گجرات کے مقبول وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب بھوپندر یادو جی، جناب اشونی چوبے جی، ریاستوں سے تشریف لائے تمام معزز وزراء، مرکزی اور ریاستی حکومت کے تمام اہلکار، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
آپ سبھی کا اس قومی کانفرنس میں اور خاص کر ایکتا نگر میں استقبال ہے، خیر مقدم ہے۔ ایکتا نگر میں یہ قومی کانفرنس اپنے آپ میں، میں اہم ما نتا ہوں۔ اگر ہم جنگل کی بات کریں، ہماری آدیواسی بھائی بہنوں کی بات کریں، ہم وائلڈ لائف کی بات کریں، ہم آبی تحفظ کی بات کریں، ہم ٹورزم کی بات کریں، ہم قدرت اور ماحولیات اور ترقی، اس طرح سے ایکتا نگر اس کا جو ہولسٹک ڈیولپمنٹ ہوا ہے، وہ اپنے آپ میں یہ پیغام دیتا ہے، اعتماد پیدا کرتا ہے کہ جنگل اور ماحولیات کے شعبے کے لیے آج ایکتا نگر ایک تیرتھ علاقہ بن گیا ہے۔ آپ بھی اسی علاقے سے جڑے ہوئے وزیر اور افسر آئے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایکتا نگر میں جتنا بھی وقت آپ گزاریں، ان باریکیوں کو ضرور آبزرو کریں، جس میں ماحولیات کے تئیں، ہمارے آدیواسی سماج کے تئیں، ہمارے وائلڈ لائف کے تئیں کتنی حساسیت کے ساتھ کام کیا گیا ہے، تعمیراتی کام ہوا ہے اور مستقبل میں ملک کے متعدد کونے میں جنگل و ماحولیات کا تحفظ کرتے ہوئے ترقی کی راہ پر تیز رفتار سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس کا بہت کچھ دیکھنے سمجھنے کو یہاں ملے گا۔
ساتھیوں،
ہم ایک ایسے وقت میں مل رہے ہیں جب بھارت اگلے 25 برسوں کے امرت کال کے لیے نئے ہدف طے کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے، آپ کی کوششوں سے ماحولیات کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی اور بھارت کی ترقی بھی اتنی ہی رفتار سے ہوگی۔
ساتھیوں،
آج کا نیا بھارت، نئی سوچ، نئے اپروچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ آج بھارت تیزی سے ترقی کرتی معیشت بھی ہے، اور مسلسل اپنی ایکولوجی کو بھی مضبوط کر رہا ہے۔ ہمارے فاریسٹ کور میں اضافہ ہوا ہے اور ویٹ لینڈز کا دائرہ بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہم نے دنیا کو دکھایا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے معاملے میں ہماری اسپیڈ اور ہمارا اسکیل شاید ہی کوئی اس کو میچ کر سکتا ہے۔ انٹرنیشنل سولر الائنس ہو، کولیشن فار ڈیزاسٹر ریزیلئنٹ انفراسٹرکچر ہو، یا پھر لائف موومنٹ، بڑی چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے بھارت آج دنیا کو قیادت فراہم کر رہا ہے۔ اپنے کمٹمنٹ کو پورا کرنے کے ہمارے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے ہی دنیا آج بھارت کے ساتھ جڑ بھی رہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں شیروں، باگھوں، ہاتھیوں، ایک سینگ کے گینڈوں اور تیندوؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جیسے ابھی بھوپندر بھائی بتا رہے تھے، کچھ دن پہلے مدھیہ پردیش میں چیتا کی گھر واپسی سے ایک نیا جوش لوٹا ہے۔ ہم ہندوستانیوں کی رگوں میں، جانداروں کے تئیں رحم اور قدرت سے محبت کے آداب کیسے ہیں، وہ چیتا کے استقبال میں ملک جس طرح سے جھوم اٹھا تھا۔ ہندوستان کے ہر کونے میں ایسا لگ رہا تھا، جیسا ان کے اپنے گھر میں کوئی عزیز مہمان آیا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی ایک طاقت ہے۔ قدرت کے ساتھ توازن قائم کرنے کی جو یہ کوشش ہے اسے ہم لگاتار جاری رکھیں۔ آنے والی نسلوں کو بھی اخلاقیات کا درس دیتے رہیں۔ اسی عزم کے ساتھ بھارت نے 2070 یعنی ابھی ہمارے پاس تقریباً 5 دہائیاں ہیں، نیٹ زیرو کا ٹارگٹ رکھا ہے۔ اب ملک کا فوکس گرین گروتھ پر ہے اور جب گرین گروتھ کی بات کرتے ہیں، تو گرین جابس کے لیے بھی بہت سے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اور ان سبھی اہداف کے حصول کے لیے، ہر ریاست کی وزارت ماحولیات کا رول بہت بڑا ہے۔
