Agricultural institutions will provide new opportunities to students, help connect farming with research and advanced technology, says PM
PM calls for ‘Meri Jhansi-Mera Bundelkhand’ to make Atmanirbhar Abhiyan a success
500 Water related Projects worth over Rs 10,000 crores approved for Bundelkhand region; work on Projects worth Rs 3000 crores already commenced

ہمارے ملک کے وزیر زراعت جناب نریندر سنگھ تومر جی، مرکزی کابینہ کے میرے دیگر رفقاء، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، دیگر مہمانان گرامی ، سبھی عزیز طلباء اور ملک کے ہر کونے سے جڑے ہوئے اس ورچوول تقریب میں موجود تمام میرے بھائیو اور بہنو!

رانی لکشمی بائی کیندریہ کرشی ودیالیہ کے نئے تعلیمی اور انتظامی عمارت کے لئے میں آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، یہاں سے پڑھ کر بہت کچھ سیکھ کر نکلنے والے نوجوان ساتھی ملک کے زرعی سیکٹر کو مضبوط کرنے کاکام کریں گے۔

طلباء، طالبات کی تیاریوں ، ان کاجوش وخروش اور ابھی جو گفتگو ہورہی تھی  اور جو میری آپ لوگوں سے بات کرنے کا مجھے موقع ملامیں جوش، امنگ اور اعتماد کا تجربہ کررہا تھا، یہ دکھائی دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس نئی عمارت کے بننے سے متعدد نئی سہولیات حاصل ہوں گی۔ ان سہولتوں سے طلباء کو مزید کام کرنے کی تحریک ملے گی اور زیادہ حوصلہ ملے گا۔

ساتھیو،کبھی رانی لکشمی بائی نے بندیل کھنڈ کی دھرتی پر گرجنا کی تھی،‘‘ میں، میری جھانسی نہیں دوں گی’’ہم سب کو یہ جملہ برابر یاد ہے،‘‘میں، میری جھانسی نہیں دوں گی’’ آج ایک نئی للکار کی ضرورت ہے اور اسی جھانسی سے، اسی بندیل کھنڈکی سرزمین سے ضرورت ہے۔ میری جھانسی ، میرا بندیل کھنڈ آتم نربھر بھارت ابھیان کو کامیاب بنانے کیلئے پوری طاقت لگا دیگا، ایک نیا باب لکھے گا۔

اس میں بہت بڑا کردار زراعت کاہے، ایگریکلچر کا ہے، جب ہم زراعت میں خودکفالت کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف غذائی اجناس تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ گاؤں کی پوری معیشت کی خودکفالت کی بات ہے۔ یہ ملک کے الگ الگ حصوں میں کھیتی سے پیدا ہونے والے پیداوار میں ویلو ایڈیشن کرکے ملک اور دنیا کے بازاروں میں پہنچانے کا مشن ہے۔ زراعت میں خودکفالت کاہدف کسانوں کو ایک پیداوار کرنے والے کے ساتھ ہی صنعت کار بنانے کابھی ہے، جب کسان اور کھیتی صنعت کی مانند آگے بڑھیں گے تو بڑے پیمانے پر گاؤں میں اور گاؤں کے پاس ہی روزگار اور خودروزگار کے مواقع پیداہونے والے ہیں۔

ساتھیو، اس وقت اور جب ہم اس عہد کے ساتھ ہی حال میں زراعت سے منسلک تاریخی اصلاحات یہ سرکار لگاتار کررہی ہے۔ کئی اصلاحات کیے گئے ہیں، ہندوستان میں کسان کو بندشوں میں جکڑنے والی قانونی انتظامات، منڈی قانون جیسا اور ضروری ساز وسامان وقانون ان سب میں بہت بڑا سدھار کیا گیا ہے۔  اس سے کسان اب باقی صنعتوں کی طرح پورے ملک میں منڈیوں سے باہر بھی جہاں اس کو زیادہ دام ملتے ہیں وہاں اپنی پیداوار فروخت کرسکے گا۔

