انڈیا ٹوڈے کانکلیو میں جڑے سبھی معززین کو میرا نمسکار۔ ملک اور بیرونِ ملک سے جو ناظرین-قارئین، ڈجیٹل طریقے سے ہمارے ساتھ جڑے ہیں، ان کا بھی خیرمقدم۔ مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ اس کانکلیو کا موضوع ہے – دی انڈیا مومنٹ۔ آج دنیا کے بڑے ماہر اقتصادیات، تجزیہ کار، مفکرین، سبھی یہ کہتے ہیں کہ ، ایک آواز ہو کر کہتے ہیں کہ ’یہ بھارت کا وقت ہے‘۔ لیکن جب انڈیا ٹوڈے گروپ یہ پرامیدی ظاہر کرتا ہے، تو یہ اور خاص ہے۔ ویسے میں نے 20 مہینے قبل لال قلعہ سے کہا تھا- یہی سمے ہے، صحیح سمے ہے۔ لیکن یہاں پہنچتے پہنچتے 20 مہینے لگ گئے۔ تب بھی جذبہ یہی تھا – دس اِز انڈیاز مومنٹ۔
ساتھیو،
کسی بھی ملک کی ترقی کے سفر میں متعدد نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، کئی پڑاؤ آتے ہیں۔ آج 21ویں صدی کی اس دہائی میں بھارت کے سامنے جو وقت آیا ہے، یہ بے مثال ہے۔ آج سے کچھ دہائی قبل جو ممالک آگے بڑھے، کئی ممالک آگے بڑھے، ترقی حاصل کی، لیکن ان کے سامنے حالات بہت مختلف تھے۔ ایک طرح سے ان کا مقابلہ خود سے ہی تھا، ان کے سامنے اتنی مسابقت نہیں تھی۔ لیکن آج جن حالات میں بھارت آگے بڑھ رہا ہے، وہ چنوتیاں بہت ہی مختلف ہیں، بہت ہی بڑی ہیں، تنوع سے بھری ہوئی ہیں۔ آج اتنے سارے عالمی مسائل ہیں، اب دیکھئے 100 سال میں آیا سب سے بڑا وبائی مرض، سب سے بڑا بحران، دو ممالک مہینوں سے جنگ میں مصروف ہیں، پوی دنیا کی سپلائی چین درہم برہم ہے، ایسی صورت میں، اس پس منظر کو سوچئے، اس صورتحال میں دی انڈیا مومنٹ کی بات ہونا عام بات نہیں ہے۔
یہ ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے جس کے ہم سب شاہد ہیں۔ آج پوری دنیا بھارت کو لے کر اعتماد سے پر ہے۔ آج بھارت میں تیز ترین رفتار سے آگے بڑھنے والی معیشت ہے۔ آج بھارت دنیا میں سر فہرست اسمارٹ فون ڈاٹا کنزیومر ہے۔ آج بھارت، عالمی فن ٹیک اختیارکاری کی شرح میں سرفہرست ہے۔ آج بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا موبائل مینوفیکچرر ہے۔ آج بھارت میں دنیا کا تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ایکو نظام ہے۔
ایسی کتنی ہی باتوں پر مباحثے ہوتے رہے ہیں۔ لیکن ، چلئے پرانی باتیں کبھی کسی کو ضرورت پیش آئی تو کھود کر نکالے گا۔ لیکن میں ابھی ابھی کی بات کرنا چاہتا ہوں اور وہ بھی 2023 کی۔ 2023 کے 75 دن ہوئے ہیں۔ میں 75 دنوں کی ہی بات آج کرنا چاہتا ہوں۔ ان 75 دنوں میں ملک کا تاریخی گرین بجٹ آیا۔ ان 75 دنوں میں کرناٹک کے شیوموگا میں ہوائی اڈے کا افتتاح ہوا۔ ان 75 دنوں میں ممبئی میں میٹرو ریل کا اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ ان 75 دنوں میں ملک میں دنیا کا سب سے طویل ریور کروز چلا۔ بنگلورو میسور ایکسپریس وے شروع ہوا۔ دہلی-ممبئی ایکسپریس وے کا ایک سیکشن شروع کیا گیا۔ ممبئی سے وشاکھاپٹنم سے وندے بھارت ریل گاڑیاں شروع ہوئیں۔ آئی آئی ٹی دھارواڑ کے مستقل کیمپس کا افتتاح ہوا۔ بھارت نے انڈمان اور نکوبار جزائر کے 21 جزائر کو پرم ویر چکر فاتحین کے نام کیا۔
