‘‘حکومت نے اس بجٹ میں بڑے پیمانےپر ترقی کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں’’
‘‘ہم نے بہت سی بنیادی اصلاحات کی ہیں اور ایم ایس ایم ایز کو مضبوط کرنے کے لیے نئی اسکیمیں بنائی ہیں۔ ان اصلاحات کی کامیابی کا دارومدار ان کی مالی اعانت کو مضبوط کرنے پر ہے’’
‘‘ہمارے فنانسنگ شعبے کو جدید فنانسنگ اور نئے ترقی پسندانہ خیالات اور اقدامات کے پائیدار رسک مینجمنٹ پر بھی غور کرنا ہو گا’’
‘‘ہندوستان کی توقعات قدرتی کاشتکاری اور کھاد کی کاشتکاری سے بھی جڑی ہوئی ہیں’’
‘‘ماحول دوست منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنا ضروری ہے۔ ماحول دوست مالی اعانت اور اس طرح کے نئے پہلوؤں کا مطالعہ اور ان پر عمل درآمد آج وقت کی اہم ضرورت ہے’’

نمسکارجی !

کابینہ کے میرے تمام ساتھیوں، فائننس اور اکونومی سے تعلق رکھنے والے تمام  ماہرین، متعلقین، خواتین و حضرات!

سب سے پہلے تو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر آپ سب کو مبارک باد اور یہ بھی فخر کی بات ہے کہ ہم  آج جب  بجٹ کے  بارے میں چرچہ  کر رہے ہیں توبھارت جیسے  وسیع و عریض ملک کی وزیر خزانہ بھی ایک خاتون ہیں، جنہوں نے اس بار ملک کا  بڑا ترقی پسند بجٹ دیا ہے۔

ساتھیو،

سو برسوں میں آنے والی  سب سے بڑی  عالمی وباکے درمیان، بھارت کی معیشت پھر  سے رفتار پکڑ رہی ہے۔ یہ ہمارے اقتصادی فیصلوں اور ہماری معیشت کی مضبوط بنیاد کا عکس ہے۔ اس بار کے بجٹ میں حکومت نے تیز رفتار ترقی کے اس  مومنٹم  کو جاری رکھنے کے لیے بہت سے  اقدامات کیے ہیں۔ غیر ملکی سرمائے کی  آمد کی حوصلہ افزائی کرکے، انفراسٹرکچر سرمایہ کاری پر ٹیکس کم کرکے، این آئی آئی ایف، گفٹ سٹی اور نئے ڈی ایف آئیز جیسے ادارے قائم کرکے  ہم نے  فائننشیل  اور اقتصادی ترقی کو تیز رفتار دینے کی کوشش کی ہے۔ فائننس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے وسیع  استعمال کو لیکر ملک کی عہد بندی اب نیکسٹ لیول  پر پہنچ رہی ہے۔ 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹس ہوں یا سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سیز)، یہ ہمارے وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔

