“7,500 sisters and daughters created history by spinning yarn on a spinning wheel together”
“Your hands, while spinning yarn on Charkha, are weaving the fabric of India”
“Like freedom struggle, Khadi can inspire in fulfilling the promise of a developed India and a self-reliant India”
“We added the pledge of Khadi for Transformation to the pledges of Khadi for Nation and Khadi for Fashion”
“Women power is a major contributor to the growing strength of India's Khadi industry”
“Khadi is an example of sustainable clothing, eco-friendly clothing and it has the least carbon footprint”
“Gift and promote Khadi in the upcoming festive season”
“Families should watch ‘Swaraj’ Serial on Doordarshan”

‏گجرات کے ہر دل عزیز  وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب سی آر پاٹل جی، گجرات سرکار میں وزرا بھائی جگدیش پنچل ، ہرش سنگھوی، احمد آباد کے میئر کریت بھائی، کے وی آئی سی کے چیئرمین منوج جی، دیگر معززین اور گجرات کے کونے کونے سے آئے میرے پیارے بھائی اور بہنو۔ ‏

‏سابرمتی کا یہ کنارہ آج دھنیہ ہو گیا ہے۔ آزادی کے "پچھتر" سال کی تکمیل کے موقع پر 'پچھتر سو' بہنوں اور بیٹیوں نے مل کر چرخے پر سوت  کات کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اس موقع پر مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میں نے کچھ وقت چرخے پر اپنا ہاتھ آزمایا  اور سوت کاتنے کا شرف بھی حاصل کیا۔ میرے لیے آج ان چرخوں کو چلانا جذباتی لمحات تھے جو مجھے اپنے بچپن کی یادوں کی طرف لے گئے ، یہ ساری چیزیں ہمارے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھیں، ایک کونے میں ، اور ہماری ماں اضافی کمائی کے مدنظر جب بھی وقت ملتا سوت کاتنے بیٹھ جایا کرتی تھیں۔ آج وہ تصویر میری ذہن میں ایک بار پھر ابھر آئی۔ اور جب میں ان تمام چیزوں کو دیکھتا ہوں، آج یا اس سے پہلے بھی، کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ جس طرح ایک بھکت بھگوان کی پوجا کرتا ہے، پوجا کا سامان استعمال کرتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ سوت کاتنے کا عمل بھی گویا بھگوان کی پوجا سے کم نہیں ہے۔‏

‏جس طرح تحریک آزادی میں چرکھا ملک کی دھڑکن بن چکی تھی، آج میں یہاں سابرمتی کے کنارے بھی یہی دھڑکن محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود ہر شخص، اس تقریب کو دیکھنے والے تمام لوگ آج یہاں کھادی تہوار کی توانائی محسوس کر رہے ہوں گے۔ آزادی کے امرت مہوتسو میں ملک نے آج کھادی فیسٹیول کا انعقاد کرکے اپنے مجاہدین آزادی کو ایک بہت خوبصورت تحفہ دیا ہے۔ آج گجرات اسٹیٹ کھادی ولیج انڈسٹریز بورڈ کی نئی عمارت اور سابرمتی ندی پر واقع عظیم الشان اٹل پل کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ میں احمد آباد کے عوام، گجرات کے عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آج جب ہم اس نئے مرحلے پر آگے بڑھ رہے ہیں تو ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔‏

‏ساتھیو

‏اٹل پل نہ صرف سابرمتی دریا کو دو کناروں سے جوڑ رہا ہے بلکہ یہ ڈیزائن اور اختراع میں بھی بے نظیر ہے۔ اس کے ڈیزائن میں گجرات کے مشہور پتنگ میلے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ گاندھی نگر اور گجرات نے ہمیشہ اٹل جی کو بہت پیار دیا تھا۔ 1996 میں اٹل جی نے گاندھی نگر سے لوک سبھا انتخابات میں ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ یہ اٹل پل بھی یہاں کے لوگوں کی طرف سے ان کے لیے ایک جذباتی خراج عقیدت ہے۔‏

