بھارت ماتا کی جئے! بھارت ماتا کی جئے ! بھارت ماتا کی جئے!
ہم اس مقدس سرزمین کا بار بار سلام کرتے ہیں۔ آج ہمیں بہت زیادہ طاقت والی ماں پاٹیشوری کی مقدس سرزمین اور چھوٹی کاشی کے نام سے مشہور بلرام پور کی دھرتی پر پھر آنے کاموقع ملا۔ آپ سے ہمیں خوب آشیرواد ملا ہے۔
اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین، یو پی کے پُرجوش، محنتی اور مقبول وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، نائب وزیراعلیٰ جناب کیشور پرساد موریا جی، مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت جی، کوشل کشور جی، ریاستی سرکار میں وزیر مہندر سنگھ جی، رماپتی شاستری جی، مکٹ بہاری ورما جی، برجیش پاٹھ جی، آشوتوش ٹنڈن جی، بلدیو اولاکھ جی، جناب پلٹو رام جی، اسٹیج پر موجود سبھی پارلیمنٹ کے میرے ساتھی، سبھی معزز اراکین اسمبلی، ضلع پنچایتوں کے اراکین، اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنو، انقلابیوں کی اس سرزمین نے ملک کی جدوجہد آزادی میں اپنا غیرمعمولی تعاون دیا ہے۔ راجا دیوی بخش سنگھ، راجا کرشن دت رام اور پرتھوی بال سنگھ جیسے طاقتوروں نے انگریزی حکومت سے لوہا لینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اجودھیا میں بن رہے بھگوان شری رام کے پُرشکوہ مندر کی جب بات ہوگی بلرام پور ریاست کے مہاراجا پاٹیشوری پرساد سنگھ کے تعاون کا ذکر ضرور ہوگا۔ بلرام پور کے لوگ تو اتنے پارکھی ہیں کہ انہوں نے نانا جی دیشمکھ اور اٹل بہاری واجپئی کے طور پر دو دو بھارت رتنوں کو گڑھا ہے، انہیں سنوارا ہے۔
ساتھیو،
ملک کے معماروں اور ملک کے محافظوں کی اس دھرتی سے میں آج ملک کے ان سبھی بہادر جانبازوں کو بھی خراج عقیدت پیش کررہا ہوں جن کا 8 دسمبر کو ہوئے ہیلی کاپٹر حادثے میں انتقال ہوگیا۔ بھارت کے پہلے دفاعی عملے کے سربراہ جنرل بپن راوت جی کا جانا ہر بھارت سے محبت کرنے والے کے لئے ہر محب وطن کیلئے بہت بڑا نقصان ہے۔ جنرل بپن راوت جی جتنے جانباز تھے، ملک کی افواج کو خود کفیل بنانے کیلئے جتنی محنت کرتے تھے، پورا ملک اس کا گواہ رہا ہے۔ ایک فوجی، صرف اسی وقت تک فوجی نہیں رہتا جتنے دن وہ فوج میں رہتا ہے۔ اس کی پوری زندگی ایک جنگجو کی طرح ہوتی ہے، نظم وضبط، ملک کی آن بان شان کے لئے وہ ہر لمحہ وقف ہوتے ہیں۔ گیتا میں کہا گیا ہے، نین چھندنتی شسترانی نینن دہت پاوک۔ نہ اسے ہتھیار توڑ سکتے ہیں اور نہ ہی آگ جلا سکتی ہے۔ جنرل بپن راوت، آنے والے دنوں میں، اپنے بھارت کو نئے عہد کے ساتھ وہ جہاں ہوں گے وہاں سے بھارت کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھیں گے۔ ملک کی سرحدوں کی حفاظت بڑھانے کا کام سرحدی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کا کام ملک کی افواج کو خود کفیل بنانے کی مہم ،تینوں افواج میں تال میل مضبوط کرنے کی مہم، ایسے متعدد کام تیزی سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ بھارت دُکھ میں ہے لیکن درد سہتے ہوئے بھی ہم نہ اپنی رفتار روکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ترقی، بھارت رُکے گا نہیں ، بھارت تھمے گا نہیں، ہم بھارتی ملکر اور محنت کریں گے۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہر چیلنج کا مقابلہ کریں گے، بھارت کو اور مضبوط، طاقتور اور مستحکم بنائیں گے۔
