ڈیجیٹل انڈیا وِک 2022 کا موضوع ہے : نئے بھارت میں ٹکنالوجی کی رفتار میں تیزی لانا
وزیر اعظم نے ڈیجیٹل انڈیا بھاشنی، ڈیجیٹل انڈیا جینیسس اور انڈیا ٹیک ڈاٹ گلوبل کا آغاز کیا ، انہوں نے مائی اسکیم اور میری پہچان کو بھی ملک کے نام وقف کیا
وزیراعظم نے ان 30 اداروں کے پہلے گروپ کا اعلان کیا جنہیں اسٹارٹ اپ میں شامل ہونے کے پروگرام کے تحت مدد دی جانی ہے
بھارت چوتھے صنعتی انقلاب ، انڈسٹری 4.0 میں دنیا کی رہنمائی کر رہا ہے
بھارت نے آن لائن آکر بہت سی رکاوٹوں کو دور کیا ہے
ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے حکومت نےشہریوں کے گھر اور فون تک رسائی حاصل کر لی ہے
بھارت کی فِن ٹیک کوشش صحیح معنوں میں عوام کی طرف سے عوام کی اور عوام کے لیے ایک طریقۂ کار ہے
بھارت چِپ ٹیکر سے چِپ میکر بننا چاہتا ہے
وزیراعظم نے ان 30 اداروں کے پہلے گروپ کا اعلان کیا جنہیں اسٹارٹ اپ میں شامل ہونے کے پروگرام کے تحت مدد دی جانی ہے
بھارت نے آن لائن آکر بہت سی رکاوٹوں کو دور کیا ہے

نمستے، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپندر بھائی پٹیل جی، مرکزی وزارت  کی کونسل کے میرےساتھی جناب اشونی ویشنو جی، جناب راجیو چندر شیکھر جی، الگ الگ ریاستوں سے جڑے ہوئے سبھی نمائندے، ڈیجیٹل انڈیا کے تمام مستفیدین، اسٹارٹ اَپس اور صنعت سے جڑے سبھی ساتھی، ماہرین تعلیم( اکیڈمیشنس) محققین، خواتین و حضرات!

آج کا یہ پروگرام 21ویں صدی میں مسلسل جدید ہوتے ہندوستان کی ایک جھلک  پیش کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال پوری انسانیت کے لئے کتنا انقلابی ہے، اس کی مثال ہندوستان نے ڈیجیٹل انڈیا مہم کے طورپر پوری دنیا کے سامنے رکھی ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ آٹھ سال پہلے شروع ہوئی یہ مہم، بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ خود کو وسیع کرتا رہا ہے۔ہر سال ڈیجیٹل انڈیا مہم میں نئی بلندیاں جڑتی رہی ہیں ، نئی ٹیکنالوجی کی شمولیت ہوئی ہے۔آج کے اس پروگرام میں جو نئے پلیٹ فارم، نئے پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے وہ اسی سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ابھی آپ نے چھوٹے چھوٹے ویڈیو میں دیکھا، مائی اسکیم ہو، بھاشنی –بھاشادان، ڈیجیٹل انڈیا، جینسس ہو، چپس ٹو اسٹارٹ اپ پروگرام ہو،  یا باقی سارے پروڈکٹ، یہ سارے ایز آف لیونگ  اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کو استحکام دینے والے ہیں۔ خاص طور پر ان کا بڑا فائدہ ہندوستان کے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کو ہوگا۔

ساتھیوں!

وقت کے ساتھ جو ملک جدید ٹیکنالوجی کو نہیں اپناتا، وقت اسے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا ہے اور وہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ تیسرے صنعتی انقلاب کے وقت ہندوستان اسے بھگت رہا ہے، لیکن آج ہم یہ فخر سے کہہ سکتےہیں کہ آج ہندوستان چوتھے صنعتی انقلاب انڈسٹری 4.0آج ہندوستان فخر سے کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کو دنیا کو سمت دے رہا ہے اور مجھے اس بات کی دوہری خوشی ہے کہ گجرات نے اس میں بھی ایک طرح سےراستہ دکھانے کا رول ادا کررہا ہے۔

تھوڑی دیر پہلے یہاں ڈیجیٹل گورننس  کو لے کر گجرات کے گزشتہ دو دہائیوں کے تجربوں کو دکھایا گیا ہے۔گجرات ملک کی پہلی ریاست تھی، جہاں گجرات اسٹیٹ ڈاٹا سینٹر (جی ایس ڈی سی)، گجرات اسٹیٹ وائیڈ ایریا نیٹ ورک(جی ایس ڈبلیو اے این)، ای-گرام سینٹر اور اے ٹی وی ٹی؍جن سیوا کیندر جیسے ستون کھڑے کئے گئے۔

سورت ، بارڈولی کے پاس سبھاش بابو کانگریس کے صدر بنے تھے، وہاں سبھاش بابوکی یاد میں پروگرام کیاگیا اور ای- وشوگرام کا اس وقت آغاز کیا گیا تھا۔

