نئی دہلی، 21 جنوری 2022:
جے سومناتھ۔
پروگروام میں شریک گجرات کے وزیر اعلی جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، ریاستی بی جے پی صدر جناب سی آر پاٹل جی اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھی پورنیش مودی، اروند ریانی، دیو بھائی مالم، جونا گڑھ کے رکن پارلیمنٹ راجیش چوڑاسما، سومناتھ مندر ٹرسٹ کے دیگر ارکان، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
بھگوان سومناتھ کی تعریف میں ہمارے شاستروں میں کہا گیا ہے:
بھکتی پردانیے کرپا اوتیرنم، تم سومناتھم شرنم پرپدیے۔
یعنی بھگوان سومناتھ کی کرپا ظاہر ہوتی ہے، کرپا کے بھنڈار کھل جاتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہاں جس طرح ترقیاتی کام ہو رہے ہیں وہ سومناتھ دادا کی خصوصی کرپا ہے۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ سومناتھ ٹرسٹ میں شامل ہونے کے بعد میں بہت کچھ ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ چند ماہ قبل یہاں ایگزیبیشن گیلری اور پرومینیڈ سمیت متعدد ترقیاتی کام قوم کے نام وقف کیے گئے تھے۔ پاروتی مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا۔ اور آج سومناتھ سرکٹ ہاؤس بھی قوم کے نام وقف کیا جارہا ہے۔ میں اس اہم موقع پر حکومت گجرات، سومناتھ مندر ٹرسٹ اور آپ سب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
یہ جو سرکٹ ہاؤس کی کمی رہتی تھی جب یہ سرکٹ ہاؤس نہیں تھا تو مندر ٹرسٹ کو باہر سے آنے والوں کو ٹھہرانے کا انتظام کرنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔ اب اس سرکٹ ہاؤس کی تعمیر کے بعد ایک آزاد نظام کے بنائے جانے کے بعد وہ بھی مندر سے زیادہ دور نہیں رہا اور اس کی وجہ سے مندر پر دباؤ بھی کم ہو گیا ہے۔ اب وہ اپنے مندر کے کام پر زیادہ توجہ دے سکیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ یہ عمارت اس طرح تعمیر کی گئی ہے کہ یہاں رہنے والے لوگوں کو سمندر کا نظارہ بھی ملے گا۔ یعنی جب لوگ یہاں اپنے کمروں میں سکون سے بیٹھیں گے تو انھیں سمندر کی لہریں اور سومناتھ کی چوٹی نظر آئے گی! سمندر کی لہروں میں سومناتھ کی چوٹی پر وہ وقت کے تھپیڑوں کو چیر کر کھڑے ایک قابل فخر بھارت کا شعور بھی نظر آئے گا۔ ان بڑھتی ہوئی سہولیات کی وجہ سے مستقبل میں، چاہے وہ دیو ہو، گیر ہو، دوارکا ہو، وید دا دوارکا ہو، اس پورے خطے میں جو بھی مسافر آئیں گے، سومناتھ ایک طرح سے اس پورے سیاحتی شعبے کا مرکز بن جائے گا۔ یہ توانائی کا ایک بہت اہم مرکز بن جائے گا۔
ساتھیو،
جب ہم اپنی تہذیب کے چیلنجوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان حالات کا اندازہ ہوتا ہے جب بھارت سینکڑوں برسوں کی غلامی سے گزرا ہے۔ جن حالات میں سومناتھ مندر کو تباہ کیا گیا اور پھر جن حالات میں سردار ولبھ پٹیل کی کوششوں سے مندر کی تزئین و آرائش ہوئی، وہ دونوں ہمارے لیے ایک بڑا پیغام ہیں۔ آج آزادی کے امروت مہوتسو میں سومناتھ جیسے عقیدے اور ثقافت کے مقامات اس کے اہم مراکز ہیں جو ہم ملک کے ماضی سے سیکھنا چاہتے ہیں۔
ساتھیو،
