نمسکار،
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
آج سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے ۔ میں سردار پٹیل کہوں گا اور مجمع میں موجود تمام افراد دو مرتبہ امر رہے امر رہے بولیں گے۔ بناس کانٹھا کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو ، آج پوراگجرات غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملک کے باشندے بھی کافی دکھی ہیں۔ موربی میں کل شام جس طرح کا اندوہناک حادثہ پیش آیا ، وہ بڑا ہی افسوس ناک ہے۔ ہمارے دیگر رشتہ دار اور چھوٹے بچے اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے ہیں۔دکھ کی اس گھڑی میں متاثرہ کنبے کے ساتھ ہماری تعزیت۔ بھوپیندر بھائی اور ان کی حکومت کے تمام رفقاء پوری طاقت سے ہرممکن راحتی امور میں مصروف عمل ہیں۔وہ کل رات کیوڑیا سے براہ راست موربی پہنچے تھے اور موربی میں انہوں نے راحت اور بچاؤ کے کاموں کو سنبھال لیا تھا۔ میں بھی پوری رات اور آج صبح بھی ان کے رابطے میں رہا۔اس کے علاوہ مختلف محکمہ ، وزرا اور افسران بھی اس خطرناک آفت میں مبتلا افراد کی پریشانیوں کو کم کرنے کے لئے مسلسل کام کررہے ہیں۔ کل موربی میں این ڈی آر ایف کا دستہ پہنچا ۔اس کے علاوہ فوج اور فضائیہ کے جوان بھی راحت اور بچاؤ کے کام میں مصروف عمل رہے۔ بناس کانٹھا ، ماں امبے کی اس سرزمین سے گجرات کے لوگوں کو دوبارہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان مشکل حالات میں حکومت کی جانب سے ہرممکن مددکی جائے گی۔
کل موربی میں جو حادثہ پیش آیا ، کافی تکلیف دہ تھا۔ دل مبہوت ہوگیا تھا۔ میں اس فکر میں تھا کہ یہ سارے ترقیاتی کام ہیں۔ اور بناس کانٹھا میں پانی کی اہمیت کیا ہے ، یہ میں جانتا ہوں ۔ یہ پروگرام ختم کروں یا نہ کروں لیکن آپ کے لئے میرا پیار اور فرض بنارہے گا۔ بناس کا نٹھا اور پورا شمالی گجرات ، اس کے لئے پانی اور صرف ایک پروگرام کیلئے ہی آٹھ ہزارکروڑ روپے کے منصوبے ہیں۔ان منصوبوں سے بناس کانٹھا ، پاٹن ،مہسانہ سمیت تقریباََ چھ اضلاع کے ایک ہزار سے زیادہ گاؤں اوردولاکھ ہیکٹئر آراضی کو یہ سہولت ملنے والی ہے۔ ہمارے گجرات کے لوگ پریشانیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں ۔دس سال میں سا ت سال ہم خشک سالی اور خطرناک زلزلے میں مبتلا رہے ہیں ، لیکن گجرات کے عوام فرائض کی ادائیگی اور اپنے طرز عمل کی وجہ سے جو بھی سہولت ملی ، اس سے استفادہ کرتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔ لیکن ان لوگوں نے کبھی آرام نہیں کیا۔ محنت کی اور نتائج حاصل کرنے کی ساری کوششیں کیں اور ہمارا یہ بناس کانٹھا ا س کا زندہ ثبوت ہے۔ 20سے 25سال پہلے کی اگر بات کریں تو ہمارے بناس کانٹھا اور اس پورے خطے کی جو حالت تھی، اس سے ہم سبھی واقف ہیں، اس کے مقابلے آج یہاں جو ترقی ہوئی ہے یا جو تبدیلی ہوئی ہے ،وہ واضح نظر آر ہی ہے ۔ ہم پہلے کے ایام کو بھی نہیں بھول سکتے ہیں اور اگر ہم ساتھ مل کر محنت کریں گے تو مزید کا میابیاں ملیں گی۔ ایک طرف کچھ کا ریگستان اور دوسری طرف فروری کامہینہ ختم ہوتے ہی دھول اُڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ جہاں لوگ بارش کا انتظار کرتے رہتے ہیں کیونکہ گرمی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔بجلی ، پانی کے اس طرح کے بحران سے نیز اس وقت اگر تھوڑی بارش ہوجائے تو ایک دو مہینے سکون سے نکل جاتے ہیں۔اسی طرح شمالی گجرات کے ہزار وں گاؤوں میں اگر پانی مل بھی جائے تو اس میں فلورائڈ ہوتا تھا اور اگر وہ پانی ہم پیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ، وہ آپ جانتے ہیں، ہمارے شمالی گجرات میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ سبھی کے دانت اس پانی کے پینے سے پیلے ہوجاتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پیدائش سے ہی اس کے دانت پیلے ہیں ۔ ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جوانی میں بڑھاپا آگیا ہو۔پانی کی اس عدم فراہمی سے زراعت کے کام کاج بھی مشکل ہوگئے تھے۔ یہاں پر اگر کو ئی اس زمین کی فروخت کے لئے نکلتا تو کوئی خریدار بھی نہیں ملتا تھا۔ ہم نیچے بور ویل بناکر پانی کو نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ بجلی کا انتظارکرتے اور مظاہرہ کرتے نیز نریندر مودی کے پتلے جلاتے تھے۔ یہ سب ہم نے اس لئے کیا کیونکہ عوام نے پہلے کےدور میں امید ہی ترک کردی تھی۔ لیکن ساتھیو ، جب آپ کا خدمت گار ، آپ کا ساتھی بن کر آپ کی پریشانیوں کو سمجھ کر نیک نیتی سے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو مشکل سے مشکل ہدف بھی حاصل کرلیا۔ 20سال قبل آپ سبھی نے مجھے وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے کے لئے ذمہ داری دی اور میں نے اس وقت اس پریشانی کی جڑ کو سمجھ لیا اورہم نے آبی تحفظ پر توجہ مرکوز کی ۔ دوسری جانب اگر ہم زمین سے پانی کھینچتے ہی رہیں اور بورویل کی گہرائی بڑھاتے ہی رہیں گے تو اس کا کیا انجام ہوگا ، اس کی پوری معلومات حاصل کی ۔ ہم نے پانی کے حصول پر پوری طاقت صرف کردی ۔ برسات کا پانی سمندر میں نہ چلاجائے اس لئے چیک ڈیم کے ذریعہ تالاب کی گہرائی بڑھائی اور اس کام کے لئے اپنی اسکیم سجلام سفلام کی مدد حاصل کی ۔