گجرات کے تجربوں نے 2014ء کے بعد قومی سطح پر ٹیکنالوجی کو گورننس کا باقاعدہ حصہ بنانے میں بہت مدد کی ہے، شکریہ گجرات۔ یہی تجربہ ڈیجیٹل انڈیا مشن کی بنیاد بنے۔ آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے ان 8-7 سالوں میں ڈیجیٹل انڈیا نے ہماری زندگی کتنی آسان بنادی ہے۔ 21ویں صدی میں جن کی پیدائش ہوئی ہے، جو ہماری نوجوان نسل ہے، جس کی پیدائش 21ویں صدی میں ہوئی ہے، ان کے لئے توآج ڈیجیٹل لائف بہت کول لگتی ہے۔ فیشن اسٹیٹ منٹ لگتا ہے ان کو۔

لیکن صرف 8 سے 10سال پہلے کی صورتحال کو یاد کیجئے۔ پیدائش کا سرٹیفکیٹ لینے کے لئے لائن ، بل جمع کرنا ہے تو لائن، راشن کے لئے لائن، داخلے کے لئے ، رزلٹ اور سرٹیفکیٹ کے لئے لائن، بینکوں میں لائن، اتنی ساری لائنوں کا حل ہندوستان آن لائن ہوکردیا۔ آج پیدائش کے سرٹیفکیٹ سے لے کر بزرگ شہری کی پہچان دینے والے زندگی کے سرٹیفکیٹ تک حکومت کی زیادہ تر خدمات ڈیجیٹل ہیں، ورنہ پہلے سینئر سٹیزن کو خاص کر پنشن پانے والوں کو جاکر کہنا پڑتا تھا کہ میں زندہ ہوں۔ جن کاموں کے لئے کبھی کبھی کئی دن لگ جاتے تھے ، وہ آج کچھ پل میں ہی ہوجاتے ہیں۔

ساتھیوں!

آج ڈیجیٹل گورننس کا ایک بہترین ڈھانچہ ہندوستان میں ہے۔ جن دھن- موبائل، آدھار، جی ای ایم، اس کی جو تیسری طاقت کا ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ اس سے جو سہولت ملی ہے اور جو شفافیت آئی ہے، اس سے ملک کے کروڑوں کنبوں کا پیسہ بچ رہا ہے۔ 8سال پہلے انٹرنیٹ ڈیٹا کے لئے جتنا پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا، اس سے کئی گنا کم ،یعنی ایک طرح سے نہ کے برابر۔ اس قیمت میں آج اس سے بھی بہتر ڈیٹا سہولت مل رہی ہے۔ پہلے بل بھرنے کے لئے، کہیں درخواست دینے کے لئے، ریزرویشن کے لئے، بینک سے جڑے کام ہو، ایسی ہر خدمت کے لئے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ ریلوے کا ریزرویشن کرانا ہو اور گاؤں میں رہتا ہو تو بے چارہ پورا دن کھپا کر شہر جاتا تھا۔ 100 سے 150روپے بس کرایہ خرچ کرتا تھا اور پھر لائن میں لگتا تھا ریلوے میں ریزرویشن کے لئے ۔ آج وہ کامن سروس سینٹر پر جاتا ہے اور وہیں سے اس کو یہ میری کامرس سروس والی فوج دیکھتی ہے اور وہیں سے اس کا کام ہوجاتا ہے، بلکہ گاؤں میں ہی ہوجاتا ہے اور گاؤں والوں کو بھی یہ پتہ ہے کہ کہاں یہ بندوبست ہے۔اس میں بھی کرایے ، بھاڑے ، آنا جانا اور دن لگانا سبھی خرچوں میں کٹوتی آئی ہے۔ غریب  محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے یہ بچت اور بھی بڑھی ہے، کیونکہ ان کا پورا دن بچ جاتا ہے۔

اور کبھی کبھی ہم سنتے تھے نا  ٹائم اِز منی، سننے اور کرنے میں تو اچھا لگتا ہے ، لیکن جب اس کا تجربہ سنتے ہیں تو دل کو چھو جاتا ہے۔ میں بھی کاشی گیا تھا تو  کاشی میں رات کو.... دن میں تو ادھر ادھر جاتا ہوں تو ٹریفک اور لوگوں کو پریشانی ، تو پھر میں رات کو ایک ڈیڑھ بجے ریلوے پلیٹ فارم پر چلا گیا دیکھنے کے لئے کہ بھئی کہاں کیا حال ہے۔ کیونکہ وہاں کا ایم پی ہوں تو کام تو کرنا ہے تو میں وہاں پسنجروں سے بات کررہا تھا۔ اسٹیشن ماسٹر سے بات کررہا تھا ، کیونکہ میرا اچانک دورہ تھا۔ کسی کو بتا کر تو گیا نہیں تھا، تو میں نے کہا  بھئی یہ جو وندے بھارت ٹرین چل رہی ہے تو کیا تجربہ ہے اور اس کے انتظامات کیسے لگے۔ ارے بولے صاحب اتنی اس کی مانگ ہے کہ ہمیں کم پڑ رہی ہے۔ میں نے کہا وہ تو ٹرین تھوڑی مہنگی ہے اس کی ٹکٹ زیادہ لگتی ہے۔اس  میں لوگ کیوں جاتے ہیں۔ بولے صاحب ، اس میں مزدور لوگ سب سے زیادہ جاتے ہیں، غریب لوگ سب سے زیادہ جاتے ہیں۔ میں نے کہا کیسے بھئی!میرے لئے سرپرائز تھی۔ بولے وہ دو اسباب سے جاتے ہیں۔ ایک –بولے وندے بھارت ٹرین میں جگہ اتنی ہے کہ سامان اٹھا کر لے کر جاتے ہیں تو رکھنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ غریب کا اپنا ایک حساب ہے اور دوسرا وقت جانے میں چار گھنٹے بچ جاتا ہے تو وہاں فوراً کام پر لگا جاتا ہوں، تو 6 سے 8گھنٹے میں جو کمائی ہوتی ہے ، ٹکٹ تو اس سے بھی کم پڑ جاتا ہے۔ٹائم اِز منی، یعنی وقت ہی پیسہ ہے۔ کیسے غریب حساب لگاتا ہے، بہت پڑھے لکھے لوگوں کو اس کی سمجھ کم ہوتی ہے۔

