وزیراعظم نے مدھیہ پردیش میں ’ راشن آپ کے گرام‘ کا آغاز کیا
وزیراعظم نے مدھیہ پردیش میں ’’سکل سیل مشن‘‘ کا آغاز کیا
’’آزادی کے بعد سے پہلی مرتبہ ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر پورے ملک کے قبائلی سماج کے فن اور ثقافت، آزادی کی جدو جہد اور قوم کی تعمیر میں ان کی دین کو یاد کیا جا رہا ہے اور اس کی عزت افزائی کی جا رہی ہے‘‘
’’یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم آزادی کی جدوجہد میں قبائلی خواتین و مرد سورماؤں کی داستانوں کو ملک کے سامنے لائیں اور نئی نسل کو ان سے متعارف کرائیں‘‘
’’چھتر پتی شیوا جی مہاراج کے نظریات،جنہیں بابا صاحب پورندرے نے ملک کے سامنے رکھا، وہ نظریات ہمیشہ ہمیش تحریک دیتے رہیں گے‘‘
’’آج قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر حصوں ہی کی طرح سہولیات مثلاً غریبوں کے لئے مکانات، بیت الخلاء، مفت بجلی اور گیس کنکشن، اسکول، سڑکیں اور مفت علاج فراہم کئے جا رہے ہیں‘‘
’’ قبائلی اور دیہی معاشرے میں کام کرنے والے عوامی پدم انعام یافتگان ملک کے اصلی ہیرے ہیں‘‘
’’چھتر پتی شیوا جی مہاراج کے نظریات،جنہیں بابا صاحب پورندرے نے ملک کے سامنے رکھا، وہ نظریات ہمیشہ ہمیش تحریک دیتے رہیں گے‘‘

جوہار مدھیہ پردیش! رام رام سیوا جوہار! مور سگا جن جاتی بہن بھائی لا سواگت جوہار کرتا ہوں۔ ہوں تمارو سواگت کروں۔ تمم سم ککم چھو؟ مالتھن آپ سبان سی ملن، بڑی خوشی ہوئی ریلی ہا۔ آپ سبان تھن، پھر سی رام رام۔

مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل جی، جنھوں نے اپنی پوری زندگی قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کھپادی۔ وہ زندگی بھر قبائلیوں کی زندگی کے لئے سماجی تنظیم کی شکل میں، حکومت میں وزیر کی شکل میں ایک وقف آدی واسیوں کے خدمتگار کے طور پر رہے۔ اور مجھے فخر ہے کہ مدھیہ پردیش کے پہلے قبائلی گورنر، اس کا اعزاز جناب منگو بھائی پٹیل کے کھاتے میں جاتا ہے۔

اسٹیج پر رونق افروز مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ چوہان جی، مرکزی کابینہ میں میرے معاون نریندر سنگھ تومر جی، جیوترادتیہ سندھیا جی، وریندر کمار جی، پرہلاد پٹیل جی، پھگن سنگھ کلستے جی، ایل مروگن جی، ایم پی حکومت کے معزز وزراء، پارلیمنٹ کے میرے معاون اراکین پارلیمنٹ، معزز اراکین اسمبلی اور مدھیہ پردیش کے کونے کونے سے ہم سبھی کو آشیرواد دینے آئے قبائلی سماج کے میرے بھائیو اور بہنو، آپ سبھی کو بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش پر بہت بہت مبارکباد۔

آج کا دن پورے ملک کے لئے، پورے قبائلی سماج کے لئے بہت بڑا دن ہے۔ آج بھارت، اپنا پہلا قبائلی یوم  فخر منا رہا ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر، پورے ملک کے قبائلی سماج کے فن و ثقافت، تحریک آزادی اور قومی کی تعمیر میں ان کے تعاون کو فخر کے ساتھ یاد کیا جارہا ہے، انھیں احترام دیا جارہا ہے۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے اس نئے عزم کے لئے، میں پورے ملک کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آج یہاں مدھیہ پردیش کے قبائلی سماج کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں۔ گزشتہ کئی برسوں میں مسلسل ہمیں آپ کی محبت، آپ کا اعتماد حاصل ہوا ہے۔ یہ محبت ہر پل اور مضبوط ہوتا جارہی ہے۔ آپ کا یہی پیار ہمیں آپ کی خدمت کے لئے دن رات ایک کرنے کی توانائی دیتا ہے۔

