آج کے اس تاریخی پروگرام پر پورے ملک کی نظر ہے، اہل وطن اس وقت اس پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں تمام ہم وطنوں کو دل سے خوش آمدید اور مبارکباد دیتا ہوں جو اس تاریخی لمحے کے گواہ ہیں۔ اس تاریخی لمحے میں، میرے کابینہ کے رفقاء جناب ہردیپ پوری جی، جناب جی کشن ریڈی جی، جناب ارجن رام میگھوال جی، محترمہ میناکشی لیکھی جی، جناب کوشل کشور جی بھی آج میرے ساتھ اسٹیج پر موجود ہیں۔ ملک کی متعدد معزز شخصیات بھی آج یہاں موجود ہیں۔
ساتھیوں،
آزادی کے امرت مہوتسو میں آج ملک کو ایک نئی تحریک اور ایک نئی توانائی ملی ہے۔ آج ہم ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آنے والے کل کی تصویر میں نئے رنگ بھر رہے ہیں۔ آج یہ نئی چمک جو ہر طرف نظر آرہی ہے، نئے ہندوستان کے اعتماد کی چمک ہے۔ غلامی کی علامت کنگز وے یعنی راج پتھ آج سے تاریخ کا معاملہ بن چکا ہے، ہمیشہ کے لیے مٹ گیا ہے۔ آج کرتوویہ پتھ کے طور پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ میں تمام ہم وطنوں کو آزادی کے اس امرت کال میں غلامی کی ایک اور شناخت سے آزادی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آج انڈیا گیٹ کے قریب ہمارے قومی رہنما نیتا جی سبھاش چندر بوس کا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے۔ غلامی کے وقت یہاں برطانوی راج کے نمائندے کا مجسمہ تھا۔ آج اسی مقام پر نیتا جی کا مجسمہ قائم کرکے ملک نے ایک جدید اور مضبوط ہندوستان کی بنیاد بھی قائم کی ہے۔ یقیناً یہ ایک موقع ہے، یہ موقع بے مثال ہے۔ یہ ہم سب کی خوش قسمتی ہے کہ آج ہم یہ دن دیکھ رہے ہیں اور اس کے گواہ بن رہے ہیں۔
ساتھیوں،
سبھاس چندر بوس ایسے عظیم انسان تھے جو مقام اور وسائل کے چیلنج سے الگ تھے۔ ان کی مقبولیت ایسی تھی کہ ساری دنیا انہیں لیڈر مانتی تھی۔ ان میں ہمت اور خودداری تھی۔ ان کے پاس خیالات اور وژن تھے۔ ان میں قائدانہ صلاحیت تھی اور وہ پالیسی ساز بھی تھے ۔ نیتا جی سبھاش کہا کرتے تھے – ہندوستان ایسا ملک نہیں ہے جو اپنی شاندار تاریخ کو بھول جائے۔ ہندوستان کی شاندار تاریخ ہر ہندوستانی کے خون میں، اس کی روایات میں شامل ہے۔ نیتا جی سبھاش کو ہندوستان کے ورثے پر فخر تھا اور وہ جلد از جلد ہندوستان کو جدید بنانا چاہتے تھے۔ اگر آزادی کے بعد ہمارا ہندوستان سبھاش بابو کے راستے پر چلتا تو آج ملک کتنی بلندیوں پر ہوتا! لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس عظیم ہیرو کو آزادی کے بعد بھلا دیا گیا۔ ان کے نظریات حتیٰ کہ ان سے جڑی علامتوں کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ مجھے سبھاش بابو کے 125ویں یوم پیدائش کے موقع پر کولکتہ میں ان کے گھر جانے کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے اس مقام پرلامحدود توانائی کو محسوس کیا جو نیتا جی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ آج ملک کی کوشش ہے کہ نیتا جی کی وہ توانائی ملک کی رہنمائی کرے۔ کرتویہ پتھ پر نیتا جی کا مجسمہ اس کا ذریعہ بنے گا۔ ملک کی پالیسیوں اور فیصلوں میں سبھاش بابو کی چھاپ رہے، یہ مجسمہ اس کے لیے تحریک کا ذریعہ بنے گا۔
بھائیو اور بہنو،
