اہم سرکاری اسکیموں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے ’وکست بھارت سنکلپ یاترا‘ کا آغاز کیا
تقریباً 24,000 کروڑ روپے کے بجٹ کے ساتھ پی ایم جنجاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان پی ایم-جنمن کا آغاز کیا
پی ایم - کسان کے تحت تقریباً 18,000 کروڑ روپے رقم کی 15ویں قسط جاری کی
جھارکھنڈ میں تقریباً 7,200 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھا اور انہیں قوم کے نام وقف کیا
وکست بھارت سنکلپ عہد کی قیادت کی
’’بھگوان برسا منڈا کی جدوجہد اور قربانیاں بے شمار ہندوستانیوں کو حوصلہ بخشتی ہیں‘‘
’’دو تاریخی اقدامات – ’وکست بھارت سنکلپ یاترا‘ اور ’پی ایم جنجاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان‘ کا آغاز آج جھارکھنڈ سے کیا جا رہا ہے‘‘ ;
’’ہندوستان میں ترقی کا درجہ امرت کال کے چار ستونوں - خواتین کی طاقت، نوجوانوں کی طاقت، زرعی طاقت اور ہمارے غریب اور متوسط طبقے کی طاقت کو مضبوط کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے‘‘
’’مودی نے محروموں کو اپنی ترجیح بنایا‘‘
’’میں بھگوان برسا منڈا کی اس سرزمین پر محروموں کا قرض ادا کرنے آیا ہوں‘‘
’’حقیقی سیکولرازم تب ہی آتا ہے جب ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک کے تمام امکانات ختم ہو جائیں‘‘
’’وکست بھارت سنکلپ یاترا‘‘ جو اگلے سال 26 جنوری تک جاری رہے گی بھگوان برسا منڈا کی جینتی پر آج شروع ہو رہی ہے

بھارت ماتا کی جے،

بھارت ماتا کی جے،

دھرتی آبا بھگوان سامونڈا جئے،

دھرتی آبا بھگوان برسامونڈا جئے،

جھارکھنڈ کے گورنر سی پی رادھا کرشنن جی، وزیر اعلیٰ جناب  ہیمنت سورین جی، مرکزی حکومت کے میرے معاون  وزیر ارجن منڈا جی، اناپورنا دیوی جی، ہم سب کے سینئر رہنما  جناب کریا منڈا جی، میرے بہترین دوست بابو لال مرانڈی جی، دیگر معززین اور جھارکھنڈ کے میرے پیارے پریوار جن۔

آپ سب کو جوہار! آج کا دن خوش قسمتی سے بھرا ہوا ہے۔ میں  کچھ دیر پہلے ہی  بھگوان برسا منڈا کی جائے پیدائش اولیہاتو سے واپس آیا ہوں۔ ان کے پریوار جنوں  سے بھی  بڑی خوشگوار ملاقات ہوئی ہے اور اس مقدس مٹی کو اپنے ماتھے پر لگانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ مجھے بھگوان برسا منڈا میموریل پارک اور فریڈم فائٹر میوزیم دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے۔ دو سال قبل آج کے ہی  دن مجھے اس میوزیم کو ملک کے نام وقف کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میں  تمام ہم وطنوں کو جن جاتیہ  گورو دیوس کی  بہت بہت مبارکبا د دیتا ہوں اور اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اور ملک کے سینکڑوں مقامات پر ملک کے سبھی بزرگ لوگ بھی آج جھارکھنڈ کا یوم تاسیس منا رہے ہیں۔ یہ ریاست اٹل جی کی کوششوں سے بنی تھی۔ ملک خصوصاً جھارکھنڈ کو 50 ہزار کروڑ روپے کی مختلف اسکیموں کا تحفہ ملا ہے۔ آج جھارکھنڈ میں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے اور کنکٹی وٹی  کی توسیع کے   کے  تحت کئی  ریل منصوبے شروع کیا گیا۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جھارکھنڈ بھی ملک میں 100 فیصد الیکٹریفائڈ  ریل روٹس والا ریاست بن گیا ہے۔ ان پروجیکٹوں کے لیے میں آپ سبھی جھارکھنڈ کے مکینوں کو بہت بہت  مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے  پریوار جنو،

