It is a very special day for entire India: PM Modi at Bodo Peace Accord ceremony in Kokrajhar
Bodo Peace Accord done by bringing on all stakeholders together with a sincere effort to resolve the decades old crisis: PM Modi
After we came to power, most regions of Tripura, Mizoram, Meghalaya, and Arunachal Pradesh are free from AFSPA: PM

بھارت ماتا کی جئے ….

بھارت ماتا کی جئے ….

بھارت ماتا کی جئے ….

اسٹیج پرموجود آسام کے گورنر ، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی ، مختلف بورڈ اور تنظیموں سے  منسلک رہنما اوریہاں موجود  این ڈی ایف بی کے مختلف دھڑوں کے قائدین ، ​ یہاں آئے ہوئےمہمان اور بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لئے آئے ہوئے میرے پیارے  بھائیو اور بہنو !

میں کئی بار آسام آیا ہوں۔یہاں پر بھی یہاں آیا ہوں۔ اس  پورے خطے میں میرایہاں آناجانا کئی برسوں سے ، کئی دہائیوں سے  رہا ۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی ،  بار بار آپ کے درشن کے لئے آتارہاہوں ۔ لیکن آج جو جوش ، جو  امنگ میں آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں ، وہ یہاں کے  'ارونائی' اور 'ڈوخونا' کے رنگا رنگ ماحول سے بھی  زیادہ تسلی بخش ہے۔

عوامی زندگی میں ، سیاسی زندگی میں بہت سی ریلیاں  دیکھی ہیں  ، بہت  ریلیوں سے   خطاب کیا ہے  ، لیکن مجھے اپنی زندگی میں کبھی بھی اتنا بڑا عوامی سیلاب  دیکھنے کی سعادت نہیں ملی تھی ۔ جو لوگ  سیاسی زندگی کے پنڈت ہیں ، وہ یقینی طور پر اس کے بارے میں  کبھی نہ کبھی کہیں گے کہ

 آزادی کے بعد ہندوستان کی  سب سے بڑی کوئی سیاسی ریلی ہوئی  تو آج یہ وکرم آپ نے قائم کردیاہے ، یہ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں ہیلی کاپٹروں سے دیکھ رہا تھا ، ہیلی کاپٹروں سے بھی  کہیں نظرپہنچاؤ،لوگ ہی لوگ ہی نظرآ  رہے تھے۔ میں تو دیکھ رہا تھا کہ اس پل پر کتنے لوگ کھڑے ہیں ،  کہیں کو ئی گر جائے گا  تو مجھے دکھ ہو گا ، اتنے سارے لوگ کھڑے ہیں۔

بھائیواوربہنو!  آپ اتنی بڑی تعداد میں جب آشیرواد دینے آئے ہیں  ، اتنی بڑی تعداد میں یہاں کی  مائیں بہنیں  آشیرواد  دینے آئیں ہیں ۔ تو میرا اعتماد  کچھ اور بڑھ گیا ہے۔ کبھی کبھی  لوگ کہتے ہیں،ڈنڈامارنے کی  بات کرتے ہیں ، لیکن  جس مودی کو اتنی بڑی تعداد میں  ماؤں اور بہنو کا تحفظ ملاہو  اس پرکتنے ہی ڈنڈے گرجائیں ، اس کو کچھ نہیں ہوتا۔ میں آپ سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ماؤں اوربہنو ، میرے بھائیو اور بہنوں ، میرے  نوجوانو ، میں آج  دل کی گہرائی سے آپ کو  گلے لگانے  آیاہوں ، آسام کے میرے  پیارے بھائیوں اور بہنوں کو نیا  اعتماد  دینے کے لئے آیا ہوں۔ کل ، پورے ملک نے دیکھا ہے کہ کس طرح سے  گاوں  گاوں ، آپ نے موٹر سائیکل پر ریلیاں نکالیں ، پورے علاقے میں چراغ روشن کرکے دیوالی منائی۔ شاید دیوالی کے  وقت بھی ،  اتنے  چراغ ہوں گے کہ نہیں جلتے  ہوں گے۔ یہ مجھے تعجب ہوتاہے ۔میں  کل  دیکھ رہا تھا ، سوشل میڈیامیں بھی چاروں طرف نے آپ نے جو چراغ جلائے اس کے نظارے ٹی وی میں سوشل میڈیا میں بھرپورنظرآرہے تھے  ۔ ساراہندوستان آپ ہی کی چرچاکررہاتھا۔ بھائیواوربہنو، یہ کوئی ہزاروں ، لاکھوں چراغ جلانے کا واقعہ نہیں ہے بلکہ ملک کے اس اہم جغرافیائی علاقے میں ایک نئی روشنی ، نئے اجالے کی شروعات ہوئی ہے ۔

