For the last four and a half years, the Union Government has pursued the objective of good governance: PM Modi
The Bogibeel Bridge would greatly enhance "ease of living" in the Northeast: PM Modi
A strong and progressive Eastern India, is the key to a strong and progressive India: PM Modi

نئی دہلی، 25 دسمبر 2018،اسٹیج پر موجود پروفیسر جگدیش مکھی جی، وزیر اعلی بھائی سربانند سونووال جی، اروناچل پردیش کے وزیراعلی جناب پریما كھنڈو جی، بھائی ہیمنت وشو شرما جی، کابینہ کے میرے ساتھی بھائی راجن گوہائی جی، اسٹیج پر موجود دیگر سبھی معزز شخصیات اور میرے عزیز بھائیو اور بہنو!

اتنی بڑی تعداد میں آپ آشیرواد دینے کے لئے آئے، میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ آج نارتھ ایسٹ مشرقی بھارت کے لئے بہت تاریخی دن ہے۔ آپ سبھی کو ملک کے سب سے لمبے روڈ ریل برج کی بہت بہت مبارکباد۔

میں ابھی پل سے ہوکر ہی آپ درمیان پہنچا ہوں۔ دل بہت خوش ہے۔

ساتھیو! آج پوری دنیا کرسمس منا رہی ہے۔ آسام سمیت پورا شمال مشرق، پورے ملک کو کرسمس کی بھی بہت بہت نیک تمنائیں۔ساتھيو، میں آسامی معاشرے کے لئے وقف سوارگودیو ساؤلنگ سو-کا-فا کو سلام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہادری اور قربانی کی علامت لاست بورفوكان، بیر شلارائی، سوارگودیو سربانند سنگھ، بيراگنا ہاتی سادھنی، بودوسا، بیر راگھو موران، مانك رجا، ہاتی جائمتی، ہاتی رادھیکا سمیت تمام عظیم شخصیتوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

آزادی کی لڑائی سے لے کر ملک اور آسام کی تعمیرنو کے لئے متعدد لوگوں نے اہم تعاون دیا ہے۔ سیاست سے لے کر سماجی خدمات، علم، سائنس اور کھیل کود تک، آسام کو، ملک کو، ملک کو احساس تفاخر سے ہمکنار کرنے والی ہر شخصیت کو میرا عمل۔

میں آسام کی گلوکارہ پدم شری ديپالی بوس ٹھاکر جی کو بھی اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ان کے جانے سے اساميوں کے ملک و بیرون ملک کے بے شمار اضلاع تک لے جانے والی ایک آواز چلی گئی ہے۔

ساتھیو آج اچھی حکمرانی کے لئے وقف ملک کے سب سے عظیم شخصیات میں ایک ہم سبھی کے نیک دل اٹل بہاری واجپئی جی کا یوم پیدائش بھی ہے۔ اٹل جی کی جینتی کو آج ملک اچھی حکمرانی کے دن کے طور پر منا رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو سوشاسن کا مطلب عوامی سروکار ہے۔ عام کی زندگی کو بہتر بنانے کا طریقہ کار ہے۔ اپنے پرائے، تیرا-میرا اس سے اوپر اٹھ کر جب ملک کے معاشرے کے بہتر مستقبل کے لئے فیصلے لے لیے جاتے ہیں۔ زندگی کو آسان بنانے والے نظام اور وسائل کی تعمیر کی جاتی ہے، تب گڈ گورننس سوراج کی طرف بڑھتا ہے۔ جب سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے نصب العین کے اصول کے ساتھ کام ہوتا ہے۔ ملک کی متوازن ترقی پر زور رہتا ہے، تب گڈ گورننس سوراج کی طرف بڑھتا ہے۔

ساتھیو! یہی کوشش گزشتہ ساڑھے چار برسوں کے دوران مرکزی اور اب ریاستی حکومت کی رہی ہے۔ اروناچل پردیش کی حکومت تو لگاتار تو یہ کررہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کے مقدس دن کے سوشاسن کی ایک بڑی تاریخی علامت بوگی بیل ریل روڈ پُل کو قوم کے نام وقف کرنے کے گواہ ہم سبھی بنے ہیں۔یہ ملک کا سب سے لمبا ریل روڈ برج ہے۔ یہ ملک کا پہلا پوری طرح سے فولاد سے بنا پُل ہے۔ پانی سے 30 میٹر سے بھی زائد کی بلندی پر بنا یہ پُل ہماری انجینئرنگ اور تکنکی اہلیت کی بھی مثال ہے۔ ایک ساتھ گاڑیاں اور ریل کی رفتار اور وزن برداشت کرنے کی صلاحیت ملک کی عسکری قوت کو بھی کئی گنا مستحکم کرنے والی ہے۔

