تمل ناڈو کے گورنر جناب آر این روی جی، تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ جناب ایم کے اسٹالن جی، چانسلر ڈاکٹر کے ایم اناملائی جی، وائس چانسلر پروفیسر گرمیت سنگھ جی، گاندھی گرام دیہی انسٹی ٹیوٹ کا عملہ اور معاون عملہ، با صلاحیت طلباء اور ان کے قابل فخر والدین ,
کڑکّم!
تمام نوجوان ذہنوں کو مبارکباد جو آج فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ میں طلباء کے والدین کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کی قربانیوں نے آج کا دن دکھایا ہے۔ تدریسی اور غیر تدریسی عملہ بھی داد کا مستحق ہے۔
دوستو
یہاں جلسہ تقسیم اسناد میں آنا میرے لیے بہت متاثر کن تجربہ ہے۔ گاندھی گرام کا افتتاح خود مہاتما گاندھی نے کیا تھا۔ قدرتی خوبصورتی، مستحکم دیہی زندگی، سادہ لیکن فکری ماحول، یعنی یہاں دیہی ترقی کے مہاتما گاندھی کے نظریات کی روح دیکھی جا سکتی ہے۔ میرے نوجوان دوستو، آپ سب ایک بہت اہم وقت پر فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ گاندھیائی اقدار بہت اہمیت کے حامل ہوتی جا رہی ہیں۔ چاہے تنازعات کو ختم کرنے کے بارے میں ہو، یا موسمیاتی بحران کے بارے میں، مہاتما گاندھی کے خیالات میں آج کے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل کے جوابات موجود ہیں۔ گاندھیائی طرز زندگی کے طالب علموں کے طور پر، آپ کے پاس بڑے کارنامے انجام دینے کا بہترین موقع ہے۔
دوستو
مہاتما گاندھی کو بہترین خراج عقیدت ان کے ان خیالات پر کام کرنا ہے۔ جو ان کی نظروں میں بہت زیاادہ اہمیت کے حامل تھے کھادی کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا گیا تھا اور اسے فراموش کیا گیا تھا۔ لیکن ‘کھادی فار نیشن، کھادی فار فیشن’ کی کال کے ذریعے یہ بہت مقبول ہوا ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں کھادی سیکٹر کی مصنوعات کی فروخت میں 300 فیصد سے زیادہ کا اضافہ دیکھا گیا۔ کھادی اور گاؤں کی صنعت کمیشن نے پچھلے سال ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا ریکارڈ کاروبار کیا ہے۔ اب تو عالمی فیشن برانڈز بھی کھادی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ماحول دوست کپڑا ہے، جو کرہ ارض اور اس پر بسنے والوں کے لیے اچھا ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر پیداوار کا انقلاب نہیں ہے۔ بلکہ یہ عوام کی طرف سے پیداوار کا انقلاب ہے۔ مہاتما گاندھی نے کھادی کو دیہی علاقوں میں خود انحصاری کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔ دیہات کی خود انحصاری میں انہوں نے خود انحصار ہندوستان کے ابتدائی نقوش دیکھے۔ ان سے متاثر ہو کر، ہم آتم نربھر بھارت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تمل ناڈو سودیشی تحریک کا ایک اہم مرکز تھا۔ یہ ایک بار پھر آتم نربھر بھارت پروگرام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
دوستو
مہاتما گاندھی کے دیہی ترقی کے وژن کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ گاؤں ترقی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ دیہی زندگی کی اقدار کو محفوظ کیا جائے۔ دیہی ترقی کے ہمارے ا وژن کو انہی سے تحریک حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا وژن ہے،
آتما گاؤں کی، سہولت شہر کی
یا
گراماتین انما، نگرتین وسادی
