مسکار،
پروگرام میں موجود ملک کے وزیر داخلہ جناب امت بھائی شاہ، انڈمان اور نکوبار کے لیفٹیننٹ گورنر، چیف آف ڈیفنس اسٹاف، ہماری تینوں افواج کے سربراہان ، بھارتی کوسٹ گارڈ کےڈائریکٹر جنرل ، انڈمان اور نکوبار کمان کے کمانڈر ان چیف و دیگر عہدیدار ، پرم ویر چکر پانے والے بہادر جوانوں کے اہل خانہ ، دیگر اہم شخصیات ، خواتین اور حضرات!
آج نیتا جی سبھاش کا یوم پیدائش ہے، ملک اس تحریک کے دن کو یوم بہادری کے طور پر مناتا ہے۔ پراکرم دیوس کے موقع پر تمام ہم وطنوں کو بہت سی نیک خواہشات۔ آج یوم بہادری پر جزائر انڈمان اور نکوبار میں نئی صبح کی کرنیں ایک نئی تاریخ لکھ رہی ہیں۔ اور جب تاریخ بنتی ہے تو آنے والی صدیاں بھی اسے یاد رکھتی ہیں، اس کا تجزیہ کرتی ہیں، اس کا جائزہ لیتی ہیں اور ترغیب حاصل کرتی رہتی ہیں۔ آج انڈمان اور نکوبار کے 21 جزائر کا نام رکھا گیا ہے۔ ان 21 جزیروں کو اب پرم ویر چکر پانے والوں کے نام سے جانا جائے گا۔ آج اس جزیرے پر جہاں نیتا جی سبھاش چندر بوس رہتے تھے، ان کی زندگی اور ان کے تعاون کو وقف ایک ترغیباتی یادگار کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ آنے والی نسلیں اس دن کو آزادی کے سنہری دور کے ایک اہم باب کے طور پر یاد رکھیں گی۔ نیتا جی کی یہ یادگار، شہیدوں اور بہادر سپاہیوں کے نام پر یہ جزیرے، ہمارے نوجوانوں کے لیے، آنے والی نسلوں کے لیے ایک مسلسل ترغیب کا مقام بنیں گے۔ میں انڈمان اور نکوبار جزائر کے لوگوں اور تمام ہم وطنوں کو اس کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ میں نیتا جی سبھاش اور پرم ویر چکر پانے والے بہادروں کو عقیدت کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
بھائیو اور بہنو،
انڈمان کی یہ سرزمین وہ سرزمین ہے جس کے آسمان پر پہلی بار آزاد ترنگا لہرایا گیا تھا۔ اس سرزمین پر پہلی آزاد بھارتی حکومت قائم ہوئی تھی۔ اس سب کے ساتھ، انڈمان کی اسی سرزمین پر ویر ساورکر اور ان جیسے ان گنت بہادروں نے ملک کے لیے جدوجہد اور قربانیوں کے عروج کو حاصل کیا تھا۔ سیلولر جیل کی کوٹھریاں، اس دیوار پر جڑی ہر چیز، انتہائی درد کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی جذبے کی آوازیں وہاں پہنچنے والے ہر کسی کے کانوں میں سنائی دیتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جدوجہد آزادی کی ان یادوں کے بجائے انڈمان کی شناخت غلامی کی علامتوں سے وابستہ کر دی گئی۔ ہمارے جزائر کے ناموں تک میں غلامی کی چھاپ تھی، پہچان تھی۔ میری خوش قسمتی ہے کہ جب میں چار پانچ سال پہلے پورٹ بلیئر گیا تو وہاں کے تین بڑے جزیروں کو بھارتی نام دینے کا موقع ملا۔ آج راس آئی لینڈ نیتا جی سبھاش چندر بوس آئی لینڈ بن چکا ہے۔ ہیولاک اور نیل جزائر سوراج اور شہید جزائر بن چکے ہیں۔ اور اس میں بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ سوراج اور شہید کے نام خود نیتا جی کا دیا وہا تھا ۔ اس نام کو بھی آزادی کے بعد اہمیت نہیں دی گئی۔ جب آزاد ہند فوج کی حکومت نے 75 سال مکمل کیے تو ہماری حکومت نے ان ناموں کو پھر قائم کیا تھا ۔
ساتھیوں،
