ہمارے ملک کے وزیر زراعت جناب نریندر سنگھ تومر جی، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر رفقاء، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیگر مہمانان گرامی ، سبھی عزیز طلباء اور ملک کے ہر کونے سے جڑے ہوئے اس ورچوول تقریب میں موجود تمام میرے بھائیو اور بہنو!
رانی لکشمی بائی کیندریہ کرشی ودیالیہ کے نئے تعلیمی اور انتظامی عمارت کے لئے میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، یہاں سے پڑھ کر بہت کچھ سیکھ کر نکلنے والے نوجوان ساتھی ملک کے زرعی سیکٹر کو مضبوط کرنے کاکام کریں گے۔
طلباء، طالبات کی تیاریوں ، ان کاجوش وخروش اور ابھی جو گفتگو ہورہی تھی اور جو میری آپ لوگوں سے بات کرنے کا مجھے موقع ملامیں جوش، امنگ اور اعتماد کا تجربہ کررہا تھا، یہ دکھائی دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس نئی عمارت کے بننے سے متعدد نئی سہولیات حاصل ہوں گی۔ ان سہولتوں سے طلباء کو مزید کام کرنے کی تحریک ملے گی اور زیادہ حوصلہ ملے گا۔
ساتھیو،کبھی رانی لکشمی بائی نے بندیل کھنڈ کی دھرتی پر گرجنا کی تھی،‘‘ میں، میری جھانسی نہیں دوں گی’’ہم سب کو یہ جملہ برابر یاد ہے،‘‘میں، میری جھانسی نہیں دوں گی’’ آج ایک نئی للکار کی ضرورت ہے اور اسی جھانسی سے، اسی بندیل کھنڈکی سرزمین سے ضرورت ہے۔ میری جھانسی ، میرا بندیل کھنڈ آتم نربھر بھارت ابھیان کو کامیاب بنانے کیلئے پوری طاقت لگا دیگا، ایک نیا باب لکھے گا۔
اس میں بہت بڑا کردار زراعت کاہے، ایگریکلچر کا ہے، جب ہم زراعت میں خودکفالت کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف غذائی اجناس تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ گاؤں کی پوری معیشت کی خودکفالت کی بات ہے۔ یہ ملک کے الگ الگ حصوں میں کھیتی سے پیدا ہونے والے پیداوار میں ویلو ایڈیشن کرکے ملک اور دنیا کے بازاروں میں پہنچانے کا مشن ہے۔ زراعت میں خودکفالت کاہدف کسانوں کو ایک پیداوار کرنے والے کے ساتھ ہی صنعت کار بنانے کابھی ہے، جب کسان اور کھیتی صنعت کی مانند آگے بڑھیں گے تو بڑے پیمانے پر گاؤں میں اور گاؤں کے پاس ہی روزگار اور خودروزگار کے مواقع پیداہونے والے ہیں۔
ساتھیو، اس وقت اور جب ہم اس عہد کے ساتھ ہی حال میں زراعت سے منسلک تاریخی اصلاحات یہ سرکار لگاتار کررہی ہے۔ کئی اصلاحات کیے گئے ہیں، ہندوستان میں کسان کو بندشوں میں جکڑنے والی قانونی انتظامات، منڈی قانون جیسا اور ضروری ساز وسامان وقانون ان سب میں بہت بڑا سدھار کیا گیا ہے۔ اس سے کسان اب باقی صنعتوں کی طرح پورے ملک میں منڈیوں سے باہر بھی جہاں اس کو زیادہ دام ملتے ہیں وہاں اپنی پیداوار فروخت کرسکے گا۔
اتنا ہی نہیں گاؤں کے پاس صنعتوں کے کلسٹر بنانے کاوسیع منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان صنعتوں کو بہتر بنیادی ڈھانچے کی سہولت ملے اس کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس فنڈ کے ذریعے ہمارے زرعی پیداوار تنظیمیں، ہمارے ایف پی او اب ذخیرہ اندوزی سے جڑا جدید ترین بنیادی ڈھانچے بھی تیار کرپائیں گے اور پروسیسنگ سے جڑی صنعت بھی لگا پائیں گے۔ اس سے زرعی سیکٹر میں پڑھائی کرنے والے نوجوان اور ان کے سبھی ساتھی، ان سب کو نئے مواقع حاصل ہوں گے،نئے اسٹارٹ اپ کیلئے راستے بنیں گے۔
