سدھارتھ نگر، ایٹہ، ہردوئی، پرتاپ گڑھ، فتح پور، دیوریا، غازی پور، مرزا پور اور جونپور میں نئے میڈیکل کالج
’’اترپردیش کی ڈبل انجن والی سرکار ، بہت سے کرم یوگیوں کی دہائیوں کی سخت محنت کا نتیجہ ہے‘‘۔
’’مادھو پرساد ترپاٹھی کا نام ، میڈیکل کالج سے باہر آنے والے نوجوان ڈاکٹروں کو عوامی خدمات کے لئے تحریک دیتا رہے گا۔‘‘
’’پروانچل، اترپردیش ، جو کہ اس سے قبل مینن جائٹس (گردن توڑ بخار) کے لئے بدنام تھا، اب مشرقی ہندوستان کی صحت کو ایک نئی روشنی بخشے گا۔‘‘
’’اگر سرکار حساس ہے ، غریب کا درد سمجھنے کے لئے ذہن میں درد مندی کا احساس ہے، تو اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں‘‘
’’ریاست میں اتنے زیادہ میڈیکل کالجوں کا قیام غیر متوقع ہے۔ ایسا اس سے قبل نہیں ہوا اور یہ اب کیوں ہو رہا ہے، اس کی صرف ایک وجہ ہے – سیاسی عزم اور سیاسی ترجیح‘‘
’’2017تک اترپردیش کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں صرف 1900 سیٹیں تھیں۔ڈل انجن والی سرکار نے گزشتہ صرف 4 برسوں میں 1900 سے زیادہ سیٹوں کا اضافہ کیا ہے‘‘

اتر پردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی وزیر صحت جناب من سکھ منڈاویا جی، اسٹیج پر موجود یوپی سرکار کے دیگر وزراء، جن دیگر مقامات پر نئے میڈیکل کالج بنے ہیں، وہاں موجود یوپی سرکار کے وزراء، پروگرام میں موجود سبھی رکن پارلیمنٹ، رکن اسمبلی، دیگر عوامی نمائندے، اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں،

آج کا دن پوروانچل کے لیے، پورے اتر پردیش کے لیے آروگیہ کی ڈبل ڈوز لے کر آیا ہے، آپ کے لیے ایک تحفہ لے کر آیا ہے۔ یہاں سدھارتھ نگر میں یو پی کے 9 میڈیکل کالج کا افتتاح ہو رہا ہے۔ اس کے بعد پوروانچل سے ہی پورے ملک کے لیے بہت ضروری ایسے میڈیکل انفراسٹرکچر کی ایک بہت بڑی اسکیم شروع ہونے جا رہی ہے۔ اور اس بڑے کام کے لیے میں یہاں سے آپ کا آشیرواد لینے کے بعد، اس مقدس سرزمین کا آشیرواد لینے کے بعد، آپ سے بات چیت کے بعد کاشی جاؤں گا اور کاشی میں اس پروگرام کو لانچ کروں گا۔

ساتھیوں،

آج مرکز میں جو سرکار ہے، یہاں یو پی میں جو سرکار ہے، وہ متعدد کرم یوگیوں کی دہائیوں کی تپسیا کا پھل ہے۔ سدھارتھ نگر نے بھی آنجہانی مادھو پرساد ترپاٹھی جی کی شکل میں ایک ایسا وقف عوامی نمائندہ ملک کو دیا، جن کی انتھک محنت آج ملک کے کام آ رہی ہے۔ مادھو بابو نے سیاست میں کرم یوگی کے قیام کے لیے پوری زندگی لگا دی۔ یوپی بی جے پی کے پہلے صدر کے طور پر، مرکز میں وزیر کے طور پر، انہوں نے خاص طور سے پوروانچل کی ترقی کی فکر کی۔ اس لیے سدھارتھ نگر کے نئے میڈیکل کالج کا نام مادھو بابو کے نام پر رکھنا ان کے خدمت کے جذبہ کے تئیں سچی کاریانجلی ہے۔ اور اس کے لیے میں یوگی جی اور ان کی پوری سرکار کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مادھو بابو کا نام یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے نوجوان ڈاکٹروں کو عوامی خدمت کا مسلسل حوصلہ بھی دے گا۔

