وزیر ائے اعلی کی کونسل کے میرے ساتھی جناب راج ناتھ سنگھ جی، جناب اجے بھٹ جی، بھارتی بحریہ کے نائب سربراہ ، دفاع کے سکریٹری، ایس آئی ڈی ایم کے صدر، صنعت اور تعلیمی اداروں سے وابستہ سبھی ساتھی، دیگر سبھی معززین، خواتین و حضرات۔ !
بھارتی فوجوں میں خود کفالت کا مقصد 21ویں صدی کے بھارت کے لیے بہت ضروری ہے، بہت لازمی ہے۔ خود کفالت بحریہ کے لیے پہلے خود سواولمبن سیمینار کا انعقاد ہونا ، میں سمجھتا ہوں یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی اہم بات ہے اور ایک اہم قدم ہے اور اس کے لیے میں آپ سبھی کو بہت بہت خیر مقدم کرتا ہوں، آپ سب کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
فوجی تیاریوں اور خاص طور پر بحریہ کی مشترکہ مشقوں میں یہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سیمینار بھی مشترکہ مشق کی ایک قسم ہے۔ خود کفالت کے لیے اس مشترکہ مشق میں بحریہ، صنعت، ایم ایس ایم ای، اکیڈمیز، یعنی دنیا بھر کے لوگ اور حکومت کے نمائندے، آج ہر ایک متعلقہ فریق ایک ساتھ مل کر ایک مقصد کے لیے سوچ رہے ہیں۔ مشترکہ مشق کا مقصد یہ ہے کہ تمام شرکاء کو زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہو، ایک دوسرے کے تئیں مفاہمت میں اضافہ ہو، بہترین طور طریقوں کو اپنایا جا سکے۔ ایسے میں اس مشترکہ مشق کا ہدف بہت اہم ہے۔ ہم مل کر اگلے سال 15 اگست تک بحریہ کے لیے 75 سیسی ٹیکنالوجی تیار کریں گے، یہ عزم ہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی قوت ہے اور آپ کی کوشش، آپ کا تجربہ، آپ کا علم یقیناً اس کو ثابت کرے گا۔ آج جب بھارت اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے، ایسے اہداف کے حصول سے ہمارے خود انحصاری کے مقاصد کو مزید تقویت ملے گی۔ ویسے میں یہ بھی کہوں گا کہ 75 دیسی ٹیکنالوجیز کی تخلیق ایک طرح سے پہلا قدم ہے۔ ہمیں ان کی تعداد کو مسلسل بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ آپ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جب بھارت اپنی آزادی کے 100 سال کا جشن منا ئے تو ہماری بحریہ غیر معمولی بلندی پر ہے۔
ساتھیو،
ہمارے سمندر، ہماری ساحلی سرحدیں، ہماری اقتصادی خود انحصاری کے عظیم محافظ اور ایک طرح سے اضافہ کرنے کے اہل ہیں۔ اس لیے بھارتی بحریہ کا رول مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس لیے بحریہ کے ساتھ ساتھ ملک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لیے بحریہ کا بھی خود کفیل ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سیمینار اور اس سے حاصل ہونے والا امرت ہماری افواج کو خود کفیل بنانے میں بہت مدد کرے گا۔
ساتھیو،
آج جب ہم دفاع میں خود انحصاری کے مستقبل کی بات کر رہے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ ہم گزشتہ دہائیوں میں جو کچھ ہوا اس سے سبق بھی لیتے رہیں۔ اس سے ہمیں مستقبل کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی بھرپور سمندری وراثت کے دیدار ہوتے ہیں۔ بھارت کا بھرپور تجارتی راستہ اس وراثت کا حصہ رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد سمندر پر غلبہ حاصل کرنے کے اہل تھے کیونکہ انہیں ہوا کی سمت، خلائی سائنس کے بارے میں بہت اچھی معلومات تھیں۔ کس موسم میں ہوا کا رخ کیا ہوگا، ہوا کے رخ کے ساتھ چلتے ہوئے ہم رکے ہوئے مقام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں، یہ علم ہمارے اسلاف کی بڑی طاقت تھی۔ یہ معلومات بھی ملک کے بہت کم لوگوں کو ہیں کہ بھارت کا دفاعی شعبہ آزادی سے پہلے بھی بہت مضبوط ہوا کرتا تھا۔ آزادی کے وقت ملک میں ہتھیاروں کی 18 فیکٹریاں تھیں جہاں سے توپ خانے سمیت کئی قسم کا فوجی سازوسامان ہمارے ملک میں بنایا جاتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہم دفاعی ساز و سامان کے ایک اہم سپلائر تھے۔ ایشا پور رائفل فیکٹری میں بنی ہماری توپیں ،مشین گنیں اس وقت بہترین سمجھی جاتی تھیں۔ ہم بہت بڑی تعداد میں برآمد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا کہ ایک وقت میں ہم اس شعبے میں دنیا کے سب سے بڑے درآمد کار بن گئے۔ اور ہم تھوڑا دیکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے بہت تباہی مچی۔ دنیا کے بڑے ممالک کئی طرح کے بحرانوں میں پھنسے ہوئے تھے لیکن انہوں نے اس بحران کو بھی ، قدرتی آفت کو ایک موقع میں بدلنے کی کوشش کی۔ اور انہوں نے اسلحے کی تیاری میں اور دنیا کی بڑی مارکیٹ کو قبضہ میں لینے کی سمت لڑائی میں سے وہ راستہ تلاش کیا اور خود ایک بہت بڑے تعمیر کنندہ اور بہت بڑے سپلائر بن جانے والے ، دفاع کی دنیا میں ، یعنی جنگ برداشت کی لیکن اس میں سے انہوں نے یہ راستہ بھی تلاش کیا۔ ہمیں بھی کورونا کے دور میں اتنے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا، ہم بہت نچلی سطح پر تھے، ہمارے پاس سارے انتظامات نہیں تھے، ہمارے پاس پی پی ای کٹس نہیں تھیں۔ ہم ویکسین کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جس طرح دنیا کے ان ممالک نے پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم سے ایک بہت بڑی ہتھیاروں کی طاقت بننے کی سمت تلاش کی، اسی طرح سائنسی پہلو سے بھارت کو بھی اسی ذہانت کے ساتھ کورونا کے اس دور میں ایک ویکسین تلاش کرنا ہو۔ باقی سامان بنانا ہو، ہر چیز میں پہلے کبھی نہیں ہوا، وہ سارے کام کر دیئے۔ میں مثال اس لیے دے رہا ہوں کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے، ایسا نہیں ہے جی، اور یہ بھی عقلمندی ہے یا نہیں ہے کہ دنیا میں دس لوگوں کے پاس جس طرح کے اوزار ہیں، وہی اوزار لے کر میں اپنے جوانوں کو میدان میں اتار دوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی صلاحیت اچھی ہو، تربیت اچھی ہو، تو شاید وہ اس اوزار کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکے گا۔ لیکن میں کب تک رسک مول لیتا رہوں گا؟ جو اوزار، جو ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہے، ویسا ہتھیارلے کر میرا نوجوان کیوں جائے گا َ؟اس کے پاس وہ ہوگا جو اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ سمجھو اس سے پہلے تو اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ یہ مزاج، یہ مزاج صرف فوجیوں کو تیار کرنے کے لئے نہیں، یہ مزاج اس کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے، اس بات پر بھی منحصر ہے اور اس لئے خود انحصار ہ بھارت، یہ صرف ایک معاشی سرگرمی نہیں ہے دوستوں اور اسی لیے ہمیں پوری طرح اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔
ساتھیو،