ساتھیوں!

ای-سنجیونی جیسی ٹیلی کنسلٹیشن کی جو خدمات شروع ہوئی ہے، موبائل فون سے بڑے بڑے اسپتال ، بڑے بڑے ڈاکٹروں کے ساتھ پرائمری ساری چیزیں پوری ہوجاتی ہیں اور اس کے توسط سے اب تک 3کروڑ سے زیادہ لوگوں نے گھر بیٹھے ہی اپنے موبائل سے اچھےسے اچھے اسپتال میں ، اچھے سے اچھے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ہے۔ اگر ان کو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کتنی مشکلات ہوتی۔ کتنا خرچ آتا ہے اور یہ ساری چیزیں ڈیجیٹل انڈیا خدمات کے سبب ضرورت نہیں پڑے گی۔

ساتھیوں!

سب سے بڑی بات جو شفافیت اس سے آئی ہے اس نے غریب اور متوسط طبقے کو متعدد سطحوں پر چلنے والی بدعنوانی سے آزاد کردیا ہے۔ ہم نے وہ وقت دیکھا ہے ، جب بنا رشوت لیے کوئی بھی سہولت لینا مشکل تھا۔ ڈیجیٹل انڈیا نے عام کنبے کا یہ پیسہ بھی بچایا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا، بچولیوں کے نیٹ ورک کو بھی ختم کررہا ہے۔

اور مجھے یا د ہے ایک بار اسمبلی میں گفتگو ہوئی تھی ، آج اس گفتگو کو یاد کروں تو مجھے لگتا ہے کہ اسمبلی میں ایسی گفتگو ہوتی تھی۔ کچھ صحافی سب ڈھونڈ لیں گے۔ موضوع ایسا تھا کہ جو بیوہ پنشن ملتی ہے تو اس وقت میں نے کہا کہ ایک کام کرو بھئی ۔ پوسٹ آفس میں کھاتے کھلوا دیجئے اور وہاں ان کی فوٹو ہو اور یہ سب بندوبست ہو اور پوسٹ آفس میں جاکر جو بیوہ بہن ہو اس کو پنشن مل جائے ۔ہنگامہ ہوگیا ، طوفان آگیا، مودی صاحب آپ کیا لائے ہو، بیوہ بہن گھر کے باہر کیسے نکلیں؟وہ بینک یا پوسٹ آفس میں کیسے جائیں، اسے پیسے ملے کیسے ، سب الگ الگ طرح سے زبان میں آپ دیکھو تو مزہ آئے ، ایسے بولے تھے۔ میں نے تو کہا کہ مجھے تو اس راستے پر جانا ہے ، آپ مدد کریں تو اچھا ہے  نہ کہ مدد ، لیکن ہم تو گئے، کیونکہ عوام نے مدد کی ہے  نا؟لیکن یہ ہنگامہ کیوں کررہے تھے صاحب، انہیں بیوہ کی فکر نہیں تھی، جب میں پوسٹ آفس میں فوٹو، پہچان ایسے سب انتطامات کئے تو ڈیجیٹل کی دنیا تو اتنے آگے بڑھی نہیں تھی۔آپ کو حیرانی ہوگی کہ بہت سی بیوائیں ایسی ملیں، جو بیٹی کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی اور وہ بیوہ ہوگئی تھی اور پنشن جارہی تھی۔ یہ کس کے کھاتے میں جاتی ہوگی یہ آپ کو سمجھ آگیا ہوگا تو پھر کیا حل ہوگا کہ نہیں ہوگا۔ ایسے سب بوچ بند کردیں تو تکلیف تو ہوگی تو آج ٹیکنالوجی کا استعمال کرکےبراہ راست فائدے کی منتقلی کے توسط سے گزشتہ 8سال میں 23لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ سیدھے مستفدین کے بینک کھاتے میں بھیجے گئے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملک کے2لاکھ 23ہزار کروڑ روپے یعنی تقریباً 2.25کروڑ روپے، جو کسی اور کے ہاتھ میں، غلط ہاتھ میں جاتے تھے ، بچ گئے ہیں، دوستوں!

ساتھیوں!