جنجاتیہ فخر اور جدوجہد کی علامت  بھگوان برسا منڈا کی کہانی ملک کے ہر  باشندے کو  حوصلے سے بھرت دیتی ہے ۔ جھارکھنڈ کا ہر کونا ایسی عظیم ہستیوں، ان کی حوصلوں اور انتھک کوششوں  سے جڑا ہے۔ تلکا مانجھی، سدھو کانہو، چاند بھیرو، پھولو جھانو، نیلمبر، پتامبر، جترا تانا بھگت اور البرٹ ایکا جیسے کئی   بہادروں  نے اس سرزمین کا فخر  بلند کیا ہے۔ اگر ہم تحریک آزادی پر نظر ڈالیں تو ملک کا کوئی گوشہ ایسا نہیں تھا جہاں قبائلی  بہادروں نے مورچہ نہ سنبھالا ہو۔ مانگڑھ دھام میں گرو گووند کے تعاون کو کون بھولا سکتا ہے؟ مدھیہ پردیش کے تنتیا بھیل، بھیما نائک، چھتیس گڑھ کے شہید ویر نارائن سنگھ، ویر گندادھور، منی پور کی رانی گائڈینلیو... تلنگانہ کے ویر رام جی گونڈ، قبائلیوں کو تحریک دینے والے آندھرا پردیش کے الوری سیتارام راجو ، گوند پردیش کی رانی درگاوتی، یہ وہ ہستیاں  ہیں جن کا ملک آج بھی مقروض ہے۔ یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے بہادروں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ مجھے اطمینان ہے کہ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے  پر امرت مہوتسو کے دوران ہم نے ایسے  بہادر مرد و  خواتین کو یاد کیا اور ان کی یادوں  کواگلی نسل تک پہنچایا۔

 

ساتھیو،

جھارکھنڈ آنا مجھے پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع بھی دیتا ہے۔ غریبوں کی سب سے بڑی طاقت آیوشمان یوجنا کی شروعات جھارکھنڈ سے ہی ہوئی تھی۔ کچھ ہی  سال پہلے کھنٹی میں میں نے سولر پاور سے چلنے والی ضلعی عدالت  کا افتتاح کیا تھا۔  اب آج جھارکھنڈ کی اس  مقدس سرزمین سے ایک نہیں بلکہ دو دو تاریخی مہمات  کی شروعات ہونے جارہی ہے۔ وکست بھارت سنکلپ یاترا حکومت کی تکمیل  کے اہداف  کو حاصل کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بنے گی۔ پی ایم  آدیواسی نیائے مہا ابھیان، معدومیت کے دہانے پر کھڑے قبائل، جنہیں ہم اب تک  پریمیریٹیو  ٹرائبس (قدیم قبائلی)  کے  طور پر جانتے ہیں۔ ان کی حفاظت کرے گا، انہیں بااختیار بنائے گا۔ یہ دونوں  ہی مہمات امرت کال میں ہندوستان کی ترقی کے سفر کو نئی توانائی دیں گی۔

میرے  پریوار جنو،

مجھے حکومت کے سربراہ کے طور پر  کام کرتے ہوئے  اب دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزار چکا  ہے۔ ملک کے باشندوں کی  امنگوں کو جاننے کا،  سمجھنے کا مجھے بہت قریب سے موقع ملا ہے۔ اپنے ان تجربات کی بنیاد پر، میں آج  ایک امرت منتر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ اور اسے بھگوان برسا منڈا کی سرزمین سے رکھ رہا ہوں۔ اگلے 25 برسوں کے  امرت کال میں اگر ہمیں ترقی یافتہ ہندوستان کی شاندار اور الہی عمارت  کی تعمیر کرنی ہے تو ہمیں اس کے چار امرت ستونوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا اور انہیں مسلسل مضبوط کرنا ہوگا۔ ہماری حکومت نے  جتنا  10 سالوں میں کیا اب اس سے بھی زیادہ  توانائی کے ساتھ، ہمیں ان چار  امرت ستونوں پر  اپنی پوری طاقت لگانی ہے۔ اور  ترقی یافتہ ہندوستان کے یہ چار امرت ستون میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ یہ چار امرت  ستون ہیں کیا؟ پہلا امرت ستون –ہندوستان کی ہماری  خواتین، ہماری مائیں- بہنیں، ہماری خواتین کی طاقت۔ دوسرا امرت ستون ہے - ہمارے ہندوستان کے  کسان بھائی اور بہن اور کاشتکاری سے جڑے ہوئے جو کاروبار ہیں ، چاہے وہ مویشی پرور  ہوں  چاہی ماہی پرور ہو، یہ سب ہمارے ان داتا۔ تیسرا امرت ستون – ہندوستان کے نوجوان، ہمارے ملک کی نوجوانوں  طاقت جو آنے والے 25 سالوں میں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جا نے والی سب سے بڑی طاقت  ہے۔ اور چوتھا امرت ستون – ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ، نیو مڈل کلاس اور ہندوستان کے میرے غریب بھائی اور بہن۔ ان چار ستونوں کو ہم جتنا مضبوط کریں گے، ترقی یافتہ ہندوستان کی عمارت  بھی اتنی ہی بلند ہوگی۔ مجھے اطمینان ہے  کہ پچھلے 10 سالوں میں ان چار امرت ستونوں کو طاقت بنانے کے لیے جتنا کام ہوا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔

ساتھیو،

آج تک اور آج کل ہر طرف ہندوستان کی اس  کامیابی کا چرچا ہے کہ ہماری حکومت کے 5 سالوں میں 13 کروڑ سے زیادہ لوگ غریبی سے باہر نکلے ہیں۔ آخر گزشتہ چند سالوں میں ایسا کیا ہوا جو اتنی بڑی تبدیلی  زمین پر دیکھنے میں ملی ہے؟ 2014 میں جب ہمیں  آپ سب نے  دہلی کے گدی  پر بٹھایا،   حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی، اس دن سے ہماری خدمت کا دور شروع ہو گیا۔ ہم خدمت کرنے کے لئے آئے  ہیں۔ اور اس خدمت کے اس دور کی بات کروں تب  اس وقت ہماری آنے  سے قبل ہندوستان کی ایک بہت بڑی آبادی بنیادی سہولتوں سے محروم تھی۔ ملک کے کروڑوں غریب لوگوں نے اس بات کی امید  بھی چھوڑ دی تھی کہ  کبھی ان کی زندگی بدل پائے گی۔ اور حکومتوں کا رویہ بھی ایسا تھا کہ وہ خود کو عوام کا مائی  باپ سمجھتی تھیں۔ ہم نے ماں باپ کے جذبے سے نہیں بلکہ خادم کے  جذبے  سے آپ کے خادم  کی طرح  کام  کرنا شروع کیا۔  جو محروم تھے، ہم نے  انہیں  ترجیح دینا شروع کیا۔  جنہیں سب سے دور سمجھا جاتا تھا حکومت خود چل کر ان کے پاس گئی ۔ جو دہائیوں سے نظر انداز کیے گئےتھے ہماری حکومت ان لوگوں کا سہارا اور ساتھی بنی ۔ بیوروکریسی وہی تھی، لوگ وہی تھے، فائلیں  بھی وہی تھیں، قوانین  و ضوابط بھی وہی تھے۔ لیکن سوچ بدلی اور جب سوچ بدلی تو نتائج بھی بدل گئے۔ 2014 سے پہلے ملک کے  گاؤوں  میں صفائی ستھرائی  کا دائرہ  40 فیصد سے بھی کم تھا۔ آج ہم 100 فیصد ہدف تک پہنچ رہے ہیں۔ ہماری حکومت سے پہلے ایل پی جی کنکشن صرف 50-55 فیصد گھروں میں تھے۔ آج تقریباً 100 فیصد گھروں میں خواتین کو  دھوئیں سے آزادی مل چکی ہیں۔ پہلے  ملک میں صرف 55 فیصد بچوں ہی زندگی  بچانے والی ویکسین حاصل ہوپاتی تھی، آدھے بچے اس سے محروم رہ جاتے تھے۔ آج تقریباً صد  فیصد بچوں کی ٹیکہ کاری ہو پارہی ہے۔ آزادی کے بعد سات دہائیوں میں، ملک کے صرف 17 فیصد دیہی خاندانوں تک  نل سے پانی کی سہولت تھی، 20 فیصد بھی نہیں۔ جل جیون مشن کی وجہ سے آج یہ بھی 70 فیصد تک پہنچ رہا ہے۔

 

اور ساتھیو،

ہم  آپ جانتے ہیں کہ معاشرے میں جن کو اس وقت  ملا تھا؟ وہ کون لوگ تھے؟ یہ شروعاتی ملائی  ملی وہ کون تھے؟ یہ سارے بارسوخ لوگ ہوا کرتے تھے۔ جو خوشحال لوگ ہوتے تھے، جن کی حکومت میں رسائی ہوتی تھی، پہچان ہوتی تھی،  وہ سہولتیں اور انتظامات آسانی سے یکجا کر لیتے تھے اور حکومت کا بھی ذہن  ایسا تھا،  انہیں  کو زیادہ دیتے تھے۔ لیکن جو لوگ معاشرے میں پیچھے رہے تھے، جو بنیادی سہولتوں سے محروم تھے، ان پر توجہ دینے والا بھی کوئی  نہیں تھا۔ وہ  دشواریوں کے درمیان اپنی زندگی  گزار رہے تھے۔ مودی نے سماج کے ایسے محروموں کو اپنی ترجیحات بنایا۔ کیونکہ  یہ وہ لوگ ہیں جن کے درمیان میں جیا  ہوں، میں نے کبھی ایسے خاندانوں کی روٹی کھائی ہے،  میں نے کبھی سماج کے آخری شخص  کا نمک کھایا ہے، میں  آج  بھگوان برسا منڈا کی اس سرزمین  پر وہ  قرض کو چکانے آیا ہوں۔

