کسی ایک پروجیکٹ کے شروع ہونے سے کیسے ایز آف ڈوئنگ بزنس بھی بڑھتا ہے یعنی کاروبار کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایز آف لیونگ یعنی زندگی جینے کے لئے کیسے مزید آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کی یہ اعلیٰ مثال ہے۔ ابھی مجھے جن چار پانچ بھائی بہنوں سے بات کرنے کا موقع حاصل ہوا اور وہ اپنے تجربات کو جس طرح بیان کرتے تھے، خواہ وہ تیرتھ یاترا کا تصور ہو، یا گاڑی کو کم سے کم نقصان ہونے کی بات ، خواہ وقت بچانے کی بات ہو، یا کھیتی میں جو فصل پیدا ہوتی ہے اس کو ضائع ہونے سے بچانے کی با ت ہو، تازہ پھل، سبزیاں، سورت جیسے بازار تک پہنچانے کا اتنے اچھے طریقے سے سبھی ساتھیوں نے ایک طرح سے اس کے جتنے پہلو ہیں اس کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ اس کی وجہ سے کاروبار میں جو مزید سہولتیں پیدا ہوں گی، تیزرفتاری میں اضافہ ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی خوشی کا ماحول ہے۔ تاجر ہوں، کاروباری ہوں، ملازم ہوں، مزدور ہوں، کسان ہوں، طلبا ہوں، ہر کسی کو اس بہترین کنکٹیویٹی کا فائدہ حاصل ہونے والا ہے۔ جب اپنوں کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں، تو من کو سکون ملتا ہے۔
آج ایک طرح سے گجرات کے لوگوں کو دیوالی کے تیوہار کا یہ بہت بڑا تحفہ حاصل ہو رہا ہے۔ خوشی کے اس موقع پر موجود گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، مرکزی حکومت میں کابینہ کے میرے ساتھی، بھائی مان سکھ بھائی مانڈویا جی، بھارتی جنتا پارٹی کے ریاست گجرات کے صدر اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب سی آر پاٹل جی، گجرات حکومت کے سبھی وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، دیگر تمام عوامی نمائندوں اور مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں جمع ہوئے میرے پیارے بھائیو اور بہنو! آج گھوگھا اور ہزیرا کے درمیان رو۔پیکس خدمات شروع ہونے سے، سوراشٹر اور جنوبی گجرات، دونوں ہی علاقوں کے لوگوں کا برسوں پرانا خواب مکمل ہوا ہے، برسوں کا انتظار ختم ہوا ہے۔ ہزیرا میں آج نئے ٹرمنل کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ بھاؤنگر اور سورت کے درمیان قائم ہوئے اس نئے سمندری رابطے کے لئے آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد، ڈھیر ساری نیک خواہشات!
ساتھیو،
اس خدمت سے گھوگھا اور ہزیرا کے درمیان ابھی جو سڑک کی دوری پونے چار سو کلو میٹر کی ہے، وہ سمندر کے راستے سے صرف 90 کلومیٹر کی رہ جائے گی۔ یعنی جس دوری کو طے کرنے میں 10 سے 12 گھنٹے کا وقت لگتا تھا، اب اس سفر میں محض 3 سے 4 گھنٹے ہی صرف ہوا کریں گے۔ اس سے وقت تو بچے گا ہی، آپ کا خرچ بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ سڑک سے جو ٹریفک کم ہوگا، وہ آلودگی کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ جیسا کہ یہاں ابھی بتایا گیا کہ سال بھر میں، یہ اعداد و شمار اپنے آپ میں بہت بڑے ہیں، سال بھر میں تقریباً 80 ہزار مسافر یعنی 80 ہزار مسافر گاڑیاں، کاریں، تقریباً 30 ہزار ٹرک اس نئی سروس کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ سوچئے، پیٹرول ۔ ڈیزل کی کتنی کفایت ہوگی۔