بھائیو اور بہنو، یہ صرف ایک پل نہیں ہے، بلکہ اس علاقے کے لاکھوں لوگوں کی زندگی کو جوڑنے والی لائف لائن ہے۔ اس سے آسام اور اروناچل کے درمیان فاصلے سمٹ گئے ہے۔ ايٹانگر سے ڈبروگڑھ کا ریل سفر اب قریب 700 کلو میٹر گھٹ کر 200 کلومیٹر سے بھی کم رہ گیا ہے۔ ریل سے جس سفر میں پہلے تقریبا 24 گھنٹے لگ جاتے تھے، اب وہی سفر صرف 5-6 گھنٹے کا رہ گیا۔ قریب 5 کلو میٹر کے اس پل سے آسام کے تنسكھيا اور اروناچل پردیش کے ناہر لاگو کے درمیان فاصلے ہی کم نہیں ہوئے ہیں۔ لوگوں کو کئی مشکلات سے بھی نجات ملی ہے۔ ان کی زندگی بھی آسان ہوئی ہے۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلے دھیماجی لکھیم پور اور اروناچل کے کئی اضلاع کے لوگوں کو کشتی کے ذریعہ سے برہمپتر کو پار کرنا پڑتا تھا۔ یا پھر سڑک یا ریل کے راستے قریب قریب پورے دن کا لمبا سفر کرنا پڑتا تھا۔ کئی ٹرینیں بدلنی پڑتی تھی۔ بھائیو بہنو آج جس ٹرین کو ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے۔ 14 کوچ کی یہ سیدھی ریل گاری اس پورے علاقے میں بے مثال تبدیلی لانے جا رہی ہے۔

جس خواب کو دیکھتے ہوئے پيڑھیاں گزر گئی، اب وہ خواب پورا ہوا۔ اب دہلی، ممبئی، کولکتہ، بیگلورو جانے کے لئے بھی یہاں کے لوگوں کو گوہاٹی سے ہوکر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حفظان صحٹ سہولتیں ہوں، پڑھائی لکھائی ہو، روزگار ہو، تجارت ہو کاروبار ہو، ڈبروگڑھ نارتھ ایسٹ کا ایک بہت بڑا مرکز ہے۔

یہاں آنا جانا لاکھوں لوگوں کی ضرورت ہے۔ خصوصی طور پر سنگین بیماری کی صورت میں دن بھر کا سفر کیسے زندگی پر بھاری پڑ جاتا تھا یہ آپ سب بخوبی جانتے ہیں۔

ساتھیو، ڈبروگڑھ میڈیکل کالج، اسپتال اور ڈبروگڑھ یونیورسٹی جیسی سہولیات اب نارتھ بینک میں آباد لوگوں کے لئے نوجوان ساتھیوں کے لئے منٹوں کے فاصلے پر یقینی بن گئی ہیں۔ اس بہت بڑی سہولت کے لئے آپ سب کو پورے نارتھ ایسٹ کے لوگوں کو، پورے ملک کے لوگوں کو پھر ایک بار بہت بہت مبارکباد۔

اس پل کی تعمیر سے وابستہ ان تمام انجینئر اور کارکن ساتھیوں کی بھی میں تعریف کرتا ہوں، جنهون نے دن رات ایک دن کر کے مشکل حالات میں اس پل کے لئے کام کیا ہے۔ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔

بھائیو، بہنو، آسام اور نارتھ ایست کے لئے یہ دوہری مبارکباد کا دن ہے، كیونکہ ملک کا سب سے بڑا روڈ پل اور ریلوے روڈ پل دونوں آسام کی زمین پر ہے۔ یہ میرا بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں چل رہی مرکزی حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کے بنیادی ڈھانچے کے ان دونوں اہم پروجیکٹ کو مکمل کرنے کا موقع ہمیں ہی ملا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں، ساديا میں، بھوپن ہزاریكا پل کو قوم کے نام وقف کرنے آیا تھا۔ تو آج بوگی بيل میں آپ سب کے درمیان ہوں۔ بھائیو اور بہنو، گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں برہمپتر پر بنا یہ تیسرا پل ہے۔ آزادی کے 60-70 سالوں میں برہمپتر پر تین پل بنے۔ 60-70 سال میں تین پل۔ اور گزشتہ ساڑھے چار سال میں بھی ہم نے تین پل اور بنائے ہیں۔

پانچ نئے پولو کی تعمیر کا عمل بھی جاری ہے۔ جب یہ سارے پل تیار ہو جائیں گے تو برہمپتر کے شمال اور جنوب کے کناروں کے درمیان کنکٹی وٹی تو مستحکم ہوگی ہی۔ غذائی صنعت اور کاروبار کو بھی نیا باب لکھا جائے گا۔

ساتھیو، یہی تو گڈ گورننس ہے۔ یہی تو سوراج کی طرف بڑھتے ہمارے قدم ہیں۔ آج ہم دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی کی یہی رفتار آسام کے ساتھ ساتھ پورے نارتھ ایسٹ کی تصویر بدلنے والی ہے۔

بھائیو اور بہنو، شاید آج یہاں پر کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو تب بھی یہاں آئے ہوں گےجب 16 سال پہلے اٹل جی یہاں پہنچے تھے۔ تب سے آج تک ایک پوری نسل بدل چکی ہے۔ آپ نے واقعی بہت لمبا انتظار کیا، صبر کیا ہے۔ ساتھیو آپ کی برسوں کی مانگ کے بعد اس پل سے وابستہ عمل دو دہائی پہلے شروع ہوا، لیکن سچائی یہی ہے کہ اس کی تعمیر اٹل جی کی کوششوں سے ہی شروع ہو پائی۔

لیکن یہ بدقسمتی ہری سال 2004 میں اٹل جی کی سرکار چلی گئی اور ان کے شروع کئے گئے تمام پروجیکٹس کی طرح ہی نارتھ ایسٹ کا یہ اہم پروجیکٹ بھی لٹک گیا ، اٹک گیا۔