ساتھیوں،
وزارت ماحولیات، چاہے جس کسی ریاست میں ہو یا مرکز میں ہو، ان کی ذمہ داریوں کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ اسے محدود دائرے میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ہمارے نظام میں ایک سوچ یہ حاوی ہوتی چلی گئی کہ وزارت ماحولیات کا رول، ریگولیٹر کے طور پر زیادہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں، وزارت ماحولیات کا کام، ریگولیٹر سے بھی زیادہ، ماحولیات کو ترغیب دینے کا ہے۔ ہر وہ کام، جس سے ماحولیات کی حفاظت ہو رہی ہو، اس میں آپ کی وزارت کا رول بہت بڑا ہے۔ اب جیسے سرکولر اکنامی کا موضوع ہے۔ سرکولر اکنامی ہماری روایت کا حصہ رہی ہے۔ بھارت کے لوگوں کو سرکولر اکنامی سکھانی پڑے، ایسا نہیں ہے۔ ہم کبھی قدرت کا استحصال کرنے والے نہیں رہے، ہمیشہ قدرت کو تقویت پہنچاتے رہے ہیں۔ ہم جب چھوٹے تھے تب ہم کو بتایا جاتا تھا کہ مہاتما گاندھی جب پچھلی صدی کے شروع میں سابرمتی آشرم میں رہتے تھے اور اس زمانے میں تو سابرمتی ندی لبالب بھری رہتی تھی، بھرپور پانی رہتا تھا۔ اس کے باوجود بھی، اگر کسی کو گاندھی جی نے دیکھ لیا کہ پانی کو برباد کر رہا ہے تو گاندھی جی اسے ٹوکے بنا رہتے نہیں تھے۔ اتنا پانی سامنے ہوتا تھا پھر بھی پانی برباد نہیں ہونے دیتے تھے۔ آج کتنے ہی گھروں میں آپ میں سے شاید ہر کسی کو پتہ ہوگا، ہر ایک کے گھر میں ہوگا، کئی گھر ایسے ہیں کپڑے ہوں، اخبار ہوں اور بھی چھوٹی موٹی چیزیں ہوں، ہر چیز کو ہمارے یہاں ری یوز کیا جاتا ہے، ری سائیکل کیا جاتا ہے اور جب تک وہ پوری طرح ختم نہ ہو جائے تب تک ہم استعمال کرتے رہتے ہیں، اپنی فیملی کی وہ تہذیب ہے۔ اور یہ کوئی کنجوسی نہیں ہے، یہ قدرت کے تئیں بیداری ہے، حساسیت ہے۔ یہ کوئی کنجوسی کے سبب لوگ ایک ہی چیز دس بار استعمال کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ یہ سبھی ہمارے جو وزرائے ماحولیات آج آئے ہیں، میں ان سے گزارش کروں گا کہ آپ بھی اپنی ریاستوں میں سرکولر اکنامی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔ اگر اسکول میں بھی بچوں کو کہا جائے کہ بھائی آپ اپنے گھر میں سرکولر اکنامی کے نظریہ سے کیا ہو رہا ہے، ذرا ڈھونڈ کے لے آؤ، ہر بچہ ڈھونڈ کے لے آئے گا۔ شعور آئے گا کس کو سرکولر اکنامی کہتے ہیں اور اس سے ٹھوس کچرے کے انتظام اور سنگل یوز پلاسٹک سے آزادی کی ہماری مہم کو بھی طاقت ملے گی۔ اس کے لیے ہمیں پنچایتوں، مقامی اداروں، سیلف ہیلپ گروپس وہاں سے لے کر ایم ایس ایم ای تک کو آمادہ کرنا چاہیے۔ ان کو سمت دینی چاہیے، ان کو گائڈ لائن دینی چاہیے۔
ساتھیوں،
سرکولر اکنامی کو رفتار دینے کے لیے اب پچھلے سال ہماری سرکار نے، اپنی بھارت سرکار نے ویہکل اسکریپنگ پالیسی بھی لاگو کی ہے۔ اب کیا ریاستوں میں یہ ویہکل اسکریپنگ پالیسی کا فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی روڈ میپ بنا کیا۔ اس کے لیے جو پرائیویٹ پارٹیوں کا انویسٹمنٹ چاہیے، ان کو زمین چاہیے تاکہ اسکریپنگ کو نافذ کرنے میں کام آئے۔ اسی طرح سے جیسے میں نے حکومت ہند کو اطلاع دی کہ اسکریپنگ پالیسی کو ہمیں بہت رفتار عطا کرنی ہے تو ہمیں پہلے حکومت ہند کے جتنے ویہکل ہیں، جو اپنی عمر پار کر چکے ہیں، جو کلومیٹر پار کر چکے ہیں، ان کو اسکریپنگ میں سب سے پہلے لاؤ تاکہ صنعت چالو ہو جائے۔ کیا ریاستوں میں بھی وزارت ماحولیات اپنی ریاست کو سینسی ٹائز کریں کہ بھائی آپ کی ریاست میں جتنے بھی ویہکل ہوں گے، اس کو اسکریپنگ پالیسی میں سب سے پہلے ہم شروع کر لیں۔ اسکریپنگ کرنے والوں کو بلا لیں اور پھر اس کے سبب نئی گاڑیاں بھی آئیں گی۔ ایندھن بھی بچے گا، ایک طرح سے ہم بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں، لیکن پالیسی اگر حکومت ہند نے بنائی، پڑی رہی ہے تو نتیجہ نہیں آئے گا۔ دیکھئے، تمام وزارت ماحولیات کو ملک کی بائیو فیول پالیسی پر بھی تیز رفتار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھئے، بائیو فیول میں ہم کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر ریاستوں کا بھی یہ پروگرام بن جائے، ریاست طے کرے کہ ہماری ریاست کے جتنے ویہکل ہیں، اس میں ہم سب سے زیادہ بائیو فیول بلینڈنگ کرکے ہی ویہکل چلائیں گے۔ ملک میں کمپٹیشن کا ماحول بنے گا۔ دیکھئے، وزارت ماحولیات کو اس پالیسی کو اپنانا ہوگا، اسے گراؤنڈ پر مضبوطی سے لے جانا ہوگا۔ آج کل ملک ایتھنال بلینڈنگ میں نئے ریکارڈ بنا رہا ہے۔ اگر ریاستیں بھی اس کے ساتھ جڑ جائیں تو ہم کتنی تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ میرا تو مشورہ یہ بھی ہوگا کہ ہم ایتھنال کی پیداوار اور ایتھنال بلینڈنگ ریاستوں کے درمیان میں مقابلہ آرائی ہو۔ سال میں ایک بار ان کو سرٹیفائیڈ کیا جائے کہ کون ریاست… اور اسی دوران ہمارے کسانوں کو بہت مدد ملے گی۔ کھیت کا جو ویسٹ ہے وہ بھی انکم دینا شروع کر دے گا۔ ہمیں اس صحت مند مقابلہ آرائی کو فروغ دینا ہے۔ یہ تندرست مقابلہ آرائی ریاستوں کے درمیان، شہروں کے درمیان ہوتی رہنی چاہیے۔ دیکھئے گا، اس سے ماحولیات کےت حفظ کے ہمارے عزم کو عوامی حصہ داری کی طاقت مل جائے گی اور جو چیز آج ہمیں رکاوٹ لگتی ہے وہ ہمارے لیے نئے افق کو پار کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بن جائے گا۔ اب دیکھئے، ہم سب نے تجربہ کیا ہے کہ ایل ای ڈی بلب بجلی بچاتا ہے۔ کاربن ایمیشن بچاتا ہے، پیسے بچاتا ہے۔ کیا ہماری وزارت ماحولیات، ہماری ریاست کی بجلی کی وزارت، ہماری ریاست کی وزارت شہری امور لگاتار بیٹھ کرکے مانیٹر کرے کہ بھائی ایل ای ڈی بلب ہر اسٹریٹ لائٹ پر لگا ہے کہ نہیں لگا ہے، ہر سرکاری دفتروں میں ایل ای ڈی بلب لگا ہے کہ نہیں لگا ہے۔ ایل ای ڈی کا ایک جو سارا موومنٹ چلا ہے جو اتنی بچت کرتا ہے، پیسے بچاتا ہے، ماحولیات کی بھی خدمت کرتا ہے۔ آپ اس کو لیڈ کر سکتے ہیں۔ آپ کا ڈپارٹمنٹ لیڈ کر سکتا ہے۔ اسی طرح سے ہمیں ہمارے وسائل کو بھی بچانا ہے۔ اب پانی ہے، ہر کوئی کہتا ہے کہ پانی کو بچانا ایک بہت بڑا کام ہے۔ ابھی جو ہم نے آزادی کا امرت مہوتسو میں 75 امرت سروور بنانے کے لیے کہا ہے، کیا وزارت ماحولیات محکمہ جنگلات اس کو لیڈ کر رہا ہے کیا۔ آبی تحفظ کو تقویت دے رہا ہے کیا۔ اسی طرح سے وزارت ماحولیات اور وزارت زراعت مل کر کے وہ ڈرپ اِرّی گیشن ٹپک سینچائی مائکرو اِرّی گیشن اُس پر زور دے رہا ہے کیا۔ یعنی وزارت ماحولیات ایسی ہے کہ جو ہر وزارت کو سمت دے سکتی ہے، رفتار دے سکتی ہے، حوصلہ دے سکتی ہے اور نتائج لے سکتی ہے۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی جن ریاستوں میں پانی کی بہتات تھی، گراؤنڈ واٹر اوپر رہتا تھا وہاں آج پانی کے لیے بہت بڑی جنگ کرنی پڑ رہی ہے۔ پانی کی قلت ہے، 1200-1000 فٹ نیچے جانا پڑ رہا ہے۔
ساتھیوں،