ساتھیو،

اکیسویں صدی کے بھارت کی ترقی کو تیز  رفتار دینے کے لیے ہمیں اپنے تمام ترجیحی شعبوں میں مالیاتی اعتبار سے قابل عمل ماڈلوں کواولیت  دینی ہوگی۔ آج ملک کی جو خواہشات ہیں، ملک جن عزائم کو لیکر آگے بڑھنے کے لیے پرجوش ہے،  جس سمت میں آگے بڑھنا چاہتا ہے، ملک کی جو ترجیحات ہیں، اس میں ہمارے لئے مالیاتی اداروں کی حصے داری  اہم ہے۔ آج ملک آتم نربھر بھارت مہم چلا رہا ہے۔  ہمارے ملک کا انحصار دوسرے ممالک پر ہو،  اس  جڑے پروجیکٹوں کی فائننسنگ کے کیا مختلف ماڈل بنائے جا سکتے ہیں، اس بارے میں غور خوض کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک مثال پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ہے۔ اس سے جڑے پروجیکٹوں کی کامیابی میں آپ کا مرکزی رول ہے۔ ملک کی متوازن ترقی کی سمت میں حکومت ہند کی اسکیمیں جیسے خواہش مند اضلاع پروگرام ، ملک میں قریب 100 سے زیادہ اضلاع منتخب کئے گئے ہیں، جو ریاست کی اوسط سے بھی پیچھے ہیں۔  تو  ہم  نے یہ  مالیاتی ادارے وہاں کے  کوئی  بھی پراجیکٹ ہیں تو اس کو ترجیح دے کر کے یہ ہمارے خواہش مند اضلاع ہیں جو ابھی پیچھے ہیں، ان کو  آگے لانے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح سے ہمارا ملک، ہم  دیکھیں تو مغربی ہندوستان بہت سی  اقتصادی سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ مشرقی بھارت ہے، جہاں سب  طرح کے قدرتی وسائل  ہیں، لیکن معاشی ترقی کے  اعتبار  سے وہاں صورت حال کی بہت  اصلاح ہوسکتی ہے۔بنیادی ڈھانچہ بہت بہتر ہو سکتا ہے۔ ہم مشرقی بھارت کی ترقی کے لیے، اسی طرح  سے پورے شمال مشرق، اس کی ترقی، یہ ایسی چیزیں ہیں، جن کو جغرافیائی اعتبار سے ہم دیکھیں  تو ہمارے لیے ترجیح دینے کی بات  ہے۔ ان علاقوں میں آپ کی حصے داری میں اضافہ کرنے کی سمت میں ا بھی غور کرنا ضروری ہے۔ آج بھارت کی خواہشات  ہمارے  ایم ایس ایم ایز  کی  مضبوطی سے وابستہ  ہیں۔ ایم ایس ایم ای کو مضبوط کرنے کے لیے، ہم نے بہت سی بنیادی اصلاحات کی ہیں اور نئی اسکیمیں بنائی ہیں۔ ان اصلاحات کی کامیابی، ان کی فائننسنگ کو  مضبوط کرنے پر منحصر  ہے۔

ساتھیو،

انڈسٹری 4.0 تب تک، ہم جو چاہتے ہیں وہ نتیجہ  آنے میں وقت لگ سکتا ہے، تو اس سے بچنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟  ہم  اگر چاہتے ہیں کہ جب دنیا کی انڈسٹری 4.0 کی بات کرتی ہے تو ہمیں  اس کے جو اہم ستون ہیں،  فنٹیک ہو، ایگری ٹیک ہو، میڈی ٹیک ہو، اس کے مطابق  ہنر مندی کی ترقی  ہو، یعنی 4.0  ہنر مندی کے فروغ  کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی یہ جو اہم  ستون ہیں، ان ستونوں کو بھی 4.0 کی روشنی میں ہم ڈیولپ کرنے کے لیے مالیاتی ادارے کیسے ترجیح دے سکتے ہیں؟ ایسے بہت سے شعبوں کو مالیاتی اداروں کی مدد انڈسٹری 4.0 میں بھارت کو  نئی ​​بلندیوں پر لے جائے گی۔

