سب سے پہلے، میں آفات سے نمٹنے اور آفات کے انتظامات سے وابستہ تمام ساتھیوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ کیونکہ کام ایسا ہے کہ کئی بار آپ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بھی دوسروں کی جان بچانے کے لیے بہت ہی شاندار کام کرتے ہیں۔ حال ہی میں ترکی اور شام میں ہندوستانی ٹیم کی کوششوں کو پوری دنیا نے سراہا ہے اور یہ ہر ہندوستانی کے لئے فخر کی بات ہے۔ ہندوستان نے جس طرح سے راحت اور بچاؤ سے متعلق اپنے انسانی وسائل اور تکنیکی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے، اس سے ملک میں بھی مختلف آفات کے دوران بہت سے لوگوں کی جانیں بچانے میں مدد ملی ہے۔ ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق نظام کو مضبوط کیا جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ملک بھر میں صحت مند مقابلے کی فضا بھی پیدا کی جائے، اسی لیے اس کام کے لیے خصوصی ایوارڈ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ آج یہاں دو اداروں کو نیتا جی سبھاش چندر بوس آپدا پربندھن پرسکار دیا گیا ہے۔ اوڈیشہ اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے طوفان سے سونامی تک مختلف آفات کے دوران بہترین کام کرتی رہی ہے۔ اسی طرح میزورم کے لنگلی فائر اسٹیشن نے جنگل کی آگ پر قابو پانے کے لیے انتھک محنت کی ، پورے علاقے کو بچایا اور آگ کو پھیلنے سے روکا ۔ میں ان اداروں میں کام کرنے والے تمام ساتھیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیوں،
آپ نے اس سیشن کا موضوع رکھا ہے - "بدلتی ہوئی آب و ہوا میں مقامی لچک پیدا کرنا"۔ اس موضوع سے ہندوستان کا تعارف ایک طرح سےقدیم ہے کیونکہ ہماری پرانی روایت کا وہ ایک اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ آج بھی جب ہم اپنے کنووں، حوض ، آبی ذخائر، مقامی فن تعمیر، قدیم شہروں کو دیکھتے ہیں تو یہ عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق نظام ہمیشہ مقامی رہا ہے، حل بھی مقامی رہے ہیں، حکمت عملی بھی مقامی رہی ہے۔ اب جیسے کچھ کے لوگ جن گھروں میں رہتے ہیں، انہیں بھونگا کہتے ہیں۔ کچے مکانات ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس صدی کے آغاز میں آنے والےتباہ کن زلزلے کا مرکز کچھ تھا۔ لیکن ان بھونگا گھروں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ شاید بڑی مشکل سے کہیں کسی ایک کونے میں کوئی مسئلہ ہوا ہوگا۔ یقیناً اس میں ٹیکنالوجی سے متعلق بہت سے اسباق ہیں۔ کیا ہم نئی ٹیکنالوجی کے مطابق مقامی سطح پر ہاؤسنگ یا ٹاؤن پلاننگ کے ماڈل رہے ہیں، انہیں تیار نہیں کر سکتے؟ خواہ مقامی تعمیراتی مواد ہو یا تعمیراتی ٹیکنالوجی، اسے آج کی ضرورت، آج کی ٹیکنالوجی سے مالا مال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب ہم مستقبل کی ٹیکنالوجی کو مقامی لچک کی ایسی مثالوں سے جوڑیں گے، تب ہی ہم ڈیزاسٹر ریزیلینس کی سمت میں بہتر کام کر سکیں گے۔
ساتھیوں،
پہلے کا طرز زندگی بہت آرام دہ تھا اور تجربے نے ہمیں یہ سکھایا تھا کہ زیادہ بارشوں، سیلابوں، خشک سالی، آفات سے کیسے نمٹا جائے۔ اسی لیے قدرتی طور پر حکومتوں نے بھی آفات سے راحت کو ہمارےیہاں محکمہ زراعت سے ہی وابستہ کر رکھا تھا ۔ یہاں تک کہ جب زلزلے جیسی سنگین آفات آتی تھیں تو ایسی آفات کا سامنا مقامی وسائل سے ہی ہوتا تھا۔ اب دنیا چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ کر تعمیراتی تکنیک میں بھی نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن وہیں دوسری طرف آفات کی وباء بھی بڑھ رہی ہے۔ پرانے زمانے میں ایک وید راج پورے گاؤں میں سب کا علاج کرتے تھے اور پورا گاؤں تندرست رہتا تھا۔ اب ہر بیماری کے لیے الگ الگ ڈاکٹر ہیں۔ اسی طرح تباہی کے لیے بھی ایک متحرک نظام تیار کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر پچھلے سو سالوں کی تباہی کے مطالعہ سے زوننگ کی جا سکتی ہے کہ سیلاب کی سطح کتنی ہو سکتی ہے اور اس لیے کہاں تعمیر کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان طریقہ کار کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے، چاہے بات مواد کی ہو یا انتظامات کی۔
