ٹائمز گروپ کے جناب سمیر جین جی، جناب ونیت جین جی، عالمی کاروباری سربراہ اجلاس میں آئے ہوئے تمام معززین، صنعت کے ساتھی، سی ای او حضرات، ماہرین تعلیم، میڈیا کی دنیا کے لوگ، دیگر معززین، خواتین و حضرات،
میں اپنی بات پر آنے سے پہلے شیو بھکتی اور لکشمی پوجا کی طرف تھوڑا، آپ نے سجھاؤ دیا انکم ٹیکس بڑھانے کے لیے، پتہ نہیں یہ لوگ کیا کریں گے بعد میں، لیکن آپ کی معلومات کے لیے اس مرتبہ بجٹ میں ایک اہم فیصلہ لیا گیا ہے اور خواتین خصوصاً اگر بینک ڈیپازٹ کرتی ہیں اور دو سال کا وقت طے کیا ہے، تو ان کو یقیناً ایک مخصوص قسم کا سود دیا جائے گا اور یہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جو کہہ رہے ہیں اس کا ایک اچھا قدم اور شاید یہ آپ کو پسند آئے گا۔ اب یہ آپ کے ادارتی شعبے کا کام ہے، وہ ساری چیزیں تلاش کر کبھی مناسب لگے تو جگہ دی دیں اس کو۔ ملک اور دنیا بھر سے آئے، کاروباری قائدین کو میں خوش آمدید کہتا ہوں ، خیرمقدم کرتا ہوں۔
اس سے پہلے مجھے 6 مارچ 2020 کو ای ٹی عالمی کاروباری سربراہ اجلاس میں شرکت کرنے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ ویسے تو تین سال کا وقت بہت طویل وقت نہیں ہوتا، لیکن اگر اس تین سال کی خصوصی مدت کو دیکھیں، تو لگتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ جب ہم پچھلی مرتبہ ملے تھے، تو ماسک، روزمرہ کی زندگی کا حصہ نہیں تھے۔ لوگ سوچتے تھے کہ ٹیکے تو بچوں کے لیے ضروری ہیں یا پھر کوئی شدید بیماری میں مبتلا ہے تو مریضوں کے لیے ضروری ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تب گرمی کی چھٹیوں میں گھومنے کی تیاری بھی کر رکھی تھی۔ کئی لوگوں نے ہوٹل بک کیے ہوں گے۔ لیکن 2020 کی اس ای ٹی سربراہ ملاقات کے ٹھیک 5 دن بعد ڈبلیو ایچ او نے کووِڈ کو وبائی مرض قرار دے دیا۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ ہی وقت میں پوری دنیا ہی بدل گئی۔ ان تین برسوں میں پوری دنیا بدل گئی ہے، سماجی نظام بدل گیا ہے اور بھارت بھی بدل گیا ہے۔ گذشتہ کچھ وقت میں ہم سبھی نے ’اینٹی - فریجائل‘ کے دلچسپ تصور پر بہت ساری باتیں سنی ہیں۔ آپ کاروبار کی دنیا کے عالمی قائدین ہیں۔ آپ ’اینٹی فریجائل‘ کا مطلب اور اس کے احساس کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جو نہ صرف برعکس حالات کا مقابلہ کرے، بلکہ ان حالات کا ہی استعمال کرکے اور زیادہ مضبوط ہو جائے، ترقی یافتہ بن جائے۔
میں نے جب ’اینٹی فریجائل‘ کے تصور کے بارے میں سنا تو سب سے پہلے میرے دل میں 140 کروڑ بھارتیوں کی مجموعی قوت ارادی کی شکل ابھری تھی۔ گذشتہ تین برسوں میں جب دنیا، کبھی کورونا، کبھی جنگ، کبھی قدرتی آفات کی چنوتیوں سے گزر رہا تھی، تو اسی وقت بھارت نے اور بھارت کے لوگوں نے ایک غیر معمولی قوت کا مظاہرہ کیا۔ بھارت نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اینٹی فریجائل ہونے کا اصلی مطلب کیا ہوتا ہے۔ آپ سوچئے، کہاں پہلے ’فریجائل فائیو‘ کی بات ہوتی تھی، وہیں اب بھارت کی شناخت ’اینٹی فریجائل‘ سے ہونے لگی ہے۔ بھارت نے دنیا کو پورے یقین سے دکھایا ہے کہ مصیبتوں کو مواقع میں کیسے بدلا جاتا ہے۔
