’’آئندہ 25 برسوں میں وکست بھارت کے سفر میں اخبارات کا کردار ازحد اہمیت کا حامل ہے‘‘
’’ جس ملک کے شہری اپنی صلاحیتوں پر یقین کرنے لگ جاتے ہیں وہ کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ آج ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے‘‘
’’ آئی این ایس نہ صرف ہندوستان کے سفر کے اتار چڑھاؤ کا گواہ رہا ہے بلکہ اس نے اسے جیا ہے اور لوگوں تک پہنچایا ہے ‘‘
’’کسی ملک کی عالمی شبیہ اس کی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ ہندوستانی اشاعتوں کو عالمی سطح پر اپنی موجودگی میں اضافہ کرنا چاہئے ‘‘

مہاراشٹر کے گورنر جناب رمیش بیس جی، وزیر اعلیٰ جناب ایکناتھ شندے جی، نائب وزیر اعلیٰ بھائی دیویندر فڑنویس جی، اجیت دادا پوار جی، انڈین نیوز پیپر سوسائٹی کے صدر بھائی راکیش شرما جی، تمام سینئر معززین، خواتین و حضرات!

سب سے پہلے میں انڈین نیوز پیپر سوسائٹی کے تمام ممبران کو مبارکباد دیتا ہوں۔ آج آپ سب کو ممبئی میں ایک بہت بڑی اور جدید عمارت ملی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ نئی عمارت آپ کے کام کو وسعت دے گی اور آپ کے کام کرنے میں آسانی پیدا کرے گی، جس سے ہماری جمہوریت مزید مضبوط ہوگی۔ انڈین نیوز پیپر سوسائٹی ان اداروں میں سے ایک ہے جو آزادی سے پہلے وجود میں آئی تھی اور اسی لیے آپ سب نے ملک کے سفر کے ہر اتار چڑھاؤ کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اسے جیا ہے اور عام لوگوں کو بھی بتایا ہے۔ لہذا، آپ کا کام ایک تنظیم کے طور پر جتنا زیادہ موثر ہوگا، ملک کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔

ساتھیو،

میڈیا ملک کے حالات کا صرف خاموش تماشائی نہیں ہے۔ میڈیا میں موجود آپ سب لوگ حالات کو بدلنے اور ملک کو سمت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج ہندوستان اس دور میں ہے جب اگلے 25 سالوں میں اس کا سفر بہت اہم ہے۔ ان 25 سالوں میں ہندوستان کی ترقی کے لیے اخبارات اور رسائل کا کردار بھی اتنا ہی بڑا ہے۔ یہ میڈیا ہے، جو ملک کے شہریوں کو آگاہ کرتا ہے۔ میڈیا ہی ہے جو ملک کے شہریوں کو ان کے حقوق کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اور یہی میڈیا ہے، جو ملک کے عوام کو احساس دلاتا ہے کہ ان کی صلاحیتیں کیا ہیں۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جس ملک کے شہری اپنی صلاحیتوں پر پراعتماد ہو جاتے ہیں وہ کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھونے لگتے ہیں۔ آج ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب کچھ لیڈروں نے کھل کر کہا تھا کہ ڈیجیٹل لین دین ہندوستان کے لوگوں کی رسائی میں نہیں ہے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس ملک میں جدید ٹیکنالوجی سے کام نہیں چلے گا۔ لیکن دنیا ہندوستان کے لوگوں کی عقلمندی اور قابلیت کو دیکھ رہی ہے۔ آج ہندوستان ڈیجیٹل لین دین میں دنیا میں بڑے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ آج، ہندوستان کے یو پی آئی کی وجہ سے، جدید ڈیجیٹل سرکاری بنیادی ڈھانچے کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں آسانی بڑھ گئی ہے، لوگوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ پیسہ بھیجنا آسان ہو گیا ہے۔ آج پوری دنیا خصوصاً خلیجی ممالک میں رہنے والے ہمارے ہم وطن سب سے زیادہ ترسیلات زر بھیج رہے ہیں اور جو رقم پہلے خرچ کرتے تھے اس میں بہت کمی آئی ہے اور اس کی ایک وجہ ڈیجیٹل انقلاب ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک ہماری ٹیکنالوجی اور ہمارے نفاذ کے ماڈل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بڑی کامیابی صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔ آپ تمام میڈیا والوں نے بھی اس کامیابی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسی لیے آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

