ہرہر مہادیو! جئے شری مہاکال، جئے شری مہاکال مہاراج کی جئے! مہاکال مہادیو، مہاکال مہا پربھو۔ مہاکال مہارودر، مہاکال نموستوتے۔ اجین کی مقدس سرزمین پر ہونے والے اس ناقابل فراموش پروگرام میں موجود ملک بھر کے تمام چرن- ونگ سنتوں، قابل احترام سادھو اور سنیاسیوں، مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، چھتیس گڑھ کی گورنر محترمہ انوسوئیا اُوئیکے جی، جھارکھنڈ کے گورنر جناب رمیش بینس جی، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ بھائی شیوراج سنگھ چوہان جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، ریاستی حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین پارلیمنٹ، بھگوان مہاکال کے تمام عقیدت مند، خواتین و حضرات، جئے مہاکال!
اجین کی یہ توانائی، یہ جوش! اونتیکا کی یہ چمک، یہ کمال، یہ خوشی! مہاکال کی یہ شان، یہ عظمت! ‘مہاکال لوک’ میں دنیا وی کوئی چیز نہیں ہے۔ شنکر کی صحبت میں کوئی بھی چیز معمولی نہیں ہے۔ سب کچھ مافوق الفطرت، غیر معمولی ،ناقابل فراموش اور ناقابل یقین ہے۔ میں آج محسوس کر رہا ہوں، جب مہاکال ہماری نفس کشی اور سادگی سے خوش ہوتا ہے، تو اس کے آشیرواد سے ایسی عظیم الشان اشکال پیدا ہوتی ہیں اور وقت کی لکیریں مٹ جاتی ہیں، وقت کی حدیں کم ہو جاتی ہیں، اور لامحدود امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ آخر سے لامحدود سفر شروع ہوتا ہے۔ مہاکال لوک کی یہ شان و شوکت بھی آنے والی کئی نسلوں سے الگ مافوق الفطرت الوہیت کا نظارہ بھی دے گی، ہندوستان کے ثقافتی اور روحانی شعور کو توانائی بخشے گی۔ اس شاندار موقع پر، میں راج دھیراج مہاکال کے قدموں میں صد صد نمن کرتا ہوں۔ میں آپ سب کو، ملک اور دنیا میں مہاکال کے تمام عقیدت مندوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر، میں شیوراج سنگھ چوہان اور ان کی حکومت کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں، جو اتنی لگن کے ساتھ مسلسل اس خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، میں مندر کے ٹرسٹ سے منسلک تمام لوگوں، سنتوں اور اسکالر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، جن کے تعاون سے یہ کوشش کامیاب ہوئی ہے۔
ساتھیوں،
مہاکال کے شہر اُجّین کے بارے میں ہمارے یہاں کہا گیا ہے کہ ‘‘پرلیو نہ بادھتے تتر مہاکال پوری’’یعنی مہاکال کا شہر تباہی کی تباہ کاریوں سے پاک ہے۔ ہزاروں سال پہلے، جب ہندوستان کی جغرافیائی نوعیت آج سے مختلف رہی ہوگی، تب یہ مانا جاتا رہا ہے کہ اُجین ہندوستان کے مرکز میں ہے۔ ایک طرح سے، علم نجوم کے حساب سے اجین نہ صرف ہندوستان کا مرکز رہا ہے، بلکہ یہ ہندوستان کی روح کا مرکز بھی رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس کا شمار ہماری مقدس سات پوریوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں بھگوان کرشن خود آئے اور تعلیم حاصل کی۔ اجین نے مہاراجہ وکرمادتیہ کی وہ شان دیکھی ہے، جس نے ہندوستان کے نئے سنہرے دور کا آغاز کیا تھا۔ مہاکال کی اس سرزمین سے وکرم ساونت کی شکل میں ہندوستانی علم تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا تھا۔ اجین کے ذرے ذرے تاریخ کے ہر لمحے میں قید ہیں، ہر ذرے میں، روحانیت جذب ہے، اور ہر گوشے میں خدائی توانائی پھیل رہی ہے۔ وقت کے چکر کے 84 کلپوں کی نمائندگی کرنے والے 84 شیولنگ ہیں۔ یہاں 4 مہاویر، 6 ونائک، 8 بھیرو، اشٹماترکائیں ، 9 نوگرہ ، 10 وشنو، 11 رودر، 12 آدتیہ، 24 دیویاں، اور 88 تیرتھ ہیں اور اس سب کے مرکز میں راجادھیراج کالادھیراج مہاکال ویراجمان ہیں۔ یعنی، ایک طرح سے، ہماری پوری کائنات کی توانائی ہمارے رشیوں نے ایک علامتی شکل میں اُجین میں قائم کی ہے۔ لہٰذا، اُجین نے ہزاروں سالوں سے ہندوستان کی ترقی و خوشحالی، علم و وقار، تہذیب اور ادب کی رہنمائی کی ہے۔ اس شہر کا فن تعمیر کیسا تھا، شان و شوکت کیسی تھی، دستکاری کیسی تھی، خوبصورتی کیسی تھی، یہ ہم عظیم شاعر کالی داس کے میگھدوتم میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کی ثقافت اور روایات کی عکاسی ہمیں آج بھی بان بھٹ جیسے شاعروں کی شاعری میں ملتی ہے۔ یہی نہیں قرون وسطی کے ادیبوں نے بھی یہاں کے فن تعمیر کی تعریف کی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
کسی قوم کی ثقافتی شان اس وقت وسیع ہوتی ہے جب عالمی سطح پر اس کی کامیابی کا پرچم لہرایا جاتا ہو اور کامیابی کی بلندی تک پہنچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قوم اپنی ثقافتی بلندیوں کو چھوئے، اپنے تشخص کے ساتھ فخر سے سربلند کرے۔ اسی لیے آزادی کے امرت کال میں ہندوستان نے غلامی کی ذہنیت سے آزادی اور اپنی وراثت پر فخرجیسے پنچ پران کی اپیل کی ہے۔ اسی لیے آج ایودھیا میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر پوری رفتار سے جاری ہے۔ کاشی میں وشوناتھ دھام، ہندوستان کے ثقافتی دارالحکومت کے فخر میں اضافہ کر رہا ہے۔ سومناتھ میں ترقیاتی کام نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ اتراکھنڈ میں بابا کیدارناتھ کے آشیرواد سے کیدارناتھ-بدری ناتھ تیرتھ علاقے میں ترقی کے نئے باب لکھے جا رہے ہیں۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ چار دھام پروجیکٹ کے ذریعے ہمارے چاروں دھام آل ویدر روڈس سے جڑنے جا رہے ہیں۔ یہی نہیں، آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کرتارپور صاحب کوریڈور کھلا ہے، ہیم کنڈ صاحب کو روپ وے سے جڑنے جا رہا ہے۔ اسی طرح سودیش درشن اور پرساد یوجنا کے ذریعے ملک بھر میں ہمارے روحانی شعور کے ایسے بہت سے مراکز کا فخر بحال کیا جا رہا ہے اور اب اس ضمن میں یہ عظیم الشان ‘مہاکال لوک’ بھی ماضی کی شان کے ساتھ مستقبل کے استقبال کے لیے تیار ہے۔ آج جب ہم اپنے قدیم مندروں کو شمال سے جنوب، مشرق سے مغرب تک دیکھتے ہیں، ان کی وسعت، ان کا فن تعمیر ہمیں حیرت سے بھر دیتا ہے۔ کونارک کا سوریہ مندر ہو یا مہاراشٹر کے ایلورا کا کیلاش مندر، دنیا میں کون حیران نہیں ہوتا؟ کونارک سوریہ مندر کی طرح، گجرات میں موڈھیرا سورج مندر بھی ہے، جہاں سورج کی پہلی کرنیں براہ راست مقدس مقام میں داخل ہوتی ہیں۔ اسی طرح، تمل ناڈو کے تنجور میں راجاراج چولا کا تعمیر کردہ برہدیشور مندر ہے۔ کانچی پورم میں وردراجا پیرومل مندر ہے، رامیشورم میں رامناتھ سوامی مندر ہے۔ بیلور میں چنناکیشوا مندر ہے، مدورئی میں میناکشی مندر ہے، تلنگانہ میں رامپا مندر ہے، سری نگر میں شنکراچاریہ مندر ہے۔ اس طرح کے بہت سے مندر ہیں، جو غیرمثالی، ناقابل تصور، ‘نہ بھوتو نہ بھوشیتی’ کی زندہ مثالیں ہیں۔ جب ہم انہیں دیکھتے ہیں تو سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس دور میں انہوں نے کس ٹیکنالوجی سے تعمیر کیا ہوگا ۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے تمام سوالوں کے جواب نہ ملیں، لیکن ان مندروں کے روحانی اور ثقافتی پیغامات آج بھی اتنی ہی وضاحت کے ساتھ سنے جا سکتے ہیں۔ جب نسلیں اس ورثے کو دیکھتی ہیں، اس کے پیغامات سنتی ہیں، تو یہ ایک تہذیب کے طور پر ہمارے تسلسل اور لافانی ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مہاکال لوک میں اس روایت کو فنون اور دستکاری کے ذریعے مؤثر طریقے سے کندہ کیا گیا ہے۔ مندر کا یہ پورا صحن شیو پران کی کہانیوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اگر آپ یہاں آئیں گے تو مہاکال کے درشن کے ساتھ ساتھ آپ کو مہاکال کی شان اور اہمیت بھی نظر آئے گی۔ پنچ مکھی شیو، ان کا ڈمرو، سرپ، ترشول، اردھ چندر اور سپت رشی، ان کی یکساں عظیم الشان شکلیں یہاں نصب کی گئی ہیں۔ یہ فن تعمیر، اس میں علم کی یہ شمولیت، یہ مہاکال لوک کو اس کی قدیم شان سے جوڑتی ہے جو اس کی اہمیت کو اور بھی بڑھاتی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ہمارے صحیفوں میں ایک جملہ ہے - شیوم گانمیہ۔ اس کا مطلب ہے، شیو ہی علم ہے اور علم ہی شیو ہے۔ کائنات کا سب سے بڑا درشن شیو کے درشن میں ہے اوردرشن ہی شیو کا درشن ہے۔ اس لیے میں مانتا ہوں، ہمارے جیوترلنگوں کی یہ ترقی ہندوستان کی روحانی روشنی کی ترقی ہے، ہندوستان کے علم اور فلسفے کی ترقی ہے۔ ہندوستان کا یہ ثقافتی فلسفہ ایک بار پھر چوٹی پر پہنچ کر دنیا کی رہنمائی کے لیے تیار ہو رہا ہے۔
ساتھیوں،
بھگوان مہاکال واحد ایسے جیوترلنگ ہیں جو دکشن مکھی ہیں ۔ یہ شیو کے ایسے روپ ہیں جن کی بھسم آرتی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ہر عقیدت مند یقینی طور پر اپنی زندگی میں بھسم آرتی کا درشن کرنا چاہتا ہے۔ بھسم آرتی کی مذہبی اہمیت یہاں موجود تمام سنت زیادہ گہرائی سے بتا سکیں گے لیکن اس روایت میں ہمارے ہندوستان کی جانفشانی بھی نظر آتی ہے۔ مجھے اس میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر وجود کو بھی دیکھتا ہوں کیونکہ، شیو جو ‘‘سوئیں بھوتی وبھوشن’’ ہے، یعنی جو بھسم کو دھارن کرنے والے ہیں، وہ سروادھیپہ سرودا بھی ہے یعنی وہ لافانی بھی ہے اور ناقابل فنا بھی۔ لہذا، جہاں مہاکال ہے، وہاں ادوار کی کوئی حد نہیں ہے۔ لامحدودیت کا سفر بھی اختتام سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ہماری تہذیب کا روحانی اعتماد ہے جس کی وجہ سے ہندوستان ہزاروں سالوں سے امر بنا ہوا ہے۔ ازرا امر بنا ہوا ہے۔ ابھی تک ہمارے عقیدے کے یہ مراکز بیدار ہیں، ہندوستان کا شعور بیدار ہے، ہندوستان کی روح بیدار ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے، کوششیں ہوئیں، حالات بدلے، اقتدار کی تبدیلی ہوئی، ہندوستان کا استحصال بھی ہوا، آزادی بھی گئی۔ التمش جیسے حملہ آوروں نے اجین کی توانائی کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہمارے رشیوں نے کہا ہے - چندرشیکھرم آشرایے ممے کمے کرشیتی وے یما؟ یعنی مہاکال شیو کی پناہ میں موت بھی ہمارا کیا کرے گی؟ اور اس طرح، ہندوستان اپنے عقیدے کے ان مستند مراکز کی توانائی سے دوبارہ سر اٹھا کر ابھرا۔ ہم نے پھر اپنی لافانی ہونے کا وہی عالمگیر اعلان کیا۔ ہندوستان نے پھر مہاکال آشیرواد سے کال کے کپال پر لازوال وجود کا ایک نوشتہ لکھا۔ آج ایک بار پھر، آزادی کے اس امرت کال میں امر اونتیکا ہندوستان کی ثقافتی لافانی کا اعلان کر رہی ہے۔ اجین، جو ہزاروں سالوں سے ہندوستانی علم تاریخ کا مرکز رہا ہے، ایک بار پھر ہندوستان کی شان و شوکت کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔
ساتھیوں،