ساتھیو،
ان 75 دنوں میں ہی بھارت نے پیٹرول میں 20 فیصد ایتھنول کی آمیزش کرکے ای20 ایندھن کا آغاز کیا ہے۔ ان 75 دنوں میں ہی تمکورو میں ایشیا کی سب سے بڑی جدید ہیلی کاپٹر فیکٹری کا افتتاح ہوا ہے۔ ایئر انڈیا نے دنیا کا سب سے بڑا ہوابازی سے متعلق آرڈر دیا ہے۔ ان 75 دنوں میں ہی بھارت نے ای۔سنجیونی کے توسط سے 10 کروڑ ٹیلی مشاورت کا مقام حاصل کیا ہے۔ ان 75 دنوں میں ہی بھارت نے 8 کروڑ نئے ٹیپ واٹر کنکشن دینے کا مقام حاصل کیا ۔ ان 75 دنوں میں ہی یوپی-اتراکھنڈ میں ریل نیٹ ورک کی 100 فیصد برق کاری کا کام مکمل ہوا ہے۔
ساتھیو،
ان 75 دنوں میں کونو نیشنل پارک میں 12 چیتوں کا نیا بیچ آیا ہے۔ بھارتی خواتین کی ٹیم نے انڈر-19 کرکٹ ٹی-20 عالمی کپ جیتا ہے۔ ان 75 دنوں میں ملک کو 2 آسکر جیتنے کی خوشی ملی ہے۔
ساتھیو،
ان 75 دنوں میں ہزاروں غیر ملکی سفارتکاروں اور مختلف تنظیموں کے نمائندگان جی-20 کی میٹنگوں میں شرکت کی غرض سے بھارت آئے۔ ان 75 دنوں میں جی20 کی 28 اہم میٹنگیں ہوئی ہیں یعنی ہر تیسرے دن ایک میٹنگ۔ اسی دوران توانائی سربراہ ملاقات ہوئی، آج ہی گلوبل ملیٹس کانفرنس ہوئی ہے۔ ہم نے دیکھا، بنگلورو میں ہوئے ایئرو انڈیا میں حصہ لینے کے لیے 100 سے زائد ممالک بھارت آئے۔ ان 75 دنوں میں ہی سنگا پور کے ساتھ یو پی آئی لنکیج کی شروعات ہوئی۔ ان 75 دنوں میں ہی ترکیہ کی مدد کے لیے بھارت نے آپریشن دوست چلایا۔ اب سے کچھ گھنٹے قبل ہی بھارت – بنگلہ دیش گیس پائپ لائن کا افتتاح ہوا ہے۔ یہ 75 دنوں کی ہی اتنی طویل فہرست ہے کہ وقت کم پڑجائے گا۔ اور میں 75 دن کی کچھ باتیں اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ یہ انڈیا مومنٹ کا ہی تو اظہار ہے۔
ساتھیو،
آج ملک ایک جانب روڈ-ریلوے، بندرگاہ – ہوائی اڈے جیسے فزیکل بنیادی ڈھانچے تیار کر رہا ہے، تو دوسری جانب بھارتی ثقافت اور سافٹ پاور کے لیے بھی دنیا میں حیرت انگیز کشش رکھتا ہے۔ آج یوگ پوری دنیا میں مقبول عام ہو چکا ہے۔ آج آیوروید کو لے کر جوش و خروش ہے، بھارت کے کھان پان کو لے کر جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ آج بھارتی فلمیں، بھارتی موسیقی، نئی توانائی کے ساتھ لوگوں کو اپنا دیوانہ بنا رہی ہیں۔ ہمارے موٹے اناج- شری اَن، بھی پوری دنیا میں پہنچ رہے ہیں۔ بات خواہ بین الاقوامی شمسی اتحاد کی ہو یا تباہکاری کا سامنا کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے اتحاد کی ہو، دنیا آج اس بات کو محسوس کر رہی ہے کہ بھارت کے خیالات اور بھارت کی قوت دنیا کی فلاح کے لیے ہے۔ اس لیے آج دنیا کہہ رہی ہے – ’یہ بھارت کا وقت ہے‘۔