ساتھیو،

آپ نے دیکھا ہے کہ جب کوئی کھلاڑی گولڈ میڈل لے کر آتا ہے اولمپکس میں، تو ملک کا نام دنیا میں کس روشن ہوتا ہے۔ ملک میں بھی کتنا بڑا  اعتماد پیدا ہوتا ہے۔  میڈل تو ایک شخص لاتا ہے لیکن  پورا  ماحول بدل  دیتا ہے۔ کیا ہم ملک میں ایسے  تجربات سے  سوچ  نہیں سکتے ہیں  کہ ہم کوئی  8 یا 10 ایسے  شعبوں کو شناخت کریں اور ہم اس میں طاقت لگائیں اور بھارت ان شعبوں میں پہلے تین میں نمبر لے سکتا ہے کیا؟ یہ نجی شعبے  کی حصے داری سے ہو گا۔ اب جیسے، بھارت میں جو، کیا ایسی کنسٹرکشن کمپنیاں نہیں ہوسکتی ہیں جو  دنیا کی  ٹاپ 3 میں ان کا نام  ہو؟  تو اسی طرح ہمارے  اسٹارٹ اپس کی تعداد کی سمت میں تو ہم آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن ان کی جو مصنوعات ہیں، ان کی جو کوالٹی ہے، اس کی انفرادیت ہے ، اس کی جو ٹیکنولوجیکل بنیاد ہے ، کیا  ہمارے اسٹارٹ اپ، منفرد اسٹارٹ اپس ،ٹاپ 3 کے اندر ہم  جگہ بنا سکتے ہیں کیا؟ ابھی ہم نے ڈرون سیکٹر کو کھولا ہے، اسپیس سیکٹر کو کھولا ہے، جیو اسپیشل سیکٹر کو کھولا ہے۔ یہ بہت بڑے پالیسی سے متعلق  فیصلےہوئے ہیں، جو ایک طرح سے گیم چینجر ہیں۔ کیا اس میں بھارت کے نئی نسل  کے لوگ اسپیس سیکٹر  میں آرہے ہیں، ڈرون میں آرہے ہیں، کیا  اس میں بھی ہم  دنیا کے ٹاپ 3 میں جگہ بنانے کا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں کیا؟ کیا  اس کے لئے ہمارے سارے ادارے ان کی  مدد نہیں کر سکتے ہیں کیا؟ لیکن یہ سب ہونے کے لیے بہت ضروری ہے کہ جو کمپنیاں، جو صنعت ان شعبوں میں آگے ہیں، انہیں ہمارے مالیاتی شعبے پر اور اس کی  جانب سے فعال، پورا ساتھ ملنا چاہیے۔ ہمارے پاس  مہارت بھی ہونی چاہیے کہ اس طرح کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مالیاتی اداروں کے پاس  صلاحیت کیسے تیار ہو؟  ورنہ آگے  پتہ  ہی نہیں چلے گا، وہ لے  آیا ہے، وہ  پتہ نہیں، ہم  جو پہلے  کرتے تھے، اس میں تو میل بیٹھتا ہی نہیں ہے۔ ہماری کمپنیوں، ہمارے اسٹارٹ اپس  کی توسیع تبھی  ہوگی جب   کاروباری پہل کو  ہم آگے بڑھائیں گے، اختراو پر زور دیں گے، نئی ٹیکنالوجی – نئے بازار تلاش کریں گے، نئے  بزنس آئیڈیاز پر کام کریں گے اور اتنا کچھ کرنے کے لیے، جو انہیں فائننس کرتے ہیں ان میں بھی مستقبل کے ان آئیڈیاز کے بارے میں ایک  گہری سمجھ ہونا  ضروری ہے۔ ہمارے فائننسنگ سیکٹر کو  بھی نئے مستقبل کے آئیڈیاز اور اقدامات کی اختراعی  فائننسنگ اور پائیدار رسک مینجمنٹ پر بھی غور کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

یہ آپ سبھی اچھی طرح  جانتے ہیں کہ آج ملک کی ترجیح بھارت کی ضرورت میں یہ بھی ہے کہ آتم نربھرتا اور ساتھ  ساتھ ایکسپورٹ  میں بھی ہم  زیادہ سے زیادہ کیسے آگے بڑھیں۔ ایکسپورٹرس کی مالیاتی ضرورتیں علیحدہ ہوتی ہیں۔ ان ضروریات کے مطابق، کیا آپ اپنی مصنوعات اور خدمات  کو ڈیولپ  کر سکتے ہیں تاکہ ایکسپورٹر کی  ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔  آپ انہیں اولیت دیں گے تو ان کی طاقت  اضافہ ہوگا  اور جب ان کی طاقت اضافہ ہوگا  تو ملک کے ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔ اب جیسے ان دنوں دنیا میں بھارت کے گیہوں  کی طرف رغبت میں اضافے کی خبریں آرہی ہیں۔ تو گیہوں کے جو ایکسپورٹرز ہوں گے؟ کیا ہمارے مالیاتی اداروں کی ان کی  طرف توجہ  ہے کیا؟ ہمارے امپورٹم ایکسپورٹ کرنے والے محکمے کی اس طرف توجہ ہے کیا؟ ہماری جوجہاز رانی کی صنعت ہے، ان کے اندر  اس کی ترجیح کی فکر ہے کیا؟ یعنی ایک طرح سے جامع کوشش ہوگی اور یہ مانو دنیا میں گیہوں کا  ہمارے لیے  موقع آیا ہے،  تو اس کو  وقت سے پہلے اچھی کوالٹی ، اچھی  سروس  کے ساتھھ ہم پرووائڈ کریں تو  آہستہ آہستہ وہ پرماننٹ بن جائے گا۔