مجھے یاد ہے کہ جب ہماری یہ سجلام سفلام اسکیم کی شروعات ہوئی تھی ،تب کانگریس کے لیڈر بھی مجھے کہتے تھے کہ صاحب ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہماری زندگی میں اس طرح پانی آئے گا نیز اس طرح کی پیداوار ہوگی۔ہم نے واسمو اسکیم بنائی ، گاؤں گاؤں میں پانی کی کمیٹیوں کی تشکیل دی اور اس کیلئے میں نے خواتین کو یہ ذمہ داری سونپی اور اس تمام کوششوں کا یہ نتیجہ ہے کہ بناس کانٹھا ہو یا شمالی گجرات یا کچھ ہو ، جو علاقے پانی کی ایک ایک بوند کے لئے ترستے تھے، ان کو اس اسکیم سے بڑی مدد ملی اور پانی کی پریشانیوں سے نجات ملی ۔ انہوں نے ٹپک آبپاشی اسکیم سے فائدہ حاصل کیا اور پانی کے حصول کی سعی کی۔اس عمل کی وجہ سے زراعت ،سیاحت وغیرہ کے شعبوں میں بھی اضافہ ہوا ۔ بناس دیوی اور 100 میگاواٹ کا الٹرا میگا سولر پلانٹ نے بھی اپنا کمال دکھایا۔ نل سے پینے کا پانی ہر گھر تک پہنچے اس کی کوشش رشی کیش بھائی کررہے تھے، ہڈیوں کی بیماری سے بچنے کا کام ہم نے کیا ہے ، جن لوگوں نے اس میں اپنا تعاون کیا ہے ، ان کا میں تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
یہاں پر دو شخصیات موجود ہیں وہ بخوبی جانتے ہوں گے جب میں 17سے 18سال قبل وزیر اعلیٰ بنا تھا تو میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پانی پر تبادلہ خیال کرتا تھا۔یہ سارے کھیت تالاب کی طرح بھرجاتے ہیں ، انہیں بند کروایئے ، اس کے بدلے ٹپک آبپاشی اسکیم کو اپنائیں ،تب وہ لوگ میری بات سن کرسوچتے تھے کہ اس کو زراعت کے بارے میں کیا جانکاری ہوگی ۔ یہ چائے بیچنے والا کھیت کے بارے میں کیا جانتا ہوگا لیکن میں ان کے پیچھے لگا رہا اور پوری طرح ان کے پیچھے پڑا رہا اور میرے لئے اطمینان کی بات ہے کہ بزرگوں نے میری بات تسلیم کی اور آج بناس کا ٹھا میں ٹپک یعنی قطرہ آبپاشی ، مائیکو آبپاشی کے معاملے میں پورے ملک میں شہرت حاصل کی ہے۔ سچائی کا راستہ کتنا وسیع ہے ، یہ اس کی ایک مثال ہے۔ ہماری ان کوششوں کو دنیا کے کئی اداروں نے تسلیم کیا اور ایوارڈ سے نوازا ۔ یہ علاقہ آج ترقی کی نئی داستان لکھ رہا ہے ۔ آج بناس کا ٹھا کی چارلاکھ ہیکٹئر اراضی پر ٹپک آبپاشی اسکیم پر کام ہورہا ہے اور اس کی وجہ سے پانی کی سطح میں زیادہ گراوٹ نہیں آئی ہے ۔جو بچے مستقبل میں پیدا ہوں گے ان کی زندگی بچانے کا یہ نیک کام ہم نے کیا ہے۔اس لئے بناس کانٹھا ، پاٹن ، مہسانہ کے لوگوں کو دل سے سلام پیش کرتا ہوں ۔ آپ سبھی نے یہ جوسارا کام کیا ہے، راجستھان کے اس وقت کے اور آج کے موجودہ وزیر اعلیٰ کچھ وقت قبل ، یہاں آکر یہ اپیل کررہے تھے کہ انہوں نے مجھ سے تحریری مکتوب کے ذریعہ سجلام سفلام کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت میں نے ان سے کہا تھا کہ بناس کانٹھا کے لوگ پانی کے مسئلے سے پریشان ہیں ، آپ کو جو بھی مخالفت کرنی ہے وہ میرے خلاف کریں ، میں سجلام سفلام اسکیم کا نفاذ کرکے ہی رہوں گا اور میں نے کیا بھی۔19-20 سال میں سجلام سفلام کے لئے سیکڑوں کِمی ریچارج پینال کی تعمیر ہوئی اور زمین میں پانی سطح سے اوپر آیا ۔اسی طرح ہم نے پانی بھی بچایا اور اس کے لئے پائپ لائن کا استعمال کیا۔ تالاب بھرنے کے لئے پائپ سے پانی لے جاتے تھے اور اب دو پائپ لائن اسی طرح بنے گی ، اس کی مددسے ایک ہزار سے زیادہ گاؤں کے تالابوں کو بھرا جائے گا۔