100 سال میں آئے سب سے بڑے بحران کے وقت، بھارت نے جو صلاحیت دکھائی، اس کا مطالعہ کرکے 100 سال بعد انسانیت بھی خود پر فخر کرے گی۔ آج اس صلاحیت پر یقین کرتے ہوئے بھارت نے 21ویں صدی کے تیسرے دہے کی بنیاد رکھی ہے، سال 2023 میں داخل ہوا ہے۔ بھارت کی اس صلاحیت کی بازگشت آج اکنامک ٹائمز عالمی سربراہ اجلاس میں سنائی دے رہی ہے۔
دوستو،
آپ نے اس سال کے ای ٹی عالمی سربراہ اجلاس کا موضوع ’کاروبار اور دنیا کا ازسر نو تصور‘ رکھا ہے۔ ویسے مجھے نہیں پتہ کہ یہ ’ازسر نو تصور ‘ والا موضوع صرف دوسروں کے لیے ہی ہے یا پھر قائدین کے لیے بھی ہے، وہ بھی کیا نافذ کریں گے؟ ہمارے یہاں تو بیشتر قائدین ہر چھ مہینے میں ایک ہی پروڈکٹ کے ری-لانچ، ری- ری لانچ میں مصروف رہتے ہیں۔ اور اس ری لانچ میں بھی وہ ری-امیجنیشن نہیں کرتے۔ خیر، کافی سمجھدار لوگ یہاں بیٹھے ہیں، جو بھی ہو، لیکن یہ آج کے وقت کے لیے بہت ہی مناسب موضوع ہے۔ کیونکہ جب ملک نے ہمیں خدمت کا موقع دیا، تو ہم نے پہلا کام یہی کیا، ذرا بھئی دوبارہ تصور کریں۔ 2014 میں صورتحال یہ تھی کہ لاکھوں کروڑوں کے گھوٹالوں کی وجہ سے ملک کی شبیہ داؤں پر لگی ہوئی تھی۔ بدعنوانی کی وجہ سے غریب، اپنے حق کی چیزوں کے لیے بھی ترس رہا تھا۔ نوجوانوں کی امنگوں کو ، کنبہ پرستی اور بھائی بھتیجا واد کے لیے قربان کیا جا رہا تھا۔ پالیسی جمود کی وجہ سے بنیادی ڈھانچہ پروجیکٹوں میں برسوں کی دیری ہو رہی تھی۔ ایسی فکر اور نقطہ نظر کے ساتھ ملک کا تیزی سے آگے بڑھنا مشکل تھا۔ اس لیے ہم نے طے کیا کہ حکمرانی کے ہر واحد عنصر کا دوبارہ تصور کریں گے، دوبارہ تیار کریں گے۔ حکومت، غریبوں کو بااختیار بنانے کے لیے فلاح و بہبود کی بہم رسانی کے نظام کی کس طرح اصلاح کرے ، ہم نے اس کا دوبارہ تصور کیا۔ حکومت مزید اثر انگیز طریقہ سے کیسے بنیادی ڈھانچہ بنا سکے، ہم نے یہ دوبارہ تصور کیا۔ حکومت کا ملک کے شہریوں کے ساتھ کیسا رشتہ ہو، ہم نے یہ دوبارہ تصور کیا۔ میں آپ کو فلاح و بہبود کی بہم رسانی سے وابستہ ازسر نو تصور کاری پر مزید تفصیل سے بتانا چاہتا ہوں۔
ناداروں کے پاس بھی بینک کھاتے ہوں، ناداروں کو بھی قرض حاصل ہو، ناداروں کو اپنے گھر اور املاک کی ملکیت حاصل ہو، انہیں بیت الاخلاء، بجلی اور کھانا پکانے کا صاف ستھرا ایندھن یا پھر تیز رفتار انٹرنیٹ کنکٹیویٹی حاصل ہو، ان کی پہلے اتنی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس سوچ کو بدلا جانا، از سر نو تصور کیا جانا بہت ضروری تھا۔ کچھ لوگ غریبی ہٹاؤ کی باتیں بھلے ہی کرتے تھے، لیکن حقیقت یہ تھی کہ پہلے غریبوں کو ملک پر بوجھ مانا جاتا تھا۔ اس لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ جبکہ ہماری توجہ غریبوں کو بااختیار بنانے پر مرتکز ہے، تاکہ وہ ملک کی تیز رفتار نمو میں اپنی پوری قوت کے ساتھ تعاون دے سکیں۔ براہِ راست فائدہ منتقلی کی مثال آپ کی نظر ضرور اس پر گئی ہوگی۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں سرکاری اسکیموں میں بدعنوانی، رساؤ اور بچولیے، یہ باتیں عام تھیں اور سماج نے بھی اسے قبول کر لیا تھا۔ حکومتوں کا بجٹ، حکومتوں کے اخراجات بڑھتے گئے، لیکن غریبی بھی بڑھتی گئی۔ آج سے 4 دہائی قبل، اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی جی نے کہا تھا کہ ویلفیئر کے لیے ایک روپیہ دہلی سے بھیجتے ہیں تو مستفید تک پہنچتے پہنچتے وہ 15 پیسہ ہو جاتا ہے۔ کون سا پنجا گھستا تھا مجھے معلوم نہیں ہے۔ ہماری حکومت ابھی تک الگ الگ اسکیموں کے تحت راست فائدہ منتقلی بہبودی اسکیموں کے تحت 28 لاکھ کروڑ روپئے منتقل کر چکی ہے۔ اب آپ سوچئے کہ راجیو گاندھی جی نے جو کہا تھا، اسی بات کو اگر میں آج کے ساتھ جوڑوں تو ایک روپیہ میں سے 15 پیسہ پہنچنے والی بات کو پکڑوں تو 85 فیصد یعنی 24 لاکھ کروڑ روپئے کی رقم کسی کی جیب میں چلی گئی ہوتی، کسی نے لوٹ لی ہوتی، رفع دفع ہوگئی ہوتی۔ اور صرف 4 لاکھ کروڑ روپئے ناداروں کے پاس پہنچے ہوتے، لیکن چونکہ میں نے ازسر نو تصور کیا، ڈی بی ٹی کے نظام کو ترجیح دی۔ آج ایک روپیہ دہلی سے نکلتا ہے، 100 کے 100 پیسے اس کے پاس پہنچتے ہیں۔ یہ ہے ازسر نو تصورکاری۔
ساتھیو،
کبھی نہرو جی نے کہا تھا کہ جس دن ہر بھارتی کے پاس بیت الخلاء کی سہولت ہوگی، اس دن ہم جان جائیں گے کہ ملک ترقی کی ایک نئی بلندی پر ہے۔ میں یہ پنڈت نہرو جی کی بات کر رہا ہوں۔ کتنے سال پہلے کی ہوگی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مطلب نہرو جی کو بھی اس مسئلے کا علم تھا، لیکن حل کرنے کا اشتیاق نظر نہیں آیا، اور اس وجہ سے ملک کا بہت بڑا حصہ طویل عرصے تک بنیادی سہولت سے محروم رہا۔ 2014 میں جب ہمیں خدمت کرنے کا موقع حاصل ہوا تو ملک کے دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی احاطہ 40 فیصد سے بھی کم تھا۔ ہم نے اتنے کم وقت میں 10 کروڑ سے زائد بیت الخلاء تعمیر کرائے، سووَچھ بھارت ابھیان شروع کیا۔ آج ملک کے دیہی علاقوں میں صفائی ستھرائی حاطہ 100 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
میں آپ کو توقعاتی اضلاع کی بھی ایک مثال دینا چاہتا ہوں۔ ری امیجن والا موضوع جو آپ نے رکھا ہے تو میں اسی دائرے میں اپنے آپ کو رکھنا چاہتا ہوں۔ حالت یہ تھی کہ سال 2014 میں ملک میں 100 سے زائد ایسے اضلاع تھے، جنہیں بہت ہی پسماندہ خیال کیا جا تا تھا۔ ان اضلاع کی پہچان تھی – غریبی، پچھڑا پن، نہ سڑک، نہ پانی، نہ اسکول، نہ بجلی، نہ ہسپتال، نہ تعلیم، نہ روزگار۔ اور ا ن میں ہمارے ملک کے زیادہ تر آدی واسی بھائی بہن ان علاقوں میں رہا کرتے تھے۔ ہم نے پسماندگی کے اس تصور کو از سر نو پیش کیا اور ان اضلاع کو توقعاتی اضلاع بنایا۔ پہلے ان اضلاع میں افسران کی پوسٹنگ سزا کے طور پر کی جاتی تھی۔ آج وہاں بہترین اور نوجوان افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔
آج مرکزی حکومت، سرکاری دائرہ کار کی اکائیاں، ریاستی حکومتیں، ضلعی انتظامیہ، سبھی مل کر ان اضلاع کو تبدیلی سے ہمکنار کرنے کے لیے پوری محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں بہتر نتائج بھی حاصل ہونے لگے ہیں اور اس کی ریئل ٹائم مانٹرنگ بھی ہو رہی ہے، تکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب جیسے یو پی کے توقعاتی ضلع فتح پور میں ادارہ جاتی بہم رسانی 47 فیصد سے بڑھ کر 91 فیصد کے بقدر ہو گئی ہے اور اس کی وجہ سے زچگی شرح اموات، چھوٹے بچوکی شرح اموات میں بہت بڑی کمی آئی ہے۔ مدھیہ پردیش کے توقعاتی ضلع بڑوانی وہ پوری طرح سے قوت مدافعت سے لیس بچوں کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ کر اب 90 فیصد ہوگئی ہے، بچوں کی زندگی کی فکر ہوئی۔ مہاراشٹر کے توقعاتی ضلع واسم میں، ٹی بی کے علاج کی کامیابی کی شرح 40 فیصد ہوا کرتی تھی، وہ بڑھ کر 90 فیصد ہوگئی ہے۔ کرناٹک کے توقعاتی ضلع یادگیر میں اب براڈ بینڈ کنکٹیویٹی سے جڑی گرام پنچایتوں کی تعداد 20 فیصد سے 80 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں، جس میں کسی وقت جس کو پسماندہ ضلع کہہ کر اچھوت بنا دیا گیا تھا، ایسے توقعاتی اضلاع کی کوریج پورے ملک کے اوسط سے بھی بہتر ہو رہی ہے۔ یہ ہے ’ری امیجنیشن‘۔
میں آپ کو صاف ستھرے پانی کی سپلائی کی بھی مثال دوں گا۔ آزادی کے 7 دہوں کے بعد بھی ہمارے ملک میں صرف 30 ملین یعنی 3 کروڑ دیہی کنبوں کے پاس ہی نل کے ذریعہ پانی کا کنکشن تھا۔ 160 ملین دیہی کنبے یعنی 16 کروڑ کنبے اس سے محروم تھے۔ ہم نے بڑی بڑی باتوں کے بجائے، 80 ملین یعنی 8 کروڑ نئے نل کے ذریعہ پانی کے کنکشن محض ساڑھے 3 برسوں میں فراہم کرائے ہیں۔ یہ ہے از سر نو تصور کاری کا کمال۔
دوستو،
اس سربراہ اجلاس میں شامل ماہرین بھی اس بات کو مانیں گے کہ بھارت کی تیز رفتار نمو کے لیے اچھا بنیادی ڈھانچہ ضروری ہے۔ لیکن ملک میں پہلے کیا صورتحال تھی؟ اور جو حالت تھی، وہ کیوں تھی؟ اکنامک ٹائمز میں تو بڑےبڑے اداریے اس پر شائع بھی ہوئے ہیں، لوگوں نے اپنی آراء بھی دی ہیں۔ اور ان میں جو بات اہم رہی ہے، وہ یہ کہ ہمارے یہاں بنیادی ڈھانچہ سے جڑے فیصلوں میں، ملک کی ضرورت کو کم دیکھا جاتا تھا اور سیاسی اولوالعزمی کو اہمیت دی جاتی تھی۔ اس کا جو نتیجہ نکلا، اس کا خمیازہ پورا ملک اٹھا رہا ہے۔ اگر کہیں سڑکیں بھی بننی ہیں تو پہلے دیکھا جاتا تھا کہ سڑک بننے کے بعد ووٹ ملیں گے یا نہیں۔ ریل گاڑی کہاں رکے گی، کہاں چلے گی، یہ بھی سیاسی نفع نقصان دیکھ کر طے ہوتا تھا۔ یعنی بنیادی ڈھانچہ کی طاقت کو پہلے کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ ہمارے پاس اور یہ آپ کو چونکانے والی چیزیں لگیں گی، کبھی اکنامک ٹائمز والوں نے لکھا نہیں ہوگا، بدقسمتی ہے جی، ہمارے یہاں ڈیمز بنتے تھے، لیکن کینال نیٹ ورک نہیں بنتا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ 6 منزلہ مکان بنے، اور لفٹ بھی نہ ہو، زینہ بھی نہ ہو، ایسا سوچ سکتے ہیں آپ۔ باندھ بنے اور کینال نہ ہو، لیکن شاید اس وقت اکنامک ٹائمز کو دیکھنا مناسب نہیں لگا ہوگا۔
ہمارے پاس کانیں تھیں، لیکن معدنیات کے نقل و حمل کے لیے کنکٹیویٹی کبھی نہیں تھی۔ ہمارے پاس بندرگاہیں تھیں، لیکن ریلوے اور سڑک کنکٹیویٹی کے بہت سے مسائل تھے۔ ہمارے پاس بجلی کے پلانٹس تھے، لیکن ٹرانس مشن لائنیں کافی نہیں تھیں، جو تھیں وہ بھی خراب حالت میں تھیں۔
