پائیدار توانائی وسائل کے ذریعہ ہی پائیدار ترقی ممکن ہے
جو کچھ بھی اہداف بھارت نے اپنے لئے طے کئے ہیں ، میں انہیں چیلنج کے طور پر نہیں بلکہ موقع کے طور پر سمجھتا ہوں
زیادہ باصلاحیت اورفعال شمسی موڈیول مینوفیکچرنگ کے لئے 19.5 ہزار کروڑروپے کا بجٹ اعلان ، جو شمسی موڈیول اور متعلقہ مصنوعات کی مینوفیکچرنگ اور تحقیق وترقی کے لئے بھارت کو ایک عالمی ہب بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا
بیٹریوں پر انحصار بڑھانے کی پالیسی اور باہم اثر پذیر معیارات سے متعلق اس سال کے بجٹ میں تجاویز شامل کی گئی ہیں، ان سے بھارت میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے استعمال میں درپیش مسائل کم ہوں گے
بجلی کو ذخیرہ کرنے کے چیلنج نے بجٹ میں خاطر خواہ توجہ حاصل کی ہے
دنیا ، ہر طرح کے قدرتی وسائل کو ختم ہوتا دیکھ رہی ہے،اس طرح کی صورتحال میں مدوّر معیشت وقت کا تقاضہ ہے اور ہم کو اسے اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنانا ہے

نئی دہلی، 4 مارچ/ نمسکار

'پائیدار ترقی کے لیے توانائی'، یہ ہماری قدیم روایات سے بھی متاثر ہے اور مستقبل کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کا طریقہ بھی ہے۔ ہندوستان کا واضح وژن ہے کہ پائیدار ترقی صرف پائیدار توانائی کے ذرائع سے ہی ممکن ہے۔ گلاسگو میں، ہم نے 2070 تک خالص صفر تک پہنچنے کا وعدہ کیا ہے۔

میں نے کوپ-26 میں پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینے کے لئے بھی لائف مشن کی بات کہی تھی۔یعنی ماحولیات کے لئے طرز زندگی کا وژن  سامنے رکھا تھا۔ ہم بین الاقوامی شمسی اتحاد جیسے عالمی اشتراک کی بھی قیادت کر رہے ہیں۔ غیر فوسل توانائی کی صلاحیت   میں ہمارا ہدف  اپنے لئے  500 گیگاواٹ ہے۔ 2030 تک، ہمیں اپنی تبصن  شدہ توانائی صلاحیت کا 50 فیصد غیر فوسل توانائی سے حاصل کرنا ہے۔ ہندوستان نے اپنے لیے جو بھی اہداف طے کیے ہیں، میں اسے  میں ایک چیلنج کے طور پر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ہندوستان گزشتہ برسوں سے اسی وژن پر چل رہا ہے اور اس بجٹ میں ان کو  پالیسی کی سطح پر اور آگے بڑھایا گیا ہے۔

ساتھیو!

اس بجٹ میں شمسی توانائی کی سمت میں اعلیٰ کارکردگی والے سولر ماڈیول مینوفیکچرنگ کے لیے ساڑھے 19 ہزار کروڑ روپے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے ہندوستان کو سولر ماڈیول اور متعلقہ مصنوعات کی تیاری اور آر اینڈ ڈی میں عالمی مرکز بنانے میں مدد ملے گی۔

ساتھیو!

ہم نے قومی ہائیڈروجن مشن کا بھی اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کے پاس وافر مقدار میں دستیاب قابل تجدید  توانائی پاور کی شکل میں ایک فطری فائدہ ہے۔ اس سے ہندوستان دنیا میں گرین ہائیڈروجن کا مرکز بن سکتا ہے۔ ہائیڈروجن ایکو سسٹم فرٹیلائزر، ریفائنریاں اور نقل و حمل  سیکٹر سے باہم جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے اختراعات کو فروغ دیا جانا چاہیے، تاکہ ہندوستان کی پوری صلاحیت کو بروئے کار لایا جا سکے۔

ساتھیو!

قابل تجدید توانائی کے ساتھ ایک بڑا چیلنج توانائی کے ذخیرہ کو لے کر بھی ہے۔اس کے لیے بھی حل تلاش کرنے کے لیے بجٹ میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کو برقرار رکھنے کو بڑی ترجیح دی گئی ہے۔ اس سال کے بجٹ میں بیٹری سوئپنگ پالیسی اور انٹر آپریبلٹی اسٹینڈرڈز کے بارے میں بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس سے ہندوستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال میں درپیش مسائل میں کمی آئے گی۔ پلگ ان چارجنگ میں زیادہ وقت اور زیادہ لاگت لگتی ہے۔ چونکہ الیکٹرک گاڑی کی قیمت کا 40-50فی صد بیٹری کی قیمت  ہوتی ہے، اس لیے سوئپنگ کرنے سے الیکٹرک گاڑی کی ابتدائی لاگت کم ہو جائے گی۔ اسی طرح موبائل کی بیٹری ہو یا سولر پاور اسٹوریج، اس میدان میں بھی بہت سے امکانات موجود ہیں۔ ان پر بھی مجھے لگتا ہے کہ ہم سب مل کر کام کر سکتے ہیں۔

ساتھیو!