ساتھیو، آج بیج سے لیکر بازار تک کھیتی کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا جدید تحقیق کے فائدوں کو جوڑنے کا مسلسل کام کیا جارہا ہے۔ اس میں بہت بڑا رول تحقیقی اداروں اور زرعی یونیورسٹیوں کا بھی ہے۔ چھ سال پہلے ہی کی بات کریں تو جہاں ملک میں صرف ایک مرکزی زرعی یونیورسٹی تھی آج تین تین سینٹرل ایگریکلچرل یونیورسٹیز ملک میں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور قومی ادارے آئی اے آر آئی جھارکھنڈ ، آئی اے آر آئی آسام اور بہار کے موتیہاری میں مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ فار انٹیگریٹیڈ فارمنگ، ان کا بھی قیام کیا جارہا ہے۔ یہ تحقیقی ادارے طلباء اور طالبات کو نئے مواقع تو دیں گے ہی مقامی کسانوں تک ٹیکنالوجی کے فوائدپہنچانے میں بھی، ان کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد کریں گے۔
ابھی ملک میں سولر پمپ ، سولر ٹری، مقامی ضرورتوں کے مطابق تیار کیے گئے بیج،مائیکروایریگیشن،ڈرپ ایریگیشن، متعدد شعبوں میں ایک ساتھ کام ہورہا ہے۔ ان کوششوں کو زیادہ سے زیادہ کسانوں تک پہنچانے کیلئے خاص طور پر بندیل کھنڈ کے کسانوں کو اس سےجوڑنے کیلئے آپ تمام لوگوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال زراعت اور اس سے منسلک چیلنجوں سے نمٹنے میں کیسے کام آرہا ہے، حال میں اس کی ایک اور مثال دیکھنے کو ملی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا یہاں بندیل کھنڈ میں مئی کے مہینے میں ٹڈی دل کا بہت بڑا حملہ ہوا تھا، اور پہلے تو یہ ٹڈی دل اپنے آپ میں، خبر آتی ہے نہ جب کہ ٹڈی دل آنے والا ہے تو کسان رات رات بھر سو نہیں پاتا ہے۔ ساری محنت منٹوں میں تباہ کردیتا ہے۔ کتنے ہی کسانوں کی فصل، سبزیاں برباد ہونا بالکل یقینی ہوجاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بندیل کھنڈ میں قریب قریب تیس سال بعد ٹڈیوں نے حملہ کیا، ورنہ پہلے اس علاقے میں ٹڈیاں نہیں آتی تھیں۔
ساتھیو، صرف اترپردیش ہی نہیں ملک کی دس سے زیادہ ریاستیں ٹڈی دل یا لوکسٹ کے حملے سے متاثر ہوئے تھے۔ جتنی تیزی سے یہ پھیل رہا تھا، اس پر عام طور طریقوں، روایتی ذرائع سے کنٹرول کرپانا مشکل تھا اور جس طرح سے بھارت نے ٹڈی دل سے نجات حاصل کیا ہے، اتنے بڑے حملے کو بہت سائنسی طریقے سے جس طرح سنبھالا ہے، اگر کورونا جیسی اور چیزیں نہ ہوتیں تو شاید ہندوستان کے میڈیا میں ہفتے بھر اس کی بہت مثبت بحث ہوئی ہوتی، اتنا بڑا کام ہوا ہے۔
اور ایسے میں ٹڈی دل کے حملے سے کسانوں کی فصلوں کو بچانے کیلئے جو جنگی پیمانے پر کام کیا گیا ، جھانسی سمیت دیگر شہروں میں درجنوں کنٹرول روم قائم کئے گئے، کسانوں تک پہلے سے جانکاری پہچنے، اس کا انتظام کیا گیا۔ ٹڈیوں کو مارنے اور بھگانے کیلئے جو اسپرے والی اسپیشل مشینیں ہوتی ہیں ، وہ بھی تب ہمارے اتنی تعداد میں نہیں تھیں کیوں کہ یہ حملے ایسے نہیں آتے ہیں۔ حکومت نے فوراً ایسی درجنوں جدید مشینوں کو خرید کر ضلعوں تک پہنچایا، ٹینکر ہو ، گاڑیاں ہو، کیمیکل ہو، دوائیاں ہوں، یہ سارے وسائل لگا دیے گئے تاکہ کسانوں کو کم سے کم نقصان ہو۔
