کرناٹک کے گورنر جناب تھاور چند جی گہلوت، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی، مرکزی کابینہ میں شامل میرے ساتھی، کرناٹک حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل اے، اور بڑی تعداد میں آئے ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو!
بھارت کی سمندری طاقت کے لیے آج کا دن بہت بڑا ہے۔ ملک کی فوجی سلامتی ہو یا قوم کی اقتصادی سلامتی، بھارت آج بڑے مواقع دیکھ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کوچی میں بھارت کے پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز کی لانچنگ نے ہر بھارتی کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔
اور اب یہاں منگلور میں 3 ہزار 700 کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹوں کا افتتاح، سنگ بنیاد اور بھومی پوجن کیا گیا ہے۔ تاریخی منگلور بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ریفائنری اور ہمارے ماہی گیروں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کئی پروجیکٹوں کا افتتاح اور سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ میں آپ سب کو، کرناٹک کے لوگوں کو ان پروجیکٹوں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔
ان پروجیکٹوں سے کرناٹک میں کاروبار اور صنعت کو طاقت ملے گی۔ کاروبار کرنے میں آسانی کو مزید تقویت ملے گی۔ کرناٹک کے کسانوں اور ماہی گیروں کی مصنوعات کے لیے بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچنا آسان ہو جائے گا، جو خصوصی طور پر ایک ضلع ایک پروڈکٹ کے تحت تیار کیے جا رہے ہیں۔
ساتھیو،
اس بار یوم آزادی پر، میں نے لال قلعہ سے جن پانچ عزائم کے بارے میں بات کی ہے، ان میں سے پہلا ایک ترقی یافتہ بھارت کی تخلیق ہے۔ ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ملک کے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں میک ان انڈیا کو بڑھانا بہت ضروری ہے۔ ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ ہماری برآمدات بڑھیں، دنیا میں ہماری مصنوعات لاگت کے لحاظ سے مسابقتی ہوں۔ یہ سستے اور آسان لاجسٹکس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اسی سوچ کے ساتھ ملک کے بنیادی ڈھانچے پر پچھلے 8 سالوں سے بے مثال کام ہو رہا ہے۔ آج ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں کسی بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹ پر کام نہ ہو رہا ہو۔ سرحدی ریاستوں کے روڈ انفراسٹرکچر کو بھارت مالا سے مضبوط کیا جا رہا ہے، جبکہ ساحلی انفراسٹرکچر کو ساگر مالا سے قوت مل رہی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
گذشتہ برسوں کے دوران، ملک نے بندرگاہ پر مبنی ترقی کو، ترقی کا ایک اہم منتر بنا یا ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں بھارت کی بندرگاہوں کی صلاحیت صرف 8 سالوں میں تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ یعنی سال 2014 تک ہمارے یہاں جتنی پورٹ کی گنجائش بنائی گئی تھی، گذشتہ 8 سالوں میں اتنی ہی تعداد میں ان میں نئی گنجائش شامل کی گئی ہے۔
منگلور پورٹ میں ٹیکنالوجی سے متعلق جو نئی سہولیات شامل کی گئی ہیں اس سے اس کی صلاحیت اور کارکردگی دونوں میں اضافہ ہوگا۔ آج، گیس اور سیال کارگو کے ذخیرہ سے متعلق چار پروجیکٹ، جن کا یہاں سنگ بنیاد رکھا گیا ہے، کرناٹک اور ملک کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہونے والے ہیں۔ اس سے خوردنی تیل، ایل پی جی گیس، بٹومین کی درآمدی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
ساتھیو،
امرت کال میں، بھارت سبز ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ سبز ترقی اور سبز ملازمتیں، یہ نئے مواقع ہیں۔ آج یہاں ریفائنری میں شامل کی گئی نئی سہولیات بھی ہماری ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔ آج ہماری ریفائنری کا انحصار دریا کے پانی پر ہے۔ ڈی سیلینیشن پلانٹ سے ریفائنری کا دریائی پانی پر انحصار کم ہو جائے گا۔