ڈیجیٹل انڈیا مہم نے جو ایک بہت بڑا کام کیا ہے، وہ ہے شہر اور گاؤں کو بیچ کی کھائی کو کم کرنا۔ ہمیں یاد ہوگا شہروں میں تو پھر بھی کچھ سہولت تھی، گاؤں کے لوگوں کے لئے حالت اور بھی مشکل بھری تھی۔ گاؤں اورشہر کی خلیج بھرے گی ، اس کابھی کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ گاؤں میں چھوٹی سی چھوٹی سہولت کے لئے بھی آپ کو بلاک ، تحصیل یا ضلع  ہیڈکوارٹر کے دفتروں کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ ایسی ساری مشکلات کو بھی ڈیجیٹل انڈیا مہم نے آسان بنایا ہے اور سرکار کو شہری کے گھر پر اس کے گاؤں اور گھر اور اس کی ہتھیلی میں فون پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔

گاؤں میں سینکڑوں سرکاری خدمات ڈیجیٹل دینے کے لئے پچھلے 8سال میں 4لاکھ سے زیادہ نئے کامن سروس سینٹر جوڑے جاچکے ہیں۔ آج گاؤں کے لوگ ان مراکز سے ڈیجیٹل انڈیا کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

میں وہاں داہود  آیاتھا تو داہود میں میرے آدی واسی بھائی بہنوں سے ملنا ہوا۔ وہاں ایک معذور جوڑا تھا۔ 32-30سال کے عمر ہوگی ، انہوں نے مُدرا یوجنا میں سے پیسے لیے، کمپیوٹرکا تھوڑا بہت علم سیکھا اور میاں بیوی نے کامن سروس سینٹر شروع کیا۔ داہود کے آدی واسی ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں۔ وہ بھائی اور ان کی بیوی مجھے ملے تو انہوں نے مجھے کہا کہ صاحب اوسط میری فی ماہ 28000روپے کی آمدنی ہے۔ گاؤں میں لوگ اب میرے یہاں  ہی خدمات لے رہے ہیں۔ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت دیکھو بھائی۔

سوا لاکھ سے زیادہ کامن سروس سینٹر گرامین اسٹور ، اب ای-کامرس کو بھی گرامین بھارت تک لے جارہے ہیں۔

ایک دوسرا تجربہ بندوبست کا کس طرح فائدہ لیا جاسکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں یہاں گجرات میں تھا تو کسانوں کو بجلی کا بل چکانے کے لئے مسئلہ ہوتا تھا۔ پیسے لینے کے مقام 800 سے 900 تھے۔ دیری ہو تو اصول کے مطابق بجلی کا کنکشن کٹ جاتا تھا۔ کٹ جائے تو پھر سے نیا کنکشن لینا پڑے تو پھر سے پیسے دینے پڑتے تھے تو ہم نے ہند سرکار کو اس وقت اپیل کی ، اٹل جی کی سرکار  تھی، اپیل کی کہ یہ پوسٹ آفس میں چالو کردیجئے نا۔ بجلی کا بل ہمارے پوسٹ آفس والے لینا شروع کرے ، ایسا کردیجئے۔ اٹل جی نے میری بات مانی اور گجرات میں کسانوں کو مشکلات سے چھٹکارا مل گیا۔ انتظامات کا استعمال کس طرح کیا جاسکتا ہے ، ایسا ایک تجربہ میں نے دہلی میں جاکر کیا، عادت جائے گی نہیں، کیونکہ ہم لوگ احمد آبادی سنگل پھیر ڈبل جرنی کی عادت پڑی ہے،اس لئے ریلوے کو خود کا وائی فائی ، بہت مضبوط نیٹ ورک ہے  تو اس وقت ہمارے ریلوے کے دوستوں کو میں نے کہا۔ یہ 2019کے انتخاب سے پہلے کی بات ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ریلوے کے جو پلیٹ فارم ہے، ان کے اوپر وائی فائی مفت کردیجئے اور آس پاس کے گاؤں کے بچوں کو وہاں آکر پڑھنا ہو تو آئیں اور انہیں کنکٹی وٹی مل جائے اور انہیں جو پڑھنا لکھنا ہو کریں۔ آپ کو حیرانی ہوگی کہ میں ایک بار ورچوئلی کچھ طلباء کے ساتھ بات کررہا تھا، بہت سارے لوگ ریلوے پلیٹ فارم پر مفت وائی فائی کی مدد سےمقابلہ جاتی امتحان کی تیاری کرتے تھے اور پاس ہوتے تھے۔ کوچنگ کلاس میں جانا نہیں، خرچ کرنا نہیں، گھر چھوڑنا نہیں، بس ہمیں با کے ہاتھ کا روٹلا ملے اور پڑھنے کا، ریلوے کے پلیٹ فارم کا استعمال ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت دیکھیں دوستو۔

پی ایم سوامتو یوجنا شاید شہر کے لوگوں کا بہت کم اس پر دھیان گیا ہے۔ پہلی بار شہروں کی طرح ہی گاؤں کے گھروں کے میپنگ اور ڈیجیٹل لیگل ڈاکیومنٹ  گاؤں والوں کو دینے کا کام چل رہا ہے۔ ڈرون گاؤں کے اندر جاکر ہر گھر کی اوپر سے میپنگ کررہا ہے،  میپ بناتا ہے۔ وہ مطمئن ہوتا ہے تو اس کو سرٹیفکیٹ ملتا ہے، اب اس کے کورٹ کچہری کےسارے جھنجھٹ بند، یہ ہے ڈیجیٹل انڈیا کے سبب۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم نے ملک میں بڑی تعداد میں روزگار اور خود روزگار کے موقع بھی پیدا کئے ہیں۔

ساتھیوں!