ساتھیو،

اسی جذبہ خدمت سے ہی آج قبائلی سماج کے لئے شیوراج جی کی حکومت نے متعدد بڑے پروجیکٹوں کا افتتاح کیا ہے اور آج جب پروگرام کے آغاز میں میرے قبائلی گروپ کے سبھی لوگ الگ الگ اسٹیج پر گیت کے ساتھ، دھوم کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کررہے تھے تو میں نے کوشش کی ان گیتوں کو سمجھنے کی، کیونکہ میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ زندگی کا ایک اہم عرصہ میں نے قبائلیوں کے درمیان گزارا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کی ہر بات میں کوئی نہ کوئی فلسفہ ہوتا ہے۔ مقصد زندگی قبائلی اپنے رقص و موسیقی میں، اپنے گیتوں میں، اپنی روایات میں بخوبی پیش کرتے ہیں۔ اور اس لئے آج کے اس گیت کی طرف میری توجہ مبذول ہونا بہت فطری تھا۔ اور میں نے جب گیت کے الفاظ کو باریکی سے دیکھا تو میں گیت کو تو نہیں دوہرا رہا ہوں، لیکن آپ نے جو کہا – شاید ملک بھر کے لوگوں کو آپ کا ایک ایک لفظ زندگی جینے کا سبب، زندگی جینے کا ارادہ، زندگی گزارنے کا مقصد بخوبی پیش کرتا ہے۔ آپ نے اپنے رقص کے ذریعہ، اپنے گیت کے ذریعہ آج پیش کیا – جسم چار دنوں کا ہے، آخر میں مٹی میں مل جائے گا۔ کھانا پینا خوب کیا، بھگوان کا نام بھلایا۔ دیکھئے یہ آدی واسی ہمیں کیا کہہ رہے ہیں جی۔ سچ مچ میں وہ تعلیم یافتہ ہیں کہ ہمیں ابھی سیکھنا باقی ہے۔ آگے کہتے ہیں – موج مستی میں عمر گزاردی، زندگی کو کامیاب نہیں بنایا۔ اپنی زندگی میں لڑائی جھگڑا خوب کیا، گھر میں ہنگامہ بھی خوب مچایا۔ اب آخر وقت آیا تو من میں پچھتاوا بیکار ہے۔ دھرتی، کھیت – کھلیان، کسی کے نہیں ہیں۔ دیکھئے قبائلی مجھے کیا سمجھا رہا ہے۔ دھرتی، کھیت کھلیان کسی کے نہیں ہیں، اپنے من میں گمان کرنا بیکار ہے۔ یہ دھن دولت کسی کام کے نہیں ہیں، اس کو یہیں چھوڑکر جانا ہے۔ آپ دیکھئے  - اس گانے میں، اس رقص میں جو الفاظ کہے گئے ہیں وہ زندگی کا بہترین فلسفہ جنگلوں میں زندگی گزارنے والے میرے قبائلی بھائی بہنوں نے اپنے اندر اتارا ہے۔ اس سے بڑی کسی ملک کی طاقت کیا ہوسکتی ہے۔ اس سے بڑی کسی ملک کی طاقت کیا ہوسکتی ہے۔ اس سے بڑی کسی ملک کی وراثت کیا ہوسکتی ہے۔ اس سے بڑا کسی ملک کا سرمایہ کیا ہوسکتا ہے۔