ہمارا مکتیشور ڈیم ، کڑماوا تالاب ، دونوں کو پائپ لائن سے جوڑ کر پوری طرح پانی دیا جائے گا، جو بالائی والے علاقے ہیں ، وہاں پر بھی پانی کی ضرورت ہے ، ہم بجلی کے بڑے پمپ لگاکر پانی کو لفٹ کرکے اوپر لے جائیں گے اور بعد میں سبھی کے لئے پانی کی تقسیم کریں گے۔اس کے علاوہ ہم کانگرج ، دیودھر تحصیل کی پریشانیوں کو بھی دور کریں گے ۔ واؤ سمسری گاؤں اور تحصیل یہ ایسے علاقے ہیں ، جو بالائی حصوں میں بسے ہوئے ہیں، ان کے لئے نہروں کا نیٹ ورک پہنچانا مشکل ہے ۔ اب سوئی گاؤں کی پریشانی بھی ختم ہوگی اور نرمدا کے پانی کی تقسیم کے لئے کینال اور ڈسٹریبیوشن کے نیٹ ورک کی بھی تعمیر ہوگی۔اس کی وجہ سے سوئی گاؤں اور تحصیل سمیت درجنوں گاؤں میں پانی کی فراہمی ممکن ہوگی ۔سب سے زیادہ کتھرا ،دنتے واڑ ہ پائپ لائن ، پاٹن اور بناس کانٹھا کی چھ تحصیل کو فائدہ ملے گا۔
مستقبل قریب میں مکتیشور ڈیم اور کڑماوا تالاب میں ماں نرمدا کا پانی آنے والا ہے، جس کی وجہ سے بناس کانٹھا ، وڑگام ، کھیرالو ،پاٹن ، سدھ پور اور مہسانہ کے تمام علاقوں میں پانی کی کمی کے مسئلے کو کم کرنے میں بڑ ی مدد ملے گی۔ ہم گجراتی پانی کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔ گجرات اور راجستھا ن کے عوام اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ہمارے یہاں پانی کو ن پہنچاتا ہے ۔ اگر کوئی پانی کی فراہمی کا بندوبست کرتا ہے تو پورا گاؤں اس کا احترام کرتا ہے۔اگر کسی نے گاؤں کے اندر درخت کے نیچے مٹکا رکھا ہو اور اس مٹکے میں کوئی روزانہ پانی بھررہا ہو تو گاؤں والے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ کتنا خدمات گار ہے ۔ ہم نے تو رودر دھام کے بارے میں بھی سنا ہے اور جہاں تک پانی کی بات ہے ، اس پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارا لاکھا ونجارا کوکون بھول سکتا ہے،جس کی وجہ سے آج جہاں بھی پانی کے کام ہوئے ہیں ، وہاں پر کسی نے لاکھا ونجارا کا نہ چہرہ دیکھا ہے نہ ہی اسے اس گاؤں کی جانکاری ہے ، جہاں پر یہ کام ہوا ۔ لاکھا ونجارا کا صرف نام سنا ہے ، جس نے چھوٹی سی پانی کی باوری بنائی اوراسی کام کو لوگ ابھی تک بھول نہیں پائے ہیں۔ جو شخص کسی لئے پانی کی فراہمی کرتا ہے ،اس کو نیک شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ لاکھا ونجارا آج الیکشن میں کھڑا ہوجائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی ۔ پانی کی ہی یہ طاقت ہے کہ جو پانی لاتا ہے ، امرت لاتا ہے ۔ جو امرت لاتا ہے وہ پورے معاشرے کو غیر فاتح بنادیتا ہے۔
بھائیو بہنوں!