 

ساتھیو،

میڈیا کا فطری کردار گفتگو پیدا کرنا اور سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ لیکن، میڈیا کی بات چیت کی سمت بھی بعض اوقات حکومتی پالیسیوں کی سمت پر منحصر ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ حکومتوں کا ہر کام ہمیشہ اچھا اور برا ہوتا ہے لیکن ووٹوں کو ضرب اور تقسیم لگانے کی عادت جوں کی توں رہتی ہے۔ ہم نے آکر اس سوچ کو بدل دیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، ہمارے ملک میں کئی دہائیوں پہلے بینکوں کو قومیایا گیا تھا۔ لیکن، اس کے بعد سچائی یہ تھی کہ 2014 تک ملک میں 40-50 کروڑ غریب ایسے تھے جن کے پاس بینک اکاؤنٹ تک نہیں تھا۔ اب جو کچھ کہا گیا جب نیشنلائزیشن ہوا اور جو 2014 میں دیکھا گیا، اس کا مطلب ہے کہ آدھا ملک بینکنگ سسٹم سے باہر تھا۔ کیا ہمارے ملک میں کبھی یہ مسئلہ بنا؟ لیکن، ہم نے جن دھن یوجنا کو ایک تحریک کے طور پر لیا۔ ہم نے تقریباً 50 کروڑ لوگوں کو بینکنگ سسٹم سے جوڑا ہے۔ یہ کام ڈیجیٹل انڈیا اور انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں ہمارا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم صفائی مہم، اسٹارٹ اپ انڈیا، اسٹینڈ اپ انڈیا جیسی مہمات کو دیکھیں! یہ ووٹ بینک کی سیاست میں کہیں بھی فٹ نہیں آتے تھے۔ لیکن، ہندوستان کو بدلتے ہوئے، ملکی میڈیا نے انہیں ملک کی قومی گفتگو کا حصہ بنا دیا۔ 'اسٹارٹ اپ' کا لفظ، جسے 2014 سے پہلے زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے، میڈیا میں بحث کے ذریعے ہر گھر تک پہنچایا گیا ہے۔

ساتھیو،

آپ میڈیا کے تجربہ کار لوگ ہیں، بہت تجربہ کار ہیں۔ آپ کے فیصلے ملکی میڈیا کو بھی سمت دیتے ہیں۔ اس لیے آج کے پروگرام میں میری آپ سے بھی کچھ گزارشات ہیں۔

ساتھیو،

اگر حکومت کوئی پروگرام شروع کرتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ حکومتی پروگرام ہو۔ اگر حکومت کسی خیال پر زور دیتی ہے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ صرف حکومت کا خیال ہو۔ جس طرح ملک نے امرت مہوتسو منایا، ملک نے ہر گھر میں ترنگا مہم شروع کی، حکومت نے اسے ضرور شروع کیا، لیکن پورے ملک نے اسے اپنایا اور آگے بڑھایا۔ اسی طرح آج ملک ماحولیات پر بہت زیادہ زور دے رہا ہے۔ یہ سیاست سے بالاتر ہو کر انسانیت کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ مثال کے طور پر 'ایک پیڑ ماں کے نام' ابھیان ابھی شروع ہوا ہے۔ بھارت کی اس ابھیان کا دنیا بھر میں بھی چرچا شروع ہو گیا ہے۔ میں ابھی جی 7 میں گیا تھا اور جب میں نے یہ موضوع اٹھایا تو وہ بہت متجسس تھے کیونکہ ہر کوئی اپنی ماں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ بہت کلک کرے گا، سب کہہ رہے تھے۔ ملک کے زیادہ سے زیادہ میڈیا ہاؤسز اس میں شامل ہو جائیں تو آنے والی نسلوں کے لیے بہت فائدہ مند ہو گا۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ ایسی ہر کوشش کو قومی کاوش سمجھ کر آگے بڑھائیں۔ یہ حکومت کی نہیں، ملک کی کوشش ہے۔ اس سال ہم آئین کا 75واں سال بھی منا رہے ہیں۔ آئین کے تئیں شہریوں میں فرض کا احساس اور بیداری بڑھانے میں آپ سب ایک بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