بھائیو اور بہنو، آپ سبھی گواہ ہیں کہ 2014 کا کیسے یہاں پر صرف کچھ آدھے ادھورے ستونوں کے کچھ نہیں نظر آتا تھا۔حالت یہ تھی کہ جب 2014 میں ہماری حکومت آئی تو اس پل کا نصف کام، نصف سے بھی زیادہ نامکمل پڑا تھا، باقی پڑا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اٹل جی کی حکومت کو پھر موقع ملتا تو 2007-2008 تک اس پل کو قوم کے نام وقف کیا گیا ہوتا۔ لیکن جو اس کے بعد مرکز میں حکومت آئی اس نے آپ کی ضرورت پرتوجہ ہی نہیں دی۔

2014 میں حکومت بننے کے بعد هم نے اس پروجیكٹ کی راہ میں آ رہی ساری رکاوٹوں کو دور کیا اور رفتار عطا کی اور قریب 6 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے بنا بوگی بیل پل عوام کی خدمت کے لئے آج وقف ہے۔ اٹل جی کے یوم پیدائش پر ان کا ایک خواب پورا کرکے احسان مند قوم نے انہیں آج عمدہ ترین خراج عقیدت پیش کیا ۔

شمال مشرق کے متعدد افراد کو آج یہ تحفہ حاصل ہوتے دیکھ کر وہ جہاں بھی ہوں گے ان کی روح جہاں بھی ہوگی، وہ بہت خوش ہوں گے، یہ آپ کے چہرے پر جو خوشیاں دکھائی دے رہی ہیں اسے دیکھ کر اٹل جی کی روح زیادہ مسرور ہورہی ہوگی۔

ساتھیو، پہلے حکومت کی شناخت اگر اٹکے ہوئے پروجكٹ تھے تو ہماری حکومت کی شناخت نقل و حمل سے تبدیلی اور ملک کو حاصل آئندہ پیڑھی کے بنیادی ڈھانچے سے ہتے ۔12 لاکھ کروڑ روپے سےز یادہ کے ایسے سینکڑوں پراجیکٹ کو ہم نے تلاش کر نکالا ہے جو کئی برسوں سے رکے پڑے تھے،یا جن پر سست روی کام ہو رہا ہے تھا۔ اگر ان میں کام کی پرانی رفتار ہوتی تو اگلی دہائی بھی گزر جاتی۔ آج گڈ گورننس ڈے پر میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ لٹکانے، بھٹکانے والے اس پرانے طریقہ کار کو ہم نے پوری طرح سے بدل دیا ۔ اس کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کے شعبے کو نئی رفتار حاصل ہوئی ہے۔

گزشتہ سال ایسے ہی لٹکے ہوئے میزورم کے ڈویرل ہائیڈرو پاور پروجیکٹ جو اسی سال چند ماہ قبل سکم ایئرپورٹ کو قوم کے نام وقف بھی کیا جا چکا ہے۔ ایسی کئی سکیمیں مکمل ہو چکی ہیں، بقیہ پر بھی تیز رفتاری سے کام چل رہا ہے۔

ساتھیو، آج طے وقت پر، طے لاگت میں ہی پراجیکٹ مکمل کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اب وقت کی حد صرف کاغذ میں لکھنے کی بات بھر نہیں رہ گئی بلکہ سرکاری کام کاج کا طریقہ کار بن رہی ہے۔ میں آسام کی حکومت سونووال کی پوری ٹیم کو بھی مبارکباد دیتا ہوں کہ انهونے اس طریقہ کار اپنا لیا ہے۔

آسام میں متعدد ایسے پروجیكٹس جو برسوں سے ادھورے تھے، یا تو پورے ہو چکے ہیں یا پورے ہونے کی صورت میں ہے۔ 3 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی لاگت سے قریب 7 سو کلومیٹر کے قومی شاہراہوں کے پروجیکٹ ساڑھے چار سال میں پورے ہو چکے ہیں۔ قریب 6 ہزار کروڑ کے ایک درجن سے زیادہ قومی شاہراہ پروجیکٹوں پر کام تیز رفتاری سے چل رہا ہے۔ نئے ایئرپورٹ ٹرمینل ہوں، ریلوے لائنوں کی برق کاری اور ان کی توسیع کا کام ہو ، گوہاٹی ، تنسكھيا گیس پائپ لائن ہو، گوہاٹی میں ایمس ہو، دھیماجی میں بھارتی زرعی تحقیق ادارہ ہو، ایسے متعدد پراجیکٹوں پر یا تو کام مکمل ہو چکا ہے یا پھر جلد مکمل ہونے والا ہے۔ تیز انٹرنیٹ سروس یقینی بنانے والی بین الاقوامی آبدوز کیبل بھی تری پورہ پہنچ چکی ہے اور بہت جلد یہ آسام پہنچنے والی ہے۔ اس میں بھی ڈیجیٹل خدمات مضبوط ہوگی۔