ساتھیو،

اسی جذبہ خدمت سے ہی آج قبائلی سماج کے لئے شیوراج جی کی حکومت نے کئی بڑے پروجیکٹوں کا آغاز کیا ہے۔ ’راشن آپ کے گرام‘ اسکیم ہو یا مدھیہ پردیش، سکل سیل مشن ہو، یہ دونوں پروگرام قبائلی سماج میں صحت اور غذائیت کو بہتر بنانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ مجھے اس کا بھی اطمینان ہے کہ پردھان منتری غریب کلیان انیہ یوجنا کے تحت مفت راشن ملنے سے کورونا کے دور میں غریب قبائلی کنبوں کو اتنی بڑی مدد ملے گی۔ اب جب گاؤں میں آپ کے گھر کے پاس سستا راشن پہنچے گا تو آپ کا وقت بھی بچے گا اور اضافی خرچ سے بھی آزادی ملے گی۔

آیوشمان بھارت اسکیم سے پہلے ہی متعدد بیماریوں کا مفت علاج قبائلی سماج کو مل رہا ہے، ملک کے غریبوں کو مل رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ مدھیہ پردیش میں قبائلی کنبوں میں تیزی سے مفت ٹیکہ کاری بھی ہورہی ہے۔ دنیا کے پڑھے لکھے ملکوں میں بھی ٹیکہ کاری کو لے کر سوالیہ نشان لگانے کی خبریں آتی ہیں۔ لیکن میرا قبائلی بھائی بہن ٹیکہ کاری کی اہمیت کو سمجھتا بھی ہے، قبول بھی کرتا ہے اور ملک کو بچانے میں اپنا رول بھی ادا کررہا ہے، اس سے بڑی سمجھداری کیا ہوتی ہے۔ 100 سال کی اس سب سے بڑی وبا سے ساری دنیا لڑرہی ہے، سب سے بڑی وبا سے نمٹنے کے لئے قبائلی سماج کے سبھی ساتھیوں کی ٹیکہ کاری کے لئے آگے بڑھ کر آنا، سچ مچ میں یہ اپنے آپ میں قابل فخر واقعہ ہے۔ پڑھے لکھے شہروں میں رہنے والے لوگوں کو میرے ان قبائلی بھائیوں سے بہت کچھ سیکھنے جیسا ہے۔

ساتھیو،

آج یہاں بھوپال آنے سے پہلے مجھے رانچی میں بھگوان برسا منڈا مجاہد آزادی میوزیم کا افتتاح کرنے کی خوش بختی حاصل ہوئی ہے۔ آزادی کی لڑائی میں قبائلی مرد و خواتین کی بہادری کی کہانیوں کو ملک کے سامنے لانا، نئی نسل کو اس سے واقف کرانا ہمارا واقف ہے۔ غلامی کے دور میں غیر ملکی حکومت کے خلاف کھاسی – گارو تحریک، میزو تحریک، کول تحریک سمیت کئی سنگرام ہوئے۔ گونڈ مہارانی ویر درگاوتی کی بہادری ہو یا پھر رانی کملاپتی کی قربانی، ملک انھیں بھول نہیں سکتا۔ ویر مہارانا پرتاپ کے جدوجہد کا تصور ان بہادر بھیلوں کے بنا نہیں کیا جاسکتا، جنھوں نے کندھے سے کندھا ملاکر رانا پرتاپ کے ساتھ لڑائی کے میدان میں اپنے آپ کو قربان کردیا تھا۔ ہم سبھی ان کے احسان مند ہیں۔ ہم اس قرض کو کبھی چکا نہیں سکتے، لیکن اپنی اس وراثت کو سینے سے لگاکر، اسے مناسب مقام دے کر، اپنی ذمے داری ضرور نبھاسکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو!