 

ساتھیو،

سیاحت سے متعلق ایک موضوع بھی ہے۔ سیاحت صرف حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بڑھتی۔ جب ہم سب مل کر ملک کی برانڈنگ اور مارکیٹنگ کرتے ہیں تو ملک کے وقار کے ساتھ ساتھ ملک کی سیاحت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آپ لوگ ملک میں سیاحت کو بڑھانے کے لیے اپنے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔ اب فرض کریں کہ مہاراشٹر کے تمام اخبارات مل کر یہ فیصلہ کریں کہ ستمبر کے مہینے میں ہم بنگال کی سیاحت کو اپنی طرف سے فروغ دیں گے، تو جب مہاراشٹر کے لوگ چاروں طرف سے بنگال بنگال دیکھیں گے تو وہ انہیں بتائیں کہ اس بار ان کو جانا چاہیے۔ اگر ہم یہ پروگرام بناتے ہیں تو بنگال میں سیاحت بڑھے گی۔ فرض کریں کہ آپ تین ماہ کے بعد فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم مل کر تمل ناڈو کی تمام چیزوں پر توجہ مرکوز کریں گے، ایک یہ کرے گا، دوسرا وہ کرے گا، تمل ناڈو نہیں۔ آپ دیکھیں کہ اگر مہاراشٹر کے لوگ سیاحت میں جانے والے ہیں تو وہ تمل ناڈو کی طرف جائیں گے۔ ملک کی سیاحت کو بڑھانے کا کوئی طریقہ ہونا چاہیے اور جب آپ یہ کریں گے تو ان ریاستوں میں بھی مہاراشٹر کے لیے اسی طرح کی مہم شروع کی جائے گی، جس کا فائدہ مہاراشٹر کو ہوگا۔ اس سے ریاستوں کے درمیان ایک دوسرے کی طرف کشش بڑھے گی، تجسس بڑھے گا اور آخر کار فائدہ یہ ہوگا کہ جس ریاست میں آپ یہ پہل کررہے ہیں وہاں کام آرام اور بغیر کسی اضافی کوشش کے کیا جا سکتا ہے۔

ساتھیو،

میری آپ سب سے درخواست ہے کہ عالمی سطح پر اپنی موجودگی میں اضافہ کریں۔ ہمیں سوچنا ہوگا، ہم اس دنیا میں نہیں ہیں۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے ہم 140 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں۔ اتنا بڑا ملک، اتنی صلاحیت اور امکانات اور بہت کم وقت میں ہم ہندوستان کو تیسری سب سے بڑی معیشت بنتے ہوئے دیکھنے جا رہے ہیں۔ آپ ہندوستان کی کامیابیوں کو دنیا کے کونے کونے تک لے جانے کی ذمہ داری کو بخوبی نبھا سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بیرون ملک کسی قوم کی تصویر اس کی معیشت اور ترقی کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ بیرونی ممالک میں ہندوستانی نژاد لوگوں کا قد بڑھ گیا ہے، ساکھ بڑھی ہے، عزت بڑھی ہے۔ کیونکہ دنیا میں ہندوستان کی ساکھ بڑھی ہے۔ ہندوستان عالمی ترقی میں زیادہ حصہ ڈالنے کے قابل بھی ہے۔ ہمارا میڈیا جتنا زیادہ اس نقطہ نظر سے کام کرے گا، ملک کو اتنا ہی فائدہ پہنچے گا اور اسی لیے میں چاہوں گا کہ آپ کی اشاعتیں اقوام متحدہ کی تمام زبانوں میں پھیل جائیں۔ آپ کی مائیکرو سائیٹس، سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی ان زبانوں میں ہو سکتے ہیں اور آج کل آرٹیفیشل انٹلیجنس کا دور ہے۔ یہ تمام کام اب آپ کے لیے بہت آسان ہو گئے ہیں۔