ساتھیو، میرا واضح تصور یہ ہے کہ جب مشرقی بھارت بڑھے گا تو پورا بھارت بڑھے گا۔ جب مشرقی بھارت مضبوط ہوگا تو پورا بھارت مضبوط ہوگا۔ مشرقی بھارت کا اٹوٹ حصہ ہمارا نارتھ ایسٹ اور اس لئے بنیادی ڈھانچے کی توسیع آسام کے ساتھ ساتھ پورے نارتھ ایسٹ میں ہو رہی ہے۔ پورے نارتھ ایسٹ میں تقریبا 70 ہزار کروڑ روپے کے قریب ساڑھے پانچ ہزار کلومیٹر قومی شاہراہ بنانے پر کام چل رہاہے۔ ان میں سے تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر کی قومی شاہراہ پوری ہو چکی ہے۔ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ کی سڑکیں بین الاقوامی کنکٹی وتی ایکٹ ایسٹ پالیسی کو مدنظررکھتے ہوئے تیار کی جا رہی ہیں۔ جس میں سے تقریبا 800 كلوميٹرسڑكو پر کسی نہ کسی سطح پر کام جاری ہے۔ جہاں تک ریل کنکٹی وتی کی بات ہے تو آنے والے دو تین برسوں تک نارتھ-ایسٹ کی ریاستوں کے ہر دارالحکومت کو بڑی ریلوے لائن سے جوڑنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ قریب 47 ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے 15 نئی ریل لائنیں تیار ہو رہی ہے۔ تقریبا ایک ہزار کلومیٹر ریل لائنیں یعنی نارتھ ایسٹ کی تقریبا سبھی ریل لائنوں کو بڑی ریل لائنوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ پہلے نارتھ-ایسٹ میں ہر سال تقریبا 100 کلو میٹر ریل لائن بنتی تھی یا اس کی توسیع عمل میں آتی تھی، جبکہ گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں 350 کلو میٹر لائن ہر سال بنتی ہے یا پھر بڑی لائن میں تبدیل کی جا رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں 19 آبی راستوں یعنی دریائی راستوں پر کام چل رہا ہے یہاں آسام میں بھی برہمپتر اور بڑاگ دریاؤں کے توسط سے چٹگاؤ اور منگلا پورٹ تک اندرونی ملک آبی راستے بنائے جارہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو، انفرا اسٹرکچر کے علاوہ بھی ملک کے عام انسان کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لئے جو اسکیمیں مرکزی حکومت چلا رہی ہے ان کو آسام کی حکومت رفتار دے رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کو دوائی، جن جن کی سماعت آسام میں یقینی ہو رہی ہے۔ اجوولا اسکیم کے تحت قریب 24 ملین گیس کے كنكشن آسام کی غریب بہنوں کو دیئے جا چکے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آسام میں ساڑھے چار سال پہلے تک جہاں تقریبا 40 فیصد گھروں میں گیس سیلینڈر تھا وہیں آج یہ دائرہ دو گنا قریب 80 فیصد ہو چکا ہے۔ سوچھ ابھاین کے تحت قریب 32 لاکھ ٹوائلٹ آسام میں بن چکے ہیں۔ جس میں ساڑھے چار سال میں ہی سوچھتا کا دائرہ 38 فیصد سے 98 فیصد تک ہو چکا ہے۔ سوبھاگیہ یوجنا کے تحت گزشتہ ایک سال میں ہی آسام کے 12 لاکھ سے زیادہ کنبوں کو مفت بجلی كنكشن دیا گیا ہے۔ جس سے آسام میں برق کاری کا دائرہ تقریبا 50 فیصد سے بڑھ کر قریب 90 فیصد تک ہو چکا ہے۔ آپ اس صورتحال کو بھی یاد کریئے جب یہاں ٹی گارڈن میں کام کرنے والے بھائیو بہنو کے بینک اکاؤنٹ ہی نہیں تھے۔ بینک کا نام ،ان کا اتہ پتہ نہیں تھا۔ جن دھن یوجنا کے تحت 7 لاکھ كامگاربہنو بھائیو کے بینک اكاٹ كھلوائے گئے ہیں۔ اگر میں پورے آسام کی بات کروں تو ریاست میں تقریبا ڈیڑھ کروڑ جن دھن اکاؤنٹ ہماری حکومت نے ہی كھلوائے ہیں۔ یہ تمام اسکیمیں اور طریقہ کار آپ سبھی کے تعاون اور دعا سے کامیابی کی طرف آگے بڑھ رہی ہیں۔

ساتھیو، غریب کا، استحصال کا شکار ہونے والے کا ، محروم کا اگر سب سے زیادہ کوئی نقصان کرتا ہے تو وہ بدعنوانی ہے، متوسط طبقے کے کنبوں پر سب سے زیادہ بوجھ اگر کوئی ڈالتا ہے تو وہ بدعنوانی ہے۔ ملک کی ترقی کے سفر کی کمر کو توڑ دیتا ہے تو وہ بدعوانی ہے۔ بدعنوانی غریب سے اس کا حق چھين لیتی ہے، مشکل بناتی ہے۔ لہذا گزشتہ چار ساڑھے چار سال سے ہماری حکومت جہاں ایک طرف غریب کو حق دلا رہی ہے، وہیں کالے دھن اور بدعنوانی کے خلاف پوری طاقت سے جنگ لڑ رہی ہے۔

بھائیو اور بہنو، ایک طرف ہماری حکومت وزیر اعظم کی آواس یوجنا کے تحت ایک کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ غریب لوگوں کو گھر دے چکی ہے، وہیں گمنام پراپرٹی قانون کے تحت بدعنوانوں کے پانچ ہزار کروڑ روپے کے بنگلے اور گاڑیوں کوضبط کیا جا چکا ہے ۔