میرے  پریوار جنو،

عام طور پر حکومتوں کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جو چیز آسانی سے حاصل ہو، وہ مقصد پہلے حاصل کیا جائے۔ لیکن ہم نے ایک اور حکمت عملی پر کام کیا۔ میں اہل علم سے کہوں گا کہ اس کا مطالعہ کریں، آپ کو یاد ہوگا کہ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی 18 ہزار گاؤں ایسے رہ گئے تھے جہاں بجلی نہیں پہنچی تھی۔ 18ویں صدی میں زندہ رہنے کے لیے لوگ اندھیرے میں رہنے پر مجبور تھے۔ انہیں اندھیرے میں جینے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بجلی  پہنچانے  کے لئے کئی طرح کی مشکلوں کا سامنا  تھا۔  یہ میں مانتا ہوں لیکن مشکل تھا،  تبھی تو کرنا ہوتا ہے۔ مکھن پر  لکیر  کو ہر کوئی کھینچ سکتا ہے  ارے  پتھر پر بھی لکیر کھینچنی چاہیے۔ اور میں نے لال قلعہ سے ملک  سے وعدہ کیا تھا کہ میں  ایک ہزار دنوں میں 18 ہزار گاؤوں تک  بجلی پہنچانے کا مشکل  عزم میں نے عوامی سطح پر کیا تھا اور آج مجھے سر جھکا کر کے کہنا ہے کہ آپ کے  خادم نے اس  کام  کو وقت  پر مکمل کردیا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں 110 سے زیادہ اضلاع ایسے تھے جو ترقی کے ہر پیمانہ پر بہت پیچھے تھے، بہت پیچھے تھے۔  ان اضلاع پر پرانی سرکاروں نے ٹھپہ لگا دیا، یہ تو پچھڑے ہیں اور  پہلے کی  حکومتوں نے  بس اس کی  پہچان کرلی، یہ بیکار ہیں، پچھڑے ہیں، آگے کچھ نہیں ہو سکتا اور حکومت سوتی رہی۔ ان اضلاع میں تعلیم، صحت اور سہولیات کئی دہائیوں سے قابل رحم تھیں۔ اور اتفاق دیکھئے کہ انہی پسماندہ اضلاع میں میرے آبادی ملک  کی سب سے زیادہ میرے  قبائلی خاندانوں کی آبادی  رہتی تھی۔ جب افسران کو پنشنمنٹ پوسٹنگ کرنی ہوتی تھی تو انہیں انہیں اضلاع میں بھیج دیا جاتا تھا۔ تھکا ہوا ہارا ہوا  ناکام  جو فرد ہے، اسی کو کہتے جاؤ یار تم ادھر ہی جاؤ، تمہارا ادھر کام  نہیں ہے۔ اب وہ  جاکر کیا کرے گا؟ ان 110 سے زائد اضلاع کو اپنے حال پر چھوڑ کر ہندوستان کبھی ترقی  یافہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے محروموں کی  ترجیح کے اصول پر عمل کرتے ہوئے  ہماری سرکار نے ان اضلاع کواسپیریشنل ڈسٹرکٹ ( خواہش مند اضلاع) قرار دیا۔ ان اضلاع میں ہم  تعلیم، صحت، سڑک، ایسے کئی موضوعات پر  صفر سے کام شروع کرکے کامیابی کی نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ یہاں جھارکھنڈ میں بھی یہ اپنا کھنٹی سمیت کئی ایسے اضلاع اس فہرست میں شامل ہیں۔ اب خواہش مند ضلع مہم کی اس کامیابی کو حوصلہ مند  بلاک پروگرام کے ذریعے وسعت دی جا رہی ہے۔

 