ساتھیو،
یوپی کے سپوت، دیوریا کے رہنے والے گروپ کیپٹن ورون سنگھ جی کی زندگی بچانے کیلئے ڈاکٹر جی جان سے لگے ہوئے ہیں۔ میں ماں پاٹیشوری سے ان کی زندگی کی حفاظت کرنے کی دعا کرتا ہوں۔ ملک آج ورون سنگھ جی کے اہل خانہ کے ساتھ ہے، جن بہادروں کو ہم نے کھویا ہے، ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔
بھائیو اور بہنوں،
ملک پہلے کے جذبے کو سب سے اوپر رکھتے ہوئے، ملک آج ہر وہ کام کررہا ہے، جو 21ویں صدی میں ہمیں نئی اونچائی پر لے جائے۔ ملک کی ترقی کیلئے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ پانی کی کمی کبھی رکاوٹ نہ بنے۔ اس لئے ملک کی ندیوں کے پانی کا مناسب استعمال ہو، کسانوں کے کھیت تک ضرورت کے بقدر پانی پہنچے، یہ سرکار کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ سریو نہر قومی پروجیکٹ کا پورا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ جب سوچ ایماندار ہوتی ہے، تو کام بھی دمدار ہوتا ہے۔ دہائیوں سے آپ اس کے پورا ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ گھاگھرا، سریو، راپتی، بن گنگا اور روہنی کی پانی کی طاقت اب اس علاقے میں خوشحالی کا نیا دور لے کر آنے والی ہے۔ بلرام کے ساتھ ساتھ بہرائچ، گونڈا، شراوتی، سدھارتھ نگر، بستی، گورکھ پور، مہارج گنج اور کشی نگر کے سبھی ساتھیوں ، لاکھوں اپنے کسان بھائیو، بہنوں کو آج صمیم قلب سے مبارکباد دیتا ہوں۔ بارش کے موسم میں اس علاقے میں جو پریشانیاں آتی ہیں، ان کا حل نکالنے میں اس سے مدد ملے گی۔ اور میں جانتا ہوں، میرے پیارے بھائیوبہنوں، ہمارے یہاں تو تاریخ گواہ ہے اگر کسی نے پیاسے کو ایک پیالہ بھر پانی پلادیا ہوتا ہے تو وہ انسان زندگی بھر کبھی اس قرض کو بھولتا نہیں ہے، زندگی بھر اس انسان کو بھولتا نہیں ہے۔ اور آج لاکھوں کسانوں کے پیاسے کھیت جب پانی حاصل کریں گے مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کے آشیرواد زندگی بھر ہمیں کام کرنے کی طاقت دیں گے۔ آپ کے آشیرواد ہمیں نئی توانائی دیں گے۔
بھائیو، بہنوں،
آج میں یہ بھی کہناچاہوں گا، خاص طور سے وہ کسان جن کے پاس دو ہیکٹیئر سے کم زمین ہے، ان کے لئے آب پاشی کا یہ انتظام زندگی بدلنے والا ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص بستر مرگ پر پڑا ہو۔ اس کو خون کی ضرورت ہو، اس کو بلڈ کی ضرورت ہو، اور جیسے ہی ڈاکٹر خون لاکر اس کو چڑھائے اور اس کی زندگی بچ جاتی ہے۔ اس پورے علاقے کے کھیتوں کو ایسے ہی نئی زندگی ملنے والی ہے۔
ساتھیو،
بلرام پور کی مسوردال کا ذائقہ توگزشتہ برسوں میں ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ اب روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کے کسان، زیادہ قیمت دینے والی، زیادہ آمدنی دینے والی دوسری فصلوں کی کاشت بھی بڑے پیمانے پر کر پائیں گے۔
ساتھیو،