بھائیو اور بہنو ، آج کا دن ان ہزاروں شہدوں  کو یاد کرنے کا ہے جنہوں نے  ملک کے لئے اپنے فرض کی راہ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آج کا دن بوڈوفا   اوپیندر ناتھ برہما ، روپ ناتھ برہما ،  جیسے یہاں کی باصلاحیت قیادت کے  تعاون کو یاد رکھنے کا  ہے۔ ان کو سلام کرنے کا ہے ۔آج  کا دن اس سمجھوتے کے لئے بیحد مثبت کرداراداکرنے والے  آل بوڈو اسٹوڈنٹس یونین (اے بی ایس یو) ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ (این ڈی ایف بی ) سے وابستہ تمام نوجوان ساتھیوں ، بی ٹی سی کے سربراہ جناب ہگراما ماہی لوراورآسام سرکارکی عہدبستگی ۔آپ سب نہ صرف میری طرف سے مبارکباد کے  حقدارہیں لیکن پورے ہندوستان کی طرف سے ں مبارکباد کے  حقدار ہیں۔ آج 130 کروڑ ہندوستانی آپ کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ آپ کو سلام کررہے ہیں ،آپ کا  شکریہ اداکررہے ہیں ۔

ساتھیو ، آج کا دن آپ سبھی بوڈوساتھیوں کا اس پورے علاقے اور ہرسماج کے گورو ، دانشوروں ،ادیبوں کی کاوشوں کاجشن منانے کا یہ موقع ہے ۔ فخرکرنے کا موقع ہے ۔  آپ سبھی  کے تعاون سے ہی  مستقل امن کا ، مستقل شانتی  کا یہ راستہ نکل پایا ہے۔ آج کا دن آسام سمیت پورے مشرق وسطی کے لئے اکیسویں صدی میں ایک نئی شروعات ، ایک نئی صبح ، ایک نئی تحریک کو  استقبال کرنے کا ایک موقع ہے۔ آج کا دن یہ عزم کرنے کا ہے کہ ترقی اور اعتماد کی اصل منزل کو مضبوط تر بنانا ہے۔ اب اس دھرتی پر تشدد کے اندھیرے کو واپس نہیں آنے دیناہے۔ اب اس دھرتی پر ، کسی ماں کے بیٹے ، کسی ماں کی بیٹی ، کسی بہن کے بھائی ، کسی بھائی کی بہن کا خون نہیں گرے گا ، تشدد نہیں ہوگا۔ آج وہ مائیں بھی مجھے آشیرواد دے رہی ہیں۔وہ  بہنیں بھی مجھے  آشیرواد دے رہی ہیں جن کا بیٹا بندوق لے کر جنگل میں گھومتا رہتا تھا۔ کبھی موت کے سائے میں جیتاتھا۔ آج وہ اپنی ماں کی گود میں سر رکھ کر سکون کی نیندسورہاہے ۔ مجھے اس ماں کے آشیرواد مل رہے ہیں  ، اس بہن  کے آشیرواد مل رہے  ہیں۔ تصور کیجئے  کہ گولیوں کو اتنی دہائیوں  تک دن رات گولیاں چلتی رہی تھیں ۔ آج اس زندگی سے نجات  کا راستہ کھل گیا ہے۔ میں نیوانڈیاکے نئے  عہدمیں  آپ سب کا ، امن پسند آسام کا ، امن و ترقی پسندپورے  شمال مشرق کادل کی گہرائیوں سے استقبال کرتاہوں ، سلام کرتاہوں ۔

ساتھیو ، شمال مشرق میں امن اورترقی کا نیا باب جڑنا بہت تاریخی ہے ۔ ایسے وقت میں اوریہ بہت ہی خوشی کا موقع ہے کہ جب ملک مہاتماگاندھی جی 150واں یوم پیدائش منارہاہو تب اس تاریخی لمحے کی مطابقت مزید بڑھ جاتی ہے اوریہ صرف ہندوستان کی نہیں دنیا کے لئے تشدد کا راستہ چھوڑکرکے عدم تشدد کا راستہ چننے کے لئے تحریک کا مقام آج بناہے ۔ مہاتماگاندھی کہتے تھے کہ تشدد کے راستے پرچل کرہمیں بھی حاصل ہوتاہے وہ سبھی کو قبول ہوتاہے ۔ اب آسام میں کئی ساتھیوں نے امن اور عدم تشدد کا راستہ قبول کرنے کے ساتھ ہی جمہوریت کو قبول کیاہے ۔ بھارت کے آئین کو سرآنکھوں پر بٹھایاہے ۔

ساتھیو، مجھے بتایاگیاہے کہ آج جب کوکراجھار میں اس تاریخی امن سمجھوتے کاجشن منانے کے لئے ہم اکٹھاہوئے ہیں تب گولاگھاٹ میں شری منت شنکردیوسنگھ کا سالانہ اجلاس بھی چل رہاہے ۔

مائی  مہاپروکھ شریمنتوہونکور دیوولوئی گوبھیرپرونیپات جاسیسو

موئی لوگوت اودھی بے کھون کھونورو ہوفولتاکامنا کوریلو

( میں عظیم شخصیت شنکردیو جی کو سلام کرتاہوں ۔ میں اجلاس کی کامیابی کی تمنا کرتاہوں)۔