ہر سال ملک اور دنیا کے مختلف حصوں سے تقریباً ایک کروڑ عقیدت مند مختلف ریاستوں سے سومناتھ مندر آتے ہیں۔ جب یہ عقیدت مند یہاں سے واپس جاتے ہیں تو وہ بہت سے نئے تجربات، بہت سے نئے خیالات، ایک نئی سوچ کے ساتھ واپس جاتے ہیں۔ اس لیے ایک یاترا جتنی اہم ہوتی ہے اتنا ہی اہم اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ تیرتھ یاترا میں، خاص طور پر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری توجہ بھگوان میں رہے، نہ کہ یاترا سے متعلق دیگر مشکلات سے الجھنا پڑے۔ سومناتھ مندر اس بات کی بھی ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح حکومت اور اداروں کی کوششوں نے بہت سے تیرتھوں کو سنوارا ہے۔ آج یہاں رہنے کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کے لیے اچھا انتظام ہے، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں بہتر پرومینڈ تیار کیا گیا ہے، پارکنگ کی سہولت پیدا کی گئی ہے، سیاحوں کی سہولت کا مرکز قائم کیا گیا ہے، صفائی ستھرائی کے لیے ویسٹ مینیجمنٹ کے جدید انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ ایک شاندار پیلیگریم پلازا اور کمپلیکس کی تجویز بھی اپنے آخری مراحل میں ہے۔ ہم جانتے ہیں، ابھی ہمارے پورنیش بھائی بھی اسے بیان کر رہے تھے۔ ما امباجی مندر میں بھی مسافروں کی سہولیات کی اسی طرح کی ترقی اور تعمیر جاری ہے۔ ہم نے اس طرح کے بہت سے دیگر ترقیاتی کام مکمل کر لیے ہیں جن میں دوارکادھیش مندر، رکمنی مندر اور گومتی گھاٹ شامل ہیں۔ وہ مسافروں کو سہولت بھی دے رہے ہیں اور گجرات کی ثقافتی شناخت کو بھی مستحکم کر رہے ہیں۔
میں اس موقع پر گجرات کی تمام مذہبی اور سماجی تنظیموں کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انفرادی سطح پر جس طرح آپ ترقی اور خدمات کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں وہ میری نظر میں ہر ایک کی کوشش کے جذبے کی بہترین مثال ہے۔ سومناتھ مندر ٹرسٹ نے کورونا کی مشکلات کے درمیان جس طرح مسافروں کی دیکھ بھال کی، اس معاشرے کی ذمہ داری شیو کے بارے میں ہمارے خیالات کو ظاہر کرتی ہے۔
ساتھیو،
ہم دنیا کے بہت سے ممالک کے بارے میں سنتے ہیں کہ ان کی معیشت میں سیاحت کا تعاون کتنا نمایاں ہے۔ ہمارے پاس ہر ریاست، ہر خطے، دنیا کے ممالک میں ایک ایک ملک میں جتنی طاقت ہے اتنی ہر ریاست میں ہے۔ اس طرح کے لامحدود امکانات ہیں۔ آپ کسی بھی ریاست کا نام لیں، سب سے پہلے ذہن میں کیا آتا ہے؟ اگر آپ گجرات کا نام لیں تو ذہن میں سومناتھ، دوارکا، مجسمہ اتحاد، دھولاویرا، کچھ کا رن جیسے ایسے شاندار مقامات ابھرتے ہیں۔ اگر آپ یوپی کا نام لیں تو ایودھیا، متھرا، کاشی، پریاگ، کشی نگر، وندھیانچل جیسے بہت سے نام ذہن پر چھا جاتے ہیں۔ عام آدمی ہمیشہ ان تمام جگہوں پر جانے کا احساس کرتا ہے۔ اتراکھنڈ دیوبھومی ہے۔ بدری ناتھ جی، کیدارناتھ جی وہاں ہیں۔ ہماچل پردیش کی بات کریں تو ماں جوالادیوی وہیں ہیں، ماں نینادیوی وہیں ہیں، پورا شمال مشرق الوہی اور قدرتی تابانی سے بھرپور ہے۔ اسی طرح رامیشورم کے لیے تمل ناڈو، پوری کے لیے اوڈیشہ، تروپتی بالاجی کے درشن کے لیے آندھرا پردیش، سدھی ونایک جی کے لیے مہاراشٹر، شبری مالا کے لیے کیرالہ کا نام آتا ہے۔ آپ جس ریاست کا نام لیں، تیرتھ یاترا اور سیاحت کے بہت سے مراکز بیک وقت ہمارے ذہن میں آجائیں گے۔ یہ مقامات ہمارے قومی اتحاد، ایک بھارت، شریشٹھ بھارت کے جذبے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان مقامات کا دورہ قومی اتحاد کو بڑھاتا ہے۔ آج ملک ان مقامات کو خوش حالی کا ایک مضبوط منبع کے طور پر بھی دیکھ رہا ہے۔ ان کی ترقی سے ہم ایک بڑے علاقے کی ترقی میں تیزی لا سکتے ہیں۔
ساتھیو،
گزشتہ 7 برسوں میں ملک نے سیاحت کے امکانات کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے مسلسل کام کیا ہے۔ سیاحتی مراکز کی یہ ترقی آج صرف سرکاری اسکیم کا حصہ نہیں ہے بلکہ عوام کی شرکت کی مہم ہے۔ ملک کے ہیریٹیج مقامات کی ترقی، ہمارے ثقافتی ورثے کی ترقی کی ایک بہترین مثال ہے۔ وہ ہیریٹیج مقامات جو پہلے نظر انداز کیے گئے تھے اب سب کی کوششوں سے ان کی ترقی کی جارہی ہے۔ نجی شعبہ بھی اس میں تعاون کے لیے آگے آیا ہے۔ انکریڈیبل انڈیا اور دیکھو اپنا دیش جیسی مہمیں آج سیاحت کو فروغ دیتے ہوئے دنیا کے سامنے ملک کا فخر پیش کر رہی ہیں۔
