“This family of 130 crore Indians is all I have, you people are everything in my life and this life too is for you”
“I repeat the resolve that I will do whatever I can, for the welfare of everyone, for the honour of every Indian, for the security of every Indian and for the prosperity of every Indian and a life of happiness and peace for everyone”
“Seva, Sushasan aur Gareeb Kalyan have changed the meaning of government for the people”
“Government is trying to give a permanent solution to the problems which were earlier assumed to be permanent”
“Our government started empowering the poor from day one”
“we are working to build a new India not a vote bank”
“100% empowerment means ending discrimination and appeasement. 100% empowerment means that every poor gets full benefits of government schemes”
“No goal is impossible for capability of New India”

بھارت ماتا کی، جے۔

بھارت ماتا کی، جے۔

ہماچل پردیش کے گورنر جناب راجندر جی، یہاں کے مقبول اور محنتی وزیر اعلیٰ میرے دوست جناب جئے رام ٹھاکر جی، ریاست کے صدر ہمارے پرانے ساتھی جناب سریش جی، مرکز کی وزارتی  کونسل کے میرے ساتھیوں،  اراکین پارلیمنٹ ، ایم ایل اے، ہماچل کے تمام عوامی نمائندے۔ آج میری زندگی میں ایک خاص دن بھی ہے اور اس خاص دن پراس دیوبھومی کو پرنام کرنے کا موقع ملے، اس سے بڑی زندگی میں خوش قسمتی کیا ہوسکتی  ہے۔ آپ اتنی بڑی تعداد میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے آئے میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ابھی، ملک کے کروڑوں -کروڑ کسانوں کو ان کے کھاتے میں  پی ایم کسان سمان ندھی کا پیسہ ٹرانسفر ہوگیا، پیسے ان کو مل بھی گیا، اور آج مجھے شملہ کی سرزمین سے ملک کے 10 کروڑ سے بھی زیادہ کسانوں کے کھاتے  میں پیسے پہنچانے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ وہ کسان بھی شملہ کو یاد کریں گے، ہماچل کو یاد کریں گے، اس دیو بھومی کو یاد کریں گے۔ میں ان سبھی کسان بھائیو اور بہنو کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت سی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

یہ پروگرام شملہ میں ہے، لیکن ایک طرح سے یہ پروگرام آج پورے ہندوستان کا ہے۔ہماری یہاں بات چیت چل رہی تھی کہ سرکار کے آٹھ سال ہونے پر کیسا پروگرام کیا جائے، کون سا پروگرام کیا جائے۔ تو ہمارے نڈا جی، جو ہماچل کے ہی ہیں، ہمارے جےرام جی؛ ان کی طرف سے ایک  تجویز آئی  اور دونوں  تجاویز  مجھے بہت اچھی لگیں ۔ ان آٹھ سال کی بدولت  کل مجھے کورونا دور میں جن بچوں نے اپنی ماں اور باپ دونوں کو کھو دیا، ایسے بچوں کا ذمہ سنبھالنے کا موقع کل مجھے ملا۔ ملک کے ان ہزاروں بچوں کی دیکھ بھال کا فیصلہ سرکار نے کیا، اور کل ان کو میں نے کچھ پیسے بھی بھیج دیئے ڈیجیٹل طریقے سے۔آٹھ سال  مکمل ہونے پر  ایسا پروگرام ہونا من کو بہت سکون دیتا ہے،خوشی دیتا ہے۔ اور پھر میرے سامنے تجویز آئی کہ ہم ایک پروگرام ہماچل میں کریں، تو میں نے آنکھ بند کرکے ہاں کہہ دیا ۔ کیونکہ میری زندگی میں ہماچل کا مقام اتنا بڑا ہے، اتنا بڑا ہے اور خوشی کے لمحے اگر ہماچل میں آکر کے گزارنے کا موقع ملے تو پھر تو بات ہی کیا بنتی ہے جی۔ آج اس لئے میں نے کہا آٹھ سال کے لئے ملک کا یہ اہم پروگرام آج شملہ کی سرزمین پر ہورہا ہے، جو کبھی میری کرم بھومی رہی، میرے لئے جو دیوبھومی ہے، میرے لئے جو مقدس سرزمین  ہے۔ وہا ں پر مجھے آج اہل وطن کو اس دیوبھومی سے بات کرنے کا موقع ملے، یہ اپنے آپ میں میرے لئے خوشی کئی گنا بڑھا دینے والا کام ہے۔