میرے  پریوار جنو،

دہائیوں سے  ہمارے ملک میں  سوشل جسٹس -سماجی انصاف اور سیکولرازم نہ جانے روز  صبح و شام اس کے  گیت  تو بہت گائے گئے ، بیان بازی  بہت  ہوتی رہی۔ حقیقی سیکولرازم اسی وقت آتا ہے جب ملک کے کسی بھی شہری کے خلاف امتیازی سلوک کے تمام امکانات کو ختم کر دیا جائے۔ سماجی انصاف کا اعتماد  اسی وقت ملتا ہے جب سب کو مساوات سے ، مساوات کے جذبے سے سرکاری اسکیموں کا فائدہ ملے۔ بدقسمتی سے آج بھی کئی ریاستوں میں ایسے غریب لوگ ہیں جنہیں اسکیموں کے بارے میں مناسب معلومات نہیں ہیں۔ بہت سے غریب لوگ ہیں جو اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کے لیے جلدی نہیں کر پاتے ہیں۔ آخر  کب تک ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑتے رہیں گے؟ اس درد سے، اس تکلیف سے، اس احساس سے، یہ سوچ پیدا ہوئی ہے۔ اور اسی سوچ کے ساتھ آج سے وکست بھارت سنکلپ یاترا شروع ہو رہی ہے۔ یہ یاترا آج یعنی 15 نومبر کو بھگوان برسا منڈا کے یوم پیدائش سے شروع ہوگی اور اگلے سال 26 جنوری تک جاری رہے گی۔ اس سفر میں حکومت مشن موڈ میں ملک کے ہر گاؤں میں جائے گی، ہر غریب، ہر محروم شخص کو سرکاری اسکیموں کا فائدہ پہنچایا جائے گا جس کا وہ حقدار ہے۔  اسے یہ اسکیم پہنچے اس  کے لیے انتظامات کیے جائیں گے۔ اور آپ کو یاد ہوگا، میرے کچھ میڈیا دوست نہیں جانتے ۔ 2018 میں بھی میں نے ایک تجربہ کیا تھا۔ مرکزی حکومت نے ایسی ہی ایک گرام سوراج مہم شروع کی تھی۔ اور میں نے حکومت ہند کے ایک ہزار افسروں کو  گاوں میں بھیجا تھا۔ ایک ہزار افسران کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر گاؤں میں بٹھا دیا گیا تھا۔ اس مہم میں بھی ہم سات بڑی اسکیموں کے ساتھ ہر گاؤں میں گئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ گرام سوراج ابھیان کی طرح ہمیں بھی وکست بھارت سنکلپ یاترا کے لیے ہر گاؤں جا کر، ایسے ہر مستحق سے مل کر اس اسکیم کو کامیاب بنانے کا عہد لینا ہو گا، اور جب بھگوان برسا کی سرزمین سے نکلتے ہیں۔ کامیابی ضرور ملتی ہے۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب ہر غریب کے پاس مفت راشن دینے والا راشن کارڈ ہوگا۔ جب ہر غریب کے پاس اجولا کا گیس کنکشن ہوگا، سوبھاگیہ کابجلی کا کنکشن  ہوگا اور نل کا پانی ہوگا۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب ہر غریب کے پاس 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج  دینے والا آیوشمان کارڈ ہوگا۔ جب ہر غریب کے پاس اس کا اپنا پکا گھر ہوگا۔ میں وہ دن دیکھ رہا ہوں جب ہر کسان مرکزی حکومت کی پنشن اسکیم میں شامل ہوگا۔ جب ہر مزدور پنشن اسکیموں سے مستفید ہوگا۔ جب ہر اہل نوجوان مدرا یوجنا کا فائدہ اٹھا سکے گا، اور ایک کاروباری بننے کی طرف قدم بڑھائے گا۔ وکست بھارت سنکلپ یاترا ایک طرح سے ملک کے غریبوں، ملک کی ماؤں بہنوں، ملک کے نوجوانوں اور ملک کے کسانوں کے لیے مودی کی ضمانت ہے۔ اور جب مودی کی گارنٹی ہوتی  ہے،  نہ  تو  آپ جانتے ہیں کہ وہ گارنٹی کیا ہوتی ہے؟ مودی کی گارنٹی کا مطلب ہے گارنٹی کی تکمیل کی بھی گارنٹی۔