ڈیجیٹل انڈیا کا ایک بہت ہی حساس پہلو بھی ہے، جس کی اتنی گفتگو شاید بہت زیادہ ہوتی نہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا نے کھوئے ہوئے متعدد بچوں کو کیسے ان کے کنبے تک واپس پہنچایا۔ یہ جان کر کے آپ کے دل کو چھو جائے گا۔ ابھی میں اور میری تو آپ سے اپیل ہے، جو یہاں ڈیجیٹل کی نمائش لگی ہے، ضرور دیکھئے۔ آپ تو دیکھئے ہی ، اپنے بچوں کو لے کر دوبارہ آئیے۔ کیسے دنیا بدل رہی ہے، وہاں جو کرکے دیکھوگے تو پتہ چلے گا، تو مجھے وہاں ابھی ایک بٹیا سے ملنا ہوا ۔ وہ بیٹی چھ سال کی تھی، تو اپنے کنبے سے بچھڑ گئی تھی۔ ریلوے پلیٹ فارم پر ماں کا ہاتھ چھوٹ گیا، وہ کسی اور ٹرین میں بیٹھ گئی۔ والدین کے بارے میں بہت کچھ بتا نہیں پارہی تھی۔ اس کے کنبے کو تلاش کرنے کی بہت کوشش ہوئی، لیکن کسی کو کامیابی نہیں ملی۔ پھر آدھا ڈیٹا کی مدد سے اس کے کنبے کو تلاش کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اس بچی کا آدھا بایو میٹرک لیا تو وہ ریجیکٹ ہوگیا۔ پتہ چلا کہ بچی کا پہلے ہی آدھار کارڈ بن چکا ہے اور  پھر اس  آدھا رتفصیل کی بنیاد پر اس بٹیا کے کنبے کا پتہ نکال لیا گیا۔

آپ کو جان کر اچھا لگے گا کہ آج وہ بچی اپنے کنبے کے ساتھ اپنی زندگی جی رہی ہے۔ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کےلئے اپنے گاؤں میں کوشش کررہی ہے۔ آپ کو بھی یہ جان کر اچھا لگے گا کہ میری جانکاری ہے ایسے کئی سالوں سے 500 سے زیادہ بچوں کو اس ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے کنبوں سے ملایا جاچکا ہے۔

ساتھیوں!

گزشتہ 8برسوں میں ڈیجیٹل انڈیا نے ملک  جو طاقت پیدا کی ہے، اس نے کورونا جیسی عالمی وباء سے مقابلہ کرنے میں ہندوستان کی بہت مدد کی ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اگر ڈیجیٹل انڈیا نہیں ہوتی تو 100 سال میں آئے سب سے بڑے بحران سے ملک میں ہم کیا کرپاتے۔ ہم نے ملک کے کروڑوں خواتین، کسانوں ، مزدوروں کے بینک کھاتے میں ایک کلک پر ہزاروں کروڑ روپے ان کو پہنچا ئے۔ ون نیشن ون راشن کارڈ کی مدد سے ہم نے 80کروڑ  سے زیادہ مفت راشن ہم وطنوں کو فراہم کرایا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔

ہم نے دنیا کا سب سے بڑا او رسب سے فعال کووڈ ٹیکہ کاری اور کووڈ راحتی پروگرام چلایا۔ آروگیہ سیتو اور کووِن ، یہ ایسے پلیٹ فارم ہے  کہ اس توسط سے اب تک تقریباً 200کروڑ ویکسین دوز ، اس پورا ریکارڈ دستیاب ہے۔ کون رہ گیا، کہاں رہ گیا ، اس کی جانکاری اس کے توسط سے حاصل ہوتی ہے اور ہم ٹارگیٹیڈ شخص کو ٹیکہ کاری کا کام کرپارہے ہیں۔ دنیا میں آج بھی گفتگو ہے کہ ویکسین سرٹیفکیٹ  کیسے لینا ہے، کئی دن لگ جاتے ہیں۔ ہندوستان میں وہ ویکسین لگاکر باہر نکلتا ہے ، اس کے موبائل سائٹ پر سرٹیفکیٹ موجود ہوتا ہے۔ دنیا کووِن کے ذریعے ویکسی نیشن کے ڈیجیٹل سرٹیفکیٹ کی جانکاری کی بات کررہی ہے۔ ہندوستان میں کچھ لوگ ان کا کانٹا اسی بات پر اٹک گیا ، اس پر مودی کی فوٹو کیوں ہے۔ اتنا بڑا کام، ان کا دماغ وہیں اٹک گیا تھا۔

ساتھیوں!