ہندوستان کے لیے مذہب کا مطلب ہے اپنے فرائض کا اجتماعی عزم! ہماری قراردادوں کا مقصد دنیا کی فلاح، انسانیت کی خدمت ہے۔ ہم شیو کی پوجا میں بھی کہتے ہیں - نمامی وشواسیہ ہیتے رتم تم، نمامی روپانی بہونی دھتے! یعنی ہم وشواپتی بھگوان شیو کو نمن کرتے ہیں، جو کئی طریقوں سے پوری دنیا کے مفادات میں مصروف ہیں ۔ یہ جذبہ ہمیشہ ہندوستان کے عقیدت مندوں، مندروں، خانقاہوں اور عقیدت کے مراکز کی رہی ہے۔ یہاں ملک اور دنیا بھر سے لوگ مہاکال مندر میں آتے ہیں۔ جب سنہست کمبھ ہوتا ہے، لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ بے شمار تنوع بھی ایک منتر، ایک قرارداد سے یکجا ہو سکتے ہیں، اس سے اچھی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہزاروں سالوں سے ہمارے کمبھ میلے کی روایت انتہائی اجتماعی منتھن کے بعد جو امرت نکلتا ہے ،اس سے عہد لے کر بارہ سال تک اس کے نفاذ کی روایت رہی ہے۔ پھر بارہ سال کے بعد جب کمبھ ہوتا تھا تو ایک بار پھر امرت منتھن ہوتا تھا۔ پھر عہد کیا جاتاتھا۔ پھربارہ سال کیلئے چل پڑتے تھے۔ مجھے گزشتہ سال یہاں کمبھ میلے میں آنے کا شرف حاصل ہوا۔ مہاکال کا بلاوا آیا اور یہ بیٹا آئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے اور اس وقت کنبھ کی ہزار سال پرانی روایت جو ذہن میں چل رہی تھی، اس وقت غوروفکر جاری تھا۔ ماں شپرا کے کنارے بہت سے خیالات میں گھرا ہوا تھا اور اس وقت میرے دماغ کچھ الفاظ آئے، پتہ نہیں کہاں سے آیا، کیسے آیا، اور جو احساس پیدا ہوا وہ ایک قرارداد بن گیا۔ آج وہ سریشٹی کی شکل میں نظر آرہا ہے دوستو۔ میں ایسے ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس وقت کے جذبے کو محسوس کرکے اس کا ثمرہ دکھایا ہے۔ ہر ایک کے ذہن میں شیو اور شیوتو کے سامنے سرجھکانے، ہر کسی کے ذہن میں شپرا کے لیے عقیدت، حیاتیات اور فطرت کے لیے حساسیت، اور اتنا بڑا اجتماع! دنیا کی بھلائی کے لیے یہاں کتنی ترغیبات مل سکتی ہیں؟
بھائیو اور بہنو،
ہماری ان عقیدت مندوں نے صدیوں سے قوم کو پیغام دیا ہے اور طاقت بھی دی ہے۔ کاشی جیسے ہمارے مرکز مذہب کے ساتھ علم، فلسفہ اور فن کی راجدھانی بھی رہے۔ اجین جیسے ہمارے مقامات فلکیات، فلکیات سے متعلق تحقیق کے اعلیٰ مرکز رہے ہیں۔ آج جب نیا ہندوستان اپنی قدیم اقدار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے تو عقیدت کے ساتھ سائنس اور تحقیق کی روایت کو بھی زندہ کر رہا ہے۔ آج ہم فلکیات کے شعبے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے برابر کھڑے ہورہے ہیں۔ آج بھارت دوسرے ممالک کے سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج رہا ہے۔ مشن چندریان اور مشن گگنیان جیسے مشنوں کے ذریعے، ہندوستان آسمان میں وہ چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے، جو ہمیں ایک نئی بلندی عطا کرے گا۔ آج دفاعی شعبے میں بھی ہندوستان پوری قوت کے ساتھ خود انحصاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح، آج ہمارے نوجوان ہنرمندی، اسپورٹس، ، اسپورٹس سے اٹارٹ اپس، ایک ایک چیز نئے اسٹارٹ اپ کے ساتھ، نئے یونی کورنز کے ساتھ ہر شعبے میں بھارت کی صلاحیت کا ڈنکا بجارہے ہیں۔
اور بھائیو اور بہنو،
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے، یہ نہ بھولیں کہ جہاں جدت ہے وہاں تزئین و آرائش بھی ہے۔ غلامی کے دور میں ہم نے جو کھویا، آج ہندوستان اس کی تزئین و آرائش کر رہا ہے، فخر اور وقار کے ساتھ ہندوستان کی شان و شوکت بحال ہو رہی ہے اور اس کا فائدہ، نہ صرف ہندوستان کے لوگوں کوبلکہ پوری دنیا کو ملے گا، پوری انسانیت کو ملے گا۔ مہاکال کے آشیرواد سے ہندوستان کی شان و شوکت پوری دنیا کی ترقی کے نئے امکانات کو جنم دے گی۔ ہندوستان کی الوہیت پوری دنیا کے لیے امن کی راہ ہموار کرے گی۔ اس یقین کے ساتھ میں ایک بار پھر بھگوان مہاکال کے قدموں میں سر جھکاکر نمن کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری عقیدت کے ساتھ بولئے، جئے مہاکال! جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال، جئے جئے مہاکال۔