ساتھیو،

بھارت کی معیشت کی بڑی بنیاد اس لئے میں کہتا ہوں دیہی معیشت کو  ہم  نظر انداز  نہیں کر سکتے، اس سے انکار نہیں کرسکتے اور دیہی معیشت اتنی بڑی وسیع و عریض  بنیاد ہوتی ہے  جو تھوڑا تھوڑا کرکے جب اس کو  مرتب کرتے ہیں تو بہت بڑی ہو جاتی ہے۔ دیہی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے چھوٹی کوششیں ہوتی  ہیں لیکن  نتیجے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ جیسے  اپنی مدد آپ گروپوں کو فروغ دینا،  کیا ہم فعال ہو کرکے  اپنی مدد آپ گروپ ہو، فائننس ہو، ٹیکنالوجی ہو، مارکیٹنگ ہو، ایک بڑی جامع مدد کر سکتے ہیں، اب جیسے کسان کریڈٹ کارڈ کا کام  ہے، کیا ہم  مشن موڈ پر کسان  کریڈٹ کار ہر  کسان کو  کیسے ملے، ماہی گیر کو  کیسے ملے، مویشی پالنے والے کو کیسے ملے، اس پر ہم اصرار کرتے ہیں کیا؟  ملک میں ہزاروں فارمر پروڈیوسر تنظیمیں آج  بن رہی ہیں اور بڑی پہل  بھی کی جا رہی ہے۔ کچھ ریاستوں میں تو  اچھے نتائج بھی نظر آرہے ہیں۔  ہم نے اس سمت میں کام ... اب جیسے زراعت  میں،  پہلے ہماری طرف  شہد پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اب ہمارے یہاں  شہد پر بہت اچھا کام  چل رہا ہے۔ لیکن اب اس کی گلوبل مارکیٹ، اِس کے لیے، اُس کی برانڈنگ، مارکیٹنگ، اس کو مالیاتی مدد، ان ساری چیزوں میں ہم کیسے کام کر سکتے ہیں؟ اسی طرح آج ملک کے لاکھوں گاؤوں میں کامن سروس سینٹرز بنائے جا رہے ہیں۔  انہیں بھی اپنی  پالیسیوں کی ترجیحات میں رکھو گے تو ملک کی دیہی معیشت کو بہت طاقت  ملے گی۔ ایک طرح سے، سروس سینٹر، اس کا سب سے بڑا فائدہ آج گاؤں کے جیسے  ریلوے ریزرویشن کرنا ہے،  گاؤں سے کسی کو شہر نہیں جانا پڑتا ہے۔ وہ جاتا ہے، سروس سینٹر پر جاتا ہے، اپنا ریزرویشن کروا دیتا ہے اور آپ  پتہ ہے کہ آج ہم آپٹیکل فائبر نیٹ ورک بچھا کر گاؤں  گاؤں  تک  براڈ بینڈ کنکٹی وٹی پہنچا  رہے ہیں۔ حکومت نے ایک طرح سے ڈیجیٹل ہائی وے اور میں سادی زبان میں کہوں گا کہ  ڈیجیٹل سڑک ، ڈیجیٹل سڑک میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ گاؤں میں  مجھے ڈیجیٹل لے جانا ہے۔ اور اس لئے ڈیجیٹل سڑک  بنا رہے ہیں۔ ہم بڑے ڈیجیٹل ہائی ویز کی بات  تو  کرتے ہیں، ہمیں نیچے کی طرف جانا ہے، گاؤں تک جانا ہے، عام  لوگوں تک پہنچنا ہے اور اس لیے ڈیجیٹل سڑک، ہم اس مہم کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔  مالیاتی شمولیت کے مختلف پروڈکٹ کو ہم گاؤں گاؤں تک لے جا سکتے ہیں کیا؟ اسی طرح  زرعی شعبے سے فوڈ پروسیسنگ  جڑاہے، ویئر ہاؤسنگ ہے، ایگری لاجسٹکس بھی اہم ہے۔ بھارت کی خواہشات قدرتی زراعت سے، آرگینک زراعت سے منسلک ہیں۔ اگر کوئی ان میں نیا کام کرنے کے لیے آگے آرہا ہے تو ہمارے مالیاتی ادارے اس کی کیسے مدد کریں، اس کے بارے میں سوا جانا بہت ضروری ہے۔