توانائی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ توانائی کی بچت بھی پائیداری کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔ میرے خیال میں ہمارے ملک میں اور زیادہ کفایتی  بجلی والے اے سی کیسے بنیں اور زیادہ  بجلی کفایتی  ہیٹر ، گیزر، اوون کیسے بنیں، اس بارے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت مجھے  محسوس ہوتی ہے۔ جہاں بھی  بجلی کی کھپت زیادہ ہے، وہاں توانائی کی بچت والی مصنوعات تیار کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ جب  2014 میں ہماری حکومت آئی تو ملک میں ایل ای ڈی بلب کی قیمت 300 سے 400 روپے  ہوا کرتی تھی۔ ہماری حکومت نے ایل ای ڈی بلب کی پیداوار میں اضافہ کیا اور پیداوار بڑھنے کے بعد  فطری تھا کہ اس کی قیمت 70 سے 80 روپے تک  نیچے آئی۔ اُجالا اسکیم کے تحت، ہم نے ملک میں تقریباً 37 کروڑ ایل ای ڈی بلب تقسیم کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے تقریباً اڑتالیس ہزار ملین کلو واٹ آور بجلی کی بچت ہوئی ہے۔ ہمارے غریب اور متوسط طبقے کے لیے سالانہ تقریباً 20 ہزار کروڑ روپے کا بجلی کا بل بھی بچا  ہے۔ اور تقریباً 40 ملین ٹن کاربن کے اخراج میں سالانہ کمی ہوئی ہے۔ ہم نے روایتی اسٹریٹ لائٹس کو بھی 125 کروڑ اسمارٹ ایل ای ڈی بلب سے بدل دیا ہے، اس سے بھی  ہمارے جو مقامی بلدیاتی ادارے  ہیں، میونسپلٹی، میونسپل کارپوریشن، جہاں پنچایتوں میں ایسی اسٹریٹ لائٹس موجود ہیں، اب تک جتنا کام ہوا ہے اس سے میونسپل کارپوریشنوں کو سال کا 6 ہزار  کروڑروپے کے   بجلی کے بل میں بچت ہوئی ہے۔ اس سے بھی بجلی بچی ہےاور تقریباً 50 لاکھ ٹن کاربن کے اخراج میں بھی کمی آئی ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ایک سکیم نے ماحول کو کتنا تحفظ فراہم کیا  ہے۔

ساتھیو،

ہم کوئلے کے متبادل کے طور پر کوئلے سے گیس تیار کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں کوئلے سے گیس تیار کرنے کے لیے 4 پائلٹ پروجیکٹس رکھے گئے ہیں جن میں تکنیکی اور مالیاتی استحکام کو مضبوط بنایا جائے گا۔  اس کے لیے جدت طرازی  کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگ ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کوئلے سے گیس تیار کرنے میں کس طرح جدت لا سکتے ہیں، ہمیں اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

اسی طرح آپ دیکھتے ہیں، ایک بڑے مشن موڈ میں حکومت ایتھنول ملاوٹ کو بھی مسلسل فروغ دے رہی ہے۔ اس بجٹ میں غیر ملاوٹ شدہ ایندھن  Extra Differential Excise Duty کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی چینی ملوں اور ڈسٹلریز کو مزید جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایسے ڈسٹلنگ طریقہ کار پر کام کرنا ہوگا جس سے ہمیں پوٹاش اور کمپریسڈ بائیو گیس جیسے اضافی ضمنی مصنوعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے میں نے وارانسی میں اور کچھ دن پہلے اندور میں بھی گوبردھن پلانٹ کا افتتاح کیا تھا ۔ کیا اگلے دو سالوں میں ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے ایسے 500 یا 1000 گوبردھن پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں؟ صنعت کو اسی طرح ان امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے اختراعی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے۔

ساتھیو،

ہماری توانائی کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی ہندوستان کے لیے اور بھی اہم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں 24-25 کروڑ مکانات ہیں۔ ہم آلودگی سے پاک کھانا پکانے کو کیسے آگے بڑھا سکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں، ہمارے اسٹارٹ اپ کے لوگ بھی اس کام کو بہت آسانی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آپ کے لیے سولر چولہے کے میدان میں بھی ایک بہت بڑا بازار ہے، جو آلودگی سے پاک کھانا پکانے کی تحریک کے لیے ضروری ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا، گجرات میں ایک کامیاب تجربہ کیا گیا، ہم نے پانی کی نہروں پر سولر پینل لگائے، زمین کی قیمت بچ گئی، پانی بھی بچ گیا، بجلی بھی پیدا ہوئی، یعنی ایک ساتھ متعدد فوائد حاصل ہوئے۔ اسی طرح کے تجربات اب ملک کے دیگر مقامات پر دریاؤں اور جھیلوں میں کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔

ایک اور کام گھر پر کیا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں باغ ہے، یا بالکونی ہے، کیا ہمارے ہاں باغبانی کے تصور میں شمسی درخت ہے؟ ہر خاندان ایک نیا تصور تیار کر سکتا ہے کہ ان کا اپنا سولر پیڑ ہو، جو گھر کی 10-15 فیصد، 20 فیصد بجلی میں مدد کر سکتا ہے اور گھر کی پہچان یہ بھی بنے گی کہ یہ سولر پیڑ والا گھر ہے، یعنی ماحولیات سے آگاہ شہریوں کا گھر۔ ہم ایک معاشرے میں ایک خاص معتبر معاشرے کے طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔ اسے بہت آسانی سے اور خوبصورت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لہذا سولر پیڑ کے تصور کے بارے میں، میں اپنی تعمیرات کی دنیا کے لوگوں اور معماروں سے یہ بھی کہوں گا کہ ہم گھر کی تعمیر میں ایک نیا طریقہ شامل کر سکتے ہیں کیا۔

مائیکرو ہائیڈل مصنوعات بھی ہمارے ملک میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ اتراکھنڈ-ہماچل میں ہم دیکھتے ہیں گھراٹ نام کی پن چکی بہت ہوتی ہے۔  مائیکرو ہائیڈل پراڈکٹس پر مزید تحقیق کرکے ہم ا ن کے استعمال سے بجلی کی پیداوار کیسے بڑھا سکتے ہیں، اس پر بھی کام کیا جانا چاہئے۔ دنیا میں ہر قسم کے قدرتی آفت کی قدرتی وسائل کی قلت ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں مدور معیشت  وقت کی ضرورت ہے اور اس کو  زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہی پڑے گا۔ ہمارے لیے ہر شعبے میں اختراع بہت ضروری ہے، نئی مصنوعات ضروری ہیں، اور میں ملک کے نجی شعبے کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت آپ کی کوششوں میں آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔

 ہم متحدہ کوششوں سے اس سمت میں  نہ صرف اپنے اہداف حاصل کریں گے بلکہ پوری انسانیت کی رہنمائی بھی  کریں گے۔

ساتھیو!

میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ  عام طور پر بجٹ  تیار ہونے سے پہلے عموماً بہت زیادہ تبادلہ خیال کیا جاتا ہےہمارے ٹی وی چینلز وغیرہ سب اس میں بہت مصروف ہوتے ہیں، اچھی خاصی غوروفکر ہوتی ہے اور اس کا  بجٹ کو بھی بہت تھوڑا  فائدہ ہوتا ہے۔ بجٹ بنانے میں بہت سے اچھے خیالات  ملتے ہیں۔ لیکن اب ہم نے فوکس کیا ہے، چلو  بجٹ بن گیا ، اب بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی امانت  ہوتاہے، پارلیمنٹ طے کرتی ہے۔ ہمارے پاس دو مہینے  کا وقت ہوتا ہے ۔ یکم اپریل سے بجٹ  پر عمل درآمد کے لئے  ہمارے پاس دو مہینے  کا وقت ہوتا ہے ۔ اس دو مہینے کا استعمال  ہم بجٹ کے نفاذ کے روڈ میپ پر توجہ  کیسے دیں  اور منصوبہ کو بہترین طریقے سے کیسے نافذ کیا جائے۔ بجٹ کو سمجھداری سے کیسے استعمال کیا جائے۔

حکومت کے سوچنے کے انداز اور کاروباری دنیا کے میدان میں کام کرنے کے طریقے میں بہت فرق ہے۔ اس سیمینار سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسٹیک ہولڈرز کی سوچ اور حکومت کے فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی خلاء نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چیزیں بہت تیزی سے نافذ ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھی ایک جملہ ایسی فائل میں آتا ہے کہ پھر اسے درست کرنے میں 6-6، 8-8 ماہ لگ جاتے ہیں۔ بجٹ کا ٹائم ہی پوراہوجاتا ہے۔

ساتھیو،

 

ہم کوئلے کے متبادل کے طور پر کوئلے سے گیس تیار کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں کوئلے سے گیس تیار کرنے کے لیے 4 پائلٹ پروجیکٹس رکھے گئے ہیں جن میں تکنیکی اور مالیاتی استحکام کو مضبوط بنایا جائے گا۔  اس کے لیے جدت طرازی  کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس شعبے میں کام کرنے والے لوگ ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کوئلے سے گیس تیار کرنے میں کس طرح جدت لا سکتے ہیں، ہمیں اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

 

اسی طرح آپ دیکھتے ہیں، ایک بڑے مشن موڈ میں حکومت ایتھنول ملاوٹ کو بھی مسلسل فروغ دے رہی ہے۔ اس بجٹ میں غیر ملاوٹ شدہ ایندھن  Extra Differential Excise Duty کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہمیں اپنی چینی ملوں اور ڈسٹلریز کو مزید جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایسے ڈسٹلنگ طریقہ کار پر کام کرنا ہوگا جس سے ہمیں پوٹاش اور کمپریسڈ بائیو گیس جیسے اضافی ضمنی مصنوعات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

 

کچھ ہفتے پہلے میں نے وارانسی میں اور کچھ دن پہلے اندور میں بھی گوبردھن پلانٹ کا افتتاح کیا تھا ۔ کیا اگلے دو سالوں میں ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے ایسے 500 یا 1000 گوبردھن پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں؟ صنعت کو اسی طرح ان امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے اختراعی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت مجھے محسوس ہوتی ہے۔

