وزیراعظم نے برہم کماریوں کے سات اقدامات کا آغاز کیا
’’ہم ایک ایسے ہندوستان کو ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جس کی سوچ اور رسائی اختراعی اور جس کے فیصلے ترقی پذیر ہیں‘‘
’’آج ہم ایک ایسا نظام وضع کر رہے ہیں، جس میں تفریق کے لئے کوئی مقام نہیں، ہم ایسے معاشرے کی تعمیر کر رہے ہیں جو مساوات اور سماجی انصاف کی بنیاد پر مستحکم کھڑا ہے‘‘
’’جب دنیا گھنیرے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی اور خواتین کے بارے میں پرانی سوچ میں جکڑی ہوئی تھی، ہندوستان، خواتین کی ماترو شکتی اور دیوی کے طور پر پوجا کرتا تھا‘‘
’’امرت کال سوتے ہوئے خواب دیکھنے کے لئے نہیں ہیں، بلکہ اپنے عزائم کو جی جان سے پورا کرنے کے لئے ہے۔ آنے والے 25 سال انتہائی سخت محنت، قربانی اور ’تپسیا‘ کی مدت کے ہیں۔ 25 سال کی یہ مدت وہ سب واپس حاصل کرنے کے لئے ہے جو ہمارے معاشرے میں غلامی کے سینکڑوں برس میں گنوایا ہے‘‘
’’ہم سب کو، ملک کے ہر ایک شہری کے دل میں ایک لو روشن کرنی ہے – جو فرض کی لو ہے۔ ساتھ مل کر ہم سب ملک کو فرض کی راہ پر آگے بڑھائیں گے ، اس کے بعد سوسائٹی میں موجود برائیوں کو ختم کیا جائے گا اور ملک اعلیٰ بلندیاں حاصل کرے گا‘‘
’’آج جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو تقریبات منارہے ہیں، تو یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ دنیا ، ہندوستان کے بارے میں باقاعدہ جانے‘‘

نسمتے، اوم شانتی،

پروگرام میں ہمارے ساتھ وجود لوک سبھا کے اسپیکر جناب اوم برلا جی، راجستھان کے گورنر جناب کلراج مشرا جی، راجستھان کے وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی جناب کشن ریڈی جی، بھوپیندر یادو جی، ارجن رام میگھوال جی، پرشوتم روپالا جی اور جناب کیلاش چودھری جی، راجستھان اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر جناب گلاب چند کٹاریہ جی، برہما کماریز کے ایگزیکٹیو سکریٹری راج یوگی مرتینوجے جی، راج یوگنی بہن موہنی جی، بہن چندریکا جی، برہماکماریز کی دیگر سبھی بہنیں، خواتین و حضرات اور یہاں موجود سبھی سادھک و سادھکائیں!

کچھ ایسی جگہیں ہوتی ہیں جن میں اپنا ایک الگ شعور ہوتا ہے، توانائی کا اپنا ہی ایک الگ بہاؤ ہوتا ہے۔ یہ توانائی ان عظیم شخصیتوں کی ہوتی ہے جن کی تپسیا سے جنگل، پہاڑ  بھی بیدار ہو اٹھتے ہیں، انسانی تحریکات کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ماؤنٹ آبو کی رونق بھی دادا لیکھراج اور ان جیسے متعدد کامل شخصیات کی وجہ سے مسلسل بڑھتی رہی ہے۔

آج اس مقدس مقام سے برہما کماری  سنستھا کے ذریعے آزادی کے امرت مہوتسو سے سورنم بھارت کی اور، ایک بہت بڑی مہم کا آغاز ہورہا ہے۔ اس پروگرام میں سنہرے بھارت کے لئے جذبات بھی ہیں، سادھنا بھی ہے۔ اس میں ملک کے لئے تحریک بھی ہے، برہماکماریوں کی کوشش بھی ہے۔

میں ملک کے عزائم کے ساتھ، ملک کے خوابوں کے ساتھ مسلسل جڑے رہنے کے لئے برہماکماری کنبہ کا بہت بہت خیرمقدم کرتا ہوں۔ آج کے اس پروگرام میں دادی جانکی، راجیوگنی دادی ہردے موہنی جی بنفس نفیس ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ مجھ پر ان کا بہت کرم تھا۔ آج کے اس پروگرام پر میں ان کا آشیرواد بھی محسوس کررہا ہوں۔

