بھارت ماتا کی جے۔
بھارت ماتا کی جے۔
یوپی کی مقبول اور توانائی سے بھرپور گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، نائب وزیر اعلی کیشو پرساد موریا جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب سنجیو بالیان جی، وی کے سنگھ جی، وزیر جناب دنیش کھٹیک جی، جناب اوپیندر تیواری جی، جناب کپل دیو اگروال جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب ستیہ پال سنگھ جی، راجندر اگروال جی، وجے پال سنگھ تومرجی، محترمہ کانتا کردم جی، ایم ایل اے بھائی سومیندر تومر جی، سنگیت سوم جی، جتیندر ستوال جی، ستیہ پرکاش اگروال جی، میرٹھ ضلع پریشد کے صدر گورو چودھری جی، مظفر نگر ضلع پریشد کے صدر ویرپال جی، دیگر تمام عوامی نمائندگان اور دور دور سے آئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو، آپ سب کو سال 2022 کی بہت بہت مبارکباد۔
سال کے آغاز میں میرٹھ آنا میرے لیے اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ بھارت کی تاریخ میں میرٹھ نہ صرف ایک شہر ہے بلکہ میرٹھ ہماری ثقافت، ہماری طاقت کا ایک اہم مرکز بھی رہا ہے۔ رامائن اور مہابھارت کے ادوار سے لے کر جین تیرتھنکر اور پنج پیاروں میں سے ایک بھائی دھرم سنگھ تک میرٹھ نے ملک کے عقیدے کو توانائی بخشی ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر ملک کی پہلی جنگ آزادی تک اس خطے نے دنیا کو دکھایا ہے کہ بھارت کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ 1857 میں بابا اوگھڑ ناتھ مندر سے آزادی کی جو للکار دہلی کی طرف کرنے کوچ کی صدا نے غلامی کی تاریک سرنگ میں ملک کو ایک نئی روشنی دی۔ انقلاب کی اسی تحریک سے ہمیں آزاد کرایا گیا اور آج ہم فخر کے ساتھ اپنی آزادی کے امرت مہوتسو کا جشن منا رہے ہیں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہاں آنے سے پہلے بابا اوگھڑ ناتھ مندر جانے کا موقع ملا۔ میں امر جوان جیوتی بھی گیا، آزادی کی جدوجہد کے عجائب گھر میں اس جذبے کو بھی محسوس کیا جوملک کی آزادی کے لیے کچھ کر گزرنے والوں کے دلوں میں روشن تھا۔
بھائیو اور بہنو،
میرٹھ اور اس کے آس پاس کے اس خطے نے آزاد بھارت کو ایک نئی سمت دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ قومی دفاع کے لیے سرحد پر قربانیاں ہوں یا کھیل کے میدان میں قوم کے احترام کے لیے، حب الوطنی کا جذبہ ہمیشہ اس خطے نے روشن کیا ہے۔ نور پور مدایا نے چودھری چرن سنگھ جی کے طور پر ملک کو ایک وژنری قیادت بھی دی۔ میں اس اس متحرک قوت کو سلام پیش کرتا ہوں، میرٹھ اور اس خطے کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
بھائیو اور بہنو،
میرٹھ ملک کے ایک اور عظیم بچے میجر دھیان چند جی کی کام کی جگہ بھی رہا ہے۔ چند ماہ قبل مرکزی حکومت نے ملک کے سب سے بڑے کھیلوں کے ایوارڈ کا نام ڈڈا کے نام پر رکھا تھا۔ آج اسپورٹس یونیورسٹی آف میرٹھ میجر دھیان چند جی کے نام وقف کی جارہی ہے۔ اور جب اس یونیورسٹی کا نام میجر دھیان چند جی سے وابستہ ہورہا ہے تو ان کی جانفشانی ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ ان کا نام بھی اپنے اندر ایک پیغام رکھتا ہے۔ ان کے نام کا لفظ دھیان کا مطلب ہے کہ توجہ مرکوز کیے بغیر، سرگرمی پر توجہ مرکوز کیے بغیر، کبھی کام یابی نہیں ملتی۔ اور اس لیے مجھے یقین ہے کہ یہاں پوری توجہ سے کام کرنے والے نوجوان اس ملک کا نام روشن کریں گے جس یونیورسٹی کا نام دھیان چند سے وابستہ ہے۔