‏ساتھیو

‏چند روز قبل گجرات سمیت پورے ملک میں آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر امرت مہوتسو کو بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ہے۔ گجرات میں بھی ہم نے ہر گھر، ہر گاؤں، گلی اور چاروں طرف من بھی ترنگا، تن بھی ترنگا، جن بھی ترنگا، جذبہ بھی ترنگا، اس کی جھلکیاں بڑے جذبے سے دیکھی ہیں۔ یہاں جو ترنگا ریلیاں ہوئیں، پربھات پھیریاں نکلیں، یہ نہ صرف حب الوطنی کا جوار تھا بلکہ امرت دور میں ایک ترقی یافتہ بھارت کی تعمیر کا عزم بھی تھا۔ آج یہاں کھادی فیسٹیول میں بھی یہی عزم نظر آ رہا ہے۔ چرخے پر سوت کاتنے والے آپ کے ہاتھ مستقبل کے بھارت کے تانے بانے بن رہے ہیں۔‏

‏ساتھیو

‏تاریخ گواہ ہے کہ کھادی کا ایک دھاگا غلامی کی زنجیریں توڑکر تحریک آزادی کی طاقت بن گیا۔ کھادی کا یہی دھاگا ایک خود کفیل بھارت کے خواب کو پورا کرنے، ترقی یافتہ بھارت کی امنگوں کی تکمیل کے لیے تحریک کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔ چراغ کی طرح، چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو، اندھیرے کو شکست دیتا ہے۔ کھادی جیسی ہماری روایتی طاقت بھی بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جانے کی تحریک بن سکتی ہے۔ اور اس لیے کھادی کا یہ تہوار تحریک آزادی کی تاریخ کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کھادی کا یہ تہوار مستقبل کے روشن بھارت کے عزم کو پورا کرنے کے لیے ایک تحریک ہے۔‏

‏ساتھیو

‏اس بار 15 اگست کو لال قلعے سے میں نے پنچ پرانوں کی بات کہی ۔ آج سابرمتی کے کنارے، اس پنیہ بہاؤ کے سامنے، اس مقدس مقام پر، میں پنچ پرانوں کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا: ملک کے سامنے بہت بڑا مقصد، ایک ترقی یافتہ بھارت کی تشکیل کا مقصد، دوسرا : غلامی کی ذہنیت کو مکمل طور پر ترک کرنا، تیسرا : اپنے ورثے پر فخر، چوتھا : قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی مضبوط کوششیں ، اور پانچواں: ہر شہری کا فرض۔‏

‏آج کا کھادی تہوار ان پنچ پرانوں کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔ کھادی کے اس تہوار کے بہت بڑے مقصد میں ، اپنے ورثے پر فخر ، عوامی حصے داری ، اپنا فرض ، سب کچھ شامل ہے، یہ ہر ایک کا امتزاج  ہے۔ ہماری کھادی بھی غلامی کی ذہنیت کا شکار رہی ہے۔ تحریک آزادی کے دوران جس کھادی نے ہمیں دیسی محسوس کرایا، آزادی کے بعد اسی کھادی کو حقارت سے دیکھا گیا۔ تحریک آزادی کے وقت گاندھی جی نے جس کھادی کو ملک کی عزت بنایا تھا، وہی کھادی آزادی کے بعد احساس کمتری سے مملو ہوگئی ۔ اس کی وجہ سے کھادی اور کھادی سے وابستہ گاؤں کی صنعت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ خاص طور پر گجرات کے لیے کھادی کی یہ صورتحال بہت تکلیف دہ تھی کیونکہ گجرات کا کھادی کے ساتھ بہت خاص تعلق ہے۔‏

‏ساتھیو

‏مجھے خوشی ہے کہ گجرات کی اس سرزمین نے کھادی کو ایک بار پھر زندگی دینے کا کام کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 2003 میں ہم نے کھادی کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے گاندھی جی کی جائے پیدائش پوربندر سے ایک خصوصی مہم شروع کی تھی۔ پھر ہم نے کھادی فار نیشن کے ساتھ کھادی فار فیشن کا عزم کیا۔ گجرات میں کھادی کی تشہیر کے لیے کئی فیشن شوز کا انعقاد کیا گیا، مشہور شخصیات اس سے وابستہ تھیں۔ لوگ ہمارا مذاق اڑاتے تھے، ہماری توہین بھی کرتے تھے۔ لیکن کھادی اور گرام ادیوگ سے غفلت گجرات کو قابل قبول نہیں تھی۔ گجرات لگن کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور اس نے کھادی کو نئی زندگی دینے کی ٹھانی اور یہ کرکے دکھایا بھی۔

