آپ کی منصوبہ بندی کو جان کر، آپ کے وژن کو سن کر، آپ تمام ہی حضرات کا جوش و خروش دیکھ کر، میرا حوصلہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔
ساتھیو!
آج ملک کے دو عظیم سپوتوں، بھارت رتن آنجہانی جے پرکاش نارائن جی اور بھارت رتن آنجہانی ناناجی دیشمکھ کی یوم پیدائش بھی ہے۔ آزادی کے بعد کے بھارت کو سمت دینے میں ان دونوں عظیم شخصیات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر، سب کی کوششوں سے، ملک میں کیسی بڑی اور انقلابی تبدیلیاں آتی ہیں ، ان کی زندگی کا فلسفہ ہمیں آج بھی حوصلہ بخشتا ہے۔ میں جے پرکاش نارائن جی اور ناناجی دیشمکھ جی کو نمن کرتا ہوں، انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو!
21ویں صدی کا بھارت آج جس جوش و ولولے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، جو اصلاحات کر رہا ہے ، اس کی بنیاد ہے بھارت کی استعداد و لیاقت پر اٹوٹ اعتماد و یقین۔ بھارت کی صلاحیت و قوت دنیا کے تمام ممالک سے ذرا بھی کم نہیں ہے۔ اس لیاقت و صلاحیت کے ذریعہ آگے آنے والی تمام طرح کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے حکومت کسی طرح کی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ آج جس طرح کی فیصلہ سازی کرنے والی حکومت بھارت میں ہے، اتنی پہلے کبھی نہیں رہی ۔ اسپیس سیکٹر اور اسپیس ٹیک میں جس طرح کی بڑی بڑی اصلاحات کی جا رہی ہیں ، وہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ میں انڈین اسپیس ایسو سی ایشن - آئی ایس اے کی تشکیل کے لیے آپ تمام ہی حضرات کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اپنی طرف سے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
ساتھیو!
جب ہم خلائی شعبے میں اصلاحات کی بات کرتے ہیں، تو ہمارے مقاصد چار ستونوں پر مشتمل ہیں۔ پہلا، پرائیویٹ سیکٹر کو جدت طرازی کی پوری آزادی، دوسرا،حکومت کا فعال و متحرک شراکت دار کے طور پر کردار، تیسرا، مستقبل کے لیے نوجوانوں کو تیار کرنا، چوتھا، خلائی شعبے کو عام آدمی کی ترقی اور خوشحالی کے ذرائع کے طور پر دیکھنا۔ ان چاروں ستونوں کی بنیاد اپنے آپ میں غیرمعمولی امکانات کے درَوازے کھولتی ہے۔
ساتھیو!
آپ اس بات کو بھی تسلیم کریں گے کہ پہلے اسپیس سیکٹر کا مطلب ہی ہوتا تھا حکومت!لیکن ہم نے پہلے اس ذہنیت کو تبدیل کیا۔اور پھر اسپیس سیکٹر میں جدت طرازی کے لیے حکومت، اسٹارٹ اپ، ایک دوسرے سے تعاون اور اسپیس کا منتر دیا۔ یہ نئی سوچ ، نیا منتر اس لیے ضروری ہے کیوں کہ بھارت کے لیے اب یہ کم درجے اور معمولی کی جدت طرازی کا وقت نہیں ہے۔ یہ وقت زبردست اور جامع جدت طرازی کا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب حکومت ہینڈلر کی نہیں ، فعال و متحرک شراکت دار کا کردار ادا کرے گی۔ اس لیے، آج دفاعی شعبے سے لے کر خلائی شعبے تک، حکومت اپنی قابلیت و مہارت کا اشتراک کر رہی ہے، پرائیویٹ سیکٹر کے لیے لانچ پیڈ مہیا کرا رہی ہے۔ آج اسرو(خلائی تحقیق ادارہ)کی سہولیات کو پرائیویٹ سیکٹر کے لیے کھول رہی ہے۔ اب یہ یقینی بنایا جائے گا کہ اس شعبے میں جو تکنیک تیار کی جا چکی ہے اسے پرائیویٹ سیکٹر کو بھی منتقل کیا جائے۔ ہمارے جو نوجوان جدت طراز(تخلیق کار) ہیں، انہیں آلات خریدنے کے لیے وقت اور توانائی نہ خرچ کرنی پڑے، اس لیے حکومت اسپیس ایسٹ (خلائی شعبے سے متعلق سازو سامان)اور سروسز(خدمات)کے لیے ایگریگیٹر(فروغ کار) کا رول بھی ادا کرے گی۔
ساتھیو!