آزادی کے بعد پہلی ڈیڑھ دہائی میں ہم نے نئے کارخانے تو بنائے نہیں، پرانے کارخانے بھی اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوتی گئیں۔ 1962 کی جنگ کے بعد مجبوری کے تحت پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں ہوئیں اور اپنی ہتھیاروں فیکٹریوں کو بڑھانے پر کام شروع کر دیا۔ لیکن اس میں بھی تحقیق، اختراع اور ترقی پر زور نہیں دیا گیا۔ اس وقت دنیا نئی ٹیکنالوجی، نئی اختراعات کے لیے نجی شعبے پر انحصار کر رہی تھی، لیکن بدقسمتی سے دفاعی شعبے کو محدود سرکاری وسائل، سرکاری سوچ کے دائرے میں ہی رکھا گیا۔ میں گجرات سے آتا ہوں، احمد آباد کافی عرصے سے میرے کام کی جگہ ہے۔ کسی زمانے میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ گجرات میں آپ نے سمندر کے ساحل پر کام کیا ہوگا، بڑی چمنیوں اور ملوں کی صنعت تھی اور مینچسٹر آف انڈیا ں اس طرح کی اس کی پہچان ، کپڑے کے ایک شعبے میں بڑا نام تھا احمد آباد کا۔ کیا ہوا؟ کوئی اختراع نہیں، کوئی ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن نہیں، ٹیکنالوجی کی منتقلی نہیں۔ ایسی اونچی اونچی چمنیاں زمین بوس ہو گئی ہیں دوستو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔ اگر یہ ایک جگہ ہوتا ہے تو دوسری جگہ نہیں ہوگا، ایسا نہیں ہے۔ اور اسی لیےاختراع ایک مستقل ضرورت ہے اور وہ بھی دیسی بھی اختراع ہو سکتی ہے۔ بچاؤ مال سے تو کوئی اختراع ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمارے نوجوانوں کے لیے بیرون ملک موقع موجود ہیں لیکن اس وقت ملک میں موقع بہت محدود تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی جدید ترین فوجی طاقت رہی بھارتی فوج کو رائفل جیسے سادہ ہتھیار کے لیے بھی بیرونی ممالک پر انحصار کرنا پڑا۔ اور پھر عادت بن گئی، ایک بار موبائل فون کی عادت بن جائے، پھر کوئی کتنا ہی کہے کہ بھارت بہت اچھا ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے وہاں چھوڑ دو، ٹھیک رہے گا۔ اب عادت بن چکی ہے، اس عادت سے نکلنے کے لیے ایک طرح سے نفسیاتی سیمینار بھی کرنا پڑے گا۔ ساری پریشانی نفسیاتی ہے۔ جس طرح ہم نشے کے عادی افراد کو منشیات سے نجات دلانے کی تربیت دیتے ہیں، اسی طرح یہاں بھی یہ تربیت ضروری ہے۔ اگر ہمیں خود پر اعتماد ہے تو ہم اپنے ہاتھ میں موجود ہتھیار کی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں اور ہمارا ہتھیار وہ طاقت پیدا کر سکتا ہے دوستو۔
ساتھیو،
مشکل یہ بھی تھی کہ اس وقت دفاع سے متعلق بیشتر سودے سوالات کے گھیرےمیں تھے۔ ساری لابی ہے کہ اس کا لیا تو یہ لابی میدان میں اتر گئی، اگر لی تو یہ لابی اترتی تھی اور پھر سیاست دان کو گالی دینا ہمارے ملک میں بہت آسان کام ہو گیا ہے۔ پھر دو چار سال یہی بات چلتی رہی۔ نتیجتاً فوجوں کو جدید ہتھیاروں، آلات کے لیے دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔
ساتھیو،