ساتھیو،

130 کروڑ بھارتیوں کے سیوک کے طور پر کام کرنے کا مجھے آپ سب نے جو موقع دیا ، مجھے جو اچھا موقع ملا ہے، سبھی بھارتیوں کا جو اعتماد مجھے ملا ہے، اگر آج میں کچھ کر پاتا ہوں، دن-رات دوڑ پاتا ہوں، تو یہ مت سوچئے کہ مودی کرتا ہے، یہ مت سوچئے کہ مودی دوڑتا ہے۔ یہ سب تو 130 کروڑ اہل وطن کی مہربانی سے ہورہا ہے، آشرواد سے ہورہا ہے، ان کی بدولت ہی ہورہا ہے، ان کی طاقت  سے ہورہا ہے۔ خاندان کے ایک ممبر کے طور پر میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اس عہدے پر دیکھا نہیں، تصور بھی نہیں کیا ہے، اور آج بھی نہیں کررہا ہوں کہ میں کوئی وزیراعظم ہوں۔ جب فائل پر سائن کرتا ہوں، ایک ذمہ داری ہوتی ہے، تب تو وزیراعظم کی ذمہ داری کے طور پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد فائل جیسے ہی چلی جاتی ہے تو میں وزیراعظم نہیں رہتا ہوں، میں صرف اور صرف 130 کروڑ اہل وطن کے پریوار کا ممبر بن جاتا ہوں۔ آپ ہی کے پریوار کے ممبر کے طور پر میں ایک پردھان سیوک کے طور پر جہاں بھی رہتا ہوں، کام کرتا ہوں اور آگے بھی ایک پریوار کے ممبر کے ناطے ، پریوار کی امیدوں- آرزووں  سے جڑنا، 130 کروڑ اہل وطن کا پریوار، یہی سب کچھ ہے میری زندگی میں ۔ آپ ہی ہیں سب کچھ میری زندگی میں اور یہ زندگی بھی آپ ہی کے لئے ہے۔ اور جب ہماری سرکار اپنے آٹھ سال مکمل کررہی ہے ، تو آج میں پھر سے ، میں اس دیوبھومی سےاپنے عزم  کا پھر سے اعادہ کروں  گا، کیونکہ سنکلپ کو بار بار یاد کرتے رہنا چاہئے، سنکلپ کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے، اور میرا سنکلپ تھا، آج ہے ، آگے بھی رہے گا۔ جس سنکلپ کے لئے جیؤں گا، جس سنکلپ کے لئے لڑتا رہوں گا، جس سنکلپ کے لئے آپ سب کے ساتھ چلتا رہوں گا، اور اس لئے میرا یہ سنکلپ ہے اہل وطن کی عزت و احترام  کے لئے ، ہر اہل وطن کی حفاظت، اس ہر اہل وطن کی خوشحالی کیسے بڑھے، اہل وطن کو امن-سکون کی زندگی کیسے ملے، اس ایک جذبے سے غریب سے غریب ہو، دلت ہو، مظلوم ہو،استحصال کیا گیاہو، دوردراز  جنگلوں میں رہنے والے لوگ ہوں، پہاڑی کی چوٹیوں پر رہنے والے اکا دکا رہنے والےچند پریوار ہوں، ہر کسی کی فلاح و بہبود  کے لئے ، جتنا زیادہ کام کرسکتا ہوں، اس کو کرتا رہوں، اسی جذبے کو لے کر میں آج پھر سے ایک بار اس دیوبھومی سے اپنے آپ  کو عہدبند کرتا ہوں ۔

ساتھیو،

ہم سبھی مل کر بھارت کو اس بلندی تک پہنچائیں گے، جہاں پہنچنے کا خواب آزادی کے لئے مر مٹ جانے والے لوگوں نے دیکھا تھا۔ آزادی کے اس امرت مہوتسو میں، بھارت کے بہت روشن مستقبل کے یقین کے ساتھ ، بھارت کی نوجوان طاقت، ، بھارت کی خواتین کی طاقت، اس پر پورا اعتماد رکھتے ہوئے میں آج آپ کے بیچ آیا ہوں۔