پرائیویٹ سیکٹر کی شراکت کو بہتر بنانے کے لیے ملک نے انِ اسپیس کو بھی قائم کیا ہے۔ اِن اسپیس، خلائی شعبے سے منسلک سبھی معاملوں میں ایک سنگل ونڈو، آزاد و خود مختار ایجنسی کے طور پر کام کرےگی۔ اس سے پرائیویٹ سیکٹر کو ، اس سے جڑے اسٹیک ہولڈرز کو، اس کے پروجکٹوں کو مزید رفتار ملے گی۔
ساتھیو!
ہمارا اسپیس سیکٹر، 130 کروڑ باشندگان ملک کی ترقی کا ایک اہم وسیلہ ہے۔ ہمارے لیے خلا کا شعبہ یعنی، عام لوگوں کے لیے بہتر میپنگ، امیجنگ اور رابطے کی سہولیات کا بڑا ذریعہ ہے۔ ہمارے لیے اسپیس سیکٹر یعنی، کاروباری افراد کے لیے شپمنٹ سے لے کر ڈیلیوری تک بہتر اسپیڈ، اسپیس سیکٹر یعنی ، کسانوں اور ماہی گیروں کے لیے موسم کی درست پیشن گوئی کرنے، بہتر تحفظ اور آمدنی۔ ہمارے لیے اسپیس سیکٹر کا مطلب علم الموسمیات (موسموں کی صحیح جانکاری کا علم) کی، ماحولیات کی بہتر نگرانی، قدرتی آفات کی درست اور بروقت پیشن گوئی، ہزاروں لاکھوں لوگوں کی زندگی کا تحفظ! ملک کا یہی ہدف اب انڈین اسپیس ایسو سی ایشن کے بھی مشترکہ ہدف بن گئے ہیں۔
ساتھیو!
آج ملک میں ایک ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا مشاہدہ کر رہا ہے کیوں کہ آج ملک کا وژن واضح ہے۔ یہ وژن ہے آتم نربھر بھارت (خود کفیل ملک)کا۔ آتم نربھر بھارت ابھیان صرف ایک وژن نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی، منصوبہ بند اور مربوط معاشی پالیسی بھی ہے۔ ایک ایسی حکمت عملی جو بھارت کے کاروباریوں، بھارت کے نوجوانوں کی مہارت کی صلاحیت کو بڑھا کر، بھارت کو گلوبل مینو فیکچرنگ پاور ہاؤس بنائے۔ ایک ایسی حکمت عملی جو بھارت کی تکنیکی صلاحیت کو بنیاد بناکر ، بھارت کو جدت طرازی کا گلوبل سینٹر بنائے۔ ایک ایسی حکمت عملی ، جو گلوبل ڈیولپمنٹ میں بڑا کردار ادا کرے ، بھارت کے فروغ انسانی وسائل اور استعداد اور وقار کو عالمی سطح پر فروغ دے۔ اور اس لیے آج بھارت اپنے یہاں جو نگرانی کی فضا سازگار کر رہا ہے، اس میں اس بات کا خاص خیال رکھ رہا ہے کہ ملک کے مفاد ات اور اسٹیک ہولڈر کے مفادات، دونوں کو ترجیح دی جائے۔ آتم نربھر بھارت ابھیان کے تحت بھارت نے دفاعی شعبے، کوئلہ اور کان کنی جیسے سیکٹر پہلے ہی کھول دیے ہیں۔ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کے تئیں حکومت ایک واضح پالیسی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور جہاں حکومت کی ضرورت نہیں ہے، ایسے زیادہ تر سیکٹرس کو پرائیویٹ انٹرپرائزز کے لیے کھول رہی ہے۔ ابھی ایئر انڈیا سے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے وہ ہماری ترجیحات اور سنجیدگی کو واضح کرتا ہے۔
ساتھیو!