ساتھیو،
ہم نے بنیادی ڈھانچہ کو علیحدہ علیحدہ دیکھنے کے چلن کو ختم کیا اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو ایک شاندار حکمت عملی کے طور پر ری امیجن کیا۔ آج بھارت میں یومیہ 38 کلو میٹر کی رفتار سے ہائی وے بن رہے ہیں اور روزانہ 5 کلو میٹر سے زائد ریل لائنیں بچھائی جا رہی ہیں۔ ہماری بندرگاہ صلاحیت آنے والے دو برسوں میں 3000 ایم ٹی پی اے تک پہنچنے والی ہے۔ 2014 کے مقابلے آپریشنل ہوائی اڈوں کی تعداد 74 سے بڑھ کر 147 ہو چکی ہے۔ ان 9 برسوں میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ کلو میٹر دیہی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ تقریباً 80 ہزار کلو میٹر نیشنل ہائی وے بنے ہیں، یہ سارے 9 برسوں کا حساب میں دے رہا ہوں آپ کو۔ یہ یاد کرانا پڑتا ہے، کیونکہ اس کو یہاں بلیک آؤٹ کرنے والے بہت بیٹھے ہیں۔ ان ہی 9 برسوں میں 3 کروڑ غریب کنبوں کو پختہ مکان بناکر دیے گئے ہیں اور یہ تین کروڑ کا آنکڑا اتنا بڑا ہے کہ دنیا کے کتنے ہی ممالک کی آبادی بھی نہیں ہے، جتنے گھر بناکر ہم نے 9 سال میں بھارت کے غریبوں کو دیے ہیں۔
ساتھیو،
بھارت میں پہلی میٹرو کولکاتا میں 1984 میں شروع ہوئی تھی۔ یعنی ہمارے پاس تکنالوجی آگئی، مہارت آگئی، لیکن پھر کیا ہوا؟ ملک کے بیشتر شہر میٹرو سے محروم ہی رہے۔ 2014 تک یعنی جب آپ نے مجھے خدمت کرنے کا موقع دیا اس کے پہلے 2014 تک ہر مہینے آدھا کلو میٹر کے آس پاس ہی نئی میٹرو لائن بنا کرتی تھی۔ 2014 کے بعد میٹرو نیٹ ورک بچھانے کا اوسط بڑھ کر تقریباً 6 کلو میٹر ماہانہ ہوچکا ہے۔ ابھی بھارت میٹرو روٹ طوالت کے معاملے میں دنیا میں 5ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ آنے والے چند مہینوں میں ہی ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر پہنچنے والے ہیں۔
دوستو،
آج پی ایم گتی شکتی قومی ماسٹر پلان، بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کو تو رفتار دے رہا ہے، اور جیسا ونیت جی نے کہا کہ رفتار اور طاقت دونوں کو ہم نے جوڑا ہے۔ یعنی یہ پورا تصور کیسے رفتار دے رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہے یہ بس ریل روڈ تک محدود نہیں ہے، جب ہم گتی شکتی کے بارے میں سوچتے ہیں تو علاقے کی ترقی کا بھی اس میں تصور ہے اور وہاں کے عوام کی ترقی جیسی تریوینی سا نظام اس میں جوڑا گیا ہے۔ گتی شکتی پلیٹ فارم پر آپ میں سے جو لوگ تکنالوجی میں دلچسپی رکھتے ہوں گے، ان کے لیے شاید یہ جانکاری بڑی دلچسپ ہوگی۔ آج گتی شکتی کا ہمارا جو پلیٹ فارم ہے، بنیادی ڈھانچہ میپنگ کی 1600 سے زائد ڈاٹا لیئرس ہیں۔ اور کوئی بھی پرپوزل آرٹی فیشل انٹیلی جینس کی مدد سے 1600 لیئرس سے گزر کر فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ایکسپریس ویز ہوں یا پھر دوسرا بنیادی ڈھانچہ، آج مختصر ترین اور سب سے اثر انگیز راستے طے کرنے کے لیے اسے اے آئی سے بھی جوڑا گیا ہے۔ پی ایم گتی شکتی سے علاقے اور عوام کی ترقی کیسے ہوتی ہے، اس کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں۔ اس سے ہم کسی ایک علاقے میں آبادی کے گھنے پن اور اسکولوں کی دستیابی کو نقشہ بند کر سکتے ہیں، 1600 پیرامیٹر کی بنیاد پر۔ اور صرف مطالبے یا سیاسی غور و فکر کی بنیاد پر اسکولوں کو مختص کرنے کے بجائے، ہم جہاں ضرورت ہے، وہاں اسکول بنا سکتے ہیں۔ یعنی یہ گتی شکتی پلیٹ فارم یعنی موبائل ٹاور کہاں لگانا مناسب ہوگا، وہ بھی طے کر سکتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں منفرد نظام ہم نے کھڑا کیا ہے۔
ساتھیو،
ہم بنیادی ڈھانچے کو کیسے ری امیجن کر ر ہے ہیں اس کی ایک اور مثال ہمارا ہوابازی کا شعبہ ہے۔ یہاں موجود بہت کم لوگوں کویہ معلوم ہوگا کہ ہمارے یہاں برسوں تک ایک بہت بڑا ایئر اسپیس، دفاع کے لیے محدود رہا ہے۔ اس وجہ سے ہوائی جہازوں کو بھارت میں کہیں بھی آنے جانے میں زیادہ وقت لگتا تھا، کیونکہ وہ اگر دفاع کا ایئر اسپیس ہے تو وہاں نہیں جا سکتے تھے، آپ کو گھوم کر جانا پڑتا تھا۔ اس مسئلے کو سلجھانے کے لیے ہم نے مسلح افواج کے ساتھ بات کی۔ آج 128 فضائی راستوں کو شہری نقل و حمل کے لیے بھی کھولا جا چکا ہے۔ اس کے سبب پرواز کے راستے چھوٹے ہوگئے، جس سے وقت بھی بچ رہا ہے اور ایندھن بھی بچ رہا ہے، دونوں کی بچت میں مدد مل رہی ہے۔ اور میں آپ کو ایک اور آنکڑا دوں گا۔ اس ایک فیصلے سے ہی تقریباً ایک لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ اخراج بھی کم ہوا ہے۔ یہ ہوتی ہے ازسر نو تصورکاری کی قوت۔
ساتھیو،
آج بھارت نے طبعی اور سماجی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا ایک نیا ماڈل پوری دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ اس کی مشترکہ مثال ہمارا ڈجیٹل بنیادی ڈھانچہ ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ہم نے ملک میں 6 لاکھ کلو میٹر سے زیادہ کا آپٹیکل فائبر بچھایا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ملک میں موبائل مینوفیکچرنگ اکائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ 9 برسوں میں ملک میں انٹرنیٹ ڈاٹا کی قیمت 25 گنا کم ہوئی ہے۔ دنیا کا سب سے سستا اور اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ سال 2012 میں میرے آنے سے قبل بھارت گلوبل موبائل ڈاٹا ٹریفک میں صرف 2 فیصد ہی تعاون دیا کرتا تھا۔ جبکہ مغربی منڈی کا تعاون اُس وقت 75 فیصد کے بقدر تھا۔ 2022 میں بھارت کے پاس گلوبل موبائل ڈاٹا ٹریفک کا 21 فیصد شیئر تھا۔ جبکہ شمالی امریکہ اور یوروپ کے پاس گلوبل ٹریفک کا ایک چوتھائی شیئر ہی رہ گیا ہے۔ آج دنیا کی 40 فیصد ریئل ٹائم ڈجیٹل ادائیگیاں بھارت میں ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں کو ملک کے عوام کا جواب ہے، جو سوچتے تھے کہ بھارت کے غریب کہاں سے ڈجیٹل ادائیگی کر پائیں گے۔ مجھے ابھی کسی نے ایک ویڈیو بھیجا تھا کہ شادی میں کوئی ڈھول بجا رہا تھا اور اس پر کیوآر کوڈ لگا ہوا تھا۔ اور وہ دولہے پر فون گھماکر کیوآر کوڈ کی مدد سے اس کو پیسے دے رہے تھے۔ ری امیجنیشن کے اس دور میں بھارت کے عوام نے ایسے لوگوں کی سوچ کو ہی مسترد کر دیا ہے۔ یہ لوگ پارلیمنٹ میں بولتے تھے، غریب یہ کہاں سے کرے گا، میرے ملک کے غریب کی طاقت کا کبھی اندازہ نہیں تھا جی۔ مجھے ہے۔