ہندوستان کا ڈیجیٹل فِن ٹیک سہولت اور آج یو –فِن ٹیک کا ہے۔ اس کے بارے میں بھی میں کہوں گا۔ کبھی پارلیمنٹ کے اندر ایک بار بحث ہوئی ہے، اس میں دیکھ لینا۔ جس میں ملک کے سابق وزیر خزانہ جی خطاب کررہے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس موبائل فون نہیں ہے، لوگ ڈیجیٹل کیسے کریں گے۔ پتہ نہیں کیا کیا وہ بولے ہیں۔ آپ سنیں گے تو آپ کو حیرانی ہوگی۔ بہت پڑھے لکھے لوگوں کا یہی تو حال ہوتا ہے جی۔ فِن-ٹیک، یوپی آئی، یعنی یونیفائیڈ پے منٹ انٹر فیس، آج پوری دنیا اس پر متوجہ ہورہی ہے۔ ورلڈ بینک سمیت سب نے یہ عمدہ سے عمدہ پلیٹ فارم کی شکل میں اس کی تعریف کی ہے اور میں آپ سے کہوں گا کہ یہاں ڈِسپلے میں فِن ٹیک ڈویزن ہے، یہ کیسے کام کرتے ہیں، اس کا وہاں دیکھنے کو ملے گا۔ کس طرح سے موبائل فون پر پے منٹ ہوتے ہیں، کیسے پیسے آتے ہیں، جاتے ہیں، سارا ویسے آپ کو یہاں دیکھنے کو ملے گا اور میں کہتا ہوں یہ فِن  ٹیک کی کوشش ہوئی ہے ، یہ صحیح معنی میں بائی دی پیپل، آف دی پیپل، فار دی پیپل اس کا عمدہ  سے عمدہ حل ہے۔ اس میں جو ٹیکنالوجی ہے، وہ ہندوستان کی اپنی ہے، یعنی بائی دی پیپل، ہم وطنوں نے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا یعنی آف دی پیپل۔ اس نے ہم وطنوں کے لین دین کو آسان بنایا یعنی فار دی پیپل۔

اسی سال مئی کے مہینے میں ہندوستان میں ہر منٹ فخر کریں گے  دوستوں  آپ، ہندوستان میں ہر منٹ میں 130ہزار سے زیادہ یوپی آئی لین دین ہوئے ہیں۔ ہر سیکنڈ اوسطاً 2200ٹرانزیکشن  کمپلیٹ ہوئے ہیں۔ یعنی ابھی جو میں آپ سے مخاطب ہوں، جب تک میں یونیفائیڈ پے منٹ انٹر فیس اتنے لفظ بولتا ہوں، اتنے وقت میں یوپی آئی سے 7000لین دین مکمل ہوچکے ہیں..... میں جو دو لفظ بول رہا ہوں ، اتنے وقت میں یہ کام آج ڈیجیٹل انڈیا کے توسط سے ہورہا ہے۔

اور ساتھیوں، آپ کو فخر ہوگا   ہندوستان میں کوئی کہتا ہے ان پڑھ، ڈھکانہ ہے، فلاناں ہے، یہ ہے، وہ ہے، وہ ملک کی طاقت دیکھئے،  میرے ہم وطنوں کی طاقت دیکھئے، دنیا کے خوشحال ملک ، ان کے سامنے میرا ملک  جو ترقی پذیر ملک کی دنیا میں ہے۔ دنیا کا 40 فیصد لین دین ہمارے ہندوستان میں ہوتا ہے دوستوں۔

اس میں بھی بھیم یوپی آئی آج آسان ڈیجیٹل لین دین کا مؤثر توسط بن کر ابھرا ہے اور سب سے بڑی بات آج کسی مال کے اندر بڑے بڑے برانڈز بیچنے والے کے پاس لین دین کی جو ٹیکنالوجی ہے، وہی ٹیکنالوجی آج اس کے سامنے ریہڑی پٹری اور ٹھیلے والے بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ فٹ پاتھ پر 800-700روپے کماتے ہیں، ایسے مزدور کے پاس بھی وہی بندوبست ہے جو بڑے بڑے مال میں امیروں کے پاس ہے، ورنہ وہ دن بھی ہم نے دیکھے ہیں جب بڑی بڑی دکانوں میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ چلتے تھے اور ریہڑی ٹھیلے والے ساتھی گاہگ کے لئے چھٹے پیسے کی تلاش میں ہی رہتا تھا اور ابھی تو میں دیکھ رہا تھا کہ ایک دن بہار کا کوئی پلیٹ فارم پر کوئی بھیک مانگ رہا تھا  وہ ڈیجیٹل پیسے لیتا تھا۔ اب دیکھئے نا دونوں کے پاس یکساں طاقت ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت ہے۔

اس لئے آج دنیا کے ترقی یافتہ ملک ہوں، یا پھر وہ ملک جو اس طرح کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں کرسکتے، ان کے لئے یوپی آئی جیسے ہندوستان کے ڈیجیٹل پروڈکٹ آج توجہ کا مرکز ہیں۔ہمارے ڈیجیٹل سولیوشنز میں اسکیل بھی ہے۔یہ محفوظ بھی ہے اور جمہوری اقدار بھی ہے۔ ہمارا یہ جو گفٹ سٹی کا کام ہے نا ، میرے لفظ لکھ کر رکھئے گا اس کو اور میرا 2005 یا 2006 کا خطاب ہے، وہ بھی سن لیجئے گا۔ اس وقت جو میں نے کہا تھا کہ گفٹ سٹی میں کیا کیا ہونے والا ہے، آج وہ اس سرزمیں پر اُترتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور آنے والے دنوں میں فِن ٹیک کی دنیا میں ڈیٹا سیکورٹی کےسلسلے میں، فائننس کی دنیا میں گفٹ سٹی بہت بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ یہ صرف گجرات ہی نہیں ، بلکہ ہندوستان کی آن بان شان بن رہا ہے۔

ساتھیوں!