میں یوپی کی پہلی اسپورٹس یونیورسٹی کے لیے اترپردیش کے نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 700 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی یہ جدید یونیورسٹی دنیا کی بہترین کھیلوں کی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہوگی۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کو کھیلوں کی بین الاقوامی سہولیات ملیں گی بلکہ کھیلوں کو کیریئر کے طور پر اپنانے کے لیے درکار مہارتیں بھی پیدا ہوں گی۔ ہر سال 1000سے زیادہ بیٹے اور بیٹیاں بہترین کھلاڑی کے طور پر ابھریں گے۔ یعنی انقلابیوں کا شہر کھلاڑیوں کے شہر کے طور پر اپنی شناخت کو مزید مستحکم کرے گا۔
ساتھیو،
پہلے کی حکومتوں میں یوپی میں مجرم اپنا کھیل کھیلتے تھے، مافیا اپنا کھیل کھیلتا تھا۔ اس سے قبل غیر قانونی قبضے کے ٹورنامنٹ ہوتے تھے، بیٹیوں پر پھبتیاں کسنے والے آزادانہ گھومتے تھے۔ ہمارے میرٹھ اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ کبھی یہ نہیں بھول سکتے کہ لوگوں کے گھر جل گئے تھے اور پچھلی حکومت اپنے کھیل میں لگی ہوئی تھی۔ پہلے کے سرکاری کھیلوں کے نتیجے میں لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
پہلے کیا کھیل کھیلے جاتے تھے، اب یوگی جی کی حکومت ایسے مجرموں کے ساتھ جیل جیل کھیل رہی ہے۔ پانچ سال پہلے اسی میرٹھ کی بیٹیاں شام کے بعد اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتی تھیں۔ آج میرٹھ کی بیٹیاں پورے ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔ میرٹھ کی سوتی گنج مارکیٹ میں گاڑیوں کے ساتھ ہونے والے کھیل کا بھی اب خاتمہ ہورہاہے۔ اب یوپی میں اصل کھیل کو فروغ مل رہا ہے، یوپی کے نوجوانوں کو کھیلوں کی دنیا میں داخل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں بولا جاتا ہے: [مفہوم]جس راستے پر عظیم لوگ، عظیم شخصیات چلتی ہیں وہی ہمارا راستہ ہے۔ لیکن اب بھارت بدل گیا ہے، اب ہم اکیسویں صدی میں ہیں۔ اور اکیسویں صدی کے اس نئے بھارت میں سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے نوجوانوں پر عائد ہوگی۔ اوراب منتر بدل گیا ہے - اکیسویں صدی کا منتر یہ ہے:نوجوان جس راستے پر چلتے ہیں وہی ملک کا راستہ ہے۔ جہاں کہیں بھی نوجوانوں کے قدم بڑھتے ہیں، منزل خود بخود قدموں کو چومنا شروع کردیتی ہے۔ نوجوان ایک نئے بھارت کا کپتان بھی ہے، نوجوان نئے بھارت کی توسیع بھی ہے۔ نوجوان نئے بھارت کا کنٹرولر بھی ہے اور نوجوان نئے بھارت کا لیڈر بھی ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں کے پاس قدامتوں کا ورثہ بھی اور جدیدیت کا جذبہ بھی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان جہاں بھی جائیں گے، بھارت ان کے ساتھ چلے گا۔ اور جدھربھارت چلے گا اُدھر دنیا چلنے والی ہے۔ آج سائنس سے لے کر ادب تک، اسٹارٹ اپس سے لے کر کھیلوں تک، بھارت کے نوجوان ہر جگہ موجود ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