ایک طرف ہماری حکومت نوجوانوں کو صرف ایک دن میں نئی کمپنی کے رجسٹر کی سہولت دے رہی ہے تو دوسری طرف بدعنوانی کی بہت بڑی جڑ مانی جانے والی سوا تین لاکھ سےزیادہ مشتبہ کمپنیوں کا منسوخ کرنے کا بھی ہم نے کام کیا ہے۔ ایک طرف ہماری حکومت نے خواتین کو، نوجوانوں کو خود روزگار کے لئے مدرا یوجنا کے تحت بغیر بینک گارنٹی سات لاکھ کروڑ روپے کا قرض دیا ہے، تو وہیں دوسری طرف پہلے کی حکومتوں نے بینکوں کے جو لاکھوں کروڑوں روپے پھنسائے تھے، اس میں سے تین لاکھ کروڑ روپے ہماری حکومت واپس لا چکی ہے۔ ایک طرف ہماری حکومت ايوشمان بھارت منصوبے کے تحت غریبوں کو پانچ لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت دے رہی ہے، تو وہیں دوسری طرف طبی شعبے میں بدعنوانی ختم کرنے کے لئے بھی سخت قدم اٹھا رہی ہے۔

ساتھیو، چار سال پہلے کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا سب سے بڑا رازدار بھارت کی جیلوں تک پہنچ جائے گا، یہ کسی نے سوچا نہیں تھا۔ لیکن اس رازدار کو ہندوستان لانے کا کام اور قانون کے حوالے کرنے کا کام بھی ہماری حکومت نے ہمت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ ہماری حکومت کے کام کرنے کا طریقہ ہے، ہمارےکام کرنے کا انداز ہے۔

بھائیو بہنو، جب نظام میں شفافیت آتی ہے، بدعنوانی ختم ہوتی ہے، سہولتیں ملتی ہیں، زندگی آسان بنتی ہے، تو اس کا اثر ہر شعبے میں دکھتا ہے۔ ہمارے کھیلوں میں بھی اس کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج آسام سمیت ملک کے دور دراز کے گاؤں، قصبوں اور چھوٹے شہروں سے عام کنبوں سے نکلے نوجوان ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ہیما داس جیسی ہماری متعدد بیٹیاں، متعدد نوجوان ساتھی نئے بھارت کی نئی خود اعتمادی کی علامت بن رہے ہیں۔

ساتھیو، ہم سبھی نظام کی تبدیلی،برتاؤ کی تبدیلی اور بہتر بنیادی ڈھانچے کے توسط سے ملک کو مضبوط، کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ آج ملک میں مستقبل کی ضروریات کے مطابق سڑکوں، سكولوں، شہروں، گاؤں، سنچائی اور بجلی کی اسیکموں پر تیز رفتاری سے کام چل رہا ہے۔ آنے والے سالوں میں جب یہ پورا نظام قائم ہوجائے گا تو نئے بھارت کی دل فریب تصویر بھی دنیا کے سامنے ہو گی۔

ساتھیو، اٹل جی نے اگر 21 ویں صدی کے آغاز میں ملک کی بنیاد کو مضبوط کیا، ہم اسی بنیاد پر ایک خوبصورت، نئے بھارت کی تعمیر کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھائیو اور بہنو آسام کے لوگوں نے ملک کے لوگوں نے ہمیں جو خدمت کاموقع دیا ہے، اسے ہماری حکومت پوری دیانتداری سے پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم رشتے ناتو کے لئے نہیں ملک اور معاشرے کے لئے کھپ رہے ہیں۔ مجھے پورایقین ہے کہ آپکی دعا سے ہم سب مل کر آئی اكھومی اور بھارت ماتا کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ ایک بار پھر آپ سبھی کو بوگی بيل پل جیسی شاندار سہولت کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ یہاں اتنی بڑی تعداد میں تشریف لائے، دعائیں دیں، اس کے لئے میں نے سر جھکا کر آپ کو سلام کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

دونوں ہاتھ اوپر میرے ساتھ پوری طاقت سے کہیے -

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

بھارت ماتا کی جے۔

بہت بہت شکریہ۔

Explore More
وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن

Popular Speeches

وزیراعظم نریندر مودی کا 78 ویں یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کا متن
PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII

Media Coverage

PLI, Make in India schemes attracting foreign investors to India: CII
NM on the go

Nm on the go

Always be the first to hear from the PM. Get the App Now!
...
Text of PM Modi's address at the Parliament of Guyana
November 21, 2024

Hon’ble Speaker, मंज़ूर नादिर जी,
Hon’ble Prime Minister,मार्क एंथनी फिलिप्स जी,
Hon’ble, वाइस प्रेसिडेंट भरत जगदेव जी,
Hon’ble Leader of the Opposition,
Hon’ble Ministers,
Members of the Parliament,
Hon’ble The चांसलर ऑफ द ज्यूडिशियरी,
अन्य महानुभाव,
देवियों और सज्जनों,

गयाना की इस ऐतिहासिक पार्लियामेंट में, आप सभी ने मुझे अपने बीच आने के लिए निमंत्रित किया, मैं आपका बहुत-बहुत आभारी हूं। कल ही गयाना ने मुझे अपना सर्वोच्च सम्मान दिया है। मैं इस सम्मान के लिए भी आप सभी का, गयाना के हर नागरिक का हृदय से आभार व्यक्त करता हूं। गयाना का हर नागरिक मेरे लिए ‘स्टार बाई’ है। यहां के सभी नागरिकों को धन्यवाद! ये सम्मान मैं भारत के प्रत्येक नागरिक को समर्पित करता हूं।

साथियों,

भारत और गयाना का नाता बहुत गहरा है। ये रिश्ता, मिट्टी का है, पसीने का है,परिश्रम का है करीब 180 साल पहले, किसी भारतीय का पहली बार गयाना की धरती पर कदम पड़ा था। उसके बाद दुख में,सुख में,कोई भी परिस्थिति हो, भारत और गयाना का रिश्ता, आत्मीयता से भरा रहा है। India Arrival Monument इसी आत्मीय जुड़ाव का प्रतीक है। अब से कुछ देर बाद, मैं वहां जाने वाला हूं,