عوامی زندگی میں مجھے ایک لمبے عرصے سے کام کرنے کا موقع ملا ہے،میں نے پہلے کی کتنی ہی سرکاریں دیکھی ہیں، ان کاکام کاج بھی دیکھا ہے۔ اس طویل دور میں جو مجھے سب سے زیادہ اکھرا، جس سے مجھے سب سے زیادہ درد ہوا ہے وہ ہے ملک کے خزانے، ملک کے وقت اور ملک کے وسائل کا بیجا استعمال، اس کی بے عزتی۔ سرکاری پیسہ ہے تو مجھے کیا، میرا کیا، یہ تو سرکاری ہے۔ یہ سوچ ملک کے متوازن اور مکمل ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ اسی سوچ نے سریو نہر پروجیکٹ کو لٹکایا بھی، بھٹکایا بھی۔ آج سے قریب 50 سال پہلے اس پر کام شروع ہوا تھا۔ آپ سوچیے 50 سال کے بعد آج اس کا کام پورا ہورہا ہے۔ جب اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تھا۔ یہ صرف یہاں کے شہری نہیں، ملک کے شہری بھی اس بات کو سمجھیں، ہندوستان کا ہر شہری سمجھے، ہندوستان کو میرا نوجوان سمجھے، جو اپنے روشن مستقبل کی تمنا کرتا ہے وہ میرے ملک کا ہر نوجوان سمجھے۔
ساتھیو،
جب اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تھا، تو اس کی لاگت 100 کروڑ روپئے سے بھی کم تھی۔ ذرا آپ بولیں گے، کتنی لاگت تھی اس وقت جب شروع ہونا تھا تب۔ 100 کروڑ ، کتنی تھی۔ 100 کرور، کتنی تھی 100 کروڑ ۔ اور آج کہاں پہنچا معلوم ہے۔ آج یہ لگ بھگ 10 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے کے بعد پورا ہوا ہے۔ 10 ہزار کروڑ، کتنا 10 ہزار کروڑ، کتنا۔ 10 ہزار کروڑ۔ پہلے ہونا تھا 100 کروڑ میں، آج ہوا 10 ہزار کروڑ میں۔ یہ پیسہ کس کا تھا بھائیو، یہ پیسہ کس کا تھا، یہ دھن کس کا تھا، آپ کا تھا کہ نہیں تھا؟ اس کے مالک آپ کے نہیں تھے؟ آپ کی محنت کا ایک ایک روپیہ صحیح وقت پر صحیح کام کے لئے استعمال ہونا چاہئے تھا کہ نہیں ہونا چاہئے تھا؟ جنہوں نے یہ نہیں کیا وہ آپ کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں؟ آپ کے گنہگار ہیں کہ نہیں ہیں؟ ایسے لوگوں کو آپ سزا دیں گے کہ نہیں دیں گے؟ پکّا دیں گے؟
میرے پیارے بھائیو۔ بہنوں،
سابقہ سرکاروں کی لاپرواہی کی 100 گنا زیادہ قیمت اس ملک کو چکانی پڑتی ہے۔ ہمارے اس علاقے کے لاکھوں کسانوں کو بھی اگر سینچائی کا یہی پانی، اگر بیس سال ۔ تیس سال پہلے ملا ہوتا، آپ تصور کرسکتے تھے۔ اگر میرے کسان کے پاس پانی ہوتا، پچھلے 30-25 سال میں پانی اس کے پاس پہنچا ہوتا، تو وہ سونا پیدا کرتا کہ نہیں کرتا؟ ملک کا خزانہ بھردیتا کہ نہیں بھردیتا؟ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اچھی کر پاتا کہ نہیں کرپاتا۔
بھائیو- بہنوں،
کئی دہائیوں کی اس تاخیر کی وجہ سے میرے یہاں کے کسان بھائیو- بہنوں کا بھی اربوں- کھربوں روپئے کا نقصان ہوا ہے۔
ویسے ساتھیو،
جب میں آج دلّی سے چلا، تو صبح سے میں انتظار کررہا تھا کہ کب کوئی آئے گا، کہے گا کہ مودی جی اس پروجیکٹ کا فیتہ تو ہم نے کاٹا تھا، یہ پروجیکٹ تو ہم نے شروع کیا تھا۔ کچھ لوگ ہیں جن کی عادت ہے ایسا کہنے کی۔ ہوسکتا ہے، بچپن میں اس پروجیکٹ کا فیتہ بھی انہوں نے ہی کاٹا ہو۔
ساتھیو،
کچھ لوگوں کی ترجیح فیتہ کاٹنا ہے، ہم لوگوں کی ترجیح، پروجیکٹوں کو وقت پر پورا کرنا ہے۔ 2014 میں جب میں سرکار میں آیا تھا، تو یہ دیکھ کر حیران تھا کہ ملک میں سینچائی کے 99 بڑے پروجیکٹ ہیں جو ملک کے الگ- الگ کونوں میں دہائیوں سے ادھورے پڑے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سریو نہر پروجیکٹ میں کتنی ہی جگہوں پر نہریں آپس میں جڑی ہی نہیں تھیں، پانی آخری سرے تک پہنچانے کا انتظام ہی نہیں تھا۔ سریو نہر پروجیکٹ میں جتنا کام پانچ دہائیوں میں ہوپایا تھا، اس سے زیادہ کام ہم نے پانچ سے پہلے کرکے دکھایا ہے۔ ساتھیو، یہی تو ڈبل انجن کی سرکار ہے، یہی تو ڈبل انجن سرکار کے کام کی رفتا رہے۔ اور آپ یاد رکھئے، یوگی جی کے آنے کے بعد ہم نے بانساگر پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ کچھ دن پہلے ہی ارجن معاون نہر پروجیکٹ کا افتتاح کیا۔ اسی ہفتے گورکھپور میں جو فرٹیلائزر کارخانے اور ایمس کا افتتاح کیا گیا، ان کا بھی برسوں سے انتظار ہورہا تھا۔ کشی نگر بین الاقوامی ہوائی اڈے کی بھی فائلیں برسوں سے چل رہی تھیں۔ لیکن اس ہوائی اڈے کو بھی شروع کروانے کا کام ڈبل انجن کی سرکار نے ہی کیا ہے۔
ساتھیو،
ہماری سرکار کس طرح برسوں پرانے خوابوں کو حقیقت بنارہی ہے اس کی ایک اور مثال کین- بیتوا لنک پروجیکٹ بھی ہے۔ سالوں سے اس پروجیکٹ کی مانگ ہورہی تھی۔ ابھی دو تین پہلے ہی کابینہ نے اس پروجیکٹ کو منظوری دے دی ہے اور اس پر 45 ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جائیں گے۔ یہ اترپردیش کو اتنی بڑی سوغات مل رہی ہے، 45ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جائیں گے۔ یہ پروجیکٹ بندیل کھنڈ کو پانی کے بحران سے نجات دلانے میں بھی بڑا رول ادا کریگا۔
بھائیو اور بہنوں،
آج ملک میں آزادی کے بعد پہلی ایسی سرکار ہے، جو چھوٹے کسانوں کی خبر لے رہی ہے۔ پہلی مرتبہ دو ہیکٹیئر سے کم زمین والے چھوٹے کسانوں کو سرکاری فائدے سے، سرکاری سہولت سے جوڑا گیا ہے۔ بیج سے لیکر بازار تک، کھیت سے لیکر کھلیان تک، ان کی ہر طرح سے مدد کی جارہی ہے۔ان چھوٹے کسانوں کے بینک کھاتوں میں پی ایم کسان سمّان ندھی کے ہزاروں کروڑ روپئے براہ راست بھیجے جارہے ہیں۔ ان کی آمدنی بڑھانے کیلئے انہیں کھیتی سے وابستہ دیگر متبادلوں کی طرف بھی راغب کیا جارہا ہے۔ ایسے متبادل جس میں بہت بڑی زمین کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی انہیں اس کا راستہ دکھایا جارہا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ مویشی پالن ہو، شہد کی مکھیوں کو پالنا ہو، یا ماہی پروری ہو ان کے لئے قومی سطح پرنئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ آج بھارت دودھ کی پیداوار کے معاملے میں دنیا میں آگے ہے ہی، لیکن آپ کو جان کر یہ خوشی ہوگی آج ہم شہد، ہنی، شہد برآمد کار کے طور پر بھی دنیا میں اپنا مقام بنارہے ہیں۔ ہماری سرکار کی کوششوں کی وجہ سے، پچھلے سات برسوں میں شہد کی برآمدات بڑھ کر، قریب-قریب دو گنا ہوگئی ہے اور اس سے کسانوں کی 700 کروڑ سے زیادہ کی کمائی ہوئی ہے۔
بھائیو اور بہنوں،
کسان کی آمدنی بڑھانے کا ایک اور ذریعہ بایوفیول بھی ہے۔ ہم کھاڑی کے تیل سے چلاتے تھے اب ہم جھاڑی کا تیل بھی لیکر کے آرہے ہیں۔ بایوفیول کی متعدد فیکٹریاں یوپی میں بنائی جارہی ہیں۔ بدایوں اور گورکھپور میں بایوفیول کے بڑے کمپلیکس بنائے جارہے ہیں۔ یہاں پاس میں، گونڈا میں بھی ایتھینال کا ایک بڑا پلانٹ بن رہا ہے۔ اس کا فائدہ اس علاقے کے بہت سے کسانوں کو ہوگا۔ گنے سے ایتھینال بنانے کے ابھیان میں بھی یوپی سرگرم کردار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پچھلے ساڑھے چار سال میں لگ بھگ 12 ہزار کروڑ روپئے کا ایتھینال یوپی سے خریدا گیا ہے ۔ یوگی جی کی سرکار جب سے آئی ہے تب سے گنّے کی ادائیگی میں بھی بہت تیزی آئی ہے۔ ایک وقت 2017 سے پہلے کا بھی تھا جب گنّا کسان سالوں سال بقایہ ملنے کے لئے انتظار کرتے تھے۔ سابقہ حکومتوں کے دوران جہاں 20 سے زیادہ چینی ملوں میں تالا لگ گیا، وہیں یوگی جی کی سرکار نے اتنی ہی چینی ملوں کی توسیع اور جدیدکاری کی ہے۔ میں آج بلرام پور سے ملک بھر کے کسانوں کو ایک خصوصی دعوت بھی دینا چاہتا ہوں۔ اور میں چاہوں گا صرف اترپردیش کے نہیں، ملک بھر کے کسان میری اس دعوت کو قبول کریں اور میرے ساتھ جڑیں۔ میری دعوت کس بات کی ہے؟ اسی مہینے 5 دن کے بعد 16 تاریخ کو، 16دسمبر کو سرکار، فطری کاشت، نیچورل فارمنگ پر ایک بہت بڑا پروگرام منعقد کرنے جارہی ہے۔ ہمارے پدم ایوارڈ یافتہ سبھاش جی کرکے ہیں مہاراشٹر کے، انہوں نے زیرو بجٹ کھیتی کا ایک مشورہ دیا ہے۔ یہ وہ قدرتی کھیتی والا موضوع ہے، اس سے ہماری دھرتی ماں بھی بچتی ہے، ہمارا پانی بھی بچتا ہے اور فصل بھی اچھی اور پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔ میرا آپ سبھی کسان ساتھیوں کو، ملک بھر کے کسان ساتھیوں سے گزارش ہے کہ آپ 16دسمبر کو ٹی وی کے ذریعے سے یا کرشی وگیان کیندر کے ذریعے سے ضرور اس پروگرام میں جڑیے آپ ساری بات کو سمجھیں گے، مجھے پورا یقین ہے آپ اس کو اپنے کھیت میں لاگو کریں گے۔ یہ آپ کو بہت فائدہ دینے والا ہے۔
ساتھیو،
آپ کی ہر ضرورت کو دھیان میں رکھتے ہوئے، آپ کی زندگی آسان بنانے کے لئے ہم دن رات محنت کررہے ہیں۔ اس کی چھاپ آپ کو پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بن رہے غریب کے پکّے گھر میں بھی دکھے گی۔ پی ایم آواس کے تحت مل رہے گھروں میں، عزت گھر یعنی بیت الخلاء ہے، اُجّولا کی گیس ہے، سوبھاگیہ یوجنا کا بجلی کنکشن ہے، اُجالا کا ایل ای ڈی بلب ہے، ہر گھر جل یوجنا کے تحت مل رہا پانی کا کنکشن ہے۔ اور مجھے تو خوشی تب ہوتی ہے کیوں کہ میں اس علاقے میں بھی دورہ کرچکا ہوں، مجھے معلوم ہے۔ جب یہاں میرے تھارو قبائل کے بھائی- بہنوں کو بھی ان اسکیموں کا فائدہ مل رہا ہے، تو ہمیں خوشی بھی زیادہ ہوتی ہے اور ہمیں آشیرواد بھی زیادہ ملتا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے یہاں صدیوں سے ایک طریقہ رہا ہے کہ ایک گھر ہو گا، میری مائیں بہنیں میری بات سمجھیں اور میرے مرد بھائی بھی اپنے گھر میں بتائیں۔ یہاں ہمارا ایک عقیدہ ہے، ایک روایت ہے، ایک نظام ہے۔ کیا ہوگا، گھر ہوتا تو آدمی کا نام، دکان، پھر آدمی کا نام، گاڑی، آدمی کا نام، کھیت، آدمی کا نام۔ خواتین کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، کیا خواتین کے نام پر کچھ ہوتا ہے؟ ایسا نہیں ہوتا۔ میں تمہارے دکھ درد ماؤں بہنوں کے برابر جانتا ہوں پھر ہم نے کیا کیا؟ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے کیا کیا، ہم نے زیادہ تر مکانات جو پی ایم آواس یوجنا کے تحت بنائے جارہے ہیں ان کی ملکیت اپنی ماؤں بہنوں، بیٹیوں کو دے دی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں ایسی بہنوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، جن کے نام کم از کم ایک جائیداد ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت کی کوششوں سے یوپی کے 30 لاکھ سے زیادہ غریب خاندانوں کو پکے مکان ملے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ہماری حکومت نے مزید نئے مکانات بنانے کے لیے 2 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا انتظام کیا ہے۔ یعنی جن لوگوں کو ابھی تک پکا گھر نہیں ملا، وہ آنے والے وقت میں بھی ضرور ملیں گے۔