ساتھیوں،
آفات سے نمٹنے کے انتظامات کو مضبوط بنانے کے لیے شناخت اور اصلاحات بہت اہم ہیں۔ شناخت کا مطلب یہ سمجھنا ہے کہ تباہی کا امکان کہاں ہے اور مستقبل میں کیسے ہوسکتا ہے؟ اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایسا نظام تیار کرنا چاہیے جس سے تباہی کے امکانات کم ہوں۔ تباہی کے خطرے کو کم کرنے کا بہترین طریقہ نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اسے بروقت زیادہ موثر بنائیں اور اس کے لیے شارٹ کٹ اپروچ کے بجائے طویل مدتی سوچ کی ضرورت ہے۔ اب اگر ہم سائیکلون کی بات کریں تو سمندری طوفانوں کے وقت ہندوستان کے حالات کو دیکھیں تو ذہن میں آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان میں سمندری طوفان آتا تھا تو لاکھوں لوگوں کی ناگہانی ہلاکت ہو جاتی تھی ۔ ہم نے کئی بار اڈیشہ اور مغربی بنگال کے ساحلی علاقوں میں ایسا ہوتا دیکھا ہے۔ لیکن وقت بدلا، حکمت عملی بدلی، تیاریوں میں بہتری آئی اورہندوستان کی سمندری طوفانوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا۔ اب جب کوئی طوفان آتا ہے تو جان و مال کا کم سے کم نقصان ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم قدرتی آفات کو روک نہیں سکتے لیکن اس آفت سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے انتظامات ضرور کر سکتے ہیں۔ اور اس لیے ضروری ہے کہ ہم رد عمل کے بجائے متحرک رہیں۔
ساتھیوں،
ہمارے ملک میں پہلے فعال ہونے کے حوالے سے کیا صورتحال تھی اور اب کیا صورتحال ہے، میں آپ سے یہ بھی بتانا چاہوں گا ۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد 5 دہائیاں گزر گئیں، نصف صدی گزر گئی، لیکن ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے کوئی قانون نہیں تھا۔ 2001 میں کچھ کے زلزلے کے بعد، گجرات ریاستی ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ نافذ کرنے والی پہلی ریاست تھی۔ اس ایکٹ کی بنیاد پر سال 2005 میں مرکزی حکومت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ بھی بنایا۔ اس کے بعد ہی ہندوستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔
ساتھیوں،
ہمیں اپنے مقامی اداروں،بلدیاتی مقامی اداروں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ گورننس کو مضبوط کرنا ہے۔ بلدیاتی مقامی اداروں کو اسی وقت رد عمل ظاہر کرنا چاہیے جب کوئی آفت آئے، اب اس پر بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں منصوبہ بندی کو ادارہ جاتی بنانا ہے۔ ہمیں مقامی منصوبہ بندی کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے عمارتوں کی تعمیر، انفراسٹرکچر کے نئے منصوبوں کے لیے نئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔ ایک طرح سے پورے نظام کی اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں دو سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے یہاں کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے متعلق ماہرین کو عوام کی شرکت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستان کس طرح مقامی شراکت سے بڑے مقاصد حاصل کر رہا ہے۔ اس لیے جب ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی بات آتی ہے تو وہ بھی عوامی شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ مقامی شرکت کے ذریعہ مقامی لچک کے منتر پر عمل کرکے ہی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ شہریوں کو زلزلوں، طوفانوں، آگ اور دیگر آفات سے منسلک خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے۔ صحیح اصول و ضوابط اور فرائض سے متعلق ان تمام موضوعات کے بارے میں مسلسل بیدار لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نوجوان ساتھیوں، یووا منڈل، سخی منڈل اور دیگر گروپوں کو گاؤں، گلی اور محلے کی سطح پر راحت اور بچاؤ کی تربیت دینی ہوگی۔ آپدا متروں ، این سی سی-این ایس ایس کی طاقت، سابق فوجیوں کے ساتھ رابطے کا انتظام بھی کرنا ہے کہ ہم ان کو ڈیٹا بینک بنا کر ان کی طاقت کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں۔ کمیونٹی سینٹر میں فرسٹ رسپانس کے لیے ضروری آلات کا بندوبست، انہیں چلانے کی تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ اور میرا تجربہ یہ ہے کہ بعض اوقات ڈیٹا بینک بھی اچھا کام کرتا ہے۔ جب میں گجرات میں تھا تو ہمارے پاس کھیڑا ضلع میں ایک ندی ہے۔ یہاں 5-7 سال میں ایک بار سیلاب آتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک سال میں پانچ بار سیلاب آیا، اس وقت اس آفت کے حوالے سے بہت سی سرگرمیاں تیار کی گئیں۔ چنانچہ ہر گاؤں میں موبائل فون دستیاب تھے۔ اب اس وقت کسی مقامی زبان میں پیغام رسانی کا نظام تو نہیں تھا۔ لیکن انگریزی میں ہی گجراتی میں لکھ کر پیغام بھیجتے تھے، گاؤں کے لوگوں کو دیکھیں حالات ایسے ہیں، اتنے گھنٹے بعد پانی آنے کا امکان ہے۔ اور مجھے صاف یاد ہے کہ 5 سیلاب کے بعد بھی ایک انسان کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایک جانور بھی نہیں مرا۔ کوئی انسان نہیں مرا، جانور نہیں مرا۔ کیونکہ وقت پر کمیونی کیشن ہوا اور اسی لیے ہم ان انتظامات کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر بچاو اور راحت کا کام بروقت شروع ہو جائے تو ہم جانی نقصان کو کم کر سکتے ہیں۔ دوسرا، ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں ہر گھر اور ہر گلی کی ریئل ٹائم رجسٹریشن اور مانیٹرنگ کا نظام بنانا ہوگا۔ کون سا گھر، کتنا پرانا ہے، کون سی گلی، کس نالے کی حالت کیا ہے؟ ہمارے بنیادی ڈھانچے جیسے بجلی، پانی کی لچک کیا ہے؟ اب جیسا کہ میں کچھ دن پہلے میٹنگ کر رہا تھا اور میری میٹنگ کا موضوع یہی تھا کہ گرمی کی لہر پر بات ہے، تو کم از کم پچھلی بار ہم نے دیکھا دو بار ہمارے ہسپتالوں میں آگ لگی اور وہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کوئی مریض بے بس ہوتا ہے۔ اب ایک بار پورے ہسپتال کے نظام کو باریک بینی سے دیکھ لیں، ہو سکتا ہے کسی بڑے حادثے سے بچ جائیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس وہاں کے انتظامات کے بارے میں جتنی درست معلومات ہیں، تب ہی ہم فعال اقدامات کر سکتے ہیں۔
ساتھیوں،
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ پچھلے سالوں میں گھنے شہری علاقوں میں آگ لگنے کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جب گرمی بڑھ جاتی ہے تو کبھی کبھی ہسپتال میں، کسی فیکٹری میں، کسی ہوٹل میں یا کسی کثیر منزلہ رہائشی عمارت میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہت منظم طریقے سے کام کرنا ہوگا، چاہے وہ انسانی وسائل کی ترقی ہو، ٹیکنالوجی ہو، وسائل ہو یا نظام، ہمیں ایک مربوط حکومتی نقطہ نظر کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ گنجان آباد علاقوں میں جہاں گاڑی کے ذریعے بھی پہنچنا مشکل ہوتا ہے، وہاں آگ بجھانے کے لیے پہنچنا ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ بلند عمارتوں میں لگنے والی آگ کو بجھانے کے لیے ہمیں اپنے ساتھی فائر فائٹر کی مہارت کو مسلسل بڑھانا ہوگا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان صنعتی آگ کو بجھانے کے لیے کافی وسائل موجود ہوں۔