साथियों,

आज मैं भारत के प्रधानमंत्री के रूप में आपके बीच हूं, लेकिन 24 साल पहले एक जिज्ञासु के रूप में मुझे इस खूबसूरत देश में आने का अवसर मिला था। आमतौर पर लोग ऐसे देशों में जाना पसंद करते हैं, जहां तामझाम हो, चकाचौंध हो। लेकिन मुझे गयाना की विरासत को, यहां के इतिहास को जानना था,समझना था, आज भी गयाना में कई लोग मिल जाएंगे, जिन्हें मुझसे हुई मुलाकातें याद होंगीं, मेरी तब की यात्रा से बहुत सी यादें जुड़ी हुई हैं, यहां क्रिकेट का पैशन, यहां का गीत-संगीत, और जो बात मैं कभी नहीं भूल सकता, वो है चटनी, चटनी भारत की हो या फिर गयाना की, वाकई कमाल की होती है,

साथियों,

बहुत कम ऐसा होता है, जब आप किसी दूसरे देश में जाएं,और वहां का इतिहास आपको अपने देश के इतिहास जैसा लगे,पिछले दो-ढाई सौ साल में भारत और गयाना ने एक जैसी गुलामी देखी, एक जैसा संघर्ष देखा, दोनों ही देशों में गुलामी से मुक्ति की एक जैसी ही छटपटाहट भी थी, आजादी की लड़ाई में यहां भी,औऱ वहां भी, कितने ही लोगों ने अपना जीवन समर्पित कर दिया, यहां गांधी जी के करीबी सी एफ एंड्रूज हों, ईस्ट इंडियन एसोसिएशन के अध्यक्ष जंग बहादुर सिंह हों, सभी ने गुलामी से मुक्ति की ये लड़ाई मिलकर लड़ी,आजादी पाई। औऱ आज हम दोनों ही देश,दुनिया में डेमोक्रेसी को मज़बूत कर रहे हैं। इसलिए आज गयाना की संसद में, मैं आप सभी का,140 करोड़ भारतवासियों की तरफ से अभिनंदन करता हूं, मैं गयाना संसद के हर प्रतिनिधि को बधाई देता हूं। गयाना में डेमोक्रेसी को मजबूत करने के लिए आपका हर प्रयास, दुनिया के विकास को मजबूत कर रहा है।

साथियों,

डेमोक्रेसी को मजबूत बनाने के प्रयासों के बीच, हमें आज वैश्विक परिस्थितियों पर भी लगातार नजर ऱखनी है। जब भारत और गयाना आजाद हुए थे, तो दुनिया के सामने अलग तरह की चुनौतियां थीं। आज 21वीं सदी की दुनिया के सामने, अलग तरह की चुनौतियां हैं।
दूसरे विश्व युद्ध के बाद बनी व्यवस्थाएं और संस्थाएं,ध्वस्त हो रही हैं, कोरोना के बाद जहां एक नए वर्ल्ड ऑर्डर की तरफ बढ़ना था, दुनिया दूसरी ही चीजों में उलझ गई, इन परिस्थितियों में,आज विश्व के सामने, आगे बढ़ने का सबसे मजबूत मंत्र है-"Democracy First- Humanity First” "Democracy First की भावना हमें सिखाती है कि सबको साथ लेकर चलो,सबको साथ लेकर सबके विकास में सहभागी बनो। Humanity First” की भावना हमारे निर्णयों की दिशा तय करती है, जब हम Humanity First को अपने निर्णयों का आधार बनाते हैं, तो नतीजे भी मानवता का हित करने वाले होते हैं।

साथियों,

हमारी डेमोक्रेटिक वैल्यूज इतनी मजबूत हैं कि विकास के रास्ते पर चलते हुए हर उतार-चढ़ाव में हमारा संबल बनती हैं। एक इंक्लूसिव सोसायटी के निर्माण में डेमोक्रेसी से बड़ा कोई माध्यम नहीं। नागरिकों का कोई भी मत-पंथ हो, उसका कोई भी बैकग्राउंड हो, डेमोक्रेसी हर नागरिक को उसके अधिकारों की रक्षा की,उसके उज्जवल भविष्य की गारंटी देती है। और हम दोनों देशों ने मिलकर दिखाया है कि डेमोक्रेसी सिर्फ एक कानून नहीं है,सिर्फ एक व्यवस्था नहीं है, हमने दिखाया है कि डेमोक्रेसी हमारे DNA में है, हमारे विजन में है, हमारे आचार-व्यवहार में है।

साथियों,

हमारी ह्यूमन सेंट्रिक अप्रोच,हमें सिखाती है कि हर देश,हर देश के नागरिक उतने ही अहम हैं, इसलिए, जब विश्व को एकजुट करने की बात आई, तब भारत ने अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान One Earth, One Family, One Future का मंत्र दिया। जब कोरोना का संकट आया, पूरी मानवता के सामने चुनौती आई, तब भारत ने One Earth, One Health का संदेश दिया। जब क्लाइमेट से जुड़े challenges में हर देश के प्रयासों को जोड़ना था, तब भारत ने वन वर्ल्ड, वन सन, वन ग्रिड का विजन रखा, जब दुनिया को प्राकृतिक आपदाओं से बचाने के लिए सामूहिक प्रयास जरूरी हुए, तब भारत ने CDRI यानि कोएलिशन फॉर डिज़ास्टर रज़ीलिएंट इंफ्रास्ट्रक्चर का initiative लिया। जब दुनिया में pro-planet people का एक बड़ा नेटवर्क तैयार करना था, तब भारत ने मिशन LiFE जैसा एक global movement शुरु किया,