بھائیواوربہنو، شریمنت شنکر دیوجی نے آسام کی زبان اور ادب کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کو ، پوری دنیا کو مثالی زندگی جینے کا راستہ دکھایا۔ یہ شنکر دیوجی ہی تھے جنھوں نے آسام سمیت پوری دنیا کو کہاکہ

ستیہ شوچ اہنسا  شکھی بے سمدم

سکھ دکھ شیت اوشن آت ہیب سم

یعنی ستیہ ، شوچ ، اہنسا ، شم ، دم وغیرہ کی تعلیم حاصل کرو۔ سکھ دکھ، گرمی سردی کو سہنے کے لئے خود کو تیارکرو۔ان کے ان خیالات میں فرد کی خود کی ترقی کے ساتھ ہی سماج کی ترقی کا بھی پیغام پنہاں ہے ۔ آج دہائیوں بعد اس پورے علاقے میں فرد کی ترقی کا ، سماج کی ترقی کا یہی راستہ مضبوط ہواہے ۔

بھائیوااوربہنو،میں بوڈولینڈ موومنٹ کا حصہ رہے سبھی لوگوں کا  ملک کی اصل دھارامیں شامل ہونے پر بہت بہت استقبال کرتاہوں ۔ 5دہائیوں کے بعد پورے جذبے کے ساتھ بوڈولینڈ سے جڑے ہرساتھی کی توقعات اور امید وں کو احترام ملا ہے ۔ ہرگروہ نے مل کر مستقل امن کے لئے طاقت اورترقی کے لئے تشدد کے سلسلے پر روک لگائی ہے ۔ میں ملک کو یہ بھی جانکاری دینا چاہتاہوں کیونکہ میرے پیارے بھائی اوربہنو یہ پوراہندوستان اس موقع کو دیکھ رہاہے ۔ سارے ٹی وی چینل آج اپنے کیمرے آپ پر لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ آپ نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔ ہندوستان میں ایک نیا یقین پیداکیاہے ۔ امن کے راستے کو ایک طاقت دی ہے  آپ لوگوں نے ۔

بھائیواوربہنو، میں آپ سب کو مبارکباد دیناچاہتاہوں کہ اب اس آندولن سے وابستہ ہرمانگ ختم ہوگئی ہے اب اس پر پوری طرح روک لگ گئی ہے ۔ 1993میں جوسمجھوتہ ہواتھا 2003میں جوسمجھوتہ ہواتھا ، اس کے بعد پوری طرح امن قائم نہیں ہوپایا تھا اب مرکزی سرکار، آسام سرکار، اوربوڈوآندلن سے جڑی تنظیموں نے جس تاریخی سمجھوتے پررضامندی ظاہرکی ہے جس پردستخط کئے ہیں اس کے بعد اب کوئی مانگ نہیں بچی ہے ۔ اور اب ترقی ہی پہلی ترجیح ہے اورآخری بھی وہی ہے ۔

ساتھیو، مجھ پربھروسہ کرنا میں آ پ کا ، آپ کے دکھ درد آپ کی امید ، آرزو، آپ کی توقعات ، آپ کے بچوں کا روشن مستقبل مجھ سے جوہوسکے گا اس کو کرنے میں میں کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا کیونکہ میں جانتاہوں بندوق چھوڑ کر، بم اورپستول کا راستہ چھوڑ کر جب آپ لوٹ کرآئے ہیں ، کیسے حالات میں آپ آئے ہوں گے یہ میں جانتاہوں ۔ اندازہ لگاسکتاہوں اوراس لئے اس امن کے راستے ایک کانٹابھی اگرآپ کو چبھ نہ جائے ، اس کی فکر میں کروں گا کیونکہ یہ امن کا راستہ ، ایک پیارکا عزت کا راستہ ، یہ عدم تشددکاراستہ ، آپ دیکھنا، پوراآسام آپ کے دلوں کو جیت لے گا۔ پوراہندوستان آپ کے دلوں کو جیت لے گاکیونکہ آپ نے راستہ صحیح چنا ہے ۔

ساتھیو ، اس سمجھوتے کا فاہدہ بوڈونسل کے ساتھیوں کے ساتھ ہی دوسرے سماج کے لوگوں کو بھی ہوگا۔ کیونکہ اس سمجھوتے کے تحت بوڈو علاقائی کونسل کے حقوق کا دائرہ بڑھایاگیاہے ۔مزید مضبوط کیاگیاہے ۔اس سمجھوتے میں سبھی کی جیت ہوئی ہے اورسب سے بڑی بات ہے امن کی جیت ہوئی ہے ، انسانیت کی جیت ہوئی ہے ، ابھی آپ نے کھڑے ہوکرکے  ،تالی بجاکرکے میری عزت کی ، میں چاہتاہوں کہ آپ کھڑے ہوکرکے ایک بارپھرتالی بجائیں ، میرے لئے نہیں ، امن کے لئے ، میرے لئے نہیں ، امن کے لئے ، میں آپ سب کا بہت شکرگذارہوں ۔