ساتھیو،

جب عزم کے ساتھ سادھنا جڑ جاتی ہے، جب انسان کے ساتھ ہمارا جذبہ جڑتا ہے، اپنی ذاتی حصول یابیوں کے لئے ’اِدہ نا ممہ‘ یہ جذبہ جگانے لگتا ہے، تو سمجھئے، ہمارے عزائم کے ذریعے ایک نئے عہد کا جنم ہونے والا ہے، ایک نیا سویرا ہونے والا ہے۔ خدمت اور قربانی کا یہی لافانی جذبہ آج امرت مہوتسو میں نئے بھارت کے لئے امڈ رہا ہے۔ اسی قربانی اور جذبہ فرض شناسی سے کروڑوں اہل وطن آج سنہرے بھارت کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

ہمارے اور ملک کے سپنے الگ الگ نہیں ہیں، ہماری نجی اور قومی کامیابیاں الگ الگ نہیں ہیں۔ قوم کی ترقی میں ہی ہماری ترقی ہے۔ ہم سے ہی قوم کا وجود ہے اور قوم سے ہی ہمارا وجود ہے۔ یہ جذبہ، یہ شعور نئے بھارت کی تعمیر میں ہم بھارت کے باشندوں کی سب سے بڑی طاقت بن رہا ہے۔

آج ملک جو کچھ کررہا ہے اس میں سب کی کوشش شامل ہے۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس‘ یہ سب ملک کا بنیادی اصول بن رہا ہے۔ آج ہم ایک ایسا نظام بنارہے ہیں جس میں تفریق کی کوئی جگہ نہ ہو، ایک ایسا سماج بنارہے ہیں جو مساوات اور سماجی انصاف کی بنیاد پر مضبوطی سے کھڑا ہو ، ہم ایک ایسے بھارت کو ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، جس کی سوچ اور اپروچ نئی ہے، جس کے فیصلے ترقی پسندانہ ہیں۔

ساتھیو،

بھارت کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ کیسا بھی وقت آئے، کتنا بھی اندھیرا چھائے، بھارت اپنی اصل فطرت کو بنائے رکھتا ہے۔ ہماری صدیوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ دنیا جب تاریکی کے گہرے دور میں تھی، خواتین کے تعلق سے پرانی سوچ میں جکڑی تھی، تب بھارت ماتری شکتی کی پوجا، دیوی کی شکل میں کرتا تھا۔ ہمارے یہاں گارگی، میتریہ، انوسویا، اروندھتی اور مدالسا جیسی خواتین سماج کو علم دیتی تھیں۔ دشواریوں سے بھرے عہد وسطیٰ میں بھی اس ملک میں پنّادھائے اور میرا بائی جیسی عظیم خواتین ہوئیں۔ اور امرت مہوتسو میں ملک جس جنگ آزادی کی تاریخ کو یاد کررہا ہے، اس میں بھی کتنی ہی خواتین نے اپنی قربانیاں دی ہیں۔ کتّور کی رانی چینما، متنگنی ہاجرا، رانی لکشمی بائی، ویرانگنا جھلکاری بائی سے لے کر سماجی شعبے میں اہلیابائی ہوکر اور ساوتری بائی پھولے تک، ان دیویوں نے بھارت کی پہچان بنائے رکھی۔

آج ملک لاکھوں مجاہدین آزادی کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں خواتین کے اس تعاون کو یاد کررہا ہے اور ان کے سپنوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اور اسی لئے، آج سینک اسکولوں میں پڑھنے کا بیٹیوں کا سپنا پورا ہورہا ہے۔ اب ملک کی کوئی بھی بیٹی، ملک کی حفاظت کے لئے فوج میں جاکر اہم ذمے داریاں نبھاسکتی ہیں، خواتین کی زندگی اور کیریئر دونوں ایک ساتھ چلیں، اس کے لئے زچگی کے وقت ملنے والی چھٹی کو بڑھانے جیسے فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔

ملک کی جمہوریت میں بھی خواتین کی حصے داری بڑھ رہی ہے۔ 2019 کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح مردوں سے زیادہ خواتین نے ووٹ ڈالے۔ آج ملک کی حکومت میں بڑی بڑی ذمے داریاں خواتین وزراء سنبھال رہی ہیں اور سب سے زیادہ فخر کی بات ہے کہ اب سماج اس بدلاؤ کی قیادت خود کررہا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ ’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ مہم کی کامیابی سے برسوں بعد ملک میں عورت و مرد کا تناسب بھی بہتر ہوا ہے۔ یہ بدلاؤ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ نیا بھارت کیسا ہوگا، کتنا صلاحیت مند ہوگا۔