اور آپ سب نے حال فی الحال میں ایک اور بات نوٹ کی ہوگی۔ ان سب کے زبردست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات کی جانب میں آپ کی توجہ مبذول کرتا ہوں۔ آج بیشتر ممالک جب بھی مجھے ملنا ہوتا ہے یا ان کا بھارت آنا ہوتا ہے یا بھارت سے کسی کا وہاں دورہ ہوتا ہے، آپ نے غور کیا ہوگا کہ اُن ممالک میں دوڑ لگی ہے کہ بھارت سے چوری کی گئیں قدیم مورتیاں ہیں نا، وہ خود بہ خود ہم کو دے دیتے ہیں، لے جایئے۔ کیونکہ اب ان کو یقین ہوا ہے کہ اس کا احترام بھی وہیں ممکن ہے۔ یہی تو مومنٹ ہے۔
اور یہ سب ایسے ہی تو نہیں ہو رہا ہے دوستو! آج کے انڈیا مومنٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ آج اس میں وعدے کے ساتھ ساتھ کارکردگی بھی جڑ گئی ہے۔ یہاں اتنے بڑے لوگ بیٹھے ہیں۔ آپ نے تو 2014 سے پہلے کی سرخیاں لکھی ہیں، پڑھی ہیں، رپورٹ کی ہیں۔ اور تب میرے جیسا کوئی دکان چلانے والا نہیں تھا۔ پہلے کیا سرخیاں ہوتی تھیں؟ اس شعبے میں لاکھ کروڑ روپئے کا گھوٹالہ۔ بدعنوانی کے خلاف عوام سڑکوں پر اُتری۔ آج کیا سرخی ہوتی ہے؟ بدعنوانی کے معاملات سے متعلق کاروائی سے خائف بدعنوان افراد سڑکوں پر اترے۔ آپ لوگوں نے تو گھوٹالوں کی خبریں دکھا دکھا کر اتنی ٹی آر پی بٹوری ہے۔ اب آپ کے پاس موقع ہے، بدعنوان افراد پر کاروائی دکھاکر کے ٹی آر پی بڑھایئے۔ کسی کے دباؤ میں نہ آئیں، توازن قائم کرنے کے چکر میں یہ موقع نہ گنوائیں۔
ساتھیو،
پہلے شہروں میں بم دھماکے کی سرخیاں ہوتی تھیں، نکسلی وارداتوں کی سرخیاں ہوتی تھیں۔ آج امن اور خوشحالی کی خبریں زیادہ آتی ہیں۔ پہلے ماحولیات کے نام پر بڑے بڑے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹ روکے جانے کی خبریں آتی تھیں۔ آج ماحولیات سے متعلق مثبت خبروں کے ساتھ ہی، نئی شاہراہیں، ایکسپریس وے بننے کی خبریں آتی ہیں۔ پہلے ریل گاڑیوں کے افسوسناک حادثوں کی خبریں عام بات ہوتی تھیں۔ آج جدید ریل گاڑیوں کی شروعات سرخی بنتی ہے۔ پہلے ایئر انڈیا کے گھوٹالوں کی، بدحالی کا ذکر ہوتا تھا۔ آج دنیا کی سب سے بڑی ایئر کرافٹ ڈیل کی خبریں دنیا میں ہیڈلائن بنتی ہیں۔ وعدے اور کارکردگی کی یہی تبدیلی انڈیا مومنٹ لے کرآئی ہے۔
