نمسکار! مرکزی کابینہ کے میرے رفقاء اور اسی علاقے کے رکن پارلیمنٹ ، مرکزی وزیر داخلہ جناب امیت شاہ، گجرات کے ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر پٹیل جی، قومی سلامتی مشیر جناب اجیت ڈووال جی، پارلیمنٹ میں میرے رفیق جناب سی آر پاٹل، آئی این ۔ اسپیس کے چیئرمین پون گوئنکا جی، خلائی محکمہ کے سکریٹری جناب ایس سومناتھ جی، بھارت کی خلائی صنعت کے تمام نمائندگان، دیگر معززین اور خواتین و حضرات۔
آج 21ویں صدی کے جدید بھارت کے ترقی کے سفر میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انڈین نیشنل اسپیس پروموشن اینڈ آتھرائزیشن سینٹر یعنی آئی این اسپیس کے صدر دفاتر کے لیے تمام اہل وطن کو اور خصوصاً سائنسی برادری کو میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو کچھ مزیدار یا دلچسپ پوسٹ کرنا ہوتا ہے، تو اس سے پہلے وہ ایلرٹ کرتے ہیں اور ایلرٹ میں میسجنگ کرتے ہیں- ’’واچ دِس اسپیس‘‘، بھارت کی خلائی صنعت کے لیے ، آئی این اسپیس کا لانچ ہونا، ’واچ دِس اسپیس‘ لمحہ جیسا ہی ہے۔ آئی این اسپیس، بھارت کے نوجوانوں کو، بھارت کے بہترین سائنسی اذہان کو اپنی صلاحیت دکھانے کا ایک غیر معمولی موقع ہے۔ خواہ وہ سرکاری شعبہ میں کام کر رہے ہوں یا نجی شعبے میں، آئی این اسپیس سبھی کے لیے بہترین موقع لے کر آیا ہے۔ آئی این اسپیس میں بھارت کی خلائی صنعت میں انقلاب برپا کرنے کی اہلیت ہے اور اس لیے میں اس بات کو ضرور کہوں گا کہ ’واچ دِس اسپیس‘ ، آئی این اسپیس اِز فار اسپیس، آئی این اسپیس اِز فار پیس، آئی این اسپیس اِز فار ایس۔
ساتھیو،
دہائیوں تک بھارت میں خلائی شعبہ سے وابستہ نجی صنعت کو صرف وینڈر یعنی فروخت کار کے طور پر ہی دیکھا گیا۔ حکومت ہی تمام خلائی مشنوں اور پروجیکٹوں پر کام کرتی تھی۔ ہمارے نجی شعبہ کے افراد سے حسب ضرورت کچھ پرزے یا آلات لے لیے جاتے تھے۔ نجی شعبہ کو صرف وینڈر بنا دینے کی وجہ سے اس کے سامنے آگے بڑھنے کے راستے ہمیشہ مسدود رہے، ایک دیوار حائل رہی۔ جو سرکاری نظام میں نہیں ہے، بھلے ہی وہ کوئی سائنس داں ہو یا پھر کوئی نوجوان، وہ خلائی شعبہ سے وابستہ اپنے آئیڈیاز پر کام ہی نہیں کر پاتے تھے۔ اور ان سب میں نقصان کس کا ہو رہا تھا؟ نقصان ملک کا ہو رہا تھا۔ اور یہ بات گواہ ہے کہ آخر بڑے آئیڈیاز ہی تو کامیابی دلاتے ہیں۔ خلائی شعبہ میں اصلاح کرکے، اسے ساری بندشوں سے آزاد کرکے، آئی این اسپیس کے توسط سے نجی صنعت کو بھی تعاون فراہم کرکے ملک آج فاتحین پیدا کرنے کی مہم شروع کر رہا ہے۔آج نجی شعبہ صرف وینڈر بن کر نہیں رہے گا بلکہ خلائی شعبہ میں بڑے فاتح کا کردار ادا کرے گا۔ بھارت کے سرکاری خلائی اداروں کی طاقت اور بھارت کے نجی شعبہ کا جوش و جذبہ جب باہم مربوط ہوگا تو اس کے لیے آسمان بھی کم پڑے گا۔ ’آسمان بھی ہماری حد نہیں ہے‘! جیسے بھارت کے آئی ٹی شعبہ کی طاقت آج دنیا ملاحظہ کر رہی ہے، ویسے ہی آنے والے دنوں میں بھارت کے خلائی شعبہ کی طاقت نئی بلندی پر ہوگی۔ آئی این اسپیس، خلائی صنعت، اسٹارٹ اپ ادارے اور اِسرو کے درمیان تکنالوجی کے تبادلے کے لیے بھی سہولت فراہم کرانے کا کام کرے گا۔ نجی شعبہ، اِسرو کے وسائل کا استعمال بھی کر سکے، اِسرو کے ساتھ مل کر کام کر سکے، اس بات کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔
ساتھیو،
خلائی شعبہ میں یہ اصلاح کرتے وقت، نوجوانوں کی زبردست قوت ہمیشہ میرے ساتھ رہی اور ابھی جن اسٹارٹ اپس اداروں کو میں دیکھ کر آیا ہوں، بہت چھوٹی عمر کے نوجوان اور بہت بلند حوصلوں کے ساتھ وہ آگے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں، ان کو دیکھ کر، ان کو سن کر میرا دل مسرور ہوگیا۔ میں ان تمام نوجوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خلائی شعبہ میں پہلے جو نظام تھا، اس میں بھارت کے نوجوانوں کو اتنے مواقع نہیں حاصل ہو رہے تھے۔ ملک کے نوجوان، اپنے ساتھ، اختراع، توانائی اور تلاش کے جذبے کو لے کر آتے ہیں۔ ان کی خطرہ مول لینے کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نوجوان کوئی عمارت بنانا چاہے تو کیا ہم اسے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پی ڈبلیو ڈی سے بنواؤ۔ اگر کوئی نوجوان اختراع کرنا چاہتا ہے تو کیا اسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام صرف سرکاری سہولتوں سے ہی ہوگا۔ یہ سننے میں ہی عجیب لگتا ہے لیکن ہمارے ملک میں الگ الگ شعبوں میں یہی حالت تھی۔ یہ ملک کی بدنصیبی رہی کہ وقت کے ساتھ قواعد اور بندشوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے، اسے فراموش کر دیا گیا۔ آج جب بھارت کا نوجوان، تعمیر قوم میں زیادہ سے زیادہ حصہ دار بننا چاہتا ہے تو ہم اس کے سامنے یہ شرط نہیں رکھ سکتے کہ جو کرنا ہے، سرکاری راستے سے ہی کرو۔ ایسی شرط کا زمانہ گزر گیا ہے۔ ہماری حکومت بھارت کے نوجوانوں کے سامنے موجود رکاؤٹوں کو دور کر رہی ہے، مسلسل اصلاحات متعارف کرا رہی ہے۔ دفاعی شعبہ کو نجی شعبہ کے لیے کھول دینا، جدید ڈرون پالیسی وضع کرنا ہو، جیو اسپیشل ڈاٹا رہنما خطوط بنانے ہوں، ٹیلی مواصلات۔آئی ٹی شعبہ میں ’کہیں بھی رہ کر کام کرنے‘ کی سہولت فراہم کرنا ہو، حکومت ہر سمت میں کام کر رہی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم بھارت کے نجی شعبے کے لیے زیادہ سے زیادہ کاروبار کرنے میں آسانی کا ماحول تیار کریں، تاکہ ملک کا نجی شعبہ، اہل وطن کے لیے زندگی کو آسان بنانے میں اتنی ہی مدد کرے۔
ساتھیو،
یہاں آنے سے قبل ابھی میں آئی این اسپیس کی تکنیکی تجربہ گاہ اور کلین روم بھی دیکھ رہا تھا۔ یہاں سیٹلائٹ کے ڈیزائن، فیبری کیشن، اسمبلی، انٹیگریشن اور ٹیسٹنگ کے لیے جدید سازو سامان بھارتی کمپنیوں کے لیے دستیاب ہوں گے۔ یہاں اور بھی کئی جدید سہولتیں اور بنیادی ڈھانچے تیار کیے جائیں گے جو خلائی صنعت کی طاقت میں اضافہ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ آج مجھے نمائش کے علاقے کو دیکھنے، خلائی صنعت اور خلائی اسٹارٹ اپ اداروں کے افراد سے بات چیت کرنے کا بھی موقع حاصل ہوا۔ مجھے یاد ہے جب ہم خلائی شعبہ میں اصلاحات کر رہے تھے، تو کچھ لوگ اس شک میں مبتلا تھے کہ خلائی صنعت میں کون نجی کمپنی آئے گی؟ لیکن آج خلائی شعبہ میں آئیں 60 سے زائد بھارتی نجی کمپنیاں، پہلے سے ہی اس شعبہ میں آگے ہیں، اور ان کو دیکھ کر آج مجھے خوشی ہوئی ہے ۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارے نجی شعبے کے ساتھیوں نے لانچ وہیکل، سیٹلائٹ، گراؤنڈ سیگمنٹ اور اسپیس ایپلی کیشن کے شعبوں میں تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ پی ایس ایل وی راکیٹ تیار کرنے کے لیے بھی بھارت کی نجی کمپنیاں آگے آئی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، کئی نجی کمپنیوں نے تو اپنے خود کے راکیٹ ڈیزائن بھی تیار کر لیے ہیں۔ یہ بھارت کے خلائی شعبہ کے لامحدود امکانات کی ایک جھلک ہے۔ اس کے لیے میں اپنے سائنس دانوں، صنعت کاروں، نوجوان صنعت کاروں اور تمام اہل وطن کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس پورے سفر میں یہ جو نیا موڑ آیا ہے، ایک نئی بلندی کا راستہ منتخب کیا ہے، اس کے لیے اگر مجھے کسی کو سب سے زیادہ مبارکباد دینی ہے، کسی کو سب سے زیادہ شکریہ ادا کرنا ہے تو میرے اِسرو کے لوگوں کا۔ ہمارے اِسرو کے سابق سکریٹری یہاں بیٹھے ہیں جنہوں نے اس بات پر عملاً رہنمائی کی اور اب ہمارے سومناتھ جی اس کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس لیے میں اس کا سہرا میرے اِسرو کے ان ساتھیوں کے سر باندھ رہا ہوں۔ ان سائنس داں حضرات کے سر باندھ رہا ہوں۔ یہ چھوٹا فیصلہ نہیں ہے دوستوں، اور یہ اسٹارٹ اپ سے وابستہ لوگوں کو پتہ ہے کہ اتنے اہم فیصلے کی وجہ سے وہ بھارت کو اور دنیا کو کیا کچھ دینے کے لیے بلند حوصلے رکھتے ہیں اور اس لیے یہ سہرا اِسرو کے سر جاتا ہے۔ انہوں نے اس کام میں بڑھ چڑھ کر اقدامات کیے ہیں، چیزوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے کوشش کی ہے اور جہاں اپنا ہی اختیارتھا، وہ کہہ رہے ہیں، آیئے ملک کے نوجوانوں، یہ آپ کا ہے، آپ آگے بڑھیئے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا انقلابی فیصلہ ہے۔
ساتھیو،
اس وقت ہم اپنی آزادی کے 75 برسوں کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔ آزاد بھارت میں ہماری جن کامیابیوں نے کروڑوں اہل وطن کو ترغیب فراہم کی، انہیں خوداعتمادی عطا کی، ان میں ہماری خلائی حصولیابیوں کا خصوصی تعاون ہے۔ اِسرو جب کوئی راکیٹ لانچ کرتا ہے، کوئی خلائی مہم انجام دیتا ہے، تو پورا ملک اس سے جڑ جاتا ہے، فخر محسوس کرتا ہے۔ ملک اس کے لیے دعائیں کرتا ہے، اور جب وہ کامیاب ہوتا ہے تو ہر اہل وطن، خوشی، امنگ اور فخر سے اس کا اظہار کرتا ہے اور اس کامیابی کو بھارت کا ہر شہری خود کی کامیابی مانتا ہے۔ اور اگر کہیں کوئی ناخوشگوار یا ناقابل تصور واقعہ پیش آتا ہے، تو بھی ملک اپنے سائنس دانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر ان کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ کوئی سائنس داں ہے یا کسان۔ مزدور ہے، سائنس کی تکنیکات کو سمجھتا ہے یا نہیں سمجھتا ہے، ان سب سے اوپر ہمارا خلائی مشن ملک کے جن گن کے من کا مشن بن جاتا ہے۔ مشن چندریان کے دوران ہم نے بھارت کی اس جذباتی یکجہتی کو دیکھا تھا۔ بھارت کا خلائی مشن ایک طرح سے ’’آتم نربھر بھارت‘‘ کی سب سے بڑی شناخت رہا ہے۔ اب جب اس مشن کو بھارت کے نجی شعبہ کی قوت حاصل ہوگی، تو اس کی طاقت میں کتنا اضافہ ہو جائے گا، آپ اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ساتھیو،
21ویں صدی کے اس دور میں آپ کی ہماری زندگی میں، ہر روز خلائی تکنالوجی کا کردار بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ جتنا بڑا کردار، اتنی زیادہ ایپلی کیشن، اتنے ہی زیادہ امکانات۔ 21ویں صدی میں خلائی تکنالوجی ایک بڑے انقلاب کی بنیاد بننے والی ہے۔ خلائی تکنالوجی اب محض دور اسپیس کی نہیں، بلکہ ہمارے پرسنل اسپیس کی تکنالوجی بننے جا رہی ہے۔ عام انسانی زندگی میں خلائی تکنالوجی کا جو کردار ہے، روزمرہ کی زندگی میں جس طرح خلائی تکنالوجی شامل ہے، اس کی جانب اکثر دھیان جاتا۔ ہم ٹی وی کھولتے ہیں، اتنے سارے چینلز ہمارے لیے دستیاب ہیں۔ لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ سیٹلائٹ کی مدد سے ممکن ہو رہا ہے۔ کہیں جانا ہو، یہ دیکھنا ہو کہ ٹریفک ہے یا نہیں ہے، سب سے چھوٹا راستہ کون سا ہے، یہ سب کس کی مدد سے ہو رہا ہے؟ سیٹلائٹ کی مدد سے ہو رہا ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے اتنے کام ہیں، کہیں سڑک بن رہی ہے، کہیں پل تعمیر ہو رہا ہے، کہیں اسکول، کہیں ہسپتال بن رہے ہیں، کہیں گراؤنڈ واٹر ٹیبل چیک کرنا ہے، بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں کی نگرانی کرنی ہے، یہ سارے کام سیٹلائٹ کی مدد سے انجام دیے جا رہے ہیں۔ ہمارے جو ساحلی علاقے ہیں، ان کی منصوبہ بندی کے لیے، ان کی ترقی میں بھی خلائی تکنالوجی کا بڑا کردار ہے۔ سمندر میں جانے والے ماہی گیروں کو بھی سیٹلائٹ کے ذریعہ ماہی گیری اور سمندری طوفانوں کی پیشگی معلومات حاصل ہو جاتی ہے۔ آج بارش کی پیشن گوئی کی جارہی ہے ، جو تقریباً صحیح ثابت ہورہی ہیں۔ اسی طرح جب سمندری طوفان آتا ہے، اس کا ٹھیک ٹھیک فال پوائنٹ کیا ہوگا، کس سمت میں جائے گا، کتنے گھنٹے، کتنے منٹ پر وہ فال کرے گا، یہ ساری باریکیاں سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل ہو رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، زرعی شعبہ میں خواہ فصل بیمہ یوجنا ہو، سوئل ہیلتھ کارڈس کی مہم ہو، سبھی میں خلائی تکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ خلائی تکنالوجی کے بغیر ہم آج جدید ہوابازی شعبہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ سب عام انسانی زندگی سے وابستہ معاملات ہیں۔ مستقبل میں اور آپ کو معلوم ہوگا، اس مرتبہ ہم نے ٹی وی کے توسط سے بچوں کو ٹیوشن دینے ، پڑھانے کی ایک بڑی مہم شروع کرنے کا منصوبہ بجٹ میں پیش کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں، جو مسابقتی امتحانات میں حصہ لینے جا رہے ہیں اور جن بچوں کو گاؤں چھوڑکر بڑے شہروں میں بہت مہنگی فیس دے کر ٹیوشن لینا پڑتا ہے، اس کو بھی ہم سیٹلائٹ کے توسط سے اس کے گھر تک، اس کی ضرورت کے مطابق نصاب تیار کروا رہے ہیں تاکہ بچوں کو اضافی خرچ نہ کرنا پڑے اور غریب سے غریب کا بچہ بھی اچھے سے اچھا ٹیوشن سیٹلائٹ کے توسط سے اپنی ٹی وی اسکرین پر، اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر، اپنے موبائل پر بآسانی حاصل کر سکے، ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
مستقبل میں ایسے ہی متعدد شعبوں میں خلائی تکنالوجی کا استعمال زیادہ سے زیادہ ہونے والا ہے۔ ہم کیسے خلائی تکنالوجی کو عام زندگی کے لیے زیادہ سے زیادہ آسان بنا سکیں، کیسے خلائی تکنالوجی زندگی جینے کو مزید آسان بنانے کا وسیلہ بنے، اور، کیسے ہم اس تکنالوجی کا استعمال ملک کی ترقی اور قوت کے لیے کر سکتے ہیں، اس سمت میں آئی این اسپیس اور نجی کمپنیوں کو مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیو اسپیشل میپنگ سے وابستہ متعدد امکانات ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نجی شعبہ کا ان میں بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس آج سرکاری سیٹلائٹ کا بڑا ڈاٹا دستیاب ہے۔ اب آنے والے وقت میں نجی شعبہ کے پاس بھی اپنا کافی ڈاٹا ہوگا۔ ڈاٹا کا یہ سرمایہ دنیا میں آپ کو بہت بڑی طاقت دینے والا ہے۔ اس وقت دنیا میں خلائی صنعت کا سائز قریب 400 بلین ڈالر کے بقدر ہے۔ 2040 تک اس کے ایک کھرب ڈالر کے بقدر کی صنعت بننے کے امکانات ہیں۔ آج ہمارے پاس صلاحیت بھی ہے، تجربہ بھی ہے، لیکن آج اس صنعت میں ہماری شراکت داری محض عوامی شراکت داری تک ہے، یعنی نجی شراکت داری محض 2 فیصد ہے۔ ہمیں عالمی خلائی صنعت میں اپنا شیئر بڑھانا ہوگا، اور اس میں ہمارے نجی شعبہ کا بڑا کردار ہے۔ میں آنے والے وقت میں خلائی سیاحت اور خلائی سفارتکاری کے شعبہ میں بھی بھارت کا مضبوط کردار دیکھ رہا ہوں۔ بھارت کی خلائی کمپنیاں عالمی درجہ کی حامل ہوں، ہمارے پاس عالمی خلائی کمپنی ہو، یہ پورے ملک کے لیے فخر کی بات ہوگی۔
ساتھیو،
ہمارے ملک میں لامحدود امکانات ہیں، تاہم لامحدود امکانات کبھی بھی محدود کوششوں سے پورے نہیں ہو سکتے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، ملک کے نوجوانوں کو یقین دلاتا ہوں، سائنسی مزاج کے حامل، خطرات مول لینے کی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کو یقین دلانا چالتا ہوں کہ خلائی شعبہ میں اصلاحات کا یہ سلسلہ آگے بھی مسلسل جاری رہے گا۔ نجی شعبہ کی ضرورتوں کو سناجائے، سمجھا جائے، کاروباری امکانات کا جائزہ لیا جائے، اس کے لیے مضبوط میکنزم تیار کیا گیا ہے۔ آئی این اسپیس اس سمت میں نجی شعبہ کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک سنگل ونڈو آزاد نوڈل ایجنسی کے طور پر کام کرے گا۔ سرکاری کمپنیوں، خلائی صنعت، اسٹارٹ اپ اداروں سمیت دیگر اداروں کے درمیان تال میل کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے بھارت، نئی بھارتی خلائی پالیسی پر بھی کام کر رہا ہے۔ ہم خلائی شعبہ میں کاروبار کرنا آسان بنانے کو فروغ دینے کے لیے بھی جلد ہی ایک پالیسی لے کر آنے والے ہیں۔
ساتھیو،
آنے والے دنوں میں ، انسانیت کا مستقبل اور اس کی ترقی، دو ایسے شعبے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ہیں، ہم جتنا جلدی اس میں مواقع تلاش کریں گے، دنیا کی اس دوڑ میں ہم تاخیر کیے بغیر جتنا آگے بڑھیں گے، ہم حالات کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں ، اس پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ وہ دو شعبے ہیں – خلاء اور سمندر، یہ بہت بڑی طاقت بننے والے ہیں اور آج ہم پالیسیوں کے ذریعہ ان سب پر کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مربوط ہونے کے لیے ملک کے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔ خلاء کے لیے ہمارے نوجوانوں میں، خصوصاً طلباء میں جو تجسس پایا جاتا ہے وہ بھارت کی خلائی صنعت کی ترقی کے لیے بڑی طاقت ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ملک میں تیارشدہ ہزاروں اٹل اختراعی تجربہ گاہوں میں طلبا کو خلاء سے وابستہ موضوعات سے مسلسل متعارف کرایا جائے، انہیں اپ ڈیٹ رکھا جائے۔ میں ملک کے اسکولوں اور کالجوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ اپنے طلبا کو خلاء سے وابستہ بھارتی اداروں اور کمپنیوں کے بارے میں بتائیں، ان کی تجربہ گاہوں کا دورہ کرائیں۔ اس شعبہ میں جس طرح مسلسل بھارتی نجی کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اس بھی انہیں مدد حاصل ہونے والی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت میں پہلے، مجھے معلوم نہیں ہے کہ ایسا کیوں تھا، لیکن تھا۔ مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ اس سے پہلے کی صورتحال یہ تھی کہ جب سیٹلائٹ لانچ ہوتا تھا تو اس پورے علاقے میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور ہم جیسے جو لیڈر ہوتے ہیں ان کو وی آئی پی کی طرح وہاں 12۔15 لوگوں کے ساتھ مدعو کرکے دکھایا جاتا تھا کہ سیٹلائٹ لانچ ہو رہا ہے اور ہم بھی بڑے خوش ہو کر دیکھ رہے تھے۔ لیکن میری سوچ مختلف ہے۔ میرا کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے ، میں وہاں پہلی مرتبہ بطور وزیر اعظم گیا ، تو ہم نے ایک فیصلہ کیا ۔ ہم نے دیکھا کہ طلباء میں دلچسپی ہے، تجسس ہے اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں سے ہمارے سیٹلائٹ لانچ ہوتے ہیں، وہ شری ہری کوٹا میں ہم نے ایک بہت بڑی لانچ دیکھنے کی، جب سیٹلائٹ جاتا ہے ، اس کو دیکھنے کے لیے وِیو گیلری کی تعمیر کی ہے اور کوئی بھی شہری کوئی بھی اسکول کا طالب علم اس پروگرام کو دیکھ سکتا ہے اور بیٹھنے کا بھی انتظام چھوٹا نہیں ہے۔ 10 ہزار لوگ بیٹھ کر اس سیٹلائٹ کو دیکھ سکیں، اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ چیزیں چھوٹی لگتی ہیں لیکن بھارت پر اس کے بڑے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ساتھیو،
آئی این اسپیس صدر دفاتر کا افتتاح آج ہو رہا ہے، یہ ایک طرح سے سرگرمیوں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ گجرات الگ الگ شعبوں میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے بڑے اداروں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ میں بھوپیندر بھائی اور ان کی پوری ٹیم کو، حکومت گجرات کے ہمارے تمام ساتھیوں کو ان کی اس پہل قدمی کے لیے ہر فعال پالیسی کی حمایت کرنے کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور آپ کو معلوم ہے ابھی کچھ ہفتے قبل ہی جام نگر میں ڈبلیو ایچ او کے عالمی مرکز برائے روایتی ادویہ کاکام شروع ہوا ہے۔ قومی سلامتی یونیورسٹی ہو، نیشنل لاء یونیورسٹی ہو، پنڈت دین دیال اینرجی یونیورسٹی ہو، نیشنل فارینسک سائنس یونیورسٹی ہو، نیشنل اننوویشن فاؤنڈیشن ہو، چلڈرنس یونیورسٹی ہو، کتنے ہی قومی ادارے یہاں آس پاس موجو د ہیں۔ بھاسکراچاریہ انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ایپلی کیشنز اینڈ جیو انفارمیٹکس، یعنی بی آئی ایس اے جی، اس کے قیام نے ملک کی دیگر ریاستوں کو بھی ترغیب فراہم کی ہے۔ ان بڑے اداروں کے درمیان اب آئی این اسپیس بھی اس جگہ کی شناخت میں اضافہ کرے گا۔ ملک کے نوجوانوں ، خصوصاً گجرات کے نوجوانوں سے میری درخواست ہے کہ ان بہترین بھارتی اداروں کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ مجھے پورا بھروسہ ہے، آپ کے فعال کردار سے بھارت خلائی شعبہ میں نئی بلندیاں سر کرے گا۔ اور آج کے اس مبارک موقع پر ، خصوصاً نجی شعبہ نے جس جوش و جذبے کے ساتھ حصہ لیا ہے، جو نوجوان نئے حوصلے، نئے عزائم کے ساتھ آگے آئے، ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ میں اِسرو کے تمام سائنس دانوں کو بھی اور اِسرو کی پوری ٹیم کو بھی بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ گوئنکا نجی شعبہ میں بہت کامیاب شخصیت رہی ہے، ان کی قیادت میں آئی این اسپیس حقیقی معنوں میں جو خواب ہمارا ہے، اس خواب کو پورا کرنے کی طاقت کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ انہیں توقعات اور ڈھیر ساری نیک خواہشات کے ساتھ، میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