ساتھیوں،
ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی ان کوششوں کے درمیان مقامی سطح پر مہارت اور ضروری آلات دونوں کو جدید رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آج کل ایسے بہت سے آلات دستیاب ہیں، جو جنگل کے فضلے کوحیاتیاتی ایندھن میں تبدیل کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے خواتین کے سیلف ہیلپ گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں اور انہیں ایسا سامان دے سکتے ہیں، اگر وہاں جو کچرا پڑا ہے ، اسے جمع کرکے اس کو پروسیس کریں، اس سے چیزیں بنائیں اور انہیں دیں تاکہ جنگل میں آگ نہ لگے، امکانات کو کم کریں۔ اور اس سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔ صنعت اور ہسپتال جیسے ادارے، جہاں آگ، گیس کے رساؤ جیسے خطرات زیادہ ہیں، حکومت کے ساتھ شراکت کرکے ماہر افراد کی ایک فوج تشکیل دے سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے ایمبولینس نیٹ ورک کو بھی بڑھانا ہے اور اسے مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے۔ ایک جامع بحث کے بعد ایک روڈ میپ بھی تیار کیا جانا چاہیے کہ کس طرح ہم اسے 5 جی ، اے آئی اور آئی او ٹی جیسی ٹیکنالوجی کے ساتھ مزید ذمہ دار اور موثر بنا سکتے ہیں۔ ہم راحت اور بچاو میں ڈرون ٹیکنالوجی کا زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسے آلات پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، جو ہمیں تباہی کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں؟ ایسے پرسنل گیجٹ جو ملبے تلے دبے ہونے کی صورت میں مقام کی معلومات دے سکتے ہیں، کیا اس شخص کی پوزیشن کے بارے میں معلومات دے سکتے ہیں؟ ہمیں اس قسم کی اختراع پر توجہ دینی چاہیے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسی سماجی تنظیمیں ہیں، جو ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے نظام بنا رہی ہیں۔ ہمیں ان کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے، وہاں کے بہترین طریقوں کو اختیار کرنا چاہیے۔
ساتھیوں،
ہندوستان آج پوری دنیا میں آنے والی آفات کا فوری جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اور لچکدار انفراسٹرکچر کے لیے بھی پہل کرتا ہے۔ آج دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک ہندوستان کی قیادت میں تشکیل دیے گئے آفات سے بچنے والے انفراسٹرکچر کے اتحاد میں شامل ہوئے ہیں۔ روایت اور ٹیکنالوجی ہماری طاقت ہیں۔ اس طاقت کے ساتھ، ہم نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے آفات سے متعلق لچک سے متعلق بہترین ماڈل تیار کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بحث تجاویز اور حل سے بھرپور ہوگی، ہمارے لیے بہت سی نئی راہیں کھلیں گی۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ اس دو روزہ سربراہی اجلاس میں قابل عمل نکات سامنے آئیں گے۔ مجھے یقین ہے اور وقت بھی صحیح ہے کہ بارش کے دنوں سے پہلے اس طرح کی تیاری اور اس کے بعد ریاستوں میں ، ریاستوں کے بعد شہروں اور میٹرو پولیٹن شہروں میں اس نظام کو ہم آگے بڑھائیں ، اگر ہم ایک سلسلہ شروع کریں تو شاید بارش کے پہلے ہی بہت سی چیزوں کو ہم ایک طرح سے پورے نظام کو حساس بنا سکتے ہیں، جہاں اس کی ضرورت ہے، ہم وہاں اسے پورا بھی کر سکتے ہیں اور کم سے کم نقصان کے لیے تیار رہ سکتے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس کے لیے میں اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔
شکریہ!