یہ چنوتی صرف پانی سے جڑے محکموں کی نہیں ہے بلکہ ماحولیات کو بھی اسے اتنی ہی بڑی چنوتی سمجھنا چاہیے۔ آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے ہر ضلع میں جیسا میں نے آپ کو کہا امرت سروور کی مہم چل رہی ہے، اب امرت سروور واٹر سیکورٹی کے ساتھ ہی انوائرمنٹ سیکورٹی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح سے اِن دنوں آپ نے دیکھا ہوگا ہمارے کسانوں میں کیمیکل فری کھیتی، نیچرل فارمنگ اب یوں تو لگتا ہے کہ ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ کا ہے لیکن اگر ہماری وزارت ماحولیات جڑ جائے تو اس کو ایک نئی طاقت مل جائے گی۔ قدرتی کھیتی، یہ بھی ماحولیات کی حفاظت کا کام کرتی ہے۔ یہ ہماری دھرتی ماتا کی حفاظت کرنا، یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ بدلتے ہوئے وقت میں وزارت ماحولیات کے ذریعے شرکت اور انٹیگریٹیڈ اپروچ لے کر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ جب وزارت ماحولیات کا سوچنے کا نظریہ بدلے گا، اہداف طے ہوں گے، راہ متعین ہو جائے گی، مجھے پورا یقین ہے ساتھیوں، قدرت کا بھی اتنا ہی بھلا ہوگا۔
ساتھیوں،
ماحولیات کی حفاظت کا ایک اور پہلو، عوامی بیداری، عوامی حصہ داری، عوامی حمایت، یہ بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی صرف محکمہ اطلاعات یا محکمہ تعلیم کا کام نہیں ہے۔ جیسے آپ سبھی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک میں جو ہماری نئی قومی تعلیمی پالیسی اب واقعی میں آپ کے لیے بھی مفید ہے اور آپ کے ڈپارٹمنٹ کے لیے بھی، اس میں ایک موضوع ہے ایکسپرئینسڈ بیسڈ لرننگ پر، اس پر زور دیا گیا ہے۔ اب یہ ایکسپرئینسڈ بیسڈ لرننگ کیا وزارت ماحولیات نے محکمہ تعلیم کے ساتھ بات کی کہ بھائی آپ اسکول میں بچوں کو پیڑ پودوں کے بارے میں ذرا پڑھانا ہے تو ان کو ذرا باغوںمیں لے جائیے۔ گاؤں کے باہر جو پیڑ پودے ہیں، وہاں لے جائیے، پیڑ پودوں سے متعارف کروائیے۔ اب یہ وزارت تعلیم اور وزارت ماحولیات مل کر کام کریں۔ تو اُن بچوں میں ماحولیات کے تئیں فطری بیداری آئے گی اور اس سے بچوں میں جانداروں کے تنوع کے تئیں زیادہ بیداری آئے گی اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے ان کے دل و دماغ میں وہ ایسے بیج بو سکتے ہیں جو آنے والے وقت میں ماحولیات کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑے سپاہی بن جائیں گے۔ اسی طرح اب جو بچے ہمارے سمندری ساحل پر ہیں، یا ندی کے کنارے ہیں، وہاں بچوں کو یہ پانی کی اہمیت، سمندر کا ایکو سسٹم کیا ہوتا ہے، ندی کا ایکو سسٹم کیا ہوتا ہے، وہاں لے جا کر ان کو سکھایا جائے۔ مچھلی کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ مچھلی بھی کس طرح سے ماحولیات کی حفاظت کرنے میں مدد کر رہی ہے۔ ساری باتیں ان بچوں کو لے کرکے ان کو سمجھائیں گے، کام تو محکمہ تعلیم کا ہوگا، لیکن محکمہ ماحولیات کے لوگ آپ دیکھئے پوری نئی نسل تیار ہو جائے گی۔ ہم نے اپنے بچوں کو آنے والی نسلوں کو ماحولیات کے تئیں بیدار بھی کرنا ہے، انہیں حساس بھی بنانا ہے۔ ریاستوں کی وزارت ماحولیات کو اس سے جڑی مہم شروع کرنی چاہیے۔ منصوبے بنانے ہوں گے۔ اب جیسے کسی اسکول میں پھل کا ایک درخت ہے، تو بچے اس کی بائیو گرافی لکھ سکتے ہیں، درخت کی زندگی کے بارے میں لکھیں۔ کسی ادویاتی پودے کی خوبیوں کے بارے میں بھی بچوں سے مضمون لکھوایا جا سکتا ہے، بچوں میں مقابلے کروائے جا سکتے ہیں۔ ہماری ریاستوں کی یونیورسٹیز اور لیباریٹریز کو بھی جے انوسندھان کے منتر پر چلتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ سے جڑے انوویشن کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ ماحولیات کے تحفظ میں ہمیں ٹیکنالوجی کا استعمال بھی زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے۔ جیسے جو جنگلاتی مقام ہیں، جنگل ہیں، ان میں جنگلوں کی حالت کا مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ہم اسپیس ٹیکنالوجی سے لگاتار اپنے جنگلوں کی مانیٹرنگ کر سکتے ہیں۔ تبدیلی آئی تو فوراً مارک کر سکتے ہیں، اصلاح کر سکتے ہیں۔