ساتھیو،

آپ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے رشیوں نے اُپ نشدوں میں ’تمسو ما جیوترگمے، مرتیومارمرتہ گمے‘ کی دعا کی ہے۔ یعنی ہم تاریکی سے روشنی کی جانب بڑھیں۔ موت سے پریشانیوں سے امرت کی جانب بڑھیں۔ امرت اور امرتو یعنی لازوالی کا راستہ بغیر علم کے روشن نہیں ہوتا۔ اس لئے امرت کال کا یہ وقت ہمارے علم، تحقیق اور اختراع کا وقت ہے۔ ہمیں ایک ایسا بھارت بنانا ہے جس کی جڑیں قدیم روایات اور وراثت سے جڑی ہوں گی اور جس کی توسیع جدیدیت کے آسمان میں لامکاں تک ہوگی۔ ہمیں اپنی ثقافت، اپنی تہذیب، اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہے، اپنی روحانیت کو، اپنی رنگارنگی کو محفوظ کرنا ہے اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی،بنیادی ڈھانچہ، تعلیم، صحت نظامات کو مسلسل جدید بھی بنانا ہے۔

ملک کی ان کوششوں میں آپ سبھی کا، برہماکماری جیسے روحانی اداروں کا بڑا رول ہے۔مجھے خوشی ہے کہ آپ روحانیت کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت اور زراعت جیسے کئی شعبو ںمیں کئی بڑے بڑے کام کررہے ہیں۔ اور آج جس مہم کا آغاز کررہے ہیں، آپ اسے ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔ امرت مہوتسو کے لئے آپ نے کئی اہداف بھی طے کئے ہیں۔ آپ کی یہ کوشش ملک کو ضرور ایک نئی توانائی دے گی، نئی طاقت دے گی۔

آج ملک کسانوں کو خوش حال اور خودکفیل بنانے کے لئے نامیاتی کاشت کاری اور نیچرل فارمنگ کی سمت میں کوشش کررہا ہے۔ خورد و نوش اور غذا کے خالص پن کے تعلق سے ہماری برہماکماری بہنیں سماج کو مسلسل بیدار کرتی رہتی ہیں، لیکن معیاری غذا کے لئے معیاری پیداوار بھی ضروری ہے، لہٰذا برہماکماری نیچرل فارمنگ کو فروغ دینے کے لئے قدرتی کاشت کاری کو فروغ دینے کے لئے ایک بڑی تحریک بن سکتی ہیں۔ کچھ گاؤں کو تحریک دے کر ایسے ماڈل کھڑے کئے جاسکتے ہیں۔

اسی طرح صاف ستھری توانائی کے اور ماحولیات کے شعبے میں بھی دنیا کو بھارت سے بہت سی توقعات ہیں۔ آج صاف ستھری توانائی کے کئی متبادل تیار ہورہے ہیں۔ اسے لے کر بھی عوامی بیداری کے لئے بڑی مہم کی ضرورت ہے۔ برہماکماریوں نے تو شمسی توانائی کے شعبے میں، سب کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے۔ کتنے ہی وقت سے آپ کے آشرم کی باورچی خانے میں شمسی توانائی سے کھانا بنایا جارہا ہے۔ شمسی توانائی کا استعمال زیادہ سے زیادہ لوگ کریں اس میں بھی آپ کا بہت تعاون ہوسکتا ہے۔ اسی طرح آپ سبھی خودکفیل بھارت مہم کو بھی رفتار دے سکتے ہیں۔ ووکل فار لوکل، مقامی مصنوعات کو ترجیح دے کر اس مہم میں معاون ہوسکتا ہے۔

ساتھیو،

امرت کال کا یہ وقت، سوتے ہوئے سپنے دیکھنے کا نہیں بلکہ بیدار ہوکر اپنے عزائم کی تکمیل کرنے کا ہے۔ آنے والے 25 سال، محنت کی انتہا، قربانی، تپسیا کے 25 سال ہیں۔ سیکڑوں برسوں کی غلامی میں ہمارے سماج نے جو گنوایا ہے، یہ 25 سال کا دور اسے دوبارہ حاصل کرنے کا ہے۔ اس لئے آزادی کے اس امرت مہوتسو میں ہماری توجہ مستقبل پر بھی مرکوز ہونی چاہئے۔

ساتھیو،

ہمارے سماج میں ایک منفرد صلاحیت ہے۔ یہ ایک ایسا سماج ہے جس میں انتہائی قدیم اور انتہائی جدید نظم ہے۔ حالانکہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ برائیاں افراد میں بھی، سماج میں بھی اور ملک میں بھی داخل ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ بیدار رہتے ہوئے ان برائیوں کو جان لیتے ہیں، وہ ان برائیوں سے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہر ہدف حاصل کرپاتے ہیں۔ ہمارے سماج کی خصوصیت ہے کہ اس میں وسعت بھی ہے، تنوع بھی ہے اور ہزاروں سال کے سفر کا تجربہ بھی ہے۔ اس لئے ہمارے سماج میں، بدلتے ہوئے دور کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے کی ایک الگ ہی قوت ہے، ایک داخلی قوت ہے۔