اتنا ہی نہیں گاؤں کے پاس صنعتوں کے کلسٹر بنانے کاوسیع منصوبہ بنایا گیا ہے۔ ان صنعتوں کو بہتر بنیادی ڈھانچے کی سہولت ملے اس کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے کا خصوصی فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس فنڈ کے ذریعے ہمارے زرعی پیداوار تنظیمیں، ہمارے ایف پی او اب ذخیرہ اندوزی سے جڑا جدید ترین بنیادی ڈھانچے بھی تیار کرپائیں گے اور پروسیسنگ  سے جڑی صنعت بھی لگا پائیں گے۔ اس سے زرعی سیکٹر میں پڑھائی کرنے والے نوجوان اور ان کے سبھی ساتھی، ان سب کو نئے مواقع حاصل ہوں گے،نئے اسٹارٹ اپ کیلئے راستے بنیں گے۔

ساتھیو، آج بیج سے لیکر بازار تک کھیتی کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا جدید تحقیق کے فائدوں کو جوڑنے کا مسلسل کام کیا جارہا ہے۔ اس میں بہت بڑا رول تحقیقی اداروں اور زرعی یونیورسٹیوں کا بھی ہے۔ چھ سال پہلے ہی کی بات کریں تو جہاں ملک میں صرف ایک مرکزی زرعی یونیورسٹی تھی آج تین تین سینٹرل ایگریکلچرل یونیورسٹیز ملک میں کام کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ تین اور قومی ادارے آئی اے آر آئی جھارکھنڈ ، آئی اے آر آئی آسام اور بہار کے موتیہاری میں مہاتماگاندھی انسٹی ٹیوٹ فار انٹیگریٹیڈ فارمنگ، ان کا بھی قیام کیا جارہا ہے۔ یہ تحقیقی ادارے طلباء اور طالبات کو نئے مواقع تو دیں گے ہی مقامی کسانوں تک ٹیکنالوجی کے فوائدپہنچانے میں بھی، ان کی صلاحیت بڑھانے میں بھی مدد کریں گے۔

ابھی ملک میں سولر پمپ ، سولر ٹری، مقامی ضرورتوں کے مطابق تیار کیے گئے بیج،مائیکروایریگیشن،ڈرپ ایریگیشن، متعدد شعبوں میں ایک ساتھ کام ہورہا ہے۔ ان کوششوں کو زیادہ سے زیادہ کسانوں تک پہنچانے کیلئے خاص طور پر بندیل کھنڈ کے کسانوں کو اس سےجوڑنے کیلئے آپ تمام لوگوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال زراعت اور اس سے منسلک چیلنجوں سے نمٹنے میں کیسے کام آرہا ہے، حال میں اس کی ایک اور مثال دیکھنے کو ملی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا یہاں بندیل کھنڈ میں مئی کے مہینے میں ٹڈی دل کا بہت بڑا حملہ ہوا تھا، اور پہلے تو یہ ٹڈی دل اپنے آپ میں، خبر آتی ہے نہ جب کہ ٹڈی دل آنے والا ہے تو کسان رات رات بھر سو نہیں پاتا ہے۔ ساری محنت منٹوں میں تباہ کردیتا ہے۔ کتنے ہی کسانوں کی فصل، سبزیاں برباد ہونا بالکل یقینی ہوجاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ بندیل کھنڈ میں قریب قریب تیس سال بعد ٹڈیوں نے حملہ کیا، ورنہ پہلے اس علاقے میں ٹڈیاں نہیں آتی تھیں۔

ساتھیو، صرف اترپردیش ہی نہیں ملک کی دس سے زیادہ ریاستیں ٹڈی دل یا لوکسٹ کے حملے سے متاثر ہوئے تھے۔ جتنی تیزی سے یہ پھیل رہا تھا، اس پر عام طور طریقوں، روایتی ذرائع سے کنٹرول کرپانا مشکل تھا اور جس طرح سے بھارت نے ٹڈی دل سے نجات حاصل کیا ہے، اتنے بڑے حملے کو بہت سائنسی طریقے سے جس طرح سنبھالا ہے، اگر کورونا جیسی اور چیزیں نہ ہوتیں تو شاید ہندوستان کے میڈیا میں ہفتے بھر اس کی بہت مثبت بحث ہوئی ہوتی، اتنا بڑا کام ہوا ہے۔