ساتھیو،
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گجرات کے ایک بڑے تجارتی مرکز کے ساتھ، سوراشٹر کی یہ کنکٹیویٹی اس علاقے کی زندگی کو تبدیل کرنے والی ہے۔ اب سوراشٹر کے کاشتکاروں اور مویشی پالنے والوں کو پھل، سبزی اور دودھ سورت پہنچانے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ سڑک کے راستے پھل، سبزی اور دودھ جیسی چیزیں اتنا طویل سفر ہونے کی وجہ سے اور ٹرک کے اندر سامان اِدھر اُدھر گرنے سے کافی نقصان بھی ہوتا ہے، خصوصاً پھلوں اور سبزیوں کو کافی نقصان ہوتا ہے، یہ نقصان ہونا بند ہو جائے گا۔ اب سمندر کے راستے مویشی پالنے والوں اور کاشتکاروں کی پیداوار اور تیزی سے، زیادہ محفوظ طریقے سے بازار تک پہنچ پائیں گی۔ اسی طرح سورت میں تجارت ۔ کاروبار کرنے والے ساتھیوں اور مزدور ساتھیوں کے لئے بھی نقل و حمل بہت آسان اور سستا ہو جائے گا۔
ساتھیو،
گجرات میں رو۔پیکس فیری سروس جیسی خدمات فراہم کرانے میں بہت لوگوں کی محنت لگی ہے، یہ ایسے ہی آسانی سے نہیں ہوا ہے۔ اس کو کرنے میں کئی پریشانیاں آئیں، کئی مسائل سامنے آئے۔ ان پروجیکٹوں سے میں بہت پہلے سے وابستہ رہا ہوں اور اس وجہ سے مجھے ان سبھی پریشانیوں کے بارے میں معلوم ہے، کیسی کیسی مصیبتوں سے راستے نکالنے پڑتے تھے، کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ کر پائیں گے بھی یا نہیں کیونکہ ہم لوگوں کے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ اور میں نے ساری چیزوں کو دیکھا ہے، اس لیے اس کے لیے جن لوگوں نے محنت کی وہ سبھی مبارکباد کے حقدار ہیں۔ ان تمام انجینئروں کا، مزدوروں کا میں آج خصوصی طور سے شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہمت کے ساتھ ڈٹے رہے اور آج اس خواب کو پورا کرکے دکھا رہے ہیں۔ آج وہ محنت، وہ ہمت، لاکھوں گجراتیوں کے لئے نئی سہولت لے کر آئی ہے، نئے مواقع لے کر آئی ہے۔
ساتھیو،
گجرات کے پاس سمندری تجارت ۔ کاروبار کا ایک مالامال ورثہ رہا ہے۔ ابھی مان سکھ بھائی سینکڑوں ہزاروں سال کی تاریخ بیان کر رہے تھے کہ کیسے ہم سمندری تجارت سے جڑے ہوئے تھے۔ گجرات نے جس طرح گذشتہ دو دہائیوں میں اپنی سمندری طاقت کو سمجھتے ہوئے بندرگاہ پر مبنی ترقی کو ترجیح دی ہے، وہ ہر گجراتی کے لئے باعث فخر ہے۔ اس دوران گجرات کے ساحلی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ اور ترقیات کے دوسرے پروجیکٹوں پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ریاست میں شپ بلڈنگ پالیسی بنانا ہو، شپ بلڈنگ پارک بنانا ہو، یا خصوصی ٹرمنلس کی تعمیر ہو، ہر بنیادی ڈھانچے کو ترجیح دی گئی ہے۔ جیسے دہیج میں ٹھوس کارگو، کیمیکل اور ایل این جی ٹرمنل اور مندرا میں کول ٹرمنل۔ اس کے ساتھ ہی، ویسیل ٹریفک مینجمنٹ سسٹم اور گراؤنڈ بریکنگ کنکٹیویٹی پروجیکٹ کو بھی ہم نے پوری طرح بڑھاوا دیا ہے۔ ایسی ہی کوششوں سے گجرات کے بندرگاہ شعبے کو نئی سمت حاصل ہوئی ہے۔
ساتھیو،