آج جب میں آپ سے اپنی وراثت کو سینے سے لگانے کی بات کررہا ہوں تو ملک کے معروف مورخ شیو شاہیر بابا صاحب پورندرے جی کو بھی یاد کروں گا۔ آج ہی صبح پتہ چلا کہ وہ ہمیں چھوڑکر چلے گئے، ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ’پدم وبھوشن بابا صاحب پورندے جی نے چھترپتی شیواجی مہاراج کی زندگی کو، ان کی تاریخ کو عوام الناس تک پہنچانے میں جو تعاون دیا ہے، وہ گراں قدر ہے۔ یہاں کی حکومت نے انھیں کالی داس ایوارڈ بھی دیا تھا۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کے جن آدرشوں کو بابا صاحب پورندرے جی نے ملک کے سامنے رکھا وہ آدرش ہمیں مسلسل تحریک دیتے رہیں گے۔ میں بابا صاحب پورندرے جی کو اپنے دل کی گہرائی سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج جب ہم قومی پلیٹ فارموں سے، قوم کی تعمیر میں قبائلی سماج کے تعاون کا ذکر کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کو ذرا حیرانی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ قبائلی سماج کا بھارت کی ثقافت کو مضبوط کرنے میں کتنا بڑا تعاون رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبائلی سماج کے تعاون کے بارے میں یا تو ملک کو بتایا ہی نہیں گیا، اندھیرے میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی، اور اگر بتایا بھی گیا تو بہت ہی محدود دائرے میں معلومات دی گئی۔ ایسا اس لئے ہوا کیونکہ آزادی کے بعد دہائیوں تک جنھوں نے ملک میں حکومت کی، انھوں نے اپنی خودغرضانہ سیاست کو ہی ترجیح دی۔ ملک کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہونے کے باوجود، دہائیوں تک قبائلی سماج کو، ان کی ثقافت، ان کی صلاحیت کو پوری طرح نظرانداز کردیا گیا۔ قبائلیوں کا دکھ، ان کی تکلیف، بچوں کی تعلیم، قبائلیوں کی صحت، ان لوگوں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔

ساتھیو،

بھارت کے ثقافتی سفر میں قبائلی سماج کا تعاون اٹوٹ رہا ہے۔ آپ ہی بتائیے، قبائلی سماج کے تعاون کے بغیر کیا پربھو رام کی زندگی میں کامیابیوں کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ بن باسیوں کے ساتھ گزارے وقت نے ایک شہزادے کو مریادا پرشوتم رام بنانے میں اہم تعاون دیا۔ بنواس کے اسی دور میں پربھو رام نے بن باسی سماج کی روایت، رسوم و رواج، رہن سہن کے طور طریقے، زندگی کے ہر پہلو سے ترغیب حاصل کی۔

ساتھیو،

قبائلی سماج کو مناسب اہمیت نہ دے کر، ترجیح نہ دے کر، پہلے کی حکومتوں نے جو جرم کیا ہے، اس پر لگاتار بولا جانا ضروری ہے۔ ہر پلیٹ فارم پر گفتگو ہونا ضروری ہے۔ جب دہائیوں پہلے میں نے گجرات میں اپنی عوامی زندگی کی شروعات کی تھی، تبھی سے میں دیکھتا آیا ہوں کہ کیسے ملک میں کچھ سیاسی جماعتوں نے سکھ – سہولت اور ترقی کے ہر وسیلے سے قبائلی سماج کو محروم رکھا۔ بحران برقرار رکھتے ہوئے، انتخابات کے دوران انھی فقدان کی تکمیل کے نام پر بار بار ووٹ مانگے گئے، اقتدار حاصل کیا گیا، لیکن قبائلی برادری کے لئے جو کرنا چاہئے تھا، جتنا کرنا چاہئے تھا، اور جب کرنا چاہئے تھا، یہ کم پڑگئے، نہیں کرپائے۔ بے بس چھوڑ دیا سماج کو۔ گجرات کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد میں نے وہاں پر قبائلی سماج میں صورت حال کو بدلنے کے لئے بہت سی مہمیں شروع کی تھیں۔ جب ملک نے مجھے 2014 میں اپنی خدمت کا موقع دیا تو میں نے قبائلی برادری کے مفادات کو اپنی اعلیٰ ترجیحات میں رکھا۔