اکارڈ کے تحت بی ٹی اے ڈی میں آنے والے علاقوں کی سرحدیں طے کرنے کے لئے کمیشن بھی بنایا جائے گا۔ اس خطے کو 1500 کروڑ روپے کا اسپیشل ڈیولپمنٹ پیکیج ملے گا، جس کا بہت بڑا فائدہ کوکرا جھار، چیرانگ، بکسا اور اُدال گڑی جیسے اضلاع کو بھی پہنچے گا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بوڈو قبائل کے ہر حق کا بوڈو ثقافت کا فروغ یقینی ہوگا اور ان کا تحفظ یقینی ہوگا۔ اس معاہدے کے بعد اس خطے میں سیاسی، معاشی، تعلیمی ہر طرح سے ترقی ہونے والی ہے۔

میرے بھائیو اور بہنو! اب حکومت کی یہ کوشش ہے کہ آسام اکارڈ (معاہدہ) کی دفعہ 6 کو بھی جلد از جلد نافذ کیا جائے گا۔ میں آسام کے لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد مرکزی حکومت اور تیز رفتار سے کارروائی کرے گی۔ ہم لٹکانے اور بھٹکانے والے لوگ نہیں ہیں۔ ہم ذمے داری لینے والی عادت والے لوگ ہیں، اس لئے کئی سالوں سے آسام کی جو بات لٹکی پڑی تھی، اٹکی پڑی تھی، بھٹکادی گئی تھی اس کو ہم پورا کرکے رہیں گے۔

دوستو! آج جب بوڈو خطے میں نئی امیدیں، نئے خواب اور نیا حوصلہ پیدا ہوا ہے تو آپ سب کی ذمے داری اور بڑھ گئی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بوڈو ٹیریٹوریل کونسل (بوڈو علاقائی کونسل) اب یہاں کے ہر سماج کو ساتھ لے کر کسی تفریق کے بغیر سب کو ساتھ لے کر ترقی کا ایک نیا ماڈل تیار کرے گی۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ حکومت آسام نے بوڈو زبان اور تہذیب و وراثت کے تئیں کچھ بڑے فیصلے لئے ہیں اور بڑی اسکیمیں بنائی ہیں۔ میں ریاستی حکومت کو اس کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بوڈو ٹیریٹوریل کونسل، حکومت آسام اور مرکزی حکومت تینوں ساتھ مل کر سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کو ایک نئی جہت بخشیں گے۔ بھائیو اور بہنو! اس سے آسام بھی مضبوط ہوگا اور ہندوستان شریشٹھ بھارت کا جذبہ بھی مضبوط ہوگا۔

دوستو! اکیسویں صدی کا بھارت اب یہ عزم مصمم کرچکا ہے کہ ہمیں ماضی کے مسائل میں الجھ کر نہیں رہنا ہے۔ آج ملک مشکل سے مشکل چیلنجوں کا حل چاہتا ہے۔ ملک کے سامنے کتنے ہی چیلنج ہیں جنھیں کبھی سیاسی اسباب سے تو کبھی سماجی اسباب سے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ملک کے اندر علیحدہ علیحدہ علاقوں میں تشدد، عدم استحکام اور عدم اعتماد کو بڑھایا ہے۔

دہائیوں سے ملک ایسا ہی چل رہا تھا۔ نارتھ ایسٹ کا موضوع تو ایسا مانا جاتا تھا جسے کوئی ہاتھ لگانے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ تحریکیں چل رہی ہیں، چلنے دو۔ تشدد ہورہے ہیں، کسی طرح ان پر قابو حاصل کرلو۔ بس یہی اپروچ نارتھ ایسٹ کے معاملے میں تھا۔ میں مانتا ہوں کہ اس اپروچ میں شمال مشرق کے ہمارے کچھ بھائی بہنوں کو اس قدر دور کردیا تھا، اتنا دور کردیا تھا کہ ان کا آئین اور جمہوریت پر اعتماد ڈگمگانے لگا تھا۔ گزشتہ دہائیوں میں شمال مشرق میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ ہزاروں محافظ شہید ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، لاکھوں کبھی یہ دیکھ ہی نہیں پائے کہ ترقی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ یہ حقیقت پہلے کی سرکاریں بھی جانتی تھیں، سمجھتی تھیں، اعتراف بھی کرتی تھیں، لیکن اس حالت میں تبدیلی کیسے آئے اس سلسلے میں محنت کبھی نہیں کی گئی۔ اتنے بڑے جھنجھٹ میں کون ہاتھ لگائے، جیسے چل رہا ہے چلنے دو، یہی سوچ کر لوگ رہ جاتے تھے۔

بھائیو اور بہنو، قومی مفاد ہی سب سے اوپر ہو تو حالات کو ایسے ہی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا۔ شمال مشرق کا پورا معاملہ انتہائی حساس تھا، اس لئے ہم نے نئے اپروچ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے شمال مشرق کے الگ الگ علاقوں میں جذباتی پہل کو سمجھا، ان کی امیدوں کو سمجھا۔ یہاں رہ رہے لوگوں سے بہت اپنے پن کے ساتھ انھیں اپنا مانتے ہوئے گفت و شنید کا سلسلہ قائم کیا، ان میں اعتماد کا ماحول پیدا کیا، انھیں پرایا نہیں مانا، نہ آپ کو غیر مانا ہے، نہ آپ کے رہنماؤں کو غیر مانا، بلکہ اپنا مانا ہے۔ آج اسی کا نتیجہ ہے کہ شمال مشرق میں اوسطاً ہر سال ایک ہزار سے زائد افراد شورش کی وجہ سے اپنی زندگی گنواتے تھے، اب یہاں تقریباً پوری طرح امن قائم ہے اور شورش اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔

جس نارتھ ایسٹ میں ہر علاقے میں آرمڈ فورسیز اسپیشل پاور ایکٹ لگا ہوا تھا، اب ہمارے آنے کے بعد یہاں تری پورہ، میزورم اور اروناچل پردیش کا زیادہ تر حصہ اے ایف ایس پی اے  سے آزاد ہوچکا ہے۔ جس نارتھ ایسٹ میں صنعت کار سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا، انویسٹمنٹ نہیں ہوتا تھا، اب یہاں سرمایہ کاری شروع ہوئی ہے، نئی صنعت شروع ہوئی ہے۔

جس نارتھ ایسٹ میں صنعت کار سرمایہ کاری کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے، یہاں اب سرمایہ کاری شروع ہوئی ہے، نئی صنعتیں لگ رہی ہیں۔ جس نارتھ ایسٹ میں اپنے اپنے ہوم لینڈ کے لئے لڑائیاں ہوتی تھیں، اب یہاں ایک بھارت – شریشٹھ بھارت کا جذبہ مضبوط ہوا ہے۔ جس نارتھ ایسٹ میں تشدد کی وجہ سے ہزاروں لوگ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن گئے تھے، اب یہاں ان لوگوں کو پورے عزت اور وقار کے ساتھ بسنے کے نئے مواقع مہیا کرائے جارہے ہیں۔ جس نارتھ ایسٹ میں ملک کے باقی حصے کے لوگ جانے سے ڈرتے تھے، اب اسی کو اپنا نیکسٹ ٹورسٹ ڈسٹنیشن بنانے لگے ہیں۔

دوستو، یہ تبدیلی کیسے آئی؟ کیا صرف ایک دن میں آئی ہے؟ یہ پانچ سال کی کڑی محنت کا نتیجہ ہے۔ پہلے شمال مشرقی ریاستوں کو ریسیپنٹ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، آج ان کو ترقی کے گروتھ انجن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ پہلے نارتھ ایسٹ کی ریاستوں کو دہلی سے بہت دور سمجھا جاتا تھا، آج دہلی آپ کے دروازے پر آکر آپ کے سکھ دکھ کو ڈھونڈ رہی ہے اور مجھے ہی دیکھئے، مجھے اپنے بوڈو ساتھیوں سے، آسام کے لوگوں سے بات کرنی تھی، نئی دہلی سے بیٹھ کر پیغام نہیں بھیجا، بلکہ آپ کے درمیان آکر آپ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر آپ کا آشیرواد لے کر آج آپ سے جڑ رہا ہوں۔ اپنی حکومت کے وزیروں کے لئے تو باقاعدہ میں نے روسٹر بناکر یہ یقینی کیا ہے کہ ہر دس – پندرہ دن میں مرکزی حکومت کا کوئی نہ کوئی وزیر شمال مشرق ضرور جائے۔ رات کو قیام کرے گا، لوگوں سے ملاقات کرے گا، ان کے مسائل کو حل کرے گا۔ یہاں آکر ہم نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے کوشش کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت یہاں گزاریں، زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملیں، ان کے مسائل کو سمجھیں، ان کا حل تلاش کریں۔ میں اور میری حکومت لگاتار آپ کے درمیان آکر آپ کے مسائل کو سمجھ رہی ہے۔ براہ راست آپ سے فیڈ بیک لے کر مرکزی حکومت کی ضروری پالیسیاں بنارہی ہے۔

دوستو، تیرہویں مالی کمیشن کے دوران شمال مشرق کی آٹھ ریاستوں کو ملاکر 90 ہزار کروڑ روپے سے بھی کم ملتے تھے۔ چودہویں مالی کمیشن میں ہمارے آنے کے بعد یہ بڑھ کر تقریباً 3 لاکھ کروڑ روپے ملنا طے ہوا۔ کہاں 90 ہزار اور کہاں 3 لاکھ کروڑ روپے۔

گزشتہ تین چار سالوں کے دوران شمال مشرق میں 3 ہزار کلومیٹر سے زائد سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں۔ نئے نیشنل ہائی ویز منظور کئے گئے ہیں۔ نارتھ ایسٹ کے پورے نیٹ ورک کو براڈ گیج میں بدلا جاچکا ہے۔ شمال مشرق میں نئے ایئرپورٹ کی تعمیر اب پرانے ہوائی اڈوں کی جدید کاری کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔

شمال مشرق میں اتنی ندیاں ہیں، اتنا زیادہ آبی ذخائر ہیں، لیکن 2014 تک یہاں صرف ایک واٹروے تھا — ایک۔ پانی سے بھری ہوئی 365 دن بہنے والی ندیاں کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔ اب یہاں ایک درجن سے بھی زائد واٹروے پر کام ہورہا ہے۔ شمال مشرق کے یوتھ آف ایجوکیشن، اسکل اور سپورٹ کے نئے وسائل سے مستحکم بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ نارتھ ایسٹ کے طلبہ کے لئے دہلی میں اور بنگلورو میں نئے ہاسٹل کی تعمیر کا کام بھی ہوا ہے۔

دوستو، ریلوے اسٹیشن ہوں، نئے ریلوے روٹ ہوں، نئے ہوائی اڈے ہوں، نئے واٹر وے ہوں یا پھر انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کا معاملہ ہو، آج جتنا کام نارتھ ایسٹ میں ہورہا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہم دہائیوں پرانے لٹکے ہوئے پروجیکٹوں کو پورا کرنے کے ساتھ ہی نئے پروجیکٹ کو بھی تیزی سے پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تیزی سے مکمل ہوتے یہ پروجیکٹ شمال مشرق میں کنیکٹوٹی کو بہتر بنائیں گے، ٹورازم سیکٹر کو مستحکم کریں گے اور روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کریں گے۔ فی الحال پچھلے ہی مہینے شمال مشرق کی آٹھ ریاستوں میں چلنے والی گیس گرڈ پروجیکٹ کے لئے تقریباً 9 ہزار کروڑ روپے منظور کئے گئے ہیں۔

دوستو، انفرااسٹرکچر صرف سیمنٹ اور کنکریٹ کا جنگل نہیں ہوگا، اس کا انسانی اثر ہے اور اس سے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ کوئی ان کی فکر کرتا ہے۔ جب بوگی بیل پل جیسے دہائیوں سے لٹکے پروجیکٹ پورے ہونے سے لاکھوں لوگوں کو کنیکٹیوٹی ملتی ہے تو ان کا حکومت کے تئیں اعتماد بڑھتا ہے، بھروسہ پیدا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمہ جہت ترقی کے کاموں نے علیحدگی کو تعلق میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ علیحدگی نہیں صرف تعلق، اور جب تعلق ہوتا ہے تب ترقی کے فوائد سبھی کو یکساں طور پر پہنچتے ہیں تو لوگ ایک ساتھ کام کرنے کے لئے تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ جب لوگ ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔

دوستو، ایسا ہی ایک مسئلہ ہے برو-ریانگ قبائل کی بازآبادکاری کا۔ کچھ دن قبل ہی تری پورہ اور میزورم کے درمیان تعطل میں زندگی گزارنے کے لئے مجبور برو-ریانگ قبائل کی بازآبادکاری کا تاریخی معاہدہ ہوا ہے۔ تقریباً ڈھائی دہائی بعد وہ اس معاہدے سے ہزاروں خاندان کو اب اپنا مستقل گھر، مستقل پتہ ملنا یقینی ہوا ہے۔ برو-ریانگ قبائلی سماج کے ان ساتھیوں کو اچھی طرح بسانے کے لئے حکومت کے ذریعہ ایک خصوصی پیکیج دیا جائے گا۔

ساتھیو، آج ملک میں ہماری حکومت کی ایماندار کوششوں کی وجہ سے یہ جذبہ پیدا ہوا ہے کہ سب کے ساتھ میں ہی ملک کا مفاد ہے۔ اسی جذبے سے کچھ دن قبل گوہاٹی میں 8 علیحدہ علیحدہ گروپوں کے ساتھ تقریباً 600 کیڈرس نے تشدد کا راستہ ترک کرکے امن کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان کیڈرس نے جدید ترین اسلحہ کثیر مقدار میں دھماکہ خیز اور گولیوں کے ساتھ سرینڈر کیا ہے۔ اب ان کی مرکز اور ریاستی حکومت کی اسکیموں کے تحت بازآبادکاری کی جارہی ہے۔

دوستو، گزشتہ سال ہی نیشنل لبریشن فرنٹ آف تریپورہ (این ایل ایف ٹی) اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاہدہ بھی کافی اہم قدم تھا۔ این ایل ایف ٹی پر 1997 سے ہی پابندیاں عائد تھیں، برسوں تک یہ تنظیم تشدد کی راہ پر گامزن تھی۔ ہماری حکومت نے 2015 میں این ایل ایف ٹی کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کیا، انھیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ درمیان میں کچھ لوگوں کو رکھ کر ان سے مدد لی۔ اس کے کچھ وقت بعد یہ لوگ بھی جو بم، بندوق، پستول پر یقین رکھتے تھے، سب کچھ کو ترک کردیا اور تشدد کا عمل روک دیا تھا۔ لگاتار کوششوں کے نتیجے میں پچھلے سال 10 اگست کو ہوئے معاہدے کے بعد یہ تنظیم ہتھیار چھوڑنے اور بھارت کے آئین پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوگئی اور قومی دھارے میں آگئی ہے۔ اس معاہدے کے بعد این ایل ایف ٹی کے درجنوں کیڈٹس نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

