نمسکار! آپ سبھی کو گنگا پشکرالو اُتسو کی دلی نیک تمنائیں۔ آپ سب کاشی میں آئے ہیں، اس لیے اس سفر میں آپ ذاتی طور پر میرے بھی مہمان ہیں،اور جیسا ہمارے یہاں کہتے ہیں مہمان تو دیو کی طرح ہیں۔ میں ذمہ داریوں کی وجہ سے بھلے ہی آپ کے خیرمقدم کے لیے وہاں موجود نہیں ہو سکا ہوں، لیکن میرا دل آپ سب کے بیچ رہنے کا احساس ہو رہا ہے۔ میں اس اہتمام کے لیے کاشی – تیلگو کمیٹی اور پارلیمنٹ میں میرے ساتھ جی وی ایل نرسمہا راؤ جی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کاشی کے گھاٹ پر یہ گنگا پشکرالو تیوہار، گنگا اور گوداوری کے سنگم کی طرح ہے۔ یہ بھارت کی قدیم تہذیبوں، ثقافتوں اور روایات کے سنگم کا تیوہار ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، کچھ مہینے پہلے یہیں کاشی کی سرزمین پر کاشی-تمل سنگمم کا اہتمام بھی ہوا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے مجھے سوراشٹر سنگمم میں بھی شامل ہونے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی ہے۔ تب میں نے کہا تھا، آزادی کا یہ امرت کال ملک کی گوناگونیت کا، متنوع دھاروں کا سنگم کال ہے۔ تنوع کے اس میل سے قومیت کا امرت نکل رہا ہے ، جو بھارت کو لامحدود مستقبل تک توانا رکھے گا۔
ساتھیو،
کاشی سے جڑا ہر شخص جانتا ہے کہ کاشی اور کاشی کے باشندگان کا تیلگو لوگوں سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ جیسے ہی کاشی میں کوئی تیلگو شخص آتا ہے، تو کاشی کے متعدد لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے کنبے کا ہی کوئی فرد آگیا ہے۔ کاشی کے لوگ پیڑھیوں سے آپ سب کا خیرمقدم کرتے آئے ہیں۔ کاشی جتنی قدیم ہے، اتنا ہی قدیم یہ رشتہ ہے۔ کاشی جتنی مقدس ہے، اتنا ہی مقدس تیلگو لوگوں کا کاشی میں عقیدہ ہے۔ آج بھی، جتنے تیرتھ یاتری کاشی آتے ہیں، ان میں ایک بہت بڑی تعداد اکیلے آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ تیلگوں ریاستوں نے کاشی کو کتنے ہی عظیم سنت دیے ہیں، کتنے آچاریہ اور منیشی دیے ہیں۔ کاشی کے لوگ اور تیرتھ یاتری جب بابا وشوناتھ کے درشن کرنے جاتے ہیں، تو تیلنگ سوامی کے آشیرواد لینے ان کے آشرم بھی جاتے ہیں۔ سوامی رام کرشن پرم ہنس تو تیلنگ سوامی کو ساکشات کاشی کا جیونت شیو کہتے تھے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ تیلنگ سوامی کی پیدائش وجے نگرم میں ہوئی تھی۔ جدو کرشن مورتی جیسی ایسی کتنی ہی مہان آتمائیں ہوئی ہیں، جنہیں آج بھی کاشی میں یاد کیا جاتا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
جیسے کاشی نے تیلگو لوگوں کو اپنایا، اور شامل کیا، ویسے ہی تیلگو لوگوں نے بھی کاشی کو اپنی روح سے جوڑ کر رکھا ہے۔ یہاں تک کہ مقدس تیرتھ ویمولاواڑا کو بھی جنوبی کاشی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ آندھر اور تلنگانہ کے مندروں میں جو کالا دھاگہ ہاتھ میں باندھا جاتا ہے، اسے آج بھی کاشی دارم کہتے ہیں۔ اسی طرح، شری ناتھ مہا کوی کا کاشی کھنڈمو گرنتھ ہو، اینوگل ویرسوامیا کا کاشی یاترا چرتر ہو، یا پھر مقبول عام کاشی مجیلی کتھلو ہو، کاشی اور کاشی کی عظمت تیلگو زبان اور تیلگو ادب میں بھی اتنی ہی گہرائی سے رچی بسی ہے۔ اگر کوئی باہری شخص یہ سب دیکھے، تو اس کے لیے یقین کرنا بھی مشکل ہوگا کہ کوئی شہر اتنا دور ہوکر بھی دلوں سے اتنے قریب کیسے ہو سکتا ہے! لیکن، یہی بھارت کی وہ وراثت ہے جس نے ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کے یقین کو صدیوں سے زندہ رکھا ہے۔
ساتھیو،