اور ایسے میں ٹڈی دل کے حملے سے کسانوں کی فصلوں کو بچانے کیلئے جو جنگی پیمانے پر کام کیا گیا ، جھانسی سمیت دیگر شہروں میں درجنوں کنٹرول روم قائم کئے گئے، کسانوں تک پہلے سے جانکاری پہچنے، اس کا انتظام کیا گیا۔ ٹڈیوں کو مارنے اور بھگانے کیلئے جو اسپرے والی اسپیشل مشینیں ہوتی ہیں ، وہ بھی تب ہمارے اتنی تعداد میں نہیں تھیں کیوں کہ یہ حملے ایسے نہیں آتے ہیں۔ حکومت نے فوراً ایسی درجنوں جدید مشینوں کو خرید کر ضلعوں تک پہنچایا، ٹینکر ہو ، گاڑیاں ہو، کیمیکل ہو، دوائیاں ہوں، یہ سارے وسائل لگا دیے گئے تاکہ کسانوں کو کم سے کم نقصان ہو۔

اتنا ہی نہیں اونچے پیڑوں کو بچانے کیلئے بڑے علاقوں میں ایک ساتھ دوا کا چھڑکاؤ کرنے کیلئے درجنوں ڈرون لگا دیے گئے۔ ہیلی کاپٹر تک سے دوائی کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ ان ساری کوششوں کے بعد ہی بھارت اپنے کسانوں کا بہت زیادہ نقصان ہونے سے بچاپایا ۔

ساتھیو، ڈرون ٹیکنالوجی ہو، دوسری آرٹی فیشیل انٹلی جنس کی ٹیکنالوجی ہو، جدید زرعی آلات ہوں، اس کو ملک کی زراعت میں زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کیلئے آپ جیسے نوجوان محققین کو، نوجوان سائنسدانوں کو مسلسل ایک تندہی کے جذبے سے ون لائف ون مشن (ایک زندگی ایک مشن) کی طرح کام کرناہوگا۔

پچھلے چھ سال سے یہ کوشش مسلسل کی جارہی ہے، ریسرچ کا کھیتی سے براہ راست تعلق ہو، گاؤں کی سطح پر چھوٹے سےچھوٹے کسان کو بھی سائنٹفک ایڈوائز دستیاب ہو، اب کیمپس سے لیکر فیلڈ تک ماہرین کے جانکاروں کے اس ماحولی نظام کو مزید مؤثر بنانے کیلئے کام کیاجانا ضروری ہے۔ اس میں آپ کی یونیورسٹی کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔

ساتھیو، زراعت سے منسلک تعلیم کو، اس کی پریکٹیکل ایپلی کیشن کو اسکول کی سطح پر لے جانا بھی ضروری ہے۔ کوشش ہے کہ گاؤں کی سطح پر مڈل اسکول لیول پر ہی زراعت کے مضمون کو متعارف کیا جائے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ گاؤں کے بچوں میں کھیتی سے جڑی جو ایک فطری سمجھ ہوتی ہے اس کا سائنسی طریقے سے توسیع ہوگا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ کھیتی اور اس سے جڑی تکنیک ، تجارت ، کاروبار، اس کے بارے میں اپنے کنبے کو زیادہ جانکاری دے پائیں گے۔ اس سے ملک میں ایگرو انٹرپرائز کو بھی اور بڑھاوا ملے گا، نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اس کے لئے بھی متعدد ضروری اصلاحات کیے گئے ہیں۔

ساتھیو، کتنی ہی چنوتیاں کیوں نہ ہوں، مسلسل ان کامقابلہ کرنا ، ہمیشہ سے، صرف لکشمی بائی کے زمانے سے نہیں ہمیشہ سے بندیل کھنڈ قیادت کرتا رہا ہے۔ بندیل کھنڈ کی یہی پہچان رہی ہے کہ کسی بھی مشکل کا سامنے سے مقابلہ کرنا ہے۔

کورونا کے خلاف بندیل کھنڈ کے لوگ بھی ڈٹے ہوئے ہیں، سرکار نے بھی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو کم سے کم دقت ہو، غریب کا چولہا جلتا رہے، اس کے لئے اترپردیش کے کروڑوں غریب اور دیہی خاندانوں کو جیسے ملک کے دیگر حصوں میں مفت راشن دیاجارہا ہے آپ کے یہاں بھی دیا جارہا ہے۔ بندیل کھنڈ کی قریب قریب دس لاکھ غریب بہنوں کو اس دوران مفت گیس سلینڈر دیے گئے ہیں۔ لاکھوں بہنوں کے جن دھن کھاتے میں ہزاروں کروڑ روپئے جمع کیے گئے ہیں۔ غریب کلیان روزگار ابھیان کے تحت اکیلے اترپردیش میں 700 کروڑ روپئے سے زیادہ کا خرچ اب تک کیا جاچکا ہے جس کے تحت لاکھوں مزدور ساتھیوں کو روزگار مہیاہورہاہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس ابھیان کے تحت یہاں بندیل کھنڈ میں بھی سینکڑوں تالابوں کو ٹھیک کرنے اور نئے تالاب بنانے کاکام کیا گیا ہے۔