بھائیو اور بہنو،
پچھلے 8 سالوں میں جس طرح سے ملک نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دی ہے اس سے کرناٹک کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ کرناٹک ساگر مالا اسکیم سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والوں میں سے ایک ہے۔ کرناٹک میں، صرف نیشنل ہائی وے کے علاقے میں، پچھلے 8 سالوں میں، تقریباً 70 ہزار کروڑ کے پروجیکٹوں پر کام ہوا ہے۔ یہی نہیں، ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے پروجیکٹ پائپ لائن میں ہیں۔ بنگلور-چنئی ایکسپریس وے، بنگلور-میسور روڈ ہائی وے کی چھ لیننگ، بنگلور کو پونے سے جوڑنے والا گرین فیلڈ کوریڈور، بنگلور سیٹلائٹ رنگ روڈ، اس طرح کے بہت سے پروجیکٹوں پر کام جاری ہے۔
ریلوے میں تو کرناٹک کے بجٹ میں 2014 سے پہلے کے مقابلے میں 4 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ریلوے لائنوں کو چوڑا کرنے کا کام گزشتہ 8 سالوں میں 4 گنا سے زیادہ رفتار سے ہوا ہے۔ کرناٹک میں ریلوے لائنوں کی برق کاری کا ایک بڑا حصہ پچھلے 8 سالوں میں مکمل کیا گیا ہے۔
ساتھیو،
آج کا بھارت جدید انفراسٹرکچر کی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دے رہا ہے، کیونکہ یہ ترقی بھارت کی تعمیر کا راستہ ہے۔ جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر سے سہولیات میں اضافے کے ساتھ بڑے پیمانے پر روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ امرت کال میں ہماری بڑے عزائم کی تکمیل کا بھی یہی طریقہ ہے۔
بھائیو اور بہنو،
ملک کی تیز رفتار ترقی کے لیے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ملک کے عوام کی توانائی صحیح سمت لگے ۔ جب عوام کی توانائی بنیادی سہولیات جٹانےمیں لگی ہو تو اس سے ملک کی ترقی کی رفتار بھی متاثر ہوتی ہے۔ پکے گھر، بیت الخلا، صاف پانی، بجلی اور دھوئیں سے پاک کچن آج کے دور میں باوقار زندگی گزارنے کے لیے فطری ضرورتیں ہیں۔
ہماری ڈبل انجن والی حکومت ان سہولیات پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں ملک میں غریبوں کے لیے تین کروڑ سے زیادہ گھر بنائے گئے ہیں۔ کرناٹک میں بھی غریبوں کے لیے 8 لاکھ سے زیادہ پکے مکانات کو منظوری دی گئی ہے۔ ہزاروں متوسط طبقے کے خاندانوں کو اپنے گھر بنانے کے لیے کروڑوں روپے کی مدد بھی دی گئی ہے۔
جل جیون مشن کے تحت صرف تین سالوں میں ملک کے 6 کروڑ سے زیادہ گھرانوں کو پائپ سے پانی فراہم کیا گیا ہے۔ پہلی بار، کرناٹک میں 30 لاکھ سے زیادہ دیہی گھرانوں تک پائپ سے پانی پہنچا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری بہنیں، بیٹیاں ان سہولیات سے سب سے زیادہ مستفید ہورہی ہیں۔
ساتھیو،
غریبوں کی بہت بڑی ضرورت ہے، علاج کی سستی سہولیات اور سماجی تحفظ۔ جب غریب مشکل میں ہوتا ہے تو پورا خاندان اور بعض اوقات آنے والی نسلیں بھی مشکل میں پڑ جاتی ہیں۔ آیوشمان بھارت یوجنا نے غریبوں کو اس پریشانی سے نجات دلائی ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت ملک کے تقریباً 4 کروڑ غریب لوگوں کا اسپتال میں داخل ہونے کے دوران مفت علاج ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے غریبوں کے تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے خرچ ہونے سے بچ گئے ہیں۔ کرناٹک کے 30 لاکھ سے زیادہ غریب مریضوں کو بھی آیوشمان بھارت کا فائدہ ملا ہے اور انہوں نے 4000 کروڑ روپے سے زیادہ کی بچت بھی کی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک ہمارا یہ حال رہا ہے کہ ترقی کا فائدہ صرف وسائل سے مالامال لوگوں کو ہی ملا ہے۔ پہلی بار ،جو لوگ معاشی طور پر کمزور تھے انہیں ترقی کے ثمرات سے جوڑا گیا ہے۔ ہماری حکومت بھی ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جنہیں مالی طور پر چھوٹا سمجھ کر بھلا دیا گیا۔ چھوٹے کسان ہوں، چھوٹے تاجر ہوں، ماہی گیر ہوں، ریہڑی پٹری ،ٹھیلے والے ہوں، ایسے کروڑوں لوگوں کو پہلی بار ملک کی ترقی کا فائدہ ملنا شروع ہواہے، وہ ترقی کے دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔
پی ایم کسان سمان ندھی کے تحت ملک کے 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کے بینک کھاتوں میں تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے منتقل کیے گئے ہیں۔ کرناٹک کے 55 لاکھ سے زیادہ چھوٹے کسانوں کو تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے ملے ہیں۔ پی ایم سواندھی کے تحت ملک کے 35 لاکھ اسٹریٹ وینڈرز کو مالی مدد ملی ہے۔ کرناٹک کے تقریباً 2 لاکھ اسٹریٹ وینڈرز نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔
مدرا یوجنا کے ذریعے ملک بھر میں چھوٹے کاروباریوں کو 20 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض دیا گیا ہے۔ کرناٹک کے لاکھوں چھوٹے کاروباریوں کو بھی تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپے کا بینک قرض دیا گیا ہے۔
ساتھیو،
ڈبل انجن کی حکومت ساحلی پٹی میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں، بندرگاہوں کے آس پاس کے دیہاتوں اور ہمارے ماہی گیروں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی کوششیں کر رہی ہے۔ تھوڑی دیر پہلے یہاں کے ماہی پروری سے جڑے ساتھیوں کو کسان کریڈٹ کارڈ دیے گئے تھے۔ گہرے سمندر میں ماہی گیری کے لیے ضروری کشتیاں، جدید جہاز بھی فراہم کیے گئے ہیں۔
ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور روزی روٹی میں اضافےکے لیے پہلی بار ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں، چاہے وہ پی ایم متسیہ سمپدا یوجنا کے تحت سبسڈی ہو یا ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت۔
آج کولائی میں ماہی گیری کی بندرگاہ کا بھومی پوجن بھی کیا گیا ہے۔ سالہا سال سے ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہمارے بھائی بہن اس کا مطالبہ کررہے تھے۔ جب یہ تیار ہو جائے گا تو ماہی گیروں کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس منصوبے سے سیکڑوں ماہی گیر خاندانوں کو مدد ملے گی، کئی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔
ساتھیو،
ڈبل انجن والی حکومت ملک کے عوام کی امنگوں کی تکمیل کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ ملک کے عوام کی خواہش ہماری حکومت کے لیے عوام کے حکم کی طرح ہے۔ یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ بھارت میں عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ ہونا چاہئے۔ آج ملک کے کونے کونے میں جدید انفرااسٹرکچر بنایا جا رہا ہے۔
یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ شہر میٹرو کے ذریعے منسلک ہوں۔ ہماری حکومت کی کوششوں کی وجہ سے پچھلے آٹھ سالوں میں میٹرو سٹیز کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔
ملک کے عوام کی خواہش ہے کہ انہیں ہوائی پرواز کی سہولت آسانی سے ملے۔ اڑان اسکیم کے تحت اب تک ایک کروڑ سے زیادہ مسافر ہوائی جہازوں میں سفر کر چکے ہیں۔
یہ ملک کے لوگوں کی خواہش ہے کہ بھارت میں صاف ستھری معیشت ہو۔ آج ڈیجیٹل ادائیگی ایک تاریخی سطح پر ہے اور بھیم - یوپی آئی جیسی ہماری اختراعات دنیا کی توجہ مبذول کر رہی ہیں۔
آج ملک کے لوگ تیز رفتار انٹرنیٹ چاہتے ہیں، سستا انٹرنیٹ چاہتے ہیں، ملک کے کونے کونے میں انٹرنیٹ چاہتے ہیں۔ آج تقریباً 6 لاکھ کلومیٹر آپٹیکل فائبر بچھا کر گرام پنچایتوں کو جوڑا جا رہا ہے۔
5جی کی سہولت اس میدان میں ایک نیا انقلاب لانے جا رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ کرناٹک کی ڈبل انجن حکومت بھی تیز رفتاری سے لوگوں کی ضرورتوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ساتھیو،