ساتھیو،

زندگی میں جب ہم بڑے اہداف کی طرف آگے بڑھتے ہیں، تو کئی مرتبہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم چلے کہاں سے تھے، شروعات کہاں سے کی تھی۔ اور جب اس کو یاد کرتے ہیں تبھی تو حساب-کتاب کا پتہ چلتا ہے کہ کہاں سے نکلے اور کہاں پہنچے، ہماری رفتار کیسی رہی، ہماری ترقی کیسی رہی، ہماری کامیابیاں کیا رہیں۔ ہم اگر 2014 سے پہلے  کے دنوں کو یاد کریں، ان دنوں کو بھولنا مت ساتھیو، تب جا کرکے ہی آج کے دنوں کی قدر سمجھ میں  آئے گی۔ آج کی صورتحال کو دیکھیں، پتہ چلے گا ساتھیو، ملک نے بہت لمبا سفر طے کیا ہے۔

2014 سے پہلے اخبار کی سرخیوں میں بھری رہتی تھی، ہیڈلائن بنی رہتی تھی، ٹی وی پر بحث ہوتی رہتی تھی۔ بات کیا ہوتی تھی، بات ہوتی تھی لوٹ اور کھسوٹ کی، بات ہوتی تھی بدعنوانی کی، بات ہوتی تھی گھپلے کی، بات ہوتی تھی بھائی-بھتیجاواد کی، بات ہوتی تھی افسرشاہی کی، بات ہوتی تھی اٹکی -لٹکی بھٹکی اسکیموں کی۔لیکن وقت بدل چکا ہے، آج بحث ہوتی ہے سرکاری اسکیموں سے ملنے والے فائدے کی۔ سرمور سے ہماری کوئی سمادیوی کہہ دیتی ہے کہ مجھے یہ فائدہ مل گیا۔ آخر گھر تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے۔ غریبوں کے حق کا پیسہ سیدھے ان کے کھاتوں میں پہنچنے کی بات ہوتی  ہے، آج بحث ہوتی ہے، دنیا میں بھارت کے اسٹارٹ اپ کی، آج بحث ہوتی ہےورلڈبینک بھی ذکر کرتا ہے بھارت کے از آف ڈوئنگ بزنس کا ، آج ہندوستان کے بے قصور شہری ذکر کرتے ہیں  مجرموں پر شکنجہ کسنے کی ہماری طاقت کا، بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹال رینس  کےساتھ آگے بڑھنے کا۔

2014 سے پہلے کی سرکار نے بدعنوانی کو سسٹم کا ضروری حصہ مان لیا تھا، تب کی سرکار بدعنوانی سے لڑنے کی بجائے ، اسکے آگے گُھٹنے ٹیک چکی تھی، تب ملک دیکھ رہا تھا کہ اسکیموں کا پیسہ ضرورت مند تک پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ جاتا ہے۔ لیکن آج بحث جن-دھن کھاتوں سے ملنے والے فوائد کی ہورہی ہے، جن دھن-آدھار اور موبائل سے بنی تہری طاقت کی ہورہی ہے۔ پہلے رسوئی میں دھواں سہنے کی مجبوری تھی، آج اجول یوجنا سے سلنڈر حاصل کرنے کی سہولت ہے۔ پہلے کھلے میں رفع حاجت کی بے بسی تھی ، آج گھر میں بیت الخلا بنواکر عزت سے جینے کی آزادی ہے۔ پہلے علاج کے لئے پیسے جمع کرنے کی بے بسی تھی ، آج ہر غریب کو آیوشمان بھارت کا سہارا ہے۔ پہلے ٹرپل طلاق کا ڈر تھا ، اب اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کا حوصلہ ہے۔