دوستو،
ہمارے ملک میں طویل عرصے تک جو حکومتیں رہیں یا جو حکومت چلانے والے رہے، انہیں مائی باپ کلچر بہت پسند آتا تھا۔ آپ لوگ اسے کنبہ پرستی اور بھائی بھتیجا واد سے کنفیوز مت کریئے گا۔ یہ ایک الگ ہی احساس تھا۔ اس میں حکومت، اپنے ہی ملک کے شہریوں کے درمیان، مالک جیسا برتاؤ کرتی تھی۔ حال یہ تھا کہ ملک کا شہری بھلے کچھ بھی کرے، حکومت اسے شک کی نظر سے ہی دیکھتی تھی۔ اور شہری کچھ بھی کرنا چاہے، اسے حکومت کی اجازت لینی پڑتی تھی۔ اس وجہ سے، پہلے کے وقت، حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد اور شک و شبہ کا ماحول بنا رہتا تھا۔ یہاں جو سینئر صحافی بیٹھے ہیں، انہیں میں ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بھی لائسنس لینا پڑتا تھا۔ اتنا ہی نہیں، اسے ڈرائیونگ لائسنس کی طرح ہی بار بار رینیو کرانا پڑتا تھا۔ اور یہ کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ تقریباً ہر شعبے میں تھا۔ تب کاروبار کرنا کتنا مشکل تھا، لوگوں کو تب کیسے ٹھیکے ملتے تھے، یہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔90 کی دہائی میں مجبوری کی وجہ سے کچھ پرانی غلطیاں سدھاری گئیں، اور انہیں اصلاحات کا نام دیا گیا، لیکن یہ مائی باپ والی پرانی ذہنیت پوری طرح سے نہیں گئی ۔ 2014 کے بعد ہم نے اس ’حکومت کو اولیت ‘کی ذہنیت کو ’عوام کو اولیت ‘کے نقطہ نظر سے بدل کر از سر نو تصور پیش کیا۔ ہم نے ’شہریوں پر اعتماد ‘کے اصول پر کام کیا۔ سیلف اٹیسٹیشن ہو یا پھر نچلے درجے والی ملازمتیں ہوں، ان سے انٹرویوز کو ختم کرنا ہو، میرٹ کی بنیاد پر کمپیوٹر طے کرتا ہے، اس کو نوکری مل جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اقتصادی جرائم کو ناقابل تعزیر قرار دینا ہو یا پھر جن وشواس بل ہو، ضمانت سے مبرا مدرا قرض ہوں یا پھر ایم ایس ایم ای اکائیوں کے لیے حکومت خود ضمانت بنے، ایسے ہر پروگرام، ہر پالیسی میں عوام پر اعتماد ہی ہمارا اصول ہے۔ اب ٹیکس وصولی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔
2013-14 میں ملک کی مجموعی ٹیکس آمدنی تقریباً 11 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر تھی۔ جبکہ 2023-24 میں یہ 33 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد رہنے کا تخمینہ ہے۔ یعنی 9 برسوں میں مجموعی ٹیکس آمدنی میں 3 گنا اضافہ رونما ہوا ہے۔ اور یہ تب ہوا ہے، جب ہم نے ٹیکس کی شرحوں میں تخفیف کی ہے۔ سمیر جی کا سجھاؤ تو ابھی ہم نے منتخب نہیں کیا ہے۔ ہم نے تو گھٹایا ہے۔ اس کے جواب میں چاہوں گا آپ لوگ جو دنیا سے جڑے ہیں اس ساتھ راست تعلق ہے۔ میں تین باتوں پر فوکس کروں گا۔ پہلی یہ کہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اب مجھے بتائیے کہ ٹیکس دہندگان کا نمبر بڑھا ہے تو اس کا کریڈٹ کس کو دو گے آپ، بہت فطری ہے کہ اس کا کریڈٹ حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب لوگ زیادہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اگر یہ بھی کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے تو اہم بات یہ ہےکہ جب ٹیکس دہندگان کو لگتا ہے کہ اس کا ادا کیا گیا ٹیکس پائی پائی عوامی فلاح و بہبود میں ملک کی فلاح و بہبود میں ہی استعمال ہوگا تو وہ ایمانداری سے ٹیکس دینے میں آگے آتا ہے، اس کو حوصلہ ملتا ہے۔ اور یہ آج ملک دیکھ رہا ہے۔ اور اس لیے میں ٹیکس دہندگان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ حکومت کی ایمانداری پر بھروسہ کرکے وہ حکومت کو ٹیکس دینے کےلیے آگے آرہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ لوگ آپ پر تب اعتماد کرتے ہیں، جب آپ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ بھارت کے ٹیکس نظام میں آج جو تبدیلی آئی ہے، وہ اسی وجہ سے آئی ہے۔ ٹیکس ریٹرنس کے لیے ہم نے پروسیس کو آسان کرنے کے لیے اعتماد کی بنیاد پر ہی کوشش کی۔ ہم فیس لیس تجزیہ لے کر آئے۔ میں آپ کو ایک اور آنکڑا بتاتا ہوں۔ انکم ٹیکس محکمہ نے اس سال ساڑھے 6 کروڑ سے زائد ریٹرنس کو پروسیس کیا ہے۔ ان میں سے تقریباً 3 کروڑ ریٹرنس چوبیس گھنٹے کے اندر پروسیس ہوئے ہیں۔ بقیہ جو ریٹرنس تھے، وہ بھی کچھ ہی دن میں پروسیس ہوگئے، اور پیسہ بھی ری فنڈ ہوگیا۔ جبکہ اسی کام میں پہلے اوسطاً 90 دن لگ جاتے تھے۔ اور لوگوں کے پاس 90 دن پڑے رہتے تھے۔ آج وہ گھنٹوں میں کیا جاتا ہے۔ کچھ برس قبل تک یہ ناقابل تصور تھا۔ لیکن اسے بھی ری امیجنیشن کی طاقت نے سچ کر دکھایا ہے۔
ساتھیو،
آج بھارت کی خوشحالی میں دنیا کی خوشحالی ہے، بھارت کی نمو میں دنیا کی نمو ہے۔ بھارت نے جی20 کا جو موضوع طے کیا ہے ’ایک دنیا، ایک کنبہ، ایک مستقبل‘ دنیا کی متعدد چنوتیوں کا حل اسی اصول میں ہے۔ ساجھا عزائم سے، سب کے مفادات کے تحفظ سے ہی یہ دنیا اور بہتر ہو سکتی ہے۔ یہ دہائی اور آنے والے 25 سال بھارت کو لے کر غیر معمولی یقین کے ہیں۔ سب کی کوشش سے ہی بھارت اپنے اہداف کو تیزی سے حاصل کرے گا۔ میں آپ سبھی سے گذارش کروں گا کہ بھارت کی ترقی کے سفر سے زیادہ سے زیادہ مربوط ہوں۔ اور جب آپ بھارت کی ترقی کے سفر سے جڑتے ہیں تو بھارت آپ کی ترقی کی ضمانت دیتا ہے، آج یہ بھارت کی صلاحیت ہے۔ میں اکنامک ٹائمز کا شکرگزار ہوں کہ مجھ جیسے شخص کو یہاں بلایا۔ اخبار میں جگہ نہ ملے، لیکن یہاں تو مل جاتی ہے کبھی کبھی۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ جب ونیت جی اور سمیر جی بولیں گے تب ری امیجن کے تعلق سے بولیں گے، لیکن انہوں نے اس موضوع کو چھوا ہی نہیں۔ تو شاید ان کے ایڈیٹورئیل بورڈ پیچھے طے کرتا ہوگا اور مالک کو بتاتے ہی نہیں ہوں گے۔ کیونکہ مالک ہمیں بتاتے ہیں کہ جو چھپتا ہے اس کا ہمیں علم نہیں ہوتا وہ تو وہ کرتے ہیں۔ تو شاید ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ خیر اس کھٹی میٹھی باتوں کے ساتھ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