 

ساتھیو،

میں نے آپ سب کو بہت سارے مشورے دے دیے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے اخبارات اور رسائل میں جگہ بہت محدود ہے۔ لیکن، آج کل ہر اخبار اور ہر اشاعت کے ڈیجیٹل ایڈیشن بھی شائع ہو رہے ہیں۔ نہ جگہ کی حد ہے اور نہ ہی جگہ کی تقسیم کا کوئی مسئلہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان تجاویز پر غور کرکے آپ سب نئے تجربات کریں گے اور جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔ اور میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ چاہے یہ آپ کے لیے ایک یا دو صفحات کا چھوٹا ایڈیشن ہو، جو اقوام متحدہ کی دنیا کی کم از کم زبانوں میں دستیاب ہے، دنیا کی اکثریت اسے دیکھتی ہے، پڑھتی ہے… سفارت خانے اسے دیکھتے ہیں اور یہ ہندوستان کے پیغام کو پہنچانے کا ایک موقع ہے آپ کے ڈیجیٹل ایڈیشن میں ایک بہت بڑا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ ملک جتنا مضبوط ہو گا، اتنا ہی ترقی کرے گا۔ اس اعتماد کے ساتھ، آپ سب کا بہت بہت شکریہ! اور مجھے بھی آپ سب سے ملنے کا موقع مل گیا۔ آپ سب کے لئے میری نیک خواہشات! شکریہ!

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet

Media Coverage

Ayushman driving big gains in cancer treatment: Lancet
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at Christmas Celebrations hosted by the Catholic Bishops' Conference of India
December 23, 2024
It is a moment of pride that His Holiness Pope Francis has made His Eminence George Koovakad a Cardinal of the Holy Roman Catholic Church: PM
No matter where they are or what crisis they face, today's India sees it as its duty to bring its citizens to safety: PM
India prioritizes both national interest and human interest in its foreign policy: PM
Our youth have given us the confidence that the dream of a Viksit Bharat will surely be fulfilled: PM
Each one of us has an important role to play in the nation's future: PM

Respected Dignitaries…!

आप सभी को, सभी देशवासियों को और विशेषकर दुनिया भर में उपस्थित ईसाई समुदाय को क्रिसमस की बहुत-बहुत शुभकामनाएं, ‘Merry Christmas’ !!!

अभी तीन-चार दिन पहले मैं अपने साथी भारत सरकार में मंत्री जॉर्ज कुरियन जी के यहां क्रिसमस सेलीब्रेशन में गया था। अब आज आपके बीच उपस्थित होने का आनंद मिल रहा है। Catholic Bishops Conference of India- CBCI का ये आयोजन क्रिसमस की खुशियों में आप सबके साथ जुड़ने का ये अवसर, ये दिन हम सबके लिए यादगार रहने वाला है। ये अवसर इसलिए भी खास है, क्योंकि इसी वर्ष CBCI की स्थापना के 80 वर्ष पूरे हो रहे हैं। मैं इस अवसर पर CBCI और उससे जुड़े सभी लोगों को बहुत-बहुत बधाई देता हूँ।