دفاع سے متعلق ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لیے بیرونی ممالک پر انحصار ہمارے ملک کی عزت نفس، ہمارے معاشی نقصان کے ساتھ ہی حکمت عملی کی شکل بہت زیادہ سنگین خطرہ ہے۔ 2014 کے بعد ہم نے ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے مشن موڈ پر کام شروع کیا ہے۔ گزشتہ دہائیوں کے نقطہ نظر سے سیکھتے ہوئے، آج ہم اپنی تمام کوششوں کی طاقت سے ایک نیا دفاعی نظام تیار کر رہے ہیں۔ آج ڈیفنس آر اینڈ ڈی کو پرائیویٹ سیکٹر، اکیڈمی، ایم ایس ایم ای اور اسٹارٹ اپس کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی پبلک سیکٹر کی دفاعی کمپنیوں کو مختلف شعبوں میں منظم کرکے انہیں نئی طاقت دی ہے۔ آج ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ کس طرح ہم اپنے اہم اداروں جیسے آئی آئی ٹیز کو دفاعی تحقیق اور اختراع سے وابستہ کرتے ہیں۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری ٹیکنیکل یونیورسٹیوں یا ٹیکنیکل کالجوں یا انجینئرنگ کی دنیا میں، وہاں پڑھائے جانے والے کورسز سے متعلق دفاعی سازوسامان نہیں ہیں۔ مانگیں گے تو باہر سے ملیں گے، یہاں پڑھنے کی ضرورت کہاں ہے۔ یعنی صرف ایک دائرہ تبدیل ہوا تھا۔ ہم نے اس میں تبدیلی لانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ ڈی آر ڈی او اور اسرو کی جدید ترین جانچ کی سہولیات کے ساتھ ہمارے نوجوانوں اور اسٹارٹ اپس کو زیادہ سے زیادہ طاقت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم نے میزائل سسٹم، آبدوزوں، تیجس لڑاکا طیاروں جیسے مختلف آلات کو تیز کرنے کے لیے حدوں کو دور کیا، جو اپنے اہداف سے کئی سال پیچھے چل رہے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک کے پہلے مقامی ساختہ طیارہ بردار بحری جہاز کے شروع ہونے کا انتظار بھی بہت جلد ختم ہونے والا ہے۔بحری اختراع اور ملک میں ہی ساز و سامان تیار کرنے سے متعلق تنظیم ہو، آئیڈیکس ہو یا پھر ٹی ڈی اے سی ہو یا سبھی خود انحصاری کے ایسے ہی زبردست عزم کو رفتار دینے والے ہوں۔
ساتھیو،
گزشتہ 8 سالوں میں ہم نے نہ صرف دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے بلکہ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ یہ بجٹ ملک میں دفاعی مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کی ترقی میں کارآمد ہو۔ آج دفاعی ساز و سامان کی خریداری کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ بھارتی کمپنیوں سے خریداری میں خرچ ہو رہا ہے۔ اور ہم یہ بات مان لیتے ہیں، آپ میں خاندان کے تمام افراد موجود ہیں، آپ خاندان کی دنیا کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں۔ اگر آپ گھر میں اپنے بچے کو عزت اور پیار نہیں دیں گے اور مقامی لوگ آپ کے بچے سے پیار کریں گے تو ایسا کیا ہو گا؟ تم اسے روز بیکار کہتے رہو گے اور تم چاہتے ہو کہ پڑوسی اسے اچھا کہے، یہ کیسے ہو گا؟ ہم اپنے ہتھیاروں کے پرودکشن کا احترام نہیں کریں گے اور ہم چاہیں گے کہ دنیا ہمارے ہتھیاروں کا احترام کرے، پھر یہ ممکن نہیں ہے، ہمیں اپنے آپ سے آغاز کرنا ہوگا۔ اور برہموس اس کی ایک مثال ہے، جب بھارت نے برہموس کو گلے لگایا تھا، آج دنیا برہموس کو گلے لگانے کے لیے ایک قطار میں کھڑی ہے، دوستو۔ ہمیں اپنی تخلیق کردہ ہر چیز پر فخر ہونا چاہیے۔ اور میں ہندوستانی افواج کو مبارکباد دوں گا کہ انہوں نے 300 سے زائد ہتھیاروں، آلات کی فہرست بنائی ہے، جو بھارت میں بنیں گے اور ہماری افواج استعمال کریں گی، ہم وہ چیزیں باہر سے نہیں لیں گے۔ میں تینوں خدمات کے تمام ساتھیوں کو اس فیصلے کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ایسی کوششوں کے نتائج اب نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ 4-5 سالوں میں ہماری دفاعی درآمدات میں تقریباً 21 فیصد کمی آئی ہے۔ اتنے کم وقت میں اور یہ نہیں کہ ہم نے پیسے بچانے کے لیے کم کیا ہے، ہم نے اس کا متبادل یہاں دیا ہے۔ آج ہم سب سے بڑے دفاعی درآمد کنندہ سے بڑے برآمد کنندہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایپل اور اوروں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن میں بھارت کےدل کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ میں بھارت کے لوگوں کی طاقت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔ اس کورونا کے دور میں، میں نے ایک ایسا موضوع اٹھایا تھا، یہ بہت ہلکا موضوع تھا کہ کورونا کے دور میں، میں ایسی باتیں نہیں کرنا چاہتا کہ اس بحران میں ملک پر بڑا بوجھ پڑ جائے۔ اب اسی لیے میں نے کہا دیکھو بھائی ہم باہر سے کھلونے کیوں لیتے ہیں؟ چھوٹا سا موضوع، باہر سے کھلونے کیوں لیتے ہیں؟ ہمارے کھلونوں کے یہاں ہم کیوں نہیں جاتے؟ ہم اپنے کھلونے دنیا کو کیوں نہیں بیچ سکتے؟ ہمارے کھلونوں کے پیچھے، کھلونا بنانے والے کے پیچھے ہماری ثقافتی روایت کی سوچ تھی، جس سے وہ کھلونے بناتا ہے۔ ایک ٹریننگ ہے، ایک چھوٹی سی بات ہوئی، چند سیمینارز، ایک ورچوئل کانفرنس، انہیں تھوڑا پرجوش کیا۔ آپ حیران رہ جائیں گے، اتنے کم وقت میں میرے ملک کی طاقت دیکھیں، میرے ملک کی عزت نفس دیکھیں، میرے عام شہری کے ذہن کی خواہش دیکھیں، صاحب، بچے دوسروں کو فون کرکے کہتے تھے کہ تمہارے گھر میں کوئی غیر ملکی کھلونا تو نہیں ہے۔ آپ کے گھر میں کھلونا، ٹھیک ہے؟ کورونا کے اندر سے آنے والی پریشانیوں میں سے یہ احساس ان کے اندر بیدار ہوا۔ ایک بچہ دوسرے بچے کو فون کرکے کہتا تھا کہ تم اپنے گھر میں غیر ملکی کھلونے نہیں رکھتے؟ اور نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ملک میں کھلونوں کی درآمد میں دو سال کے اندر 70 فیصد کمی آئی۔ یہ کیسا معاشرہ ہے، قدرت کی طاقت دیکھیں اور یہ ہمارے ملک میں کھلونا بنانے والوں کی طاقت ہے کہ ہماری برآمدات میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی کھلونوں میں 114 فیصد کا فرق آیا ہے۔ میرا کہنے کا مطلب ہے، میں جانتا ہوں کہ کھلونے آپ کے پاس موجود کھلونوں سے موازنہ نہیں کر سکتے۔ اسی لیے میں نے کہا کہ ایپل اور اوروں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں بھارت کے عام انسان کی دماغی طاقت کا موازنہ کر رہا ہوں اور وہ طاقت کھلوے والوں کے کام آ سکتی ہے۔ وہ طاقت میرے ملک کی فوجی طاقت کے لیے بھی کارآمد ہو سکتی ہے۔ ہمیں اپنے ہم وطنوں پر یہ بھروسہ رکھنا چاہیے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ہماری دفاعی برآمدات میں 7 گنا اضافہ ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہر ملک کا دل فخر سے لبریز ہو گیا جب اسے معلوم ہوا کہ پچھلے سال ہم نے 13 ہزار کروڑ روپے کا دفاعی سامان برآمد کیا ہے۔ اور اس میں بھی 70 فیصد حصہ داری ہمارے نجی شعبے کی ہے۔
ساتھیو،