شہری اور دیہی علاقوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ٹھیک ہے۔ فرق ہونا ٹھیک ہے۔ لیکن نہ برابری ٹھیک نہیں ہے۔ ایک طویل عرصے تک شہری اور دیہی علاقوں میں عدم مساوات برقرار رہی۔ لیکن آج قوم اس کو درست کر رہی ہے۔ دیہی صفائی کی مکمل کوریج، 6 کروڑ سے زیادہ گھروں کو نل کا پانی، 2.5 کروڑ بجلی کنکشن، مزید دیہی سڑکیں، ترقی کو لوگوں کی دہلیز پر لے جا رہی ہیں۔ صفائی ستھرائی کا تصور مہاتما گاندھی کو بہت عزیز تھا۔ سوچھ بھارت کے ذریعے اس میں انقلاب آیا ہے۔ لیکن ہم نے اپنے اقدامات کو صرف بنیادی باتیں فراہم کرنے کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا ہے۔ آج جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات بھی دیہات تک پہنچ رہے ہیں۔ تقریباً 2 لاکھ گرام پنچایتوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے 6 لاکھ کلومیٹر طویل آپٹک فائبر کیبل بچھائی گئی ہے۔ دیہی علاقوں نے انٹرنیٹ ڈیٹا کم قیمت میں دستیاب ہونے کی سہولت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ شہری علاقوں کے مقابلے دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کا استعمال بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس سے مواقع کی دنیا کھل جاتی ہے۔ سوامتوا اسکیم کے تحت، ہم زمینوں کا نقشہ بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کو پراپرٹی کارڈ بھی فراہم کرتے ہیں۔ کسان کئی ایپس سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں کروڑوں سوائل ہیلتھ کارڈ کی مدد مل رہی ہے۔ بہت کچھ ہو چکا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ آپ نوجوان، روشن خیال ہیں۔ آپ اس بنیاد پر تعمیر کرنے کی بہت صلاحیت رکھتے ہیں۔
دوستو
جب دیہی ترقی کی بات آتی ہے تو ہمیں پائیداری کا خیال رکھنا چاہیے۔ نوجوانوں کو اس میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی علاقوں کے مستقبل کے لیے پائیدار زراعت بہت ضروری ہے۔ قدرتی کاشتکاری کے لیے، کیمیائی مادوں سے پاک کھیتی کے لیے بڑا جوش و جذبہ ہے۔ اس سے کھاد کی درآمدات پر ملک کا انحصار کم ہوتا ہے۔ یہ مٹی کی زرخیز ی کی صلاحیت اور انسانی صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔ ہم نے اس سمت میں کام شروع کر دیا ہے۔ ہماری نامیاتی کاشتکاری کی اسکیم حیرت انگیز کام کر رہی ہے، خاص طور پر شمال مشرق میں۔ پچھلے سال کے بجٹ میں، ہم نے قدرتی کاشتکاری سے متعلق پالیسی متعارف کراسکتے ہیں۔آپ دیہات میں قدرتی کھیتی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پائیدار کاشتکاری کے حوالے سے، ایک اور اہم نکتہ ہے جس پر نوجوانوں کو توجہ دینی چاہیے۔ زراعت کو مونو کلچر سے بچانے کا وقت آگیا ہے۔ اناج، باجرا اور دیگر فصلوں کی بہت سی مقامی اقسام کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سنگم کے دور میں بھی باجرے کی کئی اقسام کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم تمل ناڈو کے لوگ انہیں بہت پسند کرتے تھے۔ یہ غذائیت سے بھرپور اور آب و ہوا کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ فصلوں کے تنوع سے مٹی اور پانی کو بچانے میں مدد ملتی ہے۔ آپ کی اپنی یونیورسٹی قابل تجدید توانائی استعمال کرتی ہے۔ پچھلے 8 سالوں میں شمسی توانائی کی تنصیب کی صلاحیت میں تقریباً 20 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اگر گاؤں میں شمسی توانائی پھیل جائے تو ہندوستان بھی توانائی کے معاملے میں خود انحصار بن سکتا ہے۔
دوستو