 

ساتھیو،

 

ہماری توانائی کی مانگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی ہندوستان کے لیے اور بھی اہم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں 24-25 کروڑ مکانات ہیں۔ ہم آلودگی سے پاک کھانا پکانے کو کیسے آگے بڑھا سکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں، ہمارے اسٹارٹ اپ کے لوگ بھی اس کام کو بہت آسانی سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔ آپ کے لیے سولر چولہے کے میدان میں بھی ایک بہت بڑا بازار ہے، جو آلودگی سے پاک کھانا پکانے کی تحریک کے لیے ضروری ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا، گجرات میں ایک کامیاب تجربہ کیا گیا، ہم نے پانی کی نہروں پر سولر پینل لگائے، زمین کی قیمت بچ گئی، پانی بھی بچ گیا، بجلی بھی پیدا ہوئی، یعنی ایک ساتھ متعدد فوائد حاصل ہوئے۔ اسی طرح کے تجربات اب ملک کے دیگر مقامات پر دریاؤں اور جھیلوں میں کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔

 

ایک اور کام گھر پر کیا جا سکتا ہے۔ جس گھر میں باغ ہے، یا بالکونی ہے، کیا ہمارے ہاں باغبانی کے تصور میں شمسی درخت ہے؟ ہر خاندان ایک نیا تصور تیار کر سکتا ہے کہ ان کا اپنا سولر پیڑ ہو، جو گھر کی 10-15 فیصد، 20 فیصد بجلی میں مدد کر سکتا ہے اور گھر کی پہچان یہ بھی بنے گی کہ یہ سولر پیڑ والا گھر ہے، یعنی ماحولیات سے آگاہ شہریوں کا گھر۔ ہم ایک معاشرے میں ایک خاص معتبر معاشرے کے طور پر ترقی کر سکتے ہیں۔ اسے بہت آسانی سے اور خوبصورت بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لہذا سولر پیڑ کے تصور کے بارے میں، میں اپنی تعمیرات کی دنیا کے لوگوں اور معماروں سے یہ بھی کہوں گا کہ ہم گھر کی تعمیر میں ایک نیا طریقہ شامل کر سکتے ہیں کیا۔

 

مائیکرو ہائیڈل مصنوعات بھی ہمارے ملک میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ اتراکھنڈ-ہماچل میں ہم دیکھتے ہیں گھراٹ نام کی پن چکی بہت ہوتی ہے۔  مائیکرو ہائیڈل پراڈکٹس پر مزید تحقیق کرکے ہم ا ن کے استعمال سے بجلی کی پیداوار کیسے بڑھا سکتے ہیں، اس پر بھی کام کیا جانا چاہئے۔ دنیا میں ہر قسم کے قدرتی آفت کی قدرتی وسائل کی قلت ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں مدور معیشت  وقت کی ضرورت ہے اور اس کو  زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہی پڑے گا۔ ہمارے لیے ہر شعبے میں اختراع بہت ضروری ہے، نئی مصنوعات ضروری ہیں، اور میں ملک کے نجی شعبے کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت آپ کی کوششوں میں آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔

 ہم متحدہ کوششوں سے اس سمت میں  نہ صرف اپنے اہداف حاصل کریں گے بلکہ پوری انسانیت کی رہنمائی بھی  کریں گے۔

ساتھیو!

میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ  عام طور پر بجٹ  تیار ہونے سے پہلے عموماً بہت زیادہ تبادلہ خیال کیا جاتا ہےہمارے ٹی وی چینلز وغیرہ سب اس میں بہت مصروف ہوتے ہیں، اچھی خاصی غوروفکر ہوتی ہے اور اس کا  بجٹ کو بھی بہت تھوڑا  فائدہ ہوتا ہے۔ بجٹ بنانے میں بہت سے اچھے خیالات  ملتے ہیں۔ لیکن اب ہم نے فوکس کیا ہے، چلو  بجٹ بن گیا ، اب بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی امانت  ہوتاہے، پارلیمنٹ طے کرتی ہے۔ یکم اپریل سے بجٹ  پر عمل درآمد کے لئے  ہمارے پاس دو مہینے  کا وقت ہوتا ہے ۔

 

اس دو مہینے کا استعمال  ہم بجٹ کے نفاذ کے روڈ میپ پر توجہ  کیسے دیں  اور منصوبہ کو بہترین طریقے سے کیسے نافذ کیا جائے۔ بجٹ کو سمجھداری سے کیسے استعمال کیا جائے۔

حکومت کے سوچنے کے انداز اور کاروباری دنیا کے میدان میں کام کرنے کے طریقے میں بہت فرق ہے۔ اس سیمینار سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسٹیک ہولڈرز کی سوچ اور حکومت کے فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی خلاء نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو چیزیں بہت تیزی سے نافذ ہوجاتی ہیں۔ کبھی کبھی ایک جملہ ایسی فائل میں آتا ہے کہ پھر اسے درست کرنے میں 6-6، 8-8 ماہ لگ جاتے ہیں۔ بجٹ کا ٹائم ہی پوراہوجاتا ہے۔

 