آج 21ویں صدی کا یہ وقت مشاہدہ کر رہا ہے کہ کیسے نیتا جی سبھاش کو آزادی کے بعد بھلا دینے کی کوشش کی گئی ، آج ملک اسی نیتا جی کو ہر لمحہ یاد کر رہا ہے۔ انڈمان میں جس جگہ نیتا جی نے پہلی بار ترنگا لہرایا تھا، آج آسمان سے بلند ترنگا آزاد ہند فوج کی بہادری کی تعریف کر رہا ہے۔ جب ملک بھر سے اور ملک کے کونے کونے سے لوگ یہاں آتے ہیں تو سمندر کے کنارے لہراتے ترنگے کو دیکھ کر ان کا دل حب الوطنی کے جوش سے بھر جاتا ہے۔ اب انڈمان میں ان کی یاد میں جو میوزیم اور میموریل بننے جا رہا ہے وہ انڈمان کے سفر کو اور بھی یادگار بنا دے گا۔ 2019 میں نیتا جی سے متعلق ایسے ہی ایک میوزیم کا دلی کے لال قلعے میں افتتاح بھی کیا گیا۔ آج لال قلعہ کا دورہ کرنے والے لوگوں کے لیے وہ میوزیم ہر نسل کے لیے تحریک دینے والے مقام کی طرح ہے۔ اسی طرح بنگال میں ان کے 125ویں سالگرہ پر خصوصی پرورگرام منعقد کیے گئے تھے، ملک نے اس دن کو بڑے دھوم دھام سے منایا تھا۔ ان کے یوم پیدائش کو بہادری کا دن قرار دیا گیا۔ یعنی بنگال سے لے کر دہلی اور انڈمان تک، ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جو نیتا جی کو سلام نہ کر رہا ہو، ان کی وراثت کی قدر نہ کر رہا ہو۔
ساتھیو،
گزشتہ 8-9 سالوں میں ملک میں نیتا جی سبھاش چندر بوس سے متعلق کئی ایسے کام ہوئے ہیں، جو آزادی کے فوراً بعد ہونے چاہیے تھے۔ لیکن اس وقت ایسا نہیں ہوا۔ ملک کے ایک حصے پر بھارت کی پہلی حکومت 1943 میں بھی بنی تھی، اب ملک اس بار کو زیادہ فخر سے قبول کر رہا ہے۔ جب آزاد ہند حکومت کے قیام کے 75 سال مکمل ہوئے تو ملک نے لال قلعہ پر پرچم لہرا کر نیتا جی کو سلام پیش کیا۔ کئی دہائیوں سے نیتا جی کی زندگی سے متعلق فائلوں کو عام کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ملک نے اس کام کو پورے احترام کے ساتھ آگے بڑھایا۔ آج ہمارے جمہوری اداروں کے سامنے، فرض کی راہ پر بھی، نیتا جی بوس کا عظیم الشان مجسمہ ہمیں ہمارے فرائض کی یاد دلا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ کام ملک کے مفاد میں بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھے۔ کیونکہ جن ممالک نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ہیرو اور ہیروئنوں کو عوام سے جوڑا، مشترکہ اور قابل نظریات پیدا کیے، وہ ترقی اور قوم کی تعمیر کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ۔ اس لیے یہ وہ کام ہے جو بھارت آزادی کے امرت کال میں کر رہا ہے، پورے جی جان سے کر رہا ہے۔
ساتھیو،
جن 21 جزائروں کو آج نیا نام دیا گیا ہے ان کے نام رکھنے میں بھی سنجیدہ پیغامات پوشیدہ ہیں ۔ یہ پیغام ہے - 'ایک بھارت، سریشٹھ بھارت' کا جذبہ ۔ یہ پیغام ہے- 'ملک کے لیے دی گئی قربانی کے لازوال ہونے کا پیغام'۔ ویام امرتیا پتر۔ اور، یہ پیغام ہے - بھارتی فوج کی منفرد بہادری اور بہادری کا پیغام۔ 21 پرم ویر چکر پانے والوں کے نام پر ان جزیروں کو جب جانا جائے گا ، انہوں نے مادر وطن کے ذرے ذرے کو اپنا سب کچھ مانا تھا۔ انہوں نے بھارت ماں کی تحفظ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے ان بہادر سپاہیوں کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے تھا۔ وہ مختلف زبان، لہجے اور طرز زندگی کے تھے۔ لیکن، ماں بھارتی کی خدمت اور مادر وطن کے لیے اٹوٹ محبت انہیں ایک کرتی تھی ، جوڑتی تھی ، ایک بناتی تھی۔ ایک ہدف ، ایک راہ، ایک مقصد اور مکمل لگن۔
