نئی دہلی۔ 10 جولائی گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوورت جی،گجرات کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ، جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، حکومت گجرات کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اوراراکین اسمبلی ، سورت کے میئر اور ضلع پریشد کے صدر، سبھی موجود سرپنچ، شعبہ زراعت کے ماہر ین ساتھیوں اور بھارتیہ جنتا پارٹی ، گجرات کے صدر جناب سی آر پاٹل اور میرے تمام پیارے کسان بھائیو اور بہنو!
چند مہینے پہلے، گجرات میں قدرتی کاشتکاری کے موضوع پر ایک قومی کانکلیو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس انعقاد میں ملک بھر کے کسان شامل تھے۔ کہ ملک میں قدرتی کھیتی کے حوالے سے کتنی بڑی مہم چل رہی ہے اس کی یہ ایک جھلک تھی ۔ آج ایک بار پھر سورت میں یہ اہم پروگرام کا انعقاد اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح گجرات ملک کے امرت عزائم کو تحریک دے رہا ہے۔ ہر گرام پنچایت میں 75 کسانوں کو قدرتی کھیتی سے جوڑنے کے مشن میں سورت کی کامیابی پورے ملک کے لیے ایک مثال بننے والی ہے اور اس کے لیے سورت کے لوگوں کا خیر مقدم کرتا ہوں، سورت کے کسانوں کا خیر مقدم کرتا ہوں، حکومت کے تمام ساتھیوں کا استقبال کرتا ہوں۔
’قدرتی زراعت کانفرنس‘ کے اس موقع پر، میں اس مہم میں شامل ہر فرد کو، اپنے تمام کسان ساتھیوں کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ جن کسان ساتھیوں کو ،سرپنچ ساتھیوں کو آج اعزاز سے نوازا گیا ، میں انہیں بھی دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر کسانوں کے ساتھ ساتھ سرپنچوں کے کردار کی بھی بہت ستائش کرتا ہوں۔ انہوں نے یہ پہل کی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے تمام سرپنچ بھائیوں اور بہنیں یکساں طور پر ستائش کے مستحق ہیں۔ کسان تو ہے ہی۔
ساتھیوں،
آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے بعد ملک نے ایسے متعدد اہداف پر کام شروع کر دیا ہے، جو آنے والے وقت میں بڑی تبدیلیوں کی بنیاد بنیں گے۔ امرت کال میں ملک کی ترقی و پیشرفت کی بنیاد سب کی کاوش کا جذبہ ہے جو ہمارے اس ترقی کے سفر کو آگے بڑھا رہا ہے۔ خاص طور پر گاوں کے غریبوں اور کسانوں کے لیے جو بھی کام ہو رہے ہیں ان کی قیادت بھی ہم وطنوں اور گاؤں کی پنچایتوں کو دی گئی ہے۔ میں گجرات میں قدرتی کھیتی کے اس مشن کو مسلسل قریب سے دیکھ رہا ہوں۔ اور اس کی پیشرفت کو دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہےاور خاص طور پر کسان بھائیوں اور بہنوں نے اس بات کو اپنے ذہن میں اتار لیا ہے اور دل سے اپنا لیا ہے، اس سے بہتر کوئی اورواقعہ نہیں ہو سکتاہے۔ سورت کے ہر گاؤں پنچایت سے 75 کسانوں کو منتخب کرنے کے لیے گاؤں کی کمیٹیاں، تعلقہ کمیٹیاں اور ضلعی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ گاؤں کی سطح پر ٹیمیں بنائی گئیں، ٹیم لیڈر بنائے گئے، نوڈل افسروں کو تعلقہ میں ذمہ داری دی گئی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس دوران باقاعدہ تربیتی پروگرام اور ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اور آج اتنے کم وقت میں 550 سے زیادہ پنچایتوں سے 40 ہزار سے زیادہ کسان قدرتی کھیتی کے مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔ یعنی ایک چھوٹے سے علاقے میں اتنا بڑا کام، یہ بہت اچھی شروعات ہے۔ یہ ایک حوصلہ افزا آغاز ہے اور یہ ہر کسان کے دل میں اعتماد کا احساس پیدا کرتا ہے۔ آنے والے وقت میں پورے ملک کے کسان آپ سب کی کوششوں سے، آپ سب کے تجربات سے بہت کچھ جانیں گے، سمجھیں گے، سیکھیں گے۔ سورت سے نکلنے والی قدرتی زراعت کا ماڈل بھی پورے ہندوستان کے لیے نمونہ بن سکتا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
جب اہل وطن خود ہی کسی مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہو جائیں تو اس مقصد کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیں کبھی تھکن کا احساس ہوتا ہے۔ جب بڑے سے بڑا کام عوامی شراکت کی طاقت سے کیا جاتا ہے تو اس کی کامیابی ملک کے عوام بذات خود یقینی بناتے ہیں۔ جل جیون مشن کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ گاؤں گاؤں صاف پانی فراہم کرنے کے لیے اتنے بڑے مشن کی ذمہ داری ملک کے گاؤں اور گاؤں کے لوگ، گاؤں میں بنی پانی کمیٹیاں یہی لوگ تو سنبھال رہے ہیں۔ سوچھ بھارت جیسی اتنی بڑی مہم کی کامیابی، جس کی آج تمام عالمی تنظیمیں ستائش کر رہی ہیں، اس کا بھی بڑا سہرا ہمارے گاؤں کے سر ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل انڈیا مشن کی غیر معمولی کامیابی بھی ان لوگوں کو ملک کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ گاؤں میں تبدیلی لانا آسان نہیں ہے۔ لوگوں نے اپنا ذہن بنا لیا تھا بھائی، انہیں گاؤں میں توایسے ہی رہنا ہے، ایسے ہی گزر بسر کرنا ہے۔ گاؤں میں کوئی تبدیلی آ ہی نہیں سکتی ہے، یہ تصور کر کے بیٹھے تھے۔ ہمارے گاؤں نے دکھایا ہے کہ گاؤں نہ صرف تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ تبدیلی کی قیادت بھی کر سکتے ہیں۔ قدرتی کھیتی کے حوالے سے ملک کی یہ عوامی تحریک آنے والے سالوں میں بھی بڑے پیمانے پر کامیاب ہوگی۔ جو کسان اس تبدیلی میں جتنی جلدی شامل ہوں گے، وہ اتنی ہی زیادہ کامیابی کی چوٹی پر پہنچیں گے۔
ساتھیوں،
ہماری زندگی، ہماری صحت، ہمارا معاشرہ ہمارے زرعی نظام کی بنیاد ہے۔اپنے یہاں کہتے ہیں جیسی غذا ، ویسی طبیعت۔ ہندوستان فطرت اور ثقافت کے اعتبار سے زراعت پر مبنی ملک رہا ہے۔ اس لیے جیسے جیسے ہمارا کسان ترقی کرے گا، جیسے جیسے ہماری زراعت ترقی کرے گی ، ویسےویسے ہمارا ملک بھی ترقی کرے گا۔ اس پروگرام کے ذریعہ میں ملک کے کسانوں کو ایک اور بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ قدرتی کاشتکاری معاشی کامیابی کا ایک ذریعہ بھی ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہماری ماں، ہماری ماں دھرتی، ہمارے لیےتو یہ دھرتی ماں، جس کی ہم ہر روز پوجا کرتے ہیں، صبح بستر سے اٹھ کر پہلے دھرتی ماں سے معافی مانگتے ہیں، یہ ہمارے سنسکار ہیں۔ یہ دھرتی ماں اور دھرتی ماں کی خدمت کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے۔ آج، جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ زراعت اور اس سے متعلقہ مصنوعات سے کاشتکاری کے لیے ضروری وسائل جمع کرتے ہیں۔ آپ گائے اور مویشیوں سے 'جیوامرت' اور 'گھن جیوامرت' تیار کرتے ہیں۔ اس سے کاشتکاری کی لاگت کم ہوتی ہے۔ خرچ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مویشیوں سے آمدنی کے اضافی ذرائع بھی کھلتے ہیں۔ ان مویشیوں کو پہلے جس سے آمدنی سے حاصل ہو رہی تھی ، اس سے اندر ہی اندر آمدن بڑھتی ہے۔ اسی طرح، جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ دھرتی ماتا کی خدمت کرتے ہیں، مٹی کے معیار، زمین کی صحت، اس کی پیداواری صلاحیت کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب آپ قدرتی کاشتکاری کرتے ہیں، تو آپ فطرت اور ماحول کی بھی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ قدرتی کھیتی میں شامل ہوتے ہیں، تو آپ کو آسانی سے گائے ماں کی خدمت کرنے کی سعادت مل جاتی ہے، آپ کو ذی روح کی خدمت کی سعادت بھی ملتی ہے۔ اب مجھے بتایا گیا کہ سورت میں 40-45 گوشالوں کو ٹھیکہ دے کر گائے جیوامرت تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔ سوچیں اس سے کتنی گایوں کی خدمت کی جائے گی۔ اس سب کے ساتھ قدرتی کھیتی سے پیدا کیا جانے والا اناج ، جو لاکھوں لوگوں کا پیٹ پالتی ہے، وہ جراثیم کش ادویات اور کیمیکلز سے ہونے والی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ صحت مندی کا یہ فائدہ کروڑوں لوگوں کو ملتا ہے، اور یہاں ہم نے خوراک سے صحت کا براہ راست تعلق تسلیم کیا ہے۔ آپ کے جسم کی صحت اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس قسم کی خوراک کھاتے ہیں۔
ساتھیوں،
زندگی کا یہ تحفظ ہمیں خدمت اور نیکی کے بے شمار مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا، قدرتی کاشتکاری نہ صرف انفرادی خوشحالی کا راستہ کھولتی ہے، بلکہ یہ 'سروے بھونتو سکھینہ، سرو سنتو نرمایہ' کے اس جذبے کو بھی مجسم کرتی ہے۔
ساتھیوں،
آج پوری دنیا ’پائیدار طرز زندگی ‘کی بات کر رہی ہے، خالص کھانے پینے کی بات کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں ہندوستان کے پاس ہزاروں سال کا علم اور تجربہ ہے۔ ہم نے صدیوں تک اس سمت میں دنیا کی قیادت کی ہے۔ اس لیے آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم قدرتی کاشتکاری جیسی مہمات میں آگے بڑھ کر زراعت سے متعلق عالمی امکانات کے کام سبھی تک اس کا فائدہ پہنچائیں۔ ملک گزشتہ آٹھ سالوں سے اس سمت میں سنجیدگی سے کام کر رہا ہے۔ آج کسانوں کو ’روایتی زرعی ترقی یوجنا‘اور’ہندوستانی زرعی نظام‘جیسے پروگراموں کے ذریعہ آج کسانوں کو وسائل، سہولیات اور مدد دی جا رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت ملک میں 30 ہزار کلسٹر بنائے گئے ہیں، لاکھوں کسان اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ’روایتی زرعی ترقی یوجنا‘کے تحت ملک میں تقریباً 10 لاکھ ہیکٹر اراضی کا احاطہ کیا جائے گا۔ قدرتی کاشتکاری کے ثقافتی، سماجی اور ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم نے اسے نمامی گنگے پروجیکٹ سے بھی جوڑا ہے۔ قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے آج ملک میں گنگا کے کنارے ایک الگ مہم چلائی جا رہی ہے، راہداری بنائی جا رہی ہے۔ مارکیٹ میں قدرتی کھیتی کی پیداوار کی الگ سے مانگ ہوتی ہے، اس کی قیمت بھی زیادہ ملتی ہے۔ ابھی میں داہود آیا تھا، تو میں نے داہود میں مجھے اپنی قبائلی بہنوں سے ملاقات ہوئی تھی اور وہ قدرتی کاشتکاری کرتی ہیں اور انہوں نے کہا کہ ہمارا آرڈر تو ایک مہینہ پہلے بک ہوجاتا ہے۔ اور ہمارے ہاں جو سبزیاں روزانہ ہوتی ہیں، وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر گنگا کے آس پاس پانچ پانچ کلومیٹر تک قدرتی کھیتی کی مہم شروع کی گئی ہے۔ تاکہ کیمیکل دریا میں نہ جائے، پینے میں بھی کیمیکل والا پانی پیٹ میں نہ جائے۔ مستقبل میں، ہم یہ تمام تجربات تاپی کے دونوں طرف، ماں نرمدا کے دونوں طرف کر سکتے ہیں۔ اور اس لیے قدرتی کاشتکاری کی پیداوار کو سرٹیفائی کرنے کے لیے، کیونکہ اس سے جو پیداوار ہوگی ، اس کی خصوصیت ہونی چاہیے، اس کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور اس کے لیے کسانوں کو زیادہ رقم ملنی چاہیے، اس لیے ہم نے اس کی تصدیق کے لیے انتظامات کیے ہیں۔ اس کی تصدیق کے لیے کوالٹی ایشورنس کا نظام بھی بنایا گیا ہے۔ ہمارے کسان ایسی تصدیق شدہ فصلیں اچھی قیمت پر برآمد کر رہے ہیں۔ آج کیمیکل سے پاک مصنوعات عالمی منڈی میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ ہمیں اس کا فائدہ ملک کے زیادہ سے زیادہ کسانوں تک پہنچانا ہے۔
ساتھیوں،
حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اس سمت میں اپنے قدیم علم کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔ ہمارے یہاں ویدوں سے لے کر کرشی گرنتھوں اور کوٹلیہ، وراہ میہر جیسے دانشوروں تک ، قدرتی کھیتی سے وابستہ علم کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ آچاریہ دیوورت جی ہمارے درمیان ہیں، وہ بھی اس موضوع کے بارے میں بہت زیادہ علم رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا منتر بنایا ہے، خود بھی بہت تجربہ کرکے کامیابی حاصل کی ہے اور اب اس کامیابی کا فائدہ گجرات کے کسانوں کو ملے ، اس لیے وہ ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ لیکن ساتھیو، جتنا میں جانتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے شاستر سے لے کر عوامی معلومات تک ، عوامی بولی میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، اس سے اتنے گہرے دھاگے پوشیدہ ہیں۔ میری جانکاری کے مطابق اپنے یہاں گھاگھ اور بھڈری جیسے دانشوروں نے زراعت کے منتر عام لوگوں کے لیے آسان زبان میں دستیاب کرائے ہیں۔ جیسا کہ ایک کہاوت ہے، اب ہر کسان اس کہاوت کو جانتا ہے یعنی 'گوبر وغیرہ اور نیم کی کیک اگر کھیت میں ڈالی جائے تو فصل دوگنی ہوگی۔ اسی طرح ایک اور مشہور کہانی ہے، جملہ ہے- ’چھوڑے کھاد جوت گہرائی، پھر کھیتی کا مزہ دکھائی‘ یعنی کھیت میں کھاد چھوڑ کر پھر ہل چلانے سے کھیتی باڑی کا مزہ نظر آتا ہے، اس کی طاقت معلوم ہوتی ہے۔ میں چاہوں گا کہ جو تنظیمیں، غیر سرکاری ادارے اور ماہرین یہاں بیٹھے ہیں، وہ اس طرف توجہ دیں۔ کھلے ذہن کے ساتھ ایک بار اپنے تصورات پر نظر ثانی کریں۔ اس پرانے تجربے سے کیا نکل سکتا ہے، میری سائنسدانوں سے خصوصی درخواست ہے کہ ہمت کر کے آگے آئیں۔ ہمیں اپنے دستیاب وسائل کی بنیاد پر نئی تحقیق کرنی چاہیے، اپنے کسان کو کیسے مضبوط بنایا جائے، اپنی زراعت کو کیسے اچھا بنایا جائے، اپنی دھرتی ماں کو کیسے محفوظ رکھا جائے، اس کے لیے ہمارے سائنسدان ، ہمارے تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے آگے آئیں۔ یہ سب چیزیں وقت کے مطابق کسانوں تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہیں، لیبارٹری میں تسلیم شدہ سائنس کسان کی زبان میں کسان تک کیسے پہنچائی جا سکتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قدرتی کھیتی کے ذریعہ ملک نے شروعات کی ہے ، اس سے نہ صرف کسانوں کی زندگی خوشحال ہوگی بلکہ ایک نئے ہندوستان کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ میں کاشی کے علاقے سے لوک سبھا کا ممبر ہوں، اس لیے جب بھی مجھے کاشی کے کسانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، بات چیت ہوتی ہے، مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے کاشی کے کسان قدرتی کھیتی کے حوالے سے کافی معلومات اکٹھا کرتے ہیں، وہ تجربہ کرتے ہیں۔ خود دن رات محنت کرتے ہیں اور انہیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ اب جو پیداوار انہوں نے تیار کی ہے وہ عالمی منڈی میں فروخت ہونے کے لیے تیار ہے اور اسی لیے میں چاہوں گا اور سورت تو ایسا ہے، شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہو گا جہاں لوگ بیرون ملک نہ ہوں۔ سورج کی بھی ایک خاص پہچان ہے اور اس لیے سورت کی پہل، یہ اپنے آپ میں جگمگا اٹھے گی۔
ساتھیوں،
آپ نے جو مہم چلائی ہے وہ ہر گاؤں میں 75 کسان اور مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر آج آپ نے 75 کا ہدف مقرر کیا ہے تو ہر گاؤں میں 750 کسان تیار ہوجائیں گے اور ایک بار جب پورا ضلع اس کام کے لیے تیار ہو جائے گا تودنیا کے جو خریدار ہیں وہ ہمیشہ آپ کے پاس پتہ ڈھونڈتے ہوئے آئیں گے کہ یہاں کوئی کیمیکل نہیں ہے، کوئی دوائیاں نہیں ہیں، سادہ قدرتی مصنوعات ہیں، تو لوگ اپنی صحت کے لیے دو پیسے زیادہ دے کر یہ سامان لیں گے۔ سورت شہر میں تمام سبزیاں اپنی جگہ سے جاتی ہیں، اگر سورت شہر کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کی سبزی قدرتی کھیتی کی ہے، تو مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے سورتی لوگ اس بار کی پیداوار تو اسی بار کا اوندھیو آپ کی قدرتی کھیتی کی سبزی میں سے ہی بنائیں گے۔ اور پھر سورت کے لوگ بورڈ لگائیں گے، قدرتی کھیتی کی سبزی والی اوندھیو۔ آپ دیکھیں گے اس علاقے میں ایک مارکیٹ بن رہی ہے۔ سورت کی اپنی طاقت ہے، سورت کے لوگ جس طرح ہیروں کو تیل لگاتے ہیں ، ویسے اس کو تیل لگائیں گے۔ سورت میں چل رہی اس مہم کا فائدہ اٹھانے کے لیے سب لوگ آگے آئیں گے۔ آپ سب کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا، اتنی اچھی مہم شروع کی ہے، میں اس کے لیے آپ سب کو دوبارہ مبارکباد دیتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔
بہت بہت مبارک ہو