ہمارے جو نوجوان کھیلوں کی دنیا میں آئے تھے وہ ماضی میں طاقتور تھے، ماضی میں محنت کا فقدان نہیں تھا۔ کھیلوں کا کلچر بھی ہمارے ملک میں بہت ثروت مند رہا ہے۔ کھیل ہمارے دیہاتوں میں ہر تہوار، ہر اتسو کا ایک اہم حصہ رہے ہیں۔ میرٹھ میں دنگل اور جیتنے والوں کو گھی کے پیپے اور لڈو ملتے ہیں۔ اس لطف کے لیے کس کا دل میدان میں اترنے کا نہیں چاہے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پچھلی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے کھیل اور کھلاڑیوں کا ان کی طرف دیکھنے کا رویہ بہت مختلف رہا تھا۔ اس سے پہلے شہروں میں جب ایک نوجوان اپنی شناخت ایک کھلاڑی کے طور پر کرتا تھا، اگر وہ کہتا تھا کہ میں کھلاڑی ہوں، میں فلاں فلاں کھیل کھیلتا ہوں، میں اس کھیل میں آگے بڑھا ہوں، تو سامنے والے کیا پوچھتے تھے؟ معلوم ہے؟ سامنے والا پوچھتا تھا، "ارے، بیٹا، تم کھیلتے ہو، ٹھیک ہے، لیکن تم کام کیا کرتے ہو؟" یعنی گویا کھیلوں کی کوئی عزت ہی نہیں تھی۔
گاؤں میں اگر کوئی خود کو کھلاڑی قرار دیتا تو لوگ کہتے کہ چلو فوج یا پولیس میں ملازمت کے لیے کھیل رہا ہوگا۔ یعنی کھیلوں کے بارے میں سوچنے اور سمجھنے کا دائرہ بہت محدود تھا۔ اس سے پہلے حکومتوں نے نوجوانوں کی اس طاقت کو اہمیت نہیں دی تھی۔ یہ حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ معاشرے میں کھیلوں کے بارے میں سوچ کو بدلیں۔کھیل کو باہر نکالنا بہت ضروری ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہوا یہ کہ زیادہ تر کھیلوں کے بارے میں ملک کی بے حسی میں اضافہ ہی ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہاکی میں بھی جہاں میجر دھیان چند جی جیسی صلاحیتوں نے غلامی کے دور میں بھی ملک کا نام روشن کیا تھا، وہیں ہمیں کئی دہائیوں تک تمغوں کا انتظار کرنا پڑا۔
دنیا کی ہاکی قدرتی میدان سے ایسٹرو ٹرف کی طرف بڑھ گئی۔ لیکن ہم وہیں کے وہیں رہے۔ جب تک ہم بیدار ہوئے، بہت دیر ہو چکی تھی۔ اوپر سے لے کر، تربیت سے لے کر ٹیم کے انتخاب تک، اقربا پروری، برادر پروری کے کھیل، بدعنوانی کے کھیل، امتیازی سلوک اور شفافیت کا تو کہیں کوئی سراغ ہی نہیں ملتا۔ ساتھیو، ہاکی کی مثال سامنے ہے، یہ ہر کھیل کی کہانی تھی۔ ٹکنالوجی کو تبدیل کرنے، طلب میں تبدیلی، مہارتوں کو تبدیل کرنے کے لیے ملک کی سابقہ حکومتیں بہترین ایکو سسٹم تخلیق نہیں کرسکیں۔
ساتھیو،
ملک کے نوجوانوں کی بے پناہ صلاحیتیں حکومت کی بے اعتنائی کی وجہ سے سے جکڑی ہوئی تھیں۔ 2014 کے بعد ہم نے انھیں جکڑبندیوں سے نکالنے کے لیے ہر سطح پر اصلاحات کیں۔ ہماری حکومت نے کھلاڑیوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ہمارے کھلاڑیوں کو چار ہتھیار دیے ہیں۔ کھلاڑیوں کو وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، کھلاڑیوں کو جدید تربیتی سہولیات کی ضرورت ہوتی ہے، کھلاڑیوں کو بین الاقوامی ایکسپوژر کی ضرورت ہوتی ہے، کھلاڑیوں کو انتخاب میں شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری حکومت نے گذشتہ برسوں میں بھارت کے کھلاڑیوں کو یہ چاروں ہتھیار مہیا کرانے کو اولین ترجیح دی ہے۔ ہم نے کھیلوں کو نوجوانوں کی فٹنس اور نوجوانوں کے روزگار، خود روزگار، ان کے کیریئر سے جوڑا ہے۔ ٹارگٹ اولمپک پوڈیم اسکیم یعنی ٹاپس ایسی ہی ایک کوشش رہی ہے۔