ہمارے سماج کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ سماج کے اندر سے ہی وقتاً فوقتاً اسے سدھارنے والے پیدا ہوتے ہیں اور وہ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں پر کاری ضرب لگاتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سماجی اصلاح کے ابتدائی برسوں میں اکثر ایسے لوگوں کو مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، کئی بار نظراندازی کا درد بھی سہنا پڑتا ہے، لیکن ایسے کامل لوگ، سماجی اصلاح کے کام سے پیچھے نہیں ہٹتے، وہ غیرمتزلزل رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ سماج بھی ان کو پہچانتا ہے، ان کو احترام دیتا ہے اور ان کی تعلیمات کو اپنے اندر جذب بھی کرتا ہے۔

اس لئے ساتھیو،

ہر دور کی قدروں کی بنیاد پر سماج کو بیدار رکھنا، سماج کو برائیوں سے پاک رکھنا بہت ضروری اور مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ اس وقت کی جو بھی نسل ہوتی ہے، اسے یہ فرض نبھانا ہی ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر ہم لوگ، تنظیم کے طور پر بھی برہماکماری جیسی لاکھوں تنظیمیں یہ کام کررہی ہیں، لیکن ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ آزادی کے بعد کے 75 برسوں میں، ہمارے سماج میں، ہمارے ملک میں ایک برائی سب کے اندر گھر کرگئی ہے۔ یہ برائی ہے، اپنے فرائض سے پہلوتہی کرنا، اپنے فرائض کو مقدم نہ رکھنا۔ گزشتہ 75 برسوں میں ہم صرف حقوق کی بات کرتے رہے، حقوق کے لئے جھگڑتے رہے، نبردآزما رہے، وقت بھی کھپاتے رہے۔ حق کی بات، کچھ حد تک، کچھ وقت کے لئے، کسی ایک حالت میں صحیح ہوسکتی ہے، لیکن اپنے فرائض کو پوری طرح بھول جانا، اس بات نے بھارت کو کمزور رکھنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔

بھارت نے اپنا بہت بڑا وقت اس لئے گنوایا ہے، کیونکہ فرائض کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ان 75 برسوں میں فرائض کو دور رکھنے کی وجہ سے جو خلیج پیدا ہوئی ہے، صرف حق کی بات کرنے کی وجہ سے سماج میں جو کمی آئی ہے، اس کی بھرپائی ہم مل کرکے آنے والے 25 برسوں میں، فرائض کی تکمیل کرکے پوری کرسکتے ہیں۔

برہماکماری جیسے ادارے آنے والے 25 سال کے لئے، ایک اصول بناکر بھارت کے ایک ایک فرد کو فرض کے تئیں بیدار کرکے بہت بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ برہماکماری اور آپ جیسے سبھی سماجی ادارے اس ایک اصول پر ضرور کام کریں اور وہ ہے ملک کے شہریوں میں جذبہ فرض شناسی کی توسیع۔ آپ سبھی اپنی طاقت اور وقت ایک ایک شخص میں جذبہ فرض شناسی کو بیدار کرنے پر ضرور لگائیں، اور برہماکماری جیسے ادارے، جس طرح دہائیوں سے فرض کی راہ پر چل رہے ہیں، آپ لوگ یہ کام کرسکتے ہیں۔ آپ لوگ فرض میں رچے بسے، فرض کی تکمیل کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لئے جس جذبے کے ساتھ آپ اپنے ادارے میں کام کرتے ہیں، اس جذبہ فرض شناسی کی توسیع سماج میں ہو، ملک میں ہو، ملک کے لوگوں میں ہو، یہ آزادی کے اس امرت مہوتسو پر آپ کا ملک کو سب سے بہترین تحفہ ہوگا۔

آپ لوگوں نے ایک کہانی ضرور سنی ہوگی۔ ایک کمرے میں اندھیرا تھا تو اس اندھیرے کو ہٹانے کے لئے لوگ اپنے اپنے طریقے سے الگ الگ کام کررہے تھے۔ کوئی کچھ کررہا تھا، کوئی کچھ کررہا تھا، لیکن کسی سمجھدار نے جب ایک چھوٹا سا چراغ روشن کیا تو اندھیرا فوراً دور ہوگیا۔ ویسی ہی طاقت فرض کی ہے۔ ویسی ہی طاقت چھوٹی سی کوشش کی بھی ہے۔ ہم سبھی کو، ملک کے ہر شہری کے دل میں ایک شمع جلانا ہے۔ فرض کی شمع جلانا ہے۔