پانی کی وجہ سے زراعت اور مویشی پروری کے تمام شعبوں میں بھی بہتری آئی ہے۔پھل اور سبزیوں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی مارکیٹنگ ہورہی ہے ۔ کچھ وقت قبل بناس ڈیری میں ہماری آمد ہوئی تھی ، جہاں پر آلو کی پروسیسنگ کا بڑا کا م شروع ہوا ہے، اب حکومت ہند بھی ڈبہ بند خوراک کے لئے مدد کررہی ہے ۔ حکومت ہند سکھی منڈل ، کسان کی صنعت کی یونین کی بھی مدد کررہی ہے ۔ حکومت کولڈ اسٹوریج بنانے اور فوڈ پروسیسنگ کا پلانٹ تیار کرنے کےلئے چھوٹے چھوٹے اداروں کی بھی مدد کرکے کسانوں کی طاقت بڑھانے پر کام کررہی ہے۔ انار کےجوس کی فیکٹریوں میں کسانو ں کا بھی حصہ ہے۔ جہاں سکھی منڈلی کام کرتے ہیں اور ان کو بھی اس کا فائدہ ملتا ہے۔ پھل ، سبزیاں ، اچار ، مربہ ، چٹنی سمیت بہت ساری پیداوار اب گھر گھر میں تیار ہونے لگی ہیں اور اس کی لیبلنگ کرکے بازاروں میں فروخت کیا جارہا ہے۔ حکومت نے اس طرح کی صنعت کوفروغ دینے میں گاؤں گاؤں کی بہنوں کی منڈلیوں کو جو قرض ملتا ہے اس کی حد دوگنی کردی ہے۔ میری یہ بہنیں کام کریں گی اور ان کے ہاتھ میں پیسے آئیں گے تو وہ دوگنا کام کریں گی ۔ اتنا ہی نہیں ہمارے قبائلی علاقے ، جہاں ہم نے ون دھن سینٹر کھولے ہیں تاکہ ہماری بہنیں جنگل میں پیدا ہونے والی چیزوں کو فروخت کرکے اچھی قیمت حاصل کریں ۔
بہت سارے کسان بھائیوں نے ان فوائد کے بارے میں مکتوب لکھ کر بتایا کہ اس سے ہمیں کتنا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پی ایم سمان کسان ندھی اور ہمارے شمالی گجرات میں کسان کا مطلب ہوتا ہے دو بیگہ یا ڈھائی بیگہ کی زمین یعنی وہ چھوٹے کسان جنہوں نے بینک سے قرض بھی حاصل نہ کیا ہو، ان کو پی ایم سمان کسان ندھی میں سال میں تین بار دو دو ہزار روپے ملتے ہیں ،جس کی وجہ سے انہیں زراعت میں بڑی مدد ملتی ہے۔اس کام میں کسی طر ح کی بدعنوانی نہیں ہوتی ہے اور اس کام میں دلی سے ایک بار بٹن دباؤ تو پیسہ براہ راست آپ کے کھاتے میں پہنچ جاتا ہے۔ہم نے ابھی کسان بھائیوں کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے کہ کھاد کا فائدہ ہمارے کسانوں کو ہو ۔اس کے لئے ہم نے یوریا اور دیگر فرٹیلائزر کے الگ الگ نام کی وجہ سے اور قیمت کے کم زیادہ ہونے کی وجہ سے متعدد مرتبہ کسانوں کو پریشانی ہوتی تھی ، اس پریشانی کو ہم نے ختم کردیا ۔ اب صرف ایک نام سے ہی کھاد ملے گا اور اس کا نام رکھا گیا ہے بھارت ۔ان سبھی فرٹیلائزر کا نام بھارت رکھنے سے بدعنوانی کے سارے دروازے بندہوگئے ہیں۔ہماری سرکار غیر ممالک سے ایک بوری یوریا دو ہزارروپے سے زیادہ کی قیمت میں درآمدکرتی ہے لیکن کسانوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ہم دو ہزار کی تھیلی لاکر 260 روپے میں فروخت کررہے ہیں تاکہ کسانوں کی فصل پیلی نہ ہو، اس کی ہم فکر کرتے ہیں۔
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہورہی ہے کہ آج بناس ڈیری گجرات ہی نہیں بلکہ راجستھان ، ہریانہ ، آندھرا پردیش اور جھارکھنڈ بھی موجود ہے۔ آج بناس ڈیری مویشیوں کے چارے کا بھی انتظام کرتی ہے۔ بناس ڈیری نے دودھ کے علاوہ دودھ سے جو مختلف چیزیں بنتی ہیں ،اس کا بھی بازار کھڑا کیا ہے۔ ہماری حکومت ڈیری اور مویشی پروری کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لئے متعدد اقدامات کررہی ہے۔ جانوروں کی صحیح ڈھنگ سے دیکھ بھال ہو اس کے لئے بھی ہمیں مسلسل فکر ہوتی ہے۔اب صرف جانوروں کے دودھ سے ہی نہیں بلکہ اس کے گوبر سے بھی کمائی ہورہی ہے۔دودھ دینے والے جانوروں کو چھوڑنا نہ پڑے اس کے لئے بھارت سرکار نے گوور دھن اسکیم پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔گجرات میں گورنر کی مدد سے یہاں کے کسان قدرتی کاشت کی طر ف گامزن ہیں۔ یوریا اور کیمکل سے پاک کھیتی اور اس کی وجہ سے ہمارے جانوروں کے گوبر بھی استعمال میں آنے لگے ہیں۔ہمارے یہاں بناس کانٹھا میں گوبر میں سے جو کچرہ نکلتا ہے ،اس سے بایو گیس ، بایو سی این جی جیسی دیگر بڑی اسکیموں پر کام ہورہا ہے اور اب اس سے گاڑیاں چلتی ہیں اور بجلی بھی پیدا ہوتی ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت ہو ،اس سمت میں ہزاروں پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ ہماری ڈیری ، ہمارے گوبر اوراس میں سے گیس تیار کرکے اقتصادی ترقی اورعوام کی بھلائی کے لئے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ حیاتیاتی کھاد کسانوں کو کس طرح ملے ، اس کے لئے بھی کام کیا جارہا ہے۔کیونکہ اب کسان کیمیکل ڈال کر مادر وطن کو ختم نہیں کرناچاہتے ہیں ۔ میرے کسان بھی مادر وطن کی خدمت کرنے لگے ہیں۔وہ اس چیز کی فکر کرنے لگے ہیں کہ بھلے ہی پیداوار کم ہو لیکن کیمیکل کا استعمال نہیں کرنا ہے ۔اس کے لئے وہ گوبر فیکٹریوں کا سہارا لے رہے ہیں ، جہاں ان کو حیاتیاتی کھاد مل رہی ہے جس سے ان کی زمین کو کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے۔
بھائیو بہنوں!
دہائیوں سے اس دشوار گزار حالات سے نبرد آزما ہمارا یہ خطہ آج پورے ملک کی سکیورٹی کا کوَچ بن رہا ہے ۔آپ کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ڈیسا میں پروگرام کے انعقاد کا موقع ملاتھا۔ ڈیسا میں فضائیہ کا بہت بڑا مرکز رہا ہے ۔اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ہزاروں کروڑروپے کی سرمایہ کاری ہونے والی ہے اور یہ پورا خطہ سکیورٹی کا بہت بڑا مرکز ہوگا جس کی وجہ سے روز گار کے مواقع پیداہوں گے ۔ نڑ ا بیٹ میں سرحد کے دیدار کے لئے جس طرح کا کام کیا گیا وہ پورے ہندوستان کے لئے ایک مثال بن گیا ہے ۔کس طرح گاؤں کی ترقی کی جاتی ہے ،اس کی ایک مثال نڑا بیٹ ہے ۔ہم نے دوردراز کے گاؤں میں این سی سی اور سرحدی گاؤں میں وائبریٹ ولیج کی اسکیم کو متعارف کرایا ۔سرحدی گاؤں کے لئے حکومت ہند خصوصی بجٹ فراہم کررہی ہے ۔
بھائیو بہنوں!