ڈیجیٹل انڈیا مستقبل میں بھی ہندوستان کی نئی معیشت کا ٹھوس بنیاد بنے، صنعت 4.0میں ہندوستان کو آگے رکھے، اس کے لئے بھی آج متعدد طرح کے اقدامات کئے جارہے ہیں، کوششیں کی جارہی ہیں۔آج اے آئی ، بلاک چین، اے آر-وی آر، 3ڈی پرنٹنگ، ڈرونز ، روبوٹکس، گرین انرجی  ایسی متعدد نیو ایج انڈسٹریز کے لئے 100 سے زیادہ اسکل ڈیولپمنٹ کے لئے کورسز چلائے جارہے ہیں ملک بھر میں۔ ہماری کوشش ہے کہ مختلف اداروں کے ساتھ مل کر آنے والے چار پانچ سالوں میں 14 سے 15لاکھ نوجوانوں کو فیوچر اسکلز کے لئے ری اسکلز اور اَپ اسکلز کی جائے ، اس سمت میں ہماری کوشش ہے۔

انڈسٹری 4.0کے لئے ضروری اسکلز تیار کرنے کےلئے آج اسکول کے سطح پر فوکس ہے۔ تقریباً 10ہزار اٹل ٹِنکرنگ لیب میں آج 75لاکھ سے زیادہ طلباء؍طالبات اختراعی نظریات یا سوچ پر کام کررہے ہیں، جدید ٹیکنالوجی روبرو ہورہے ہیں۔ ابھی میں یہاں نمائش دیکھنے گیا تھا۔ میرا دل اتنا خوش  ہوا کہ دور  درازاُڈیشہ کی بیٹی ہے، کوئی تریپورہ کی  بیٹی ہے، کوئی اترپردیش کی کسی گاؤں کی بیٹی ہے، وہ اپنے پروڈکٹ لے کر آئی ہے۔ 15سال، 16 سال  اور 18سال کی بچیاں دنیا کے مسائل کا حل لے کر آئی ہیں ۔ آپ سب ان سب بچیوں کے ساتھ بات کریں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ میرے ملک کی طاقت ہے دوستو۔اٹل ٹِنکرنگ لیب کے سبب اسکول کے اندر ہی جو ماحول بنا ہے، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ بچے بڑی بات لے کر بڑے مسائل کے حل لے کر آتے ہیں۔ وہ 17سال کا ہوگا، میں نے اس  سے اپنے بارے میں پوچھا، وہ کہتا ہے کہ میں تو برانڈ امبیسڈر ہوں، یعنی ڈیجیٹل کے انڈیا کے شعبے میں ہم جو آلات کو لے کر کام کررہے ہیں، میں اس کا بڑا امبیسڈر ہوں۔ اتنے اعتماد سے وہ بات کررہا تھا ، یعنی یہ طاقت جب دیکھتے ہیں تو یقین اور مضبوط ہوجاتا ہے تو اعتماد اور مضبوط ہوجاتا ہے۔ یہ ملک خواب پورا کرکے رہے گا۔ عہد پورا کرکے رہے گا۔

ساتھیوں!

نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی ٹیکنالوجی کے لئے ضروری مائنڈ سیٹ تیار کرنے میں اہم رول نبھانے والی ہے۔ اٹل انکیو بیشن سینٹرز کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ملک میں تیار کیا جارہا ہے۔اسی طرح پی ایم گرامین ڈیجیٹل ساکشرتا مہم ، یعنی پی ایم دِشا دیش میں ڈیجیٹل طورپر بااختیار بنانے کو فروغ دینے کی ایک مہم چلا رہا ہے۔ ابھی تک اس کے 40 ہزار سے زیادہ سینٹر ملک بھر میں بن چکے ہیں اور 5کروڑ سے زیادہ لوگوں کو تربیت دی جاچکی ہے۔

ساتھیوں!

ڈیجیٹل اسکلز اور ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ موقع دینے کےلئے متعدد گوناگوں سمتوں میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔ خلاء  ہو، میپنگ ہو،ڈرون ہو، گیمنگ اور اینی میشن ہو ، ایسے متعدد سیکٹر جو فیوچر ڈیجیٹل ٹیک کو وسعت دینے والے ہیں، ان کو اختراع کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اِن-اسپیس .....اب اِن-اسپیس ہیڈکوارٹر احمد آباد میں بنا ہے۔ اِن –اسپیس اور نئی ڈرون پالیسی جیسی پروویژن آنے والے  سالوں میں ہندوستان کی تکنیکی صلاحیت کو اس دہائی میں نئی توانائی دیں گے۔ میں جو یہاں اِن –اسپیس کے ہیڈکوارٹر کے افتتاح کے لئے آیا تھا  پچھلے مہینے تو کچھ بچوں سے میری بات چیت ہوئی۔ اسکول کے بچے تھے، وہ سٹیلائٹ چھوڑنے کی تیاری کررہے تھے۔ خلاء میں سٹیلائٹ چھوڑنے کی تیاری کررہے تھے، تو مجھے وہاں بتایا گیا کہ ہم آزادی کے امرت مہوتسو کے نامزد اسکو ل کے بچوں کے ذریعے بنائے گئے 75سٹیلائٹ آسمان میں چھوڑنے والے ہیں۔ خلاء میں چھوڑنے والے ہیں۔ یہ میرے ملک کی اسکولی تعلیم میں ہورہا ہے دوستو۔

ساتھیوں!