ویسے ساتھیو، جب ملک خود اعتمادی سے لبریز ہو – پرعزم ہو، غیر ممالک بھی، دنیا کے بڑے بڑے لوگ بھی بھارت کو لے کر پر امید ہوں، ان سب کے درمیان ناامیدی کی باتیں، افسردگی کی باتیں، بھارت کو نیچا دکھانے کی باتیں، بھارت کی خوداعتمادی توڑنے کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں کہ کسی کا کہیں پر اچھا دن ہوتا ہے نا تو ایک کالا ٹیکہ لگانے کا رواج رہتا ہے۔ تو آج اتنا اچھا کام ہورہا رہے ، اتنا مبارک کام ہو رہا ہے کہ کچھ لوگوں نے کالا ٹیکہ لگانے کا ذمہ لیا ہے اور یہ اس لیے کہ نظر نہ لگ جائے۔
ساتھیو،
غلامی کے طویل دور کے چلتے ہم نے غریبی کا ایک لمبا عرصہ دیکھا ہے۔ یہ دور جتنا بھی طویل رہا ہو، ایک بات قائم و دائم رہی۔ بھارت کا غریب، جلد سے جلد غریبی سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ آج بھی وہ دن بھر سخت محنت کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی بدلے، اس کی آنے والی پیڑھیوں کی زندگی بدلے۔ وہ صرف دو وقت کی روٹی تک محدود نہیں رہنا چاہتا۔
گذشتہ برسوں میں جو بھی حکومتیں رہی ہیں، انہوں نے اپنی اپنی صلاحیت اور سوجھ بوجھ سے کوششیں بھی کی ہیں۔ ان ہی کوششوں کے حساب سے ان حکومتوں کو نتائج بھی حاصل ہوئے ہیں۔ ہم نئے نتائج چاہتے تھے، اس لیے ہم نے اپنی رفتار بھی بڑھائی اور پیمانہ بھی بڑھایا۔ اب جیسے، بیت الخلاء تو پہلے بھی بنتے تھے۔ لیکن ہم نے ریکارڈ تیزی سے 11 کروڑ سے زائد بیت الخلاء تعمیر کیے۔ بینک تو ملک میں پہلے بھی تھے اور غریبوں کے نام پر بینکوں کو قومیانے کا کام بھی انجام دیا گیا۔ لیکن ہم نے ۔۔۔۔ اور ابھی ارون جی تفصیل سے بتا رہے تھے، ہم نے تیزی سے 48 کروڑ افراد کو بینکنگ نظام سے جوڑا۔ غریبوں کے لیے گھر کی اسکیم بھی پہلے سے تھی۔ ان اسکیموں کی حالت کیا تھی، یہ آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہماری حکومت نے اسے بھی پوری طرح بدلا۔ اب گھر کا پیسہ سیدھے اس غریب کے بینک کھاتے میں بھیجا جاتا ہے۔ اب گھر بنانے کے پورے عمل کی مسلسل نگرانی ہوتی ہے، اور ’گھر کے مالک پر مبنی ‘اسکیم لے کر ہم چل رہے ہیں۔ اور جب اسکیم مالک پر مبنی ہو تو گھپلے نہیں ہوتے، وہ اچھا گھر بنانا چاہتا ہے۔
ہم نے پچھلے 9 برسوں میں 3 کروڑ سے زائد گھر بناکر غریبوں کو دیے ہیں۔ یعنی دنیا کے کئی ممالک ہیں، پورا ملک نیا بنا رہے ہیں ہم۔ ہمارے یہاں اکثر خواتین کے نام ملکیت نہیں ہوتی ہے۔ دکان خریدی جاتی ہے، مرد کے نام۔ گاڑی خریدی جاتی ہے، تو مرد کے نام۔ زمین خریدی جاتی ہے، مرد کے نام۔ لیکن ہماری حکومت نے جو گھر غریبوں کو بناکر دیے ہیں، اس میں سے تقریباً ڈھائی کروڑ گھر، مشترکہ نام سے ہیں، ان میں خواتین کا بھی مالکانہ حق ہے۔ اب آپ سوچئے، غریب خاتون خود کو بااختیار محسوس کرے گی تو پھر انڈیا مومنٹ آئے گا یا نہیں؟