ساتھیو،

2014 سے پہلے  ملک کی حفاظت کو لے کر فکر تھی، آج سرجیکل اسٹرائیک ، ایئر اسٹرائیک کا فخر ہے، ہماری سرحد پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں۔ پہلے ملک کا نارتھ ایسٹ اپنے غیرمتوازن ترقی سے ، سوتیلے برتاؤ  سےپریشان تھا، دکھی تھا۔ آج ہمارا نارتھ ایسٹ دل سے بھی جڑا ہے اور جدید انفراسٹرکچر سے بھی جڑرہا ہے۔ سیوا، سُشاسن اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے بنی ہماری اسکیموں نے لوگوں کے لئے سرکار کے معنی ہی بدل دئے ہیں۔ اب سرکار مائی -باپ نہیں ہے، وہ وقت چلا گیا، اب سرکار سیوک ہے سیوک ، جنتا-جناردن کی سیوک۔ اب سرکار زندگی میں دخل دینے کے لئے نہیں بلکہ زندگی کو سہل بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ہم ترقی کی سیاست کو ، ملک کے مرکزی  دھارے میں لائے ہیں۔ ترقی کی اس آرزو میں لوگ مستحکم سرکار منتخب کررہے ہیں، ڈبل انجن کی سرکار منتخب کررہے ہیں۔

ساتھیو،

ہم لوگ اکثر سنتے ہیں کہ سرکاریں آتی ہیں، جاتی ہیں، لیکن سسٹم وہی رہتا ہے۔ ہماری سرکار نے اس سسٹم کو ہی غریبی کے لئے زیادہ حساس بنایا، اس میں مسلسل اصلاح کی۔ پی ایم آواس یوجنا ہو، اسکالرشپ دینا ہو یا پھر پنشن یوجنائیں، ٹکنالوجی کی مدد سے ہم نے بدعنوانی کا اسکوپ کم سے کم کردیا ہے۔جن مسائل کو پہلے پرماننٹ مان لیا گیا تھا، ہم اس کے پرماننٹ سالیوشن دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب سیوا،سشاسن اور غریبوں کی فلاح وبہبود کا ہدف ہو، تو کیسے کام ہوتا ہے، اس کی ایک مثال ہے ڈائرکٹ بینیفٹ ٹرانسفر اسکیم، ابھی میں جو کہہ رہا تھا ، ڈی بی ٹی کے ذریعہ سے، ڈائرکٹ بینیفٹ اسکیم کے  توسط  سے ، دس کروڑ سے زیادہ کسان کنبوں کے بینک کھاتے میں براہ راست 21 ہزار کروڑ روپئے ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔ یہ ہمارے چھوٹے کسانوں کی خدمت کے لئے ہیں ، ان کے سمّان کی ندھی ہے۔ گزشتہ 8 سال میں ایسے ہی ڈی بی ٹی کے ذریعہ ہم نے 22 لاکھ کروڑ روپئے  سے براہ راست ملک کے لوگوں کے اکاونٹ میں ٹرانسفر  کئے ہیں ۔ اور ایسا نہیں ہوا کہ 100 پیسہ بھیجا تو پہلے 85 پیسہ لاپتہ ہوجاتا تھا۔ جتنے پیسے بھیجے، وہ پورے کے پورے صحیح پتہ پر ، صحیح  مستفیضین کے بینک کھاتوںمیں بھیجے گئے ہیں۔

ساتھیو،

آج اس یوجنا کی وجہ سے سوا دو لاکھ کروڑ روپئے کی لیکج رکی ہے۔ پہلے یہی سوا دو لاکھ کروڑ روپئے بچولیوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے، دلالوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے تھے۔ اسی ڈی بی ٹی کی وجہ سے ملک میں سرکاری اسکیموں کا غلط فائدہ اٹھانے والے 9 کروڑ سے زیادہ فرضی ناموں کو ہم نے لسٹ سے ہٹایا ہے ۔ آپ سوچئے، فرضی نام کاغذوں میں چڑھا کر گیس سبسڈی، بچوں کی تعلیم کے لئے بھیجی گئی فیس،  تغذیہ کی کمی   سے نجات کے لئے بھیجی گئی رقم، سب کچھ لوٹنے کا ملک میں کھلا کھیل چل رہا تھا۔ یہ کیا ملک کے غریب کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، جو بچے روشن مستقبل کی امید کرتے ہیں، ان بچوں کے ساتھ ناانصافی نہیں تھی، کیا یہ گناہ نہیں تھا؟  اگر کورونا  کے وقت یہی 9 کروڑفرضی نام کاغذوں میں رہتے تو کیا غریب کو سرکار کی کوششوں کا فائدہ مل پاتا کیا ؟

