وزیر خزانہ نرملا جی، مرکزی کابینہ میں میرے دیگر رفیق کار ، آر بی آئی کے گورنر، مختلف وزارتوں کے سکریٹری، ملک کے مختلف گوشوں میں وزرائے اعلیٰ، وزراء کی کونسل کے لوگ جو اس پروگرام کی قیادت کر رہے ہیں۔ معاشیات سے وابستہ تمام ماہرین، بینک کاری شعبہ کے ماہرین، دیگر معززین، خواتین و حضرات،
75 ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کے آغاز کے اس موقع پر تمام ہم وطنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ آج ملک ایک بار پھر ڈیجیٹل انڈیا کی صلاحیت کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ آج ملک کے 75 اضلاع میں 75 ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ میں اس مشن سے وابستہ تمام لوگوں،اپنے بینکنگ شعبہ کو ، اپنے آر بی آئی کو مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیوں،
ہندوستان کے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانےکی جو مہم ملک میں چل رہی ہے، ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ اس سمت میں ایک اور بڑا قدم ہے ۔ یہ صرف ایک ایسا خاص بینکنگ سسٹم ہے جو کم سے کم ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے زیادہ سے زیادہ خدمات فراہم کرنے کے لیے کام کرے گا۔ یہ خدمات کاغذی کارروائی اور پریشانی سے پاک ہوں گی، اور پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوں گی۔ یعنی، ان میں سہولت ہوگی، اورایک مضبوط ڈیجیٹل بینکنگ سیکیورٹی بھی ہوگی۔ گاؤں میں، چھوٹے شہر میں، جب کوئی شخص ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ کی خدمات حاصل کرے گا تو اس کے لیے پیسے بھیجنے سے لے کر قرض لینے تک سب کچھ آسان ہو جائے گا، آن لائن ہوجائے گا۔ آپ تصور کریں، ایک زمانے میں جب ایک دیہاتی کو، ہمارے گاؤں کے ایک شہری کو، ایک غریب کو چھوٹی چھوٹی بینکنگ خدمات کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی تھی، تو یہ اس کے لیے ایک بڑا قدم ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج وہ اس تبدیلی کو بہت آسانی سے جینے کے لیے خوش ہوجائے ، پرجوش ہوجائے گا۔
ساتھیوں،
ہماری حکومت کا مقصد ہندوستان کے عام آدمی کو بااختیار بنانا، اسے طاقتور بنانا ہے۔ اس لیے ہم نے معاشرے میں آخری زینے پر کھڑے شخص کو ذہن میں رکھ کر پالیسیاں بنائیں اور پوری حکومت اس کی سہولت اور ترقی کے راستے پر چلی۔ ہم نے دو چیزوں پر ایک ساتھ کام کیا۔ پہلا- بینکاری نظام میں اصلاحات، اسے مضبوط بنانا، اس میں شفافیت لانا، اور دوسرا- مالیاتی شمولیت۔ جب پہلے فکری سیمینار ہوتے تھے۔ بڑے بڑے ماہرین بینکاری نظام، معیشت، غریبوں کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ اس وقت فطری طور پر مالی شمولیت کی بات ہوتی تھی لیکن جو انتظامات تھے وہ صرف خیالات تک محدود رہ جاتے تھے۔ نظام اس انقلابی کام کے لیے، مالی شمولیت کے لیےتیار نہیں تھے۔ پہلے سوچا جاتا تھا کہ غریب خود چل کر بینک جائیں گے، وہ بینکنگ سسٹم سے وابستہ ہو جائیں گے۔لیکن ہم نے رواج بدلا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ بینک خود چل کر غریبوں کے گھر تک جائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے غریبوں اور بینکوں کے درمیان کے فاصلے کو کم کرنا تھا۔ ہم نے جسمانی فاصلہ بھی کم کیا اور سب سے بڑی رکاوٹ، ہم نے نفسیاتی فاصلہ بھی کم کیا۔ ہم نے بینکنگ خدمات کو دور دراز تک گھر گھر پہنچانے کو اولین ترجیح دی ۔ آج ہندوستان کے 99 فیصد سے زیادہ گاوں میں 5 کلومیٹر کے اندر کوئی نہ کوئی بینک برانچ، بینکنگ ادارے یا بینکنگ متر ، بینکنگ کاریسپونڈنٹ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں پوسٹ آفس کا وسیع نیٹ ورک تھا، آج وہ بھی انڈیا پوسٹ بینک کے ذریعہ بینکنگ کے مرکزی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں۔ آج، ملک میں ہر ایک لاکھ بالغ آبادی پر جتنی بینک کی شاخیں موجود ہیں ، ان کی تعداد جرمنی، چین اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سےبھی زیادہ ہیں۔
ساتھیوں،
ہم عام انسانوں کا معیار زندگی بدلنے کے عزم کے ساتھ دن رات محنت کر رہے ہیں۔ ہمارا عزم نظام کو بہتر بنانا ہے، ہمارا عزم شفافیت لانا ہے۔ ہمارا عزم آخری صف میں کھڑے شخص تک پہنچنا ہے۔ جب ہم نے جن دھن اکاؤنٹ کی مہم شروع کی تو کچھ آوازیں اٹھیں کہ غریب بینک اکاؤنٹ کا کیا کریں گے؟ یہاں تک کہ اس شعبے کے بہت سے ماہرین بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس مہم کی اہمیت کیا ہے۔ لیکن بینک اکاؤنٹ کی طاقت کیا ہوتی ہے، یہ آج پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ میرے ملک کا عام شہری اس کا تجربہ کر رہا ہے۔ بینک کھاتوں کی وجہ سے ہم نے غریبوں کو بہت کم پریمیم پر بیمہ کی سہولت دی ہے۔ بینک کھاتوں کی طاقت تو جڑنے کے بعد غریبوں کے لیے بغیر گارنٹی کے قرض حاصل کرنے کا راستہ کھل گیا۔ بینک کھاتہ ہونے کی وجہ سے سبسڈی کی رقم غریب مستحقین تک براہ راست ان کے کھاتے میں پہنچ گئی۔ صرف بینک کھاتوں کے ذریعہ ہی غریبوں کو گھر بنانا ہو، بیت الخلا بنانا ہو، گیس کی سبسڈی حاصل کرنی ہو، انہیں براہ راست ان کے کھاتوں میں دیا جاسکا۔ کسانوں کو بھی تمام سرکاری اسکیموں سے ملنے والی مدد ، ان کے بینک کھاتوں کی وجہ سے آسانی سے ان تک پہنچائی جا سکی ۔ اور جب کورونا کی وبا کا دور آیا تو غریبوں کے بینک اکاؤنٹ میں، ماؤں اور بہنوں کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست پیسہ پہنچایا گیا ۔ بینک کھاتوں کی وجہ سے ہی ہمارے ریہری پٹری والے بھائی بہنوں کے لیے سوانیدھی اسکیم بھی شروع کی گئی ۔ جبکہ اسی وقت ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس کام میں مشکلات کا سامنا تھا۔ آپ نے بھی سنا ہوگا کہ ابھی ابھی آئی ایم ایف نے ہندوستان کے ڈیجیٹل بینکنگ انفراسٹرکچر کی بھرپور تعریف کی ہے۔ اس کا سہرا ہندوستان کے غریبوں، ہندوستان کے کسانوں اور ہندوستان کے مزدوروں کو جاتا ہے، جنہوں نے ہمت، سمجھ بوجھ کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی کو اپنایا، اسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔
ساتھیوں،
جب مالیاتی شراکتیں ڈیجیٹل شراکت داری کے ساتھ مل جاتی ہیں تو امکانات کی ایک پوری نئی دنیا کھلنے لگ لگ جاتی ہے۔ یو پی آئی جیسی بڑی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اور ہندوستان کو اس پر فخر ہے۔ یو پی آئی اپنی نوعیت کی دنیا کی پہلی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن ہندوستان میں آپ اسے شہر سے لے کر گاؤں تک، شو روم ہوں یا سبزیوں کا ٹھیلہ، ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ یو پی آئی کے ساتھ ساتھ اب 'روپے کارڈ' کی طاقت بھی ملک کے عام آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک وقت تھا جب کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کو اشرافیہ کا نظام سمجھا جاتا تھا۔ بڑے معاشرے کے شرفاء کا نظام سمجھا جاتا ہے۔ کارڈ بھی غیر ملکی ہوتےتھے، انہیں استعمال کرنے والےبھی بہت چنندہ لوگ ہوتےتھے، اور ان کا استعمال بھی ویسے ہی چنندہ مقامات پر ہوتا تھا ۔ لیکن، آج ہندوستان میں 70 کروڑ سے زیادہ روپے کارڈ عام آدمی کے پاس ہیں۔ آج ہندوستان کا مقامی روپے کارڈ پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور معیشت کا یہ امتزاج ایک طرف غریب اور متوسط طبقے کے وقار کو بڑی طاقت دے رہا ہے، تو ساتھ ہی یہ ملک کی ڈیجیٹل تقسیم کو بھی ختم کر رہا ہے۔
ساتھیوں،
جے اے ایم یعنی جن دھن، آدھار اور موبائل کی سہ رخی طاقت نے ایک ساتھ ایک بڑی بیماری کا علاج بھی کیا ہے۔ یہ بیماری ہے بدعنوانی کی بیماری ۔ پیسے اوپر سے چلتے تھے لیکن جب تک غریبوں تک پہنچتا ، غائب ہو جاتا تھا۔ لیکن، اب براہ راست منتقلی کا فائدہ یعنی ڈی بی ٹی کے ذریعہ رقم ، جس کے نام سے رقم نکلتا ہے ، اس کے اکاؤنٹ میں پہنچتی ہے، اسی وقت پہنچ جاتی ہے۔ اب تک ڈی بی ٹی کے ذریعہ مختلف اسکیموں میں 25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی منتقلی ہوئی ہے، اور کل بھی میں ملک کے کروڑوں کسانوں کو ویسے ہی دو ہزار روپے کی قسط بھیجنے والا ہوں۔
بھائیو اور بہنو،
آج پوری دنیامیں ہندوستان کی اس ڈی بی ٹی اور ڈیجیٹل طاقت کی ستائش ہو رہی ہے۔ آج ہم اسے ایک عالمی ماڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔عالمی بینک نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ہندوستان ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعہ سماجی تحفظ کو یقینی بنانے میں ایک رہنما بن گیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے کامیاب ترین لوگ، جو ٹیکنالوجی کی دنیا کے ماہر ہیں، وہ بھی ہندوستان کے اس نظام کی بہت تعریف کر رہے ہیں، وہ خود بھی اس کی کامیابی سے حیران ہیں۔
بھائیو اور بہنوں
آپ تصور کریں، جب ڈیجیٹل شراکت اور اقتصادی شراکت میں اتنی طاقت ہے، تو دونوں کی 100 فیصد صلاحیت کو استعمال کر کے ہم اپنے ملک کو کس بلندی تک لے جا سکتے ہیں؟ لہذا، آج فن ٹیک ہندوستان کی پالیسیوں، ہندوستان کی کوششوں کے مرکز میں ہے اور مستقبل کو سمت دے رہا ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ اکائیاں فن ٹیک کی اس صلاحیت کو مزید توسیع دیں گی۔ اگر جن دھن اکاؤنٹس نے ملک میں مالی شمولیت کی بنیاد رکھی تھی، تو فن ٹیک مالیاتی انقلاب کی بنیادتیار کرے گا۔
ساتھیوں،
ابھی حال ہی میں، حکومت ہند نے بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل کرنسی شروع کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ آنے والے وقت میں ڈیجیٹل کرنسی ہو یا آج کے دور میں ڈیجیٹل لین دین، معیشت کے علاوہ کئی اہم پہلو ان سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کرنسی کی چھپائی پر خرچ ہونے والی ملک کی اس رقم کی بچت ہوتی ہے۔ ہم بیرون ملک سے کرنسی کے لیے کاغذ اور سیاہی درآمد کرتے ہیں۔ ہم ڈیجیٹل معیشت کے ذریعہ اس سے بھی بچ رہے ہیں۔یہ ایک مختلف طریقے سے، ایک خودانحصار ہندوستان میں، ہندوستان کے بینکنگ سیکٹرکا، اپنے آر بی آئی کا بہت بڑا تعاون سمجھتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ کاغذ کی کھپت میں کمی سے ماحولیات کو بھی بڑا فائدہ ہوگا۔
ساتھیوں،