بھائیوں اور بہنوں،

یوپی اور پوروانچل میں اعتقاد، روحانیت اور سماجی زندگی سے جڑی بہت تفصیلی وراثت ہے۔ اسی وراثت کو صحت مند، قابل اور خوشحال اتر پردیش کے مستقبل کے ساتھ بھی جوڑا جا رہا ہے۔ آج جن 9 ضلعوں میں میڈیکل کالج کا افتتاح کیا گیا ہے، ان میں یہ نظر آتا بھی ہے۔ سدھارتھ نگر میں مادھو پرساد ترپاٹھی میڈیکل کالج، دیوریا میں مہرشی دیورہا بابا میڈیکل کالج، غازی پور میں مہرشی وشوامتر میڈیکل کالج، مرزاپور میں ماں وندھے واسنی میڈیکل کالج، پرتاپ گڑھ میں ڈاکٹر سونے لال پٹیل میڈیکل کالج، ایٹہ میں ویرانگنا اونتی بائی لودھی میڈیکل کالج، فتح پور میں عظیم لڑاکو امر شہید جودھا سنگھ اور ٹھاکر دریاؤں سنگھ کے نام پر میڈیکل کالج، جونپور میں اوما ناتھ سنگھ میڈیکل کالج، اور ہردوئی کا میڈیکل کالج۔ ایسے کتنے نئے میڈیکل کالج یہ سبھی میڈیکل کالج اب پوروانچل کے کروڑوں لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان 9 نئے میڈیکل کالجوں کی تعمیر سے، تقریباً ڈھائی ہزار نئے بیڈ تیار ہوئے ہیں، 5 ہزار سے زیادہ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل کے لیے روزگار کے نئے مواقع بنے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہر سال سینکڑوں نوجوانوں کے لیے میڈیکل کی پڑھائی کا نیا راستہ کھلا ہے۔

ساتھیوں،

جس پوروانچل کو پہلے کی حکومتوں نے، بیماریوں سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، وہی اب مشرقی بھارت کا میڈیکل ہب بنے گا، اب ملک کو بیماریوں سے بچانے والے متعدد ڈاکٹر یہ سرزمین ملک کو دینے والی ہے۔ جس پوروانچل کی شبیہ پچھلی سرکاروں نے خراب کر دی تھی، جس پوروانچل کو دماغی بخار سے ہوئی افسوسناک اموات کی وجہ سے بدنام کر دیا گیا تھا، وہی پوروانچل، وہی اتر پردیش، مشرقی بھارت کو صحت کا انیا اجالا دینے والا ہے۔

ساتھیوں،

یوپی کے بھائی بہن بھول نہیں سکتے کہ کیسے یوگی جی نے پارلیمنٹ میں یوپی کے بدحال میڈیکل نظام کی آپ بیتی سنائی تھی۔ یوگی جی تب وزیر اعلیٰ نہیں تھے، وہ ایک رکن پارلیمنٹ تھے اور بہت چھوٹی عمر میں رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ اور اب آج یوپی کے لوگ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جب یوگی جی کو عوام نے خدمت کا موقع دیا تو کیسے انہوں نے دماغی بخار کو بڑھنے سے روک دیا، اس علاقے کے ہزاروں بچوں کی زندگی بچا لی۔ سرکار جب حساس ہو، غریب کا درد سمجھنے کے لیے من میں ہمدردی کا جذبہ ہو، تو اسی طرح کا کام ہوتا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