ہم ان غلطیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ اور اسی لیے اس ویبینار میں جو ہم کر رہے ہیں، ہم حکومت کی جانب سے آپ کو معلومات بانٹنے کے لیے نہیں کر رہے ہیں۔ بجٹ کیا ہے وہ سمجھانے کے لیے نہیں کر رہے، ہم سے زیادہ آپ سمجھ چکے ہیں۔ ہم آپ کو سننے کے لیے ویبنار کرتے ہیں اور سننے میں بھی  بجٹ کے لیے تجویز نہیں  جو بجٹ بن چکا ہے اس کو اس شعبے میں ہم لاگو کیسے کریں گے، جلد از جلد کیسے نافذ کریں گے، زیادہ سے زیادہ نتائج کے ساتھ کیسے آگے بڑھیں گے۔ہماری ایسی کوئی  رکاوٹ نہ بن جائے جو بغیر کسی سبب کے وقت ضائع کردے اور اس لیے تیز رفتاری لانے کے لئے  میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ   ٹھوس عملی مثالوں اور تجویزوں کے ساتھ اس ویبنار کو کامیاب بنائیں۔

میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات!بہت بہت شکریہ

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report

Media Coverage

India’s Biz Activity Surges To 3-month High In Nov: Report
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM’s address at the Odisha Parba
November 24, 2024
Delighted to take part in the Odisha Parba in Delhi, the state plays a pivotal role in India's growth and is blessed with cultural heritage admired across the country and the world: PM
The culture of Odisha has greatly strengthened the spirit of 'Ek Bharat Shreshtha Bharat', in which the sons and daughters of the state have made huge contributions: PM
We can see many examples of the contribution of Oriya literature to the cultural prosperity of India: PM
Odisha's cultural richness, architecture and science have always been special, We have to constantly take innovative steps to take every identity of this place to the world: PM
We are working fast in every sector for the development of Odisha,it has immense possibilities of port based industrial development: PM
Odisha is India's mining and metal powerhouse making it’s position very strong in the steel, aluminium and energy sectors: PM
Our government is committed to promote ease of doing business in Odisha: PM
Today Odisha has its own vision and roadmap, now investment will be encouraged and new employment opportunities will be created: PM

जय जगन्नाथ!

जय जगन्नाथ!

केंद्रीय मंत्रिमंडल के मेरे सहयोगी श्रीमान धर्मेन्द्र प्रधान जी, अश्विनी वैष्णव जी, उड़िया समाज संस्था के अध्यक्ष श्री सिद्धार्थ प्रधान जी, उड़िया समाज के अन्य अधिकारी, ओडिशा के सभी कलाकार, अन्य महानुभाव, देवियों और सज्जनों।

ओडिशा र सबू भाईओ भउणी मानंकु मोर नमस्कार, एबंग जुहार। ओड़िया संस्कृति के महाकुंभ ‘ओड़िशा पर्व 2024’ कू आसी मँ गर्बित। आपण मानंकु भेटी मूं बहुत आनंदित।

मैं आप सबको और ओडिशा के सभी लोगों को ओडिशा पर्व की बहुत-बहुत बधाई देता हूँ। इस साल स्वभाव कवि गंगाधर मेहेर की पुण्यतिथि का शताब्दी वर्ष भी है। मैं इस अवसर पर उनका पुण्य स्मरण करता हूं, उन्हें श्रद्धांजलि देता हूँ। मैं भक्त दासिआ बाउरी जी, भक्त सालबेग जी, उड़िया भागवत की रचना करने वाले श्री जगन्नाथ दास जी को भी आदरपूर्वक नमन करता हूं।

ओडिशा निजर सांस्कृतिक विविधता द्वारा भारतकु जीबन्त रखिबारे बहुत बड़ भूमिका प्रतिपादन करिछि।

साथियों,

ओडिशा हमेशा से संतों और विद्वानों की धरती रही है। सरल महाभारत, उड़िया भागवत...हमारे धर्मग्रन्थों को जिस तरह यहाँ के विद्वानों ने लोकभाषा में घर-घर पहुंचाया, जिस तरह ऋषियों के विचारों से जन-जन को जोड़ा....उसने भारत की सांस्कृतिक समृद्धि में बहुत बड़ी भूमिका निभाई है। उड़िया भाषा में महाप्रभु जगन्नाथ जी से जुड़ा कितना बड़ा साहित्य है। मुझे भी उनकी एक गाथा हमेशा याद रहती है। महाप्रभु अपने श्री मंदिर से बाहर आए थे और उन्होंने स्वयं युद्ध का नेतृत्व किया था। तब युद्धभूमि की ओर जाते समय महाप्रभु श्री जगन्नाथ ने अपनी भक्त ‘माणिका गौउडुणी’ के हाथों से दही खाई थी। ये गाथा हमें बहुत कुछ सिखाती है। ये हमें सिखाती है कि हम नेक नीयत से काम करें, तो उस काम का नेतृत्व खुद ईश्वर करते हैं। हमेशा, हर समय, हर हालात में ये सोचने की जरूरत नहीं है कि हम अकेले हैं, हम हमेशा ‘प्लस वन’ होते हैं, प्रभु हमारे साथ होते हैं, ईश्वर हमेशा हमारे साथ होते हैं।