ساتھیو، چناؤ سے پہلے جب میں جھانسی آیا تھا تب میں نے بندیل کھنڈ کی بہنوں سے کہا تھا کہ بیتے پانچ برس بیت الخلاء کے لئے تھے اور آنے والے پانچ برس پانی کیلئے ہوں گے، بہنوں کے آشیرواد سے ہر گھر جل پہچانے کا یہ ابھیان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یوپی اور ایم پی میں پھیلے بندیل کھنڈکے سبھی ضلعوں میں پانی کےوسائل کی تعمیر کرنے اور پائپ لائن بچھانے کاکام مسلسل جاری ہے۔ اس سیکٹر میں دس ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے تقریباً 500 جل اسکیموں کی منظوری دی جاچکی ہے۔ پچھلے دو مہینے میں ان میں سے قریب قریب 3ہزار کروڑ روپئے کی اسکیموں پر کام شروع بھی ہوچکا ہے۔ اب یہ تیار ہوجائیں گی تو اسے بندیل کھنڈ کے لاکھوں خاندانوں کو سیدھا فائدہ ہوگا۔ اتنا ہی نہیں بندیل کھنڈ میں زیرزمین پانی کی سطح کو اوپر اٹھانے کیلئے اٹل بھوجل یوجناپر بھی کام چل رہا ہے۔ جھانسی ، بہوبا، باندا، حمیر پور، چترکوٹ اور للت پور ، اس کے ساتھ ساتھ مغربی یوپی کے سینکڑوں گاؤں میں پانی کی سطح کو سدھارنے کیلئے 700 کروڑ روپئے سے زیادہ کی یوجنا پر کام جاری ہے۔

ساتھیو، بندیل کھنڈ کے ایک طرف بیتوا بہتی اور دوسری طرف کین ندی بہتی ہے ، اترسمت میں ماں جمنا جی ہیں لیکن حالات ایسے ہیں کہ ان ندیوں کے پانی کا پورا فائدہ پورے علاقے کو نہیں مل پاتا ہے۔ اس صورتحال کو بدلنے کیلئے بھی مرکزی حکومت مسلسل کوشش کررہی ہے۔ کین بیتوا ندی لنک اسکیموں  میں اس علاقے کی تقدیر کو بدلنے کی بہت طاقت ہے۔ اس سمت میں ہم دونوں ریاستی حکومتوں کے ساتھ لگاتار رابطے میں ہیں۔ کام کررہے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک بار جب بندیل کھنڈ کو مناسب مقدار میں پانی ملے گا تو یہاں زندگی پوری طرح سے بدل جائے گی۔

بندیل کھنڈ ایکسپریس ہو یا پھر دفاعی راہداری، ہزاروں کروڑ روپئے کے یہ پروجیکٹ بھی یہاں روزگار کے ہزاروں نئے مواقع پیداکرنے کاکام کریں گے۔ وہ دن دور نہیں جب بہادروں کی یہ سرزمین جھانسی اور اس کے آس پاس کا یہ پورا علاقہ ملک کو دفاع کے سیکٹر میں خودکفیل بنانے کیلئے ایک بڑا علاقہ تیار ہوجائیگا۔ یعنی ایک طرح سے بندیل کھنڈ میں جئے جیوان،جئے کسان اور جئے وگیان کا منتر چاروں سمت میں گونجے گا۔ مرکزی حکومت اور اترپردیش کی حکومت بندیل کھنڈ کی مکمل پہچان کو،اس سرزمین کے افتخار کو مضبوط کرنے کیلئے عہد بند ہے۔

مستقبل کی نیک خواہشات کے ساتھ ایک بار پھر یونیورسٹی کی نئی عمارت کیلئے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔

دو گز کی دوری، ماسک ہے ضروری، اس منتر کو آپ ہمیشہ یاد رکھئے۔آپ محفوظ رہیں گے، تو ملک محفوظ رہےگا، آپ سب کا بہت بہت ممنون۔

شکریہ۔

 
Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...