21ویں صدی میں فوج کی جدیدیت، دفاعی ساز و سامان میں خود انحصاری کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب ملکی سلامتی کو لاحق خطرات بھی پھیل چکے ہیں اور جنگ کے طریقے بھی بدل رہے ہیں۔ پہلے ہم اپنے دفاع کا تصور زمین، سمندر اور آسمان تک کرتے تھے۔ اب یہ دائرہ خلا کی طرف بڑھ رہا ہے، سائبر اسپیس کی طرف بڑھ رہا ہے، اقتصادی اور سماجی خلا کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج ہر قسم کے نظام کو ہتھیار میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی نایاب زمین ہے تو اسے ہتھیار میں تبدیل کریں، اگر خام تیل ہے تو اسے ہتھیار میں تبدیل کریں۔ یعنی پوری دنیا کے رویے اور طریقے بدل رہے ہیں۔ اب ون آن ون لڑائی سے زیادہ، لڑائی پوشیدہ، زیادہ جان لیوا ہوتی جا رہی ہے۔ اب ہم صرف اپنے ماضی کو ذہن میں رکھ کر اپنی دفاعی پالیسی اور حکمت عملی نہیں بنا سکتے۔ اب ہمیں مستقبل کے چیلنجز کا اندازہ لگا کر ہی آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں اپنے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے، کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں، ہمارا مستقبل کیا ہو گا، اس کے مطابق خود کو بدلنا ہو گا۔ اور اس میں آپ کا خود انحصاری کا ہدف بھی ملک کو بہت مدد دینے والا ہے۔
ساتھیو،
ملک کی حفاظت کے لیے ہمیں ایک اور اہم پہلو پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں بھارت کے خود اعتمادی، اپنی خود انحصاری کو چیلنج کرنے والی قوتوں کے خلاف اپنی جنگ کو بھی تیز کرنا ہوگا۔ جیسے جیسے بھارت عالمی سطح پر خود کو قائم کر رہا ہے، گمراہ کن معلومات، ، غلط معلومات اور غلط پروپیگنڈے کے ذریعہ مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کو بھی ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہوئے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی طاقتیں چاہے ملک میں ہوں یا بیرون ملک، ان کی ہر کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ قومی دفاع اب سرحدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے ہر شہری کو اس سے آگاہ کرنا بھی یکساں ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ نعرہ ہمارے ملک کے عوام تک پہنچے۔ جس طرح ہم خود کفیل بھارت کے لیے پورے حکومتی نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اسی طرح ملک کے دفاع کے لیے پوری قوم کا نقطہ نظر وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت کے مختلف لوگوں کا یہ اجتماعی قومی شعور سلامتی اور خوشحالی کی مضبوط بنیاد ہے۔ اس اقدام کے لیے ایک بار پھر، میں وزارت دفاع، ہماری دفاعی افواج، ان کی قیادت کو آگے بڑھنے کی کوششوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ آج جب میں کچھ اسٹالز کا دورہ کر رہا تھا اور آپ کی تمام اختراعات دیکھ رہا تھا، تو ہمارے ریٹائرڈ بحریہ کے ساتھیوں نے اپنا تجربہ، اپنی توانائی، اپنا وقت اس اختراعی کام میں لگائیں تاکہ ہماری بحریہ مضبوط ہو، ہماری دفاعی قوتیں مضبوط ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہترین کاوش ہے، اس کے لیے جن لوگوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مشن موڈ میں کام کیا ہے، میں انہیں خاص طور پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان سب کو عزت دینے کے لیے انتظامات جاری ہیں، اسی لیے آپ سب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بہت شکریہ! بہت بہت نیک خواہشات۔س