصوصیت رہی ہے۔ اتحاد ہماری خاصیت رہی ہے۔ اتحاد کا جذبہ ہندوستان کے شہریوں میں، ہمارے دل میں اتنا رچا بسا ہے، اپنی اس خوبی کا اکثر احساس نہیں ہوتا ہے، کبھی کبھی اوجھل ہوجاتا ہے ۔ لیکن آپ دیکھئے جب بھی ملک میں کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو پورا ملک ایک ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ آفت شمال میں ہو یا جنوب میں، مشرق میں ہو یا مغربی حصے میں، یہ معنی نہیں رکھتا ہے، پورا بھارت متحد ہوکر، خدمت، تعاون اور جذبے کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے۔ کل ہی دیکھ لیجئے نا موربی میں حادثہ ہوا، اس کے بعد ہر ایک شہری حادثے کا شکار ہوئے لوگوں کی حفاظت کے لئے دعا کررہا ہے۔ مقامی لوگ حادثے کی جگہ پر، اسپتالوں میں، ہر ممکن مدد کے لئے خود آگے آرہے تھے۔ یہی تو اتحاد کی طاقت ہے۔ کورونا کی اتنی بڑی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ تالی، تھالی کے جذباتی اتحاد سے لے کر راشن، دوائی اور ویکسن کے تعاون تک ملک ایک فیملی کی طرح آگے بڑھا۔ سرحد پر یا سرحد کے پار جب بھارت کی فوج بہادری دکھاتی ہے تو پورے ملک میں ایک جیسے جذبات ہوتے ہیں، ایک جیسا جذبہ ہوتا ہے۔ جب اولمپکس میں بھارت کے نوجوان ترنگے کی شان بڑھاتے ہیں تو پورے ملک میں ایک جیسا جشن منایا جاتا ہے۔ جب ملک کرکٹ کا میچ جیتتا ہے تو ملک میں ایک جیسا جنون ہوتا ہے۔ ہمارے جشن کے ثقافتی طور طریقے الگ الگ ہوتے ہیں لیکن جذبہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ ملک کا یہ اتحاد، یہ یکجہتی، ایک دوسرے کے لئے یہ اپنا پن، یہ بتاتا ہے کہ ملک کے طور پر بھارت کی جڑیں کتنی گہری ہیں۔
اور ساتھیو،
بھارت کا یہی اتحاد ہمارے دشمنوں کو کھٹکتا ہے۔ آج سے نہیں بلکہ سینکڑوں برسوں پہلے غلامی کے لمبے دور میں بھی بھارت کا اتحاد ہمارے دشمنوں کو چبھتا رہا ہے۔ اس لئے غلامی کے سینکڑوں برسوں میں ہمارے ملک میں جتنے بھی بیرونی حملہ آور آئے، انہوں نے بھارت میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ انہوں نے بھات کو بانٹنے کے لئے، بھارت کو توڑنے کے لئے سب کچھ کیا۔ ہم پھر بھی اس کا مقابلہ کرسکے، کیونکہ اتحاد کا امرت ہمارے اندر موجود تھا، تازہ موج کی طرح بہہ رہا تھا لیکن وہ دور لمبا تھا۔ جو زہر اس دور میں گھولا گیا، اس کا نقصان ملک آج بھی برداشت کررہا ہے۔ اس لئے ہم نے بٹوارہ بھی دیکھا اور بھارت کے دشمنوں کو اس کا فائدہ اٹھاتے بھی دیکھا۔ اس لئے ہمیں آج بہت ہوشیار بھی رہنا ہے، ماضی کی طرح ہی، ہندوستان کی ترقی اور عروج سے پریشان ہونے والی طاقتیں آج بھی موجود ہیں۔ وہ آج بھی ہمیں توڑنے کی، ہمیں باٹنے کی ہر کوشش کرتی ہیں۔ ہمیں ذاتوں کے نام پر لڑانے کے لئے طرح طرح کے نیریٹیو گڑھے جاتے ہیں۔ صوبوں کے نام پر ہمیں بانٹنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی ایک ہندوستانی زبان کو دوسری ہندوستانی زبان کا دشمن بتانے کے لئے کیمپین چلائے جاتے ہیں۔ تاریخ کو بھی اس طرح پیش کیا جاتا ہے تاکہ ملک کے لوگ جڑے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے دور ہوں۔
اور بھائیو، بہنو،
ایک اور بات ہمارے لئے دھیان رکھنی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ملک کو کمزور کرنے والی طاقت ہمیشہ ہمارے کھلے دشمن کے طور پر ہی آئے۔ کئی بار یہ طاقت غلامی کی ذہنیت کے طور پر ہمارے اندر گھر کر جاتی ہے۔ کئی بار یہ طاقت ہمارے ذاتی مفادات کے ذریعہ نقب لگاتی ہے۔ کئی بار یہ کسی کو خوش کرنے کے طور پر ، کبھی اقربا پروری کے طور پر، کبھی لالچ اور بد عنوانی کے طور پر دروازے پر دستخط دے دیتی ہے، جو ملک کو بانٹتی اور کمزور کرتی ہے لیکن ہمیں انہیں جواب دینا ہوگا۔ ہمیں جواب دینا ہوگا – بھارت ماں کی ایک سنتان کے طور پر ۔ ہمیں جواب دینا ہوگا- ایک ہندوستانی کے طور پر۔ ہمیں متحد رہنا ہوگا، ایک ساتھ رہنا ہوگا۔ اختلاف کے زہر کا جواب ہمیں اتحاد کے اسی امرت سے دینا ہے۔ یہی نئے بھارت کی طاقت ہے۔