साथियों,

ओडिशा के संत कवि भीम भोई ने कहा था- मो जीवन पछे नर्के पडिथाउ जगत उद्धार हेउ। भाव ये कि मुझे चाहे जितने ही दुख क्यों ना उठाने पड़ें...लेकिन जगत का उद्धार हो। यही ओडिशा की संस्कृति भी है। ओडिशा सबु जुगरे समग्र राष्ट्र एबं पूरा मानब समाज र सेबा करिछी। यहाँ पुरी धाम ने ‘एक भारत श्रेष्ठ भारत’ की भावना को मजबूत बनाया। ओडिशा की वीर संतानों ने आज़ादी की लड़ाई में भी बढ़-चढ़कर देश को दिशा दिखाई थी। पाइका क्रांति के शहीदों का ऋण, हम कभी नहीं चुका सकते। ये मेरी सरकार का सौभाग्य है कि उसे पाइका क्रांति पर स्मारक डाक टिकट और सिक्का जारी करने का अवसर मिला था।

साथियों,

उत्कल केशरी हरे कृष्ण मेहताब जी के योगदान को भी इस समय पूरा देश याद कर रहा है। हम व्यापक स्तर पर उनकी 125वीं जयंती मना रहे हैं। अतीत से लेकर आज तक, ओडिशा ने देश को कितना सक्षम नेतृत्व दिया है, ये भी हमारे सामने है। आज ओडिशा की बेटी...आदिवासी समुदाय की द्रौपदी मुर्मू जी भारत की राष्ट्रपति हैं। ये हम सभी के लिए बहुत ही गर्व की बात है। उनकी प्रेरणा से आज भारत में आदिवासी कल्याण की हजारों करोड़ रुपए की योजनाएं शुरू हुई हैं, और ये योजनाएं सिर्फ ओडिशा के ही नहीं बल्कि पूरे भारत के आदिवासी समाज का हित कर रही हैं।

साथियों,

ओडिशा, माता सुभद्रा के रूप में नारीशक्ति और उसके सामर्थ्य की धरती है। ओडिशा तभी आगे बढ़ेगा, जब ओडिशा की महिलाएं आगे बढ़ेंगी। इसीलिए, कुछ ही दिन पहले मैंने ओडिशा की अपनी माताओं-बहनों के लिए सुभद्रा योजना का शुभारंभ किया था। इसका बहुत बड़ा लाभ ओडिशा की महिलाओं को मिलेगा। उत्कलर एही महान सुपुत्र मानंकर बिसयरे देश जाणू, एबं सेमानंक जीबन रु प्रेरणा नेउ, एथी निमन्ते एपरी आयौजनर बहुत अधिक गुरुत्व रहिछि ।

साथियों,

इसी उत्कल ने भारत के समुद्री सामर्थ्य को नया विस्तार दिया था। कल ही ओडिशा में बाली जात्रा का समापन हुआ है। इस बार भी 15 नवंबर को कार्तिक पूर्णिमा के दिन से कटक में महानदी के तट पर इसका भव्य आयोजन हो रहा था। बाली जात्रा प्रतीक है कि भारत का, ओडिशा का सामुद्रिक सामर्थ्य क्या था। सैकड़ों वर्ष पहले जब आज जैसी टेक्नोलॉजी नहीं थी, तब भी यहां के नाविकों ने समुद्र को पार करने का साहस दिखाया। हमारे यहां के व्यापारी जहाजों से इंडोनेशिया के बाली, सुमात्रा, जावा जैसे स्थानो की यात्राएं करते थे। इन यात्राओं के माध्यम से व्यापार भी हुआ और संस्कृति भी एक जगह से दूसरी जगह पहुंची। आजी विकसित भारतर संकल्पर सिद्धि निमन्ते ओडिशार सामुद्रिक शक्तिर महत्वपूर्ण भूमिका अछि।

साथियों,

ओडिशा को नई ऊंचाई तक ले जाने के लिए 10 साल से चल रहे अनवरत प्रयास....आज ओडिशा के लिए नए भविष्य की उम्मीद बन रहे हैं। 2024 में ओडिशावासियों के अभूतपूर्व आशीर्वाद ने इस उम्मीद को नया हौसला दिया है। हमने बड़े सपने देखे हैं, बड़े लक्ष्य तय किए हैं। 2036 में ओडिशा, राज्य-स्थापना का शताब्दी वर्ष मनाएगा। हमारा प्रयास है कि ओडिशा की गिनती देश के सशक्त, समृद्ध और तेजी से आगे बढ़ने वाले राज्यों में हो।

साथियों,

एक समय था, जब भारत के पूर्वी हिस्से को...ओडिशा जैसे राज्यों को पिछड़ा कहा जाता था। लेकिन मैं भारत के पूर्वी हिस्से को देश के विकास का ग्रोथ इंजन मानता हूं। इसलिए हमने पूर्वी भारत के विकास को अपनी प्राथमिकता बनाया है। आज पूरे पूर्वी भारत में कनेक्टिविटी के काम हों, स्वास्थ्य के काम हों, शिक्षा के काम हों, सभी में तेजी लाई गई है। 10 साल पहले ओडिशा को केंद्र सरकार जितना बजट देती थी, आज ओडिशा को तीन गुना ज्यादा बजट मिल रहा है। इस साल ओडिशा के विकास के लिए पिछले साल की तुलना में 30 प्रतिशत ज्यादा बजट दिया गया है। हम ओडिशा के विकास के लिए हर सेक्टर में तेजी से काम कर रहे हैं।