میرے  پریوار جنو،

ترقی یافتہ ہندوستان کے عزم کی ایک بڑی بنیاد پی ایم جنمن ہے یعنی پی ایم ٹرائب ٹرائبل جسٹس مہا ابھیان۔ سماجی انصاف  عام  عام باتیں  ہوئیں، مودی  ہمت کرکے نکلا ہے قبائلی انصاف  مہم کو  لے کر کے۔ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک قبائلی سماج کو مسلسل نظر انداز کیا گیا۔ میں اٹل جی کی حکومت میں تھا جنہوں نے قبائلی برادری کے لیے الگ وزارت بنائی اور الگ بجٹ بنایا۔ ہماری حکومت کے دوران قبائلی بہبود کے بجٹ میں پہلے کے مقابلے میں اب 6 گنا اضافہ ہوا ہے۔ پی ایم جنمن، اسکیم کا نام پی ایم جنمن رکھا گیا ہے۔ پی ایم جنمن یعنی پی ایم  جن جاتی  قبائلی انصاف  مہا ابھیان، اس کے تحت اب ہماری حکومت ان قبائلی بھائیوں اور بہنوں تک پہنچے گی جن تک کبھی نہیں پہنچا گیا۔ یہ وہ قبائلی گروپ  ہیں، ہم  نے  کہہ تو دیا وہ پریمیٹیو ٹرائبس ہیں، جن میں سے اکثر اب بھی جنگلوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے ریل  کو دیکھنے کی بات چھوڑو آواز بھی نہیں سنی ہے۔  ملک کے 22 ہزار سے زیادہ  گاؤوں  میں رہنے والی ایسی 75  جنجاتیہ،  گروپوں  قدیم قبائل کی نشاندہی کی ہے۔ جس طرح پسماندہ لوگوں میں انتہائی پسماندہ ہیں، اسی طرح یہ قبائلی بھی قبائلیوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ ملک میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان انتہائی پسماندہ قبائلیوں کو آزادی کے 75 سال بعد بھی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اس قبائلی برادری کے لوگوں کو کبھی مستقل مکان نہیں ملے۔ کئی نسلوں میں ان کے بچوں نے اسکول تک نہیں دیکھا ہے۔ اس معاشرے کے لوگوں کی ہنر مندی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس لیے اب حکومت ہند ایک خصوصی مہم چلا کر ان قبائل تک پہنچنے والی ہے۔ پہلے کی حکومتوں نے اعداد و شمار جوڑنے کا کام کیا، اپنے قریبی لوگوں سے کام کروایا، جو لوگ اوپر پہنچ چکے انہیں سے کام کروالینا، لیکن مجھے صرف اعداد و شمار جوڑنے کرکے  نہیں بیٹھنا ہے، مجھے زندگیاں جوڑنی ہیں،  ہر زندگی میں جان بھرنی ہے ہر زندگی  کو نئے جذبے سے بھرنا  ہے۔ اس  ہدف کے ساتھ، آج پی ایم  جن جاتی ، آدیواسی نیائے مہا ابھیان یعنی جنمن ، ہم جن گن  من  تو گاتے ہیں۔ آج میں پی ایم جن من کے ساتھ  اس عظیم مہم کی شروعات کررہا ہوں  اس مہا ابھیان پر  حکومت  24 ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے جا رہی ہے۔

ساتھیو،

میں خاص طور پر اس عظیم مہم کے لیے صدر جمہوریہ  محترمہ  دروپدی مرمو جی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہم نے ابھی ان کا ویڈیو پیغام بھی سنا ہے۔ جب وہ یہاں جھارکھنڈ میں گورنر تھیں اور اس سے پہلے اڈیشہ میں بھی وہ  وزیر کے طور پر کام کرتے تھیں، سماجی کارکن کے طور پر کام کرتی تھیں۔  تو ایسے آخری چھور پر  رہنے والے قبائلی گروپوں کو آگے لانے کے لئے وہ دن رات کوشش کرتی رہتی تھیں۔ صدر  جمہوریہ بننے کے بعد بھی وہ راشٹرپتی بھون میں ایسے گروپوں کو احترام کے ساتھ مدعو کرتی رہیں، ان کے مسائل کو سمجھ کر کے  ان کے حل پر تبادلہ خیال کرتی رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ہمیں جو رہنمائی دی ہے، جو تحریک دی ہے، اس سے ہم اس پی ایم جنمن، پی ایم  جن جاتی آدیواسی نیائے مہا ابھیان میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

 