Your Excellency President Irfan Ali,
Prime Minister Mark Philips,
Vice President Bharrat Jagdeo,
Former President Donald Ramotar,
Members of the Guyanese Cabinet,
Members of the Indo-Guyanese Community,

Ladies and Gentlemen,

Namaskar!

Seetaram !

I am delighted to be with all of you today.First of all, I want to thank President Irfan Ali for joining us.I am deeply touched by the love and affection given to me since my arrival.I thank President Ali for opening the doors of his home to me.

I thank his family for their warmth and kindness. The spirit of hospitality is at the heart of our culture. I could feel that, over the last two days. With President Ali and his grandmother, we also planted a tree. It is part of our initiative, "Ek Ped Maa Ke Naam", that is, "a tree for mother”. It was an emotional moment that I will always remember.

Friends,

I was deeply honoured to receive the ‘Order of Excellence’, the highest national award of Guyana. I thank the people of Guyana for this gesture. This is an honour of 1.4 billion Indians. It is the recognition of the 3 lakh strong Indo-Guyanese community and their contributions to the development of Guyana.

Friends,

I have great memories of visiting your wonderful country over two decades ago. At that time, I held no official position. I came to Guyana as a traveller, full of curiosity. Now, I have returned to this land of many rivers as the Prime Minister of India. A lot of things have changed between then and now. But the love and affection of my Guyanese brothers and sisters remains the same! My experience has reaffirmed - you can take an Indian out of India, but you cannot take India out of an Indian.

Friends,

Today, I visited the India Arrival Monument. It brings to life, the long and difficult journey of your ancestors nearly two centuries ago. They came from different parts of India. They brought with them different cultures, languages and traditions. Over time, they made this new land their home. Today, these languages, stories and traditions are part of the rich culture of Guyana.

I salute the spirit of the Indo-Guyanese community. You fought for freedom and democracy. You have worked to make Guyana one of the fastest growing economies. From humble beginnings you have risen to the top. Shri Cheddi Jagan used to say: "It matters not what a person is born, but who they choose to be.”He also lived these words. The son of a family of labourers, he went on to become a leader of global stature.

President Irfan Ali, Vice President Bharrat Jagdeo, former President Donald Ramotar, they are all Ambassadors of the Indo Guyanese community. Joseph Ruhomon, one of the earliest Indo-Guyanese intellectuals, Ramcharitar Lalla, one of the first Indo-Guyanese poets, Shana Yardan, the renowned woman poet, Many such Indo-Guyanese made an impact on academics and arts, music and medicine.

Friends,

Our commonalities provide a strong foundation to our friendship. Three things, in particular, connect India and Guyana deeply. Culture, cuisine and cricket! Just a couple of weeks ago, I am sure you all celebrated Diwali. And in a few months, when India celebrates Holi, Guyana will celebrate Phagwa.

This year, the Diwali was special as Ram Lalla returned to Ayodhya after 500 years. People in India remember that the holy water and shilas from Guyana were also sent to build the Ram Mandir in Ayodhya. Despite being oceans apart, your cultural connection with Mother India is strong.

I could feel this when I visited the Arya Samaj Monument and Saraswati Vidya Niketan School earlier today. Both India and Guyana are proud of our rich and diverse culture. We see diversity as something to be celebrated, not just accommodated. Our countries are showing how cultural diversity is our strength.

Friends,

Wherever people of India go, they take one important thing along with them. The food! The Indo-Guyanese community also has a unique food tradition which has both Indian and Guyanese elements. I am aware that Dhal Puri is popular here! The seven-curry meal that I had at President Ali’s home was delicious. It will remain a fond memory for me.

Friends,

The love for cricket also binds our nations strongly. It is not just a sport. It is a way of life, deeply embedded in our national identity. The Providence National Cricket Stadium in Guyana stands as a symbol of our friendship.

Kanhai, Kalicharan, Chanderpaul are all well-known names in India. Clive Lloyd and his team have been a favourite of many generations. Young players from this region also have a huge fan base in India. Some of these great cricketers are here with us today. Many of our cricket fans enjoyed the T-20 World Cup that you hosted this year.