ڈبل انجن کی حکومت سرحدی گاؤں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اسی لئے بجٹ میں وائبرینٹ بارڈر ولیج جیسی اسیکم کا اعلان کیا گیا۔ بناس کانٹھا کے تقریباََ سبھی علاقوں کو ان پروگراموں سے فائدہ حاصل ہوگا۔کچھ وقت قبل میں بھج آیا تھا اور بھج میں ہم نے زلزلے کے دوران ہلاک شدگان کی یاد میں کچھ کے بھجیا ڈونگری پر اسمرتی ون بنایا تھا۔ پورے گجرات میں 13000 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اس میں بناس کانٹھا اور پاٹن کے لوگ بھی شامل تھے۔ ان کے نام وہاں آویزاں کئے گئے ہیں ۔ان تمام کے نام سے وہاں ایک پودہ بھی لگایا گیا ہے اور دنیا بھر کے لوگ وہاں اس منظر کا دیدار کرنے کے لئے آئیں ،اس کے لئے یہ یادگار تیار کیا گیاہے ۔ بناس کانٹھا اور پاٹن اضلاع کے لوگوں سے میری اپیل ہے کہ جن لوگوں نے اپنے کنبے کے افراد کو گنوایا ہے ، وہ ایک بار ضرور ان لوگوں کے دیدار کے لئے یہاں آئیں اور دوسروں کو بھی یہاں آنے کی ترغیب دیں ۔ بناس ڈیری ، یہ کام اچھی طرح کرسکتی ہے اور وہاں پر پھول چڑھائیں ۔اس عمل سے ان کے کنبے کو اطمینان ملے گا کہ حکومت ان کو بھولی نہیں ہے ۔ بیس سال کے بعد بھی انہیں یاد کرکے کام کررہی ہے ۔ اس طرح کے بہت سارے کام ملک کے فخر میں اضافہ کررہے ہیں۔ عوام کے اعتماد میں اضافے کے لئے حکومت ہند کام کررہی ہے ۔
ہمارا ایک ہی نعرہ ہے ، سب کا ساتھ سب کا وکاس ،سب کا وشواس سب کا پریاس ۔غریب ،متاثرین ،دلت ، پسماندہ اور قبائلی طبقے کی ترقی کے لئے کام کرنا ہے ۔شروع سے ہی گجرات اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ ہندوستان کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے گجرات کی بھی ترقی ضروری ہوگی۔ ترقی یافتہ ریاست بن کر ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ، یہ کام ہم کررہے ہیں ۔ آپ نےدیکھا ہوگا کہ کل بڑودہ میں ہم نے طیارہ بنانے کی تیاری شروع کردی ہے ۔ ایک وقت تھا جب سائیکل نہیں بنتی تھی اور آج ہمارے ملک میں طیارے تیار ہورہے ہیں۔اس سے آپ کے بچوں کو فائدہ ملے گا ۔لیکن کچھ لوگوں کو اس کام سے بڑی تکلیف ہے ۔ میں نے آج دو اخباردیکھے ۔ ان دو نو ں اخباروں میں کانگریس کا اشتہار ہے ۔ اب آپ سوچئے کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کا یوم پیدائش ہے اور سردار صاحب کا انہوں نے ‘‘س’’ تک نہیں لکھا ہے ۔ آپ کے سردار صاحب جواہر لال نہرو کی حکومت میں وزیر داخلہ تھے، ہندوستان اور کانگریس کے بڑ ےلیڈر تھے۔ ان کے یوم پیدائش پر گجرات میں اشتہار دیتے ہیں ۔اس میں سردار صاحب کی کوئی تصویر نہیں ، کوئی نام نہیں ۔اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ ہم سبھی لوگوں کو جوڑیں گے۔ پہلے آپ سردار صاحب کو جوڑئے ، کانگریس کو سردار ولبھ بھائی پٹیل سے کیا پریشانی ہے؟ گجرات ،سردار صاحب کی توہین کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ کانگریس کو سردار صاحب کی توہین کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انہیں اس بات کی تکلیف ہے کہ بی جے پی حکومت کس طر ح اتنا اچھا کام کررہی ہے۔
بھائیو بہنوں!
ہمیں گجرات کو آگے بڑھاناہے ۔سردار صاحب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہے اور ان کے آشیرواد سے ملک کو آگے بڑھانا ہے نیز گجرات پوری شدومد کے ساتھ آگے بڑھے اور آنے والی نسلوں کو ساری سہولت دستیاب ہو،اس کے لئے ہمیں کام کرنا ہے۔
میرے ساتھ بولئے ۔
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
بھارت ماتا کی جے
سبھی کاشکریہ !