میرے  پریوار جنو،

ہماری صدر جمہوریہ  دروپدی مرمو جی بھی خواتین کی قیادت میں ترقی کی ایک متاثر کن علامت ہیں۔ ہندوستان نے گزشتہ برسوں میں جس طرح پوری دنیا کو خواتین کی طاقت کی ترقی کا راستہ دکھایا ہے وہ بے مثال ہے۔ یہ سال ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے لیے سہولت، تحفظ، عزت، صحت اور خود روزگار کے رہے ہیں۔ ہمارے جھارکھنڈ کی یہ بیٹیاں کھیلوں میں جو نام کما رہی ہیں، اس سے دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ ہماری حکومت نے خواتین کے لیے ان کی زندگی کے ہر مرحلے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکیمیں بنائیں۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ سے لڑکیوں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور اسکولوں میں طالبات کے داخلے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں طالبات کے لیے علیحدہ بیت الخلاء کی تعمیر سے اسکول چھوڑنے کی مجبوری میں کمی آئی ہے۔ پی ایم آواس یوجنا کے تحت بہنیں کروڑوں گھروں کی مالکن بنی ہیں، بہنوں کے نام پر گھر رجسٹرڈ ہوئے ہیں، پہلی بار کوئی جائیداد ان کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی ہے۔ پہلی بار بیٹیوں کے داخلے کے لیے سینک اسکول، ڈیفنس اکیڈمی کھول دی گئی ہے۔ مدرا یوجنا کے تحت ضمانت کے بغیر قرض دینے والوں میں سے تقریباً 70 فیصد میرے ملک کی خواتین ہیں، میری بیٹیاں ہیں۔ خواتین کے اپنی مدد  آپ گروپوں کو بھی آج حکومت کی طرف سے ریکارڈ مالی امداد دی جا رہی ہے۔ اور لکھپتی دیدی مہم، کچھ لوگوں کو میری بات سن کر چکر آجاتے ہیں۔ میرا خواب دو کروڑ خواتین کو لکھ پتی دیدی بنانا ہے۔ دیکھو، سیلف ہیلپ گروپ چلانے والی دو کروڑ خواتین کروڑ پتی بننے جا رہی ہیں۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ہی ہماری حکومت نے اسمبلی اور لوک سبھا میں خواتین کو ریزرویشن دینے والے ناری شکتی وندن ادھینیم کو بھی اپنایا ہے۔ آج بھائی دوج کا مقدس تہوار ہے۔ یہ بھائی ملک کی تمام بہنوں کو گارنٹی دیتا ہے کہ آپ کا  یہ بھائی  بہنوں کی ترقی میں آنے والی ہر رکاوٹ کو  ایسے ہی دور کرتا رہے گا، آپ کا بھائی آپ کی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے  جی جان سے جٹا رہے گا۔ خواتین کی طاقت کا امرت ستون ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں اہم رول ادا کرے گا۔

میرے  پریوار جنو،

مرکزی حکومت ترقی یافتہ ہندوستان کے سفر میں ہر فرد کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے ہم نے پی ایم وشوکرما یوجنا بھی شروع کی ہے۔ حکومت نے ان لوگوں کو آگے لانے کی کوششیں کی ہیں جو اپنی روایتی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں۔ کمہار ہو، لوہار ہو، بڑھئی ہو، سنار ہو، مالا  کارہو، مستری ہو، بڑھئی ہو، دھوبی ہو، درزی  ہو، جوتا  بنانے والا ہو، ایسے ہمارے  ساتھی، ہمارے وشوکرما ساتھی، اس سکیم کے تحت وشوکرما ساتھیوں کی  جدید تربیت ہو گی، اور تربیت کے دوران انہیں پیسے ملیں گے۔ انہیں اچھے نئے اوزار، نئی ٹیکنالوجی ملے گی اور اس پر 13 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔

 

 