ساتھیو،

غریب کی جب روزمرہ کی جدوجہد کم ہوتی ہے، جب وہ بااختیار ہوتا ہے، تب وہ اپنی غریبی دور کرنے کے لئے نئی توانائی کے ساتھ جٹ جاتا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ ہماری سرکار پہلے دن سے غریب کو مضبوط  کرنے میں مصروف ہے۔ ہم نے اس کی زندگی کی ایک ایک پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج ملک کے 3 کروڑ غریبوں کے پاس ان کے پکے اور نئے گھر بھی، جہاں آج وہ رہنے لگے ہیں۔ آج ملک  کے 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس پانچ لاکھ روپئے تک کے مفت علاج کی سہولت ہے۔ آج ملک کے 25 کروڑ سے زیادہ غریبوں کے پاس  دو،دو لاکھ روپئے کا ایکسی ڈنٹ  انشورنس اور ٹرم انشورنس  ہے، بیمہ ہے۔ آج ملک کے تقریباً 45 کروڑ غریبوں کے پاس جن دھن بینک کھاتہ ہے۔ میں  آج بہت فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ملک میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہوگا جو سرکار کی کسی نہ کسی اسکیم سے منسلک نہ ہو، اسکیم اسے فائدہ نہ پہنچاتی ہو۔ ہم نے دور دراز تک پہنچ کر لوگوں کو ویکسین لگائی ہے، ملک تقریباً 200 کروڑ ویکسین ڈوز کے ریکارڈ سطح  پر پہنچ رہا ہے اور میں جے رام  جی  کو مبارکباد دوں گا، کورونا دور میں جس طرح سے ان کی سرکار نے کام کیا ہے، اور انہوں  نے یہ ٹورسٹ ڈیسٹی نیشن ہونے کی وجہ سے ٹورزم  کے لئے تکلیف نہ ہو، اس لئے انہوں نے ویکسی نیشن کو اتنی تیزی سے چلایا،ہندوستان میں سب سے پہلے ویکسی نیشن کا کام پورا کرنے والوں میں جے رام جی کی سرکار صف اول میں رہی۔ ساتھیو، ہم نے گاوں میں رہنے والے چھ کروڑ خاندانوں کو صاف پانی کے کنکشن سے جوڑا ہے، نل سے جل۔

ساتھیو،

ہم نے 35 کروڑ مُدرا لون دے کر گاوں اور چھوٹے شہروں میں کروڑوں نوجوان کو خود روزگار  کا موقع دیا ۔ مدرا لون لے کر کوئی ٹیکسی  چلا رہا ہے، کوئی ٹیلرنگ کی دکان کھول رہا ہے، کوئی بیٹی اپنا خود کا کاروبار شروع کررہی ہے۔ ریہڑی- ٹھیلے- پٹری پر کام کرنے والے تقریباً 35 لاکھ ساتھیوں کو بھی پہلی بار بنکوں سے قرض ملا ہے، اپنے کام کو بڑھانے کا راستہ ملا ہے۔ اور جو پردھان منتری مدرا یوجنا ہے نہ ، میرے لئے اطمینان  کی بات ہے۔ اس میں 70 فیصد، بینک سے پیسہ حاصل کرنے والوں میں  70 فیصد  ہماری مائیں-بہنیں ہیں جو انٹرپریونور بن کرکے آج لوگوں کو روزگار دے رہی ہیں۔

ساتھیو،

یہاں ہماچل پردیش کے تو ہر گھر سے ، شاید ہی کوئی پریوار ایسا ہوگا جس پریوار سے کوئی فوجی نہ نکلا ہو۔ یہ بہادروں کی سرزمین ہے جی۔ یہ ویر ماتاؤں کی سرزمین ہے جو اپنی گود سے بہادروں کو جنم دیتی ہے۔ جو ویر ماتربھومی کے تحفظ کے لئے 24 گھنٹے اپنے آپ کو وقف کرتے رہتے ہیں۔