گزشتہ سالو ں میں ہماری توجہ ،نئی ٹکنالوجی سے متعلق تحقیق وترقی کے ساتھ ہی اس کو عام انسان تک پہنچانے پر بھی رہی ہے۔ گزشتہ سات سال میں تو خلائی ٹکنالوجی کو ہم نے لاسٹ مائل ڈلیوری ، لیکج فری اور ٹرانسپیرنٹ گورننس کا اہم ٹول بنایا ہے۔ غریبوں کے گھروں ، سڑکوں اور دوسرے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں جیو ٹیگنگ کا استعمال ہو ، سیٹلائٹ امیجری سے ترقیاتی کاموں کی نگرانی ہو، فصل بیمہ اسکیم کے تحت تیز ی سے کلیم سیٹل کرنا ہو، این اے وی آئی سی سسٹم سے کروڑوں ماہی گیرو ں کی مدد ہو ، ڈزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق پلاننگ ہو ، ہرسطح پر اسپیس ٹکنالوجی ، گورننس کو پروایکٹو اور شفاف بنانے میں مدد کررہی ہے۔
ساتھیو!
ٹکنالوجی جب سب کی پہنچ میں ہوتی ہے تب کیسی تبدیلی ہوسکتی ہے اس کی ایک مزید مثال ڈجیٹل ٹکنالوجی آج اگر بھارت دنیا کی ٹاپ کی ڈجیٹل اکنامیز میں سے ایک ہے ، تو اس کے پیچھے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ڈاٹا کی طاقت کو غریب سے غریب تک ہی پہنچا یا ہے ،اس لئے آج جب ہم آخری سرے پر کھڑے ہیں، ہمیں یاد رکھنا ہے کہ مستقبل کی ٹکنالوجی سے ہمیں دوردراز کے گاؤوں سے غریب سے غریب کو بہترین ریموٹ ہیلتھ کیا ، بہتر ورچوئل ایجوکیشن ، قدرتی آفات سے بہتر اور موثر حفاظت ایسے دیگر حل ملک کے ہر کونے اور ہر طبقے تک پہنچانا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس میں اسپیس ٹکنالوجی کا بہت تعاون ہوسکتا ہے۔
ساتھیو!
بھارت دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں سے ایک ہے ، جس کے پاس خلاء میں اینڈ ٹو اینڈ کیپابلٹی ہے ۔ ہم نے خلائی ٹکنالوجی کے سبھی پہلوؤں جیسے سیٹلائٹ ، لانچ وھیکلز ،ایپلی کیشنز ، سے لے کر انٹر پلینری مشن میں مہارت حاصل کی ہے۔ ہم نے افی سی اینسی کو اپنے برانڈ کا اہم حصہ بنایا ہے ۔ آج ہم انفارمیشن ایج سے اسپیس ایج کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔تب اس افی سی اینسی کی براڈ ویلیو کو ہمیں اور مضبوط کرنا ہے۔ اسپیس ایکسپوریشن کا پروسیز ہو یا پھر اسپیس ٹکنالوجی کی ایپلی کیشن ، افی سی اینسی اور ایفارڈی بلیٹی کو ہمیں مسلسل فروغ دینا ہے ۔ اپنی طاقت سے جب ہم آگے بڑھیں گے تو گلوبل اسپیس سکیٹر میں ہماری حصہ داری کا بڑھنا طے ہے ۔ اب ہمیں اسپیس کمپوننٹس کے سپلائیر سے آگے بڑھ کر اینڈ ٹو اینڈ اسپیس سسٹم کی سپلائی چین کا حصہ بننا ہے ۔ یہ آپ سبھی اسٹیٹ ہولڈروں کی شراکت سے ہی ممکن ہے۔ ایک شراکت دار کے طورپر حکومت ہرسطح پر انڈسٹری کو ، نوجوان جدت طرازوں کو اور اسٹارٹ اپس کی مدد کررہی ہے اور آگے بھی کرتی رہے گی۔
ساتھیو!