ساتھیو،
جس طرح سمندر مختلف جزیروں کو جوڑتا ہے، اسی طرح 'ایک بھارت، جنابشٹھ بھارت' کا احساس بھارت کے ہر بچے کو متحد کرتا ہے۔ میجر سومناتھ شرما، پیرو سنگھ، میجر شیطان سنگھ سے لے کر کیپٹن منوج پانڈے، صوبیدار جوگندر سنگھ اور لانس نائیک البرٹ ایکا تک، ویر عبدالحمید اور میجر راما سوامی پرمیشورن سے لے کر تمام 21 پرم ویروں تک، سب کا ایک ہی عزم تھا - سب سے پہلے قوم! بھارت پہلے! ان کی یہ قرارداد اب ان جزائر کے نام ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی ہے۔ انڈمان میں ایک پہاڑی بھی کیپٹن وکرم کے نام پر وقف کی جا رہی ہے جنہوں نے کارگل جنگ میں 'یہ دل مانگے مور' کی فتح کا اعلان کیا تھا۔
بھائی بہنو،
انڈمان اور نکوبار کے جزیروں کا یہ نام تبدیل کرنا نہ صرف ان پرم ویر چکر جیتنے والوں کے لیے ایک احترام ہے، بلکہ بھارتی افواج کے لیے بھی ایک احترام ہے۔ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب، دور دور تک، سمندر ہو یا پہاڑ، علاقہ ویران ہو یا ناقابل رسائی، ملک کے ہر ذرے کی حفاظت کے لیے ملکی افواج تعینات ہیں۔ آزادی کے وقت سے ہی ہماری فوجوں کو جنگوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر موقع پر، ہر محاذ پر ہماری افواج نے اپنی بہادری کا لوہا منوایا ہے۔ یہ ملک کا فرض تھا کہ جن سپاہیوں نے ان قومی دفاعی آپریشنز میں اپنے آپ کو وقف کیا، فوج کی خدمات کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جائے۔ آج ملک اس فرض اور اس ذمہ داری کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ آج ملک سپاہیوں اور فوجوں کے نام سے پہچانا جا رہا ہے۔
ساتھیوں،
انڈمان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں پانی، فطرت، ماحول، کوشش، بہادری، روایت، سیاحت، روشن خیالی اور الہام سب کچھ ہے۔ ملک میں ایسا کون ہوگا، جو انڈمان آنا نہیں چاہتا۔ انڈمان میں امکانات بہت زیادہ ہے، یہاں بے پناہ مواقع ہیں۔ ہمیں ان مواقع کو شناخت کرنا ہوگا۔ ہمیں اس صلاحیت کو جاننا ہوگا۔ گزشتہ 8 سالوں میں ملک نے اس سمت میں مسلسل کوششیں کی ہیں۔ کورونا کے دور کے بعد بھی ان کوششوں کے نتائج اب سیاحت کے شعبے میں نظر آرہے ہیں۔ 2014 میں ملک بھر سے جتنے سیاح انڈمان آتے تھے، 2022 میں اس سے تقریباً دوگنا لوگ یہاں آئے ہیں۔ یعنی سیاحوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے تو سیاحت سے متعلق روزگار اور آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی تبدیلی گزشتہ برسوں کے دوران ہوئی ہے۔ پہلے لوگ انڈمان میں صرف قدرتی خوبصورتی، یہاں کے ساحلوں کے بارے میں سوچ کر آتے تھے۔ لیکن، اب یہ شناخت بھی پھیل رہی ہے۔ اب انڈمان سے متعلق آزادی کی تاریخ کے بارے میں بھی تجسس بڑھتا جا رہا ہے۔ اب لوگ یہاں بھی تاریخ کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آرہے ہیں۔ نیز، انڈمان اور نکوبار کے جزائر ہماری بھرپور قبائلی روایت کی سرزمین رہی ہے۔ اپنے ورثے پر فخر کا احساس اس روایت کے لیے بھی کشش پیدا کر رہا ہے۔ اب نیتا جی سبھاش چندر بوس سے متعلق یادگار اور فوج کی بہادری کو خراج عقیدت پیش کرنے سے، ہم وطنوں میں یہاں آنے کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوگا۔ آنے والے وقت میں یہاں سیاحت کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔
ساتھیوں،
کئی دہائیوں سے خود اعتمادی میں کمی اور ہمارے ملک کی سابقہ حکومتوں میں خود اعتمادی کے فقدان کی وجہ سے، خاص طور پر مسخ شدہ نظریاتی سیاست کی وجہ سے، ملک کی صلاحیت کا ہمیشہ غلط تخمینہ لگایا جاتا رہا۔ ہماری ہمالیائی ریاستیں ہوں، خاص طور پر شمال مشرقی ریاستیں، یا انڈمان اور نکوبار جیسے سمندری جزیرے والے علاقے، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ دور دراز، ناقابل رسائی اور غیر متعلقہ علاقے ہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے ایسے علاقوں کو کئی دہائیوں تک نظر انداز کیا گیا، ان کی ترقی کو نظر انداز کیا گیا۔ جزائر انڈمان نکوبار بھی اس کے گواہ رہے ہیں۔ دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں، بہت سے ایسے ترقی یافتہ جزیرے ہیں، جن کا حجم ہمارے انڈمان اور نکوبار جزائر سے بھی کم ہے۔ لیکن، سنگاپور ہو، مالدیپ، سیشلز ہو، یہ ممالک اپنے وسائل کے صحیح استعمال سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ دنیا بھر سے لوگ سیاحت اور کاروبار کے مواقع کے لیے ان ممالک میں آتے ہیں۔ بھارت کے جزیروں میں بھی ایسی ہی صلاحیت موجود ہے۔ ہم بھی دنیا کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ لیکن، اس بات کا پہلے کبھی خیال نہیں رکھا گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ ہمارے یہاں کتنے جزیرے اور جزیرہ نما ہیں، اس کا حساب بھی نہیں رکھا گیا۔ اب ملک اسی سمت بڑھ رہا ہے۔ اب ملک میں قدرتی توازن اور جدید وسائل کو ایک ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ہم نے 'زیر سمندر آپٹیکل فائبر' کے ذریعے انڈمان کو تیز رفتار انٹرنیٹ سے جوڑنے کا کام شروع کیا۔ اب ملک کے دیگر حصوں کی طرح انڈمان میں بھی تیز رفتار انٹرنیٹ دستیاب ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی اور دیگر ڈیجیٹل خدمات بھی یہاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ انڈمان آنے اور جانے والے سیاحوں کو بھی اس سے بڑا فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔
ساتھیوں،
ماضی میں انڈمان اور نکوبار نے جدوجہد آزادی کو ایک نئی سمت دی تھی۔ اسی طرح مستقبل میں یہ خطہ بھی ملک کی ترقی کو ایک نئی تحریک دے گا۔ مجھے یقین ہے، ہم ایک ایسے بھارت کی تعمیر کریں گے جو قابل، باصلاحیت اور جدید ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا۔ اس خواہش کے ساتھ، میں ایک بار پھر نیتا جی سبھاش اور اپنے تمام سجاعت مند سپاہیوں کو تعظیم سلام پیش کرتا ہوں ۔ آپ سب کو بہادری کا دن بہت مبارک ہو!
بہت شکریہ۔