ساتھیو،

یہ فوجیوں کی سرزمین ہے، یہ فوجی پریواروں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے لوگ کبھی بھو ل نہیں سکتے کہ پہلے کی سرکاروں نے ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا، ون رینک- ون پنشن کے نام پر انہیں کیسے دھوکہ دیا۔ ابھی ہم لداخ کے ایک سابق فوجی سےبات کررہے تھے۔ انہوں نے زندگی فوج میں گزاری تھی، ان کو پکا گھر ہمارے آنے کے بعد مل رہا ہے ساتھیو۔ ان کے ریٹائرڈ ہوئے بھی 40-30 سال ہوگئے ۔

ساتھیو،

فوجی پریوار ہمارے حساسیت کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ یہ ہماری ہی سرکار ہے جس نے چار دہائیوں کے انتظار کے بعد ون-رینک ون -پنشن کو نافذ کیا ، ہمارے سابق فوجیوں کو ایریر کا پیسہ دیا گیا۔ اس کا بہت بڑا فائدہ ہماچل کے ہر پریوار کو ہوا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں دہائیوں تک ووٹ بنک کی سیاست ہوئی ہے۔ اپنا اپنا ووٹ بینک بنانے کی سیاست نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہم ووٹ بینک بنانے کے لئے نہیں، ہم نئے بھارت کو بنانے کے لئے کام کررہے ہیں۔  جب مقصد ملک کی تعمیر نو کا ہو، جب ہدف آتم نربھر بھارت کا ہو، جب ارادہ 130 کروڑ اہل وطن کی خدمت اور ا ن کی فلاح و بہود کا ہو تو ووٹ بینک نہیں بنائے جاتے، سبھی اہل وطن  کا اعتماد جیتا جاتا ہے۔ اس لئے، سب کا ساتھ ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے جذبے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سرکار کی اسکیموں  کا فائدہ سب کو ملے، ہر غریب کو ملے، کوئی غریب چھوٹے نہیں، اب یہی سرکار کی سوچ ہے، اور اسی اپروچ سے ہم کام کررہے ہیں۔ ہم نے صد فیصد فائدہ، صد فیصدمستفیضین  تک پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے ،مستفیضین کے سیچوریشن کا عہد کیا                  ہے۔ صد فیصد بااختیار بنانا یعنی امتیازی سلوک ختم، سفارشات ختم، خوشنودی ختم۔ صد فیصد بااختیار یعنی ہر غریب کو سرکاری اسکیموں کا پورا فائدہ ۔ مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ جے رام جی کی قیادت میں ہماچل پردیش اس  سمت میں بہت اچھا کام کررہا ہے۔ ہر گھر جل یوجنا  میں بھی ہماچل 90 فیصد  گھروں کا احاطہ کرچکا ہے۔ کنور، لاہول-اسپتی ، چمبا، ہمیرپور جیسے اضلاع میں تو صدفیصد کوریج حاصل کی جاچکی ہے۔

ساتھیو،

مجھے یاد ہے ، 2014 سے پہلے جب میں آپ کے بیچ آتا تھا تو کہتا تھا کہ بھارت دنیا سے آنکھ جھکاکر نہیں، آنکھ ملا کر بات کرے گا۔ آج بھارت، مجبوری میں دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتا ہے، اور جب مجبوری میں دوستی کا ہاتھ بڑھتا ہے نہ تو ایسے بڑھاتا ہے، بلکہ مدد کرنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے اور ہاتھ ایسے کرکے لے جاتا ہے۔ کورونا دور میں بھی ہم نے 150 سے زیادہ ممالک کو دوائیاں بھیجی ہیں، ویکسین بھیجی ہے۔ اور اس میں ہماچل پردیش کے فارمہ ہب-بددی کا بھی اہم رول رہا ہے۔ بھارت نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے پاس پوٹینشیل بھی ہے اور ہم پرفارمر بھی ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں بھی مان رہی ہیں کہ بھارت میں غریبی کم ہورہی ہے، لوگوں کے پاس سہولیات بڑھ رہی ہیں۔ اس لئے اب بھارت کو صرف اپنے لوگوں کی ضرورت ہی پوری نہیں کرنی ہے بلکہ لوگوں کی جاگی ہوئی آرزووں کو بھی ہمیں پورا کرنا ہے ۔ہمیں 21 ویں صدی کے بلند بھارت کے لئے ، آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔ ایک ایسا بھارت جس کی پہچان کمی نہیں بلکہ جدت پسندی  ہو۔ ایک ایسا بھارت جس میں لوکل مینوفیکچرر، لوکل ڈیمانڈ کو بھی پورا کرے اور دنیا کے بازاروں میں بھی اپنا سامان فروخت کرے۔ ایک ایسا بھارت جو آتم نربھر ہو، جو اپنے لوکل کے لئے ووکل ہو، جسے اپنے مقامی پروڈکٹ پر فخر ہو۔