آج ہندوستان، اگلے تین چار سال میں الیکٹرونک مینوفیکچرنگ کو 300 ارب ڈالر سے بھی اوپر لے جانے کے ہدف پر کام کررہا ہے۔ ہندوستان چپ ٹیکر سے چپ میکر بننا چاہتا ہے۔ سیمی کنڈکٹر کی پیداوار بڑھانے کےلئے ہندوستان میں تیزی سے سرمایہ بڑھ رہا ہے۔ پی ایل آئی اسکیم سے بھی اس میں مدد مل رہی ہے۔یعنی میک اِن انڈیا کی طاقت اور ڈیجیٹل انڈیا کی طاقت کی ڈبل ڈوج ، ہندوستان میں صنعت 4.0کو نئی اونچائی پر لے جانے والی ہے۔

آج کا ہندوستان اس سمت کی طرف بڑھ رہا ہے، جس میں شہریوں کو  اسکیموں کے فائدے کے لئے دستاویزات کے لئے سرکار کے پاس فیزیکل کے طورپر آنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ہر گھر میں پہنچتا انٹر نیٹ اور ہندوستان کی علاقائی زبانوں کی گوناگونیت ہندوستان کے ڈیجیٹل انڈیا مہم کو نئی رفتار دے گی۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم ایسے ہی نئی نئی مہم خود میں جوڑتا چلے گا۔ ڈیجیٹل اسپیس میں گلوبل لیڈر شپ کو سمت دے گا اور میں آج، وقت میرے پاس  کم تھا، میں ہر چیز کو نہیں دیکھ پایا، لیکن شاید دو دن بھی کم پڑ جائیں اتنی ساری چیزیں ہیں وہاں اور میں گجرات کے لوگوں سے کہوں گا موقع چھوڑیئے ۔ آپ ضرور اسکول، کالج کے بچوں کو وہاں لے جائیں، آپ بھی وقت نکال کر جائیں۔ ایک نیا ہندوستان آپ کی آنکھوں کے سامنے دکھائی دے گا اورعام انسان کی زندگی کی ضرورت سے جڑا ہوا ہندوستان دکھے گا۔ ایک نیا اعتماد پیدا ہوگا،نئے عہد لیے جائیں گے اور امید  اور آرزوؤں کو پورا کرنے کا  اعتماد لے کر ڈیجیٹل انڈیا کے توسط سے بھی ملک مستقبل کا ہندوستان جدید ہندوستان اور خوشحال اور بااختیار ہندوستان اس سمت میں آگے بڑھنے کی تیاری طرف تیز رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ اتنے کم وقت میں جو حاصل کیا ہے، ہندوستان کے پاس ٹیلنٹ ہے، ہندوستان کے نوجوانوں کی طاقت ہے، انہیں موقع چاہئے اور آج ملک میں ایک ایسی ہی سرکارہے جو ملک کے عوام پر بھروسہ کرتی ہے اور ملک کے نوجوانوں پر بھروسہ کرتی اور اس کو نئے تجربہ کرنے کے لئے موقع دے رہی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک متعدد سمت میں غیر معمولی طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

اس ڈیجیٹل انڈیا ویک کے لئے میں آپ کو بہت مبارکباد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ آنے والے دو تین دن تو یہ شاہد نمائش جاری رہے گی، اس کا فائدہ آپ سب لوگ اٹھائیں گے ، پھر سے ایک بار میں ہندوستانی سرکار کے محکمے کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں کہ انہوں نے اتنے بہترین پروگرام کی تیارکی۔ مجھے آج ، میں صبح تو تلنگانہ تھا، پھر آندھرا چلا گیا اور پھر یہاں آپ کے درمیان آنے کا موقع ملا اور اچھالگتا ہے  ۔ آپ سب کا جوش دیکھتا ہوں ، امنگ دیکھتا ہوں تو اور مزا آتا ہے۔ اس پروگرام کو گجرات میں کرنے کےلئے میں ڈپارٹمنٹ کو مبارکباد دیتا ہوں اور اتنا شاندار پروگرام کرنے کے لئے خیر مقدم کرتا ہوں اور ملک بھر کے نوجوانوں کے لئے یہ تحریک بن کر رہے گا، اسی اعتماد کے ساتھ آپ سبھی کو  بہت بہت نیک تمنائیں۔

شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
سوشل میڈیا کارنر،21 نومبر 2024
November 21, 2024

PM Modi's International Accolades: A Reflection of India's Growing Influence on the World Stage