گاندھیائی مفکر ونوبا بھاوے نے ایک بار اس حوالے سے اپنے محسوسات کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں کی سطح پر ہونے والے اداروں کے انتخابات ٹکڑوں میں بانٹنے والے ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے برادریوں، یہاں تک کہ خاندانوں میں بھی اختلافات ہوجاتے ہیں۔ گجرات میں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہم نے سمرس گرام یوجنا شروع کی تھی۔ جن دیہاتوں نے اتفاق رائے سے قائدین کا انتخاب کیا انہیں کچھ مراعات دی گئیں۔ اس سے سماجی تنازعات بہت کم ہو گئے۔ نوجوان دیہاتیوں کے ساتھ مل کر پورے ہندوستان میں اسی طرح کا میکانزم تیار کر سکتے ہیں۔ اگر گاؤں متحد ہو جائیں تو وہ جرائم، منشیات اور سماج دشمن عناصر جیسے مسائل سے لڑ سکتے ہیں۔
دوستو
مہاتما گاندھی نے ایک متحد اور آزاد ہندوستان کے لیے جدوجہد کی۔ گاندھی گرام خود ہندوستان کے اتحاد کی کہانی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گاندھی جی کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہزاروں دیہاتی ٹرین میں آئے تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان لوگوں کا تعلق ملک کے کن حصوں سے تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ گاندھی جی اور گاؤں والے دونوں ہندوستانی تھے۔ تمل ناڈو ہمیشہ سے قومی شعور کا گھر رہا ہے۔ یہاں، سوامی وویکانند کا مغرب سے واپسی پر شاہانہ کا استقبال کیا گیا۔ پچھلے سال بھی، ہم نے‘ویرا وانک’ کے نعرے دیکھے۔ جس طرح سے تامل لوگوں نے جنرل بپن راوت کے لیے اپنا احترام ظاہر کیا وہ دل کی گہرائیوں تک اُتر جانے والا تھا۔ اس دوران کاشی تمل سنگم جلد ہی کاشی میں ہونے والا ہے۔ اس میں کاشی اور تمل ناڈو کے درمیان بندھن کا جشن منائے گا۔ کاشی کے لوگ تمل ناڈو کی زبان، ثقافت اور تاریخ کا جشن منانے کے لیے بے چین ہیں۔ یہ ایک بھارت شریشٹھ بھارت ہے، جس پر ہر طرف عمل کیاجارہا ہے۔ یہ محبت اور ایک دوسرے کا احترام ہمارے اتحاد کی بنیاد ہے۔ میں یہاں سے فارغ التحصیل نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خاص طور پر اتحاد کی حوصلہ افزائی پر توجہ دیں۔
دوستو
آج میں ایک ایسے خطے میں ہوں جس نے ناری شکتی کی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رانی ویلو ناچیار اس وقت ٹھہری تھیں جب وہ انگریزوں سے لڑنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ میں یہاں گریجویٹ ہونے والی نوجوان خواتین کو سب سے بڑی تبدیلی کرنے والوں کے طور پر دیکھتا ہوں۔ آپ دیہی خواتین کی کامیابی میں مدد کریں گے۔ ان کی کامیابی ہی قوم کی کامیابی ہے۔
دوستو
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو ایک صدی میں ہونے والے بدترین بحران کا سامنا ہے، ہندوستان ایک ایسا ملک رہا ہے جہاں حالات بہتر رہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ویکسین مہم ہو، غریب ترین لوگوں کے لیے خوراک کی حفاظت ہو، یا دنیا کی ترقی کا انجن، ہندوستان نے یہ دکھایا ہے کہ یہ سب کامیابیاں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ۔ دنیا بھارت سے عظیم کاموں کی توقع رکھتی ہے۔ کیونکہ ہندوستان کا مستقبل نوجوانوں کی ‘ کچھ کر گزرنے والی ’ نسل کے ہاتھ میں ہے۔
نوجوان، جو نہ صرف چیلنجز کو قبول کرتے ہیں، بلکہ ان سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ نوجوان، جو نہ صرف سوال کرتے ہیں، بلکہ جواب بھی تلاش کرتے ہیں۔ نوجوان، جو نہ صرف نڈر ہیں، بلکہ انتھک بھی ہیں، نوجوان، جو نہ صرف خواہش رکھتے ہیں، بلکہ حاصل بھی کرتے ہیں۔ تو آج فارغ التحصیل نوجوانوں کے لیے میرا پیغام ہے، آپ نئے ہندوستان کے معمار ہیں۔ اگلے 25 سالوں میں ہندوستان کی اس کے امرت کال میں قیادت کرنے کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر ہے۔ ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک باد ہو۔
اور سب کچھ بہتر ہو!