کاشی مکتی اور موکش کی نگری بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب تیلگو لوگ ہزاروں کلو میٹر چل کر کاشی آتے تھے۔ اپنے سفر میں تمام پریشانی اٹھاتے تھے۔ دورِ جدید میں اب وہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ آج ایک جانب وشوناتھ دھام کا دیویہ ویبھوہے، تو دوسری جانب گنگا کے گھاٹوں کی عظمت بھی ہے۔ آج ایک جانب کاشی کی گلیاں ہیں تو دوسری جانب نئی سڑکوں اور ہائی وے کا نیٹ ورک بھی ہے۔ آندھرا پردیش اور تلنگانہ سے جو لوگ پہلے کاشی آچکے ہیں، وہ اب کاشی میں ہو رہی اس تبدیلی کو محسوس کر رہے ہوں گے۔ ایک وقت تھا جب ہوائی اڈے سے دشاشومیدھ گھاٹ تک پہنچنے میں گھنٹوں لگ جایا کرتے تھے۔ آج نیا ہوائی اڈا بننے سے اب لوگوں کا بہت وقت بچ رہا ہے۔ ایک وقت تھا، جب کاشی کی سڑکیں بجلی کے تاروں سے بھری رہتی تھیں۔ اب کاشی میں زیادہ تر جگہوں پر بجلی کے تار بھی انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں۔ آج کاشی کے متعدد کنڈ ہوں، مندروں تک آنے جانے کا راستہ ہو، کاشی کے ثقافتی مقامات ہوں، سبھی کی بازبحالی ہو رہی ہے۔ اب تو گنگاجی میں سی این جی والی کشتیاں بھی چلنے لگی ہیں۔ اور وہ دن بھی دور نہیں جب بنارس آنے جانے والوں کو روپ وے سہولت بھی مل جائے گی۔ خواہ سووَچھتا کا ابھیان ہو، کاشی کے گھاٹوں کی صفائی ستھرائی ہو، بنارس کے لوگوں نے، وہاں کے نوجوانوں نے اسے عوامی تحریک بنا دیا ہے۔ یہ کاشی کے باشندگان نے اپنی محنت سے کیا ہے، بہت محنت سے کیا ہے۔ اس کے لیے میں اس پروگرام کے توسط سے کاشی کے تمام باشندگان کی جتنی تعریف کروں جتنا فخر کروں، اتنا کم ہے۔
اور ساتھیو،
میں پورے یقین کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ میرے کاشی کے لوگ، آپ کی خدمت میں، آپ کے خیرمقدم میں کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ مجھے میرے کاشی کے لوگوں پر پورا بھروسہ ہے۔ بابا کا آشیرواد، کال بھیرو اور ماں اَن پورنا کے درشن اپنے آپ میں غیر معمولی ہے۔ گنگا جی میں ڈُبکی، آپ کی روح کو خوش کر دے گی۔ ان سب کے ساتھ ہی آپ کے لیے اس گرمی میں کاشی کی لسی اور ٹھنڈئی بھی ہے۔ بنارس کی چاٹ، لٹی چوکھا، اور بنارسی پان، ان کا ذائقہ آپ کے سفر کو اور بھی یادگار بنا دے گا۔ اور میں آپ سے ایک اور گذارش کروں گا۔ جیسے ایٹی کو پپا کا کے لکڑی کے کھلونے مشہور ہیں، ویسے ہی بنارس بھی لکڑی کے کھلونوں کے لیے مشہور ہے۔ آندھر پردیش اور تلنگانہ سے آئے ہمارے ساتھی، اپنے ساتھ لکڑی کے بنارسی کھلونے، بنارسی ساڑی، بنارسی مٹھائی، ایسی بہت ساری چیزیں لے جا سکتے ہیں۔ دیکھئے گا، یہ آپ کے لطف کو کئی گنا بڑھا دیں گے۔
ساتھیو،
ہمارے آباواجداد نے بھارت کے شعور کو مختلف مراکز میں قائم کیا، جن سے لے کر بھارت ماتا کی شکل مکمل ہوتی ہے۔ کاشی میں اگر بابا وشوناتھ ہیں، تو آندھر میں ملیکارجن ہیں اور تلنگانہ میں بھگوان راج-راجیشور ہیں۔ کاشی میں اگر وشالکشی شکتی پیٹھ ہے، تو آندھر میں ماں بھرم رامبا ہیں، تلنگانہ میں راج-راجیشوری ہیں۔ ایسے سارے مقدس مقامات بھارت اور بھارت کی ثقافتی پہچان کے اہم مرکز ہیں۔ ہمیں ملک کے اس تنوع کو اسی جامع نظریے سے دیکھنا ہے۔ تبھی ہم اپنے کمال کو جان پائیں گے، تبھی ہم اپنی پوری صلاحیت کو بیدار کر پائیں گے۔ مجھے یقین ہے، گنگا-پشکرالو جیسے تیوہار قوم کی خدمت کے اس عزم کو ایسے ہی آگے بڑھاتے رہیں گے۔ اسی امید کے ساتھ، آپ سبھی کو ایک مرتبہ پھر بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ کا یہ سفر ثمرآور ہو، سہولتوں سے بھرا ہو اور کاشی کی نئی نئی یادیں لے کر کے آپ کے من مندر کو روشنی سے بھر دے۔ یہی پرارتھنا بابا کے قدموں میں کرتا ہوں۔ پھر ایک مرتبہ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