साथियों,

"Democracy First- Humanity First” की इसी भावना पर चलते हुए, आज भारत विश्वबंधु के रूप में विश्व के प्रति अपना कर्तव्य निभा रहा है। दुनिया के किसी भी देश में कोई भी संकट हो, हमारा ईमानदार प्रयास होता है कि हम फर्स्ट रिस्पॉन्डर बनकर वहां पहुंचे। आपने कोरोना का वो दौर देखा है, जब हर देश अपने-अपने बचाव में ही जुटा था। तब भारत ने दुनिया के डेढ़ सौ से अधिक देशों के साथ दवाएं और वैक्सीन्स शेयर कीं। मुझे संतोष है कि भारत, उस मुश्किल दौर में गयाना की जनता को भी मदद पहुंचा सका। दुनिया में जहां-जहां युद्ध की स्थिति आई,भारत राहत और बचाव के लिए आगे आया। श्रीलंका हो, मालदीव हो, जिन भी देशों में संकट आया, भारत ने आगे बढ़कर बिना स्वार्थ के मदद की, नेपाल से लेकर तुर्की और सीरिया तक, जहां-जहां भूकंप आए, भारत सबसे पहले पहुंचा है। यही तो हमारे संस्कार हैं, हम कभी भी स्वार्थ के साथ आगे नहीं बढ़े, हम कभी भी विस्तारवाद की भावना से आगे नहीं बढ़े। हम Resources पर कब्जे की, Resources को हड़पने की भावना से हमेशा दूर रहे हैं। मैं मानता हूं,स्पेस हो,Sea हो, ये यूनीवर्सल कन्फ्लिक्ट के नहीं बल्कि यूनिवर्सल को-ऑपरेशन के विषय होने चाहिए। दुनिया के लिए भी ये समय,Conflict का नहीं है, ये समय, Conflict पैदा करने वाली Conditions को पहचानने और उनको दूर करने का है। आज टेरेरिज्म, ड्रग्स, सायबर क्राइम, ऐसी कितनी ही चुनौतियां हैं, जिनसे मुकाबला करके ही हम अपनी आने वाली पीढ़ियों का भविष्य संवार पाएंगे। और ये तभी संभव है, जब हम Democracy First- Humanity First को सेंटर स्टेज देंगे।

साथियों,

भारत ने हमेशा principles के आधार पर, trust और transparency के आधार पर ही अपनी बात की है। एक भी देश, एक भी रीजन पीछे रह गया, तो हमारे global goals कभी हासिल नहीं हो पाएंगे। तभी भारत कहता है – Every Nation Matters ! इसलिए भारत, आयलैंड नेशन्स को Small Island Nations नहीं बल्कि Large ओशिन कंट्रीज़ मानता है। इसी भाव के तहत हमने इंडियन ओशन से जुड़े आयलैंड देशों के लिए सागर Platform बनाया। हमने पैसिफिक ओशन के देशों को जोड़ने के लिए भी विशेष फोरम बनाया है। इसी नेक नीयत से भारत ने जी-20 की प्रेसिडेंसी के दौरान अफ्रीकन यूनियन को जी-20 में शामिल कराकर अपना कर्तव्य निभाया।

साथियों,

आज भारत, हर तरह से वैश्विक विकास के पक्ष में खड़ा है,शांति के पक्ष में खड़ा है, इसी भावना के साथ आज भारत, ग्लोबल साउथ की भी आवाज बना है। भारत का मत है कि ग्लोबल साउथ ने अतीत में बहुत कुछ भुगता है। हमने अतीत में अपने स्वभाव औऱ संस्कारों के मुताबिक प्रकृति को सुरक्षित रखते हुए प्रगति की। लेकिन कई देशों ने Environment को नुकसान पहुंचाते हुए अपना विकास किया। आज क्लाइमेट चेंज की सबसे बड़ी कीमत, ग्लोबल साउथ के देशों को चुकानी पड़ रही है। इस असंतुलन से दुनिया को निकालना बहुत आवश्यक है।

साथियों,

भारत हो, गयाना हो, हमारी भी विकास की आकांक्षाएं हैं, हमारे सामने अपने लोगों के लिए बेहतर जीवन देने के सपने हैं। इसके लिए ग्लोबल साउथ की एकजुट आवाज़ बहुत ज़रूरी है। ये समय ग्लोबल साउथ के देशों की Awakening का समय है। ये समय हमें एक Opportunity दे रहा है कि हम एक साथ मिलकर एक नया ग्लोबल ऑर्डर बनाएं। और मैं इसमें गयाना की,आप सभी जनप्रतिनिधियों की भी बड़ी भूमिका देख रहा हूं।

साथियों,

यहां अनेक women members मौजूद हैं। दुनिया के फ्यूचर को, फ्यूचर ग्रोथ को, प्रभावित करने वाला एक बहुत बड़ा फैक्टर दुनिया की आधी आबादी है। बीती सदियों में महिलाओं को Global growth में कंट्रीब्यूट करने का पूरा मौका नहीं मिल पाया। इसके कई कारण रहे हैं। ये किसी एक देश की नहीं,सिर्फ ग्लोबल साउथ की नहीं,बल्कि ये पूरी दुनिया की कहानी है।
लेकिन 21st सेंचुरी में, global prosperity सुनिश्चित करने में महिलाओं की बहुत बड़ी भूमिका होने वाली है। इसलिए, अपनी G-20 प्रेसीडेंसी के दौरान, भारत ने Women Led Development को एक बड़ा एजेंडा बनाया था।