آج حکومت ملک کے اعلیٰ کھلاڑیوں کی خوراک، فٹنس سے لے کر تربیت تک، لاکھوں اور کروڑوں روپے کی مدد کر رہی ہے۔ کھیلو انڈیا مہم کے ذریعے ملک کےگوشے گوشے میں بہت چھوٹی عمر کی صلاحیتوں کی شناخت کی جارہی ہے۔ ایسے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح کا کھلاڑی بنانے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جارہی ہے۔ انھی کوششوں کی وجہ سے آج جب بھارتی کھلاڑی بین الاقوامی میدان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی کارکردگی کو بھی دنیا سراہتی اور دیکھتی ہے۔ گذشتہ سال ہم نے اولمپکس میں دیکھا تھا، ہم نے پیرالمپکس میں دیکھا تھا۔ تاریخ میں اس سے پہلے جو کچھ نہیں ہوا وہ پچھلے اولمپکس میں میرے ملک کے جری بیٹوں اور بیٹیوں نے کر دکھایا تھا۔ وہ ایک آواز ہوکر بول اٹھا کہ کھیل کے میدان میں بھارت کا طلوع ہوچکا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اترپردیش، اتراکھنڈ کے بہت سے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں سے تعلق رکھنے والے بیٹے اور بیٹیاں عام خاندانوں سے تعلق رکھنے والے، بھارت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہمارے بیٹے اور بیٹیاں ان کھیلوں میں بھی آگے آرہے ہیں جن پہلے میں وسائل سے مالا مال خاندانوں کے نوجوانھی حصہ لے سکتے تھے۔ اسی خطے کے بہت سے کھلاڑیوں نے اولمپکس اور پیرالمپکس میں ملک کی نمائندگی کی ہے۔ یہ جدید کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کا نتیجہ ہے جو حکومت دیہاتوں میں تعمیر کر رہی ہے۔ پہلے صرف بڑے شہروں میں ہی بہتر اسٹیڈیم دستیاب تھے، آج گاؤں کے قریب ہی کھلاڑیوں کو یہ سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
ساتھیو،
یہی وجہ ہے کہ ایسی کھیلوں کی یونیورسٹیاں آج بہت اہم ہیں۔ یہ کھیلوں کی یونیورسٹیاں کھیلوں کی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے نرسریوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی 7 دہائیوں بعد 2018 میں منی پور میں ہماری حکومت نے پہلی نیشنل اسپورٹس یونیورسٹی قائم کی تھی۔ گذشتہ 7 برسوں میں ملک بھر میں کھیلوں کی تعلیم اور مہارتوں سے متعلق بہت سے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ اور اب آج بڑی دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی، کھیلوں میں اعلیٰ تعلیم کا ایک اور بہترین ادارہ ملک کو دیا گیا ہے۔
ساتھیو،
کھیلوں کی دنیا کے بارے میں ہمیں ایک اور بات یاد رکھنی ہوگی۔ اور میرٹھ کے لوگ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ کھیلوں کی خدمات اور اشیاء کی عالمی منڈی کی مالیت لاکھوں کروڑ وں روپے ہے۔ میرٹھ ہی سے کھیلوں کا سامان اب 100 سے زیادہ ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ میرٹھ نہ صرف لوکل کے لیے ووکل ہورہا ہے بلکہ لوکل کو گلوبل بھی بنا رہا ہے۔ آج ملک بھر میں اس طرح کے متعدد اسپورٹس کلسٹر بھی تیار کیے جارہے ہیں۔ اس کا مقصد ملک کو کھیلوں کی اشیا اور سازوسامان کی تیاری میں خود کفیل بنانا ہے۔