ملک میں ایسی کتنی ہی تبدیلی ہوئی ہیں جو انڈیا مومنٹ لائی ہیں۔ ان میں سے کچھ تبدیلیوں کا ذکر تو میڈیا بھی نہیں کرتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا کی ایک بڑی چنوتی- ملکیت کے حقوق کی بھی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا میں صرف 30 فیصد آبادی کے پاس ہی ان کی ملکیت کے قانونی دستاویزات موجود ہیں۔ یعنی دنیا کی 70 فیصد آبادی کے پاس ان کی ملکیت کے قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔
ملکیت کا حق نہ ہونا، عالمی ترقی کے سامنے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا کے متعدد ترقی یافتہ ممالک بھی اس چنوتی سے نبردآزما ر ہے ہیں۔ لیکن آج کا بھارت، اس میں بھی قیادت کر رہا ہے۔ گذشتہ دو ڈھائی برسوں سے بھارت میں پی ایم – سوامتوا یوجنا چل رہی ہے۔ تکنالوجی کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے۔ بھارت کے مواضعات میں، ڈرون تکنالوجی کی مدد سے زمین کی میپنگ کی جا رہی ہے۔ اب تک بھارت کے دو لاکھ چونتیس ہزار مواضعات میں ڈرون جائزے مکمل کیے جا چکے ہیں۔ ایک کروڑ بائیس لاکھ پراپرٹی کارڈ بھی دیے جا چکے ہیں۔ اس پورے عمل کا ایک اور فائدہ ہوا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا یہ ڈر بھی کم ہوا ہے کہ اگر وہ گاؤں سے باہر گئے تو ان کے گھر یا زمین پر قبضہ ہو جائے گا۔
ایسے کتنے ہی خاموش انقلاب آج بھارت میں رونما ہو رہے ہیں اور یہی انڈیا مومنٹ کی بنیاد بن رہا ہے۔ ایک اور مثال کاشتکاروں کو ملنے والی مدد کی بھی ہے۔ پہلے انتخابات کو دیکھتے ہوئے کسانوں کو قرض معافی کا اعلان ہوتا تھا۔ لیکن کروڑوں کاشتکاروں کے پاس بینک کھاتے ہی نہیں تھے، وہ تو اور ذرائع سے قرض لیا کرتے تھے۔ انہیں تو قرض معافی کا کوئی فائد ہی نہیں ملتا تھا۔ ہم نے اس صورتحال کو بھی تبدیل کیا۔ پی ایم کسان سمان ندھی سے ابھی تک تقریباً ڈھائی لاکھ کروڑ روپئے سیدھے کسانوں کے بینک کھاتے میں بھیجے گئے ہیں۔ اس کا فائدہ ملک کے ان 11 کروڑ چھوٹے کاشتکاروں کو ہوا ہے، جنہیں پہلے کوئی پوچھتا نہیں تھا۔
ساتھیو،
کسی بھی ملک کی ترقی میں، پالیسیوں-فیصلوں میں ٹھہراؤ، جمود، حالت جوں کی توں بنے رہنا، ایک بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی پرانی سوچ اور نقطہ نظر کی وجہ سے، کچھ کنبوں کی حدود کی وجہ سے، ایک طویل ٹھہراؤ رہا۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو اس میں ہمیشہ ترقی ہونی چاہئے، بہادرانہ فیصلے لینے کی قوت ہونی چاہئے۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو اس میں نیا پن تسلیم کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے، اس میں ترقی پسند طرز فکر ہونا چاہئے۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے تو اسے اپنے اہل وطن کی صلاحیتوں پر، ان کی اہلیت پر اعتماد ہونا چاہئے۔ اور ان سے اوپر، ملک کے عزائم اور خوابوں پر ملک کے عوام کا آشیرواد ہونا چاہئے، اہداف کی حصولیابی میں عوام کی شراکت داری ہونی چاہئے۔