اسٹارٹ اپ کا ایک مضبوط ایکوسسٹم تیار کرنے کے لئے پلیٹ فارم اپروچ بہت ضروری ہے ۔ ایسی اپروچ جہاں ایک اوپن ایکسیز پبلک کنٹرولڈ پلیٹ فارم حکومت بناتی ہے اور پھر اس کو انڈسٹری اور انٹر پرائزز کے لئے مہیا کیا جاتا ہے۔ اس بیسک پلیٹ فارم پر آنٹر پرینیور نئے سالیوشن تیار کرتے ہیں ۔ ڈجیٹل پیمنٹس کے لئے حکومت نے سب سے پہلے یوپی آئی پلیٹ فارم بنایا آج اسی پلیٹ فارم پر فٹنس اسٹارٹ اپ کا نیٹ ورک مضبوط ہورہا ہے ۔ اسپیس سکیٹر میں بھی ایسے ہی پلیٹ فارم اپروچ کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ،اسرو کی فیسلیٹیز تک رسائی ہو، ان اسپیس ہو ، نیو اسپیس انڈیا لمٹیڈ ہو ،ایسے ہر پلیٹ فارم سے اسٹارٹ اپس اور پرائیویٹ سیکٹر کو بڑی حمایت مل رہی ہے ۔ جیو اسپیشیل میبنگ سیکٹر سے متعلق قوانین کو بھی آسان کیا گیا ہے تاکہ اسٹارٹ اپ اور پرائیویٹ انٹر پرائز نئے امکانات کی تلاش کرسکیں ۔ ڈرونز کے تعلق سے بھی ایسے ہی پلیٹ فارم تیار کئے جارہے ہیں تاکہ الگ الگ سیکٹر میں ڈرون ٹکنالوجی کا استعمال ہوسکے۔
ساتھیو!
آج 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن بھی ہوتا ہے ۔ ہم میں سے کون بھول سکتا ہے ، بھارت کے مریخ مشن کی وہ تصویریں جب بھارت کی خاتون سائنسداں اس مشن کی کامیابی کا جشن منارہی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اسپیس سیکٹر میں ہورہی اصلاحات سے اس شعبے میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہوگا۔
ساتھیو!
آج یہاں سبھی ساتھیوں نے دیگر امور پر اپنے مشورے دئے ۔ آپ کی جانکاریاں اور مشورے ایسے وقت میں آئے ہیں جب اسپیس کام پالیسی اور ریموٹ سینسنگ پالیسی کو حتمی شکل دینے کا کام آخری مرحلے میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سبھی اسٹیک ہولڈر کی سرگرم مصروفیات کو ایک بہتر پالیسی جلد ہی ملے گی۔
ساتھیو!
آج ہم جو فیصلہ لیں گے ، جو اسٹریٹجک اصلاح کریں گے ، ان کا اثر آنے والی نسلوں پر ہوگا اور آنے والے 25سالوں پر ہوگا ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بیسویں صدی میں خلاء پر راج کرنے کی فطرت نے دنیا کے ممالک کو کس طرح تقسیم کیا ۔ اب اکیسویں صدی میں اسپیس دنیا کو جوڑنے میں ، متحد کرنے میں اہم کردار ادا کرے ، یہ بھارت کو یقینی بنانا ہوگا، جب بھارت اپنی آزادی کے 100سال منائے گا تو اس میں بھارت جس اونچائی پر ہوگا اس میں آپ سبھی کا ، ہم سبھی کا تعاون اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس احساس اور ذمہ داری کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔سب کی کوشش سے ہی عوامی مفاد اور ملک کے مفاد میں کٹنگ ایج ٹکنالوجی کے لئے خلاء کے بے شمار امکانا ت کو ہم نئی اونچائیوں تک پہنچائیں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔
بہت شکریہ !