ہم سبھی مل کر ملک کو فرض کی راہ پر آگے بڑھائیں گے، تو سماج میں پھیلی ہوئی برائیاں بھی دور ہوں گی اور ملک نئی بلندیوں پر بھی پہنچے گا۔ بھارت کی سرزمین کو پیار کرنے والا، اس سرزمین کو ماں ماننے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جو ملک کو نئی بلندیوں پر نہ لے جانا چاہتا ہوں۔ درجہ بدرجہ لوگوں کی زندگی میں خوش حالی نہ لانا چاہتا ہو، اس کے لئے ہمیں فرض پر زور دینا ہی ہوگا۔

ساتھیو،

آج کے اس پروگرام میں، میں ایک اور موضوع کو اٹھانا چاہتا ہوں۔ آپ سبھی اس بات کے گواہ رہے ہیں کہ بھارت کی شبیہ کو داغدار کرنے کے لئے کس طرح الگ الگ کوششیں چلتی رہتی ہیں۔ اس میں بین الاقوامی سطح پر بھی بہت کچھ چلتا رہتا ہے۔ اس سے ہم یہ کہہ کر پلہ نہیں جھاڑ سکتے کہ یہ صرف سیاست ہے۔ یہ سیاست نہیں ہے، یہ ہمارے ملک کا سوال ہے۔ اور جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منارہے ہیں تو یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ دنیا بھارت کو صحیح شکل میں جانے۔

ایسے ادارے جن کی بین الاقوامی شعبے میں دنیا کے کئی ملکوں میں موجودگی ہے، وہ دوسرے ملکوں کے لوگوں تک بھارت کی صحیح بات کو پہنچائیں، بھارت کے بارے میں جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، ان کی سچائی وہاں کے لوگوں کو بتائیں، انھیں بیدار کریں، یہ بھی ہم سب کا فرض ہے۔ برہماکماری جیسے ادارے اسی کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اور کوشش کرسکتے ہیں۔ جہاں جہاں جن ملکوں میں آپ کی شاخیں ہیں وہاں کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں کی ہر شاخ سے ہر سال کم از کم 500 لوگ بھارت کو دیکھنے کے لئے آئیں۔ بھارت کو جاننے کے لئے آئیں۔ اور یہ 500 لوگ، جو ہندوستان کے لوگ وہاں رہتے ہیں، وہ نہیں، اس ملک کے شہری ہونے چاہئیں۔ اصل بھارتیوں کی میں بات نہیں کررہا ہوں۔ آپ دیکھئے گا، اگر اس طرح سے لوگوں کا آنا ہوا، ملک کو دیکھیں گے، یہاں کی ہر بات کو سمجھیں گے تو اپنے آپ بھارت کی اچھائیوں کو دنیا میں لے کرکے جائیں گے۔ آپ کی کوششوں سے اس میں کتنا بڑا فرق پڑجائے گا۔

ساتھیو،

پرمارتھ (دوسروں کا بھلا کرنا، صدقہ، چیریٹی) کی خواہش تو ہر ایک کی رہتی ہے۔ لیکن ایک بات ہم نہ بھولیں کہ پرمارتھ اور اَرتھ (دولت) جب ایک ساتھ جڑتے ہیں تو کامیاب زندگی، کامیاب سماج، اور کامیاب ملک کی تعمیر اپنے آپ ہوسکتی ہے۔ اَرتھ اور پرمارتھ کے اس تال میل کی ذمے داری ہمیشہ سے بھارت کے روحانی قوت کے پاس رہی ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ بھارت کی روحانی طاقت، آپ سبھی بہنیں یہ ذمے داری اسی پختگی کے ساتھ نبھائیں گی۔ آپ کی یہ کوشش ملک کے دیگر اداروں، دیگر تنظیموں کو بھی آزادی کے امرت مہوتسو میں نئے اہداف کے تعین کے لئے تحریک دیں گی۔ امرت مہوتسو کی طاقت، جن جن کا من ہے، جن جن کی خودسپردگی ہے۔ آپ کی کوششوں سے بھارت آنے والے وقت میں اور بھی تیز رفتاری سے سنہرے بھارت کی جانب بڑھے گا۔

اسی یقین کے ساتھ، آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ!

اوم شانتی!

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।