پچھلے آٹھ سالوں میں، ہم نے یکے بعد دیگرے کئی ایسے فیصلے کئے ہیں، جو نیتا جی کے اصولوں اور خوابوں کے نقوش ہیں۔ نیتا جی سبھاش متحدہ ہندوستان کے پہلے سرکردہ رہنما تھے جنہوں نے 1947 سے پہلے ہی انڈمان کو آزاد کروا کر ترنگا لہرایا تھا۔ اس وقت انہوں نے تصور کیا تھا کہ لال قلعہ پر ترنگا پھہرانا کیسا ہوگا۔ مجھے ذاتی طور پر اس احساس کا تجربہ اس وقت ہوا جب مجھے آزاد ہند حکومت کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر لال قلعہ پر ترنگا پھہرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہماری اپنی حکومت کی کوششوں سے لال قلعہ میں نیتا جی اور آزاد ہند فوج سے متعلق ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔
ساتھیوں،
میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب 2019 میں یوم جمہوریہ پریڈ میں آزاد ہند فوج کے سپاہیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ وہ کئی دہائیوں سے اس اعزاز کے منتظر تھے۔ انڈمان میں نیتا جی نے جہاں ترنگا لہرایا تھا، مجھے وہاں بھی جانا تھا، جانے کا موقع ملا، ترنگا پھہرانے کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ لمحہ ہر اہل وطن کے لیے قابل فخر لمحہ تھا۔
بھائیو اور بہنو،
انڈمان کے وہ جزیرے جسے نیتا جی نے سب سے پہلے آزادی دلائی تھی، وہ بھی کچھ عرصہ پہلے تک غلامی کی نشانیاں اٹھانے پر مجبور تھے! آزاد ہندوستان میں بھی ان جزائر کا نام برطانوی حکمرانوں کے نام پر رکھا گیا تھا۔ غلامی کی ان نشانیوں کو مٹا کر ہم نے ان جزیروں کو نیتا جی سبھاش سے جوڑ کر ہندوستانی نام، ہندوستانی شناخت دی۔
ساتھیوں،
آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر ملک نے اپنے لیے ‘پنچ پران’ کا ویژن رکھا ہے۔ ان پانچوں پرانوں میں ترقی کے بڑے اہداف کا عہد ہے، فرائض کے لیے تحریک ہے۔ اس میں غلامانہ ذہنیت ترک کرنے کی اپیل ہے اور اپنے ورثے پر فخر پر زورہے۔ آج ہندوستان کے اپنے اصول اور ضوابط ہیں۔ آج ہندوستان کے عہد اور اہداف اپنے ہیں۔ آج ہمارے راستے اور علامتیں اپنی ہیں۔ اور ساتھیوں، آج اگر راج پتھ کا وجود ختم ہو کر کرتویہ بن گیا ہے، آج اگر جارج پنجم کے مجسمہ کے نشان کو ہٹاکر وہاں نیتا جی کے مجسمے کو نصب کردیا گیا ہے، تو یہ غلامانہ ذہنیت کو چھوڑنے کی پہلی مثال نہیں ہے۔ یہ نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ یہ عزم و ہمت کا ایک مسلسل سفر ہے، جب تک ذہن اور نفس کی آزادی کا مقصد حاصل نہیں ہو جاتا۔ جس جگہ پر ملک کے وزیر اعظم رہتے آئے ہیں، اس جگہ کا نام ریس کورس روڈ سے بدل کر لوک کلیان مارگ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے یوم جمہوریہ کی تقریبات میں اب ہندوستانی آلات کی موسیقی کی گونج سنائی دیتی ہے۔ بیٹنگ ریٹریٹ تقریب میں اب حب الوطنی کے گیت سن کر ہر ہندوستانی محظوظ ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہندوستانی بحریہ نے بھی غلامی کا نشان اتارتے ہوئے چھترپتی شیواجی مہاراج کی علامت کو اپنا لیا ہے۔ نیشنل وار میموریل بنا کر ملک نے تمام اہل وطن کی دیرینہ خواہش بھی پوری کر دی ہے۔
ساتھیوں،
یہ تبدیلی صرف علامتوں تک محدود نہیں، یہ تبدیلی ملکی پالیسیوں کا حصہ بھی بن چکی ہے۔ آج ملک میں سینکڑوں ایسے قوانین بدل چکے ہیں جو انگریزوں کے دور سے چلے آرہے تھے۔ ہندوستانی بجٹ کا وقت اور تاریخ، جو اتنی دہائیوں سے برطانوی پارلیمنٹ کے اوقات کے مطابق چل رہی تھی، کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اب ملک کے نوجوانوں کو غیر ملکی زبان کی مجبوری سے نجات دلائی جا رہی ہے۔ یعنی آج ملک کا تصور اور ملک کا طرز عمل دونوں غلامی کی ذہنیت سے آزاد ہو رہے ہیں۔ یہ آزادی ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف تک لے جائے گی۔
ساتھیوں،