‏2014 میں جب آپ نے مجھے دہلی جانے کا حکم دیا تو میں نے گجرات سے تحریک کو مزید آگے بڑھایا، اسے مزید وسعت دی۔ ہم نے کھادی فار نیشن ، کھادی فار فیشن میں کھادی فار ٹرانسفارمیشن کو شامل کیا۔ ہم نے ملک بھر میں گجرات کی کامیابی کے تجربات کو توسیع دینا شروع کیا۔ ملک بھر میں کھادی سے متعلق تمام مسائل کو دور کیا گیا۔ ہم نے اہل وطن کو کھادی مصنوعات خریدنے کی ترغیب دی۔ اور اس کا نتیجہ آج دنیا دیکھ رہی ہے۔‏

‏آج بھارت کے سرفہرست فیشن برانڈز خود کھادی میں شامل ہونے کے لیے آگے آرہے ہیں۔ آج بھارت میں کھادی کی ریکارڈ پیداوار ہے، ریکارڈ فروخت ہو رہی ہے۔ کھادی کی فروخت میں گزشتہ 8 سالوں میں 4 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آج پہلی بار بھارت کی کھادی اور گرام ادیوگ کا کاروبار ایک لاکھ کروڑ روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ کھادی کی اس فروخت سے آپ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے، میرے گاؤں میں رہنے والے کھادی سے وابستہ بھائیوں اور بہنوں کو فائدہ ہوا ہے۔‏

‏کھادی کی فروخت میں اضافے کی وجہ سے دیہاتوں میں زیادہ رقم گئی ہے، دیہاتوںمیں زیادہ لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ خاص طور پر ہماری ماؤں اور بہنوں کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں صرف کھادی اور گرام ادیوگ میں 2 کروڑ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ اور ساتھیو، گجرات میں اب سبز کھادی کی مہم بھی چل پڑی ہے۔ کھادی اب یہاں شمسی چرخے سے بنائی جارہی ہے، کاریگروں کو شمسی چرخے دیے جارہے ہیں۔ یعنی گجرات ایک بار پھر نیا راستہ دکھا رہا ہے۔‏

‏ساتھیو

‏بھارت کی کھادی صنعت کی بڑھتی ہوئی طاقت میں خواتین کی طاقت بھی بہت بڑا حصہ دار ہے۔ انٹرپرینیورشپ کا جذبہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں میں پیوست ہے۔ اس کا ثبوت گجرات میں سکھی منڈلوں کی توسیع بھی ہے۔ ایک دہائی قبل ہم نے گجرات میں بہنوں کو بااختیار بنانے کے لیے مشن منگلم کا آغاز کیا تھا۔ آج گجرات میں بہنوں کے 2 لاکھ 60 ہزار سے زائد سیلف ہیلپ گروپ تشکیل دیے گئے ہیں۔ ان سے 26 لاکھ سے زیادہ دیہی بہنیں وابستہ ہیں۔ ان سکھی منڈلوں کو ڈبل انجن حکومت سے بھی ڈبل مدد مل رہی ہے۔‏

‏ساتھیو

‏بہنوں اور بیٹیوں کی طاقت اس امرت دور میں حقیقی اثر پیدا کرنے والی ہے۔ یہ ہماری کوشش ہے کہ ملک کی بیٹیاں زیادہ سے زیادہ تعداد میں روزگار میں شامل ہوں، اپنے من پسند کام کریں۔ مدرا اسکیم اس میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک وقت تھا جب بہنوں کو چھوٹے قرضے حاصل کرنے کے لیے بھی ایک جگہ جگہ چکر کاٹنے پڑتے تھے۔ آج مدرا اسکیم کے تحت 50 ہزار سے 10 لاکھ روپے تک کے قرضے بغیر ضمانت کے دیے جا رہے ہیں۔ ملک میں کروڑوں بہنوں اور بیٹیوں نے مدرا اسکیم کے تحت قرض لے کر پہلی بار اپنا کاروبار شروع کیا ہے۔ یہی نہیں ایک یا دو افراد کو روزگار بھی دیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سی خواتین کھادی گرام ادیوگ سے بھی وابستہ ہیں۔‏