صرف حکومت اور قیادت کے توسط سے مسائل کا حل تلاشنے کا راستہ، بہت ہی محدود نتائج دیتا ہے۔ لیکن جب 130 کروڑ اہل وطن کی قوت یکجا ہوتی ہے، جب سب کی کوشش لگتی ہے تو پھر ملک کے سامنے کوئی بھی مسئلہ ٹک نہیں پاتا۔ اس لیے ملک کے لوگوں کا حکومت پر اعتماد اتنا ہی ضروری ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ آج اہل وطن میں یہ یقین جاگا ہے کہ حکومت کو ان کی پرواہ ہے۔
اس کی اور وجوہات بھی میں آپ کو بتانا چاہوں گا۔ اور وہ ہے حکمرانی میں ہیومن ٹچ، اچھی حکمرانی میں حساسیت۔ ہم نے حکمرانی کو ہیومن ٹچ دیا ہے، تب جاکر اتنا بڑا اثر نظر آرہا ہے۔ اب جیسے فعال دیہی اسکیم ہے۔ دہائیوں تک ہمارے سرحدی مواضعات کو آخری گاؤں مانا گیا۔ ہم نے انہیں ملک کا پہلا گاؤں ہونے کا یقین دلایا، ہم نے وہاں ترقی کو ترجیح دی۔ آج حکومت کے افسران، وزراء ان مواضعات میں جا رہے ہیں، وہاں کے لوگوں سے مل رہے ہیں، وہاں طویل وقت گزار رہے ہیں۔
شمال مشرق کے لوگوں کو بھی پہلے دل اور دلی کی دوری بہت گراں گزرتی تھی۔ ہم نے یہاں بھی حکمرانی کو ہیومن ٹچ سے جوڑا۔ اب مرکزی حکومت کے وزراء۔۔۔ جیسے ارون جی نے بڑی تفصیل سے بتایا، باقاعدہ طور سے شمال مشرق کا دورہ کرتے ہیں۔ اور وہ بھی ریاستی دارالحکومت نہیں، اندرونی علاقوں میں جاتے ہیں۔ میں بھی شمال مشرق جانے کی نصف سنچری مار چکا ہوں۔
ساتھیو،
اس حساسیت نے نہ صرف شمال مشرق کی دوری کم کی ہے بلکہ وہاں قیام امن میں بہت مدد کی ہے۔ آپ کو یوکرین بحران کے دوران حکومت کے کام کاج کے طریقے کو بھی یاد کرنا چاہئے۔ ملک کے ہزاروں کنبے فکر میں مبتلا تھے۔ ہم نے تقریباً 14 ہزار کنبوں سے رابطہ قائم کیا، ہر گھر میں حکومت کا ایک نمائندہ بھیجا۔ وہ ان کنبوں کے اندر، ان کے درمیان بیٹھا، حکومت کے فرد کے طور پر بیٹھا۔ ہم نے انہیں مشکل گھڑی میں یقین دلایا کہ حکومت ان کے ساتھ ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ کبھی کبھی ایسی چیزوں کو اتنا اچھال دیا جاتا ہے کہ جہاں کام کرنا ہے اس میں بھی رکاوٹیں آجاتی ہیں۔ اور اس لیے ہم نے پہلا کام کیا، جاؤ بھئی اس کنبے میں جاکر بیٹھوں۔ ان سے مسلسل رابطے میں رہو۔ اور اس کی وجہ سے ملک میں سبھی کو یقین ہوگیا کہ ’ٹھیک ہے بھائی، بچہ وہاں ہے، ابھی اس حالت میں کل آئے گا، پرسوں آئے گا‘، یہ صورتحال پیدا کی۔