بھائیو اور بہنو،

آج صحیح معنی میں قبائلی سماج کے ہر ساتھی کو، ملک کی ترقی میں مناسب حصے داری اور شراکت داری دی جارہی ہے۔ آج چاہے غریبوں کے گھر ہوں، بیت الخلاء ہو، مفت بجلی اور گیس کنکشن ہو، اسکول ہو، سڑک ہو، مفت علاج ہو، یہ سب کچھ جس رفتار سے ملک کے باقی حصوں میں ہورہا ہے، اسی رفتار سے قبائلی علاقوں میں بھی ہورہا ہے۔ باقی ملک کے کسانوں کے بینک کھاتے میں اگر ہزاروں کروڑ روپئے براہ راست پہنچ رہے ہیں تو قبائلی علاقوں کے کسانوں کو بھی اسی وقت مل رہے ہیں۔ آج اگر ملک کے کروڑوں کروڑ کنبوں کو پینے کا صاف پانی پائپ سے گھر گھر پہنچایا جارہا ہے تو یہ اسی قوت ارادی کے ساتھ اتنی ہی رفتار سے قبائلی کنبوں تک بھی پہنچانے کا کام تیز رفتاری سے چل رہا ہے۔ ورنہ اتنے برسوں تک قبائلی علاقوں کی بہنوں بیٹیوں کو پانی کے لئے کتنا پریشان ہونا پڑتا تھا، مجھ سے زیادہ آپ لوگ اس سے بحسن و خوبی واقف ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ جل جیون مشن کے تحت مدھیہ پردیش کے دیہی علاقوں میں 30 لاکھ کنبوں کو اب نل سے پانی ملنا شروع ہوگیا ہے اور اس میں بھی زیادہ تر ہمارے قبائلی علاقوں کے ہی ہیں۔

ساتھیو،

قبائلیوں کی ترقی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بات اور کہی جاتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ قبائلی علاقے جغرافیائی اعتبار سے بہت دشوار گزار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ وہاں سہولتیں پہنچانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بہانہ کام نہ کرنے کے بہانے تھے۔ یہی بہانہ کرکے قبائلی سماج میں سہولتوں کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ انھیں اپنے نصیب پر ہی چھوڑ دیا گیا۔

ساتھیو،

ایسی ہی سیاست، ایسی ہی سوچ کے سبب قبائلیوں کی کثیر آبادی والے اضلاع ترقی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رہ گئے۔ اب کہاں تو ان کی ترقی کے لئے کوششیں ہونی چاہئیں تھیں، لیکن ان اضلاع پر پسماندہ ہونے کا ایک ٹیگ لگادیا گیا۔

بھائیو اور بہنو،

کوئی ریاست، کوئی ضلع، کوئی شخص، کوئی سماج ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ ہر شخص، ہر سماج توقع پسند ہوتا ہے، اس کے خواب ہوتے ہیں۔ سالوں سال محروم رکھے گئے انھی خوابوں، انھی تواقعات کو پرواز دینے کی کوشش آج ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔ آپ کے آشیرواد سے آج ان 100 سے زیادہ اضلاع میں ترقی کی امیدوں کی تکمیل کی جارہی ہے۔ آج جتنی بھی فلاحی اسکیمیں مرکزی حکومت بنارہی ہے، ان میں قبائلی سماج کی کثیر آبادی والے توقعاتی اضلاع کو ترجیح دی جارہی ہے۔ توقعاتی اضلاع یا پھر ایسے ضلع جہاں اسپتالوں کا فقدان ہے، وہاں ڈیڑھ سو سے زیادہ میڈیکل کالج منظور کئے جاچکے ہیں۔