میرے  پریوار جنو،

آج پی ایم کسان سمان ندھی کی 15ویں قسط ملک کے کسانوں کو جاری کی گئی۔ اب ملک کے کروڑوں کسانوں کے کھاتوں میں بھیجی گئی کل رقم 2 لاکھ 75 ہزار کروڑ روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ آپ میں سے جو کسان یہاں بیٹھے ہیں ان کے موبائل پر پیغام آیا ہوگا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں 2000 روپے جمع ہو گئے ہیں۔ کوئی کٹ  کی کمپنی  نہیں ، کوئی بچولیا نہیں، ڈائریکٹ مودی کا آپ سے براہ راست ناطہ رہتا ہے۔ یہ وہی کسان ہیں جن کی پہلے کوئی  پوچھ نہیں ہوتی تھی۔ اب حکومت ان کسانوں کی ضروریات کا خیال رکھ رہی ہے۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے مویشی پروروں  اور ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت سے جوڑا ہے۔ ہماری حکومت نے مویشیوں  کی مفت ویکسینیشن پر 15 ہزار کروڑ روپے خرچ کئے۔ کورونا کے بعد آپ کو مفت ویکسین دی گئی، ہزاروں کروڑ خرچ ہوئے۔ آپ کے خاندان کے ہر فرد کو بچانے کی کوشش کی گئی، یہی نہیں، اب 15 ہزار کروڑ روپے خرچ کر کے جانوروں کو بھی مفت میں ٹیکہ لگایا جا رہا ہے، آپ بھی اس کا فائدہ اٹھائیں۔ ماہی پروری کو فروغ دینے کے لیے میں ابھی یہاں آیا ہوں اور یہاں ایک نمائش لگائی گئی ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی مچھلی دکھائی گئی ہے اور  اس میں موتی بنانے کا کام کررہے ہیں۔ متسیہ سمپدا یوجنا کے تحت مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ آج ملک میں 10 ہزار نئی کسان پیدوار تنظیم - ایف پی او بنائے جا رہے ہیں۔ اس سے کسانوں کی لاگت کم ہوئی ہے اور منڈی تک رسائی آسان ہوئی ہے۔ ہماری حکومت کی کوششوں سے اس سال موٹے اناج کا بین الاقوامی  سال منایا جا رہا ہے۔ موٹے اناج کو شری ان کی شناخت دینے اور اسے بیرونی منڈیوں تک لے جانے کی مکمل تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ہمارے قبائلی بھائی بہن بھی اس سے مستفید ہوں گے۔

 

ساتھیو،

حکومت کی ان ہمہ جہت کوششوں کی وجہ سے جھارکھنڈ جیسی ریاستوں میں بھی نکسل تشدد میں کمی آئی ہے۔ جھارکھنڈ ایک یا دو سال میں قیام کے 25 سال مکمل کرنے والا ہے۔ یہ جھارکھنڈ کے لیے بہت متاثر کن وقت ہے۔ اس سنگ میل پر، جھارکھنڈ میں 25 اسکیموں کی تکمیل کے ہدف کے ساتھ کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ میں جھارکھنڈ حکومت سے بھی گزارش کروں گا، میں جھارکھنڈ کے تمام لیڈروں سے گذارش کروں گا کہ وہ 25 سال کا ہدف مقرر کرکے ایک بہت بڑی مہم شروع کریں، اس سے ریاست کی ترقی کو ایک نئی رفتار  ملے گی اور  یہاں لوگوں کی زندگی بھی بہتر ہوگی۔ ہماری حکومت تعلیم کے فروغ اور نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ آج ملک میں جدید قومی تعلیمی پالیسی بنائی گئی ہے۔ اب طلباء کو اپنی مادری زبان میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کا اختیار مل رہا ہے۔ گزشتہ 9 سالوں میں ملک بھر میں 300 سے زائد یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں اور ساڑھے 5 ہزار سے زائد نئے کالجز بنائے گئے ہیں۔ ڈیجیٹل انڈیا مہم نے نوجوانوں کو نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ہر گاؤں میں کامن سروس سینٹرز میں ہزاروں نوجوانوں کو روزگار ملا ہے۔ ہندوستان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ اسٹارٹ اپس کے ساتھ دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ایکو سسٹم ہے۔ آج، رانچی کے آئی آئی ایم کیمپس اور آئی آئی ٹی-آئی ایس ایم، دھنباد میں نئے ہاسٹل کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔

 

ساتھیو،

امرت کال کے چار امرت ستون، ہماری خواتین کی طاقت، ہماری نوجوان طاقت، ہماری زرعی طاقت اور ہمارے غریب اور متوسط ​​طبقے کی طاقت کی صلاحیت، یقینی طور پر ہندوستان کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے اور ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ہندوستان بنائیں گے۔ میں ان اسکیموں کے لئے  قوم کی تعمیر کی ان مہمات کے لئے ایک بار پھر آپ  کو دعوت بھی دیتا ہوں اور آپ سب کو مبارکباد بھی  دیتا ہوں۔ میرے ساتھ، میں کہوں گا بھگوان برسا منڈا – آپ کہیں گے  امر رہیں، امر رہیں۔ بھگوان برسا منڈا – امر رہیں، امر رہیں ۔ بھگوان برسا منڈا - امر رہیں، امر رہیں ۔ دونوں ہاتھ  اوپر کرکے پوری طاقت سے بولئے، بھگوان برسا منڈا - امر رہیں، امر رہیں ، بھگوان برسا منڈا - امر رہیں، امر رہیں ، بھگوان برسا منڈا - امر رہیں، امر رہیں ، بھگوان برسا منڈا - امر رہیں، امر رہیں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔

 

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।