साथियों,

पिछली बार आप सभी के साथ मुझे प्रधानमंत्री निवास पर क्रिसमस मनाने का अवसर मिला था। अब आज हम सभी CBCI के परिसर में इकट्ठा हुए हैं। मैं पहले भी ईस्टर के दौरान यहाँ Sacred Heart Cathedral Church आ चुका हूं। ये मेरा सौभाग्य है कि मुझे आप सबसे इतना अपनापन मिला है। इतना ही स्नेह मुझे His Holiness Pope Francis से भी मिलता है। इसी साल इटली में G7 समिट के दौरान मुझे His Holiness Pope Francis से मिलने का अवसर मिला था। पिछले 3 वर्षों में ये हमारी दूसरी मुलाकात थी। मैंने उन्हें भारत आने का निमंत्रण भी दिया है। इसी तरह, सितंबर में न्यूयॉर्क दौरे पर कार्डिनल पीट्रो पैरोलिन से भी मेरी मुलाकात हुई थी। ये आध्यात्मिक मुलाक़ात, ये spiritual talks, इनसे जो ऊर्जा मिलती है, वो सेवा के हमारे संकल्प को और मजबूत बनाती है।

साथियों,

अभी मुझे His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड से मिलने का और उन्हें सम्मानित करने का अवसर मिला है। कुछ ही हफ्ते पहले, His Eminence Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को His Holiness Pope Francis ने कार्डिनल की उपाधि से सम्मानित किया है। इस आयोजन में भारत सरकार ने केंद्रीय मंत्री जॉर्ज कुरियन के नेतृत्व में आधिकारिक रूप से एक हाई लेवल डेलिगेशन भी वहां भेजा था। जब भारत का कोई बेटा सफलता की इस ऊंचाई पर पहुंचता है, तो पूरे देश को गर्व होना स्वभाविक है। मैं Cardinal जॉर्ज कुवाकाड को फिर एक बार बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

साथियों,

आज आपके बीच आया हूं तो कितना कुछ याद आ रहा है। मेरे लिए वो बहुत संतोष के क्षण थे, जब हम एक दशक पहले फादर एलेक्सिस प्रेम कुमार को युद्ध-ग्रस्त अफगानिस्तान से सुरक्षित बचाकर वापस लाए थे। वो 8 महीने तक वहां बड़ी विपत्ति में फंसे हुए थे, बंधक बने हुए थे। हमारी सरकार ने उन्हें वहां से निकालने के लिए हर संभव प्रयास किया। अफ़ग़ानिस्तान के उन हालातों में ये कितना मुश्किल रहा होगा, आप अंदाजा लगा सकते हैं। लेकिन, हमें इसमें सफलता मिली। उस समय मैंने उनसे और उनके परिवार के सदस्यों से बात भी की थी। उनकी बातचीत को, उनकी उस खुशी को मैं कभी भूल नहीं सकता। इसी तरह, हमारे फादर टॉम यमन में बंधक बना दिए गए थे। हमारी सरकार ने वहाँ भी पूरी ताकत लगाई, और हम उन्हें वापस घर लेकर आए। मैंने उन्हें भी अपने घर पर आमंत्रित किया था। जब गल्फ देशों में हमारी नर्स बहनें संकट से घिर गई थीं, तो भी पूरा देश उनकी चिंता कर रहा था। उन्हें भी घर वापस लाने का हमारा अथक प्रयास रंग लाया। हमारे लिए ये प्रयास केवल diplomatic missions नहीं थे। ये हमारे लिए एक इमोशनल कमिटमेंट था, ये अपने परिवार के किसी सदस्य को बचाकर लाने का मिशन था। भारत की संतान, दुनिया में कहीं भी हो, किसी भी विपत्ति में हो, आज का भारत, उन्हें हर संकट से बचाकर लाता है, इसे अपना कर्तव्य समझता है।