ساتھیو،
جب حکومت حساس ہو، غریبوں کی سنتی ہو، ان کی حالت زار کو سمجھتی ہو، تب فرق ہوتا ہے۔ آتا ہے یا نہیں آتا- آتا ہے، فرق یہ ہے کہ آیا نہیں آتا- آتا ہے۔ اس وقت ملک سو سالوں میں سب سے بڑی وبا سے لڑ رہا ہے۔ کورونا کے آنے کے بعد سب سوچ رہے تھے کہ کیا ہوگا، کیسے ہوگا؟ کم ہو یا بڑی مقدار میں کورونا کی وجہ سے ہر کوئی متاثر ہوا۔
لیکن دوستو اس کورونا کے دور میں ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ کوئی غریب بھوکا نہ سوئے۔ ابھی اس لئے، پی ایم غریب کلیان انّ یوجنا کے تحت مفت راشن فراہم کرنے کی مہم کو ہولی سے آگے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ حکومت غریبوں کے مفت راشن پر 2 لاکھ 60 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔
بھائیو اور بہنوں،
جو پہلے حکومت میں تھے‘ آپ جانتے ہیں نا، اچھی طرح جانتے ہیں نا، جو پہلے حکومت میں تھے، وہ مافیا کو تحفظ دیتے تھے۔ آج یوگی جی کی حکومت مافیا کی صفائی میں مصروف ہے۔ اسی لیے یوپی کے لوگ کہتے ہیں - فرق صاف ہے۔ جو پہلے حکومت میں تھے‘ وہ باہوبلیوں کو بڑھاتے تھے۔ آج یوگی جی کی حکومت غریبوں، پسماندہ، اور قبائلیوں کو بااختیار بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ تبھی تو یوپی کے لوگ کہتے ہیں - فرق صاف ہے۔ جو پہلے حکومت میں تھے، وہ یہاں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرتے تھے۔ آج ایسے مافیا پر جرمانہ ہو رہا ہے، بلڈوزر چل رہا ہے۔ تبھی تو یوپی کے لوگ کہتے ہیں - فرق صاف ہے۔ پہلے یوپی کی بیٹیاں گھر سے نکلنے سے پہلے 100 بار سوچنے پر مجبور ہوتی تھیں۔ آج مجرم غلط کرنے سے پہلے 100 بار سوچتا ہے۔تبھی تو یوپی کے لوگ کہتے ہیں - فرق صاف ہے۔ پہلے بیٹیاں گھر میں چھپنے پر مجبور تھیں، اب یوپی کے مجرم جیل میں چھپے ہوئے ہیں۔ تبھی تو کہتے ہیں: فرق واضح ہے۔
ساتھیو،
آج میں یقینی طور پر ایک اور اسکیم کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس سے یوپی کے لوگوں کو بہت مدد ملے گی۔ اور یہ منصوبہ ملکیت کا منصوبہ ہے۔ سوامیتوا اسکیم کے تحت آج گاؤں میں جائیدادوں کی نقشہ سازی کے بعد لوگوں کو مکانات اور کھیتوں کی ملکیت کے کاغذات دیے جارہے ہیں۔ یہ مہم کچھ ہی وقت میں یوپی کے ہر گاؤں تک پہنچنے والی ہے۔ یہ آپ کو غیر قانونی قبضوں کے خوف سے آزاد کر دے گا اور آپ کے لیے بینکوں سے مدد لینا بھی آسان ہو جائے گا۔ اب گاؤں کے نوجوانوں کو بینک سے اپنے کام کے لیے رقم جمع کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
ساتھیو،
ہم سبھی کو ملکر اتر پردیش کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، اتر پردیش کو ایک نئی شناخت دینی ہے۔ آپ کو ان لوگوں سے مسلسل چوکنا رہنا ہوگا جنہوں نے اتر پردیش کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ بھائیو اور بہنوں، میں ایک بار پھر آپ سب کو سریو نہر پروجیکٹ کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میرے ساتھ دونوں ہاتھ اوپر رکھ کر پوری طاقت سے بولیے، بھارت ماتا کی- جئے، بھارت ماتا کی- جئے، بھارت ماتا کی- جئے۔
بہت بہت شکریہ !