Your cheers for the ‘Team in Blue’ at their match in Guyana could be heard even back home in India!

Friends,

This morning, I had the honour of addressing the Guyanese Parliament. Coming from the Mother of Democracy, I felt the spiritual connect with one of the most vibrant democracies in the Caribbean region. We have a shared history that binds us together. Common struggle against colonial rule, love for democratic values, And, respect for diversity.

We have a shared future that we want to create. Aspirations for growth and development, Commitment towards economy and ecology, And, belief in a just and inclusive world order.

Friends,

I know the people of Guyana are well-wishers of India. You would be closely watching the progress being made in India. India’s journey over the past decade has been one of scale, speed and sustainability.

In just 10 years, India has grown from the tenth largest economy to the fifth largest. And, soon, we will become the third-largest. Our youth have made us the third largest start-up ecosystem in the world. India is a global hub for e-commerce, AI, fintech, agriculture, technology and more.

We have reached Mars and the Moon. From highways to i-ways, airways to railways, we are building state of art infrastructure. We have a strong service sector. Now, we are also becoming stronger in manufacturing. India has become the second largest mobile manufacturer in the world.

Friends,

India’s growth has not only been inspirational but also inclusive. Our digital public infrastructure is empowering the poor. We opened over 500 million bank accounts for the people. We connected these bank accounts with digital identity and mobiles. Due to this, people receive assistance directly in their bank accounts. Ayushman Bharat is the world’s largest free health insurance scheme. It is benefiting over 500 million people.

We have built over 30 million homes for those in need. In just one decade, we have lifted 250 million people out of poverty. Even among the poor, our initiatives have benefited women the most. Millions of women are becoming grassroots entrepreneurs, generating jobs and opportunities.

Friends,

While all this massive growth was happening, we also focused on sustainability. In just a decade, our solar energy capacity grew 30-fold ! Can you imagine ?We have moved towards green mobility, with 20 percent ethanol blending in petrol.

At the international level too, we have played a central role in many initiatives to combat climate change. The International Solar Alliance, The Global Biofuels Alliance, The Coalition for Disaster Resilient Infrastructure, Many of these initiatives have a special focus on empowering the Global South.

We have also championed the International Big Cat Alliance. Guyana, with its majestic Jaguars, also stands to benefit from this.

Friends,

Last year, we had hosted President Irfaan Ali as the Chief Guest of the Pravasi Bhartiya Divas. We also received Prime Minister Mark Phillips and Vice President Bharrat Jagdeo in India. Together, we have worked to strengthen bilateral cooperation in many areas.

Today, we have agreed to widen the scope of our collaboration -from energy to enterprise,Ayurveda to agriculture, infrastructure to innovation, healthcare to human resources, anddata to development. Our partnership also holds significant value for the wider region. The second India-CARICOM summit held yesterday is testament to the same.

As members of the United Nations, we both believe in reformed multilateralism. As developing countries, we understand the power of the Global South. We seek strategic autonomy and support inclusive development. We prioritize sustainable development and climate justice. And, we continue to call for dialogue and diplomacy to address global crises.

Friends,

I always call our diaspora the Rashtradoots. An Ambassador is a Rajdoot, but for me you are all Rashtradoots. They are Ambassadors of Indian culture and values. It is said that no worldly pleasure can compare to the comfort of a mother’s lap.

You, the Indo-Guyanese community, are doubly blessed. You have Guyana as your motherland and Bharat Mata as your ancestral land. Today, when India is a land of opportunities, each one of you can play a bigger role in connecting our two countries.

Friends,

Bharat Ko Janiye Quiz has been launched. I call upon you to participate. Also encourage your friends from Guyana. It will be a good opportunity to understand India, its values, culture and diversity.

Friends,

Next year, from 13 January to 26 February, Maha Kumbh will be held at Prayagraj. I invite you to attend this gathering with families and friends. You can travel to Basti or Gonda, from where many of you came. You can also visit the Ram Temple at Ayodhya. There is another invite.

It is for the Pravasi Bharatiya Divas that will be held in Bhubaneshwar in January. If you come, you can also take the blessings of Mahaprabhu Jagannath in Puri. Now with so many events and invitations, I hope to see many of you in India soon. Once again, thank you all for the love and affection you have shown me.

Thank you.
Thank you very much.

And special thanks to my friend Ali. Thanks a lot.