ساتھیو،

ملک کا قبائلی علاقہ، وسائل کی شکل میں، دولت کے معاملے میں ہمیشہ خوش رہا ہے۔ لیکن جو پہلے حکومت میں رہے، وہ ان علاقوں کو نچوڑنے کی پالیسی پر چلے۔ ہم ان علاقوں کی صلاحیتوں کےصحیح استعمال کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ آج جس ضلع سے جو بھی قدرتی وسائل قوم کی ترقی کے لئے نکلتے ہیں، اس کا ایک حصہ اسی ضلع کی ترقی میں لگایا جارہا ہے۔ ڈسٹرکٹ منرل فنڈ کے تحت ریاستوں کو تقریباً 50 ہزار کروڑ روپئے ملے ہیں۔ آج آپ کی دولت آپ کے ہی کام آرہی ہے، آپ کے بچوں کے کام آرہی ہے۔ اب تو کان کنی سے متعلق پالیسیوں میں بھی ہم نے ایسی تبدیلیاں کی ہیں جن سے قبائلی علاقوں میں ہی روزگار کے وسیع امکانات پیدا ہوسکیں۔

بھائیو اور بہنو،

آزادی کا یہ امرت کال، آتم نربھر بھارت کی تعمیر کا زمانہ ہے۔ بھارت کی خود کفالتی، قبائلی شراکت داری کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا، ابھی حال میں پدم ایوارڈ دیے گئے ہیں۔ قبائلی سماج سے آنے والے ساتھی جب راشٹرپتی بھون پہنچے، پیر میں جوتے بھی نہیں تھے، ساری دنیا دیکھ کر دنگ رہ گئی، حیران رہ گئی۔ قبائلی اور دیہی سماج میں کام کرنے والے یہ ملک کے اصلی ہیرو ہیں۔ یہی تو ہمارے ڈائمنڈ ہیں، یہی تو ہمارے ہیرے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

قبائلی سماج میں صلاحیتوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے، پہلے کی حکومتوں میں قبائلی سماج کو موقع دینے کے لئے جو ضروری سیاسی قوت ارادی چاہئے، کچھ نہیں تھی، بہت کم تھی۔ تخلیق، قبائلی روایات کا حصہ ہے، میں ابھی یہاں آنے سے پہلے سبھی قبائلی سماج کی بہنوں کے ذریعہ جو تعمیراتی کام ہوا ہے، وہ دیکھ کرکے سچ مچ میرے من کو لطف آتا ہے۔ ان انگلیوں میں، ان کے پاس کیا طاقت ہے۔ تخلیق قبائلی روایات کا حصہ ہے، لیکن قبائلی تخلیق کو بازار سے نہیں جوڑا گیا۔ آپ تصور کرسکتے ہیں، بانس کی کھیتی جیسی چھوٹی اور معمولی سی چیز کو قانونوں کے مکڑجال میں پھنساکر رکھا گیا تھا۔ کیا ہمارے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ بانس کی کھیتی کرکے اسے بیچ کرکے کچھ پیسہ کماسکیں؟ ہم نے جنگلاتی قوانین میں تبدیلی کرکے اس سوچ کو ہی بدل دیا۔

ساتھیو،

دہائیوں سے جس سماج کو، اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے طویل انتظار کروایا گیا، اسے نظرانداز کیا گیا، اب اس کو خودکفیل بنانے کے لئے مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ لکڑی اور پتھر کی فن کاری تو قبائلی سماج صدیوں سے کررہا ہے، لیکن اب ان کے بنائے پروڈکٹ کو نیا مارکیٹ دستیاب کرایا جارہا ہے۔ ٹرائیفیڈ پورٹل کے توسط سے قبائلی فن کاروں کی مصنوعات ملک اور دنیا کے بازاروں میں آن لائن بھی فروخت ہورہی ہے۔ جس موٹے اناج کو کبھی دوئم نظر سے دیکھا جاتا تھا، وہ بھی آج بھارت کا برانڈ بن رہا ہے۔