साथियों,

ओडिशा में पोर्ट आधारित औद्योगिक विकास की अपार संभावनाएं हैं। इसलिए धामरा, गोपालपुर, अस्तारंगा, पलुर, और सुवर्णरेखा पोर्ट्स का विकास करके यहां व्यापार को बढ़ावा दिया जाएगा। ओडिशा भारत का mining और metal powerhouse भी है। इससे स्टील, एल्युमिनियम और एनर्जी सेक्टर में ओडिशा की स्थिति काफी मजबूत हो जाती है। इन सेक्टरों पर फोकस करके ओडिशा में समृद्धि के नए दरवाजे खोले जा सकते हैं।

साथियों,

ओडिशा की धरती पर काजू, जूट, कपास, हल्दी और तिलहन की पैदावार बहुतायत में होती है। हमारा प्रयास है कि इन उत्पादों की पहुंच बड़े बाजारों तक हो और उसका फायदा हमारे किसान भाई-बहनों को मिले। ओडिशा की सी-फूड प्रोसेसिंग इंडस्ट्री में भी विस्तार की काफी संभावनाएं हैं। हमारा प्रयास है कि ओडिशा सी-फूड एक ऐसा ब्रांड बने, जिसकी मांग ग्लोबल मार्केट में हो।

साथियों,

हमारा प्रयास है कि ओडिशा निवेश करने वालों की पसंदीदा जगहों में से एक हो। हमारी सरकार ओडिशा में इज ऑफ डूइंग बिजनेस को बढ़ावा देने के लिए प्रतिबद्ध है। उत्कर्ष उत्कल के माध्यम से निवेश को बढ़ाया जा रहा है। ओडिशा में नई सरकार बनते ही, पहले 100 दिनों के भीतर-भीतर, 45 हजार करोड़ रुपए के निवेश को मंजूरी मिली है। आज ओडिशा के पास अपना विज़न भी है, और रोडमैप भी है। अब यहाँ निवेश को भी बढ़ावा मिलेगा, और रोजगार के नए अवसर भी पैदा होंगे। मैं इन प्रयासों के लिए मुख्यमंत्री श्रीमान मोहन चरण मांझी जी और उनकी टीम को बहुत-बहुत बधाई देता हूं।

साथियों,

ओडिशा के सामर्थ्य का सही दिशा में उपयोग करके उसे विकास की नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया जा सकता है। मैं मानता हूं, ओडिशा को उसकी strategic location का बहुत बड़ा फायदा मिल सकता है। यहां से घरेलू और अंतर्राष्ट्रीय बाजार तक पहुंचना आसान है। पूर्व और दक्षिण-पूर्व एशिया के लिए ओडिशा व्यापार का एक महत्वपूर्ण हब है। Global value chains में ओडिशा की अहमियत आने वाले समय में और बढ़ेगी। हमारी सरकार राज्य से export बढ़ाने के लक्ष्य पर भी काम कर रही है।

साथियों,

ओडिशा में urbanization को बढ़ावा देने की अपार संभावनाएं हैं। हमारी सरकार इस दिशा में ठोस कदम उठा रही है। हम ज्यादा संख्या में dynamic और well-connected cities के निर्माण के लिए प्रतिबद्ध हैं। हम ओडिशा के टियर टू शहरों में भी नई संभावनाएं बनाने का भरपूर हम प्रयास कर रहे हैं। खासतौर पर पश्चिम ओडिशा के इलाकों में जो जिले हैं, वहाँ नए इंफ्रास्ट्रक्चर से नए अवसर पैदा होंगे।

साथियों,

हायर एजुकेशन के क्षेत्र में ओडिशा देशभर के छात्रों के लिए एक नई उम्मीद की तरह है। यहां कई राष्ट्रीय और अंतर्राष्ट्रीय इंस्टीट्यूट हैं, जो राज्य को एजुकेशन सेक्टर में लीड लेने के लिए प्रेरित करते हैं। इन कोशिशों से राज्य में स्टार्टअप्स इकोसिस्टम को भी बढ़ावा मिल रहा है।

साथियों,

ओडिशा अपनी सांस्कृतिक समृद्धि के कारण हमेशा से ख़ास रहा है। ओडिशा की विधाएँ हर किसी को सम्मोहित करती है, हर किसी को प्रेरित करती हैं। यहाँ का ओड़िशी नृत्य हो...ओडिशा की पेंटिंग्स हों...यहाँ जितनी जीवंतता पट्टचित्रों में देखने को मिलती है...उतनी ही बेमिसाल हमारे आदिवासी कला की प्रतीक सौरा चित्रकारी भी होती है। संबलपुरी, बोमकाई और कोटपाद बुनकरों की कारीगरी भी हमें ओडिशा में देखने को मिलती है। हम इस कला और कारीगरी का जितना प्रसार करेंगे, उतना ही इस कला को संरक्षित करने वाले उड़िया लोगों को सम्मान मिलेगा।