اتنا ہی نہیں اونچے پیڑوں کو بچانے کیلئے بڑے علاقوں میں ایک ساتھ دوا کا چھڑکاؤ کرنے کیلئے درجنوں ڈرون لگا دیے گئے۔ ہیلی کاپٹر تک سے دوائی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ ان ساری کوششوں کے بعد ہی بھارت اپنے کسانوں کا بہت زیادہ نقصان ہونے سے بچاپایا ۔
ساتھیو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، دوسری آرٹی فیشیل انٹلی جنس کی ٹیکنالوجی ہو، جدید زرعی آلات ہوں، اس کو ملک کی زراعت میں زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کیلئے آپ جیسے نوجوان محققین کو، نوجوان سائنسدانوں کو مسلسل ایک تندہی کے جذبے سے ون لائف ون مشن (ایک زندگی ایک مشن) کی طرح کام کرناہوگا۔
پچھلے چھ سال سے یہ کوشش مسلسل کی جارہی ہے، ریسرچ کا کھیتی سے براہ راست تعلق ہو، گاؤں کی سطح پر چھوٹے سےچھوٹے کسان کو بھی سائنٹفک ایڈوائز دستیاب ہو، اب کیمپس سے لیکر فیلڈ تک ماہرین کے جانکاروں کے اس ماحولی نظام کو مزید مؤثر بنانے کیلئے کام کیاجانا ضروری ہے۔ اس میں آپ کی یونیورسٹی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔
ساتھیو، زراعت سے منسلک تعلیم کو، اس کی پریکٹیکل ایپلی کیشن کو اسکول کی سطح پر لے جانا بھی ضروری ہے۔ کوشش ہے کہ گاؤں کی سطح پر مڈل اسکول لیول پر ہی زراعت کے مضمون کو متعارف کیا جائے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ گاؤں کے بچوں میں کھیتی سے جڑی جو ایک فطری سمجھ ہوتی ہے اس کا سائنسی طریقے سے توسیع ہوگا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ کھیتی اور اس سے جڑی تکنیک ، تجارت ، کاروبار، اس کے بارے میں اپنے کنبے کو زیادہ جانکاری دے پائیں گے۔ اس سے ملک میں ایگرو انٹرپرائز کو بھی اور بڑھاوا ملے گا، نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس کے لئے بھی متعدد ضروری اصلاحات کیے گئے ہیں۔
ساتھیو، کتنی ہی چنوتیاں کیوں نہ ہوں، مسلسل ان کامقابلہ کرنا ، ہمیشہ سے، صرف لکشمی بائی کے زمانے سے نہیں ہمیشہ سے بندیل کھنڈ قیادت کرتا رہا ہے۔ بندیل کھنڈ کی یہی پہچان رہی ہے کہ کسی بھی مشکل کا سامنے سے مقابلہ کرنا ہے۔
کورونا کے خلاف بندیل کھنڈ کے لوگ بھی ڈٹے ہوئے ہیں، سرکار نے بھی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو کم سے کم دقت ہو، غریب کا چولہا جلتا رہے، اس کے لئے اترپردیش کے کروڑوں غریب اور دیہی خاندانوں کو جیسے ملک کے دیگر حصوں میں مفت راشن دیاجارہا ہے آپ کے یہاں بھی دیا جارہا ہے۔ بندیل کھنڈ کی قریب قریب دس لاکھ غریب بہنوں کو اس دوران مفت گیس سلینڈر دیے گئے ہیں۔ لاکھوں بہنوں کے جن دھن کھاتے میں ہزاروں کروڑ روپئے جمع کیے گئے ہیں۔ غریب کلیان روزگار ابھیان کے تحت اکیلے اترپردیش میں 700 کروڑ روپئے سے زیادہ کا خرچ اب تک کیا جاچکا ہے جس کے تحت لاکھوں مزدور ساتھیوں کو روزگار مہیاہورہاہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس ابھیان کے تحت یہاں بندیل کھنڈ میں بھی سینکڑوں تالابوں کو ٹھیک کرنے اور نئے تالاب بنانے کاکام کیا گیا ہے۔