साथियों,

भारत अपनी विदेश नीति में भी National-interest के साथ-साथ Human-interest को प्राथमिकता देता है। कोरोना के समय पूरी दुनिया ने इसे देखा भी, और महसूस भी किया। कोरोना जैसी इतनी बड़ी pandemic आई, दुनिया के कई देश, जो human rights और मानवता की बड़ी-बड़ी बातें करते हैं, जो इन बातों को diplomatic weapon के रूप में इस्तेमाल करते हैं, जरूरत पड़ने पर वो गरीब और छोटे देशों की मदद से पीछे हट गए। उस समय उन्होंने केवल अपने हितों की चिंता की। लेकिन, भारत ने परमार्थ भाव से अपने सामर्थ्य से भी आगे जाकर कितने ही देशों की मदद की। हमने दुनिया के 150 से ज्यादा देशों में दवाइयाँ पहुंचाईं, कई देशों को वैक्सीन भेजी। इसका पूरी दुनिया पर एक बहुत सकारात्मक असर भी पड़ा। अभी हाल ही में, मैं गयाना दौरे पर गया था, कल मैं कुवैत में था। वहां ज्यादातर लोग भारत की बहुत प्रशंसा कर रहे थे। भारत ने वैक्सीन देकर उनकी मदद की थी, और वो इसका बहुत आभार जता रहे थे। भारत के लिए ऐसी भावना रखने वाला गयाना अकेला देश नहीं है। कई island nations, Pacific nations, Caribbean nations भारत की प्रशंसा करते हैं। भारत की ये भावना, मानवता के लिए हमारा ये समर्पण, ये ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच ही 21वीं सदी की दुनिया को नई ऊंचाई पर ले जाएगी।

Friends,

The teachings of Lord Christ celebrate love, harmony and brotherhood. It is important that we all work to make this spirit stronger. But, it pains my heart when there are attempts to spread violence and cause disruption in society. Just a few days ago, we saw what happened at a Christmas Market in Germany. During Easter in 2019, Churches in Sri Lanka were attacked. I went to Colombo to pay homage to those we lost in the Bombings. It is important to come together and fight such challenges.

Friends,

This Christmas is even more special as you begin the Jubilee Year, which you all know holds special significance. I wish all of you the very best for the various initiatives for the Jubilee Year. This time, for the Jubilee Year, you have picked a theme which revolves around hope. The Holy Bible sees hope as a source of strength and peace. It says: "There is surely a future hope for you, and your hope will not be cut off." We are also guided by hope and positivity. Hope for humanity, Hope for a better world and Hope for peace, progress and prosperity.

साथियों,

बीते 10 साल में हमारे देश में 25 करोड़ लोगों ने गरीबी को परास्त किया है। ये इसलिए हुआ क्योंकि गरीबों में एक उम्मीद जगी, की हां, गरीबी से जंग जीती जा सकती है। बीते 10 साल में भारत 10वें नंबर की इकोनॉमी से 5वें नंबर की इकोनॉमी बन गया। ये इसलिए हुआ क्योंकि हमने खुद पर भरोसा किया, हमने उम्मीद नहीं हारी और इस लक्ष्य को प्राप्त करके दिखाया। भारत की 10 साल की विकास यात्रा ने हमें आने वाले साल और हमारे भविष्य के लिए नई Hope दी है, ढेर सारी नई उम्मीदें दी हैं। 10 साल में हमारे यूथ को वो opportunities मिली हैं, जिनके कारण उनके लिए सफलता का नया रास्ता खुला है। Start-ups से लेकर science तक, sports से entrepreneurship तक आत्मविश्वास से भरे हमारे नौजवान देश को प्रगति के नए रास्ते पर ले जा रहे हैं। हमारे नौजवानों ने हमें ये Confidence दिया है, य़े Hope दी है कि विकसित भारत का सपना पूरा होकर रहेगा। बीते दस सालों में, देश की महिलाओं ने Empowerment की नई गाथाएं लिखी हैं। Entrepreneurship से drones तक, एरो-प्लेन उड़ाने से लेकर Armed Forces की जिम्मेदारियों तक, ऐसा कोई क्षेत्र नहीं, जहां महिलाओं ने अपना परचम ना लहराया हो। दुनिया का कोई भी देश, महिलाओं की तरक्की के बिना आगे नहीं बढ़ सकता। और इसलिए, आज जब हमारी श्रमशक्ति में, Labour Force में, वर्किंग प्रोफेशनल्स में Women Participation बढ़ रहा है, तो इससे भी हमें हमारे भविष्य को लेकर बहुत उम्मीदें मिलती हैं, नई Hope जगती है।

बीते 10 सालों में देश बहुत सारे unexplored या under-explored sectors में आगे बढ़ा है। Mobile Manufacturing हो या semiconductor manufacturing हो, भारत तेजी से पूरे Manufacturing Landscape में अपनी जगह बना रहा है। चाहे टेक्लोलॉजी हो, या फिनटेक हो भारत ना सिर्फ इनसे गरीब को नई शक्ति दे रहा है, बल्कि खुद को दुनिया के Tech Hub के रूप में स्थापित भी कर रहा है। हमारा Infrastructure Building Pace भी अभूतपूर्व है। हम ना सिर्फ हजारों किलोमीटर एक्सप्रेसवे बना रहे हैं, बल्कि अपने गांवों को भी ग्रामीण सड़कों से जोड़ रहे हैं। अच्छे ट्रांसपोर्टेशन के लिए सैकड़ों किलोमीटर के मेट्रो रूट्स बन रहे हैं। भारत की ये सारी उपलब्धियां हमें ये Hope और Optimism देती हैं कि भारत अपने लक्ष्यों को बहुत तेजी से पूरा कर सकता है। और सिर्फ हम ही अपनी उपलब्धियों में इस आशा और विश्वास को नहीं देख रहे हैं, पूरा विश्व भी भारत को इसी Hope और Optimism के साथ देख रहा है।

साथियों,

बाइबल कहती है- Carry each other’s burdens. यानी, हम एक दूसरे की चिंता करें, एक दूसरे के कल्याण की भावना रखें। इसी सोच के साथ हमारे संस्थान और संगठन, समाज सेवा में एक बहुत बड़ी भूमिका निभाते हैं। शिक्षा के क्षेत्र में नए स्कूलों की स्थापना हो, हर वर्ग, हर समाज को शिक्षा के जरिए आगे बढ़ाने के प्रयास हों, स्वास्थ्य के क्षेत्र में सामान्य मानवी की सेवा के संकल्प हों, हम सब इन्हें अपनी ज़िम्मेदारी मानते हैं।

साथियों,

Jesus Christ ने दुनिया को करुणा और निस्वार्थ सेवा का रास्ता दिखाया है। हम क्रिसमस को सेलिब्रेट करते हैं और जीसस को याद करते हैं, ताकि हम इन मूल्यों को अपने जीवन में उतार सकें, अपने कर्तव्यों को हमेशा प्राथमिकता दें। मैं मानता हूँ, ये हमारी व्यक्तिगत ज़िम्मेदारी भी है, सामाजिक दायित्व भी है, और as a nation भी हमारी duty है। आज देश इसी भावना को, ‘सबका साथ, सबका विकास और सबका प्रयास’ के संकल्प के रूप में आगे बढ़ा रहा है। ऐसे कितने ही विषय थे, जिनके बारे में पहले कभी नहीं सोचा गया, लेकिन वो मानवीय दृष्टिकोण से सबसे ज्यादा जरूरी थे। हमने उन्हें हमारी प्राथमिकता बनाया। हमने सरकार को नियमों और औपचारिकताओं से बाहर निकाला। हमने संवेदनशीलता को एक पैरामीटर के रूप में सेट किया। हर गरीब को पक्का घर मिले, हर गाँव में बिजली पहुंचे, लोगों के जीवन से अंधेरा दूर हो, लोगों को पीने के लिए साफ पानी मिले, पैसे के अभाव में कोई इलाज से वंचित न रहे, हमने एक ऐसी संवेदनशील व्यवस्था बनाई जो इस तरह की सर्विस की, इस तरह की गवर्नेंस की गारंटी दे सके।