ہمارے ہماچل کی تو دستکاری، یہاں کا فن تعمیر ، ویسا ہی اتنا مشہور ہے ۔ چمبا کا میٹل ورک، سولن کی پائن  آرٹ، کانگڑا کی منی ایچر پینٹنگز کے لوگ، اور اسے دیکھنے آئیں تو ٹورسٹ لوگ دیوانے ہو جاتے ہیں۔ ایسے پروڈکٹ، ملک کے کونے کونے میں پہنچے، بین الاقوامی بازاروں کی رونق بڑھائیں اس کے لئے ہم کام کررہے ہیں۔

ویسے بھائیو اور بہنو، ہماچل کے مقامی پروڈکٹ کی چمک تو اب کاشی میں بابا وشوناتھ کے مندر تک پہنچ گئی ہے۔ کلو میں بنی، ہماری مائیں اور بہنیں بناتی ہیں، کلو میں بنی پُہلیں صدی کے موسم میں کاشی وشوناتھ مندر کے پجاریوں اور سکیورٹی اہلکاروں کی مددگار بن رہی ہے۔ بنارس کاممبرپارلیمنٹ ہونے کے ناطے میں اس تحفے کے لئے ہماچل پردیش کے لوگوں کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

ساتھیو،

گزشتہ 8 برسوں کی کوششوں کے  جو نتیجے ملے ہیں، ان سے میں بہت اعتماد سے پرہوں، خوداعتمادی سےمعمور ہوا ہوں۔ ہم  بھارت کے لوگوں کی طاقت کے آگے کوئی بھی ہدف ناممکن نہیں۔ آج بھارت دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی معیشتوں میں ایک ہے۔ آج بھارت میں ریکارڈ غیرملکی سرماریہ کاری ہورہی ہے ، آج بھارت ریکارڈ ایکسپورٹ کررہا ہے۔ آٹھ سال پہلے اسٹارٹ اپس کے معاملے میں ہم کہیں نہیں تھے ، آج ہم دنیا کے تیسرے بڑے اسٹارٹ اپ ایکوسسٹم ہیں، تیسرے بڑے۔ قریب قریب ہر ہفتے ہزاروں کروڑ روپئے کی کمپنی  ہمارے نوجوان تیار کررہے ہیں۔ آنے والے 25 سال کےبڑے عزائم ں کی تکمیل کے لئے ملک نئی معیشت کے نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی تیزی سے کررہا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے والی ملٹی موڈل کنکٹیوٹی پر فوکس کررہے ہیں۔ اس بجٹ میں ہم نے جو پربت مالا یوجنا کا اعلان کیا ہے، وہ ہماچل جیسی پہاڑی ریاست  میں کنکٹیوٹی  کو اور مضبوط کرے گی۔ اتنا ہی نہیں ہم نے وائی برنٹ  بارڈر ویلج ،اس کی جو یوجنا بجٹ میں رکھی ہے، اس کی وجہ سرحد پر آباد جو گاؤں ہیں، یہ گاوں وائی برنٹ بنے ، ٹورسٹ  ڈیسٹی نیشن بنیں، اکٹیویٹی  کے سنٹر بنے۔ سرحد  سے متصل  گاوں، ان کی ترقی کے لئے بھارت سرکار نے ایک خصوصی منصوبہ بنایا ہے۔ یہ وائی برنٹ بارڈر ویلج کے منصوبے کا فائدہ میرے ہماچل کے سرحدی  گاوں کو فطری طور پر ملنے والا ہے۔