ساتھیو، چناؤ سے پہلے جب میں جھانسی آیا تھا تب میں نے بندیل کھنڈ کی بہنوں سے کہا تھا کہ بیتے پانچ برس بیت الخلاء کے لئے تھے اور آنے والے پانچ برس پانی کیلئے ہوں گے، بہنوں کے آشیرواد سے ہر گھر جل پہچانے کا یہ ابھیان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یوپی اور ایم پی میں پھیلے بندیل کھنڈکے سبھی ضلعوں میں پانی کےوسائل کی تعمیر کرنے اور پائپ لائن بچھانے کاکام مسلسل جاری ہے۔ اس سیکٹر میں دس ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے تقریباً 500 جل اسکیموں کی منظوری دی جاچکی ہے۔ پچھلے دو مہینے میں ان میں سے قریب قریب 3ہزار کروڑ روپئے کی اسکیموں پر کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اب یہ تیار ہوجائیں گی تو اسے بندیل کھنڈ کے لاکھوں خاندانوں کو سیدھا فائدہ ہوگا۔ اتنا ہی نہیں بندیل کھنڈ میں زیرزمین پانی کی سطح کو اوپر اٹھانے کیلئے اٹل بھوجل یوجناپر بھی کام چل رہا ہے۔ جھانسی ، بہوبا، باندا، حمیر پور، چترکوٹ اور للت پور ، اس کے ساتھ ساتھ مغربی یوپی کے سینکڑوں گاؤں میں پانی کی سطح کو سدھارنے کیلئے 700 کروڑ روپئے سے زیادہ کی یوجنا پر کام جاری ہے۔
ساتھیو، بندیل کھنڈ کے ایک طرف بیتوا بہتی اور دوسری طرف کین ندی بہتی ہے ، اترسمت میں ماں جمنا جی ہیں لیکن حالات ایسے ہیں کہ ان ندیوں کے پانی کا پورا فائدہ پورے علاقے کو نہیں مل پاتا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے بھی مرکزی حکومت مسلسل کوشش کررہی ہے۔ کین بیتوا ندی لنک اسکیموں میں اس علاقے کی تقدیر کو بدلنے کی بہت طاقت ہے۔ اس سمت میں ہم دونوں ریاستی حکومتوں کے ساتھ لگاتار رابطے میں ہیں۔ کام کررہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک بار جب بندیل کھنڈ کو مناسب مقدار میں پانی ملے گا تو یہاں زندگی پوری طرح سے بدل جائے گی۔
بندیل کھنڈ ایکسپریس ہو یا پھر دفاعی راہداری، ہزاروں کروڑ روپئے کے یہ پروجیکٹ بھی یہاں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیداکرنے کاکام کریں گے۔ وہ دن دور نہیں جب بہادروں کی یہ سرزمین جھانسی اور اس کے آس پاس کا یہ پورا علاقہ ملک کو دفاع کے سیکٹر میں خودکفیل بنانے کیلئے ایک بڑا علاقہ تیار ہوجائیگا۔ یعنی ایک طرح سے بندیل کھنڈ میں جئے جیوان،جئے کسان اور جئے وگیان کا منتر چاروں سمت میں گونجے گا۔ مرکزی حکومت اور اترپردیش کی حکومت بندیل کھنڈ کی مکمل پہچان کو،اس سرزمین کے افتخار کو مضبوط کرنے کیلئے عہد بند ہے۔
مستقبل کی نیک خواہشات کے ساتھ ایک بار پھر یونیورسٹی کی نئی عمارت کیلئے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔
دو گز کی دوری، ماسک ہے ضروری، اس منتر کو آپ ہمیشہ یاد رکھئے۔آپ محفوظ رہیں گے، تو ملک محفوظ رہےگا، آپ سب کا بہت بہت ممنون۔
شکریہ۔