ساتھیوں،
ماحولیات سے جڑا ایک اور اہم موضوع ہے، فاریسٹ فائر کا بھی۔ جنگلوں میں آگ بڑھ رہی ہے اور بھارت جیسے ملک کے لیے اگر ایک بار آگ پھیل گئی تو ہمارے پاس اتنے وسائل بھی کہاں ہیں کہ ہم جدید ٹیکنالوجی سے آگ بجھا پائیں گے۔ دنیا کے خوشحال ممالک کو آپ نے دیکھا ہوگا ٹی وی پر، چاہے مغربی امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا ہو، پچھلے دنوں یہاں جو فاریسٹ فائر ہوا، جو جنگلوں میں آ گ لگی۔ کتنی تباہی ہوئی، جنگلی جانوروں کی بے بسی، یہاں تک کہ عوامی زندگی کو بھی متاثر کر دیا۔ اس کی راکھ کی وجہ سے میلوں تک لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا۔ وائلڈ فائر کی وجہ سے گلوبل ایمیشن میں بھارت کی حصہ داری بہت کم ہے جی، صفر ہو لیکن پھر بھی ہمیں ابھی سے بیدار ہونا ہوگا۔ ابھی سے ہمارا منصوبہ ہونا چاہیے۔ ہر ریاست میں فاریسٹ فائر فائٹنگ میکانزم مضبوط ہو، وہ ٹیکنالوجی ڈریون ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ اسی طرح سے ہم سب کو معلوم ہے کہ آخر آگ لگنے کی وجہ کیا ہوتی ہے، جو سوکھے پتے جنگلوں میں پڑتے ہیں، ان کا ڈھیر ہوتا ہے اور ایک دو چھوٹی سی غلطی دیکھتے ہی دیکھتے پورے جنگل کو آگ پکڑ لیتی ہے۔ لیکن اب یہ جنگلوں میں جو ویسٹ پڑتا ہے نا، پتیاں پڑتی ہیں، گھر کے اندر جب سارا جنگل زمین پر سب پتیاں نظر آتی ہیں، آج کل اس کا بھی سرکولر اکنامی میں استعمال ہوتا ہے۔ آج کل اس میں سے کھاد بھی بنتا ہے۔ آج کل اس میں سے کوئلہ بنایا جاتا ہے۔ مشین ہوتے ہیں چھوٹے چھوٹے مشین لگا کر کے اس میں سے کوئلہ بنایا جا سکتا ہے، وہ کوئلہ کارخانوں میں کام آ سکتا ہے۔ مطلب ہمارا جنگل بھی بچ سکتا ہے اور ہماری توانائی بھی بچ سکتی ہے۔ کہنے کا میرا مطلب ہے کہ ہمیں اس میں بھی فاریسٹ فائر کے لیے ہماری بیداری، وہاں کے لوگوں کے لیے بھی انکم کا ذریعہ، جو لوگ جنگل میں رہتے ہیں جیسے ہمارا وَن دھن پر بڑا زور ہے، اسی طرح سے اس کو بھی ایک دھن (دولت) مان کر کے ہینڈل کیا جائے۔ تو ہم جنگلوں کی آگ کو بچا سکتے ہیں۔ ہمارے فاریسٹ گارڈ کو بھی اب نئے سرے سے ٹریننگ دینے کی بہت ضرورت ہے جی۔ ہیومن رسورس ڈیولپمنٹ کے نئے پہلوؤں کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ پرانے زمانے کے جو بیٹ گارڈ ہوتے ہیں، اتنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔
ساتھیوں،
میں آپ سبھی سے ایک اور اہم نکتے کی بھی چرچہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جدید انفراسٹرکچر کے بغیر، ملک کی ترقی، ملک کے شہریوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ انوائرمنٹ کلیئرنس کے نام پر ملک میں جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر کو کیسے اُلجھایا جاتا تھا۔ آپ جس جگہ پر بیٹھے ہیں نا یہ ایکتا نگر میں، یہ ہماری آنکھیں کھولنے والی مثال ہے۔ کیسے اربن نکسلیوں نے ، ترقی کے مخالفین نے ، اس اتنے بڑے پروجیکٹ کو، سردار سروور ڈیم کو روک کے رکھا تھا۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی ساتھیوں، یہ جو سردار سروور ڈیم ایکتا نگر میں آپ بیٹھے ہیں نا، اتنا بڑا آبی ذخیرہ دیکھا ہوگا آپ نے، اس کا سنگ بنیاد ملک آزاد ہونے کے فوراً بعد رکھا گیا تھا، سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بہت بڑا رول نبھایا تھا۔ پنڈت نہرو نے سنگ بنیاد رکھا تھا، لیکن سارے اربن نکسل میدان میں آ گئے، دنیا کے لوگ آ گئے۔ کافی پرچار کیا ایسا یہ ماحولیات مخالف ہے، یہ ہی مہم چلائی اور بار بار اس کو روکا گیا۔ جو کام کی شروعات نہرو جی نے کی تھی، وہ کام پورا ہوا میرے آنے کے بعد۔ بتائیے، کتنا ملک کا پیسہ برباد ہو گیا۔ اور آج وہی ایکتا نگر ماحولیات کا تیرتھ علاقہ بن گیا۔ مطلب کتنا جھوٹ چلایا تھا، اور یہ اربن نکسل، آج بھی خاموش نہیں ہیں، آج بھی ان کے کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان کے جھوٹ پکڑے گئے، وہ بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ان کو اب سیاسی حمایت مل جاتی ہے کچھ لوگوں کی۔
ساتھیوں،
بھارت کی ترقی کو روکنے کے لیے کئی گلوبل انسٹی ٹیوشن بھی، کئی فاؤنڈیشنز بھی ایسے بڑے پسند آنے والے موضوع پکڑ کرکے طوفان کھڑا کر دیتے ہیں اور یہ ہمارے اربن نکسل اس کو ماتھے پر لے کر کے ناچتے رہتے ہیں اور ہمارے یہاں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی کمپرومائز نہ کرتے ہوئے بھی متوازن طور پر غور و فکر کرکے ہمیں ایسے لوگوں کی سازشوں کو جو ورلڈ بینک تک کو متاثر کر دیتے ہیں بڑی سے بڑی عدلیہ کو بھی متاثر کر دیتے ہیں۔ اتنا آپ پرچار کر دیتے ہیں، چیزیں اٹک جاتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ان تمام موضوعات پر ایک ہولسٹک اپروچ اپنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔
ساتھیوں،
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ بے وجہ ماحولیات کا نام لے کر ایز آف لیونگ اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی کریں۔ کیسے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، میں مثال پیش کرتا ہوں۔ گجرات میں پانی کا بحران ہمیشہ رہتا ہے، دس سال میں سا ت سال قحط کے دن رہتے تھے۔ تو ہم نے چیک ڈیم کی بڑی مہم چلائی۔ ہم چاہتے تھے کہ فاریسٹ میں بھی پانی کا انتظام ہو، تو ہم فاریسٹ میں پانی کی جو ڈھلان ہوتی ہے، اس پر جو چھوٹے چھوٹے یعنی ڈائننگ ٹیبل جتنے چھوٹے چھوٹے تالاب بنانا، بہت چھوٹے تالاب، 10 فٹ لمبے ہوں، 3 فٹ چوڑے ہوں، 2 فٹ گہرے ہوں۔ اور اس کے پورے لیئر بناتے جانا۔ ایسا ہم نے سوچا۔ آپ حیران ہوں گے، فاریسٹ منسٹری نے منع کر دیا۔ ارے میں نے کہا بھائی یہ پانی ہوگا، تبھی تو تمہارا فاریسٹ بچے گا۔ آخرکار میں نے ان کو کہا اچھا فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کو ہی پیسے دیتا ہوں، آپ چیک ڈیم بنائیے، پانی بچائیے اور جنگلوں کو طاقت دیجئے۔ تب جا کرکے بڑی مشکل سے میں وہ کام کر پایا تھا۔ مطلب ہم انوائرمنٹ کے نام پر فاریسٹ پر بھی اگر پانی کا انتظام نہیں کریں گے تو کام کیسے چلے گا۔
ساتھیوں،
ہمیں یاد رکھنا ہے کہ جتنی تیزی سے انوائرمنٹ کلیئرنس ملے گی، اتنی ہی تیز ترقی بھی ہوگی۔ اور کمپرومائز کیے بغیر یہ ہو سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے، آپ تمام ریاستوں کے لوگ بیٹھے ہیں، آج کی تاریخ میں انوائمرمینٹل کلیئرنس کے 6 ہزار سے زیادہ کام آپ کی وزارتوں میں پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح فاریسٹ کلیئرنس کی بھی قریب قریب 6500 پروجیکٹ ان کی ایپلی کیشن آپ کی میزوں پر لٹکی پڑی ہے۔ کیا ساتھیوں آج کے جدید دور میں، اچھا وہ بھی تین مہینے کے بعد کلیئرنس ملے گا، تو وجہ کچھ اور ہے۔ ہمیں بالکل کوئی پیرامیٹر طے کرنا چاہیے، غیر جانبدار ہو کر کرنا چاہیے اور ماحولیات کی حفاظت کرتے ہوئے کلیئرنس دینے میں تیزی لانی چاہیے۔ ہمیں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں پینڈنسی کی وجہ سے ہمارے پروجیکٹ سے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ خرچ بھی بڑھ جاتا ہے، مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ پینڈنسی کم سے کم ہو اور جینوئن کیس میں ہی پینڈنسی ہو، تیزی سے کلیئرنس ملے، اسے لے کر ہمیں ایک ورک انوائرمنٹ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ جو انوائرمنٹ کی حفاظت کی ہم بات کرتے ہیں نا، ورک انوائرمنٹ بھی بدلنا پڑے گا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ جس پروجیکٹ کو لمبے عرصے سے انوائرمینٹل کلیئرنس نہیں مل رہی ہے، فاریسٹ کلیئرنس نہیں مل رہی ہے، تو میں نے دیکھا ہے کہ ریاستی حکومتیں مجھے چٹھیاں لکھتی ہیں، کبھی بھارت سرکار کے ڈپارٹمنٹ مجھے چٹھیاں لکھتے ہیں کہ فلاں ریاست میں اٹکا ہوا ہے۔ کوئی ریاست والا کہتا ہے بھارت سرکار میں اٹکا ہوا ہے۔ میں ایسے پروجیکٹ کو رفتار کے اندر لاتا ہوں اور میں حیران ہوں جیسے ہی وہ رفتار میں آ جاتا ہے فوراً ہی ریاستوں میں بھی، مرکز میں بھی کلیئرنس شروع ہو جاتا ہے۔ مطلب انوائرمنٹ کا ایشو ہو تو کلیئرنس نہیں ہوتا۔ تو کوئی نہ کوئی ایسی باتیں ہیں، ڈھیلاپن ہے، ورک کلچر ایسا ہے جس کی وجہ سے ہماری یہ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ اور اس لیے میں آپ سے اپیل کروں گا کہ ہم سب نے مل کر کے چاہے مرکز ہو یا ریاست ہو یا مقامی انتظامیہ ہو، یہ ڈپارٹمنٹ ہو، وہ ڈپارٹمنٹ ہو، مل کر کام کریں گے تو ایسی کوئی رکاوٹیں نہیں آئیں گی۔ اب آپ دیکھتے ہیں، ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ پریویش پورٹل آپ سب نے دیکھا ہوگا، پریویش پورٹل ماحولیات سے جڑے سبھی طرح کے کلیئرنس کے لیے سنگل ونڈو ذریعہ بنا ہے۔ یہ شفاف بھی ہے اور اس سے منظوری کے لیے ہونے والی بھاگ دوڑ بھی کم ہو رہی ہے۔ 8 سال پہلے تک انوائرمینٹل کلیئرنس میں جہاں 600 سے زیادہ دن لگ جاتے تھے، یاد رکھو دوستوں، پہلے 600 دن سے زیادہ وقت لگ جاتا تھا کلیئرنس میں۔ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے اس سے زیادہ اچھے طریقے سے سائنسی طریقے سے کام ہوتا ہے اور صرف 75 دن کے اندر کام پورا ہو جاتا ہے۔ ماحولیات سے متعلق منظوری دینے میں ہم ضابطوں کا بھی دھیان رکھتے ہیں اور اس علاقے کے لوگوں کی ترقی کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ یعنی یہ اکنامی اور ایکولوجی دونوں کے لیے وِن وِن سیچوئیشن ہوتی ہے۔ آپ کو میں ایک اور مثال دیتا ہوں۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی مرکزی حکومت نے دہلی میں پرگتی میدان ٹنل کو ملک کو وقف کیا ہے۔ اس ٹنل کی وجہ سے دہلی کے لوگوں کی جام میں پھنسنے کی پریشانی کم ہوئی ہے۔ پرگتی میدان ٹنل ہر سال 55 لاکھ لیٹر سے زیادہ ایندھن بچانے میں بھی مدد کرے گی۔ اب یہ ماحولیات کی بھی حفاظت ہے، اس سے ہر سال قریب قریب 13 ہزار ٹن کاربن ایمیشن کم ہوگا۔ ایکسپرٹس کہتے ہیں کہ اتنے کاربن ایمیشن کو کم کرنے کے لیے ہمیں 6 لاکھ سے زیادہ درختوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی ڈیولپمنٹ کے اس کام نے ماحولیات کی بھی مدد کی۔ یعنی فلائی اوور ہوں، سڑکیں ہوں، ایکسپریس وے ہوں، ریلوے کے پروجیکٹس ہوں، ان کی تعمیر کاربن ایمیشن کم کرنے میں اتنی ہی مدد کرتی ہے۔ کلیئرنس کے وقت، ہمیں اس اینگل کو نظر انداز نہیں کرناچاہیے۔
ساتھیوں،
پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان اس کے لاگو ہونے کے بعد سے، انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس میں تال میل بہت بڑھا ہے اور ریاستیں بھی اس سے بہت خوش ہیں، ریاستیں بہت بڑھ چڑھ کر اس کے فائدے اٹھا رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے پروجیکٹس میں بھی تیزی آئی ہے۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان، ماحولیات کے تحفظ میں بھی مثالی طور پر مدد کر رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جب بھی ریاست میں کسی انفراسٹرکچر کی تعمیر ہو، اب یہ ہمیں کلائمیٹ کے سبب جو مسائل آ رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ایسے مسائل میں ٹکا رہے، ویسا انفراسٹرکچر بنانا پڑے گا، ڈیزاسٹر ریزی لئینٹ ہو۔ ہمیں کلائمیٹ سے جڑی چنوتیوں کا سامنا کرتے ہوئے، معیشت کے ہر ابھرتے ہوئے سیکٹر کا صحیح استعمال کرنا ہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت، دونوں کو مل کر گرین انڈسٹریئل اکنامی کی طرف بڑھنا ہے۔
ساتھیوں،
مجھے یقین ہے، ان 2 دنوں میں آپ ماحولیاتی تحفظ کی بھارت کی کوششوں کو مزید مضبوط کریں گے۔ وزارت ماحولیات، صرف ریگولیٹری ہی نہیں بلکہ لوگوں کو معاشی طور پر با اختیار بنانے اور روزگار کے نئے وسائل پیدا کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایکتا نگر میں آپ کو سیکھنے کے لیے، دیکھنے کے لیے بہت کچھ ملے گا۔ گجرات کے کروڑوں لوگوں کو، راجستھان کے کروڑوں لوگوں کو، مہاراشٹر کے کروڑوں لوگوں کو، مدھیہ پردیش کے لوگوں کو بجلی کے سبب ایک سردار سروور ڈیم نے چار ریاستوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے، مثبت اثر پیدا کیا۔ راجستھان کے ریگستان تک پانی پہنچا ہے، کچھّ کے ریگستان تک پانی پہنچا ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے۔ مدھیہ پردیش کو بجلی مل رہی ہے۔ سردار صاحب کی اتنا بڑا مجسمہ ہمیں اتحاد کے عزم پر ڈٹے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ ایکولوجی اور اکنامی کیسے ساتھ ساتھ ترقی کر سکتے ہیں، کیسے انوائرمنٹ بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے اور امپلائمنٹ کے نئے مواقع بھی تیار کیے جا سکتے ہیں، کیسے بائیو ڈائیورسٹی، ایکو ٹورزم بڑھانے کا اتنا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، کیسے ہمارے جنگلاتی وسائل، ہمارے آدیواسی بھائی بہنوں کے وسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں، ان ساری باتوں کا جواب، تمام سوالات کا حل، کیوڈیا میں، ایکتا نگر میں آپ سب کو ایک ساتھ نظر آتا ہے۔ ایکتا نگر ڈکلریشن، آزادی کے امرت کال کے لیے بہتر حل لے کر آئے گا، اسی یقین کے ساتھ آپ سبھی کو مبارکباد۔ اور ساتھیوں، میں حکومت ہند کی وزارت کے تمام عہدیداروں کو، معزز وزیر کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انہوں نے پروگرام کا تصور کیا۔ میری آپ سے اپیل ہے جو لکچرز ہوں گے، جو بحثیں ہوں گی اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہمیت آپ دو دن جو ساتھ رہیں گے نا، ایک دوسرے کے تجربات کو جانیں گے، ہر ریاست نے کچھ نہ کچھ اپنے تجربے کیے ہوں گے، اچھے پہل کی ہوگی۔ جب اپنے ساتھیوں سے، دیگر ریاستوں سے آپ کا تعارف بڑھے گا، ان سے باتیں کروگے تو آپ کو بھی نئے نئے آئڈیاز ملیں گے، آپ کو بھی نئی نئی باتیں اوروں کو بتانے کا موقع ملے گا۔ یعنی یہ ایک دو دن آپ میں ایک بہت بڑے حوصلے کا باعث بن جائیں گے۔ آپ خود ہی ایک دوسرے کے لیے حوصلہ بنیں گے۔ آپ کے ساتھی آپ کا حوصلہ بنیں گے۔ اس ماحول کو لے کر یہ دو روزہ منتھن ملک کی ترقی کے لیے، ماحولیات کی حفاظت کے لیے اور آنے والی نسل کو ماحولیات کے تئیں حساس بنانے کے لیے صحیح سمت لے کر کے، صحیح متبادل لے کر کے ایک متعینہ روڈ میپ لے کر کے ہم سب چلیں گے، اسی امید کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ بہت بہت شکریہ۔