साथियों,

हमारे ओडिशा के पास वास्तु और विज्ञान की भी इतनी बड़ी धरोहर है। कोणार्क का सूर्य मंदिर… इसकी विशालता, इसका विज्ञान...लिंगराज और मुक्तेश्वर जैसे पुरातन मंदिरों का वास्तु.....ये हर किसी को आश्चर्यचकित करता है। आज लोग जब इन्हें देखते हैं...तो सोचने पर मजबूर हो जाते हैं कि सैकड़ों साल पहले भी ओडिशा के लोग विज्ञान में इतने आगे थे।

साथियों,

ओडिशा, पर्यटन की दृष्टि से अपार संभावनाओं की धरती है। हमें इन संभावनाओं को धरातल पर उतारने के लिए कई आयामों में काम करना है। आप देख रहे हैं, आज ओडिशा के साथ-साथ देश में भी ऐसी सरकार है जो ओडिशा की धरोहरों का, उसकी पहचान का सम्मान करती है। आपने देखा होगा, पिछले साल हमारे यहाँ G-20 का सम्मेलन हुआ था। हमने G-20 के दौरान इतने सारे देशों के राष्ट्राध्यक्षों और राजनयिकों के सामने...सूर्यमंदिर की ही भव्य तस्वीर को प्रस्तुत किया था। मुझे खुशी है कि महाप्रभु जगन्नाथ मंदिर परिसर के सभी चार द्वार खुल चुके हैं। मंदिर का रत्न भंडार भी खोल दिया गया है।

साथियों,

हमें ओडिशा की हर पहचान को दुनिया को बताने के लिए भी और भी इनोवेटिव कदम उठाने हैं। जैसे....हम बाली जात्रा को और पॉपुलर बनाने के लिए बाली जात्रा दिवस घोषित कर सकते हैं, उसका अंतरराष्ट्रीय मंच पर प्रचार कर सकते हैं। हम ओडिशी नृत्य जैसी कलाओं के लिए ओडिशी दिवस मनाने की शुरुआत कर सकते हैं। विभिन्न आदिवासी धरोहरों को सेलिब्रेट करने के लिए भी नई परम्पराएँ शुरू की जा सकती हैं। इसके लिए स्कूल और कॉलेजों में विशेष आयोजन किए जा सकते हैं। इससे लोगों में जागरूकता आएगी, यहाँ पर्यटन और लघु उद्योगों से जुड़े अवसर बढ़ेंगे। कुछ ही दिनों बाद प्रवासी भारतीय सम्मेलन भी, विश्व भर के लोग इस बार ओडिशा में, भुवनेश्वर में आने वाले हैं। प्रवासी भारतीय दिवस पहली बार ओडिशा में हो रहा है। ये सम्मेलन भी ओडिशा के लिए बहुत बड़ा अवसर बनने वाला है।

साथियों,

कई जगह देखा गया है बदलते समय के साथ, लोग अपनी मातृभाषा और संस्कृति को भी भूल जाते हैं। लेकिन मैंने देखा है...उड़िया समाज, चाहे जहां भी रहे, अपनी संस्कृति, अपनी भाषा...अपने पर्व-त्योहारों को लेकर हमेशा से बहुत उत्साहित रहा है। मातृभाषा और संस्कृति की शक्ति कैसे हमें अपनी जमीन से जोड़े रखती है...ये मैंने कुछ दिन पहले ही दक्षिण अमेरिका के देश गयाना में भी देखा। करीब दो सौ साल पहले भारत से सैकड़ों मजदूर गए...लेकिन वो अपने साथ रामचरित मानस ले गए...राम का नाम ले गए...इससे आज भी उनका नाता भारत भूमि से जुड़ा हुआ है। अपनी विरासत को इसी तरह सहेज कर रखते हुए जब विकास होता है...तो उसका लाभ हर किसी तक पहुंचता है। इसी तरह हम ओडिशा को भी नई ऊचाई पर पहुंचा सकते हैं।

साथियों,

आज के आधुनिक युग में हमें आधुनिक बदलावों को आत्मसात भी करना है, और अपनी जड़ों को भी मजबूत बनाना है। ओडिशा पर्व जैसे आयोजन इसका एक माध्यम बन सकते हैं। मैं चाहूँगा, आने वाले वर्षों में इस आयोजन का और ज्यादा विस्तार हो, ये पर्व केवल दिल्ली तक सीमित न रहे। ज्यादा से ज्यादा लोग इससे जुड़ें, स्कूल कॉलेजों का participation भी बढ़े, हमें इसके लिए प्रयास करने चाहिए। दिल्ली में बाकी राज्यों के लोग भी यहाँ आयें, ओडिशा को और करीबी से जानें, ये भी जरूरी है। मुझे भरोसा है, आने वाले समय में इस पर्व के रंग ओडिशा और देश के कोने-कोने तक पहुंचेंगे, ये जनभागीदारी का एक बहुत बड़ा प्रभावी मंच बनेगा। इसी भावना के साथ, मैं एक बार फिर आप सभी को बधाई देता हूं।

आप सबका बहुत-बहुत धन्यवाद।

जय जगन्नाथ!