صرف بندرگاہ میں فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر ہی نہیں، بلکہ ان بندرگاہوں کے آس پاس رہنے والے ساتھیوں کی زندگی بھی آسان ہو، اس کے لئے بھی کام کیا گیا ہے۔ ساحلی علاقوں کا پورا ایکو نظام ہی جدید ہو اس پر ہم نے اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ خواہ وہ ساگرکھیڈو جیسی ہماری مشن موڈ یوجنا ہو یا پھر شپنگ صنعت میں مقامی نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر انہیں روزگار فراہم کرانا ہو، گجرات میں بندرگاہ پر مبنی ترقی کا دائرہ بہت وسیع رہا ہے۔ سرکار نے ساحلی علاقوں میں ہر طرح کی بنیادی سہولیات کی ترقی کو یقینی بنایا ہے۔
ساتھیو،
ایسی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ گجرات آج ایک طرح سے بھارت کے سمندری دروازے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ گیٹ وے بن رہا ہے، خوشحالی کا دروازہ، گذشتہ 2 دہائیوں میں روایتی بندرگاہ انتظام سے نکل کر مربوط جامع نظام کا ایک منفرد ماڈل نافذ کیا گیا ہے۔ یہ ماڈل آج ایک معیار کے طور پر قائم ہوا ہے۔ آج مندرا بھارت کی سب سے بڑی کثیرالمقاصد بندرگاہ اور سکہ سب سے بڑی بندی بندرگاہ ہے۔ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ گجرات کے بندرگاہ، ملک کے اہم سمندری مراکز کے طور پر ابھرے ہیں۔ گذشتہ برس ملک کی مجموعی سمندری تجارت میں سے 40 فیصد سے زائد کی حصہ داری، گجرات کے بندرگاہوں کی رہی ہے، یہ شاید گجرات کے لوگوں کو بھی میں آج پہلی مرتبہ بتا رہا ہوں۔
ساتھیو،
آج گجرات میں، سمندری کاروبار سے، اس سے وابستہ بنیادی ڈھانچے کو اور صلاحیت سازی پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ جیسے گجرات بحری کلسٹر، گجرات سمندری یونیورسٹی، بھاؤنگر میں دنیا کا اولین سی این جی ٹرمنل، ایسی متعدد سہولیات گجرات میں تیار ہو رہی ہیں۔ گفٹ سٹی میں بننے والا گجرات بحری کلسٹر بندرگاہوں سے لے کر سمندر پر مبنی لاجسٹکس کے معاملات کو حل کرنے والا ایک وقف نظام ہوگا۔ یہ کلسٹر ایک طرح سے حکومت، صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کو بڑھاوا دے گا۔ اس سے اس شعبے کی قدر و قیمت میں اضافے میں بھی مدد ملے گی۔
ساتھیو،
گذشتہ برسوں میں، دہیج میں بھارت کا اولین کیمیاوی ٹرمنل تیار ہوا، اولین ایل این جی ٹرمنل بنا۔ اب بھاؤنگر بندرگاہ پر دنیا کا اولین سی این جی ٹرمنل قائم ہونے جا رہا ہے۔ سی این جی ٹرمنل کے علاوہ بھاؤنگر پر رو۔رو ٹرمنل، لکویڈ کارگو ٹرمنل اور کنٹینر ٹرمنل جیسی سہولیات بھی تیار کی جا رہی ہیں۔ ان نئے ٹرمنلوں کے جڑنے سے بھاؤنگر بندرگاہ کی اہلیت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔
ساتھیو،
حکومت کی کوشش، گھوگھا ۔ دہیج کے درمیان فیری سروس کو بھی دوبارہ جلد شروع کرنے کی ہے۔ اس پروجیکٹ کے سامنے فطرت سے متعلق متعدد مسائل درپیش ہیں۔ انہیں جدید تکنالوجی کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے امید ہے، گھوگھا اور دہیج کے لوگ جلد ہی اس سہولت سے مستفید ہو پائیں گے۔
ساتھیو،
سمندری تجارت ۔ کاروبار کے لئے ماہرین تیار ہوں، ایک تربیت یافتہ افرادی قوت ہو، اس کے لئے گجرات میں سمندری یونیورسٹی بہت بڑا مرکز ہے۔ اس شعبے سے متعلق ضروریات کے لئے پیشہ وارانہ تعلیم دینے والا یہ ملک کا اولین ادارہ ہے۔ آج یہاں سمندری قوانین اور بین الاقوامی تجارتی قوانین کی تعلیم سے لے کر بحری انتظام کاری، شپنگ، لاجسٹکس، اس میں بھی ایم بی اے کی سہولت موجود ہے۔ یونیورسٹی کے علاوہ لوتھل میں جس کی ابھی مان سکھ بھائی نے مختصراً وضاحت کی تھی، لوتھل میں ملک کے سمندری ورثے کی حفاظت کے لئے اولین نیشنل میوزیم بنانے کی سمت میں کام چل رہا ہے۔
ساتھیو،
آج کی رو۔پیکس فیری خدمات ہو یا پھر کچھ روز قبل شروع ہوئی سی پلین خدمات، اس سے آبی وسائل پر مبنی معیشت کو تیزرفتاری حاصل ہو رہی ہے اور آپ دیکھئے، پانی، زمین، آسمان، ان تینوں میں ان دنوں گجرات نے بہت بڑی جست لگائی ہے۔ کچھ روز قبل مجھے گرنار میں روپ وے کے افتتاح کا موقع ملا، وہ سیاحت کو تبدیل کر دے گا، مسافرین کی سہولتوں میں اضافہ کرے گا اور آسمان میں جانے کا ایک نیا راستہ فراہم کرے گا۔ اس کے بعد مجھے سی پلین کے افتتاح کا موقع حاصل ہوا، ایک جگہ سے پانی میں اُڑنا، دوسری جگہ پر پانی میں اترنا اور آج سمندر کے اندر پانی کے ذریعہ نقل و حمل کرنا، یعنی ایک ساتھ کتنی قسم کی رفتار بڑھنے والی ہے، اس آپ اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ساتھیو،
جب سمندر کی بات آتی ہے، پانی کی بات آتی ہے، تو اس کی توسیع، مچھلی سے متعلق تجارت و کاروبار سے لے کر سی ویڈ کی کھیتی سے لے کر آبی نقل و حمل اور سیاحت تک ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران ملک میں نیلگوں معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ پہلے سمندری معیشت کی بات ہوتی تھی اور آج ہم نیلگوں معیشت کی بھی بات کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
ساحل سمندر کے پورے ایکو نظام اور ماہی گیر ساتھیوں کی مدد کے لئے بھی گذشتہ برسوں میں متعدد اسکیمیں بنائی گئی ہیں۔ خواہ جدید ٹرولرس کے لئے ماہی گیروں کو مالی تعاون یا پھر موسم اور سمندری راستوں کی صحیح معلومات فراہم کرنے والا جہازرانی نظام ہو، ماہی گیروں کی حفاظت اور خوشحالی، یہ ہماری ترجیح ہے۔ حال ہی میں مچھلی سے متعلق تجارت کو فروغ دینے کے لئے پردھان متسیہ سمپدا یوجنا بھی شروع کی گئی ہے۔ اس کے تحت آنے والے برسوں میں ماہی گیری سے متعلق بنیادی ڈھانچے پر 20 ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے جائیں گے۔ اس کا بہت بڑا فائدہ گجرات کے لاکھوں ماہی گیر کنبوں کو ہوگا، ملک کی نیلگوں معیشت کو ہوگا۔
ساتھیو،
آج ملک بھر کی سمندری سرحدوں میں بندرگاہوں کی اہلیت میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور نئی بندرگاہوں کی بھی تعمیر تیزی سے چل رہی ہے۔ ملک کے پاس تقریباً 21 ہزار کلو میٹر کا جو آبی راستہ ہے، وہ ملک کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ کام آئے، اس کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ساگرمالا پروجیکٹ کے تحت آج ملک بھر میں 500 سے زائد پروجیکٹوں پر کام چل رہا ہے۔ لاکھوں کروڑ روپئے کے ان پروجیکٹوں میں سے متعدد مکمل بھی ہو چکے ہیں۔