اب جو نئی قومی تعلیمی پالیسی نافذ ہو رہی ہے اس میں کھیلوں کو بھی ترجیح دی گئی ہے۔ کھیلوں کو اب سائنس، تجارت، ریاضی، فلسفہ یا دیگر مطالعات کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ پہلے کھیلوں کو ایک اضافی سرگرمی سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسکول میں اسپورٹس ایک مضمون ہوگا۔ یہ باقی مضامین کی طرح اہم ہوگا۔
ساتھیو،
یوپی کے نوجوانوں میں اتنی صلاحیتیں ہیں، ہمارے یوپی کے نوجوان اتنے باصلاحیت ہیں کہ آسمان کم پڑ جائے۔ چناں چہ یوپی میں ڈبل انجن حکومت کئی یونیورسٹیاں قائم کر رہی ہے۔ گورکھپور میں مہایوگی گرو گورکھ ناتھ آیوش یونیورسٹی، پریاگ راج میں ڈاکٹر راجندر پرساد لا یونیورسٹی، لکھنؤ میں اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف فرانزک سائنسز، علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی، سہارنپور کی ماں شاکمبری یونیورسٹی اور یہاں میرٹھ میں میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی، ہمارا مقصد واضح ہے۔ ہمارے نوجوان نہ صرف رول ماڈل بنتے ہیں بلکہ اپنے رول ماڈل کو بھی پہچانتے ہیں۔
ساتھیو،
حکومتوں کا کردار سرپرست جیسی ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس اہلیت ہے تو حوصلہ افزائی کریں اور یہ کہہ کر نہ ٹال دیں کہ لڑکوں سے غلطیاں ہوتی ہی ہیں۔ آج یوگی جی کی حکومت نوجوانوں کی ریکارڈ سرکاری تقرریاں کر رہی ہے۔ آئی ٹی آئی سے تربیت یافتہ ہزاروں نوجوانوں کو بڑی کمپنیوں میں روزگار فراہم کیا گیا ہے۔ نیشنل اپرنٹس شپ اسکیم ہو یا پردھان منتری کوشل وکاس یوجنا، لاکھوں نوجوانوں کو فائدہ ہوا ہے۔ اٹل جی کے یوم پیدائش پر یوپی حکومت نے طلبا کو ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون فراہم کرنے کی مہم بھی شروع کی ہے۔
ساتھیو،
یوپی کے نوجوانوں کے لیے مرکزی حکومت کی ایک اور اسکیم کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ یہ اسکیم ملکیت کی اسکیم ہے۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی حکومت دیہات میں رہنے والے لوگوں کو ان کی جائیدادوں کے ملکیتی حقوق سے متعلق کاغذات دے رہی ہے۔ گھر ملنے پر گاؤں کے نوجوان اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے بینکوں سے آسانی سے مدد حاصل کر سکیں گے۔ اس سے معاشرے کے ہر طبقے کو ان کے گھروں پر غیر قانونی قبضے کی فکر سے بھی نجات ملے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ یوگی جی کی حکومت ملکیت اسکیم کو بہت تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے۔ یوپی کے 75 اضلاع میں 23 لاکھ سے زیادہ گھرونی دی جاچکی ہے۔ انتخابات کے بعد یوگی جی کی حکومت اس مہم کو تیز کرے گی۔
بھائیو اور بہنو،
اس علاقے کے زیادہ تر نوجوان دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ ہماری حکومت دیہی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے بھی مسلسل کام کر رہی ہے۔ گذشتہ کل وزیر اعظم کسان سمان ندھی کے ذریعے یوپی کے لاکھوں کسانوں کے بینک کھاتوں میں کروڑوں روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ اس سے اس خطے کے چھوٹے کسانوں کو بھی فائدہ ہو رہا ہے۔
ساتھیو،
جو لوگ پہلے اقتدار میں تھے انھوں نے آپ کو گنے کی قیمت قسطوں میں ترسا ترسا کر ادا کی تھی۔ گنے کے کسانوں کو اتنی رقم نہیں ملی جتنی پچھلی دو حکومتوں کے دوران یوگی جی حکومت میں ادا کی گئی ہے۔ پہلے کی حکومتوں میں شوگر ملوں کو کوڑیوں کے بھاو فروخت کیا جاتا تھا، جتنا میں جانتا ہوں، کیا آپ جانتے ہیں یا نہیں ؟ کیا شوگر ملز فروخت ہوئیں یا فروخت نہیں ہوئیں ؟ کیا بدعنوانی ہے یا نہیں ؟ یوگی جی کی حکومت میں ملیں بند نہیں ہوتی ہیں، یہاں وہ پھیلتی ہیں، نئی ملیں کھولی جاتی ہیں۔ اب یوپی گنے سے تیار کردہ ایتھنول کی پیداوار میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ گذشتہ ساڑھے چار برسوں میں یوپی سے تقریباً 12 ہزار کروڑ روپے کا ایتھنول خریدا گیا ہے۔ حکومت زرعی بنیادی ڈھانچے اور فوڈ پروسیسنگ، ایسی صنعتوں میں بھی تیزی سے توسیع کر رہی ہے۔ آج دیہی بنیادی ڈھانچے، ذخیرہ اندوزی کی فراہمی، سرد ذخیرہ پر ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
ڈبل انجن حکومت نوجوانوں کی طاقت کے ساتھ ساتھ اس شعبے کی طاقت کو بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ریوڑی، گزک، ہینڈ لوم، براس بینڈ، زیورات، میرٹھ کے ایسے کاروبار اس ملک کا فخر ہیں۔ آج میرٹھ مظفر نگر میں چھوٹی اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو مزید وسعت دینے، بڑی صنعتوں کے لیے مضبوط بنیاد رکھنے، زرعی مصنوعات، اس کی پیداوار کے لیے نئی منڈیاں حاصل کرنے کے لیے متعدد کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس لیے اس خطے کو ملک کا جدید ترین اور مربوط ترین خطہ بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ دہلی میرٹھ ایکسپریس وے کی وجہ سے دہلی اب ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ چند روز قبل شروع ہونے والا گنگا ایکسپریس وے بھی میرٹھ سے شروع ہوگا۔ میرٹھ سے یہ رابطہ یوپی کے دیگر شہروں کے ساتھ رابطے اور تعلقات کو آسان بنانے کے لیے کام کرے گا۔ ملک کا پہلا علاقائی ریپڈ ریل ٹرانزٹ سسٹم بھی میرٹھ کو دارالحکومت سے جوڑ رہا ہے۔ میرٹھ ملک کا پہلا شہر ہوگا جہاں میٹرو اور تیز رفتار تیز رفتار ریل بیک وقت چلیں گی۔ میرٹھ میں آئی ٹی پارک جو پچھلی حکومت کا محض اعلان بن کر رہ گیا تھا، اسے بھی قوم کے نام وقف کیا جاچکا ہے۔
ساتھیو،
یہ ڈبل بینیفٹ، ڈبل اسپیڈ، ڈبل انجن کی حکومت کی شناخت ہے۔ اس شناخت کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔ میرے مغربی اترپردیش کے لوگ جانتے ہیں کہ اگر آپ اُدھر ہاتھ لمبا کریں گے، تولکھنؤ میں یوگی جی، اور اِدھر ہاتھ لمبا کریں گے تومیں آپ کے لیے دہلی میں ہوں ہی۔ ترقی کی رفتار کو مزید بڑھانا ہوگا۔ نئے سال میں ہم نئے جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ میرے نوجوان ساتھیو، آج پورا بھارت میرٹھ کی طاقت کو دیکھ رہا ہے، مغربی اترپردیش کی طاقت کو دیکھ رہا ہے، نوجوانوں کی طاقت کو دیکھ رہا ہے۔ یہ طاقت ملک کی طاقت ہے اور اس طاقت کو مزید بڑھانا ہے۔ایک نئے یقین کے ساتھ۔ ایک بار پھر میجر دھیان چند اسپورٹس یونیورسٹی کے لیے آپ کو مبارکباد!
بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!
وندے ماترم! وندے ماترم!