ہمارے ملک میں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد بھی بنیادی طبی اور صحت سے متعلق سہولیات کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ اچھا علاج چاہیے تو بڑے شہر جانا ہوگا، اچھے ڈاکٹر سے علاج کرانا ہے، تو بڑے شہر جانا ہوگا، دیر رات کسی کی طبیعت خراب ہو گئی تو گاڑی کا انتظام کرو اور لے کر بھاگو شہر کی طرف۔ ہمارے گاؤں دیہات کی یہی سچائی رہی ہے۔ گاؤوں میں، قصبوں میں، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر تک میں بہتر طبی سہولیات مشکل سے ہی ملتی تھیں۔ اس تکلیف کو میں نے بھی برداشت کیا ہے، محسوس کیا ہے۔ ملک کے غریب، دلت، مظلوم، محروم، ملک کے کسان، گاؤوں کے لوگ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو سینے سے لگائے ادھر ادھر دوڑ رہی مائیں، ہمارے بزرگ، جب صحت کی بنیادی سہولیات کے لیے سرکار کی طرف دیکھتے تھے، تو انہیں ناامیدی ہی ہاتھ لگتی تھی۔ اسی نا امیدی کو میرے غریب بھائی بہنوں نے اپنی قسمت مان لیا تھا۔ جب 2014 میں آپ نے مجھے ملک کی خدمت کا موقع عطا کیا، تب پہلے کی حالت کو بدلنے کے لیے ہماری سرکار نے دن رات ایک کر دیا۔ عوام کی تکلیف کو سمجھتے ہوئے، عام انسانوں کے درد کو سمجھتے ہوئے، ان کے دکھ درد کو شیئر کرنے میں ہم حصہ دار بنے۔ ہم نے ملک کی طبی سہولیات کو بہتر کرنے کے لیے، جدیدیت لانے کے لیے ایک مہا یگیہ شروع کیا، متعدد اسکیمیں شروع کیں۔ لیکن مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ یہاں پہلے جو سرکا ر تھی، اس نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ ترقی کے کاموں میں وہ سیاست کو لے آئی، مرکز کی اسکیموں کو یہاں یو پی میں آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔

ساتھیوں،

یہاں الگ الگ عمر کے بھائی بہن بیٹھے ہیں۔ کیا کبھی کسی کو یاد پڑتا ہے اور یاد پڑتا ہے تو مجھے بتانا کیا کسی کو یاد پڑتا ہے کہ اتر پردیش کی تاریخ میں کبھی ایک ساتھ اتنے میڈیکل کالج کا افتتاح ہوا ہو؟ ہوا ہے کبھی؟ نہیں ہوا ہے نا۔ پہلے ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا اور اب ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے – سیاسی قوت ارادی اور سیاسی ترجیحات۔ جو پہلے تھے ان کی ترجیح – اپنے لیے پیسہ کمانا اور اپنی فیملی کی تجوری بھرنا تھا۔ ہماری ترجیح – غریب کا پیسہ بچانا، غریب کی فیملی کو بنیادی سہولیات دینا ہے۔

ساتھیوں،

بیماری امیر غریب کچھ نہیں دیکھتی ہے۔ اس کے لیے تو سب برابر ہوتے ہیں۔ اور اس لیے ان سہولیات کا جتنا فائدہ غریب کو ہوتا ہے، اتنا ہی فائدہ متوسط طبقہ کے کنبوں کو بھی ہوتا ہے۔

ساتھیوں،

7 سال پہلے جو دہلی میں سرکار تھی اور 4 سال پہلے جو یہاں یو پی میں سرکار تھی، وہ پوروانچل میں کیا کرتے تھے؟ جو پہلے سرکار میں تھے، وہ ووٹ کے لیے نہیں ڈسپنسری کی کہیں، کہیں چھوٹے چھوٹے اسپتال کا اعلان کرکے بیٹھ جاتے تھے۔ لوگ بھی امید لگائے رہتے تھے۔ لیکن سالوں سال تک یا تو بلڈنگ ہی نہیں بنتی تھی، بلڈنگ ہوتی تھی تو مشینیں نہیں ہوتی تھیں، دونوں ہو گئیں تو ڈاکٹر اور دوسرا اسٹاف نہیں ہوتا تھا۔ اوپر سے غریبوں کے ہزاروں کروڑ روپے لوٹنے والی بدعنوانی کی سائیکل چوبیسوں گھنٹے الگ سے چلتی رہتی تھی۔ دوائی میں بدعنوانی، ایمبولینس میں بدعنوانی، تقرری میں بدعنوانی، ٹرانسفر پوسٹنگ میں بدعنوانی! اس پورے کھیل میں یو پی میں کچھ خاندان پرستوں کا تو خوب بھلا ہوا، بدعنوانی کی سائیکل تو خوب چلی، لیکن اس میں پوروانچل اور یو پی کی عام فیملی پستی چلی گئی۔