ساتھیو،

ون دھن اسکیم ہو، جنگلاتی پیداوار کو ایم ایس پی کےد ائرے میں لانا ہو، یا بہنوں کی تنظیمی قوت کو نئی توانائی دینا ہو، یہ قبائلی علاقوں میں غیرمعمولی مواقع پیدا کررہے ہیں۔ پہلے کی حکومتیں صرف 8-10 جنگلاتی پیداوار پر ایم ایس پی دیا کرتی تھیں۔ آج ہماری حکومت تقریباً 90 جنگلاتی پیداواروں پر ایم ایس پی دے رہی ہے۔ کہاں 9-10 اور کہاں 90؟ ہم نے 2500 سے زیادہ ون دھن وکاس کیندروں کو 37 ہزار سے زیادہ ون دھن خودامدادی گروپوں سے جوڑا ہے۔ ان سے آج تقریباً ساڑھے سات لاکھ ساتھی جڑے ہیں، ان کو روزگار اور اپنا روزگار آپ مل رہا ہے۔ ہماری سرکار نے جنگل کی زمین کو لے کر بھی پوری حساسیت کے ساتھ قدم اٹھائے ہیں۔ ریاستوں میں تقریباً 20 لاکھ زمین کے پٹے دے کر ہم نے لاکھوں قبائلی ساتھیوں کی بہت بڑی تشویش دور کی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہماری حکومت قبائلی نوجوانوں کی تعلیم اور ہنرمندی پر بھی خصوصی زور دے رہی ہے۔ ایکلیوویہ ماڈل ریزیڈنشیل اسکول آج قبائلی علاقوں میں تعلیم کی نئی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آج مجھے یہاں 50 ایکلوویہ ماڈل ریزیڈنشیل اسکولوں کے سنگ بنیاد کا موقع ملا ہے۔ ہمارا ہدف، ملک بھر میں ایسے تقریباً ساڑھے سات سو اسکول کھولنے کا ہے۔ ان میں سے متعدد ایکلوویہ اسکول پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔ سات سال قبل ہر طالب علم پر حکومت تقریباً چالیس ہزار روپئے خرچ کرتی تھی، وہ آج بڑھ کر ایک لاکھ روپئے سے زیادہ ہوچکا ہے۔ اس سے قبائلی طلبہ و طالبات کو اور زیادہ سہولت مل رہی ہے۔ مرکزی سرکار، ہر سال تقریباً 30 لاکھ قبائلی نوجوانوں کو اسکالرشپ بھی دے رہی ہے۔ قبائلی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ سے جوڑنے کے لئے بھی غیرمعمولی کام کیا جارہا ہے۔ آزادی کے بعد جہاں صرف 18 ٹرائبل ریسرچ انسٹی ٹیوٹس بنے، وہیں صرف سات سال میں ہی 9 نئے ادارے قائم کئے جاچکے ہیں۔

ساتھیو،

قبائلی سماج کے بچوں کو ایک بہت بڑی دقت، تعلیم کے وقت زبان کی بھی ہوتی تھی۔ اب نئی قومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبان میں پڑھائی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کا بھی فائدہ ہمارے قبائلی سماج کے بچوں کو ملنا یقینی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

قبائلی سماج کی کوشش، سب کی کوشش، ہی آزادی کے امرت کال میں بلند بھارت کی تعمیر کی توانائی ہے۔ قبائلی سماج کے عزت نفس کے لئے، خوداعتمادی کے لئے، حق کے لئے، ہم دن رات محنت کریں گے۔ آج قبائلی یوم فخر پر ہم اس عزم کا اعادہ کررہے ہیں۔ اور یہ قبائلی یوم  فخر جیسے ہم گاندھی جینتی مناتے ہیں، جیسے ہم سردار پٹیل کی جینتی مناتے ہیں، جیسے ہم بابا صاحب امبیڈکر کی جینتی مناتے ہیں، ویسے ہی بھگوان برسا منڈا کی 15 نومبر کی جینتی ہر سال قبائلی یوم فخر کے طور پر پورے ملک میں منائی جائے گی۔

ایک بار پھر آپ سبھی کو بہت بہت مبارک باد۔ میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر کرکے پوری طاقت سے بولئے –

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21 نومبر 2024
November 21, 2024

PM Modi's International Accolades: A Reflection of India's Growing Influence on the World Stage