‏ساتھیو

‏یہ بہت اہم ہے کہ ہماری مصنوعات ماحول دوست ہوں، ماحول کو نقصان نہ پہنچائیں۔ آپ سب جو یہاں کھادی میلے میں آئے ہیں وہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں پائیدار ہونے پر اتنا زور کیوں دے رہا ہوں۔ اس کی وجہ ہے کہ کھادی پائیدار لباس کی ایک مثال ہے۔ کھادی ماحول دوست لباس کی ایک مثال ہے۔ کھادی کاربن فٹ پرنٹ کو کم سے کم کرتی ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں درجہ حرارت زیادہ ہے، کھادی صحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔ چنانچہ کھادی آج عالمی سطح پر بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ بس ہمیں اپنی اس وراثت پر فخر ہونا چاہیے۔‏

‏آج کھادی سے وابستہ آپ سب کے لیے ایک بہت بڑا بازار تیار کیا گیا ہے۔ ہمیں اس موقع کو گنوانا نہیں ہے۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب بھارت کی کھادی دنیا کی ہر بڑی سپر مارکیٹ پر، کپڑے کی منڈی میں حاوی ہوگی۔ آپ کی محنت، آپ کا پسینہ، اب دنیا میں چھا جانے والا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان کھادی کی مانگ میں اب تیزی سے اضافہ ہونے والا ہے۔ کوئی طاقت کھادی کو لوکل سے گلوبل ہونے سے نہیں روک سکتی۔‏

‏ساتھیو

‏آج سابرمتی کے کنارے سے میں ملک بھر کے لوگوں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں۔ آنے والے تہواروں میں اس بار صرف کھادی گرام ادیوگ میں تیار کردہ مصنوعات تحفے میں دیں۔ آپ گھر میں مختلف اقسام کے کپڑے سے بنے کپڑے بھی لے سکتے ہیں، لیکن اگر آپ اس میں کھادی کو تھوڑی سی جگہ دیں گے، تو آپ ووکل فار لوکل مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے، اس سے ایک غریب شخص کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اگر آپ میں سے کوئی بیرون ملک رہ رہا ہے، کسی رشتہ دار یا دوست کے پاس جا رہا ہے، تو اسے بھی کھادی مصنوعات کو تحفے کے طور پر لے جانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف کھادی کو فروغ ملے گا بلکہ دوسرے ممالک کے شہریوں میں کھادی کے بارے میں بھی بیداری پیدا ہوگی۔‏

‏جو قوم  اپنی تاریخ بھول جاتی ہے وہ نئی تاریخ کبھی نہیں بناسکتی۔ کھادی ہماری تاریخ، ہمارے ورثے کا لازمی حصہ ہے۔ جب ہمیں اپنے ورثے پر فخر ہوتا ہے تو دنیا بھی اس کا اتناہی احترام کرتی  ہے۔ اس کی ایک مثال بھارت کی کھلونا صنعت ہے۔ کھلونے، بھارتی روایات پر مبنی کھلونے بھی فطرت کے لیے اچھے ہیں، بچوں کی صحت کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن گزشتہ دہائیوں میں غیر ملکی کھلونوں کے مقابلے میں بھارت کی اپنی ثروت مند کھلونا صنعت تباہ ہو رہی تھی۔‏

‏حکومت کی کوششوں سے کھلونا صنعتوں سے وابستہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی محنت نے اب صورتحال کو بدلنا شروع کردیا ہے۔ اب بیرون ملک سے درآمد کیے جانے والے کھلونوں میں زبردست کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی کھلونے زیادہ سے زیادہ عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اس سے ہماری چھوٹی صنعتوں، کاریگروں، کارکنوں، وشوکرما معاشرے کے لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔‏

‏ساتھیو

‏حکومت کی کوششوں، دستکاری کی برآمد، ہاتھ سے بنے قالینوں کی برآمد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج دو لاکھ سے زائد بنکر اور دستکاری کاریگر جی ای ایم پورٹل سے جڑے ہوئے ہیں اور آسانی سے اپنا سامان حکومت کو فروخت کر رہے ہیں۔‏

‏ساتھیو

‏کورونا کے اس بحران میں بھی ہماری حکومت کاٹیج انڈسٹری سے وابستہ ہمارے دستکاری کاریگروں، بنکروں، بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں، ایم ایس ایم ایز کو مالی امداد فراہم کرکے حکومت نے کروڑوں ملازمتوں کو ضائع ہونے سے بچایا ہے۔‏

‏بھائیو اور بہنو،‏

‏امرت مہوتسو کا آغاز گذشتہ سال مارچ میں ڈانڈی یاترا کی سالگرہ پر سابرمتی آشرم سے ہوا تھا۔ امرت مہوتسو اگلے سال اگست 2023 تک جاری رہنے والا ہے۔ میں گجرات حکومت کھادی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس عظیم الشان تقریب کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امرت مہوتسو میں ہمیں اس طرح کی تقریبات کے ذریعے نئی نسل کو تحریک آزادی سے متعارف کرواتے رہنا ہوگا۔‏

‏میں آپ سب سے اپیل کرنا چاہتا ہوں، آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوردرشن پر سوراج سیریل شروع ہوا ہے۔ آپ ملک کی آزادی کے لیے، ملک کی عزت کے لیے، ملک کے کونے کونے میں کیا جدوجہد ہوئی تھی، کیا قربانیاں دی گئیں، اس سیریل میں تحریک آزادی سے متعلق کہانیاں بڑی تفصیل سے دکھائی جارہی ہیں۔ آج کی نوجوان نسل اتوار کو دوردرشن پر شاید رات نو بجے آتی ہے، اس سوراج سیریل کو پورے  خاندان کو دیکھنا چاہیے ۔ ہماری آنے والی نسل کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے اجداد نے ہمارے لیے کیا کیا برداشت کیا ہے۔ اس خواہش کے ساتھ کہ ملک میں حب الوطنی، قوم کے شعور اور خود انحصاری کا یہ احساس بڑھتا رہے، میں ایک بار پھر آپ سب کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں!‏

‏میں خاص طور پر آج اپنی ان ماؤں اور بہنوں کو سلام کرنا چاہتا ہوں کیونکہ چرخہ  چلانا بھی ایک طرح کی پوجا ہے۔ پوری توجہ سے، یوگیوں والے  جذبے کے ساتھ، یہ مائیں اور بہنیں قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ اور اتنی بڑی تعدادمیں  تاریخ میں پہلی بار یہ واقعہ رونما ہوا ہوگا۔ تاریخ میں پہلی بار۔ ‏

‏جو لوگ برسوں سے اس خیال سے وابستہ ہیں وہ اس تحریک سے وابستہ ہیں۔ میں ایسے تمام دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح آپ نے اب تک کام کیا ہے، جس طرح آپ نے کام کیا ہے، آج حکومت ہند کی جانب سے مہاتما گاندھی کی ان اقدار کی بحالی کے لیے کو کوششیں ہورہی ہیں ان کو سمجھا جانا چاہیے۔ اسے قبول کرکے آگے بڑھنے میں مدد ملے۔ اس کے لیے میں ایسے تمام ساتھیوں کو مدعو کر رہا ہوں۔ ‏

آؤ ہم سب ساتھ مل کر آزادی کے امرت مہوتسو میں پوجیہ باپو نے جو عظیم روایت پیدا کی ، جو روایت بھارت کے روشن مستقبل کی بنیاد بن سکتی ہے،  اس میں اپنی پوری طاقت لگائیں، اس کی طاقت میں اضافہ کریں، اپنا فرض ادا کریں اور اپنے ورثے پر فخر کریں اور آگے بڑھیں۔ اس توقع کے ساتھ، ایک بار پھر میں آپ سب ماؤں اور بہنوں کے سامنے ادب سے نمن کرتا ہوں اور اپنی بات ختم کرتا ہوں۔‏

‏شکریہ!‏

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!