साथियों,

भारत में हमने हर सेक्टर में, हर स्तर पर, लीडरशिप की भूमिका देने का एक बड़ा अभियान चलाया है। भारत में हर सेक्टर में आज महिलाएं आगे आ रही हैं। पूरी दुनिया में जितने पायलट्स हैं, उनमें से सिर्फ 5 परसेंट महिलाएं हैं। जबकि भारत में जितने पायलट्स हैं, उनमें से 15 परसेंट महिलाएं हैं। भारत में बड़ी संख्या में फाइटर पायलट्स महिलाएं हैं। दुनिया के विकसित देशों में भी साइंस, टेक्नॉलॉजी, इंजीनियरिंग, मैथ्स यानि STEM graduates में 30-35 परसेंट ही women हैं। भारत में ये संख्या फोर्टी परसेंट से भी ऊपर पहुंच चुकी है। आज भारत के बड़े-बड़े स्पेस मिशन की कमान महिला वैज्ञानिक संभाल रही हैं। आपको ये जानकर भी खुशी होगी कि भारत ने अपनी पार्लियामेंट में महिलाओं को रिजर्वेशन देने का भी कानून पास किया है। आज भारत में डेमोक्रेटिक गवर्नेंस के अलग-अलग लेवल्स पर महिलाओं का प्रतिनिधित्व है। हमारे यहां लोकल लेवल पर पंचायती राज है, लोकल बॉड़ीज़ हैं। हमारे पंचायती राज सिस्टम में 14 लाख से ज्यादा यानि One point four five मिलियन Elected Representatives, महिलाएं हैं। आप कल्पना कर सकते हैं, गयाना की कुल आबादी से भी करीब-करीब दोगुनी आबादी में हमारे यहां महिलाएं लोकल गवर्नेंट को री-प्रजेंट कर रही हैं।

साथियों,

गयाना Latin America के विशाल महाद्वीप का Gateway है। आप भारत और इस विशाल महाद्वीप के बीच अवसरों और संभावनाओं का एक ब्रिज बन सकते हैं। हम एक साथ मिलकर, भारत और Caricom की Partnership को और बेहतर बना सकते हैं। कल ही गयाना में India-Caricom Summit का आयोजन हुआ है। हमने अपनी साझेदारी के हर पहलू को और मजबूत करने का फैसला लिया है।

साथियों,

गयाना के विकास के लिए भी भारत हर संभव सहयोग दे रहा है। यहां के इंफ्रास्ट्रक्चर में निवेश हो, यहां की कैपेसिटी बिल्डिंग में निवेश हो भारत और गयाना मिलकर काम कर रहे हैं। भारत द्वारा दी गई ferry हो, एयरक्राफ्ट हों, ये आज गयाना के बहुत काम आ रहे हैं। रीन्युएबल एनर्जी के सेक्टर में, सोलर पावर के क्षेत्र में भी भारत बड़ी मदद कर रहा है। आपने t-20 क्रिकेट वर्ल्ड कप का शानदार आयोजन किया है। भारत को खुशी है कि स्टेडियम के निर्माण में हम भी सहयोग दे पाए।

साथियों,

डवलपमेंट से जुड़ी हमारी ये पार्टनरशिप अब नए दौर में प्रवेश कर रही है। भारत की Energy डिमांड तेज़ी से बढ़ रही हैं, और भारत अपने Sources को Diversify भी कर रहा है। इसमें गयाना को हम एक महत्वपूर्ण Energy Source के रूप में देख रहे हैं। हमारे Businesses, गयाना में और अधिक Invest करें, इसके लिए भी हम निरंतर प्रयास कर रहे हैं।

साथियों,

आप सभी ये भी जानते हैं, भारत के पास एक बहुत बड़ी Youth Capital है। भारत में Quality Education और Skill Development Ecosystem है। भारत को, गयाना के ज्यादा से ज्यादा Students को Host करने में खुशी होगी। मैं आज गयाना की संसद के माध्यम से,गयाना के युवाओं को, भारतीय इनोवेटर्स और वैज्ञानिकों के साथ मिलकर काम करने के लिए भी आमंत्रित करता हूँ। Collaborate Globally And Act Locally, हम अपने युवाओं को इसके लिए Inspire कर सकते हैं। हम Creative Collaboration के जरिए Global Challenges के Solutions ढूंढ सकते हैं।

साथियों,

गयाना के महान सपूत श्री छेदी जगन ने कहा था, हमें अतीत से सबक लेते हुए अपना वर्तमान सुधारना होगा और भविष्य की मजबूत नींव तैयार करनी होगी। हम दोनों देशों का साझा अतीत, हमारे सबक,हमारा वर्तमान, हमें जरूर उज्जवल भविष्य की तरफ ले जाएंगे। इन्हीं शब्दों के साथ मैं अपनी बात समाप्त करता हूं, मैं आप सभी को भारत आने के लिए भी निमंत्रित करूंगा, मुझे गयाना के ज्यादा से ज्यादा जनप्रतिनिधियों का भारत में स्वागत करते हुए खुशी होगी। मैं एक बार फिर गयाना की संसद का, आप सभी जनप्रतिनिधियों का, बहुत-बहुत आभार, बहुत बहुत धन्यवाद।