انسانی جذبات و احساسات سے بھرپور ایسی ہی حکمرانی سے انڈیا مومنٹ کو توانائی ملتی ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ اگر حکمرانی میں یہ ہیومن ٹچ نہ ہوتا، تو ہم کورونا کے خلاف اتنی بڑی لڑائی بھی نہیں جیت سکتے تھے۔
ساتھیو،
آج بھارت جو کچھ حاصل کر رہا ہے اس کے پس پشت ہماری جمہوریت کی طاقت ہے، ہمارے اداروں کی طاقت ہے۔ دنیا آج دیکھ رہی ہے کہ آج بھارت میں جمہوری طریقہ سے منتخب حکومت، بڑے فیصلے لے رہی ہے۔ اور بھارت نے دنیا کو دکھایا ہے کہ جمہوریت اچھے نتائج پیش کر سکتی ہے۔ گذشتہ برسوں میں بھارت نے متعددنئے ادارے تعمیر کیے ہیں۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد بھارت کی قیادت میں تشکیل دیا گیا۔ تباہکاری کا مقابلہ کرنے والے بنیادی ڈھانچے کے لیے اتحاد (سی ڈی آر آئی) کی تشکیل بھارت کی قیادت میں عمل میں آئی۔ نیتی آیوگ آج مستقبل کے روڈ میپ کو طے کرنے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ قومی کمپنی قانونی ٹربیونل (این سی ایل ٹی) ملک میں کارپوریٹ حکمرانی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جی ایس ٹی کونسل کی وجہ سے ملک میں جدید ٹیکس نظام قائم کیا گیا ہے۔
دنیا آج دیکھ رہی ہے کہ کیسے بھارت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی جمہوری شراکت داری میں اضافہ رونما ہو رہا ہے۔ملک میں کورونا کے دور میں متعدد انتخابات ہوئے، کامیابی کے ساتھ ہوئے، یہ ہمارے اداروں کی طاقت ہے۔ عالمی بحران کے درمیان آج بھارت کا معاشی نظام مضبوط ہے، بینکنگ نظام مضبوط ہے۔ یہ ہمارے اداروں کی طاقت ہے۔ ہم نے دور دراز علاقوں تک ٹیکے پہنچائے، 220 کروڑ سے زائد خوارکیں لگوائیں، یہ ہمارے اداروں کی طاقت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہماری جمہوریت اور ہمارے جمہوری اداروں پر اسی وجہ سے یہ کامیابی ہی کچھ لوگوں کو چبھتی ہے اور اس لیے حملے بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے، ان حملوں کے بیچ بھی بھارت، اپنے اہداف کی طرف تیزی سے آگے بڑھے گا، اپنے اہداف کو حاصل کرے گا۔
ساتھیو،
بھارت کا کردار جب عالمی سطح پر بڑھ رہا ہے تو بھارت کے میڈیا کو بھی اپنا عالمی کردار بنانا ہے۔ ’سب کا پریاس‘ سے ہی انڈیا مومنٹ کو ہمیں مضبوط کرنا ہے۔ آزادی کے امرت کال میں ترقی یافتہ بھارت کے سفر کو مضبوط کرنا ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر ارون جی کا، انڈیا ٹوڈے گروپ کا، مجھے یہاں آنے کا موقع دیا، بات کرنے کا موقع دیا، اس لیے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور 2024 میں مدعو کرنے کی جو ہمت دکھائی ہے، اس کے لیے خصوصی طور پر شکریہ۔
آپ کا شکریہ!