ساتھیو،

آج کل صحت کے شعبے میں بھی بہت کام ہو رہا ہے۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے پر حکومت اتنی  سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ہمارے یہاں میڈیکل ایجوکیشن سے  جڑے  چیلنجوں کو دور کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میڈیکل اداروں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیا ہمارے  جو مالیاتی ادارے، جو بینک ہیں، وہ بھی اپنی بزنس پلاننگ  میں ان شعبوں کو ترجیحات میں شامل کرسکتے ہیں کیا؟

ساتھیو،

آج کی تاریخ میں گلوبل وارمنگ  ایک  بہت ہی اہم موضوع ہے اور بھارت نے 2070 تک نیٹ زیرو کا  نشانہ رکھا ہے۔ ملک میں اس کے لیے کام شروع ہو چکا ہے۔ ان کاموں کو رفتار دینے کے لیے ماحولیات موافق  پروجیکٹوں کو رفتار دینا ضروری ہے۔ گرین فائننسنگ اور ایسے  نئے پہلوؤں کا مطالعہ اور  نفاذ آج  وقت کا تقاضہ ہے۔  جیسے شمسی توانائی کے شعبے میں  بھارت بہت کچھ کر رہا ہے، بھارت اپنے یہاں آفات کا مقابلہ کرنے والے  انفراسٹرکچر بنا رہا ہے۔ ہم جو ملک میں ہاؤسنگ سیکٹر کے 6 لائٹ ہاؤس پروجیکٹس  چلا رہے ہیں، ان میں بھی آفات کا مقابلہ کرنے والے انفراسٹرکچر کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان شعبوں میں ہونے والے کاموں کو  آپ کا تعاون، وہ تو ابھی ایک  لائٹ ہاؤس پراجیکٹس ماڈل کی شکل میں ہے، لیکن اس  طرح کے شعبے  میں کام کرنے والوں کو مالیاتی  مدد ملے گی، تو اس ماڈل کو وہ اس لیے وہ اس ماڈل کی نقل  تیار کے گااور  چھوٹے  چھوتے شہروں میں لے  کر جائیں گے۔ تو  ہماری ٹیکنالوجی بہت تیزی سے پھیلنی  شروع ہو جائے گی، کام کی رفتار بڑھ جائے گی اور میں سمجھاتا ہوں کہ  اس  طرح کا تعاون بہت معنی رکھتا ہے۔