بینکنگ آج مالیاتی لین دین سے آگے بڑھ چکی ہے اور 'گڈ گورننس' اور ’بہتر خدمات کی فراہمی ‘ کا ذریعہ بھی بن چکی ہے۔ آج اس نظام نے نجی شعبے اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے لیے بھی ترقی کے بے پناہ امکانات کو جنم دیا ہے۔ آج، ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا علاقہ ہو جس میں ٹیکنالوجی کے ذریعہ مصنوعات اور خدمات کی فراہمی ایک نیا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام تشکیل نہ دے رہی ہو۔ آپ دیکھیں، آج اگر آپ بنگال سے شہد چاہتے ہیں، یا آپ کو آسام سے بانس کی مصنوعات چاہیے، اگر آپ کیرالہ سے جڑی بوٹیاں چاہتے ہیں، یا اگر آپ مقامی ریستوراں سے اپنی پسندیدہ چیز کھانے کے لیے کچھ منگوانا چاہتے ہیں، یا پھر، آپ کو قانون کے بارے میں مشورہ چاہیے، صحت کے لیے کوئی مشورہ چاہیے یا گاؤں میں بیٹھے نوجوان کو شہر کے کسی استاد سے کلاس لینی پڑے! ڈیجیٹل انڈیا نے وہ سب کچھ ممکن بنا دیا ہے جس کا ہم چند سال پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
ساتھیوں
ڈیجیٹل معیشت آج ہماری معیشت کی، ہماری اسٹارٹ اپ دنیا کی، میک ان انڈیا اور خود انحصار ہندوستان کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ آج ہماری چھوٹی صنعتیں، ہماری ایم ایس ایم ای بھی جیم (جی ای ایم)جیسے نظام کے ذریعہ سرکاری ٹینڈر میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ انہیں کاروبار کے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ اب تک، جی ای ایم پر 2.5 لاکھ کروڑ روپے کے آرڈر کیے جا چکے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں، اس سے ملک کی مقامی معیشت کو، ووکل فار لوکل کے مشن کو کتنا بڑا فائدہ ہوا ہوگا۔ ڈیجیٹل بینکنگ اکائیوں کے ذریعہ اب اس سمت میں بہت سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ہمیں اس سمت میں اختراعات کرنی ہوں گی، نئی سوچ کے ساتھ نئے مواقع کا استقبال کرنا ہوگا۔
ساتھیوں،
کسی بھی ملک کی معیشت اتنی ہی ترقی کرتی ہے جتنا اس کا بینکنگ سسٹم مضبوط ہوتا ہے۔ آج ہندوستان کی معیشت ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہو رہا ہےکیونکہ ان 8 سالوں میں ملک 2014 سے پہلے کے فون بینکنگ سسٹم سے ڈیجیٹل بینکنگ کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ 2014 سے پہلے فون بینکنگ، آپ کو اچھی طرح یادہوگا اور سمجھ گئے ہوں گے، بینکوں کو اوپر سے کالیں آتی تھیں، اور طے ہوتا تھا کہ بینک کیسے کام کریں، کس کو پیسے دیں! اس فون بینکنگ کی سیاست نے بینکوں کو غیر محفوظ بنادیا، گڑھے میں ڈال دیا، ملک کی معیشت کو غیر محفوظ بنا دیا، ہزاروں کروڑوں کے گھوٹالے کے بیج، مسلسل گھوٹالوں کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ لیکن اب ڈیجیٹل بینکنگ سے سب کچھ شفاف طریقے سے ہو رہا ہے۔ ہم نے این پی اے کی شناخت میں شفافیت لانے کی سمت میں کام کیا۔ لاکھوں کروڑوں روپے بینکنگ سسٹم میں واپس آئے۔ ہم نے بینکوں میں دوبارہ سرمایہ کاری کی، جان بوجھ کر نادہندگان کے خلاف کارروائی کی، بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ میں اصلاحات کیں۔ آئی بی سی کی مدد سے این پی اے سے متعلق مسائل کے حل کو تیز کیا گیا۔ ہم نے قرضوں کے لیے ٹیکنالوجی اور تجزیات کے استعمال کو بھی فروغ دیا، تاکہ ایک شفاف اور سائنسی نظام بنایا جا سکے۔ بینکوں کے انضمام جیسے اہم فیصلے پالیسی فالج زدہ تھے ، ملک نے انہیں بھی اتنی ہی مضبوطی سے لیا ۔ آج فیصلے کیے ، قدم اٹھائے۔ ان فیصلوں کے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ دنیا تعریف کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگاکائیوں اور فن ٹیک کے اختراعی استعمال کے ذریعہ اب بینکنگ سسٹم کے لیےنیا خود کار طریقہ کار تیار ہو رہا ہے۔اس میں صارفین کے لیے جتنی خود مختاری ہے، بینکوں کے لیے بھی اتنی ہی سہولت اور شفافیت ہے۔ میں چاہوں گا کہ اس طرح کے انتظامات کو مزید جامع کیسے بنایا جائے، اسے بڑے پیمانے پر کیسے آگے بڑھایا جائے، اس سمت تمام شراکت دار کام کریں۔ ہمارے تمام بینکوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ڈیجیٹل سسٹم سے جوڑنے کا ہونا چاہیے۔ میں آپ سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ خاص طور پر میں اپنے بینکنگ سیکٹر کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ اور بینکوں سے جڑے ہوئے، گاؤں گاؤں پھیلے ہوئے چھوٹے تاجروں، چھوٹے تاجروں سے، میں آپ دونوں سے درخواست کرتا ہوں اور جب آزادی کا امرت کال ہے ، میں آپ سے ملک کے لیے یہ درخواست کرکے مجھے امید ہے کہ آپ اسے پورا کریں گے۔ کیا ہمارے بینکوں اور چھوٹے تاجرایک ساتھ مل کر ایک کام کر سکتے ہیں کیا؟ ہمارے بینک کی بینک برانچ چاہے وہ شہر میں ہو یا گاؤںمیں ہو، وہ اپنے علاقے کے کم از کم 100 تاجر ہیں ، میں زیادہ نہیں کہہ رہا ہوں، صرف 100 تاجرکو مکمل طور پر ڈیجیٹل لین دین کے نظام، 100 فیصد ڈیجیٹل لین دین والے نظام، اگر ہمارے 100 تاجر آپ کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہم انقلاب کی کتنی بڑی بنیادتیار کرتے ہیں۔
بھائیو بہنو،
یہ ملک کے لیے ایک بڑی شروعات ہو سکتی ہے۔ میں درخواست کر سکتا ہوں، اس کے لیے کوئی قانون نہیں بنا سکتا، اصول نہیں بنا سکتا، اور جب آپ اس کا فائدہ دیکھیں گے تو مجھے دوبارہ 100 سے 200 کرنے کے لیے کسی کو قائل نہیں کرنا پڑے گا۔
ساتھیوں،
ہر برانچ 100 تاجروں کو اپنے ساتھ جوڑنے کاہدف رکھے۔ آج جن دھن اکاؤنٹ کی کامیابی کیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بینک کی برانچ میں بیٹھے ہمارے چھوٹے موٹے ساتھی ہیں، ہمارے ملازمین، وہ اس وقت جو محنت کی ، وہ غریبوں کی جھونپڑی میں جایا کرتے تھے۔ ہفتہ اتوار بھی کام کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے جن دھن کامیاب ہوا۔ اس وقت جن بینکوں کے ساتھیوں نے جن دھن کو کامیاب بنایا، آج ملک اس کی طاقت دیکھ رہا ہے۔ اگر آج جو لوگ بینک کے نظام کو دیکھتےہیں، جو برانچ کو سنبھالتے ہیں، وہ اپنے علاقے کے اپنے بینک کی کمانڈ ایریا کے 100 تاجروں کو تحریک دیں، تعلیم دیں، شامل کریں۔ ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے کی قیادت آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شروعات ہمارے بینکنگ سسٹم اور معیشت کو ایک ایسے مقام پر لے جائے گا جو مستقبل کے لیے تیار ہو ، اور اس میں عالمی معیشت کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ انہی نیک خواہشات کے ساتھ، میں ہندوستان کی وزیر خزانہ، ہندوستان کی وزارت خزانہ، آر بی آئی گورنر، آر بی آئی کی ٹیم، ہمارے بینکنگ سیکٹر سے وابستہ تمام چھوٹےموٹے دوست، آج آپ سب میری طرف سے بہت بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کیونکہ آپ نے ملک کو ایک بہت بڑا تحفہ دیا ہے۔ اور ملک کے عوام کے لیے یہ انمول تحفہ، دیوالی سے پہلے اس اہم تحفے کے لیے اور آزادی کے 75 سال اور 75 ڈیجیٹل بینکنگ یونٹ اپنے آپ میں ایک خوش کن اتفاق ہے۔ نیک خواہشات، بہت بہت شکریہ!