بھائیو اور بہنو، ووٹ کے لئے، سیاسی مفادات کے لئے مسائل کو، مشکلوں کو برقرار رکھنے اور انھیں ٹالتے رہنے کا ایک بڑا نقصان آسام اور شمال مشرق کے ساتھ ملک کو ہوا ہے۔

دوستو، روڑے اٹکانے، رکاوٹیں اور دشواریاں پیدا کرنے کی اس سیاست سے ملک کے خلاف کام کرنے والی ذہنیت پیدا کی جارہی ہے، جو خیال اور رجحان، جو سیاست اور نفسیات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ایسے لوگ نہ تو ہندوستان کو جانتے ہیں اور نہ ہی آسام کو سمجھتے ہیں۔ آسام کا ہندوستان سے جڑاؤ دل سے ہے، روح سے ہے۔ آسام شریمنت شنکر دیو جی کے سنسکاروں کو جیتا ہے۔ شریمنت شنکر دیوجی کہتے ہیں،

کوٹی-کوٹی جنمانترے جاہار، کوٹی-کوٹی جنمانترے جاہار

آسے ماہا  پنُئے  راشی، سی سی کداچت منوشئے ہوئے ، بھارت وریشے آسی !!

یعنی جس شخص نے کئی بچوں کی پیدائش سے مسلسل ثواب کمایا ہے، وہی شخص اس بھارت ملک میں جنم لیتا ہے۔  یہ جذبہ آسام کے کونے کونے میں، آسام کے ذرہ ذرہ میں، آسام کے عوام میں ہے۔  اسی جذبے کےسبب  بھارت کے جدوجہد  آزادی سے لے کر بھارت کی تعمیر  نو میں آسام نے اپنا خون اور پسینہ بہایا ہے۔  یہ زمین آزادی کے لئے قربانی-تپسیا کرنے والوں کی زمین ہے۔  میں آج آسام کے ہر ساتھی کو یہ یقین دلانے آیا ہوں، کہ آسام مخالف، ملک مخالف ہر ذہنیت کو، اس کے حامیوں کو، ملک نہ برداشت کرے گا، نہ کبھی ملک معاف کرے گا۔

ساتھیو، یہی طاقتیں ہیں جو پوری طاقت سے آسام اور شمال مشرقی میں بھی افواہیں پھیلا رہی ہیں کہ سٹیزن امینڈ منٹ  ایکٹ – سی اے اے سے یہاں، باہر کے لوگ آ جائیں گے، باہر سے لوگ آکر بس جائیں گے۔  میں آسام کے لوگوں کو اس بات کا  یقین دلاتا ہوں کہ ایسا بھی کچھ بھی نہیں ہو گا۔

بھائیو اور بہنو، میں نے آسام میں طویل  عرصے تک یہاں کے لوگوں کے درمیان ایک عام بی جے پی کے کارکن کے طور پر کام کیا ہے۔  چھوٹے چھوٹے علاقوں کا میں  نے دورہ کیا ہوا ہیں اور اپنے قیام کے دوران جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا تھا، چلتے جاتے، تو ہمیشہ بھارت رتن بھوپین ہزاریکا جی کے مقبول ترین  گیت اکثر  و بیشتر میں اپنے ساتھیوں سے سنتا کرتا تھا۔  بھوپین ہزاریکا جی سے  میرا کچھ خاص لگاؤ بھی ہے ۔  ان کی وجہ سے ہے کہ میری پیدائش گجرات میں ہوئی اور بھارت رتن بھوپین ہزاریکا میرے گجرات کے داماد ہیں۔  اس کا بھی ہمیں فخر ہے۔  اور ان کے بیٹے، ان کے بچے آج بھی گجراتی بولتے ہیں اور اس لئے جب میں سنتا تھا تو   فخر محسوس ہوتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

گوٹئی جيبون بساریلیو، الیكھ دوكھ راتی،

اہم دیہر درے نیپاؤ، ایمان رہال ماٹی ۔ ۔

آسام جیسی ریاست ۔ آسام جیسی مٹی، یہاں کے لوگوں جتنا اپنا پن ملنا واقعی اپنے آپ میں بڑی خوش قسمت کی بات ہے۔  مجھے پتہ ہے کہ یہاں کے الگ الگ  سماج کے لوگ، تہذیب وثقافت، زبان-رہن سہن ، کھان پان، کتنے  مالا مال  ہیں۔  آپ کی توقعات ، آپ سکھ-دکھ، ہر بات کا بھی مجھے پورا عمل  ہے۔  جس طرح آپ نے سارے بھرم ختم کرکے ، ساری مطالبات  ختم کر کے ، بوڈو سماج سے منسلک ساتھی  ایک ساتھ آئے ہیں، مجھے امید ہے کہ دوسرے لوگوں کی بھی ساری غلط فہمیاں بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔

ساتھیو، گزشتہ 5 سال میں بھارت کی تاریخ اور حال میں  آسام  میں تعاون  کو پورے ملک میں پہنچانے کا کام ہوا ہے۔  پہلی بار قومی میڈیا میں آسام سمیت پورے نارتھ ایسٹ کی فن ثقافت، یہاں کے نوجوان ٹیلنٹ، یہاں کے اسپورٹنگ کلچر کو پورے ملک اور دنیا میں پروموٹ کیا گیا ہے۔  آپ کا پیار ،  آکا آشیرواد ، مجھے مسلسل آپ کے لئے  کام کے لئے ترغیب دیتا  رہے گا۔  یہ آشیرواد  کبھی بیکار نہیں جائیں گے کیونکہ آپ کے آشیرواد کی  طاقت تو بہت بڑی ہے۔  آپ اپنے صلاحیت  پر یقین رکھیں، اپنے اس ساتھی پر یقین  رکھیں اور ماں كمكھيا کے  کی مہربانیوں پر  یقین رکھیں۔  ماں كمكھيا کے  تئیں عقیدے اور آشیرواد ہمیں ترقی کی نئی بلندیوں تک  لے جائے گا۔

ساتھیو، گیتا میں بھگوان کرشن نے، پانڈو سے کہا تھا اور بہت بڑی اہم بات اور وہ بھی میدان جنگ میں کہی تھی، ہاتھ میں  ہتھیار تھے، جنگ جاری تھی۔  اس میدان  جنگ  سے بھگوان شری  کرشن نے کہا تھا، گیتا میں کہا ہے کہ-

نرور: سروبھوتیشو یا: س مامیتی  پانڈو ۔ ۔

یعنی کسی بھی مخلوق سے  دشمنی  نہ رکھنے والا شخص ہی میرا ہے۔

سوچئے، مہابھارت کی  اس تاریخی جنگ میں بھی بھگوان کرشن کا یہی پیغام تھا- کسی سے عداوت مت کرو، کسی سے دشمنی نہ کرو۔

ملک میں دشمنی کا تھوڑا سا بھی جذبہ  رکھنے والوں سے میں یہی کہوں گا کہ ن دشمنی کو  چھوڑیئے، دشمنی کا احساس چھوڑیئے۔

آپ  ترقی کےقومی  دھارے میں آئیے، سب کے ساتھ سے، سب کا ترقی کیجئے۔  تشدد سے نہ کبھی کچھ حاصل ہوا ہے، نہ کبھی آگے بھی حاصل ہونے کا امکان ہے۔

ساتھیو، ایک بار پھر بوڈو ساتھیوں کو، آسام اور شمال مشرقی کو  آج بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔  اور نیک خواہشات کے ساتھ پھر ایک بار  اس عظیم جلسے ، یہ منظر زندگی میں میں نہیں جانتا ہوں کہ دیکھنے کو ملے گا یا نہیں ملے گا، یہ ممکن ہی نہیں لگتا ہے۔  شاید ہندوستان کے کسی سیاستدان کو ایسا  آشیرواد حاصل کرنے کا موقع نہ پہلے ملا ہے اور   نہ مستقبل میں ملے گا ،میں کچھ کہہ  نہیں سکتا۔  میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت  مانتا ہوں۔  آپ  کا اتنا پیار اتنا  آشیرواد مل رہا ہے۔

یہی آشیرواد یہی محبت مجھے ترغیب دیتی ہے۔  یہی مجھے ملک کے لئے آپ کے لئے دن رات کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی طاقت دیتی ہے۔  میں آپ لوگو جتنا شکریہ ادا کروں، آپ لوگو کا جتنا ابھنندن کرو، اتنا کم ہے۔  اب پھر ایک بار عدم تشدد کے راستے کا انتخاب کرنے کے لئے ہتھیاروں  چھوڑنے کے لئے، یہ نوجوان آئیں ہیں۔  آپ یقین کریں  نئی زندگی کی شروعات  ہو چکی ہے۔  پورے ملک کا آشیرواد  آپ پر ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنو کا آشیرواد آپ کے ساتھ ہے۔  اور میں نارتھ ایسٹ میں، نکسل علاقے میں، جموں و کشمیر میں ابھی بھی جن  کا بندوق میں، گن میں پستول  پر اب بھی  بھروسہ ہے، ان  کو میں کہتا ہوں آئیے  میرے بوڈو کے نوجوانوں سے کچھ سيكھئے۔  میرے بوڈو کے نوجوانو سے  ترغیب حاصل کیجئے ، لوٹ آئیے، قومی  دھارے میں شامل ہوجائیے، زندگی کا جشن  منایئے اسی ایک توقع کے ساتھ پھر ایک بار اس سرزمین کو سلام  کرتے ہوئے، اس سرزمین کے لئے  جینے  والے ایسے عظیم سپوتوں  کو سلام  کرتے ہوئے آپ سب کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

بھارت ماتا کی جے

پوری طاقت سے بولئے، 130 کروڑ بھارت واسیوں کے دلوں کو چھو جائے ایسی آواز نکالئے۔

بھارت ماتا کی جے

بھارت ماتا کی جے

بھارت ماتا کی جے

بھارت ماتا کی جے

بھارت ماتا کی جے

مہاتما گاندھی امر رہیں، امر رہیں

مہاتما گاندھی امر رہیں، امر رہیں

مہاتما گاندھی امر رہیں، امر رہیں

آپ کا بہت بہت شکریہ

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।