صحیح ہی کہا جاتا ہے-

’جاکے پاؤں نہ پھٹی بیوائی، وہ کیا جانے پیر پرائی‘

ساتھیوں،

گزشتہ برسوں میں ڈبل انجن کی سرکار نے ہر غریب تک بہتر طبی سہولیات پہنچانے کے لیے بہت ایمانداری سے کوشش کی ہے، مسلسل کام کیا ہے۔ ہم نے ملک میں نئی صحت پالیسی نافذ کی تاکہ غریب کو سستا علاج ملے اور اسے بیماریوں سے بھی بچایا جا سکے۔ یہاں یو پی میں بھی 90 لاکھ مریضوں کو آیوشمان بھارت کے تحت مفت علاج ملا ہے۔ ان غریبوں کے آیوشمان بھارت کی وجہ سے  تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے علاج میں خرچ ہونے سے بچے ہیں۔ آج ہزاروں جن اوشدھی کیندروں سے بہت سستی دوائیں مل رہی ہیں۔ کینسر کا علاج، ڈائلیسس اور ہارٹ کی سرجری تک بہت سستی ہوئی ہے، بیت الخلاء جیسی سہولیات سے متعدد بیماریوں میں کمی آئی ہے۔ یہی نہیں، ملک بھر میں بہتر اسپتال کیسے بنیں اور ان اسپتالوں میں بہتر ڈاکٹر اور دوسرے میڈیکل اسٹاف کیسے دستیاب ہوں، اس کے لیے بہت بڑے اور لمبے وژن کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ اب اسپتالوں کا، میڈیکل کالجوں کا بھومی پوجن بھی ہوتا ہے اور ان کا مقررہ وقت پر افتتاح بھی ہوتا ہے۔ یوگی جی کی سرکار سے پہلے جو سرکار تھی، اس نے اپنی مدت کار میں یو پی میں صرف 6 میڈیکل کالج بنوائے تھے۔ یوگی جی کی مدت کار میں 16 میڈیکل شروع ہو چکے ہیں اور 30 نئے میڈیکل کالجوں پر تیزی سے کام چل رہا ہے۔ رائے بریلی اور گورکھپور میں بن رہے ایمس تو یوپی کے لیے ایک طرح سے بونس ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

میڈیکل کالج صرف بہتر علاج ہی نہیں دیتے، بلکہ نئے ڈاکٹر، نئے پیرامیڈکس کی بھی تعمیر کرتے ہیں۔ جب میڈیکل کالج بنتا ہے تو وہاں پر خاص قسم کا لیباریٹری ٹریننگ سنٹر، نرسنگ یونٹ، میڈیکل یونٹ اور روزگار کے متعدد نئے وسائل بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے پہلے کی دہائیوں میں ملک میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ملک گیر حکمت عملی پر کام ہی نہیں ہوا۔ متعدد دہائی پہلے میڈیکل کالج اور میڈیکل ایجوکیشن کی دیکھ ریکھ کے لیے جو ضابطے قاعدے بنائے گئے تھے، جو ادارے بنائے گئے، جو پرانے طور طریقوں سے ہی چل رہے تھے۔ یہ نئے میڈیکل کالج کی تعمیر میں رکاوٹ بھی بن رہے تھے۔

گزشتہ 7 سالوں میں ایک کے بعد ایک ہر ایسے پرانے نظام کو بدلا جا رہا ہے، جو طبی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اس کا نتیجہ میڈیکل سیٹوں کی تعداد میں بھی نظر آتا ہے۔ 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں میڈیکل کی سیٹیں 90 ہزار سے بھی کم تھیں۔ گزشتہ 7 برسوں میں ملک میں میڈیکل کی 60 ہزار نئی سیٹیں جوڑی گئی ہیں۔ یہاں اتر پردیش میں بھی 2017 تک سرکاری میڈیکل کالجوں میں میڈیکل کی صرف 1900 سیٹیں تھیں۔ جب کہ ڈبل انجن کی سرکار میں پچھلے چار سال میں ہی 1900 سیٹوں سے زیادہ میڈیکل سیٹوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔

ساتھیوں،

میڈیکل کالجوں کی تعداد بڑھنے کا، میڈیکل سیٹوں کی تعداد بڑھنے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کے زیادہ سے زیادہ نوجوان ڈاکٹر بنیں گے۔ غریب ماں کے بیٹے اور بیٹی کو بھی اب ڈاکٹر بننے میں مزید آسانی ہوگی۔ سرکار کی مسلسل کوشش کا نتیجہ ہے کہ آزادی کے بعد، 70 برسوں میں جتنے ڈاکٹر پڑھ لکھ کر نکلے، اس سے زیادہ ڈاکٹر ہم اگلے 12-10 برسوں میں تیار کر پائیں گے۔

ساتھیوں،

نوجوانوں کو ملک بھر میں الگ الگ انٹرینس ٹیسٹ کی ٹینشن سے آزادی دلانے کے لیے وَن نیشن، وَن ایگزام کو نافذ کیا گیا ہے۔ اس سے خرچ کی بھی بچت ہوئی ہے اور پریشانی بھی کم ہوئی ہے۔ میڈیکل تعلیم غریب اور مڈل کلاس کی پہنچ میں ہو، اس کے لیے پرائیویٹ کالج کی فیس کو قابو میں رکھنے کے لیے قانون انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ مقامی زبان میں میڈیکل کی پڑھائی نہ ہونے سے بھی بہت دقتیں آتی تھیں۔ اب ہندی سمیت متعدد ہندوستانی زبانوں میں بھی میڈیکل کی بہترین پڑھائی کا متبادل دے دیا گیا ہے۔ اپنی مادری زبان میں جب نوجوان سیکھیں گے تو اپنے کام پر ان کی پکڑ بھی بہتر ہوگی۔

ساتھیوں،

اپنی صحت سے متعلق سہولیات کو یوپی تیزی سے بہتر کر سکتا ہے، یہ یوپی کے لوگوں نے اس کورونا دور میں بھی ثابت کیا ہے۔ چار دن پہلے ہی ملک نے 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ اور اس میں یو پی کا بھی بہت بڑا تعاون ہے۔ میں یو پی کے تمام عوام، کورونا واریئرز، حکومت، انتظامیہ اور اس سے جڑے سبھی لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج ملک کے پاس 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا سیکورٹی کور ہے۔ باوجود اس کے کورونا سے تحفظ کے لیے یوپی اپنی تیاریوں میں مصروف ہے۔ یوپی کے ہر ضلع میں کورونا سے نمٹنے کے لیے بچوں کی کیئر یونٹ یا تو بن چکی ہے یا تیزی سے بن رہی ہے۔ کووڈ کی جانچ کے لیے آج یوپی کے پاس 60 سے زیادہ لیبس موجود ہیں۔ 500 سے زیادہ نئے آکسیجن پلانٹس پر بھی تیزی سے کام چل رہا ہے۔

ساتھیوں،

یہی تو سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس یہی تو اس کا راستہ ہے۔ جب سبھی صحت مند ہوں گے، جب سبھی کو موقع ملے گا، تب جا کر سب کا پریاس ملک کے کام آئے گا۔ دیوالی اور چھٹھ کا تہوار اس بار پوروانچل میں آروگیہ کا نیا اعتماد لے کر آیا ہے۔ یہ اعتماد، تیز رفتار ترقی کی بنیاد بنے، اسی دعا کے ساتھ نئے میڈیکل کالج کے لیے پورے یوپی کو پھر سے بہت بہت مبارکباد اور شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ بھی اتنی بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے آئے اس لیے میں خاص طور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21 نومبر 2024
November 21, 2024

PM Modi's International Accolades: A Reflection of India's Growing Influence on the World Stage