عظیم شاعر بھرتیار نے ہندوستان کی عظمت کے بارے میں تمل زبان میں ایک بہت ہی خوبصورت نظم لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان ہے – پاروکُلے نلل ناڈا-یئنگل، بھارت ناڈ-اے، عظیم شاعر بھرتیار کی یہ نظم ہر ہندوستانی کو فخر سے لبریز کرنے والی ہے۔ ان کی نظم کا مطلب ہے، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ علم میں، روحانیت میں، وقار میں، کھانے کے عطیہ میں، موسیقی میں، لازوال نظموں میں، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ بہادری میں، فوجوں کی شجاعت میں، ہمدردی میں، دوسروں کی خدمت میں، زندگی کی سچائی تلاش کرنے میں، سائنسی تحقیق میں، ہمارا ملک ہندوستان پوری دنیا میں سب سے عظیم ہے۔ اس تمل شاعر بھرتیار کے ہر لفظ، ہر جذبات کو محسوس کریں۔
ساتھیوں،
غلامی کے اس دور میں پوری دنیا کے لیے ہندوستان کی للکار تھی۔ یہ ہمارے مجاہدین آزادی کی اپیل تھی۔ جس ہندوستان کا تذکرہ بھرتیار نے اپنی نظم میں کیا ہے، ہمیں اس بہترین ہندوستان کی تعمیر کرکے ہی رہنا ہے۔ اور اس کا راستہ اس کرتویہ پتھ سے گزرتا ہے۔
ساتھیوں،
کرتویہ پتھ صرف اینٹوں اور پتھروں کا راستہ نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے جمہوری ماضی اور ہمہ وقتی نظریات کا راستہ ہے۔ جب ملک کے لوگ یہاں آئیں گے، نیتا جی کا مجسمہ، قومی جنگی یادگار، یہ سب انہیں بڑا حوصلہ دے گا، ان میں فرض کا احساس پیدا ہوگا! ملک کی حکومت اس جگہ کام کر رہی ہے۔ آپ سوچیں، ملک نے جنہیں عوامی کی خدمت کی ذمہ داری سونپی ہے ،انہیں راج پتھ عوام کی خدمت کا کیسے احساس دلا رہا ہے ؟ اگر پتھ ہی راج پتھ ہو تو سفر کیسے ہوگا؟ راج پتھ برطانوی راج کے لیے تھا، جس کے لئے ہندوستان کے لوگ غلام تھے۔ راج پتھ کی روح بھی غلامی کی علامت تھی، اس کی ساخت بھی غلامی کی علامت تھی۔ آج اس کا فن تعمیر بھی بدل گیا ہے اور اس کی روح بھی بدل گئی ہے۔ اب جب ملک کے ارکان پارلیمنٹ، وزراء، افسران اس راستے سے گزریں گے،توانہیں کرتویہ پتھ سے ملک کے تئیں ذمہ داری کا احساس ہوگا، انہیں نئی توانائی اور تحریک ملے گی۔ قومی جنگی یادگار سے لے کر کرتویہ پتھ تک راشٹرپتی بھون کا یہ پورا علاقہ ہر لمحہ نیشن فرسٹ، ملک ہی اول کے اس احساس کو جگائے گا۔
ساتھیوں،
آج اس موقع پر میں ان مزدور ساتھیوں کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے نہ صرف کرتویہ پتھ بنایا بلکہ اپنی محنت سے ملک کو کرتویہ پتھ دکھایا بھی ہے۔ مجھے ابھی ان کارکنوں سے ملنے کا موقع ملا۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں محسوس کر رہا تھا کہ ملک کے غریبوں، مزدوروں اور عام انسانوں کے اندر ہندوستان کا کتنا عظیم خواب بسا ہوا ہے! اپنا پسینہ بہاتے وقت وہ اسی خواب کو زندہ کرتے ہیں اور آج میں اس موقع پر ملک کے ہر غریب مزدور کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو ملک کی بے مثال ترقی میں مدد کر رہے ہیں، ہمارے مزدور بھائی ترقی کو رفتار دے رہے ہیں اور آج جب میں ان مزدور بھائیوں اور بہنوں سے ملا تو میں نے ان سے کہا کہ اس بار 26 جنوری کو جو لوگ یہاں کام کر چکے ہیں، جو مزدور بھائی ہیں، 26 جنوری کے پروگرام میں کنبے سمیت میرے مہمان خصوصی ہوں گے۔ مجھے اطمینان ہے کہ نئے ہندوستان میں آج مزدوروں اور محنت کشوں کے احترام کا کلچر بن رہا ہے، ایک روایت کو زندہ کیا جا رہا ہے۔ اور دوستو، جب پالیسیوں میں حساسیت کی بات آتی ہے تو فیصلے بھی اتنے ہی حساس ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک اب محنت کشوں پر فخر کر رہا ہے۔ ‘شرم اور جیتے’ آج ملک کا منتر بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بنارس میں، کاشی میں، وشوناتھ دھام کے افتتاح کا کوئی مافوق الفطرت موقع ہوتا ہے، وہاں محنت کشوں کے اعزاز میں پھولوں کی بارش ہوتی ہے۔ جب پریاگ راج کمبھ کا مقدس تہوار ہوتا ہے، تو صفائی ستھرائی کے مزدوروں سے اظہار تشکر کیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ملک کو دیسی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت ملا ہے۔ تب بھی مجھے ان مزدور بھائیوں اور بہنوں اور ان کے خاندانوں سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے آئی این ایس وکرانت کی تعمیر میں دن رات کام کیا۔ میں نے ان سے مل کران کا شکریہ ادا کیا۔ محنت کشوں کے احترام کی یہ روایت ملکی ثقافت کا انمٹ حصہ بنتا جا رہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ نئی پارلیمنٹ کی تعمیر کے بعد اس میں کام کرنے والے کارکنوں کو بھی ایک خصوصی گیلری میں جگہ دی جائے گی۔ یہ گیلری آنے والی نسلوں کو یہ بھی یاد دلائے گی کہ ایک طرف آئین جمہوریت کی بنیاد ہے تو دوسری طرف کارکنوں کا حصہ بھی ہے۔ یہ ترغیب ہر اہل وطن کو یہ کرتویہ پتھ بھی دے گا۔ یہ تحریک محنت کشوں کے ذریعے کامیابی کی راہ ہموار کرے گا۔
ساتھیوں،
ہمارے رویے میں، ہمارے ذرائع میں، ہمارے وسائل میں، ہمارے انفراسٹرکچر میں، جدیدیت کے اس امرت کال کا اصل ہدف ہے۔ اور دوستو، جب ہم انفراسٹرکچر کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلی تصویر جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتی ہے وہ سڑکیں یا فلائی اوور ہیں۔ لیکن ایک جدید ہندوستان میں انفراسٹرکچر کی توسیع اس سے کہیں زیادہ ہے، اس کے کئی پہلو ہیں۔ آج ہندوستان سماجی انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ثقافتی انفراسٹرکچر پر بھی اتنی ہی تیزی سے کام کر رہا ہے۔ میں آپ کو سماجی انفراسٹرکچر کی مثال دیتا ہوں۔ آج ملک میں ایمس کی تعداد پہلے کی نسبت تین گنا بڑھ گئی ہے۔ میڈیکل کالجوں کی تعداد میں بھی پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان آج کس طرح اپنے شہریوں کو جدید طبی سہولیات فراہم کرکے ان کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آج نئے آئی آئی ٹی، ٹرپل آئی ٹی، سائنسی اداروں کے جدید نیٹ ورک کی مسلسل توسیع کی جارہی ہے،جو ملک میں ہی تیار کیا جا رہا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں 6 کروڑ سے زیادہ دیہی گھرانوں کو پائپ کے ذریعے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ آج ملک کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بنانے کی ایک عظیم الشان مہم بھی چل رہی ہے۔ ہندوستان کا یہ سماجی ڈھانچہ سماجی انصاف کو مزید تقویت بخش رہا ہے۔
ساتھیوں،
ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر آج ہندوستان جتنا کام کر رہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آج ایک طرف ملک بھر میں دیہی سڑکوں کا ریکارڈ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریکارڈ تعداد میں جدید ایکسپریس ویز بن رہے ہیں۔ آج ملک میں ریلوے کی برقی کاری تیز رفتاری سے ہو رہی ہے، اسی طرح مختلف شہروں میں میٹرو کی بھی توسیع ہورہی ہے۔ آج، ملک میں بہت سے نئے ہوائی اڈے بنائے جا رہے ہیں، نیز آبی گزرگاہوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ آج، ہندوستان نے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر میں پوری دنیا کے سرکردہ ممالک میں اپنی جگہ بنائی ہے۔ ملک نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پنچایتوں تک آپٹیکل فائبر پہنچانے کے ساتھ ڈیجیٹل ادائیگی کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں اور دنیا بھر میں ہندوستان کی ڈیجیٹل ترقی پر بحث ہورہی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