ساتھیو،
سمندری آبی راستے ہوں یا پھر دریائی آبی راستے، بھارت کے پاس وسائل بھی رہے ہیں اور مہارت کی بھی کوئی کمی نہیں رہی۔ یہ بھی طے ہے کہ آبی راستے سے ہونے والا نقل و حمل سڑک اور ریل سے کئی گنا سستا پڑتا ہے اور ماحولیات کو بھی کم سے کم نقصان ہوتا ہے۔ پھر بھی اس سمت میں ایک جامع سوچ کے ساتھ 2014 کے بعد ہی کام ہو پایا ہے۔ یہ ندیاں، یہ سمندر، یہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد نہیں آئے ہیں، یہ پہلے بھی تھے تاہم وہ نظر یہ نہیں تھا جس سے 2014 کے بعد آج ملک دیکھ رہا ہے۔ آج ملک بھر کی ندیوں میں جو اندرونِ ملک آبی راستے پر کام چل رہا ہے، اس سے زمین سے گھری ہوئی ریاستوں کو سمندر سے مربوط کیا جا رہا ہے۔ آج خلیج بنگال میں، بحر ہند میں اپنی صلاحیتوں کو ہم غیر معمولی طور پر ترقی دے رہے ہیں۔ ملک کا سمندری حصہ آتم نربھر بھارت کا ایک اہم حصہ بن کر ابھرے، اس کے لئے مسلسل کام چل رہا ہے۔ حکومت کی ان کوششوں کو رفتار دینے کے لئے ایک اور بڑا قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ اب وزارت جہازرانی کا بھی نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اب یہ وزارت بندرگاہوں، جہازرانی اور آبی راستوں کی وزارت کے نام سے جانی جائے گی، اس کو وسعت دی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں میں بیشتر جگہوں پر جہازرانی کی وزارت بندرگاہوں اور آبی راستوں سے متعلق متعدد کام انجام دیتی آ رہی ہے۔ اب نام میں زیادہ وضاحت آنے سے کام میں بھی زیادہ وضاحت آجائے گی۔
ساتھیو،
آتم نربھر بھارت میں نیلگوں معیشت کی حصہ داری کو مضبوط کرنے کے لئے سمندر سے جڑے لاجسٹکس کو مضبوط کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ ہماری معیشت پر لاجسٹکس پر ہونے والے خرچ کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ یعنی سامان کو ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں لے جانے پر دوسرے ممالک کے مقابلے ہمارے ملک میں آج بھی خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ آبی نقل و حمل سے لاجسٹکس کی لاگت، اس کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہماری توجہ ایک ایسے ایکو نظام کو بنانے پر ہے جہاں کارگو کی بلا روک ٹوک نقل و حرکت یقینی ہو سکے۔ آج ایک بہترین بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ بہتر بحری لاجسٹکس کے لئے سنگل ونڈو سسٹم پر بھی ہم کام کرنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں، اس کی تیاریاں چل رہی ہیں۔
ساتھیو،
لاجسٹکس پر ہونے والے خرچ کو کم کرنے کے لئے اب ملک کثیر ماڈل کنکٹیویٹی کی سمت میں ایک بہت ہی جامع نظریے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ سڑک، ریل، فضا اور جہازرانی جیسے بنیادی ڈھانچے کی آپس میں کنکٹیویٹی بھی بہتر ہو اور اس میں جو رکاوٹیں آتی ہیں، ان کو بھی دور کیا جا سکے۔ ملک میں کثیر ماڈل لاجسٹکس پارکوں کی تعمیر بھی کی جا رہی ہے اور ملک کے اندر ہی نہیں، بلکہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی کثیر ماڈل کنکٹیویٹی کی ترقی کے لئے مل کر کام ہو رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام کوششوں سے ہم اپنی لاجسٹکس لاگت کو بہت کم کر پانے میں کامیاب ہو پائیں گے۔ لاجسٹکس کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لئے جو کوششیں ہو رہی ہیں، انہیں کوششوں سے معیشت کو بھی نئی رفتار حاصل ہوگی۔