ساتھیو،
آج راشٹریہ ایکتا دوس پر ، میں سردار صاحب کے ذریعہ ہمیں سونپی ذمہ داری کو پھر سے دہرانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ہمیں یہ ذمہ داری بھی دی تھی کہ ہم ملک کے اتحاد کو مضبوط کریں، ایک قوم کے طور پر ملک کو مضبوط کریں۔ یہ اتحاد تب مضبوط ہوگا جب ہر شہری ایک جیسے ذمہ داری کے احساس سے اس ذمہ داری کو سنبھالے گا۔ آج ملک اسی ذمہ داری کے احساس سے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس ، اس متر کو لے کر ترقی کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملک میں ہر کونے میں، ہر گاؤں میں، ہر طبقے کے لئے اور ہر آدمی کے لئے بغیر بھید بھاؤ کے ایک جیسی پالیسیاں پہنچ رہی ہیں۔ آج اگر گجرات کے سورت میں عام لوگوں کو مفت ویکسین لگ رہی ہے تو اروناچل کے سیانگ میں بھی اتنی ہی آسانی سے مفت ویکسین دستیاب ہے۔ آج اگر ایمس گورکھپور میں ہے تو بلاسپور، دربھنگہ اور گوہاٹی اور راج کوٹ سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہے۔ آج ایک طرف تمل ناڈو میں ڈیفنس کوریڈور بن رہا ہے تو اترپردیش میں بھی ڈیفنس کوریڈور کا کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج نارتھ ایسٹ کے کسی باورچی خانے میں کھانا بن رہا ہو یا تمل ناڈو کی کسی ’سمیئل ارئی‘ میں کھانا بن رہا ہو، زبان بھلے الگ ہو، کھانا بھلے الگ ہو، لیکن ماؤں بہنوں کو دھوئیں سے نجات دلانے والا اجولا سلینڈر ہر جگہ ہے۔ ہماری جو بھی پالیسیاں ہیں، سب کی نیت ایک ہی ہے- آخری پائیدان پر کھڑے شخص تک پہنچنا، اسی ترقی کے مرکزی دھارے سے جوڑنا۔
ساتھیو،
ہمارے ملک کے کروڑوں لوگوں نے کئی دہائیوں تک اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی لمبا انتظار کیا ہے۔ بنیادی سہولیات کے درمیان کی خلیج، جتنی ہم ہوگی، اتنا ہی اتحاد بھی مضبوط ہوگا۔ اس لئے آج ملک میں سیچوریشن کے اصول پر کام ہورہا ہے۔ مقصد یہ کہ ہر اسکیم کا فائدہ ، ہر استفادہ کرنے والے تک پہنچے، اس لئے آج ہاؤسنگ فار آل، ڈیجیٹل کنکٹی وٹی فار آل، کلین کوکنگ فار آل، الیکٹری سٹی فار آل، ایسی کئی مہم چلائی جارہی ہیں۔آج سو فیصد شہریوں تک پہنچنے کا یہ مشن صرف ایک جیسی سہولیات کا ہی مشن نہیں ہے، یہ مشن متحدہ ہدف،متحدہ ترقی اور متحدہ کوشش کابھی مشن ہے۔ آج زندگی کی بنیادی ضرورتوں کےلئے سو فیصد کوریج ملک اور آئین میں عام انسانوں کے اعتماد کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہ عام انسانوں کی خود اعتمادی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ یہی سردار پٹیل کے بھارت کا وژن ہے، جس میں ہر ہندوستانی کے لئے یکساں مواقع ہوں گے، برابری کا جذبہ ہوگا۔ آج ملک اس وژن کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
ساتھیو،
گزشتہ 8 برسوں میں ملک نے ہر اس سماج کو ترجیح دی ہے جسے دہائیوں تک اندیکھی کا شکار ہونا پڑا تھا۔ اسی لئے ملک نے آدیواسیوں کے امتیاز کو یاد کرنے کے لئے جن جاتیہ گورو دوس منانے کی روایت شروع کی ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں جنگ آزادی میں آدیواسیوں کے رول کو لے کر میوزیم بھی بنائے جارہے ہیں۔ کل میں مان گڑھ جانے والا ہوں۔ اس کے بعد میں جامبو گھوڑا بھی جاؤں گا۔ میری ہم وطنوں سے اپیل ہے کہ مان گڑھ دھام اور جامبو گھوڑا کی تاریخ کو بھی ضرور جانیں۔ بیرونی حملہ آوروں کے ذریعہ کئے گئے کتنے ہی قتل عام کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں آزادی ملی ہے، آج کی نو جوان نسل کو یہ سب جاننا بھی بہت ضروری ہے، تبھی ہم آزادی کی قیمت سمجھ پائیں گے، اتحاد کی قیمت بھی جان پائیں گے۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں کہا بھی گیا ہے:
ऐक्यं बलं समाजस्य तद्भावे स दुर्बलः। तस्मात् ऐक्यं प्रशंसन्ति दृढं राष्ट्र हितैषिणः॥
یعنی کسی بھی سماج کی طاقت اس کا اتحاد ہوتا ہے۔ اسی لئے مضبوط قوم کے خواہش مند اتحاد کے اس جذبے کی تعریف کرتے ہیں، اس کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ملک کا اتحاد اور یکجہتی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ ایکتا نگر، بھارت کا ایک ایسا ماڈرن شہر تیار ہورہا ہے جو ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مثالی ہوگا۔ لوگوں کے اتحاد سے، عوامی حصے داری کی طاقت سے تیار ہوتا ایکتا نگر، آج شاندار بھی ہورہا ہے اور ظاہر بھی ہورہا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی کے طور پر دنیا کے سب سے بڑے مجسمہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مستقبل میں ایکتا نگر بھارت کا ایک ایسا شہر بننے جارہا ہے جو غیر معمولی بھی ہوگا اور ناقابل یقین بھی ہوگا۔ جب ملک میں ماحولیات کی حفاظت کے لئے کسی ماڈرن شہری کی بات ہوگی، ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں بجلی بچانے والے ایل ای ڈی سے روشن کسی ماڈرن شہر کی بات ہوگی، سب سے پہلے ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں سولر پاور سے چلنے والے کلین ٹرانسپورٹ سسٹم کی بات آئے گی تو سب سے پہلے ایکتا نگر کا نام آئے گا۔ جب ملک میں چرندو پرند کی حفاظت کی بات ہوگی، مختلف قسم کے جانداروں کے تحفظ کی بات ہوگی تو سب سے پہلے ایکنا نگر کا نام آئے گا۔ کل ہی مجھے یہاں میاواکی فاریسٹ اور میز گارڈن کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے۔ یہاں کا ایکتا مال، ایکتا نرسری کثرت میں وحدت کو ظاہر کرنے والا وشو ون، ایکتا پھیری، ایکتا ریلوے اسٹیشن، یہ سارے انتظامات قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کی طاقت ہیں۔ اب تو ایکتا نگر میں ایک اور نیا ستارہ بھی جرنے جارہا ہے۔ آج میں اس بارے میں بھی آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ اور ابھی جب ہم سردار صاحب کو سن رہے تھے، انہوں نے جس جذبے کا اظہار کیا، اس جذبے کی اس میں ترجمانی ہم کررہے ہیں۔ آزادی کے بعد ملک کے اتحاد میں سردار صاحب نے جو رول نبھایا،اس میں بہت بڑا تعاون ملک کے راجے رجواڑےنے بھی کیا تھا۔ شاہی خاندانوں نے صدیوں تک اقتدار سنبھالا، ملک کے اتحاد کے لئے ایک نئے نظام میں انہوں نے اپنے اختیارات کو ذمہ داری کے احساس سے وقف کردیا۔ ان کے اس تعاون کی آزادی کے بعد دہائیوں تک اندیکھی ہوئی ہے۔اب ایکتا نگر میں ان شاہی خاندانوں کے ، ان شاہی نظام کی قربانی کو وقف ایک میوزیم بنایا جائے گا۔ یہ ملک کے اتحاد کے لئے قربانی کی روایت کو نئی نسلوں تک پہنچائے گا، اور میں گجرات سرکار کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس سمت میں کافی گراؤنڈ ورک پورا کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سردار صاحب کی مثال قومی اتحاد کو مضبوط کرنے کے لئے مسلسل ہم سب کی رہنمائی کرے گی۔ ہم سب مل کر طاقتور بھارت کا خواب پورا کریں گے۔ اسی یقین کے ساتھ میں آپ سب سے اپیل کروں گا ، میں جب کہوں گا سردار پٹیل- آپ دو بار بولیں گے، امر رہے ، امر رہے۔
سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔
سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔
سردار پٹیل- امر رہے، امر رہے۔
بھارت ماتا کی- جے،
بھارت ماتا کی- جے،
بھارت ماتا کی- جے،
بہت بہت شکریہ!