انفراسٹرکچر کے ان کاموں میں، ہندوستان میں ثقافتی انفراسٹرکچر پر کیے گئے کاموں پر اتنی بات نہیں کی گئی۔ پرساد اسکیم کے تحت ملک میں بہت سے زیارت گاہوں کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔ کاشی-کیدارناتھ-سومناتھ سے کرتارپور صاحب کوریڈور کے لیے جو کام کیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اور دوستو، جب ہم ثقافتی انفراسٹرکچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف مذہبی مقامات سے متعلق انفراسٹرکچر نہیں ہوتا۔ انفراسٹرکچر جس کا تعلق ہماری تاریخ سے ہے، جس کا تعلق ہمارے قومی ہیروز اور ملک کے جانبازوں سے ہے، جس کا تعلق ہمارے ورثے سے ہے، اس کی تعمیر بھی اتنی ہی عجلت سے کی جا رہی ہے۔ سردار پٹیل اسٹیچو آف یونٹی ہو یا قبائلی مجاہدین آزادی کو وقف میوزیم، پی ایم میوزیم ہو یا بابا صاحب امبیڈکر میموریل، نیشنل وار میموریل یا نیشنل پولیس میموریل، یہ ثقافتی انفراسٹرکچر کی مثالیں ہیں۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہماری ثقافت کیا ہے، ہمارے اقدار کیا ہیں اور ہم ان کی حفاظت کیسے کر رہے ہیں۔ ایک خواہش مند ہندوستان صرف سماجی انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ثقافتی انفراسٹرکچر کو رفتار دیتے ہوئے تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کرتوویہ پتھ کے طور پر ملک کو ثقافتی انفراسٹرکچر کی ایک اور عظیم مثال مل رہی ہے۔ فن تعمیر سے لے کر اصولوں تک، آپ کو یہاں ہندوستانی ثقافت بھی دیکھنے کو ملے گی، اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ میں ملک کے ہر شہری سے اپیل کرتا ہوں، میں آپ سب کو دعوت دیتا ہوں، آئیں اور اس نوتعمیر شدہ کرتوویہ پتھ کا دیدار کریں۔ اس تعمیر میں آپ کے مستقبل کا ہندوستان نظر آئے گا۔ یہاں کی توانائی آپ کو ہماری وسیع قوم کے لیے ایک نیا وژن، ایک نیا یقین فراہم کرے گی اور کل سے اگلے تین دن یعنی جمعہ ، سنیچر اور اتوار ،یہاں تین دن نیتا جی سبھاش بابو کی زندگی پر مبنی سمے ڈرون شو کا بھی انعقاد ہوگا۔ آپ یہاں آئیں، اپنی اور اپنے خاندان کی تصاویر لیں، سیلفی لیں۔ آپ انہیں سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کرتویہ پتھ کے ساتھ اپ لوڈ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ پورا علاقہ دہلی کے لوگوں کے دل کی دھڑکن ہے، یہاں شام کے وقت بڑی تعداد میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آتے ہیں، وقت گزارتے ہیں۔ کرتویہ پتھ کی پلاننگ، ڈیزائننگ اور لائٹنگ بھی اسی کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کرتویہ پتھ کی یہ تحریک ملک میں فرض کی روانی کی لہر پیدا کرے گی، یہ لہرہمیں ایک نئے اور ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کی تکمیل تک پہنچائے گا۔ اس یقین کے ساتھ، ایک بار پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ! میرے ساتھ بولیں گے، میں کہوں گا نیتا جی، آپ بولیں گے امررہے! امر رہے!
نیتا جی امر رہے!
نیتا جی امر رہے!
نیتا جی امر رہے!
بھارت ماتا کے جے !
بھارت ماتا کے جے!
وندے ماترم!
وندے ماترم!
وندے ماترم!
بہت بہت شکریہ!