ساتھیو،

مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی ان موضوعات پر سنجیدگی سے  غور  کریں گے اور اس ویبینار سے قابل عمل سولیوشنز ، آئیڈیاز نیں ، بہت بڑا وژن اور 2023 کا بجٹ آج ہمیں طے نہیں کرنا ہے۔ آج تو مجھے 2022-2023 مارچ مہینے کا جو بجٹ ہےاس کو کیسے نافذ کروں، جلدی نافذ کیسے کروں،  نتیجہ کیسے ملے  اور حکومت کو ایک  آپ کے جو روزمرہ کے تجربات ہیں، اس کا فائدہ ملےتاکہ ہم فائلوں میں فل  اسٹاپ، ادھر ادھر ہمارا نہ ہوجائےجس کی وجہ سے  6 - 6  مہینے  تک یہ فیصلہ لٹکتا رہے، یہ اگر ہم کرنے سے پہلے چرچہ کرتے ہیں  تو فائدہ ہو گا۔ ایک نئی پہل ہم نے کی ہے۔ اور جو میں سب کا پریاس کہتا ہوں نہ، اس  سب کا پریاس کی ہی ایک مثال ہے کہ بھارت میں بجٹ آنا، اس سے  پہلے آپ سب سے چرچہ، بجٹ پیش ہونے کے بعدچرچہ، وہ چرچہ، نفاذ کے لیےچرچہ، یہ اپنے آپ میں جمہوریت کا ایک بے مثال تجربہ ہے۔  مالیاتی دنیا میں اس قسم کی جمہوری کوشش، تمام  متعلقین سے مل کرکے  کام کرنا،  یہ کوئی ہم  بجٹ کی جو بھی خصوصیات ہیں، جو بھی طاقت ہے، اسے کی بھرپور تعریف ہوچکی  ہے۔ لیکن واہ واہی کرکے مجھے  رکنا نہیں ہے۔ اس بار بجٹ  چاروں طرف  واہ واہی ہوئی  ہے۔ لیکن مجھے اس سے رکنا نہیں ہے۔ مجھے تو آپ کی مدد چاہیے آپ کا فعال  رول چاہیے۔ میں تو  ریاستی حکومتوں کو  بھی کہوں گا کہ اس کے لیے  وہ اپنی  پالیسی سے متعلق جو  چیزیں  ہیں، جو فیصلے کرنے ہیں،  پالیسیاں تیار کرنی ہیں، ان کو بھی کیا ایک  اپریل سے پہلے  بنا سکتے ہیں کیا؟آپ  جتنی جلدی بازار میں آئیں گے، زیادہ لوگ آپ کی ریاست میں آئیں گے، تو آپ کی ریاست کو فائدہ ہوگا۔ ریاستوں کے درمیان  میں بھی ایک بہت بڑی مسابقت ہونی  چاہیے کہ اس بجٹ کا زیادہ کا سب سے زیادہ فائدہ کونسی  ریاست لے جاتی ہے؟ کون سی ریاست ایسی  پروگیسیو  پالیسیاں لے کر آتی ہے کہ تمام مالیاتی اداروں میں وہ وہاں  سرمایہ کاری کرنے والوں کی مدد کرنے کا من کرجائے۔ ایک بڑا ترقی پذیر  ایکو سسٹم ہم ڈیولپ کریں۔ کچھ نیا کرنے کے مزاج سے ہم پہل کریں۔ مجھے پکا  یقین ہے، آپ تجربہ کار لوگ ہیں،  روزمرہ کی مشکلات کو آپ جاتے ہیں،  روزمرہ کی مشکلات کے حل کو آپ جاتے ہیں۔ ہم اس  حل کے لیے آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ  بجٹ کی چرچہ سے زیادہ پوسٹ بجٹ کی چرچہ زیادہ ہے اورنفاذ کے لئے ہے یہ چرچہ، ہمیں  آپ سے  نفاذ کے لئے مشورہ چاہئے ۔ مجھے پکا  یقین ہے،  آپ کا تعاون بہت فائدے مند ہوگا۔ بہت شکریہ !

بہت بہت نیک خواہشات!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season

Media Coverage

Cabinet approves minimum support price for Copra for the 2025 season
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21دسمبر 2024
December 21, 2024

Inclusive Progress: Bridging Development, Infrastructure, and Opportunity under the leadership of PM Modi