ساتھیو،
تیوہاروں کے اس موسم میں خریداری بھی خوب ہو رہی ہے۔ اس خریداری کے وقت، میں سورت کے عوام سے گذارش کروں گا کہ ان کا تو دنیا میں ادھر اُدھر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں اس خریداری کے موسم میں ان سے ووکل فار لوکل کے اصول کو اپنانے کی گذارش کروں گا۔ اس اصول کو بھولنا نہیں ہے۔ ووکل فار لوکل اور میں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ دیپ خرید لیے تو مطلب ہم آتم نربھر ہو گئے، جی نہیں، ہر چیز میں دھیان دینا ہے ۔ اپنے جسم پر، اپنے گھر میں، اتنی چیزیں باہر کی ہوں گی جو ہمارے ملک کے لوگ بناتے ہیں، ہم ان کو موقع کیوں نہ دیں۔ ملک کو آگے بڑھانا ہے نہ دوستو، تو اس کے لئے ہمارے ان چھوٹے چھوٹے لوگوں کو، چھوٹے چھوٹے تاجروں کو، چھوٹے چھوٹے کایگروں کو، چھوٹے چھوٹے فنکاروں کو، گاؤں کی ہماری بہنوں کو، یہ جو چیزیں بناتی ہیں، طرح طرح کی چیزیں بناتی ہیں، ایک مرتبہ خرید کر دیکھئے تو صحیح اور فخر سے دنیا کو بتایئے کہ یہ ہمارے کے گاؤں کے لوگوں نے بنایا، ہمارے ضلع کے لوگوں نے بنایا، ہمارے ملک کے لوگوں نے بنایا۔ دیکھئے آپ کا بھی سینہ فخر سے چوڑا ہو جائے گا۔ دیوالی منانے کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔ اس لیے ووکل فار لوکل سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ملک آزادی کے 75 برس منانے والا ہے، تب تک یہ اصول ہماری زندگی کا اصول بن جائے، ہمارے کنبوں کا اصول بن جائے، ہمارے گھر کے ہر فرد کے من میں یہ احساس پیدا ہو، اس پر ہمیں زور دینا چاہئے اور اس لیے یہ دیوالی، ووکل فار لوکل کے لئے ایک اہم لمحہ بن جائے، میں میرے گجرات کے بھائیو بہنوں سے ذرا حق سے بھی مانگ سکتا ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ آپ کبھی مایوس نہیں کروگے، ابھی نندلال جی بتا رہے تھے کہ آپ نے بہت پہلے مجھے کہا تھا، میں نے اس بات کو اپنا لیا، دیکھئے مجھے کتنا اطمینان حاصل ہوا کہ کبھی نندلال جی کو ایک بات بتائی ہوگی، جو انہوں نے سنی ہوگی، انہوں نے آج اس کو اپنا لیا۔ آ پ بھی سب میرے لیے تو ہر کوئی نندلال ہے، آیئے محنت کریں، میرے ملک کے غریبوں کے لئے کچھ کریں۔ دیوالی منائیں، ان کے گھر میں دیوالی منے۔ دیپ روشن کریں، غریب کے گھر میں بھی دیپ روشن کریں، ووکل فار لوکل کے اصول کو آگے بڑھائیں۔مجھے یقین ہے کہ کورونا کے اس دور میں آپ سبھی پوری احتیاط کے ساتھ تیوہاروں کو منائیں گے کیونکہ آپ کی حفاظت وہ بھی ملک کی ہی حفاظت ہے۔ میرے پیارے بھائیو ۔ بہنو، پورے ملک کے سبھی بھائیو ۔ بہنو کو میں آنے والے دنوں میں دھن تیرس ہو، دیوالی ہو، گجرات کے لئے یہ نیا سال آئے گا، ہر بات کے لئے، ہر تیوہار کے لئے بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ!