مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو جی، وزیر مملکت ایس پی سنگھ بگھیل جی، میٹنگ میں شامل تمام ریاستوں کے وزرائے قانون، سکریٹری حضرات، اس اہم کانفرنس میں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات،
ملک کے اور تمام ریاستوں کے وزرائے قانون اور سکریٹری حضرات کی یہ اہم میٹنگ، مجسمہ اتحاد کی عظمت کے درمیان منعقد ہو رہی ہے۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تب مفاد عامہ کو لے کر سردار پٹیل کی ترغیب، ہمیں صحیح سمت میں بھی لے جائے گی اور ہمیں مقصد تک پہنچائے گی۔
ساتھیو،
ہر معاشرے میں اس دور کے مطابق قانونی نظام اور مختلف ضابطے اور رواج پیدا ہوتے رہے ہیں۔ صحت مند معاشرے کے لیے، خود اعتمادی سے لبریز معاشرے کے لیے، ملک کی ترقی کے لیے قابل بھروسہ اور تیز رفتار قانونی نظام بہت ہی ضروری ہے۔ جب انصاف ملتے ہوئے نظر آتا ہے، تو آئینی اداروں کے تئیں اہل وطن کا بھروسہ مضبوط ہوتا ہے۔ اور جب انصاف ملتا ہے، تو ملک کے عوام الناس کی خوداعتمادی بھی اتنی ہی بڑھتی ہے۔ اس لیے، ملک کے قانونی نظام کو مسلسل بہتر بنانے کے لیے اس طرح کے انعقاد ازحد اہم ہیں۔
ساتھیو،
بھارت کے معاشرے کی ترقی کا سفر ہزاروں برسوں پر محیط ہے۔ تمام تر چنوتیوں کے باوجود بھارتی سماج نے مسلسل ترقی کی ہے، تسلسل برقرار رکھا ہے۔ ہمارے سماج میں اخلاقیات کے تئیں اصرار اور بھرپور ثقافتی ریتی رواج موجود ہیں۔ ہمارے سماج کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ ترقی کے راستے پر بڑھتے ہوئے، خود کی اصلاح بھی کرتا چلتا ہے۔ ہمارا سماج غیر ضروری ہوچکے قوانین و ضوابط ، برے رواجوں، کو ہٹا دیتا ہے، پھینک دیتا ہے۔ ورنہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ رواج جب فرسودہ بن جاتا ہے ، تو سماج پر وہ ایک بوجھ بن جاتا ہے، اور سماج اس بوجھ کے تلے دب جاتا ہے۔ اس لیے ہر نظام میں مسلسل اصلاح ایک لازمی امر بن جاتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا، میں اکثر کہتا ہوں کہ ملک کے لوگوں کو حکومت کے نہ ہونے کا احساس بھی نہیں ہونا چاہئے اور ملک کے لوگوں کو حکومت کا دباؤ بھی محسوس نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کا دباؤ جن باتوں سے بھی بنتا ہے، اس میں غیر ضروری قوانین کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے۔ گذشتہ 8 برسوں میں بھارت کے شہریوں پر سے حکومت کا دباؤ ہٹانے پر ہماری خصوصی توجہ رہی ہے۔ آپ بھی واقف ہیں کہ ملک نے ڈیڑھ ہزار سے زائد پرانے اور فرسودہ قوانین کو منسوخ کر دیا ہے۔ ان میں سے بیشتر قوانین تو غلامی کے وقت سے چلے آرہے تھے۔ اختراع اور زندگی بسر کرنا آسان بنانے کے راستے سے قانونی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے 32 ہزار سے زائد ضوابط بھی کم کیے گئے ہیں۔ یہ تبدیلی عوام کی سہولت کے لیے ہے، اور وقت کے حساب سے بھی بہت ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غلامی کے دور کے متعدد قدیم قوانین اب بھی ریاستوں میں چل رہے ہیں ۔ آزادی کے اس امرت کال میں، غلامی کے وقت سے چلے آرہے قوانین کو ختم کرکے نئے قوانین آج کی تاریخ کے حساب سے وضع کرنا ضروری ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس کانفرنس میں اس طرح کے قوانین کی تنسیخ کا راستہ بنانے پر ضرور غور و فکر ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ریاستوں کے جو موجودہ قوانین ہیں، ان کا جائزہ بھی بہت مددگار ثابت ہوگا۔ اس جائزے کے تحت ایز آف لیونگ پر توجہ دی جانی چاہئے اور ایز آف جسٹس پر بھی۔
ساتھیو،
انصاف میں تاخیر ایک ایسا موضوع ہے، جو بھارت کے شہریوں کی سب سے بڑی چنوتیوں میں سے ایک ہے۔ ہماری عدالتیں اس سمت میں کافی سنجیدگی سے کام کر رہی ہیں۔ اب امرت کال میں ہمیں مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ بہت ساری کوششوں میں، ایک متبادل ’الٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن‘ کا بھی ہے، جسے ریاستی حکومت کی سطح پر فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے مواضعات میں اس طرح کا نظام بہت پہلے سے کام کرتا رہا ہے۔ وہ اپنا طریقہ ہوگا، اپنا نظام ہوگا، لیکن سوچ یہی ہے۔ ہمیں ریاستوں میں مقامی سطح پر اس نظام کو سمجھنا ہوگا، اسے کیسے قانونی نظام کا حصہ بنا سکتے ہیں، اس پر کام کرنا ہوگا۔ مجھے یاد ہے، جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو ہم نے ’ایوننگ کورٹس ‘کی شروعات کی تھی اور ملک میں اولین ایوننگ کورٹ کی شروعات وہاں ہوئی تھی۔ ایوننگ کورٹس میں بیشتر ایسے معاملات آتے تھے جو دفعات کے لحاظ سے بہت کم سنگین نوعیت کے ہوتے تھے۔ لوگ بھی دن بھر اپنا کام کاج نپٹاکر، ان عدالتوں میں آکر عدالتی کاروائی مکمل کرتے تھے۔ اس سے ان کا وقت بھی بچتا تھا اور معاملات کی سنوائی بھی تیزی سے ہو تی تھی۔ ایوننگ کورٹس کی وجہ سے گجرات میں گذشتہ برسوں میں 9 لاکھ سے زائد کیسوں کو سلجھایا گیا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ملک میں تیزرفتار انصاف کا ایک اور وسیلہ لوک عدالتیں بھی بنی ہیں۔ متعدد ریاستوں میں اسے لے کر بہت اچھا کام بھی ہوا ہے۔ لوک عدالتوں کے توسط سے ملک میں گذشتہ برسوں میں لاکھوں معاملات کو سلجھایا گیا ہے۔ ان سے عدالتوں کا بوجھ بھی بہت کم ہوا ہے اور خاص طور پر گاؤں میں رہنے والے لوگوں کو، غریبوں کو انصاف بھی ملنا آسان ہوا ہے۔
ساتھیو،
آپ میں سے بیشتر لوگوں کے پاس پارلیمانی امور کی وزارت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یعنی آپ تمام حضرات قانون بننے کے عمل سے بھی کافی قریب سے گزرتے ہیں۔ مقصد کتنا ہی اچھا ہو، لیکن اگر قانون میں ہی شبہ ہوگا، وضاحت کا فقدان ہوگا، تو اس کا بہت بڑا خمیازہ مستقبل میں عام شہریوں کو بھگتنا پڑے گا۔ قانون کی پیچیدگی، اس کی زبان ایسی ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے، پیچیدگی کی وجہ سے، عام شہریوں کو بہت سارا پیسہ خرچ کرکے انصاف کی حصولیابی کے لیے ادھر اُدھر دوڑنا پڑتا ہے۔ اس لیے قانون جب عوام الناس کی سمجھ میں آتا ہے، تو اس کا اثر ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اس لیے کچھ ممالک میں جب پارلیمنٹ یا اسمبلی میں قانون وضع کیا جاتا ہے، تو دو طرح سے اس کی تیاری کی جاتی ہے۔ ایک ہے قانون کی تعریف متعین کرنے میں تکنیکی الفاظ کا استعمال کرتےہوئے اس کی تفصیلی وضاحت کرنا ، اور دوسرا اُس زبان میں قانون کو لکھنا اور جو عام زبان میں لکھنا، اس ملک کے عام انسان کو سمجھ آئے، اس صورت میں لکھنا، قانون کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھنا۔ اس لیے قانون وضع کرتے وقت ہماری توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ غریب سے غریب بھی نئے بننے والے قانون کو اچھی طرح سمجھ پائے۔ کچھ ممالک میں ایسا بھی ضابطہ ہوتا ہے کہ قانون بنتے وقت ہی یہ طے کر دیا جاتا ہے کہ وہ قانون کب تک نافذ العمل رہے گا۔ یعنی ایک طرح سے قانون بنتے وقت ہی اس کی عمر، اس کے ختم ہونے کی تاریخ طے کر دی جاتی ہے۔ یہ قانون 5 برس کے لیے ہے، یہ قانون 10 برس کے لیے ہے، طے کر لیا جاتا ہے۔ جب وہ تاریخ آتی ہے تو اس قانون کا نئی صورتحال میں پھر سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ بھارت میں بھی ہمیں اسی احساس کو آگے لے کر بڑھنا ہے۔ ایز آف جسٹس کے لیے قانونی نظام میں مقامی زبان کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔ میں ہماری عدالتوں کے سامنے بھی اس موضوع کو مسلسل اٹھاتا رہا ہوں۔ اس سمت میں ملک کئی بڑی کوششیں بھی کر رہا ہے۔ کسی بھی شہری کے لیے قانون کی زبان رکاوٹ نہ بنے، ہر ریاست اس کے لیے بھی کام کرے۔ اس لیے ہمیں لاجسٹکس اور بنیادی ڈھانچہ کی حمایت بھی درکار ہوگی، اور نوجوانوں کے لیے مادری زبان میں تعلیمی ایکونظام بھی بنانا ہوگا۔ قانون سے وابستہ کورسیز مادری زبان میں ہوں، ہمارے قانون آسان اور سہل زبان میں لکھے جائیں، ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے اہم معاملات کی ڈجیٹل لائبریری مقامی زبان میں ہو، اس کے لیے ہمیں کام کرنا ہوگا۔ اس سے عوام الناس میں قانون کو لے کر معلومات میں بھی اضافہ ہوگا، اور بوجھل قانونی الفاظ کا خوف بھی کم ہوگا۔
ساتھیو،
جب عدالتی نظام سماج کے ساتھ ساتھ وسعت اختیار کرلیتا ہے، جدیدیت کو قبول کرنے کی فطرت اس میں موجود ہوتی ہے تو سماج میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، وہ انصاف کے نظام میں بھی نظر آتی ہیں۔ تکنالوجی کس طرح سے آج عدالتی نظام کا بھی اٹوٹ حصہ بن گئی ہے، اسے ہم نے کورونا کے دور بھی دیکھا ہے۔ آج ملک میں ای۔کورٹس مشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ورچووَل سنوائی اور ورچووَل پیشی جیسے نظام اب ہمارے عدالتی نظام کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، کیس کی ای-فائلنگ کو بھی بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اب ملک میں 5جی کے آنے سے ان انتظام کاریوں میں اور بھی تیزی آئے گی، اور بہت بڑی تبدیلیاں جو اس میں مضمر ہیں، ہونے والی ہیں۔ اس لیے ہر ریاست کو اسے مدنظر رکھتے ہوئے اپنے عدالتی نظام کو اپ ڈیٹ اور اپ گریڈ کرنا ہی پڑے گا۔ ہماری قانونی تعلیم کو تکنالوجی کے حساب سے تیار کرنا بھی ہمارا ایک اہم ہدف ہونا چاہئے۔
ساتھیو،
مضبوط ملک اور یکساں سماج کے لیے حساس عدالتی نظام ایک لازمی شرط ہے۔ اسی لیے ، میں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حضرات کے مشترکہ اجلاس میں زیر سماعت معاملات کا موضوع اٹھایا تھا۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ معاملات کی تیزرفتار سماعت کے لیے ریاستی حکومت کے ذریعہ جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ ضرور کریں۔ زیر غور قیدیوں کو لے کر بھی ریاستی حکومتیں پورے انسانی نقطہ نظر کے ساتھ کام کریں، تاکہ عدالتی نظام ایک انسانی اصول کے ساتھ آگے بڑھے۔
ساتھیو،
ہمارے ملک کے عدالتی نظام کے لیے آئین ہی بالاتر ہے۔ اسی آئین کی کوکھ سے عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکیوٹیو، تینوں کا ہی جنم ہوا ہے۔ حکومت ہو، پارلیمنٹ ہو، ہماری عدالتیں ہوں، یہ تینوں ایک طرح سے ایک ہی ماں یعنی آئین کی اولاد ہیں۔ اس لیے کام مختلف ہونے کے باوجود، اگر ہم آئین کے جذبے کو دیکھیں تو بحث و مباحثہ کے لیے،ایک دوسرے سے سبقت کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ایک ماں کی اولاد کی طرح ہی تینوں کو ماں بھارتی کی خدمت کرنی ہے، تینوں کو مل کر 21ویں صدی میں بھارت کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کانفرنس میں جو غور و فکر ہوگا، اس سے ملک کے لیے قانونی اصلاحات کا امرت ضرور نکلے گا۔ آپ سب سے میری درخواست ہے کہ وقت نکال کر مجسمہ اتحاد اور اس کے پورے احاطے میں جو توسیع و ترقی ہوئی ہے، اس کو آپ ضرور ملاحظہ کریں۔ ملک اب بہت تیزی سے آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ آپ کے پاس جو بھی ذمہ داری ہے، اس کو آپ بخوبی ادا کریں۔ یہی میری آپ کو نیک خواہشات ہیں۔ بہت بہت شکریہ۔