بھارت کے پاس ساڑھے سات ہزار کلومیٹر سے زیادہ کوسٹل لائن ہے۔ ہمیں ملک کی اس صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ یہاں کا کراولی ساحل اور مغربی گھاٹ بھی اپنی سیاحت کے لیے بہت مشہور ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ نیو منگلور پورٹ ہر کروز سیزن میں اوسطاً 25,000 سیاحوں کو ہینڈل کرتا ہے۔ اس میں غیر ملکیوں کی بھی بڑی تعداد ہے۔ یعنی امکانات بہت زیادہ ہیں اور جیسے جیسے بھارت میں متوسط طبقے کی طاقت بڑھ رہی ہے بھارت میں کروز ٹورزم کے امکانات زیادہ بڑھ رہے ہیں۔
جب سیاحت بڑھتی ہے تو اس سے ہماری کاٹیج انڈسٹریز، ہمارے کاریگروں، گاؤں کی صنعتوں، ریہڑی پٹری والےبھائیوں اور بہنوں، آٹو رکشہ ڈرائیوروں، ٹیکسی ڈرائیوروں، جیسے معاشرے کے چھوٹے طبقات کو سیاحت سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ نیو منگلور پورٹ کروز ٹورزم کو فروغ دینے کے لیے مسلسل نئی سہولیات کا اضافہ کر رہا ہے۔
ساتھیو،
جب کورونا بحران شروع ہوا تو میں نے تباہی کو موقع/آپدا کو اوسر میں بدلنے کی بات کی۔ آج ملک نے اس تباہی کو موقع میں بدل کر دکھایا ہے۔ جی ڈی پی کے جو اعداد و شمار کچھ دن پہلے آئے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ بھارت نے کورونا کے دور میں جو پالیسیاں بنائیں، جو فیصلے لیے گئے، وہ بہت اہم تھے۔ پچھلے سال، بہت ساری عالمی رکاوٹوں کے باوجود، بھارت نے کل 670 بلین ڈالر یعنی 50 لاکھ کروڑ روپے کی برآمد کی۔ ہر چیلنج پر قابو پاتے ہوئے بھارت نے 418 بلین ڈالر یعنی 31 لاکھ کروڑ روپے کی تجارتی برآمدات کا نیا ریکارڈ بنایا۔
آج ملک کے گروتھ انجن سے جڑا ہر شعبہ پوری صلاحیت سے چل پڑا ہے۔ سروس سیکٹر بھی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ پی ایل آئی اسکیموں کا اثر مینوفیکچرنگ سیکٹر پر نظر آنے لگا ہے۔ موبائل فون سمیت الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کا پورا شعبہ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
3 سال میں کھلونوں کی درآمد میں جتنی کمی آئی ہے، برآمدات میں تقریباً اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کا براہ راست فائدہ ملک کے ساحلی علاقوں کو ہو رہا ہے، جو بھارتی سامان کی برآمد کے لیے اپنے وسائل مہیا کراتے ہیں، جن میں منگلورو جیسی بڑی بندرگاہیں شامل ہیں۔
ساتھیو،
حکومت کی کوششوں سے ملک میں ساحلی ٹریفک میں بھی گزشتہ برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک کی مختلف بندرگاہوں پر سہولیات اور وسائل میں اضافے کی وجہ سے اب ساحلی نقل و حرکت آسان ہو گئی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ بندرگاہوں کا رابطہ بہتر ہو، اس میں تیزی لائی جائے۔ لہذا، پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے تحت، ریلوے اور سڑکوں کے ڈھائی سو سے زیادہ پروجیکٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو بغیر کسی رکاوٹ کے بندرگاہ کنیکٹوٹی میں مدد کریں گے۔
بھائیو اور بہنو،
اپنی بہادری اور تجارت کے لیے معروف ، یہ ساحلی خطہ شاندار صلاحیتوں سے بھرا ہوا ہے۔ بھارت کے بہت سے کاروباری لوگ یہاں رہتے ہیں۔ بھارت کے بہت سے خوبصورت جزیرے اور پہاڑیاں کرناٹک ہی میں ہیں۔ بھارت کے بہت سے مشہور مندر اور زیارت گاہیں یہاں واقع ہیں۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، میں رانی ابکا اور رانی چینہ بھیرا دیوی کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ بھارت کی سرزمین، بھارت کے کاروبار کو غلامی سے بچانے کے لیے ان کی جدوجہد بے مثال تھی۔ آج برآمدات کے میدان میں آگے بڑھ رہے بھارت کیلئے یہ بہادر خواتین ایک عظیم ترغیب ہیں۔
کرناٹک کے لوگوں نے، ہمارے نوجوان ساتھیوں نے جس طرح ہر گھر ترنگا مہم کو کامیاب بنایا، یہ بھی اسی بھرپور روایت کی توسیع ہے۔ کرناٹک کے کراولی علاقے میں آکر، میں ہمیشہ حب الوطنی، قومی عزم کی اس توانائی سے متاثر ہوتا ہوں۔ دعا ہے کہ منگلورو میں نظر آنے والی یہ توانائی اسی طرح کی ترقی کی راہیں روشن کرتی رہے، اس خواہش کے ساتھ، میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے ساتھ اونچی آواز میں بولئے –
بھارت ماتا کی – جئے!
بھارت ماتا کی – جئے!
بھارت ماتا کی – جئے!
بہت بہت شکریہ!