ساتھیو،

آج جب ہم دنیا کا بہترین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنانے پر فوکس کررہے ہیں۔ ہم ملک بھر میں صحت خدمات  کو جدید بنانے پر کام کررہے ہیں۔ آیوش مان بھارت ، ہیلتھ انفراسٹرکچر مشن کے تحت ضلع اور بلاک سطح پر کریٹکل ہیلتھ کیئر سہولیات ہم تیار کررہے ہیں۔ ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج ہو اس سمت میں کام چل رہا ہے۔ اور اتنا ہی نہیں غریب ماں کا بیٹا بیٹی بھی اب ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔ پہلے تو حال یہ تھا کہ اگر اس کو اسکولی تعلیم انگریزی میں نہیں ہوئی تو ڈاکٹر ہونے کا خواب ادھورا رہ جاتا تھا ۔ اب ہم نے طے کیا ہے کہ میڈیکل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن ہم مادری زبان میں کرنے کو پرموٹ کریں گے تاکہ غریب سے غریب کا بچہ ، گاوں کا بچہ بھی ڈاکٹر بن سکے۔ اور اس لئے اسے انگریزی کا غلام ہونے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

ساتھیو،

ملک میں ایمس جیسے بہترین اداروں کا دائرہ ملک کے دور دراز کی ریاستوں تک بڑھایا جارہا ہے۔ بلاس پور میں بن رہا ایمس اس کی زندہ مثال ہے۔ اب ہماچل والوں کو چنڈی گڑھ یا دہلی جانے کی مجبوری نہیں رہے گی۔

ساتھیو،

یہ ساری کوشش ہماچل پردیش کی ترقی کو بھی رفتار دینے کا کام کررہی ہیں۔ اب معیشت مضبوط ہوتی ہے، روڈ کنکٹیویٹی ، انٹرنیٹ کنکٹی وٹی  بڑھتی ہے،ہیلتھ سروسز بہتر ہوتی ہیں ، تو یہ ٹورزم کو بھی بڑھاتی ہیں۔ بھارت اپنے یہاں جس طرح ڈرون کی مینوفیکچرنگ بڑھا رہا ہے، ڈرون کا استعمال بڑھا  رہا ہے، اس سے ہمارے دوردراز کے جو علاقے ہیں، ہندوستان کے دوردراز کے جو بھی علاقے ہیں ، چاہے پہاڑی ہو، جنگل کے علاقوں ہوں ،جیسے ہماچل کے بھی دوردراز کے علاقے ہیں وہاں پر ان ڈرون خدمات کا بہت بڑا فائدہ ملنے والا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

گزشتہ آٹھ برسوں میں آزادی کے 100 ویں سال کے لئے یعنی 2047 کے لئے مضبوط بنیاد تیار ہوئی ہے۔ اس امرت کال میں سدھیوں  کے لئے ایک ہی منتر ہے - سب کا پریاس ۔ سب جڑیں، سب جٹیں اور سب بڑھیں۔ اسی جذبے کے ساتھ ہمیں  کام کرنا ہے۔ کتنی صدیوں کے بعد، اور کتنی نسلوں کے بعد یہ خوش قسمتی ہمیں ملی ہے، ہماری آپ کی نسل کو ملی ہے۔ اس لئے آئیے، ہم سنکلپ کریں، ہم سب ’ہم سب کا پریاس‘ کی اس اپیل پر اپنی سرگرم حصہ داری نبھائیں گے، اپنا ہر فرض نبھائیں گے۔

اسی یقین کے ساتھ، آج جو ہماچل نے آشرواد دیئے ہیں اور ملک کے ہر بلاک میں آج اس پروگرام  سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ آج پورا ہندوستان  شملہ سے جڑا ہوا ہے۔ کروڑوں -کروڑوں لوگ آج جڑے ہوئے ہیں۔ اور آج میں آج شملہ کی سرزمین سے   ملک کے ان کروڑوں لوگوں سے بات کررہا ہوں۔ میں ان کروڑوں کروڑوں  لوگوں کوبہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کے آشرواد  بنے رہیں، ہم اور زیادہ کام کرتے رہیں، دن رات کام کرتے رہیں، جی -جان سے جٹے رہیں۔ اسی ایک جذبے کو آگے لیتے ہوئے آپ سب کے آشرواد کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بولئے۔

بھارت ماتا کی -جے

بھارت ماتا کی -جے

بھارت ماتا کی -جے

بہت بہت شکریہ !

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।