سودیش درشن اسکیم کے تحت ملک میں 15 تھیم پر مبنی سیاحتی سرکٹ بھی تیار کیے جارہے ہیں۔ یہ سرکٹ نہ صرف ملک کے مختلف حصوں کو جوڑتے ہیں بلکہ انھیں ایک نئی شناخت دے کر سیاحت کو بھی آسان بناتے ہیں۔ رامائن سرکٹ کے ذریعے آپ بھگوان رام سے وابستہ جتنے بھی مقامات ہیں، ایک کے بعد ایک بھگوان رام کے ساتھ مذکور تمام مقامات کا دورہ کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ریلوے کی جانب سے خصوصی ریلوے بھی متعارف کرائی گئی ہے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ بہت مقبول ہو رہی ہے۔
کل سے کاشی یاترا کے لیے دہلی سے ایک خصوصی ٹرین بھی شروع ہونے والی ہے۔ بدھ سرکٹ ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کے لیے بھگوان بدھ کے تمام مقامات تک رسائی کو آسان بنا رہا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کے لیے ویزا قوانین کو بھی آسان بنایا گیا ہے جس سے ملک کو بھی فائدہ ہوگا۔ اب کوویڈ کی وجہ سے کچھ مشکلات درپیش ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی انفیکشن کم ہوگا سیاحوں کی تعداد میں دوبارہ تیزی سے اضافہ ہوگا۔ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی ٹیکہ کاری مہم میں اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے کہ ہماری سیاحتی ریاستوں میں ہر ایک کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکہ ملنا چاہیے۔ گوا، اتراکھنڈ جیسی ریاستوں نے اس پر بہت تیزی سے کام کیا ہے۔
ساتھیو،
آج ملک مجموعی طور پر سیاحت کو مجموعی طور پر دیکھ رہا ہے۔ آج کے دور میں سیاحت کو بڑھانے کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں۔ پہلی صفائی ستھرائی- اس سے پہلے ہمارے سیاحتی مقامات، مقدس تیرتھ استھان بھی ناصاف رہتے تھے۔ آج سوچھ بھارت ابھیان نے یہ تصویر تبدیل کر دی ہے۔ جیسے جیسے صفائی ستھرائی آرہی ہے سیاحت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاحت میں اضافے کا دوسرا اہم عنصر سہولت ہے۔ لیکن سہولیات کا دائرہ صرف سیاحتی مقامات تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سہولت ہر قسم کی ٹرانسپورٹ، انٹرنیٹ، درست معلومات، طبی نظام کی ہونی چاہیے۔ اور اس سمت میں بھی ملک میں ہمہ جہت کام ہو رہا ہے۔
ساتھیو،
سیاحت میں اضافے کا تیسرا اہم پہلو وقت ہے۔ آج کل ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا دور ہے۔ لوگ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ جگہوں کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں۔ آج ملک میں شاہراہیں، ایکسپریس وے تعمیر ہو رہے ہیں، جدید ٹرینیں چل رہی ہیں، نئے ہوائی اڈے شروع کیے جا رہے ہیں، ان سے بہت مدد مل رہی ہے۔ اڑان اسکیم کی وجہ سے ہوائی کرایوں میں بھی کافی کمی آئی ہے۔ یعنی سفر کا وقت جتنا کم ہوگا، اخراجات اتنے ہی کم ہوں گے، سیاحت میں اضافہ ہوگا۔ اگر ہم گجرات کو دیکھیں تو بنسکنٹھا میں امباجی کے درشن کے لیے گرنار میں روپ وے ہے، گرنار میں پاوا گڑھ میں کالیکا ماتا کے درشن کے لیے، ست پورہ میں مجموعی طور پر چار روپ وے کام کر رہے ہیں۔ ان روپ وے کے آغاز سے سیاحوں کی سہولت میں اضافہ ہوا ہے اور سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا پر بہت زیادہ تعطل کا اثر ہے، لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ جب اسکول کالج کے طلبا تعلیمی دوروں پر جاتے ہیں تو انھِں بھی تاریخی مقامات سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے۔ جب ملک بھر میں ایسے مقامات پر سہولیات میں اضافہ ہو رہا ہے تو طلبا کے لیے سیکھنے اور سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی، ان کا ملک کے ورثے سے بھی ربط بہتر ہوگا۔