आप कल्पना कर सकते हैं, जब एक गरीब परिवार को ये गारंटी मिलती हैं तो उसके ऊपर से कितनी बड़ी चिंता का बोझ उतरता है। पीएम आवास योजना का घर जब परिवार की महिला के नाम पर बनाया जाता है, तो उससे महिलाओं को कितनी ताकत मिलती है। हमने तो महिलाओं के सशक्तिकरण के लिए नारीशक्ति वंदन अधिनियम लाकर संसद में भी उनकी ज्यादा भागीदारी सुनिश्चित की है। इसी तरह, आपने देखा होगा, पहले हमारे यहाँ दिव्यांग समाज को कैसी कठिनाइयों का सामना करना पड़ता था। उन्हें ऐसे नाम से बुलाया जाता था, जो हर तरह से मानवीय गरिमा के खिलाफ था। ये एक समाज के रूप में हमारे लिए अफसोस की बात थी। हमारी सरकार ने उस गलती को सुधारा। हमने उन्हें दिव्यांग, ये पहचान देकर के सम्मान का भाव प्रकट किया। आज देश पब्लिक इंफ्रास्ट्रक्चर से लेकर रोजगार तक हर क्षेत्र में दिव्यांगों को प्राथमिकता दे रहा है।

साथियों,

सरकार में संवेदनशीलता देश के आर्थिक विकास के लिए भी उतनी ही जरूरी होती है। जैसे कि, हमारे देश में करीब 3 करोड़ fishermen हैं और fish farmers हैं। लेकिन, इन करोड़ों लोगों के बारे में पहले कभी उस तरह से नहीं सोचा गया। हमने fisheries के लिए अलग से ministry बनाई। मछलीपालकों को किसान क्रेडिट कार्ड जैसी सुविधाएं देना शुरू किया। हमने मत्स्य सम्पदा योजना शुरू की। समंदर में मछलीपालकों की सुरक्षा के लिए कई आधुनिक प्रयास किए गए। इन प्रयासों से करोड़ों लोगों का जीवन भी बदला, और देश की अर्थव्यवस्था को भी बल मिला।

Friends,

From the ramparts of the Red Fort, I had spoken of Sabka Prayas. It means collective effort. Each one of us has an important role to play in the nation’s future. When people come together, we can do wonders. Today, socially conscious Indians are powering many mass movements. Swachh Bharat helped build a cleaner India. It also impacted health outcomes of women and children. Millets or Shree Anna grown by our farmers are being welcomed across our country and the world. People are becoming Vocal for Local, encouraging artisans and industries. एक पेड़ माँ के नाम, meaning ‘A Tree for Mother’ has also become popular among the people. This celebrates Mother Nature as well as our Mother. Many people from the Christian community are also active in these initiatives. I congratulate our youth, including those from the Christian community, for taking the lead in such initiatives. Such collective efforts are important to fulfil the goal of building a Developed India.

साथियों,

मुझे विश्वास है, हम सबके सामूहिक प्रयास हमारे देश को आगे बढ़ाएँगे। विकसित भारत, हम सभी का लक्ष्य है और हमें इसे मिलकर पाना है। ये आने वाली पीढ़ियों के प्रति हमारा दायित्व है कि हम उन्हें एक उज्ज्वल भारत देकर जाएं। मैं एक बार फिर आप सभी को क्रिसमस और जुबली ईयर की बहुत-बहुत बधाई देता हूं, शुभकामनाएं देता हूं।

बहुत-बहुत धन्यवाद।