ساتھیو،
سیاحت کو بڑھانے کے لیے چوتھی اور بہت اہم چیز ہماری سوچ ہے۔ ہماری سوچ کو اختراعی اور جدید ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے قدیم ورثے پر کتنا فخر ہے۔ ہمیں یہ فخر ہے، لہذا ہم بھارت سے چوری ہونے والی مورتیوں کو، ہمارے آبا کے ورثے کو واپس لا رہے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے لیے بہت کچھ چھوڑا ہے۔ لیکن ایک وقت تھا جب ہم اپنی مذہبی ثقافتی شناخت کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ آزادی کے بعد دہلی میں مٹھی بھر خاندانوں کے لیے ہی تعمیر نو ہوئی ہے۔ لیکن آج ملک اس تنگ نظری کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، نئے فخر کے مقامات تعمیر کر رہا ہے، انھیں عظمت بخش رہا ہے۔ یہ ہماری ہی حکومت ہے جس نے دہلی میں بابا صاحب میموریل تعمیر کیا۔ یہ ہماری ہی حکومت ہے جس نے رامیشورم میں اے پی جے عبدالکلام میموریل تعمیر کیا۔ اسی طرح نیتا جی سبھاش چندر بوس اور شیام جی کرشنا ورما کے عظیم انسانوں سے وابستہ مقامات کو عظمت بخشی ہے۔ ہمارے قبائلی معاشرے کی شاندار تاریخ کو سامنے لانے کے لیے ملک بھر میں قبائلی عجائب گھر بھی قائم کیے جارہے ہیں۔ آج کیواڈیا میں مجسمہ اتحاد پورے ملک کا فخر ہے۔ کورونا کا دور شروع ہونے سے بہت کم وقت میں 4-5 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے مجسمہ اتحاد کا دورہ کیا تھا۔ کورونا دور کے باوجود اب تک 75 لاکھ سے زیادہ لوگ مجسمہ اتحاد دیکھنے آچکے ہیں۔ یہ ہماری نئی تعمیر شدہ سائٹوں کی طاقت ہے، یہ کشش ہے۔ آنے والے وقتوں میں یہ کوششیں سیاحت کے ساتھ ساتھ ہماری شناخت کو ایک نئی بلندی بخشیں گی۔
اور ساتھیو،
جب میں ووکل فار لوکل کی بات کرتا ہوں تو میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ مودی کی ووکل فار لوکل کا مطلب ہے کہ دیوالی کے دوران دیے کہاں سے خریدیں۔ اتنا محدود مطلب نہیں ہے بھائی۔ جب میں ووکل فار لوکل کہتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ٹورزم بھی اس میں آتا ہے۔ میں آپ سے ہمیشہ درخواست کرتا ہوں کہ بیرون ملک جانے کی منصوبہ بندی سے پہلے خاندان میں فیصلہ کریں، اگر خاندان میں بچوں کی خواہش ہے تو بیرون ملک جائیں، دبئی جائیں، سنگاپور جائیں، لیکن بیرون ملک جانے کی منصوبہ بندی سے پہلے خاندان میں فیصلہ کریں، پہلے بھارت میں 15-20 مشہور مقامات پر جائیں۔ پہلے آپ بھارت کا تجربہ کریں، آپ اسے دیکھیں، پھر آپ دنیا میں کسی اور مقام پر جائیں۔
ساتھیو،
لوکل فار ووکل کو ہر شعبے میں اپنانا ہوگا۔ اگر آپ ملک کو مالا مال کرنا چاہتے ہیں، ملک کے نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اس راستے پر چلنا ہوگا۔ آج آزادی کے امروت مہوتسو میں ہم ایک ایسے بھارت کا عہد کر رہے ہیں جو ہماری روایات سے جڑا ہوا اتنا ہی جدید ہوگا۔ ہمارے تیرتھ استھان، ہمارے سیاحتی مقامات اس نئے بھارت کی تصویر میں رنگ بھریں گے۔ وہ ہمارے ورثے اور ترقی دونوں کی علامت بن جائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ سومناتھ دادا کے آشیرباد سے ملک کی ترقی کا یہ سفر جاری رہے گا۔
ایک بار پھر، میں آپ سب کو نئے سرکٹ ہاؤس کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آپ کا بہت شکريہ۔
جے سومناتھ۔